‘’کیا تم میری آواز سن سکتی ہو؟’‘
‘’ہاں، مگر یہ تم کیوں پوچھ رہے ہو؟’‘
‘’تم اس قدرمیرے قریب ہوکہ بنا بتائے دل کا ہر بھید پا لیتی ہو؟‘‘
‘’ہاں ہاں آخر ہوا کیا ہے؟‘‘
‘’لگتا ہے میری آواز بے صوت ہو گئی ہے’‘
‘’بےصوت۔۔۔ اور آواز؟ یہ آج تم پہیلیاں کیوں بھجوا رہے ہو؟’‘
’’شاید میری آواز میں تاثیر نہیں رہی یا پھر لوگوں کی سماعتیں گم ہو چکی ہیں۔۔۔؟‘‘
وہ اس کی گفتگو سن کر تذبذب کے عالم میں خاموش رہی مگر اس کی آنکھوں سے حیرانی بدستور جھانکتی رہی۔
‘’میں پوچھتا ہوں میری آواز پر کسی کا متوجہ نہ ہونا آواز کی موت نہیں تو اور کیا ہے؟’‘
‘’یہ آج تمہیں کیا ہو گیا ہے، تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے ناں؟‘‘
’’ابھی تم اپنی آواز کے بے صوت ہو جانے کا ماتم کر رہے تھے کہ درمیان میں زمانہ ٹپک پڑا۔۔۔ آخر مسئلہ کیا ہے؟’‘
تم نے کبھی سنگلاخ اور بلند و بالا پہاڑوں کے درمیان کسی کو زرو سے پکارا ہے؟’‘
‘’ہاں! ممکن ہے خواب میں ایسا ہوا ہو مگر تم یہ سب کیوں پوچھ رہے ہو؟’‘
‘’یا کبھی کسی گہرے کنویں میں صدا دے کر دیکھو، دونوں صورتوں میں اپنی ہی آواز پلٹ کر لگتی ہے جواب کوئی نہیں آتا۔۔۔’‘
’’میری صدا کوئی نہیں سنتا، میری بات کوئی نہیں سمجھتا اپنی ہی آواز کی باز گشت کانوں کو چھیدتی رہتی ہے۔۔۔ یہ بھلا آواز کی موت نہیں تو اور کیا ہے؟’‘
بیرا چائے کا آرڈر لے کر چلا گیا۔
‘’مجھے یقین ہو چلا ہے کہ میری آواز مر چکی ہے اور اب میں ہونے اور نہ ہونے کے درمیان میں لٹک کر رہ گیا ہوں۔۔۔’‘
’’شاید تمہیں وہم ہو گیا ہے، تم اپنی آواز سمیت زندہ و سلامت میرے سامنے ہو، چلو پریشان ہونا چھوڑو۔۔۔ کوئی اور بات کرو۔‘‘
’’آواز بہت بڑی نعمت ہے اس کے بغیر انسان بالکل ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم، بالکل بے وقعت اور بے قیمت، جسے گل سٹر جانے کے ڈر سے جلدی جلدی مٹی کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔۔۔’‘
بیرا میز پر چائے رکھ کر چلا گیا تھا۔۔۔
’’دیکھو تم یونہی دل چھوٹا کر رہے ہو، تمہاری ایک سماجی حیثیت ہے گھر اور دفتر میں تمہیں مرکزیت حاصل ہے اور تمہیں کیا چاہیے؟‘‘
اس نے چائے کا گھونٹ لے کر سگریٹ کا لمبا کش لگایا اور دھوئیں سے سوچوں کے دائرے بنانے لگا۔
‘’اچھا فرض کیا اگر کوئی دوسرا تمہاری آواز پر کان نہیں دھرتا تو کیا ہوا، میں جو ہوں، تمہاری ہر بات سننے والی، پھر تمہیں کس بات کی فکر ہے؟‘‘
‘’تم بھی تو میری طرح گونگی اور بےزبان ہو، تمہاری آواز بھی کون سا وزن رکھتی ہے، گھر میں تمہاری پسند نا پسند کو جس قدر اہمیت حاصل ہے وہ میرے سامنے ہے‘‘ وہ خاموشی سے سگریٹ لائٹر کو میز پر گھمائے جا رہی تھی۔
‘’تمہیں بھی تو تمہاری مرضی کے خلاف ڈالروں سے منسوب کر دیا گیا ہے،فرحان امریکہ سے آئے گا تو تمہیں اس کے حوالے کر دیا جائے گا، جیسے شادی نہ ہوئی سودے بازی ہو گئی۔ یہ بھلا تمہاری آواز کی موت نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘
‘’تم جانتے ہو کہ ایک مشرقی لڑکی کیلئے روایات سے بغاوت والدین کے عزت و وقار کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولی۔
‘’دور حاضر کی عورت مرد کے شانہ بشانہ چلنا چاہتی ہے مگر ہماری فرسودہ روایات اور سماجی استحصالی رویوں نے عورت کو آکٹوپس کی مانند جکڑ کر اس کی آواز کا گلا دبا دیا ہے اور وہ بے بسی کا لبادہ اوڑھ کر بزدل ہوگئی ہے‘‘ وہ فلسفیانہ انداز میں بولا۔
‘’شاید تم مجھے طعنہ دے رہے ہو، میں بزدل ہرگز نہیں لیکن اگر والدین کے عزت و وقار کی حفاظت بزدلی ہے تو پھر ہوتی رہے۔۔۔‘‘ اس کے لہجے میں ناراضی کا عنصر نمایاں ہو گیا۔
’’دیکھو! آواز وہی موثر ہے جو حق تلفی پر احتجاج کر سکے ورنہ بڑی آوازیں اسے دبوچ کر گلا گھونٹ دیتی ہیں۔‘‘ وہ ایش ٹرے میں سگریٹ مسلتے ہوئے بولا۔
‘’ممکن ہے تمہارا فلسفہ اپنی جگہ درست ہو، تاہم میں سمجھتی ہوں اگر میری محبت سچی ہے تو فرحان اور اس کی دولت میرا راستہ نہیں روک سکتے، میری آواز تمہاری آواز میں ضرور شامل ہوگی‘‘ اس کے لہجے میں استقامت تھی۔
‘’یہ محض خود فریبی ہے، زندگی کو حقیقت کی نظر سے دیکھو، جہاں انسان کو مال و زر میں تولا جا رہا ہو، اس کی بڑی بڑی بولیاں لگ رہی ہوں، وہاں اپنے آپ کو محض قسمت کے رحم و کرم پر کیسے چھوڑا جا سکتا ہے؟‘‘
‘’تم دل چھوٹا نہ کرو، میری آواز ہمیشہ تمہاری آواز میں شامل رہےگی’‘ وہ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بولی۔
‘’المیہ تو یہ ہے کہ دو غیر موثر آوازیں بھی مل کر کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔۔۔ جیسے اس ریسٹورنٹ میں بیٹھے بے شمار لوگوں کی آپس میں گڈمڈ ہوتی ہوئی آوازیں بے ہنگم شور کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔۔’‘
’’ہاں لیکن یہ شور انسان کے ہونے کا ثبوت تو ہے۔۔۔’‘ اس نے دلیل ڈھونڈنے کی کوشش کی۔
‘’آہ۔۔۔ اس بے وقعت جوانی سے تو میرا بچپن ہی اچھا تھا، جب میرے رونے کو بھی بڑی اہمیت حاصل تھی۔ ذرا سی تکلیف پر ماں صدقے واری جاتی تھی، گھر بھر میرے لیے پریشان ہو جایا کرتا تھا۔۔۔‘‘ اس نے بحث کے لیے ایک نئی راہ ڈھونڈ لی۔
‘’لیکن جب سے میں نے رونا چھوڑ کر بولنا شروع کیا ہے۔ مجھ سے گویا ہمدرد اور شفیق آوازیں روٹھ گئی ہیں، جنہیں اب سننے کو کان ترس گئے ہیں۔۔۔’‘ بچپن یاد کر کے اس کی اداسی سوا ہو گئی۔
‘’تم یونہی پریشان ہو رہے ہو، میرے نزدیک تمہاری آواز اب بھی زندہ و سلامت ہے، تمہاری طرح چہکتی اور کھنکتی ہے اور جب اس میں میری آواز شامل ہوتی ہے تو سننے والے خود بخود متوجہ ہونے لگتے ہیں۔ ذرا دیکھو تو ہمارے اردگرد میزوں پر بیٹھے لوگ کیسے کنکھیوں سے بار بار ہمیں دیکھ رہے ہیں۔’‘ وہ چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی۔
‘’میں تمہاری طفل تسلیوں میں نہیں آنے کا، آخر تم مان کیوں نہیں لیتیں کہ میری آواز بانجھ ہو چکی ہے؟‘‘ وہ اس کی طرف قدرے جھک کر بولا۔
صاحب جی ! اور کچھ لاؤں۔۔۔؟‘‘ بیرے نے مداخلت کی۔
‘’کچھ نہیں یار۔۔۔ بل لے آؤ’‘ اس کے لہجے میں کڑواہٹ یوں نمایاں تھی جیسے بل نہیں۔۔۔ زہر منگوا رہا ہو۔۔۔
‘’اور تو اور۔۔۔ نجانے گھر والوں کو کیا ہو گیا ہے، کوئی میری بات دھیان سے سنتا ہی نہیں۔۔۔’‘
‘’میرے خیال میں اب ہمیں چلنا چاہیے، بہت دیر ہو چکی ہے، تمہیں شاید معلوم نہیں میں ناہید کے گھر کا بہانہ کر کے آئی ہوں اگر امی نے فون کر لیا تو خواہ مخواہ بدگمانی ہوگی۔‘‘ اس نے خدشہ ظاہر کیا۔
‘’تم نے عجائب گھر کے شو کیس میں رکھی وہ قد آدم مورتی تو دیکھی ہو گی جو شاید پلکیں جھپکنا بھول گئی ہے۔۔۔ اسے دیکھ کر مجھے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کبھی وہ بھی اپنی کھنکتی آواز کے ساتھ زندہ تھی۔ صناعی قدرت کا حسین نمونہ لیکن عہد رفتہ کے شہنشاہوں نے آواز سمیت سب کچھ چھین کر اسے پتھر کی بےجان مورتی میں ڈھال لیا ہو۔ بالکل ویسے ہی جیسے کبھی انار کلی کو دیوار میں چنوا دیا گیا تھا۔۔۔’‘ بیرا بل لے آیا، بیرے سے فارغ ہو کر جب وہ اس کی جانب متوجہ ہوا تو وہ بدستور خاموش تھی، بالکل پتھرکی بے جان مورتی کی طرح۔
‘’شاید بولنے والے لوگ ہر دور میں ناپسندیدہ رہے ہیں کیونکہ بولنے والے کے الفاظ تیر و نشتر سے بڑھ کر گہرا گھاؤ لگاتے ہیں۔۔۔ اور آج کل تو مختلف نظریات رکھنے والوں کے درمیان مناظرے میں جیتنے کے لیے نظریے کا درست ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ اب اس کے لیے زبان کی تیزی، لفظوں کی کاٹ اور آواز کا پاٹ دار ہونا اشد ضروری ہے۔۔۔ آواز جس سے میں محروم ہوں’‘ اس نے تاسف سے کہا۔
’’کیا تم اپنی گفتگو کا موضوع بدل نہیں سکتے؟ اب اگر تم نے مزید بور کیا تو میں اٹھ کر چلی جاؤں گی’‘ وہ زچ ہو کر بولی۔
‘’خدا کے لیے تم میرا مسئلہ سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس صورت حال میں میرا دم گھٹ کر رہ گیاہے۔ میں کتنا بدقسمت ہوں۔ فون پر بھی کسی سے بات نہیں کر سکتا۔۔۔ ہیلو ہیلو پکارتا رہتا ہوں لیکن دوسری جانب سے ’’آواز نہیں آ رہی’‘ کہہ کر فون بند کر دیا جاتا ہے۔۔۔ یہ بھلا میری آواز کی موت نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ وہ روہانسا ہو کر بولا۔
اب اس کے پاس کوئی دلیل باقی نہ بچی تھی جس سے وہ اسے قائل کر سکتی اس لیے خاموش رہی۔
‘’کبھی کبھی تو میں اپنے آپ کو سپر پاورز کے نرغے میں گھرے ان چھوٹے ملکوں کی طرح بے بس محسوس کرتاہوں۔ جن کی پالیسیاں، نظریے اور آزادیاں۔۔۔ قرضوں اور جدید اسلحہ حاصل کرنے کے معاہدوں کے عوض گروی رکھی ہوں اور ان کی زبانیں کاٹ لی گئی ہوں۔۔۔‘‘
‘’ارے۔۔۔ یہ تم اپنی آواز کے بےآواز ہو جانے کا گریہ کرتے کرتے بیچ میں بین الاقوامی سیاست بھی لے آئے۔۔۔ خدا کے لیے کوئی اور بات کرو میرا سر چکرانے لگا ہے۔۔۔’‘
‘’اور تو اور جس دفتر میں گزشتہ دس سال سے جھک مار رہا ہوں، وہاں بھی عجب صورتحال کا سامنا ہے۔۔۔’‘ وہ سنی ان سنی کر کے بولا۔
‘’دفتر میں کیا ہوا؟’‘
‘’ابھی پرسوں ہی کی بات ہے ایم ڈی نے غصے سے بلایا اور ایک فائل میری طرف اچھالتے ہوئے کہا‘’ یہ کیا نوٹ لکھ لائے ہو؟ جانتے ہو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ ‘’مگر اصل بات تو یہی ہے سر!’‘ میں نے وضاحت کی۔ یہ سن کر وہ مجھ پر برس پڑے اور میں جو کچھ کہنا چاہتا تھا ’’وہ میرے اندر ہی دب کر رہ گیا۔۔۔‘‘
‘’دیکھو، ایم ڈی تمہیں اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کرنا چاہتا ہو گا‘‘ وہ بولی۔
‘’نہیں، تم نہیں جانتیں، وہ دراصل میری آواز کچلنا چاہتا تھا، ماتحت ہونے کے باوجود اصل حقیقت کو ریکارڈ پر لانا میرے فرائض میں شامل ہے لیکن میری آواز کو ان کی گرجدار آواز نے دبوچ لیا تھا۔۔۔ اگر مجھے بولنے اور اپنی بات کہنے کا حق نہیں تو پھر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ مجھے اپاہج آواز کیوں دی گئی ہے، اس سے محروم ہی کیوں نہیں رکھا گیا؟‘‘ وہ اس کے لہجے میں گھلا زہر محسوس کر رہی تھی۔
’’عصر حاضر میں آواز انسان کے پاس انتہائی طاقتور ہتھیار ہے۔’‘
‘’آواز کا یہ ہتھیار تمہارے پاس بھی تو ہے، جسے تم کافی دیر سے استعمال کر رہے ہو’‘ اس نے ماحول میں پھیلے تکدر میں مزاح پیدا کرنے کی کوشش کی۔
’’ہاں آواز کا یہ ہتھیار میرے پاس ہے تو سہی مگر کند ہے، جو ضرب تو لگا سکتا ہے مگر کاٹ نہیں سکتا۔۔۔’‘ اس نے پھر دلیل کا سہارا لیا۔
میں تو کہتی ہوں تم خواہ مخواہ ہلکان ہو رہے ہو۔ معلوم ہوتا ہے جیسے تمہیں وہم ہو گیا ہے اگر تم سمجھتے ہو کہ تمہاری آواز غیر موثر ہو گئی ہے تو پھر تمہیں لکھنے کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے۔۔۔ ارے ہاں یاد آیا، تمہاری کتاب کا کیا بنا؟ وہ جیسے گفتگو کا موضوع بدلنا چاہتی ہو۔
‘’بھاڑ میں گئی کتاب۔۔۔ لکھتے لکھتے آواز کی طرح میری انگلیاں تک شل ہو چکی ہیں۔۔۔ اور پھر لکھنے کا فائدہ ہی کیا ہے؟ بھلا یہ بے جان لفظ کسی کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔ اندھے، گونگے اور بہرے لفظ کتابوں میں پڑے پڑے بوڑھے ہو جاتے ہیں اور بالآخر مر جاتے ہیں۔۔۔ گرجدار آواز کے بغیر مردہ الفاظ کی بھلا کیا حیثیت۔۔۔ وہ تو ترکش میں پڑے ان تیروں کی طرح ہیں جو کمان کے بغیر چل ہی نہیں سکتے’‘ اس نے پھر منطق کا سہارا لیا۔
‘’افوہ۔۔۔ تم یہ ہر بار گفتگو کو اپنی آواز کے بےآواز ہونے پر واپس کیوں کھینچ لاتے ہو؟‘‘ وہ ناراض ہوکر بولی۔
‘’تو کیا تم آواز کی اہمیت سے انکار کر سکتی ہو۔۔۔؟‘‘ وہ گفتگو کو بدستور جاری رکھتے ہوئے بولا۔
‘’نہیں۔۔۔ قطعی نہیں’‘ وہ بڑاعتماد ے سے کہہ رہی تھی۔
’’تو پھر۔۔۔؟‘‘
پھر اس نے سر اٹھایا تو شیش محل ریسٹورنٹ کی میز پر وہ تنہااپنے مقابل بیٹھا تھا۔ جانے وہ کب اس کی نہ ختم ہونے والی گفتگو سے اکتا کر چلی گئی تھی۔۔۔ یا پھر پتہ نہیں وہ تھی بھی کہ نہیں؟ البتہ بیرا ہر روز کی طرح اس کے سامنے کھڑا کہہ رہا تھا۔۔۔
‘’صاحب! رات کے بارہ بجنے کو ہیں کیا آج گھر نہیں جائیں گے؟’‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.