Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آوارہ سایے

ناز قادری

آوارہ سایے

ناز قادری

MORE BYناز قادری

    دن بھر کا تھکا ماندہ بوڑھا آفتاب مغرب کی آغوش میں چھپ گیا ہے۔ اس کی سنہری دھوپ شام کے قرمزی رنگ میں مدغم ہو گئی ہے اور پھر سرمئی شام کے سایے گھنے ہو گئے ہیں اور آسمان پر تارے جگمگانے لگے ہیں۔

    نیم تاریک گلی میں چند آوارہ سایے منڈلا رہے ہیں۔

    وہ دہلیز کے قریب آکر کھڑی ہو گئی ہے۔ کمرے کی جگمگاتی روشنی اس کے حسن میں چار چاند لگا رہی ہے۔ اس کے ریشمیں سیاہ بالوں کی دو لمبی لمبی چوٹیاں ناگن بن کر شانے سے لٹک رہی ہیں اور جوان سینے پر کنول کے پھول کھل رہے ہیں۔ معاً اس کی نظریں دور گلی کے سرے پر میونسپلٹی کے زرد بلب پر اٹک گئی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کی نگاہوں کے سامنے ایک سراپا ابھر گیا ہے شیلا کا سراپا اس کا اپنا سراپا۔

    اور پھر گزرے ہوئے لمحات کے مہکتے سایے سرسرانے لگے ہیں۔ جب کسی نے پہلی بار اسے محبت پاش نگاہوں سے دیکھا تھا اور کسی کے پیار نے اس کے دل کو گدگدایا تھا۔ اسے سریش یاد آ گیا اور پھر چودھری جی کا بنگلہ جس کے سایے میں پل کر اس نے زندگی کی پندرہ سیڑھیاں طے کی تھیں اور جہاں وہ بچپن سے ہی دن دن بھر ایک مشین کی طرح کام کرتی تھی جس کے بدلے میں اسے روٹی کے چند ٹکڑوں اور کپڑوں کے ساتھ ساتھ اکثر جھڑپیں بھی ملا کرتی تھیں۔ صبح سے شام تک گھر کے چھوٹے بڑے کی لعنت پڑتی رہتی تھی۔

    شیلاؔ چودھری جی کے مالی کی بھتیجی تھی۔ اس کے باپ ماں بچپن ہی میں اسے تنہا چھوڑ کر اس دار فانی سے کوچ کر گئے تو چاچاجی نے اسے چودھری کے یہاں کام دلوا دیا۔ شروع ہی میں وہ گھر کے چھوٹے چھوٹے کام کر دیا کرتی تھی لیکن جب سیانی ہوئی تو برتن صاف کرنا، ترکاری بنانا، پیاز کاٹنا اور جھاڑو دینا بھی اس کے کام میں داخل ہو گیا۔ لیکن اس کے باوجود گھر کا ہر فرد اسے حقارت کی نظر سے دیکھتا تھا۔ کبھی کبھی وہ اپنی زندگی سے بیزار ہو جاتی تو اپنے چاچاجی سے شکایت کرتی مگر ادھر سے بھی جواب میں ڈانٹ سننی پڑتی اور وہ اپنی بےبسی وبے کسی پر آنسوؤں کے دو قطرے بہاکر خاموش ہو جاتی۔ اب اس کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی کہ وہ اس دنیا میں دکھ درد کا ہدف بن کر ہی آئی ہے۔ اس لیے وہ اکثر خوش رہنے کی کوشش کرتی۔ اگر اسے کسی کا پیار حاصل تھا تو وہ چودھری جی کی اکلوتی بیٹی پورنما تھی جو اسے عزیز رکھتی تھی۔ شیلا زیادہ تر اسی کا کام کیا کرتی تھی۔

    جب شیلا نے چودھویں سال میں قدم رکھا تو سریش سے ملاقات ہو گئی۔ سریش چودھری جی کے دوست کا لڑکا تھا جو ملازمت کے سلسلے میں یہاں آیا تھا اور چودھری جی کے گھر رہتا تھا۔ پورنما کے بعد سریش نے ہی پہلی بار پیار کی نظروں سے دیکھا تھا۔ سریش کی دل کش اور دل فریب باتوں نے جیسے اس پر سحر کر دیا تھا۔ اس نے اپنی میٹھی میٹھی باتوں سے اسے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ شیلا بہت جلد اس سے ملتفت ہو گئی۔ وہ اس کی آواز سحر طراز پر ایک عجیب سی مسرت محسوس کرتی اور غیرارادی طور پر مسلسل اس کی جانب کھنچتی چلی گئی۔ وہ سریش کی محبت پاکر کتنی خوش تھی! جیسے ساری کائنات کی دولت مل گئی ہو!! جب سریش اسے دیکھ کر مسکراتا تو اپنے رگ وپے میں سرور و انبساط کی لہر دوڑتی محسوس کرتی۔ وہ جدھر سے گزرتی سریش کی ننگی نگاہیں اس کا پیچھا کیے رہتیں۔

    سریش کو پاکر شیلا کو جیسے نئی زندگی مل گئی تھی۔ ایسی پربہار زندگی جہاں خزاں کا گزر کبھی نہیں ہو سکتا۔ رفتہ رفتہ وہ سریش کے ہر کام میں دل چسپی لینے لگی اور سریش بھی اپنا سارا کام شیلا ہی سے لیتا تھا۔ جھاڑو دینے سے لے کر جوتے صاف کرنے تک، سارا کام وہی کرتی۔وہ ساری کائنات کو بھلا کر رات دن سریش کی خدمت میں لگی رہتی۔ وہ اسے تولیہ دیتی، پاؤں دباتی۔ چائے لے کر اس کے کمرے میں جاتی۔ اس کی خدمت گزاری کے صلے میں سریش کے عنایت کردہ انعام واکرام پاکر وہ بڑی مسرت محسوس کرتی۔ وہ اس کی نگاہوں میں اپنے لیے پیار اور چاہت پاتی۔ اس کے سہانے سپنے سریش کے تصور سے جگمگا اٹھتے اور اس کا انگ انگ سریش کی چاہت کے نشے میں سرشار ہو جاتا۔

    اور اس دن

    سریش اپنے بستر پر پڑا کوئی ناول پڑھ رہا تھا۔ موسم سہانا تھا اور فضا کیف برسا رہی تھی۔ آسمان پر کالی کالی گھٹائیں چھا رہی تھیں اور باہر ہلکی ہلکی پھوار پڑ رہی تھی۔

    ’’چائے!‘‘

    اس نے نظر اٹھائی۔ سامنے شیلا ساڑی اور بلاؤز میں ملبوس اپنے ہاتھ میں چائے کی پیالی لیے کھڑی تھی۔ گورا چٹا بدن اور موسم کا تقاضا۔ ہاتھ بڑھا کر چائے کی پیالی لیتے وقت سریش نے قصداً شیلا کا ہاتھ چھو لیا۔ اس وقت شیلا کی رگوں میں جیسے بجلی کی لہر دوڑ گئی۔ اس کے رخسار پر سرخی سی پھیل گئی جیسے دودھ میں سیندور گھول دیا گیا ہو۔ اور سریش صرف مسکرا کر چائے کی چسکی لینے لگا۔ شیلا تیز قدموں کے ساتھ باہر آ گئی۔

    اور جب وہ چائے کی خالی پیالی لینے کمرے میں داخل ہوئی تو سریش نے اس کے حسن کا ذکر کرتے ہوئے کان کے آویزے کی تعریف کردی تو وہ ساتویں آسمان پر پہنچ گئی۔ اس رات وہ بستر پر لیٹے، گئی رات تک کروٹیں بدل بدل کر سریش کے بارے میں سوچتی رہی۔ اس احساس سے اس کا دل بلیوں اچھلنے لگتا کہ وہ سریش کو پسند ہے یعنی وہ اچھی لگتی ہے اور سریش اسے چاہتا ہے۔ وہ سوئے میں بھی حسین خواب دیکھ کر مسکرا دیتی۔

    شیلا کے دل میں پیار بڑھتے بڑھتے بڑھا اور چاہت کے طوفان نے اسے چاروں طرف سے گھیر لیا۔ وہ محبت کے تیز دھار ے میں بہت آگے بڑھ گئی۔ انجام سے بےخبر اور مستقبل سے بےنیاز۔ آج تک کسی نے اسے پیار سے نہیں دیکھا تھا۔ محبت کی یہ پہلی چوٹ تھی۔

    اس رات وہ کافی دیر تک سریش کا پاؤں دباتی رہی اور جب اس نے محسوس کیا کہ وہ سو گیا ہے تو وہ چپکے سے اٹھ کر جانا ہی چاہتی تھی کہ اس کی ننھی ننھی کلائی سریش کے مضبوط ہاتھوں میں تھی، اس نے بھی فرطِ مسرت سے خود کو سریش کے حوالے کر دیا اور اس کی بانہوں کے حلقہ میں آ گئی۔

    اس کا انگ انگ سریش کے ہاتھوں کے لمس سے گدگدا رہا تھا۔

    اور جب دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوئے تو جوانی کی نگاہیں جھک گئی تھیں، عشق مسکرا رہا تھا اور عصمت کے ماتھے پر پسینے کے قطرے نمودار تھے۔ تیز تیز سانسوں سے شیلا کا سینہ زیر وزبر ہو رہا تھا۔ چہرہ ٹماٹر کی طرح سرخ تھا۔ آنکھیں تیز بخار کے مریض کی طرح بھاری بھاری لگ رہی تھیں اور گیسو رخسار پر پریشان تھے۔

    شیلا کے خوابوں کا شہزادہ سریش تھا۔ اس کے دل میں سریش کے قدموں پر لوٹ جانے کی خواہش پیدا ہوتی اور اس کے التفات واکرام پاکر وہ اب زندگی بھر کے لیے سہاگن بن جانے کا خواب دیکھنے لگی۔

    ایک بار اس نے عجیب سا خواب دیکھا۔ وہ سریش کے ساتھ ایک مرصع کشتی میں سوار ہے اور کشتی آہستہ آہستہ آگے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے قرب کے احساس سے مسرور وشادماں ہیں۔ دفعتاً کشتی ہچکولے کھانے لگی اور دوسرے لمحہ غرق آب ہو جاتی ہے۔ چند لمحوں کے بعد شیلا خود کو ایک دل کش نہر کے کنارے پاتی ہے لیکن وہ سریش کو اپنے قریب نہ پاکر حیرت واستعجاب میں ڈوب جاتی ہے۔ اس نے بے قرار نگاہوں سے چاروں طرف دیکھا، لیکن سریش نظر نہیں آیا۔ اس کی نگاہیں ایک خوب صورت سی عمارت پر ٹھہر گئیں جس کے گرد وپیش میں فرحت بخش اور روح افزا وادیاں ہیں اور ہر طرف دلکش و نشاط انگیز نغموں کی آواز گونگ رہی ہے۔ وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی ہوئی ان وادیوں کی طرف بڑھنے لگتی ہے۔ تھوڑی دیر بعد وہ اس خوب صورت سی عمارت کے ایک خوب صورت سے کمرے میں ہے جہاں ریشمی قالین کا فرش ہے۔

    اور اس کی آنکھیں کھل گئیں۔

    ان ہی دنوں سریش کے گھر سے تار آ گیا۔ وہ شیلا کو تسلیاں دے کر ایک ہفتہ میں واپس آنے کا وعدہ کرکے اپنی بیمار ماں کو دیکھنے کے لیے گھر چلا گیا۔

    وقت کے سایے طویل ہوتے گئے۔ سریش کے جانے کے بعد ہی شیلا اپنے اندر تبدیلی محسوس کرنے لگی۔ اس کے چہرے کا رنگ روپ بدلنے لگا، اس کا کھانا پینا چھوٹ گیا اور آنکھوں کے گرد حلقے پڑ گئے۔ وہ کچھ کھاتی نہ پیتی، ہر وقت اداس اور مغموم رہتی۔ بدنامی کے خوف سے وہ کانپنے لگی۔ اپنی اس حرکت پر خود سے نفرت ہونے لگی۔ اس کا جی چاہتا وہ خود اپنے دانتوں سے اپنی بوٹیاں چبا ڈالے۔ کھانا پینا کچھ اچھا نہیں لگتا۔ وہ رات رات بھر برے خواب دیکھتی رہتی۔

    انتظار کی طویل وپرخار رہ گزر پر چلتے چلتے امیدوں کے پاؤں چھلنی ہوگئے۔ سریش کے آنے میں غیر معمولی تاخیر سے شیلا کا دل دھڑکنے لگا آخر اس کے آنے میں دیر کیوں ہوئی؟ نہیں نہیں کوئی بات نہیں! ایسا نہیں ہو سکتا۔ وہ ضرور آئےگا۔

    اور ایک دن پورنما نے شیلا کو بتایا کہ سریش نے ملازمت سے استعفا دے دیا ہے۔ اس کے پتاجی کے کاروبار کا سارا بوجھ اس کے کندھے پر آ گیا ہے۔ اس نے شادی بھی کر لی ہے۔

    ’’شادی !!؟‘‘

    وہ ایک دم چیخ اٹھی۔ جیسے اچانک کسی برقی تار سے ٹکرا گئی ہو۔ اس کے دماغ میں تیز تیز آندھیاں چلنے لگیں۔ اس کے دل میں ایک ٹیس اٹھی اور وہ تلملاگئی۔ اس نے آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں کو پلکوں میں تھام لیا اور اپنی جھونپڑی میں جاکر رونے لگی، پھوٹ پھوٹ کر ایک بچے کی طرح!!

    اس کے سندر سپنے ٹوٹ کر بکھر گئے۔ اس نے جن مضبوط بانہوں کا سہارا ڈھونڈا تھا وہ کہیں اندھیرے میں گم ہوگیا۔ اب وہ کیا کرےگی؟ کہاں جائےگی؟؟ اس کے دل میں ایک خیال آیا۔ خودکشی۔ نہیں نہیں، وہ ایسا نہیں کر سکتی ہے۔ ان نے مصمم ارادہ کر لیا کہ وہ زندہ رہےگی اور خود زندہ رہےگی۔ وہ اپنے بچے کے آنے کا انتظار کرنے لگی۔

    اب یہ بات سورج کی طرح روشن تھی کہ شیلا ماں بننے والی ہے ماں ایک ناجائز بچے کی ماں بنےگی۔ اس نے اپنے چاچا جی کی عزت وآبرو کو مٹی میں ملا دیا۔ چودھری جی نے دواؤں کے استعمال سے زمانے کی زبان بند کرنے کی کوشش کی۔ لیکن شیلا اپنی ضد اور اپنے فیصلے پر اٹل رہی، ایک پہاڑ کی طرح اور ایک دن وہ اپنے گھر سے نکل بھاگی۔

    دفعتاً ستار پر ضرب پڑی۔ تار چیخ اٹھے اور مترنم آواز فضا میں لہرائی۔ مدھر نغموں کے ستارے برسنے لگے۔ اور زندگی حسبِ معمول ان نغموں میں تحلیل ہونے لگی ہے۔

    اور گلی میں آوارہ سایے بڑھ گئے ہیں!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے