Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بادل

شفق

بادل

شفق

MORE BYشفق

    کہانی کی کہانی

    ’’یہ ایک ایسے علاقے کی کہانی ہے، جس علاقے کے لوگ کسی کے آنے کے اندیشے میں جیتے ہیں۔ مگر جب انہیں اس کے آنے کی خبر ملتی ہے تو ان میں سے کسی کو بھی نہیں پتہ ہوتا ہے کہ وہ کون ہے جو آ رہا ہے؟ اس کے بارے میں جاننے کے لیے وہ لوگ ہر ممکن طریقہ اپناتے ہیں۔ ہر عالم کے پاس جاتے ہیں۔ مگر انہیں کہیں سے کچھ بھی پتہ نہیں چلتا۔‘‘

    ہوائیں بوجھل ہو گئیں، چھٹی حس کے تار چیخ پڑے۔

    ذہنوں میں خطرے کا الارم بجنے لگا، وہ آ رہا ہے، بہت جلد آ رہا ہے، ہوشیار ہو جاؤ، سرحدوں کی کڑی نگرانی کرو، دروازوں اور کھڑکیوں پر پہرے بٹھادو، جاگتے رہو، خبردار کوئی پل بھر کے لئے بھی آنکھیں بند نہ کرے، بتیاں جلتی چھوڑ دو کہ اندھیرا اس کا مسکن ہے۔ وہ آئےگا اور چپکے سے کہیں بیٹھ جائےگا، پھر رات کے سناٹے میں باہر نکل کر نیند کی مالی بستی پر ظلمت کی طرح چھا جائےگا، صبح جب آنکھیں کھلیں گی تو سورج نہیں نکلےگا، روشنی نہیں ہوگی اور وہ فتح کے شادیانے بجاتا گلیوں اور شاہراہوں پر گشت کرےگا، سب کی قسمتوں کا مالک بن جائےگا اور پھر اس سے کبھی نجات نہیں ملےگی، کوئی نجات نہ دلا سکےگا، اس لئے ہوشیار رہو، جاگتے رہو، بتیاں جلتی چھوڑ دو، روشنی اور تیز کرو کہ اس سے نجات کی خطرے کے بعد سدباب کی یہی ایک صورت ہے۔

    مگر روشنی کیسے کی جائے کہ کراسن تیل نہیں ملتا، لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے، روشنی کیسے تیز کی جائے کہ بجلی والے ہڑتال پر ہیں اور ہم اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں، اب تو اندھیرا اتنا بڑھ گیا ہے کہ دن ہونے پر، سورج نکلنے پر بھی دھند نہیں چھٹتی، کوئی چیز صاف نظرنہیں آتی، گلیوں اور شاہراہوں پر رات سدا کے لئے خیمہ زند ہو گئی ہے، ایسے میں ظلمات کا دیوتا آ رہا ہے اسے کیسے روکا جائے؟

    سب کے ہونٹوں پر سوالات تھے جواب کسی کے پاس نہ تھا۔

    پھر ریڈیو سے اعلان ہونے لگا، اخبارات چیخ پڑے، ہوشیار وہ آ رہا ہے۔

    سب کی آنکھیں سوالیہ نشان بن گئیں، ہم تو پہلے ہی سے پریشان ہیں اور اب یہ۔۔۔ کیا آپ نے یہ حفاظتی تدبیریں کیں؟

    حفاظتی۔۔۔ نہیں، ابھی تو میں اس سوچ میں ہوں کہ تدبیریں کیسے کی جائیں اور تدبیروں کے بعد بھی ہم اسے روک سکیں گے، وہ رک سکےگا؟

    لوگ تمام رات جاگتے رہتے، کھڑکیوں سے باہر تاریک گلیوں اور سڑکوں پر نظریں جمائے رہتے، کسی کا سایہ دیکھ کر ان کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو جاتیں، مگر جب وہ آگے بڑھ جاتا تو اطمینان کا سانس لے کر نئے سرے سے نگرانی شروع کر دیتے، جاگتے جاگتے آنکھیں ٹھنس گئیں، دماغ بوجھل ہو گیا۔

    تب ایک نئے خیال نے سر ابھارا اور وہ گھروں سے باہر نکل ا ٓئے سرگوشیاں الفاظ بن گئیں۔

    کیا آپ اسے پہچانتے ہیں، آخر وہ کیسا ہوگا؟

    وہ۔۔۔ارے۔۔۔ وہ سب فکرمند ہو گئے، واقعی یہ سوچنے کی بات ہے کہ ہم کس کی راہ دیکھ رہے ہیں، جب اسے پہچانتے نہیں تو اس طرح جاگتے جاگتے پاگل ہو جائیں گے اور جب وہ آئے تو اس کی راہ روکنے والا کوئی نہ ہوگا، پھر ہمارے گلوں میں زنجیریں ہوں گی جس کا سرا اس کی کلائی میں بندھا ہوگا اور۔۔۔

    مگر دوستو اس کا کیا ثبوت کہ وہ آ نہیں گیا ہے؟

    وہ آ گیا ہے؟ وہ سب خوف زدہ ہو گئے، نہیں ایسی باتیں نہ کرو کہ ہم پہلے ہی سے پریشان ہیں، مگر یہ سوال بہت اہم ہے کہ اس کی پہچان کیا ہے، لہٰذا ہمیں کسی طرح اس کی پہچان معلوم کرنی ہے، اگر ہم اس میں کامیاب ہو گئے تو پھر بہت کچھ ہو سکےگا مگر مسئلہ یہ ہے کہ اس کی پہچان کون بتائےگا؟

    ہمیں کتابوں میں دیکھنا چاہئے، لوگوں سے پوچھنا چاہئے، کسی نہ کسی کو ضرور معلوم ہوگا۔

    ہاں یہ ٹھیک ہے، انہوں نے اقرار میں سر ہلایا اور گھروں کو لوٹ گئے، صندوقوں، الماریوں اور طاقوں پر سے کتابیں اتاریں اور مطالعے میں ڈوب گئے مگر۔۔۔ انہوں نے سر اٹھاکر بےبسی سے کھڑکی سے باہر دیکھا، اتنا کچھ اور اتنی باتیں۔۔۔ وہ پریشان ہو گئے، ہمارے پاس نہ اتنا وقت ہے، نہ دماغ اور وہ آ رہا ہے، لہٰذا ۔۔۔کتابوں کے مطالعے میں ہم گرد و پیش سے غافل ہو گئے، ایسے میں اگر وہ آ گیا تو اور کیا پتہ اس نے ہماری غفلت سے فائدہ اٹھایا ہو اور۔۔۔

    انہوں نے مشکوک نظروں سے گردو پیش کا جائزہ لیا، کونے کھدروں میں تلاش کیا، لوگوں کے چہرے ٹٹول کر دیکھے اور جب انہیں اس کا یقین ہو گیا کہ وہ نہیں آیا ہے تو پھر سر جوڑ کر بیٹھ گئے۔

    کتابیں تو ہمیں گمراہ کر رہی ہیں اور ایسے وقت میں گمراہی تباہی کی ضامن تو بس ایک ہی صورت رہ جاتی ہے کہ ہم ٹولیوں میں بٹ کر لوگوں سے ملیں، کہیں نہ کہیں سے امید کی کرن ضرور پھوٹےگی۔

    انہوں نے مطمئن انداز میں سر ہلایا، کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہے کہ وہ آ رہا ہے اور ہمارے دروازے کھلے ہوئے ہیں۔ وہ دانشوروں کے پاس گئے، ہماری مدد کرو، ہم بہت پریشان ہیں اور تم تین آنکھوں والے، ہمیں بتاؤ کہ وہ آ رہا ہے، آخر ہم اسے کیسے پہچانیں؟

    انہوں نے کتابوں پر سے نظریں اٹھائیں، چشمے کی اوٹ سے انہیں دیکھا۔ کچھ دیر تک سوچتے رہے، پھر دھیرے سے بولے۔

    اس کی پہچان۔۔۔ وہ ایک چہرہ ہے گردش کرتا ہوا، بہت بڑا۔ جس کے آنکھیں نہیں ہیں اور ناک کی جگہ گہرا غار ہے جس سے آگ کی لپٹیں اٹھ رہی ہوں گی، زبان باہر کو نکلی ہوئی اور اس سے خون ٹپکتا ہوا، وہ چہرہ اتنی تیزی سے گردش کرتا رہا ہوگا کہ اس پر نظریں جمانا دشوار ہوگا اس لئے یاد رکھو۔۔۔ آگ کی لپٹیں اور گردش کرتا ہوا چہرہ۔

    وہ سیاست دانوں کے پاس گئے توانہوں نے لاپرواہی سے کہا، وہ صرف جسم ہے بہت قدآور اتنا کہ اس کے دونوں پیر شہر کے دونوں کناروں پر رکھے ہوں گے اور اس کا پھیلا ہوا ہاتھ سب پر حاوی ہوگا۔

    پادری کے چہرے پر خوف کے سائے تھے، اس کی پہچان، اس نے آنکھیں بند کرکے سینے پر کراس بنایا، وہ اڑتا ہوا سانپ ہے، بہت بڑا مگر اندھا، وہ دیواروں سے ٹکرائے گا شہر کا چکر لگائےگا۔

    ادیبوں نے کہا، ہم تو اس کے آنے کی پیشیں گوئی بہت پہلے سے کر رہے ہیں، وہ ایک قوی ہیکل پرندہ ہے، اس کے چنگل میلوں لمبے ہوں گے، اس کا منہ چمگادڑ جیسا ہوگا اور اس کی مکروہ پیشانی پر صرف ایک آنکھ ہوگی جو رنگ بدل رہی ہوگی۔

    واعظ نے بتایا، ہماری کتابوں میں اس کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ کانا ہے اور اپنے ایک ہا تھ پر جنت دوسرے پر جہنم لیے گلی گلی گھوم رہا ہوگا۔

    شام میں جب وہ ایک جگہ جمع ہوئے تو تھک کر چور ہو گئے تھے اور ہر ایک اس پر مصر تھا کہ اس کی پہچان صحیح ہے اور اس کے علاوہ دوسری ہو ہی نہیں سکتی، وہ اپنے فن کے ماہر ہیں، انہیں جھٹلانا سورج کو چراغ دکھانا ہے۔

    بات بڑھ گئی، چہروں پر خون جوش مارنے لگا، آنکھیں گہری خاکستر ہو گئیں اور بدظنی نے اپنا جھنڈا گاڑ دیا تو وہ یہ کہتے ہوئے اپنے گھروں کو لوٹے کہ وہ اپنے طور پر خطرے کا تدارک کریں گے اور جب وہ آ جائےگا تو پتہ چلےگا کہ افسوس کا وقت بھی نکل چکا ہے اور۔۔۔

    جب غصہ کم ہوا اور حفاظتی تدبیروں کی فکر ہوئی تو کئی مسئلے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان کے چہروں پر لہریں مچلنے لگیں، حفاظتی اقدامات کیسے کئے جائیں کہ پاس میں کچھ بھی نہیں ہے اور کس چیز کی حفاظت کریں کہ یہی پتہ نہیں ہے کہ وہ آئےگا تو کیا ہوگا۔۔۔؟

    وہ سوچتے رہے اور خطرے کا الارم تیز ہوتا گیا، ہوا کی سسکیاں چیخوں میں تبدیل ہو گئیں وہ آ رہا ہے، بہت جلد آ رہا ہے، وہ بس پہنچنے ہی والا ہے، ہوشیار ہو جاؤ کہ۔۔۔

    ان کے دل کی دھڑکنیں لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جا رہی تھیں اور سوچتے سوچتے جب ان کے سر دکھنے لگے اور کسی نتیجے پر نہیں پہنچے تو پھر میدان میں جمع ہوئے۔

    جس نے جو بتایا سب صحیح ہے مگر سوال یہ ہے کہ حفاظت کیسے کی جائے، کس چیز کی کی جائے اور وہ آئےگا تو کیا ہوگا، جب تک ہم یہ نہ مانیں گے خطرے کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے اس لئے ہمیں ایک بار پھر لوگوں سے ملنا ہوگا، پوچھنا ہوگا کہ۔۔۔

    تم سچ کہتے ہو، انہوں نے اقرار میں سر ہلایا، ہم بھی یہی سوچ رہے تھے تو پھر۔۔۔

    وہ آئےگا تو۔۔۔ دانشوروں نے ناگواری سے کتابوں سے نظریں اٹھائیں، اتنی گرمی ہوگی، اتنی گرمی کہ لوگ اپنے جسموں کے کپڑے نوچ کر پھینک دیں گے اور کنویں تالابوں میں چھلانگ لگا دیں گے مگر وہ سب سوکھ چکے ہوں گے۔ ہر طرف آگ ہوگی بھیانک آگ۔

    یہ سب مخالف کیمپ کی افواہ ہے۔ سیاست دانوں نے بیزاری سے کہا۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی بار آ چکا ہے مگر کیا ہم آج زندہ نہیں ہیں؟ ہمارے دلوں میں جینے کی امنگ نہیں ہے؟ ہم آج بھی زندہ ہیں کل بھی زندہ رہیں گے۔

    پادری خوف سے زرد ہوا جا رہا تھا، وہ اڑتا ہوا اندھا سانپ دیواروں سے ٹکرائےگا تو۔۔۔ دیواریں ریت کی تودوں کی طرح ڈھ جائیں گی جس پر اس کا منحوس سایہ پڑےگا وہ نیلا ہوکر مر جائےگا، بڑی تباہی ہوگی، بڑی تباہی۔

    چمگادر جیسے منہ والا پرندہ پہلے کھیتوں پر حملہ کرےگا اور کھیت بنجر ہو جائیں گے، پھر وہ گھروں کا رخ کرےگا اور اناج کا ایک دانہ بھی نہ بچےگا، وہ ہریالی کا دشمن ہے، اناج کا دشمن ہے۔

    وہ لوگوں کو دعوت دےگا، مجھ پر ایمان لاؤ اور جولوگ ایمان لائیں گے اور جنت میں داخل ہوں گے، وہ دراصل جہنم ہوگا اور جو ثابت قدم رہیں گے اور جہنم میں ڈالے جائیں گے در اصل وہ۔۔۔

    تو اندھیرا اور بڑھ گیا، انہو ں نے حسرت بھری نظروں سے ایک دوسرے کو دیکھا، اتنے انتظامات کیسے ہوں گے کہ ہم ان میں سے کوئی ایک کرنے لائق بھی نہیں ہیں اور کیا پتہ کس کی بات سچ ہو جائے تو پھر۔۔۔ خطرے کی گھنٹیاں نقطہ عروج پر پہنچ گئی ہیں، ہوا کی چیخیں کراہوں میں تبدیل ہو گئی ہیں اور کوئی سسک سسک کر رو رہا ہے۔

    جلدی کرو لوگو، وہ بس پہنچنے ہی والا ہے، جلدی کرو کہ وقت ختم ہو رہا ہے۔ پھر اتنی مہلت بھی نہ ملےگی کہ۔۔۔

    ہم کیا کریں، وہ بےچینی سے ہاتھ مل رہے تھے، ہم کیا کریں کہ ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہے اور وقت پر لگا کر اڑ رہا ہے، وہ ہر لمحہ قریب ہوتا جا رہا ہے، قریب اور قریب۔

    لوگوں کی نظریں دور افق پر مرکوز ہو گئیں، کب کوئی سیاہ نقطہ نمودار ہوگا۔ دھیرے دھیرے پھیلےگا اور پھر۔۔۔ کان آہٹ پر لگ گئے کہ پر پھڑپھڑائیں گے اور پھر۔۔۔ گرمی بڑھےگی اور پھر۔۔۔

    مولوی برکت اللہ نے نماز پڑھ کر سلام کے لئے منہ پھیرا تو وہ نظر آ گیا اور ان کا منہ پھرا کا پھرا رہ گیا۔

    رکشہ والا اپنی دھن میں مست سیٹی بجاتا ہوا رکشہ چلا رہا تھا کہ وہ سامنے آ گیا۔ سیٹی بجاتے ہوئے ہونٹ ساکت ہو گئے اور رکشہ ایک نالے میں گر کر الٹ گیا۔

    یونی ورسٹی کیمپ سے ایک لڑکا اور لڑکی ہاتھ میں ہاتھ ڈالے، ہونٹوں پر محبت کا گیت لئے باہر نکلے تو وہ سامنے کھڑا تھا، دونوں پتھر کے ہو گئے۔

    معصوم بچہ قلقاری مار کر ہنس رہا تھا اور ماں باپ محبت بھری نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے کہ وہ آ گیا۔

    وہ آ گیا ہے، ہوا چیخ کر ساکت ہو گئی۔

    وہ آ گیا ہے، اخبار شور مچا رہے تھے۔

    وہ آ گیا ہے، سرگوشیاں بوند بوند کانوں میں اتر رہی تھیں، دل لرز رہے تھے، نظریں ایک دوسرے سے الجھ رہی تھیں، گھر کی چھتیں غائب ہو گئیں، زمین پیروں سے سرکنے لگی، لوگ جائے پناہ ڈھونڈتے پھر رہے تھے، وہ آ گیا ہے شہر میں گھوم رہا ہے۔

    اس کے خلاف ایک بڑے جلوس کی تیاریاں ہورہی تھیں، مشتعل ہجوم ہاتھوں میں سیاہ جھنڈیاں لئے مردہ باد کے نعرے لگانے ہی والا تھا کہ وہ سامنے آ کھڑا ہوا اور ۔۔۔

    وہ اسکولوں اور کالجوں میں گیا، وہ دفتروں، ملوں اور دوکانوں پر گیا۔۔۔ پھر وہ دروازوں پر آیا۔

    لوگوں کی نظریں ایک نقطہ پر مرکوز ہیں، وہ اسے پھیرنا چاہتے ہیں، زبان ہلانا چاہتے ہیں، حرکت کرنا چاہتے ہیں، مگر۔۔۔

    شہر جاگ رہا ہے، شہر سو گیا ہے۔

    اور ٹرینیں اور موٹر گاڑیاں شور مچاتی ہوئی بھاگ رہی ہیں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے