Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بانس کا آدمی

سلمی صنم

بانس کا آدمی

سلمی صنم

MORE BYسلمی صنم

    بانس کے درختوں کے اس پار سورج غروب ہو رہا تھا اور شام کے ملگجے اجالے میں مکریاں (ٹوکریاں) سمیٹتی ہوئی رتنا کسی خواب کی طرح لگ رہی تھی۔ رنگا نے دیکھا جنگل کا سارا حسن اس کے اندر سمٹ آیا ہے۔ آج کل پتہ نہیں کیا ہو گیا تھا۔ وہ جب بھی رتنا کی جانب دیکھنے لگتا اس کو لگتا کہ وہ کسملا دیوی ہے جس کے لئے سوامی آئیں گے۔ یہ بات جب اس نے رتنا سے کہی تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔

    کوئی سوامی نہیں اپاوہ بولی دھرتی پر بس آدمی رہ گئے ہیں کچھ بانس کے درختوں جیسے اور کچھ جنگلی پیڑ

    پھر سنجیدگی سے رنگا کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے اس نے پوچھا اب آپ یہ بتائیے کہ ہم کیا ہیں

    ہم سولیگا ہیں بیٹی بانس کے آدمی

    ہم جنگلی پیڑ بھی ہو سکتے ہیں اپا اس نے مضبوط لہجے میں کہا۔

    جنگلی پیڑ۔۔۔!! وہ چپ ہو گیا۔ اس کو لگا کہ اس کے اندر کہیں سے کچھ ٹوٹ گرا ہے۔ نارسائی کا دکھ کچھ اس قدر شدید تھا کہ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ برسوں اس نے چاہا تھا کہ وہ جنگلی پیڑ بن جائے۔ زمین میں گہرائی تک اترجائے۔اپنی شاخیں ادھر ادھر پھیلائے۔ اس مقصد کے تحت گوڈا کی سیاسی پارٹی میں شامل ہو کر اس نے کیا کچھ نہیں کیا تھا۔ ساری کھاد، غذا، پانی، ہوا سب کچھ جذب کیا تھا۔ مگر پچھلے گرام پنچایت چناؤ میں جب اس کی جگہ گوڈا نے شیواپا کو ممبر بنایا تو ایک دلخراش حیرانی اس کے وجود پر حاوی ہو گئی۔ پتہ نہیں کیسے کیونکر کہاں کمی رہ گئی تھی کہ وہ جنگلی پیڑ نہیں بن پایا تھا۔

    کیا وہ کبھی جنگلی پیڑ بن پائےگا۔ وہ سوچتا ہوا، الجھتا ہوا، کڑھتا ہوا کوئیسستی قسم کی بیڑی جلائے چھ سو سالہ قدیم بڑے سمپیگے (چمپا) پیڑ کے قریب آبیٹھا۔پاس ہی بھارگوی چشمے کے پانی میں شام سر سرا رہی تھی۔ کہیں اندھیرے سے اتر رہے تھے۔

    یہی انھیریتو سولیگاس کا بھی مقدر تھے۔

    سولیگاس بی آر ہلس( بلی گری رنگا ہلس۔ کرناٹک) کے آس پاس پھیلے جنگلوں میں صدیوں سے آباد تھے۔جنگل ہی ان کا آسرا تھا۔ان کا ان داتا تھا۔ان کا خدا تھا۔ اس جنگل کا وہ ایک حصہ تھے۔ اس کے چپے چپے سے واقف تھے۔ اس کی ہر شئے سے ان کی آشنائی تھی۔ اسی میں وہ بے خوف و خطر گھومتے تھے۔ ان کے لباس سے جنگل کی مہک آتی تھی۔ وہ Bidriamma Tayyi (mother bamboo) کا نمن کرتے تھے اور فطرت سے ان کا رشتہ کچھ اتنا گہرا تھا کہ وہ یہ مانتے تھے کہ بانس سے ان کا جنم ہوا ہے وہ بانس کے آدمی ہیں۔ وہ چہکتے رہے، پھدکتے رہے ان ہی جنگلوں میں گھومتے رہے کہ سرکار کو ہی ان کی زندگی میں کسی معنی و مفہوم کی ضرورت محسوس ہوئی اور انہیں مہذب انسانوں کے زمرے میں لانے کی خاطر سرکار نے کئی قانون جاری کئے۔ انہیں زمینیں دیں۔ ان کیلئے پوڈوس ( گاؤں) آباد کئے اور یوں وہ گھاس اور بانس سے بنی جھونپڑیوں میں رہنے لگے۔ راگی اگانے لگے۔

    جنگل سے آملہ، شکا کائی، شہد، ٹیوبرس اور بانس حاصل کرنے لگے۔انہیں فروخت کرکے پیسہ کمانے لگے۔کئی غیر سرکاری اداروں نے ان میں بیداری پیدا کی۔ ان کے لئے اسکول بنائے مگر۔۔۔

    بیڑی کا ایک بھرپور کش لگاتے ہوئے رنگا نے دیکھا۔شام کی تاریکیوں میں ڈوبا اس کا پوڈو کس قدر پس ماندہ اور اجاڑ سا لگ رہا تھا کچی سڑکیں، پینے کے پانی کی قلت، خستہ حال مکان، بجلی کی کمی مہذب انسانوں کے زمرے میں آکر انہیں کیا ملا تھا؟؟

    یہ آئے دن بدلتے سرکاری قانون، سمٹتے ہوئے جنگل، اپنے رکھ رکھاؤ سے ہٹتی ہوئی نسل، یہ پس ماندگی، یہ مفلسی اور وہ زندگی جس کے خواب جس کے انتظار جس کی تلاش جس کی چاہت جس کے سحرانگیز طلسم میں ان کے دل ودماغ مقید تھے وہ زندگی کہاں تھی؟؟

    نمستے رنگا کسی کی آواز اسے خیالوں کی دنیا سے باہر لے آئی۔ وہ شنکرا تھا گوپالا کے گھر جا رہا ہوں۔ دوائی کیلئے۔ناگما کو زکام ہو گیا ہ و ہ بولا تو رنگا کی آنکھوں میں گوپالا کا سراپا گھوم گیا۔ وہ خوش لباس، محنتی اور نیک دل نوجوان جو ڈسپنسری میں ملازم تھا۔بہت اچھا لڑکا تھا۔ اپنے پاس دوائی کاذخیرہ رکھتا تھا اور جب بھی ڈسپنسری بند ہوتی گاؤں والوں کو اپنی جانب سے دوائی دے دیتا تھا

    گوپالا اچھا لڑکا ہے شنکرا اس کے گن گاتا رہا۔ رنگا کے دماغ میں ایک چور سا خیال آیا۔ 'رتنا کے لئے ٹھیک ہے' مگر اس نے فورا اس خیال کو جھٹک دیا۔ 'اونہہ اچھا ہے تو کیا میری رتنا تو کسملا دیوی ہے جس کے لئے سوامی آئیں گے'

    'کاش کہ کچھ ایسا ہو جائے میری رتنا کو سوامی مل جائیں'

    شنکرا کے جانے کے بعد وہ دونوں ہاتھ جوڑے بڑے سمپیگے پیڑ کا طواف کرنے لگا اور وہاں پہ موجود شیولنگوں کی پوجا کرتے ہوئے دعائیں مانگنے لگا۔

    ۲

    وہ جس سے جنگلوں کی مہک آتی تھی وہ لباس پہنے ہوئے۔ دور دور تک پھیلے ہوئے جنگلوں میں چلتے ہوئے۔ رکتے تھمتے ہوئے رنگا کو لگا جیسے اس کو دیکھتے ہی درختوں نے اپنا رخ اس کی جانب کر لیا ہے اور اس کے استقبال میں جھک گئے ہیں۔ اس کا دل بھر آیا۔ وہ بیساختہ ان سے لپٹ گیا۔ اس کو لگا کہیں کچھ ان کے اندر بھی دھڑک رہا ہے اور پتوں کی سرسراہٹ اس کی سانسوں سے ہم آہنگ ہے۔ دفعتا اسے یاد ان پیڑوں نے بھی بہت کچھ سہا تھا۔جانے کتنے تھے جو کٹ چکے تھے اور بھی بہت تھے جو کٹ رہے تھے۔ گر رہے تھے جانے کہاں کہاں سے۔اپنے مفاد کی خاطر یار لوگوں نے جنگلوں میں دہشت مچادی تھی۔ کچھ بھی محفوظ نہ چھوڑا تھا۔ جنگل سمٹ رہے تھے اور پیڑ پودے گم ہو رہے تھے۔

    وہ دل برداشتہ سا، اداس،

    مضمحل ٹیوبرس اکٹھا کرنے لگا۔

    دوپہر جب دھوپ ذرا تیز تھی۔ وہ تلیا کے پاس جنگلی پیڑ کی گھنی چھاؤں میں آ بیٹھا اور یونہی دور دور تک نظر دوڑائی۔ مگر یہ کیا۔؟ اس کا دل دھک سا رہ گیا۔ حدنگاہ تک گھاس نہیں لنٹانا (lantana weed) کے جھڑپ تھے۔ خاردار، زہریلے پتوں والے، دور دور تک اپنا وجود پھیلاتے ہوئے، دھرتی کے سینے پر دندناتے ہوئے،سارے علاقے کو اپنی مٹھی میں دبائے کھاد، ہوا، پانی جذب کرتے ہوئے۔ اب ان کی موجودگی میں قدرتی گھاس اگے تو کس طرح؟ جنگلی جانور کھائیں تو کیا؟؟۔ بہت ضروری تھا کہ Theregubenki کا قدیم عمل کیا جائے۔ لمبی سوکھی گھاس کو آگ لگائی جائے مگر سرکار نے اس پر پابندی عائد کر رکھی تھی پھر یہ آگ لگائےگا کون؟؟؟

    ٹیوبرس اکٹھا کرکے وہ جنگل سے لوٹ رہا تھا کہ اس کا سامنا ہریشا سے ہو گیا جو خاصا پریشان لگ رہا تھا۔

    کیا ہوا وہ حیران رہ گیا خیریت تو ہے۔

    کیا بتاؤں رنگا ہریشا رو دینے کو تھا۔ بڈی (سود) کی رقم نہیں۔

    دے سکتا اور ناگپا نے دھمکی دی ہے کہ وہ میری بیٹی کو اٹھا لے جائےگا

    ایک اور شکایت۔ ناگپا کولے کر ادھر کئی دنوں سے جبرواستبداد کی بہت ساری خبریں موصول ہو رہی تھیں۔ پھر ہریشا تو اس کا دوست تھا۔

    یہ کیا کہہ رہے ہو۔ وہ بھی پریشان ہو گیا۔

    میری مدد کرو رنگا ہریشا گڑگڑایا تو رنگا کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے۔اس نے ہریشا کو تسلی دی مگر خود اضطراب کا شکار ہو گیا۔ یہ نئی نسل پتہ نہیں کس اور جا رہی تھی۔ناگپا بڈی بنگارپا کا بیٹا تھا جن کا سود کا دھندا تھا مگر آج تک تو ایسا کچھ نہیں ہوا تھا۔ دوسروں کی بہو بیٹیوں پر نظر رکھنا سولیگا کی ریت نہ تھی۔ پتہ نہیں کیوں ناگپا نے اپنے ہاتھ اتنے لمبے کر لئے تھے کہ حدنگاہ تک بس وہ ہی وہ تھا۔ دور دور تک اپنا وجود پھیلاتا ہوا۔ دھرتی کے سینے پر دندناتا ہوا۔ سارے علاقے کو اپنی مٹھی میں دبائے ساری کھاد، ہوا، پانی جذب کرتا ہوا۔ جس کی وجہ سے سولیگاس کا دم گھٹنے لگا تھا۔

    Theregubenki۔۔۔

    رنگا نے سوچامگر یہ آگ لگائے گا کون؟؟؟۔

    ۳

    گھنے جنگلوں میں رات گہری ہو رہی تھی۔

    پوڈو میں ایک بڑا پنڈال لگا ہوا تھا جس میں برقی قمقے جل رہے تھے۔ چاروں طرف بہت روشنی تھی۔فلمی نغموں کا بےہنگم شور تھا۔ بستی کے سارے لوگ وہاں اکھٹے تھے اور بڑے سمپیگے پیڑ کے سائے میں اپنا روایتی تہوار روٹی ہبا (تہوار) منا رہے تھے۔ شام ڈھلے انہوں نے تماڈی (مقامی پجاری) سے آشیرواد لیا تھا۔ سمپیگے پیڑ کی پوجا کی تھی۔ اپنے کھیتوں میں اگائی گئی راگی کی روٹی بنا کر اسے بھگوان کے چرنوں میں ارپت کی تھی پھر سب نے آپس میں مل کر بانٹ کھائی تھی اور خوشیوں بھرے ترانے گنگنا رہے تھے۔

    ادھر اپنے بانس جیسے جسم کو جو ترا (روایتی لباس) میں لپیٹے کھلے آسماں تلے درختوں کے جھرمٹ میں بیٹھا رنگا سن رہا تھا۔ سیاحوں کی ایک ٹولی سیکوء گائیڈ کہہ رہا تھا ابھی گورو۔۔۔ گوروکو۔۔۔ گورو کا نہ رقص شروع ہوگا۔ لڑکے رقص کریں گے اور لڑکیاں اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کریں گی جس کے اظہار کے لئے وہ بسکٹ یا مٹھائی پھینکیں گی۔ اگر لڑکا بھی راضی ہو تو وہ دونوں کچھ دن جنگل میں چلے جائیں گے۔ پھر لوٹ کر لڑکا گاوؤں کے مکھیا کا آشیرواد لےگا۔ سوابارہ روپئے ہر جانہ دیگا اور بیاہ ہو جائےگا۔ یہی سولیگاس کی ریت ہے

    دفعتا کسی فلمی نغمے کا وہ شور بلند ہوا کہ رنگا کو لگا جیسے بھونچال آ گیا ہو۔ اس نے دیکھا تمام لڑکے اس دھن پر بےتحاشہ ناچ رہے تھے۔ انہوں نے دھیرے دھیرے سیاحوں کو بھی اس میں شامل کر لیا اور ان کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے سیاحوں کی راہ میں بچھے جانے لگے۔

    دیوا رنگا پریشان ہو گیا یہ آج کی نسل کو کیا ہو گیا ہے

    وہ اپنی سوچ کی دنیا میں گم خود کو بڑا بے بس محسوس کرنے لگا۔ جب شور کچھ حد سے زیادہ بڑھ گیا تو رنگا کو لگا اس کا دم گھٹ جائےگا۔ وہ سوامی کے چرنوں میں چلا آیا۔ وہیں قریب ہی لڑکیوں کی جھرمٹ میں اسے رتنا دکھائی دی جو چشمے کے پانی میں نہا کر جنگلی پھول بالوں میں سجائے گل رنگ ساری زیب تن کئے بالکل کسملا دیوی لگ رہی تھی اور اس نے گوپالا کو بھی دیکھا جو رقص کی تیاریوں میں مصروف تھا اور بھی کئی لڑکے تھے۔ ناگپا بھی تھا۔

    پتہ نہیں کیا ہو۔۔۔ وہ چپ چاپ گم سم سا پریما کے پہلو میں آ بیٹھا۔

    رات کا جانے کون سا پہر تھا۔ گوروکو کی ابتدا ہوئی۔ لڑکے بڑے سمپیگے پیڑ کے اطراف دائرے کی شکل میں رقص کرنے لگے اور لڑکیاں اپنی نیم باز آنکھوں میں جوانی کی مستیاں سمیٹے رقص دیکھنے لگیں۔

    میں نے رتنا سے کہا ہے کہ وہ گوپالا کو چن لے پریما سرگوشی میں بولی

    مگر میری رتنا تو کسملا دیوی ہے جس کے لئے سوامی آئیں گے۔ رنگا نے سوچا

    لڑکے محو رقص تھے۔ گوروکو گا رہے تھے

    او مکڑی تو اپنا جالا بن رہی ہے

    ڈوڈ سمپیگے میرے سوامی ہماری رکشا کر

    رات بھیگ رہی تھی۔ لڑکیاں اچھلتیں۔ اٹکتیں۔بل کھاتیں اپنی آنکھوں میں کہکشاں اور چہرے پر چاندنی لئے اپنے من پسند لڑکوں پر بسکٹ اور مٹھائی کے ٹکرے پھینک رہی تھیں۔ رنگا رتنا کی جانب دیکھتا رہا جو بہت دیر تک چپ چاپ، گم سم اپنے آپ میں ڈوبی اردگرد سے بے خبر بیٹھی رہی۔ دیکھتی رہی سوچتی رہی اور پھر اس نے مٹھائی کے چند ٹکڑے پھینکے۔مگر کس پر اور کیوں؟؟۔ وہ ششدر سا دیکھتا رہ گیا۔ وہ تو ناگپا تھا جسے رتنا نے پسند کیا تھا۔ دفعتا رنگا کو لگا جیسے اس کے اندر سوا نیزے پر اٹکا سورج اچھلا اور گراہے اور پھر دور تک پھیلے ہوئے بانس کے جنگل میں آگ لگ گئی۔

    مأخذ :
    • کتاب : بازدید
    • اشاعت : Shumara-10

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے