بارہ گھنٹے
کہانی کی کہانی
بارہ گھنٹے ایک انقلابی وجے سنگھ کی کہانی ہے جو سولہ سال بعد جیل سے چھوٹ کر آتا ہے اور اگلے ہی دن پھر اس کی گرفتاری یقینی ہے۔ انقلابی پارٹی کی رکن بینا کے گھر وہ شب باشی کرتا ہے اور بینا اس کی خدمات، جذبہ حب وطن، اس کے ایثار اور قربانیوں نیز اس کی جنسی محرومیوں کو یاد کرکے قربانی کے ایک جذبہ کے تحت اس کی جنسی خواہش پوری کر دیتی ہے۔
دسمبر کا مہینہ!
اسٹیشن ماسٹر کا گھنٹہ۔۔۔ پونے آٹھ بجا رہا تھا۔ گاڑی کے آنے میں اب بھی پندرہ منٹ باقی ہیں۔ بینا نے سوچا اور پلیٹ فارم کے چکر لگانے لگی۔ چھوٹا سا اسٹیشن۔ نہ کتابوں اور اخباروں کی دوکان۔ نہ کوئی ہوٹل۔ چائے کی ایک پیالی بھی ملنی ممکن نہیں۔ بس دو کمروں کی چھوٹی سی عمارت۔ ایک کمرے میں اسٹیشن ماسٹر کا دفتر۔ دوسرے میں ٹکٹ گھر۔ ٹکٹ گھر پر بھیڑ تو نہیں تھی۔ دو کسان گاڑھے کی چادروں میں لپٹے، کانوں کو رات کی ٹھنڈی ہوا سے بچانے کے لیے ڈھاٹا باندھے برآمدے میں سکڑے بیٹھے تھے۔ دور سگنل کی لال روشنی اندھیرے میں چمک رہی تھی۔
بینا ساڑھی پر ایک سوئیٹر پہنے ہوئے تھی۔ اس پر ایک اونی چادر۔ مگر اس وقت اس کو سردی نہیں لگ رہی تھی۔ جب سے وہ انقلابی پارٹی میں شامل ہوئی تھی، یہ پہلا موقعہ تھا کہ ایک اہم کام اس کے سپرد کیا گیا تھا۔ اسی خیال سے اس کے دل کی دھڑکن تیز تھی اور باوجود برفیلی ہوا کے اس کے گال تمتما رہے تھے۔ کیا وہ یہ کام بہ خوبی انجام دے سکےگی؟ کوئی گڑبڑ تو نہ کرے گی؟ گھبرا تو نہ جائےگی؟ نہیں ہرگز نہیں۔ اس نے سوچ سمجھ کر انقلابی پارٹی میں شرکت کی تھی۔ وہ انقلاب کے لیے بڑے سے بڑا کام کرنے کو تیار تھی۔ اسے اپنی جان کی بھی پروا نہیں تھی اور یہ بالکل معمولی کام تھا۔ لیڈر نے جو ہدایات دی تھیں وہ اب تک بینا کے کانوں میں گونج رہی تھیں۔
’’دیکھو ہمارا پرانا ساتھی وجے سنگھ سولہ برس کی جیل کاٹ کر آ رہا ہے۔ مگر ہمیں معلوم ہوا ہے کہ شہر پہنچتے ہی اس کو پھر گرفتار کر لیا جائےگا۔ کیونکہ پولیس ڈرتی ہے کہ اس کی واپسی سے انقلابی پارٹی کا اثر اور زیادہ بڑھ جائےگا۔ اس لیے تم اسے رام نگر کے اسٹیشن ہی پر اتار لینا۔ رات بھر وہ تمہارے مکان پر ٹھہرے گا اور صبح کو وہ شہر آکر اپنے آپ کو پولیس کے سامنے گرفتاری کے لیے پیش کر سکتا ہے۔ مگر ہم چاہتے ہیں کہ دوبارہ جیل جانے سے پہلے وہ کم از کم بارہ گھنٹے تو آزاد رہے۔ یہ خط تم اسے دے دینا اور اس کا جواب جو وہ لکھے پارٹی کے دفتر میں پہنچا دینا۔‘‘
’’رات بھر وہ تمہارے مکان پر ٹھیرے گا۔‘‘ مگر بینا کا مکان تو دو چھوٹے چھوٹے کمروں سے زیادہ نہ تھا۔ ساٹھ روپے ماہوار پانے والی سکول کی استانی اس سے بڑے مکان کا خرچ کیسے برداشت کر سکتی تھی۔ پھر وہ رہتی بھی تھی اکیلی۔ نہ کوئی رشتہ دار نہ نوکر۔ اپنا کھانا بھی خود ہی پکاتی تھی۔ ان حالات میں ایک غیر مرد کا اکیلے مکان میں اس کے ساتھ رات گزارنا۔۔۔ بینا کی پرورش ایک مذہبی رواج پرست گھرانے میں ہوئی تھی۔ اگرچہ کالج کی تعلیم اور انقلابی خیالات نے اس کا دماغ کافی حد تک آزاد کر دیا تھا۔ پھر بھی اس کے دل کی نچلی تہ میں سماج کا خوف سمایا ہوا تھا۔ لوگ کیا کہیں گے؟ اور ساتھ ہی ایک نوجوان مرد کی قربت کی ناقابل بیان کشش۔ جنسی تجربے کی دبی ہوئی خواہش۔ خواہش بھی اور خوف بھی۔ وہ جوان تھی مگر مرد کی آغوش محبت سے نا آشنا۔ وہ کتابی علم کی مدد سے جنسیات پر اصولی بحث کر سکتی تھی مگر اس کے عملی پہلوؤں سے بالکل ناواقف تھی۔ ہاں قدرت نے خود اس کے بدن میں ایک عجیب سی گدگدی، ایک عجیب سی چبھن، ایک میٹھا میٹھا درد پیدا کر دیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کی ایک ہی دوا ہے مگر شادی سے پہلے اس دوا کی خوراک پینا، یہ بھی تو اتنا آسان نہ تھا۔
دور اندھیرے میں سگنل کی لال روشنی سبز روشنی میں تبدیل ہو گئی۔ پلیٹ فارم کے سامنے کی ریل کی پٹریاں اپنی جھنجھناہٹ سے آنے والی ٹرین کی خبر دینے لگیں۔ بینا کی توجہ جنسی مسائل سے ہٹ کر وجے سنگھ کی طرف مبذول ہوگئی جو ابھی چند منٹ میں رام نگر پہنچنے والا تھا۔ جو رات بھر۔۔۔ بارہ گھنٹے۔۔۔ کے لیے اس کا مہمان تھا۔ وجے سنگھ۔ انقلابی پارٹی میں اس نام کی دھوم تھی۔ اس کے انقلابی کارناموں کو آج تک یاد کیا جاتا تھا۔
آج وہ سولہ برس کی قید کاٹ کر واپس آ رہا ہے۔ کل شاید پھر کسی کال کوٹھری میں بند کر دیا جائےگا۔ یہی اس کی زندگی تھی۔ وہ اپنے اصولوں پر جان کی بازی لگا چکا تھا۔
وہ نہ قید خانے سے ڈرتا تھا نہ پھانسی کے تختے سے۔ بینا نے پارٹی کے دفتر میں لگی ہوئی وجے سنگھ کی تصویر دیکھی تھی۔۔۔
شاندار وجیہ جوان، چوڑا چکلہ سینہ، اونچی پیشانی، چمکدار کالی آنکھیں جو تصویر کے پردے میں سے بھی دلوں کو برما دیتی تھیں۔ خوبصورت آنکھیں، خوفناک آنکھیں۔ ان کی گہرائی میں جنون تھا مگر ان کی سطح پر بچوں کی سی سادگی کھیل رہی تھی۔۔۔ ناممکن تھا کہ کوئی اِن آنکھوں کو دیکھے اور ان کا شکار نہ ہو جائے۔ بینا نے اِن آنکھوں سے انقلاب کا سبق سیکھا تھا۔ اپنے اصولوں کے لیے مرمٹنے کی تمنا اور آزادی کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کی حسرت۔ سب کچھ جان۔۔۔ مال۔۔۔ عزت۔ ہاں عزت بھی۔ جب کبھی اس کا قدم انقلاب کی دشوار گزار راہوں پر ڈگمگاتا، بینا اِن آنکھوں کی طرف دیکھتی اور ایک لمحے میں اس کا دل ایک نامعلوم طاقت سے بھر جاتا اور پھر اس میں ہر مشکل، ہر مصیبت کا سامنا کرنے کی ہمت پیدا ہو جاتی۔
مگر یہ آنکھیں ایک انقلابی ہی کی نہیں، ایک مرد کی آنکھیں بھی تھیں۔۔۔ ان میں ایک حیوانی کشش بھی تھی، ایک جنون انگیز شرارہ، ممنوعہ لذتوں کا ایک اشارہ۔ اس دلفریب دنیا کی ایک جھلک، جس کا دروازہ سماج نے بینا جیسی غیرشادی شدہ لڑکیوں کے لیے بند کر رکھا تھا۔ مگر یہ دروازہ توڑا بھی جا سکتا ہے۔ بینا اپنی پارٹی ہی میں کئی ایسی لڑکیوں کو جانتی تھی جنہوں نے اس خیالی دروازے کو توڑ کر آزاد جنسی تعلقات کی سر زمین میں قدم رکھا تھا۔ کیا آج کی رات وہ بھی وجے سنگھ کی مدد سے۔۔۔ وہ اس خیال ہی سے شرما گئی۔
ایسی باتیں سوچنی بھی نہیں چاہئیں، مگر کیوں نہیں۔ وجے سنگھ خوبصورت ہے، جوان ہے، تندرست ہے، اور اس کی آنکھوں میں دلفریب مسرتوں کا پیغام ہے۔
ٹرین پلیٹ فارم پر پہنچ گئی۔ بینا کے خیالات کا تار ٹوٹ گیا اور وہ وجے سنگھ کی تلاش میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک دوڑنے لگی۔ کہیں اس کا پتہ نہ ملا۔ کسی درجے میں بھی پارٹی کے دفتر والی تصویر سے ملتا جلتا مسافر نہ تھا۔ ٹرین سے اترا تو بس ایک مجہول شخص، بڈھا فقیر۔ دونوں کسان برآمدے سے اٹھ کر ایک تھرڈ کلاس کے بھرے ڈبے میں گھس گئے۔ انجن نے سیٹی دی اور ٹرین چل دی۔ تو کیا وجے سنگھ اس گاڑی سے نہیں آیا؟ کیا اس کو پہلے ہی گرفتار کر لیا گیا؟ مگر وہ بڈھا کیوں پلیٹ فارم کی لالٹین کے نیچے بینا کو گھور گھور کر دیکھ رہا تھا۔
’’کیا آپ مس بینا ہیں؟‘‘ فقیر کی آواز میں نفاست تھی اور جب بینا نے ’’ہاں‘‘ کہا تو اس کی نگاہ بڈھے کی آنکھوں پر پڑی۔۔۔ آنکھیں جو ایک جھاڑ جھنکاڑ داڑھی میں سے اس طرح چمک رہی تھیں جیسے گھنے جنگل میں کسی خوبصورت مکان کی دو کھڑکیاں جگمگا رہی ہوں۔
’’آپ۔۔۔ ہی۔۔۔ کامریڈ وجے سنگھ ہیں؟‘‘
’’ہاں! مجھے پارٹی سکریٹری کا تار پچھلے سٹیشن ہی پر مل گیا تھا کہ مجھے اس سٹیشن پر اترنا ہے اور یہ کہ تم مجھے لینے آؤگی۔‘‘
’’چلیے۔‘‘ بینا وجے سنگھ کو اپنے گھر لے آئی۔ کھانا تیار کر کے گئی تھی۔ وہ ایک تھالی میں پروس کر اس کے سامنے رکھ دیا۔ بغیر ایک لفظ کہے اس نے کھانا شروع کردیا۔ یہ بھی نہیں پوچھا، ’’تم نہیں کھاؤگی؟‘‘
بینا پاس کرسی پر بیٹھ گئی۔ وجے سنگھ انہماک سے کھانے میں مصروف تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اسے کتنے ہی دن کے فاقے کے بعد کھانا ملا ہے۔ بینا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یہ سوچ کر کہ سولہ برس تک دھول ملی روٹی اور تیل میں پکی ہوئی دال کھانے کے بعد اس کو آج انسانوں کی خوراک نصیب ہوئی تھی۔ وہ وجے سنگھ کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ کیا یہ وہی چوڑے چکلے سینے، اونچی پیشانی، چکنے بالوں والا وجے سنگھ ہے، جس کی تصویر پارٹی کے دفتر کی دیوار پر ٹنگی تھی؟ نہیں یہ وہ نہیں ہو سکتا۔ اس کا سر گنجا ہے اور اس پر مدتوں تک نہ نہانے کی وجہ سے پھنسیوں اور میل کے کھڑنڈجمے ہوئے ہیں۔ اس کی داڑھی۔۔۔ آدھی کالی آدھی سفید۔۔۔ خوفناک طریقے سے اگی ہے۔ ہونٹوں کے اوپر اور نیچے کے بال شاید دال کے دھبے لگتے لگتے زرد ہو گئے ہیں۔ دانت کچھ غائب ہیں اور کچھ زردی مائل۔ ناخن بڑھے ہوئے اور میل سے بھرے ہوئے۔ باوجود شدید احساس ہمدردی کے بینا یہ سوچ کر کانپ اٹھی کہ ٹرین آنے سے چند سیکنڈ پہلے ہی وہ اسی شخص کے ساتھ جنسی زندگی کی پہلی منزل طے کرنے کا ارادہ کر رہی تھی۔
وجے سنگھ نے کھانا ختم کر لیا تو بینا نے کہا، ’’اب آپ نہا کر کپڑے بدل لیجیے۔ پارٹی والوں نے آپ کے لیے یہ کپڑے بھیجے ہیں۔ میں غسل خانے میں گرم پانی رکھ دیتی ہوں۔‘‘ یہ سن کر وجے سنگھ نے اپنے پھٹے پرانے کپڑوں پر نظر ڈالی، جیسے اس کو دفعتاً اپنی غلاظت کا احساس ہوا ہو۔ بغیر ایک لفظ بولے وہ غسل خانہ میں چلا گیا۔ سولہ برس کا طویل عرصہ اس نے اکیلے کال کوٹھری میں گزارا تھا۔ اسی لیے اس کو انسان سے بات چیت کرنے کی عادت ہی نہ رہی تھی اور بینا جیسی نوجوان لڑکی کی موجودگی میں تو ایسا چپ ہو گیا تھا جیسے گونگا ہے۔
نہا کر وجے سنگھ نے صاف کپڑے پہنے اور انگیٹھی پر ہاتھ تاپنے لگا جو بینا نے سردی کے خیال سے جلا کر رکھی تھی۔ لال لال کوئلوں کی روشنی میں اس کی آنکھوں میں بینا کو ہلکی سی مسرت کی جھلک دکھائی دی، جیسے انگاروں پر سے راکھ جھٹک دی گئی ہے۔ اس نے بینا سے قینچی مانگ کر اپنے ناخون کاٹے اور پارٹی سکریٹری کا خط پڑھنے بیٹھ گیا۔ بینا کو معلوم تھا کہ اس خط میں پچھلے سولہ سال کے سیاسی واقعات پر تبصرہ ہے۔ انقلابی پارٹی کی کارروائی رپورٹ ہے۔ جوں جوں وجے سنگھ اس کو پڑھتا تھا، اس کی آنکھوں میں وہی پرانی انقلابی چمک واپس آتی جا رہی تھی۔ غصہ۔ افسوس۔ خوشی۔ سب جذبات اس کی آنکھوں میں یکے بعد دیگرے نظر آ رہے تھے۔ رپورٹ پڑھتے ہی وہ پھر انقلابی لیڈر تھا۔ دوبارہ گرفتار ہونے سے پہلے اس کو اپنی پارٹی کو ہدایات دینی تھیں۔ اس نے بینا سے کاغذ اور قلم مانگا اور خط کا جواب لکھنے بیٹھ گیا مگر اس کا ہاتھ کانپ رہا تھا۔ چکی چلاتے چلاتے قلم پکڑنے کی عادت ہی نہ رہی تھی۔
خط ختم کر کے اس نے بینا کو دیا کہ اگلے دن حفاظت سے سکریٹری تک پہنچا دے۔ بینا نے گھڑی دیکھی۔ ابھی صرف سوا نو بجے تھے۔ خاموشی توڑنے کے لیے اس نے کہا، ’’ابھی آپ سونا چاہتے ہیں یا۔۔۔ یا کچھ دیر اور بیٹھنا ہے۔‘‘ وجے سنگھ کا جواب سن کر وہ دنگ رہ گئی، ’’میں سینما دیکھنا چاہتا ہوں۔ بولتا سینما۔۔۔‘‘ دفعتاً بینا کے دماغ میں سولہ برس قید کے ہولناک نتائج کی ایک جھلک بجلی کی طرح کوند گئی۔ سولہ برس ۲۷ء سے ۴۳ء تک یعنی وجے سنگھ نے کوئی ٹاکی ہی نہیں دیکھا تھا۔ نہ اس نے سہگل کی آواز سنی تھی نہ رمولا کا حسن دیکھا۔ نہ کانن بالا کے رسیلے گانے اور نہ چندرموہن کا کمال اداکاری۔ وہ تو بولتی ہوئی تصویروں کے جادو سے اتنا ناواقف تھا جیسے افریقہ کے تاریک ترین جنگلوں میں رہنے والا۔
سولہ برس وہ زندگی کے دلچسپ اور خوشگوار پہلوؤں سے محروم رہا تھا۔ سینما اور تھیٹر۔ گانا اور ناچ۔ بچوں کی آواز۔ غروب آفتاب کا رنگین منظر۔ چاند اور ستارے۔ برسات کی رم جھم اور گیلی مٹی کی خوشبو۔ درختوں کی چھاؤں۔ پھولوں کی بہار۔ ماں کی مامتا۔ اولاد کی امنگ۔ عورت کا پیار۔ کچھ بھی نہیں۔ بس ایک گندی اندھیری کوٹھری۔ جیل کے افسروں اور وارڈروں کی کرخت آوازیں، عادی مجرموں، ڈاکوؤں اور خونیوں کا ساتھ۔ زندگی کے سمندر میں موت کا یہ جزیرہ، انسانیت کی حدود سے باہر، دنیا کے بیچ میں، مگر دنیا سے بہت دور اور یہاں وجے سنگھ نے سولہ برس یعنی ایک سو بانوے مہینے تقریباً چھ ہزار مصیبت بھرے دن اور چھ ہزار کالی راتیں اور اس کے بعد صرف بارہ گھنٹے زندگی کے۔ بارہ گھنٹے روشنی، رنگ اور خوشبو کے۔ اس کے بعد پھر جیل خانے کے مہیب کالے دروازے بند ہو جائیں گے۔
میں سینما دیکھنا چاہتا ہوں۔ بولتا سینما۔ بچپن کی سادگی کے ساتھ وجے سنگھ نے کہا تھا۔ ہر انسان کی فطرت میں بچپن ہوتا ہے اور انقلابی بھی تو آخر انسان ہے۔ پھر کیا تعجب ہے کہ آج کی رات اس کے دل میں سینما دیکھنے کی یہ شدید آرزو پیدا ہو گئی۔ کیا معلوم ہے اب جو وہ جیل جائے تو پھر کبھی زندہ نہ نکلے۔ شاید سینما دیکھنے کی حسرت دل ہی دل میں رہ جائے۔
رام نگر میں ایک ہی معمولی سینما تھا۔ جہاں کئی سال کے پرانے ہندوستانی فلم دکھائے جاتے تھے۔
بینا تو وہاں ایک دفعہ بھی نہ گئی تھی مگر وجے سنگھ کو لے گئی۔ تماشہ شروع ہونے ہی والا تھا جب وہ ٹکٹ لے کر داخل ہوئے۔ روشنیاں گل ہو گئیں اور روپہلی پردے پر تصویروں نے حرکت شروع کر دی۔ فلم تھا ’’طوفان میل۔‘‘ پرانا زٹیل فلم مگر وجے سنگھ کے لیے تو معجزے سے کم نہ تھا۔ تصویروں کو چلتے پھرتے تو اس نے ضرور قید ہونے سے پہلے دیکھا تھا مگر گاتے بولتے دیکھ کر وہ بالکل دنگ رہ گیا۔ چارلی اور غوری کے بھونڈے مذاق پر وہ بچوں کی طرح ہنسنے لگا۔ کھلکھلا کر تالیاں بجا کر۔ دوسرے تماشائی مڑ مڑکر دیکھنے لگے۔ بینا کو پہلے تو ذرا کوفت ہوئی مگر فوراً ہی اس کو یہ خیال آیا کہ شاید سولہ برس میں پہلی بار وجے سنگھ ہنس رہا ہے اور یہ خیال آتے ہی اس کو ’’طوفان میل‘‘ فلم بھی اچھا لگنے لگا۔
مادھوری اور بلیموریا پردے پر محبت کا رنگین کھیل کھیل رہے تھے۔ بےباک۔ بے پروا۔ حیوانی محبت۔ وہ محبت نہیں جو شب فراق کے آنسوؤں میں ظاہر ہوتی ہے۔۔۔ بلکہ وہ محبت جو قہقہوں اور معنی خیز نگاہوں میں جھلکتی ہے۔ مادھوری ایک چست، بدن سے چپکے ہوئے لباس میں مجسم آرزو بنی ہوئی تھی۔ شہوانیت کا ایک شرارہ جس کی قربت ہر ایک کو جھلس دینے کو کافی تھی۔ اف رے اس کی شرارت آمیز، شہوت خیز باتیں، کٹیلی نظر۔ وہ اس کا سینہ کے ابھار پر ہاتھ رکھ کر ایک عجیب انداز سے کہنا، ’’ہائے۔ یہاں۔‘‘
وجے سنگھ بڑے انہماک سے فلم دیکھ رہا تھا مگر اس کا ہاتھ۔۔۔ کیا یہ بھول سے بینا کے ہاتھ پر رکھا گیا تھا۔ چکی پیستے پیستے ہاتھ سخت ہو گیا مگر پھر بھی اس میں ایک قسم کی نرمی تھی۔ کسی زمانے میں یہ ہاتھ نازک اور حساس رہا ہوگا۔ انگلیاں اب بھی لمبی اور نازک تھیں۔ وجے سنگھ تماشا دیکھ رہا تھا اور اس کا ہاتھ بینا کے ہاتھ پر رکھا تھا۔
وہ بینا کے ہاتھ کو دبانے کی کوشش نہیں کر رہا تھا، ’’شاید غلطی ہی سے یہ ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھا گیا ہو۔‘‘ بینا نے سوچا اور نرمی سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔
ہال میں اندھیرا تھا مگر پھر بھی بینا کو ایسا محسوس ہوا جیسے وجے سنگھ کو اس کا ہاتھ ہٹا لینا برا معلوم ہوا ہے۔ اس کے بعد فلم میں اس کی دلچسپی اور انہماک بھی ختم ہو گیا۔ تھوڑی دیر میں اس نے کہا، ’’چلو گھر چلیں۔ بس دیکھ لیا فلم۔‘‘ اور جب وہ باہر سڑک کی روشنی میں آئے تو وجے سنگھ ایک روٹھے ہوئے بچے کی طرح زمین پر نظریں جمائے چل رہا تھا۔
گھر پہنچ کر بینا نے اپنے پلنگ پر وجے سنگھ کے لیے بستر درست کر دیا اور اس سے کہا کہ آرام سے سو جائے کیونکہ صبح ہی اس کو شہر جانا تھا۔ اس کے بعد اس نے دوسرے کمرے میں فرش پر دری بچھا کر اپنے سونے کا انتظام کیا۔ ایک گلاس میں پانی بھر کر وجے سنگھ کے سرہانے رکھ دیا اور پوچھا، ’’اور کچھ چاہیے۔‘‘ وجے سنگھ نے نفی میں سر ہلا دیا مگر بینا نے بجلی کی روشنی میں دیکھا کہ اس کی آنکھیں اس کے چہرے پر گڑی ہوئی ہیں اور ان آنکھوں کی گہرائی میں وہی جنون، ان کی سطح پر وہی بچوں کی سی سادگی اور ساتھ ہی وہ حیوانی کشش بھی ہے جو پارٹی کے دفتر والی تصویر میں تھی۔ بینا کے دیکھتے ہی دیکھتے یہ آنکھیں دھندلا گئیں اور ان میں آگ کے بجائے دھواں سا، تحکم کی بجائے التجا سی جھلکنے لگی۔ بینا نے جلدی سے روشنی بند کی اور اپنے کمرے میں چلی آئی۔
مگر دونوں کمروں کے درمیان جو دروازہ تھا، اس کی چٹخنی اس کی طرف لگتی تھی جدھر وجے سنگھ کا پلنگ تھا۔ بینا نے کواڑ بھیڑتے ہوئے آواز دی، ’’مہربانی کرکے چٹخنی لگا لیجیےگا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اپنے بستر پر لیٹ گئی اور انتظار کرتی رہی کہ چٹخنی بند کرنے کی آواز آئے۔
ایک منٹ گزرا۔ دو منٹ۔۔۔ پانچ منٹ۔ دس منٹ اور بینا کو ایسا محسوس ہوا کہ جب تک چٹخنی بند نہ ہوگی، اسے نیند نہ آئےگی، مگر چٹخنی بند نہ ہوئی۔ بینا نے سوچا، ’’کیا وجے سنگھ سو گیا ہے؟‘‘ مگر دوسرے کمرے سے پلنگ پر کروٹیں بدلنے کی آواز آئی۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد ایسا محسوس ہوا جیسے وہ اٹھ بیٹھا ہو۔ پھر کمرے میں چلنے کی آواز۔۔۔ وہ سویا نہ تھا۔ ٹہل رہا تھا۔
بینا کو وجے سنگھ کی بے چینی کی وجہ معلوم تھی، اس لیے کہ وہ خود اس بے چینی کی وجہ تھی۔ سولہ برس کی تنہائی اور بے لطف زندگی کے بعد ’’طوفان میل‘‘ کی بےباک محبت کے سبق دیکھ کر اس کے سوئے ہوئے جذبات جاگ اٹھے تھے اور اپنی تسلی چاہتے تھے۔ کل صبح وہ پھر جیل چلا جائےگا۔ یہی چند گھنٹے باقی تھے۔ بینا نے اب تک اپنے آپ کو جنسی لذتوں سے محروم رکھا تھا۔ کیا اسی لیے کہ ایک کریہہ المنظر لمبی داڑھی والے، گندے اور بیمار بڈھے کی ہوس کی آگ بجھائے؟ اس نے ہمیشہ ایک خوبصورت تندرست نوجوان کے خواب دیکھے تھے۔
نوجوان جو اس سے محبت کرتا ہو۔ اس کے ساتھ اپنا تمام جیون بتانے کو تیار ہو۔ کہاں اس کے سپنوں کا وہ کڑیل جوان اور کہاں یہ مرجھایا ہوا بڈھا! نہیں ہرگز نہیں۔ وہ ہرگز ایسا نہیں کر سکتی۔
مگر بینا کے حساس مگر ہمدرد دماغ نے اسی صورت حال کو دوسری پوزیشن میں یوں پیش کیا۔ بیشک وجے سنگھ قبل از وقت بڈھا ہو چکا ہے۔ اس کے چہرے پر خوفناک داڑھی ہے۔ اس کی پیشانی پر جھریاں پڑی ہیں۔ اس کے سر پر پھنسیاں نکلی ہیں۔ اس کے منہ سے زرد اور گندے دانت جھانک رہے ہیں۔ مگر کیوں؟ بینا سوچ۔ سولہ برس ہوئے۔ یہی وجے سنگھ ایک خوبصورت کڑیل جوان تھا۔ تونے اس کی تصویر دیکھی ہے۔ کیا تو نے اس تصویر کی طرف تمنا بھری نظروں سے نہیں دیکھا؟ آج اسی وجے سنگھ کی یہ حالت کیوں ہے؟ کیوں؟ سولہ برس میں پچیس برس کا نوجوان اتنا بڈھا تو نہیں ہو سکتا۔
وجے سنگھ کیوں اپنی جوانی، اپنا حسن، اپنی تندرستی کھو بیٹھا؟ انقلاب کے لیے۔ بینا انقلاب کے لیے۔ اسی انقلاب کے لیے جس کی خاطر تو جان دینے کو تیار ہے مگر تو تو باتیں ہی بناتی ہے۔ اس نے تو کر دکھایا۔ اپنی جوانی، اپنی تندرستی، اپنے دوست اور عزیز۔۔۔ اپنے رومان بھرے خواب۔ سب کچھ انقلاب کے لیے قربان کر دیے۔ سولہ برس جیل میں کاٹے، کال کوٹھری میں رہا۔ کوڑوں کی مار کھائی۔ وارڈروں کی ٹھوکریں کھائیں۔ گالیاں سنیں۔ کس لیے۔۔۔؟ انقلاب کے لیے اور تو۔ تیرا دل اتنا چھوٹا ہے کہ آج تو اس وجے سنگھ کی داڑھی، اس کی جھریوں اور اس کی پھنسیوں کو نفرت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ لعنت ہے۔ لعنت ہے تجھ پر۔
دوسرے کمرے میں وجے سنگھ اب بھی ٹہل رہا تھا۔ قدم چلتے چلتے دروازے کے قریب آئے اور رک گئے۔ بینا کادل بھی حرکت کرتے کرتے رک گیا۔۔۔ نہ چٹخنی بند کرنے کی آواز آئی، نہ دروازہ کھلا۔
چند سیکنڈ کے بعد قدم واپس چلے گئے۔ بینا کا دل پھر حرکت کرنے لگا۔
’’نہیں وہ اپنی طرف سے پہل نہیں کرےگا۔ وہ حساس ہے۔ اس کو اپنی بدصورتی کا علم ہے۔ وہ تجھے چھیڑنے کی ہمت نہ کرےگا، اگر تو اس کمرے میں نہیں جائےگی تو وہ رات بھر ٹہل کر گزار دےگا اور صبح کو ایک لفظ کہے بغیر پھر جیل چلا جائےگا۔ جس نے سولہ برس یوں گزار دیے وہ تو باقی زندگی بھی گزار سکتا ہے۔ مگر تونے اس کو مایوس لوٹ جانے دیا تو اپنے آپ کو تو کبھی معاف نہ کر سکےگی۔ اس کی حسرت اور آرزو بھری نگاہیں ہمیشہ تیرا پیچھا کرتی رہیں گی۔‘‘
وجے سنگھ کے قدم چلتے چلتے رک گئے۔ پلنگ پر بیٹھنے کی آواز آئی۔ پھر لیٹنے کی۔
’’شاید سو جائے۔‘‘ بینا نے اپنے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی۔ مگر فوراً ہی کروٹیں بدلنے کی آواز آئی۔ اور یہ کیا؟ کیا بینا کے کان دھوکا دے رہے تھے یا واقعی وجے سنگھ رو رہا تھا؟ بینا گھبرا کر اٹھ بیٹھی۔ وجے سنگھ رو رہا تھا۔ وجے سنگھ جس کے متعلق مشہور ہے کہ جب اسے کوڑے مارے گئے تو وہ ہنستا رہا تھا۔ وجے سنگھ جو پھانسی کا حکم پاکر بھی مسکرایا تھا۔ وہی وجے سن جس نے پچاس دن بھوک ہڑتال کی تھی۔ جو نہ قید سے ڈرتا تھا نہ مار سے۔ جو موت سے گھبراتا تھا نہ کالے پانی کی سزا سے۔ وہی وجے سنگھ آج رو رہا ہے۔ بچوں کی طرح سسکیاں لے کر۔
وجے سنگھ کی آنکھیں بینا کے شہوانی جذبات کو بیدار نہ کر سکی تھیں۔ اس نے بینا کے ہاتھ کو چھوا تھا مگر یہ پیغام بیکار ثابت ہوا تھا۔ لیکن اس کو روتا دیکھ کر بینا کی مامتا جاگ اٹھی۔ بچوں کی ہر ضد پوری کرنی چاہیے اور ہندوستان کا سب سے بڑا انقلابی، نڈر وجے سنگھ بھی اس معاملے میں بچہ ہی تو تھا۔ باوجود اپنی داڑھی، اپنی پھنسیوں اور میلے میلے زرد دانتوں کے۔
بینا کے دل کی تہ میں سے رواجی اخلاقیات نے سر اٹھایا اور اس کو سمجھانے کی کوشش کی، ’’عصمت عورت کا بہترین زیور ہے۔ کیا تو اس کو یوں لٹادےگی؟‘‘ اور جب یوں بھی نہ مانی تو اس کو ڈرانے کی کوشش کی، ’’وہ بیمار ہے۔ اس کے پھنسیاں نکلی ہوئی ہیں۔ تجھے کوئی بیماری لگ جائےگی۔‘‘
مگر بینا اس وقت ان خوفناک سولہ برس کا خیال کر رہی تھی جو وجے سنگھ نے قید میں گزارے تھے۔ وہ طویل عرصہ جس میں وہ زندگی کی ہر دلچسپ اور خوشگوار رنگینی سے محروم رہا تھا۔ سینما اور رم جھم اور گیلی مٹی کی خوشبو۔ درختوں کی چھاؤں۔ پھولوں کی بہار۔ ماں کی مامتا۔
اولاد کی امنگ۔ عورت کا پیار اور کل پھر وہ اسی دوزخ میں جھونک دیا جائےگا۔ اور یہ زندگی کے بارہ گھنٹے یونہی گزر جائیں گے۔ وجے سنگھ اپنی پیاس کو ساتھ لیے واپس چلا جائےگا۔ وہ جس نے اپنی جان، قوم کی آزادی اور انقلاب کے لیے قربان کر دی تھی۔ اس کے واسطے ایک عورت چند گھنٹے کے لیے اپنا جسم بھی دینے کو تیار نہ ہوگی۔ عورت۔ نرمی۔ پیار۔ دل کے قریب ایک اور دھڑکن۔ سولہ برس تک وہ ان سے محروم رہا۔ اس وقت اس کو اگر یہ نصیب نہ ہوا تو شاید مرتے دم تک نصیب نہ ہو۔
نہیں وہ ایسا نہ ہونے دےگی۔ اس نے اپنی جان انقلاب کے لیے وقف کر دی تھی۔ اپنی جان اور اپنا جسم۔ اپنی عصمت بھی۔ وجے سنگھ کی قربانیوں کے سامنے اس کے حقیر جسم کی کیا وقعت تھی۔ اس سے بہتر جسم بازار میں پانچ پانچ روپے میں فروخت ہوتے ہیں۔ نہیں۔
وہ اپنی محبت سے، اپنے بدن کی گرمی سے وجے سنگھ کو آرام پہنچائےگی۔ چند گھنٹے میں سولہ برس کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش کرےگی۔ اس کے بدن میں وجے سنگھ کو چند لمحے کے لیے ہی سہی، پھولوں کی بہار، بچوں کی آواز، ماں کی مامتا، موسیقی کی جھنکار، غروب آفتاب کی رنگینی، برسات کی رم جھم سب کچھ مل جائےگا۔
اور آئندہ زمانے میں جب وہ جیل کی سختیوں سے تنگ آکر دنیا اور زندگی کی طرف سے مایوس ہونے لگےگا تو اسے ان چند گھنٹوں کی یاد آئےگی۔ ایک لڑکی کی یاد۔ ایک نوجوان جسم کی یاد۔ اور وہ مسکرا دےگا۔ مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے۔ وہ زندگی سے منھ موڑتے موڑتے رک جائےگا۔ وہ اپنے جسم اور دماغ اور دل کو زندہ رکھےگا۔ ہندوستان کی خاطر۔ انقلاب کی خاطر اور پھر جب ملک آزاد ہو جائےگا تو وجے مایوس اور شکستہ خاطر نہیں بلکہ مسکراتا ہوا قید خانے سے نکلے گا۔ تاکہ پھر اپنی قوم اور اپنے ملک کی خدمت کر سکے۔
لاکھوں اس کی کہانی سنیں گے اور اس کی قربانی اور ایثار سے ان کے سربلند ہو جائیں گے اور دل فخر سے بھر جائیں گے۔ اس وقت شاید وجے سنگھ بینا کا نام بھی بھول جائےگا۔ انقلابی حکومت کو چلانے کے کام میں اس کو ایک گمنام لڑکی کو یاد کرنے کی کب فرصت ہوگی۔ مگر اس وقت بینا کو وہ احساس فتح نصیب ہوگا جو ایک آرٹسٹ کو اپنا شاہکار دیکھ کر نصیب ہوتا ہے۔
بینا اٹھی، دروازہ کھولا اور دوسرے کمرے میں چلی گئی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.