Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بارگاہ خداوند

قرب عباس

بارگاہ خداوند

قرب عباس

MORE BYقرب عباس

    گاؤں کی دهند میں لپٹی سسکتی رات بےکسی کا لحاف اوڑهے سو رہی تھی اور ‘سونا’ بڑهاپے کے اندھیروں میں گم ہوتی بےثمر زندگی کا آخری کنارہ تهامے اپنے جائز ناجائز ہونے کی گتھیوں کو سلجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ پڑوسیوں کا لڑکا حسب معمول اپنے گهر سے لایا کھانا اور پانی رکھنے کے بعد کافی دیر تک بیٹھا رہا مگر سونے کی خاموشی کو دیکھ کر وہ بھی جا چکا تھا۔

    سونے کی طبیعت شام ہی سے مضمحل تھی۔ ذہن جلتے بجھتے دئیے کی طرح ٹمٹا رہا تھا۔ سماعتیں گزرے دنوں کے بے حیثیت لمحوں کی آنچ پر جل رہی تھیں۔ اگر زندگی ایک تحفہ تھی تو پھر کہیں جائز اور کہیں ناجائز کیوں تھی۔۔۔؟

    انہی خیالات کے دوران اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اسکے دونوں پاؤں اور دونوں بازؤں کو چمڑے کے پٹوں سے باندھ کر جائز اور ناجائز کے سینگوں والے دیو هیکل جِن مخالف سمتوں میں کھینچ رہے ہیں اور اسکے ریشے دهاگہ دهاگہ ہو کر ٹوٹ رہے ہیں۔ اس کے دل میں خواہش ابھری کہ کاش وہ اسی درد و کرب کی کھینچا تانی میں ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہو جائے اور معلوم ہو کہ اس کا وجود آخر ہے کیا؟ کیا جائز تھا اور کیا ناجائز؟ بوڑهے کانوں کے راستے بچپن کی گلیوں سے آتی کئی آوازیں اس کے دماغ کے گھڑیال بجانے لگیں۔

    یہ حرامی ہے۔ فاطی اور مرزے کا گناہ ہے۔ گاؤں کی بدنامی ہے۔ محلے کی بےغیرتی ہے۔ سونے حرامی، اوئے سونے حرامی، تیرا باپ کون ہے؟

    بہت سال پہلے ایسی ہی دھند میں لپٹی رات تھی جب سونے کی ماں فاطی اسی نیم تاریک کمرے میں پھولے ہوئے پیٹ پر ہاتھ رکھے آنسو بہا رہی تھی کہ بی بی جی اندر آئیں۔ فاطی اٹھ بیٹهی اور آنسوؤں کو پونچهتے ہوئے دھیمی سی آواز میں بولی؛

    “بی بی جی۔۔۔ بسم اللہ۔۔۔ مجھے بلا لیتیں، اتنی سردی میں کیوں تکلیف کی؟”

    بی بی جی ایک طرف بچھی چارپائی پر بیٹھ گئیں اور کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولیں؛

    “فاطی! تو کیوں ضد پر اڑی ہوئی ہے؟ کس کس سے لڑےگی؟ سمجھتی کیوں نہیں؟ یہ ناجائز بچہ کیسے پالےگی؟ تجھے گاؤں والے نہیں جینے دیں گے۔۔۔ میری بچی اسے گرا دے۔ ایک غلطی تو کر چکی ہے اب اسے جنم دے کر کیوں ساری زندگی کا عذاب مول لیتی ہے؟”

    یہ کہنے کے بعد فاطی کی آنکھوں میں دیے کی لو کی طرح تھرتھراتی التجاؤں کی روشنی دیکھ کر بی بی جی نے سر جھکا لیا۔

    “بی بی جی یہ غلطی نہیں ہے۔ بالکل بھی غلطی نہیں۔۔۔ مرزا اور میں نے تو محبت کی ہے اور سچ تو یہ ہے بی بی جی کہ مجھے شمو کی شادی کرانے والے لوگ بےحیا اور گنہگار لگتے ہیں۔ بیچاری اپنی بارات پر رو رو کر کہہ رہی تھی مجهے یہ شادی نہیں کرنی، میں فضل کی ڈولی میں نہیں بیٹھوں گی۔ آج اسی فضل کے چھ بچے پال رہی ہے۔۔۔ وہ جائز کیسے ہو گئے؟”

    فاطی کو سوال کا جواب نہ ملا تو وہ دوبارہ بولی “مرزا اورمیں نے تو محبت کی ہے۔ سچی محبت۔۔۔ شادی بھی کر لیتے اگر فیکا اُسکا بیری نا بنتا تو۔۔۔”

    بی بی جی نے سر اٹھا کر فاطی کی طرف دیکھا اور بولیں؛

    “فیکے کا بیر جائز ہے۔ تیرے تائے کا بیٹا ہے اور تیرے مرے ہوئے شوہر کا بھائی بھی۔تو شکر کر کہ چھوٹے چودھری نے مرزے کو راتوں رات بھگا دیا، ورنہ کیا کا کیا ہو جاتا اور فیکا تو تجھے بھی جان سے مار دیتا۔ اس کی خاموشی صرف میری وجہ سے ہے۔ دیکھا نہیں تھا کیسے غصے میں بھرا ہوا آیا تھا۔۔۔ کیسے بول رہا تھا۔۔۔ میں نے سختی سے ڈانٹا تو سر جھکا کر پلٹ گیا۔ عزت کرتا ہے میری مجھے اپنی ماں سے زیادہ اہمیت دیتا ہے، اسے قرآن پڑھاتی رہی ہوں۔ لیکن فاطی بات بہت الجھ گئی ہے، خدا جانے ٹلے گی بھی کہ نہیں”

    کچھ دیر کے لیے کمرے میں خاموشی رہی، پھر بی بی جی کی آواز نے اس خاموشی کو توڑا؛

    “مرزے کو بهگا دینا ٹھیک نہیں لگتا۔ چپکے سے شادی ہو جاتی۔ مگر فیکے کی آنکهوں میں اترا خون دیکھ کر کوئی اور حل بھی تو نہیں نظر آیا۔ شاید چھوٹے چودھری نے اسے واپس نہ آنے کی دهمکی دے کر صحیح فیصلہ کیا، ورنہ فیکے نے مرزےکو یا تم دونوں کو قتل کر دینا تها۔ سارے لوگ تو اسے بےغیرتی کا طعنہ دیکر بهڑکا رہے تهے۔ اندهے جذبات میں بہہ کر آدمی کسی وقت کچھ بهی کر سکتا ہے۔ مگر یہ بچہ اب سب کے لئے مسئلہ بن گیا ہے۔ میں کس کس سے لڑوں گی؟ تو کس کس کو صفائیاں دےگی؟ پاگل مت بن، اس بچے کو جانے دے۔”

    فاطی لکڑی کے دروازے کی طرف دیکھ کر کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی،آنکھیں دروازے پر اٹکی رہیں ہونٹ گویا ہوئے؛ “میری زندگی آپ سب کے سامنے ہے بی بی جی۔ ایک بار شادی ہوئی تو بیوہ ہو گئی۔ اس کے بعد میں نے کسی مرد کی طرف سر اٹھا کر نہ دیکھا تھا۔ مرزا آیا تو میرا بہت خیال رکھنے لگا۔ چھوٹی موٹی چیزیں، چھلے پراندے ریڑهی بازار سے میرے لئے خرید لاتا تھا۔ میں بھی گھر سے اپنے حصے کی مٹهائی کهانے پینے کی چیزیں لاتی تو دونوں مل کر کها لیتے۔ یہی کافی تھا، زیادہ کا کبھی سوچا نہ تھا۔ میں دل سے اس سچے اور کھرے انسان کی ہو گئی تھی۔۔۔ شادی کے خواب پورے نہیں ہو سکے تھے کہ اس بچے نے میرے اندر ہونے کا پتہ دیا۔۔۔ کس سے کہتی؟ جس کسی پر یقین کر کے اپنی بات بتائی، وہ سنتے ہی ڈر گئے، انھیں اپنی اپنی فکر پڑ گئی۔۔۔ کہیں میرے ساتھ واسطہ ان کے اپنے ہنستے بستے گهر نہ اجاڑ دے۔

    ان پڑھ ہوں۔ قران سنت سر آنکهوں پر، مگر بی بی جی اوپر والے نے اس میں روح اس لئے ڈالی کہ ہم سب اسے مار دیں۔”

    فاطی کے لہجے میں ایک کرب بھر چکا تھا وہ اس رات بضد رہی۔ کہہ رہی تھی، محبت تو انسان کو مکمل کرتی ہے، گناہ ادھورے لوگ کرتے ہیں۔ یہ بچہ گناہ یا کوئی غلطی نہیں، میں اسے پال پوس لونگی۔ اسی کے سہارے جی لونگی، مجهے بے آسرا نہ کریں بی بی جی۔ آپ نے بہت احسان کیے ہیں، ایک اور کر دیں، پوری زندگی نہیں بھولوں گی۔ اس بچے کو جنم لینے دیں۔ گاؤں والوں کا منہ بند کروا دیں۔ مرزا آئے گا تو ہم شادی کر لیں گے۔ اگر اس بچے کو مارنا ہی ہے تو ساتھ مجھے بھی مار دیں۔ بیشک زہر دیدیں۔ اس کے جذبات میں تلاطم تها۔ بی بی جی بھی ماں کا درد محسوس کر رہی تھیں، الفاظ کم پڑ رہے تهے۔ کمرے میں دوبارہ مکمل خاموشی اتر چکی تھی۔

    بی بی جی نے فاطی کو دوسرے گاؤں اپنے بھائی کے گھر بھیج کر بچے کے امکان کو حوصلہ تو دیدیا۔ لیکن مرزا کا کئی سال بیت جانے کے بعد بھی پتہ نہ چل سکا اور نہ ہی کبھی کسی نے فیکے کو دیکھا۔ مگر فاطی جانتی تھی کہ مرزا بےوفا نہیں تھا، زندہ ہوتا تو ضرور پلٹ کر آتا۔۔۔ اس نے سونے کو اپنی محبت کا حاصل سمجھ کر گلے سے لگائے رکھا۔

    بہت سال بیت جانے کے بعد آج نجانے کیوں اسی نیم تاریک کچے کمرے کے سناٹے میں ماضی کی آوازیں گونجنے لگی تھیں۔ دیواروں پر تصویریں بنتیں کبهی بگڑتیں۔ سونے کے اندر ایک عجیب سی بےچینی جنم لے چکی تھی۔ کیا عمر کے اس حصے میں پہنچ کر آخرت کا ڈر اس کے وجود کی شناخت مانگ رہا تها؟ یا پھر خدا کی بارگاہ میں اسے کسی اور جواب کی تلاش تھی؟

    اسے یاد آ نے لگا تھا کہ سارا گاؤں جہاں اس پر جملے کستا تھا وہاں ایک واحد سہارا ماں تھی۔ وہ اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیتی، ماتھا چومتی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ لیے بہت دھیمی سی آواز میں کہتی “سونے، تو تو میری جان ہے۔ میرا دین ایمان۔۔۔ سب کچھ۔ کون کہتا ہے توُ حرامی ہے؟ تو مرزے اور میری محبت کی نشانی ہے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو قبول کیا تھا۔ بھلا پیار محبت کے لیے کسی کاغذ پرچی کی ضرورت ہوتی ہے؟ تو میرا بیٹا ہے میں تیری ماں ہوں ہم دونوں ایک دوسرے کی دنیا ہیں، کیا یہ سچ نہیں؟ اس کے لیے بھی گواہوں کی ضرورت ہے؟”

    مامتا کے میٹهے بول کچھ ایسا رس گھولتے تھے کہ سونے کے سارے دکھ درد اس کے مساموں کے راستے نکل جاتے اور اسکا بوجهل دل ہلکا ہو جاتا۔۔۔ ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے اس کے سوا محبت کا وجود کہیں نہیں اور لوگ۔۔۔ یہ لوگ تو اسکے نزدیک کسی بنجر زمین میں کهارے پانی کے بدبودار جوہڑ ہیں۔

    اس نے بےچین ہو کر کروٹ لی اور منہ دیوار کی طرف کر لیا۔ بوسیدہ لباس سے گزرتی سردی کی لہر اس کے وجود کو سن کرنے لگی تھی۔۔۔ بند ہوتے پپوٹوں سے سامنے موجود دیوار دهواں بن کر تحلیل ہو گئی اور دور کہیں کسی گمنام قبرستان سے اس کی ماں کی کہی سنی باتیں پهر سے خود کو دهرانے لگیں۔

    “سونے تیری تو شادی بھی نہ کر سکی۔ تجھے اس دنیا میں لا کر میں نے کوئی غلطی تو نہیں کر دی؟”

    “نہیں۔ کوئی غلطی نہیں کی۔ تو ایسا کیوں کہتی ہے؟ پہلے کبھی ایسا نہیں کہا۔ اپنے پیار سے میرا حوصلہ بڑھاتی آئی ہے اور اب کیوں ایسی باتیں کر رہی ہے۔”

    “تو جانتا ہے تیرا نام سونا کیوں رکھا۔۔۔؟ مرزا کے جانے سے پہلے میں نے اسکے ماں باپ کا نام پوچھ لیا تھا، ماں کا نام ممتاز اور باپ کا نام سونا خان بتایا تها۔۔۔ بیٹی ہوتی تو ممتاز ہوتی، تو ہوا تو مجهے سونا مل گیا۔” اس کی آنکھیں بھر آئیں۔ “پر سونے تجھے دنیا نے بہت ستایا ہے۔۔۔”

    سونا بیزار ہو کر اٹھ بیٹھا۔۔۔ ان کہے ، ان سمجھے خیال اظہار مانگنے لگے۔۔۔ کہ جیسے کچھ اس ترتیب میں نکلنے کو بے تاب ہوں؛

    “کاش یہ اس خدا کی دنیا بھی مجھ سے میری ماں جتنا پیار کر سکتی۔۔۔”

    لیکن ایسا کچھ کہا نہ گیا۔۔۔ ہونٹوں نے کچھ ایسے الفاظ کو آزاد کیا؛

    “کیا خدا کا پیار میرے لیے بھی ستر ماؤں جتنا ہے۔۔۔؟

    ہاں۔۔۔ تو اس نے اپنے بندوں کو بتایا کیوں نہیں کہ میں بھی ان جیسا بندہ ہوں؟”

    رات اس کے اعصاب پر بهاری ہو چکی تھی۔ خیالات کا الاؤجل رہا تها۔ جسم بے جان ہونے لگا تھا۔ آنکھوں میں اس ناجائز دنیا کا غبار بهر چکا تها کہ اتنے میں فجر کی آذان ہوئی۔ وہ لحاف سے باہر نکلا اور قریب پڑی لاٹھی تھام کر آہستہ آہستہ پاؤں گهسیٹتا خدا کی دہلیز تک پہنچ گیا۔ رک کر ایک نظر گنبد کو دیکھا اور پھر اپنا بایاں پاؤں آگے بڑھایا۔ کچھ سوچتے ہوئے اس پاؤں کو واپس زمین پر رکھا اور دایاں پاؤں مسجد کے اندر رکھ کر آگے داخل ہوا۔مولوی صاحب آذان دے کر فارغ ہو چکے تھے، انھوں نے کن اکھیوں سے سونے کو آتے دیکھا تو اپنا رومال سر پر درست کرتے کرتےمصلے پر بیٹھ گئے۔ سونا ان کے قریب پہنچ کر بولا”سلام لکم مولوی جی”

    جواب میں مولوی صاحب کی معمولی سی آواز ابھری “والیکم”

    سونا گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر مولوی صاحب کے سامنے بیٹھ گیا۔

    “مولوی جی۔۔۔ ایک بات پوچھنی تهی۔

    “کیا بات؟” مولوی جی نے اپنا دامن جھاڑا۔

    سونے نے کچھ پل مولوی صاحب کے چہرے کو دیکھا اور پھر اپنی گردن جھکا کر کہنے لگا۔ “مولوی صاحب۔۔۔ پوچھنا تھا کہ۔۔۔ آپ تو سب جانتے ہیں، میں جائز نہیں ہوں”

    یہ کہہ کر سونا اپنے ہاتھوں کو دیکھنے لگا اور پھر کچھ دیر کے بعد دوبارہ بولا ”زندگی کا کچھ پتہ نہیں۔ ایک کمرے کا گھر ہے، اسے بیچ کر حج کرنا چاہتا ہوں ۔ مکے جانا چاہتا ہوں۔۔۔ کچھ باتیں کرنی ہیں۔۔۔ مولوی صاحب میرا حج قبول ہوگا۔۔۔ کہ نہیں؟ یا خدا بھی اپنے بندوں کی طرح مجھ پر لعنت بھیجےگا؟”

    سونے کی آواز آخری الفاظ پر آکر بھرا گئی تھی۔۔۔ وہ کچھ دیر کے لیے بالکل خاموش ہو گیا۔۔۔ آنکھیں بند تھیں۔۔۔ آنسو رواں تھے، کچھ توقف کیا کوئی جواب نہ ملا، اس نے جھجھکتے ہوئے سر اٹھا کر دیکھا۔۔۔ تو سامنے کوئی نہ تها، مولوی صاحب جاچکے تھے۔

    خدا کا گھر تھا۔۔۔

    وہ تھا۔۔۔

    اور وہ تنہا تھا۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے