باسی پھول (۱)
وہ اپنے چھتے پر کھڑی محو نظارہ تھی اور میں اپنی کھڑکی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ ہمارے درمیان صرف ایک دوگز چوڑی گلی تھی اور دونوں کوٹھوں کے نیچے دوکانداروں اور آنے جانے والوں کا مجمع، گو اس کے کوٹھے کے سامنے چلمن پڑی تھی۔ لیکن وہ اس کے بوٹے قد، چھریرے بدن اور آفتابی چہرے کو مجھ سے نہ چھپا سکی، اس نازک ا ندام کے جسم پر فالسی ساری، چست ہلکا گلابی شلوکا اور پیروں میں سیاہ بوٹ تھا اور اس پیکر رعنائی میں ایک عجیب خداداد جذب تھا، جو میرے جیسے خشک آدمی کو اپنی طرف کھینچ رہا تھا۔
دفعتاً اس نے میری جانب مڑ کر دیکھا، اس کے پنکھڑیوں سے ہونٹ کھلے۔ ایک ہلکی سی آواز ’’اوئی‘‘ کی سنائی دی، اس نے جھجک کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنا چہرہ چھپا لیا اور گھبراکر وہیں بیٹھ گئی۔ اس کا جسم غصے، خوف اور شرم سے کانپنے لگا۔ میں نے غیرت سے منہ پھیرلیا اور جب پلٹ کر دیکھا تو وہ وہاں موجود نہ تھی۔
جذب متقاضی تھا کہ میں وہیں کھڑا رہوں۔ حمیت کا اصرار تھا کہ یہاں سے کھسک چلو۔ جنگ سخت تھی، لیکن غیرت و شرافت کی جیت رہی اور میں اپنے کمرے میں چلا آیا۔ تھوڑی دیر ادھر ادھر ٹہلتا رہا، بالآخر علم النفس کی کتاب کھولی، تخئیل و حسیات کا باب کھلا۔ دوچار سطریں پڑھی ہوں گی کہ جذبات کا بیان نکلا اور غور سے پڑھنے لگا۔
محبت کے وجوہ اور اس کے اسباب پر نظر ڈالی، فلسفیوں کی بحثیں دیکھیں، اس جملے کو بار بار پڑھ کر سوچنے لگا ’’ہر شخص اپنی معشوقہ کی ایک ذہنی تصویر اپنے دماغ میں رکھتا ہے اور جب اس سے ملتا جلتا چہرہ دکھائی دیتا ہے تو وہ فطرتاً پہلی ہی نظر میں اس کی طرف کھنچ جاتا ہے۔‘‘ میں نے دل سے پوچھا ’’کیا میری معشوقہ سنہرے چہرے کی، غزالی آنکھوں والی ہے؟‘‘ دل بولا ’’مجھے اس وقت فلسفہ یاد نہیں!‘‘
میں نے علم النفس کی کتاب پھینکی اور تاریخ روم اٹھائی، پہلے ہی ’’انٹنی‘‘ اور ’’کلوپیڑا‘‘ کے قصے پر نظر پڑی اور میں نے دیکھا کہ جس نیلی ناگن نے جولیس سیر سے فاتح کو ڈس کر مدہوش بنا دیا تھا، وہ بعد میں انٹنی کے گلے کا ہار ہوئی۔ میرے جذبات سے مملو دل پر چوٹ سی لگی اور میں نے کتاب دور پھینک دی اور ملٹن کی پیریڈائز لاسٹ اٹھائی، اب جو دیکھتا ہوں تو ساری انسانی کمزوریوں کے ذمہ دار حضرت آدمؑ و حوا، ایک دوسرے کی محبت میں سرشار، گلے میں باہیں ڈالے۔ گیہوں کے درخت کی طرف جارہے ہیں۔ میں نے اسے بھی غصہ سے بند کرکے میز پر رکھ دیا۔
چونکہ میری الجھن بڑھتی جاتی تھی اس لیے اس کے رفع کرنےکے لیے میں نے قلم و دوات اور کاغذ اپنی طرف کھینچا اور اپنے دوست محمود صاحب کو خط لکھنے لگا، ابھی پانچ سطریں بھی نہ لکھی ہوں گی کہ بجائے اس کے کہ یہ لکھوں کہ علامہ اقبال کا ’’پیامِ مشرق‘‘ بھیج دینا۔ فالسی ساری گلابی شلوکا لکھ گیا۔ میں نے گھبراکر خط کو دیکھا پھر اپنے ہاتھوں کو اور پھر اس حصے کو جہاں میں تھوڑی دیر پہلے محوِ تماشا تھا اور ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خط چاک کرکے پھینک دیا۔
پھر کرسی سے اٹھا اور ایک عجیب طرح کی گھبراہٹ سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ پانچ منٹ اس حالت میں نہ گزرے تھے کہ میرے پیروں نے مجھے اسی گوشے میں لاکر کھڑا کر دیا جہاں سے وہ چلمن نظر آتی تھی۔ میں کھڑا کھڑا چلمن کی تیلیاں گننے لگا۔ بارہا کوشش کی۔ لیکن دس بارہ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ جب میں تین چار گن لیتا، میری تخئیل چلمن کے پیچھے ایک بوٹا سا قد، فالسی ساری اور گلابی شلوکا پہنے لاکر کھڑا کر دیتی اور میں تیلیوں کی تعداد بھول جاتا، پھر شروع کرتا اور پھر ایک سنہرے چہرے پر سامنے کے دو چار ہلکے پتلے سیاہ چمکدار بال ہوا میں اڑتے اور کانوں کے دونوں گوشوارے آہستہ آہستہ گالوں کی طرف بڑھتے اور جھکتے دکھائی دیتے اور مجھے دس کے بعد گیارہ نہ یاد آتا اور میں پھر انگلیوں پر گننا شروع کر دیتا۔
تھوڑی دیر اسی حماقت میں گزری تھی کہ دفعتاً غیرت و شرم کے ایک چھینٹے نے مجھے چونکا دیا۔ کمرے میں پلٹ کر میں نے لنگی باندھی اور کپڑے اتار کر نل کے نیچے بیٹھ گیا۔ سر پر پانی جیسے جیسے پڑتا جاتا تھا میرے حواس بجا ہوتے جاتے تھے۔ گویا پانی نے میرے احساسات، توہمات اور جذبات سب کو دھو دیا۔ تھوڑی دیر میں مجھے اتنا ہوش آیا کہ میں نے ملازم کو آواز دی اور اس سے تولیا اور دوسری لنگی مانگی اور کپڑے نکالنے کو کہا۔ کپڑے پہن کر میں نے نماز پڑھی اور امین آباد کی طرف تفریح کے لیے روانہ ہو گیا۔
امین آباد سے واپسی پر میں نے دوسرے دن کے سبق کی تیاری کے لیے پڑھنا شروع کیا۔ لیکن کتابوں میں کسی طرح جی نہ لگا۔ ہر دس منٹ کے بعد کھڑکی کا طواف کر آتا۔ لیکن جب امید برنہ آئی تو ناکامی نے غیرت کو پھر ابھارا اور دل پر جبر کرکے پلنگ پر پڑ رہا۔ دوسرے دن سہ پہر تک میری یہی حالت رہی۔ لیکن پانچ بجتے ہی میری جھجک دفعتاً رفع ہو گئی اور پھر میں اپنی کھڑکی پر کھڑا تھا۔
سامنے کی چلمن قدرے دونوں جانب سے ہٹی ہوئی تھی، تین پری وشیں، اپنے چاند سے چہرے نکالے، نیچے کی طرف جھانک رہی تھیں۔ بیچ میں وہی فالسی ساری والی، ہلکی ساری زیبِ بدن کئے کھڑی ہنس ہنس کر دونوں کو منع کر رہی تھی کہ ’’ارے کوئی دیکھ لےگا!‘‘ کہ اتنے میں نظر اوپر اٹھی اور میرے چہرے پر پڑی اور اس نے جلدی سے آنچل کو گھونگٹ نما چہرے پر ڈال لیا۔ میں آڑ میں چلا آیا۔ وہ دونوں سہیلیوں کو کھینچ کر بولی۔ ’’اے نوج کوئی ایسا محو ہو جائے! وہ ذرا سامنے تو دیکھو!‘‘
داہنی جانب والی سہیلی منہ بناکر بولی ’’اے ہٹو بہن کوئی موا ہوگا۔ وہ اپنی آنکھیں خود پھوڑتا ہے۔ ہمیں کیا؟‘‘ اور پھر نیچے سڑک کی جانب دیکھنے لگیں۔
میں یہ جملہ سن کر خواہ مخواہ مسکرایا اور میں نے ڈرتے ڈرتے پھر اس کی طرف دیکھا۔ وہ مجھے کنکھیوں سے دیکھ رہی تھی۔ لیکن آنکھوں کا ملنا تھا کہ اس نے منہ پھیر لیا اور وہیں اپنی سہیلیوں کے پیچھے سمٹ کر بیٹھ گئی۔ چہرے کا جو حصہ دکھائی دیتا تھا اس کی سرخی غصہ کا پتہ دیتی تھی۔ آنکھوں میں شرم، حوف و استعجاب سب کی تھوڑی تھوڑی جھلک موجود تھی۔ میں نے دیکھا کہ دفعتاً ایک چھوٹے سے خوبصورت رومال سے چہرا پونچھا گیا۔ اس ادا نے میرے دل پر نشتر کا کام کیا۔ اللہ میرے دیکھنے سے عرق شرم آ گیا۔ میں نے اس لیے کھڑکی بند کر لی اور وہاں سے چلا آیا۔
کمرے کے قریب آکر کھڑا ہو گیا۔ تھوڑی دیر تک سوچتا رہا کہ کیا کروں پھر چاقو اٹھایا، اس سے میز پر کھٹکھٹایا کیا اور دل سے لڑاکیا۔ بالآخر ایک سگریٹ جلائی اور وہیں میز پر پیر لٹکائے بیٹھ گیا۔ جسم کی تشنجی کیفیت شاید پیروں میں سمٹ آئی تھی۔ اس لیے کہ وہ خود بخود ہلنے لگے۔ میں نے گھبراکر سگریٹ کے پانچ سات کش پئے لیکن دم گھٹنے لگا۔ اس لیے سگریٹ تو میں نے جھلاکر پھینکی اور پھر سیدھا کھڑکی پر پہنچا۔ تھوڑی دیر یوں ہی چپکا کھڑا رہا۔ بالآخر نہ برداشت کر سکا اور چپکے سے کھڑکی کھولی۔ دیکھا کہ دونوں حوروشیں اسے بھی کھینچ رہی ہیں کہ ’’صابرہ! اک ذرا تم بھی جھانک کر دیکھ لو۔‘‘ لیکن وہ لجا لجاکر رہ جاتی ہے۔ آخر استعجاب نے جو زنانی فطرت میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے اسے مجبور کر دیا کہ وہ بھی دونوں کے ساتھ جھک کر نیچے دیکھنے لگے۔
اب تینوں مہوشیں وہیں کمرے کے فرش پر بیٹھی ہوئی تھیں اور آنچل کا ایک حصہ ان کی پیٹھ پر پڑا تھا۔ صابرہ ان کے بیچ میں بالکل اس طرح تھی جیسے ستاروں کے جھرمٹ میں چاند۔ وہ اپنی دونوں کہنیاں چھتے کے فرش پر ٹیکے، دونوں ہتھیلیوں پر اپنا پیارا رخسارہ رکھے، نیچے دیکھ رہی تھی اس کی صراحی دار گردن کا وہ جھکاؤ اور اس کے سیاہ بالوں کی وہ چمک، جسے اس وقت ڈوبتے ہوئے آفتاب کی زرد زرد شعاعیں اور بھی چمکا رہی تھیں، ایک محشر خیز منظر تھا۔ میری حریص آنکھیں اس کے اعضا کے تناسب اور جسمانی خوبیوں کو دیکھنے لگیں کہ فطرتی کشش نے اسے میری موجودگی کی خبر دی اور اس نے آنکھ اٹھاکر دیکھا اور مجھے پھر سامنے پایا۔
میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھوں کا رنگ متغیر ہو گیا اور ان سے شعاعیں نکلنے لگیں۔ میں خوف سے کانپ کر پیچھے ہٹاتھا ہی کہ دفعتا اس کے ہونٹوں کے کونے ہلنے لگے اور چہرے پر کچھ مسکراہٹ سی ظاہر ہوئی اور اس نے پھر میری جانب دیکھا۔ آنکھوں نے پوچھا ’’کیا تم نہ مانو گے؟ کیا میں تماشا نہ دیکھوں؟‘‘ میں نےآنکھوں سے لجاحت سے پوچھا ’’کیا میں چلا جاؤں؟‘‘ پھر ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ دکھائی دی اور سہیلیوں کا شانہ پکڑ کر ہلایا گیا۔ پھر دونوں بولیں ’’کیا ہے؟‘‘ انگلی سےمیری جانب اشارہ کیا گیا۔ دونوں ایک اجنبی کو یوں سامنے دیکھ کر جھجکیں۔ چلمن چھوڑلی گئی اور سب کی سب کھڑی ہو گئیں۔
بائیں جانب والی سہیلی دفعتاً پلٹ پڑی اور میری طرف رخ کرکے بولی ’’کیا نوجوان شریفوں کا اب یہی دستور ہے کہ پرائی بہو بیٹیوں کو گھوریں؟‘‘ میں شرم سے عرق عرق ہوگیا اور میرے ہاتھ کھڑکی کے پٹ کی طرف بڑھے اور میرے قدم پیچھے ہٹے، لیکن قبل اس کے کہ میں کھڑکی بند کر سکوں، داہنی جانب والی شوخ نے مجھے جھک کر سلام کیا اور مسکراکر بولی ’’لیجیے ہم لوگ جاتے ہیں، اب تو آپ کے دل کی مراد پوری ہوئی!‘‘ میں نے جلدی سے کھڑکی بند کر لی اور سامنے والے کوٹھے سے سریلی اور پرترنم آوازوں میں ایک ہلکے سے قہقہے کی آواز سنائی دی۔
کمرے میں واپسی پر میں بہت دیر تک اس مسئلہ پر غور کرتا رہا کہ قدرت نے ایک صورت میں ،جو مجموعہ ہے تھوڑے سے بالوں، کچھ ہڈیوں، کچھ گوشت اور چند عدد ناخن کا اور جو مشرقی فلسفیوں کے نظرئیے کے مطابق مٹی پانی، ہوا اور آگ سے بنائی گئی ہے۔ اس بلا کی دلآویزی کیونکر ودیعت کر دی ہے، نہ تو دائرے درست ہیں۔ نہ سطح برابر ہے، نہ خطوط متوازی ہیں اور نہ مستقیم اور پھر اتنی دلفریبی! جتنا ہی میں انسانی اعضا۔ ان کی ساخت ان کی اقلیدسی شکلوں پر غور کرتا تھا۔ اتنی ہی میری حیرت بڑھتی جاتی تھی۔
میں نےتحقیق کے لیے علم التشریح کی ایک کتاب اٹھائی اور آنکھوں کا بیان پڑھنا شروع کر دیا۔ مصنف نے آنکھوں کے پردے، ان کی رگوں کی باریکیاں اور نزاکتیں سب کے متعلق بہت ہی تحقیق کی تھی لیکن اس نے کہیں یہ نہ لکھا تھا کہ غصے میں ان سے شعلے کیوں نکلتے ہیں۔ رنج میں ان کی آب و تاب کہاں چلی جاتی ہے اور محبت میں ان کی سیاہی اور گہرائی کیوں بڑھ جاتی ہے، ان کے اشارے دشنہ و خنجر اور ان کی غلط انداز نگاہیں تیر نیم کش، کیوں بن جاتی ہیں؟ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ محقق فلسفہ جذبات سے بالکل نابلد تو تھا ہی، اس کے ساتھ ہی اس نے سوائے کتابوں اور سوکھے مردوں کے کبھی کسی جیتی جاگتی توبہ شکن عورت سےمحبت بھی نہیں کی تھی۔
میں نے اس کی مدلل مگر بےنمک تحریک سے تھک کر کتاب رکھ دی اور پھر ایک نئی سوچ میں گرفتار ہو گیا۔ قابل غور یہ امر تھا کہ کیا مجھے اس صورت سے جو چلمن کی پشت سے جلوہ نمائی کرتی ہے۔ محبت ہے؟ مجھے اس خیال پر ہنسی آئی، میں نہ تو ایسا چھچھورا تھا اور نہ اتنا بیوقوف کہ حسن کی دیوی کو بھی دوبار دیکھنےکے بعد یہ خیال کرنے لگوں کہ اس سے محبت ہو گئی ہے۔ لیکن اگر ایسا نہ تھا تو پھر بےچینی کاہے کی تھی؟ مجھے کل سے نہ تو اپنے کھانے کا خیال تھا اور نہ اپنے پڑھنے کا۔ دن میں کالج تو گیا تھا، لیکن پروفیسروں کے لکچر کے درمیان اکثر یہ خیال ہوتا تھا جیسے کوئی فالسی ساری پہنے منہ چھپائے بیٹھا ہے اور میرے ذہن سے کتاب کے معانی و مطالب سب معدوم ہو جاتے تھے، میرے ساتھی ہنس ہنس کر باتیں کرتے تھے اور درمیان گفتگو میں ایک سریلی پیاری آواز میں ’’اوئی‘‘ کا لفظ سنائی دیتا تھا اور میری آنکھوں سے مسرت غائب ہو جاتی تھی۔
کالج سے آکر میں شیروانی اتارنے لگا تو مجھے شبہ گزرا کہ میری قمیص کا رنگ بھی فالسی ہے، شک رفع کرنے کے لیے میں نے ملازم سے پوچھا، وہ گھبرا گیا اور جلدی سے شربت کا ایک گلاس برف دے کر لے آیا، میں نے پوچھا کہ ’’یہ کیا ہے؟‘‘ وہ کہنے لگا ’’میاں آپ ابھی دھوپ سے چلے آتے ہیں اس وجہ سے ذرا اسے پی لیجیے، پھر آنکھوں کی چکاچوند جاتی رہےگی۔‘‘ میں نے ایک حسرت بھری مسکراہٹ سے اسے دیکھا اور چپکا شربت پینے لگا۔ اگر کہیں میں اس سے یہ کہہ دیتا کہ شربت کا رنگ بھی فالسئی ہے تو وہ ڈاکٹر کو ضرور بلا لاتا اور میری اصلاح دماغ کی فکر کیے بغیر نہ رہتا، اس لیے میں نے سکوت کیا اور دل میں اس کی اور اپنی حماقت پر زہرخندہ کرتا رہا۔
اپنی حالت پر شب کو اردو کی ایک مثل یاد آئی ’’ساون کےاندھے کو ہرا ہی ہرا سوجھتا ہے۔‘‘ اور میں بہت دیر تک ہنسا کیا۔ میں نے اپنی قوت ارادی سے کام لے کر ان خیالات کو اپنے دل سے نکالا اور نیند بلانے کے لیے تارے گننے لگا۔ دفعتاً زہرہ پر نظر پڑی، نام یاد آتے ہی صابرہ کی آنکھیں یاد آ گئیں اور زہرہ کا رنگ پھیکا پڑ گیا۔ اسکی چمک دمک اس کی خنکی اور قوت خیر گی سب جاتی رہی۔ میں نے اپنی کمزوری پر لاحول بھیجی اور کروٹ لے لی۔ مجھے اپنے پر سخت غصہ تھا، بلکہ اس کے ساتھ ہی ساتھ اپنے اس نئے رنگ سے نفرت سی ہوچلی تھی۔ میں اس خبط پر خفا ہی ہو رہا تھا کہ کھڑکی کی طرف سے ایک پرترنم قہقہے کی آواز آئی۔ سارا فلسفہ ہوا ہو گیا۔ ساری خودداری جاتی رہی اور میں کھڑکی کے پاس پہنچ گیا۔
اس وقت چلمن اٹھی ہوئی تھی۔ کمرے میں قالین پر ایک سپید دسترخوان بچھا ہوا تھا اور اس پر طرح طرح کی نعمتیں چنی ہوئی تھیں، دسترخوان کے دونوں پہلوؤں پر دونوں سہیلیاں اور بیچ میں صابرہ بیٹھی تھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے یہ قہقہہ میرے بلانے کے لیے تھا۔ اس لیے کہ میرے آتے ہی تینوں نگاہیں ایک ساتھ اٹھیں، دو بجلیوں نے مجھے دو جانب سے گھیر کر بے بس کر دیا اور تیسری بجلی دل برماتی ہوئی جگر کے پار ہو گئی۔
سہ پہر والی شوخ نے ایک نیم خندہ سے دسترخوان کی طرف اشارہ کیا اور بولی ’’کھانا حاضر ہے‘‘۔ میں بے تکان بول اٹھا ’’آپ کے پوچھنے کا شکریہ لیکن میں تو خون جگر کھاتا ہوں، وہ یہاں موجود نہیں!‘‘ دوسری بولی ’’اے نوج یہ بھی بھلا کوئی کھانے کی چیز ہے؟‘‘ صابرہ کے چہرے پر سرخی جھلک آئی، اس نے کنکھیوں سے مجھے دیکھا اور پھر نگاہیں نیچی کر لیں۔
چونکہ تینوں میرے جواب کی منتظر معلوم ہوتی تھیں اس لیے میں نے کہا ’’اجی اس کا مزہ کچھ کھانے والے ہی جانتے ہیں، نہایت ہی تلخ اور نہایت ہی شیریں!‘‘
پہلی شوخ نے چمک کر کہا ’’جی ہم لوگوں کو تو معاف رکھیے، خدا آپ ہی کو مبارک کرے!‘‘ میں نے عرض کیا ’’میری تو دعا یہی ہے کہ آپ لوگوں کو خدا اس نعمت سے محروم ہی رکھے!‘‘
دوسری صاحبہ بول اٹھیں ’’یہ آپ کی محبت ہے۔‘‘ جو اب میرے لبوں تک آ چکا تھا، کہ صابرہ نے میرے مخاطب کے اس زور سے چٹکی لی کہ وہ بیچینی سے اف کرکے پلٹ پڑی اور صابرہ نے نہ معلوم کیا چپکے سے کہا کہ تینوں نے ایک قہقہہ لگایا، وہ میری طرف دیکھی جاتی تھیں اور ہنسی بڑھتی جاتی تھی، میں اپنی جھینپ مٹانے کے لیے کچھ کہنے والا تھا ہی کہ ایک ماما کی جھلک دکھائی دی اور میں اپنی کھڑکی کے سامنے سے کھسک آیا۔ تھوڑی دیر میں وہ اندر واپس چلی گئیں اور میں کھڑکی پر پھر آموجود ہوا۔
مجھے دیکھتے ہی ایک شوخ بول اٹھی۔ ’’اجی میاں ہمسائے آپ بڑے بھوکے معلوم ہوتے ہیں۔‘‘ میں نے کہا ’’جی ہاں طالب علم ہوں، اس پر گدائے حسن!‘‘
وہ بولی۔ ’’جی ہاں جب ہی تو آپ کسی کو نگاہوں نگاہوں میں کھائے جاتے ہیں۔‘‘ صابرہ نے پھر ایک چٹکی لی اور دونوں کھل کھلاکر ہنسنے لگیں۔
میں نے جواب دیا کہ ’’آپ کا فرمانا بالکل بجا ہے لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ پیٹ نہیں بھرتا، دل بھر آتا ہے!‘‘
صابرہ نے میری طرف شرماتے ہوئے دیکھا نگاہوں میں ندامت و غیرت بھری تھی اور مجھ سے کہہ رہی تھیں کہ ’’للہ اب یہاں سے چلے جاؤ، کیوں میری رسوائی کراتے ہو؟‘‘
میں نے دل پر جبر کیا۔ متانت سے سر جھکایا، آنکھوں سے کہا ’’جیسا حکم!‘‘ اور کھڑکی بند کرکے چلا آیا۔
کئی ہفتہ اسی طرح کے نظارے اور مکالمے میں گزرے اور بیچینی و اضطراب میں روزبروز زیادتی ہی ہوتی گئی۔ بالآخر ایک دن صبح کو میں نے دو جوڑے کپڑے اور کچھ کتابیں ہینڈ بیگ میں رکھیں اور بارہ بنکی اپنے دوست رضا علی صاحب کے یہاں چلا آیا۔ لکھنؤ سے آنا محض ان سے ملنے کی غرض سے بنہ تھا اور نہ بارہ بنکی میں کوئی ضروری کام تھا، یہ صرف تقاضائے شرافت تھا یا یوں کہیے کہ عقل لے بھاگی تھی۔ یا یوں سمجھیے کہ حضرتِ دل کی ۔نذر کا معاوضہ لینا منظور نہ تھا۔
میں رضا علی صاحب کے یہاں تین روز تک مقیم رہا، جہاں تک ہو سکا میں نے دل بہلانے اور دنیا کے بہترین رنگ کے بھول جانے کی کوشش کی۔ چوتھے روز بارہ بنکی سے پھر پلٹا۔ جب اپنے محلے کی گلی میں پہنچا تو میں نے دیکھا کہ معمول سے زیادہ ہجوم ہے اور کچھ باجوں کے بجنے کی آواز آ رہی ہے۔ میں نےاس وقت جلدی میں اس پر دھیان نہیں دیا اور ملازم کو آواز دیتا ہوا سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ نہا دھوکر جب ذرا سفر کا تکان رفع ہوا اور میں آدمی بنا تو مجھے محسوس ہوا کہ مجھے کوئی خاص قوت کھڑکی کی جانب کھینچ رہی ہے اور میں اپنی حماقت پر افسوس کرتا، پیچ و تاب کھاتا، لیکن بےبس کھڑکی پر آیا۔
سامنے چلمن پر آج پھولوں کے ہار پڑے تھے اور کمرے میں ہر طرف پھول ہی پھول دکھائی دیتے تھے۔ گلدستے گلدانوں میں، بڑے بڑے ہار دیواروں پر، گلوں میں بدھیاں، جوڑوں میں گلاب کے پھول۔ غرض ہر طرف بہار ہی بہار تھی۔ میری نگاہیں صابرہ کو ڈھونڈ ھ رہی تھیں کہ دفعتاً ایک چمکتی سی چیز نظر پڑی۔ غور سے دیکھا تو صابرہ زرد چمکتے ہوئے کپڑے پہنے ہے، اس کے حنائی ہاتھوں میں نئی طرح کے گوٹے کے کنگنے ہیں اور وہ پھولوں سے لدی سمٹی سمٹائی بیٹھی ہے۔
اف! بلاکی دلربائی تھی۔ اس کے گورے رنگ پر وہ زرد زرد چمکتا ہواجوڑا، اس پر اس کی شرمائی ہوئی بھولی صورت۔ میری آنکھیں خیرہ ہونے لگیں اور میں ایسا محونظارہ ہوا کہ یہ بھی نہ سمجھ سکا کہ اس طرح کی خوشی اور ایسے جوڑے کے کیا معنی ہوسکتے ہیں، اتفاقاً مجھے میری مہربان شوخ نے دیکھ لیا۔ نہ معلوم اس غریب کو میری صورت دیکھ کر کیا یاد آیا کہ اس نے سب اجنبی چھوکریوں کو وہاں سے مختلف بہانوں سے نکال دیا۔ اب صرف وہ اور صابرہ رہ گئی۔ تنہائی ہوتے ہی اس نےنہایت دعوے سے پوچھا ’’کیوں ہمسائے صاحب، یہ آپ تین دن کہاں غائب رہے؟‘‘ مجھے اصلی سبب بتاتے کچھ شرم آئی لیکن میں نے جھینپتے جھینپتے کہہ ڈالا ’’اپنے خیالات سے بھاگ کر بارہ بنکی چلا گیا تھا!‘‘
صابرہ نے مجھے ایسی نگاہ سے دیکھا جس سے خجالت اور ہمدردی ظاہر ہوتی تھی، لیکن ایک نئی طرح کی جھلک بھی تھی، نہ معلوم وہ درد تھا یا غم۔۔۔یا۔۔۔یا محبت تھی۔۔۔وہ چپکے سے بولی۔ ’’بہن نور جہاں جانے بھی دو۔ کیوں بیچارے کو خواہ مخواہ ستاتی ہو؟‘‘ نور جہاں نے اسے ہنس کر دیکھا اور زور سے بولی ’’جی ہاں۔ ہیں بھی یہ قابل رحم! بہن ایسے مردوں کی یہی سزا ہے؟‘‘
میں نے لجاجت سے پوچھا ’’آخر میں نے کیا قصور کیا ہے؟‘‘
نور جہاں بولی۔ ’’آنکھ ہوتے اندھے بنے۔ دھکتے ہوئے انگاروں میں پھاندے۔ اب جلو!‘‘ میں نے کہا کہ ’’ہائے یہ تو ازل ہی سے مقدر تھا۔ اس معاملے میں تو میں اتنا ہی قصوروار ہوں جتنا پروانہ! لیکن آپ اطمینان رکھیں میں شکایت نہیں کروں گا۔‘‘
شمعم کہ جاں گدازم و دم برنیادرم۔‘‘
یہ میں نے کچھ ایسے دردبھرے لہجے میں کہا کہ ان کافروں کا بھی دل پسیج گیا۔ صابرہ نے مجھے اس طرح دیکھا کہ جیسے وہ معذرت مانگ رہی ہو اور نور جہاں نے لب کھولے مگر کچھ کہا نہیں۔ بلکہ صابرہ کا شانہ پکڑ کر زبردستی اور باصرار کھڑکی پر لاکر کھڑا کر دیا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا اور اچھی طرح دیکھا۔ اس طرح دیکھا کہ نور جہاں ہمارے چہرے دیکھ کر آبدیدہ ہو گئی۔
تھوڑی دیر دونوں جانب عجیب طرح کا سکوت رہا۔ اس کے بعد میں نے بات ٹالنے کے لیے پوچھا ’’آج یہ ماشاء اللہ چہل پہل کاہے کی ہے اور کمرہ چمن کیوں بنایا گیا ہے؟‘‘ نور جہاں نے منھ پھیر لیا اور صابرہ کانپ کر بیٹھ گئی۔ میرا استعجاب اور زیادہ بڑھا اور میں نے پوچھا ’’کیا میں نے کوئی بے موقع بات پوچھ لی؟‘‘
نور جہاں کے ہونٹ ہلنے لگے اور چہرے پر رنج کے آثار صاف نمایاں ہو گئے۔ صابرہ نے دونوں ہاتھوں سے منھ چھپا لیا اور اس کے شانے ہلنے لگے۔ میں گھبرا گیا اورمیں نے نور جہاں سے کہا ’’نور جہاں بہن! للہ کچھ تو بولیے آخر کیا معاملہ ہے؟‘‘
نور جہاں کے سینے پر پڑا ہوا آنچل کا پلو اور بھی متحرک ہوا اور اس نے اس کے ایک کونے سے اپنی آنکھیں پونچھیں۔ میں نے کانپ کر پوچھا۔ ’’کیا میرے صبر و تحمل کا امتحان منظور ہے؟ آخر آپ دونوں صاحبوں کی میرے سوال پر یہ حالت کیوں ہوئی؟‘‘ نور جہاں دفعتاً پلٹ پڑی اور رک رک کر خجالت بھری آواز میں بولی۔ ’’آپ کی ۔۔۔ صابرہ۔۔۔ کی۔۔۔ شادی۔۔۔ ہے۔‘‘ میں نے یہ تو ضرور دیکھا کہ صابرہ کے شانے کو اور زیادہ حرکت ہونے لگی۔ لیکن جو کچھ نور جہاں نے کہا میں اسے مطلقاً نہ سمجھ سکا۔ اس لیے میں نے پھر پوچھا۔ ’’کیا؟‘‘
نور جہاں نے مجھے گھبراکر دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے ہمدردی اور حسرت ٹپکی پڑتی تھی۔ پھر ہاتھ بڑھاکر صابرہ کا کاندھا آہستہ سے تھپک کر بولی۔ ’’ان کے سہرے کے پھول کھلے ہیں۔۔۔اور یہ۔۔۔پروان چڑھنے والی ہیں!‘‘
میری زبان سے نکلا۔ ’’ان کی۔۔۔شادی۔۔۔ہے؟‘‘ اور نور جہاں کے گردن ہلا دینے پر ایک تیر کلیجہ سے پار ہو گیا۔ کچھ چکر سا آیا اور میں دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر وہیں بیٹھ گیا اور اندھوں کی طرح ادھر ادھر ٹٹولتا رہا۔ ہاتھ میں کھڑکی کی چوکھٹ آ گئی اور میں نے اسے اتنی زور سے پکڑا کہ لکڑی ہتھیلی میں چبھ گئی۔ ایک منٹ۔۔۔یا ایک ہزار برس۔۔۔بعدمیں نے سر اٹھاکر دیکھا کہ صابرہ اور نور جہاں دونوں میری تکلیف پر حد درجہ مضطرب ہیں اور صابرہ کا چہرہ بالکل زرد ہو گیا ہے اور آنکھوں سے آنسوؤں کے تار جاری ہیں۔ مجھے اس اضطراب نے مجھے باحواس بنا دیا۔ میں دیوار کے سہارے اٹھ کھڑا ہوا اور میں نے صابرہ سے پوچھا ’’عقد کب ہے؟‘‘
وہ بولی۔ ’’پرسوں شب کو!‘‘
میں بیساختہ کہہ اٹھا۔ ’’ہائے اتنی جلدی!‘‘
پھر دونوں جانب تھوڑی دیر سکوت رہا۔ دفعتاً مجھے اپنی قسمت پر غصہ آیا اور میری کمزوریاں رفع ہونے لگیں۔ میں نے کوشش کرکے پوچھا ’’یہ خوش نصیب صاحب کون ہیں؟‘‘
صابرہ کے چہرے پر پسینے کے ننھے ننھے قطرے جھلکنے لگے اور وہ کچھ پیچھے ہٹی، مجھے اس کے انداز سے ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ وہاں سے چلی جانا چاہتی ہے۔ میں نے ہاتھ کے اشارے سےاسے روکا اور نور جہاں کی طرف پھر کر سوالیہ انداز سے دیکھا۔
وہ بولی ’’ایک نواب صاحب ہیں۔ ماشاء اللہ کئی سو کے وثیقہ دار ہیں۔‘‘
مجھ سے صبر نہ ہو سکا، بیساختہ بول اٹھا ’’اور ماشاء اللہ خاندانی رنگ میں گرفتار ہوں گے! چانڈ و افیون بیر اور مرغ!‘‘
نور جہاں نے مجھے روکنے کے لیے غصہ سے دیکھا۔ اس نظر نے تازیانہ کا کام دیا۔ میں نے زہرہ خندہ کرکے کہا ’’آپ کا غصہ بیکار ہے۔ میں سچ عرض کرتا ہوں۔ اگر نوجوان ہوں گے تو ان شوقوں کے علاوہ اور بھی اشغال ہوں گے۔ مثلاً چوک کا جانا۔ غزلیں گانا۔ ماماؤں کو گھور گھور کر ٹھنڈی سانسیں بھرنا! اور اگر عمر ڈھل چکی ہے تو پانچ چار بچے ہوں گے اور اس سے زائد محل!‘‘
نور جہاں سے صبر نہ ہو سکا بول اٹھی۔ ’’آخر ہم لوگوں کے رنج کا کچھ خیال ہے، یا بس دنیا میں آپ ہی کو تکلیف ہوئی؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’جی ہاں آپ کو بڑا رنج ہوگا! آپ ابھی ہمجولیوں میں پہنچتے ہی ڈھولک لے کر بیٹھ جائیں گی، گانے گائیں گی، پھبتیاں کسیں گی اور دھول دھپا کریں گی۔ آپ اور رنج۔ لاحول ولا۔۔۔!‘‘
نور جہاں نے بات کاٹ کر کہا۔ ’’ارے میں اپنے کو نہیں کہتی۔ صابرہ پر تو رحم کرو!‘‘
میں نے جواب دیا۔ ’’جی ۔۔۔ وہ قابل رحم ہیں! کل شادی ہوگی، پرسوں رنگ رلیاں منائیں گی۔ (صابرہ کی آنکھیں غصہ سے سرخ ہو گئیں اور اس نے اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹا لیے) ایک سو کے مولوی نما طالب علم کے رنج سے۔ اس کی آرزوؤں کے خون ہونے اور اس کی زندگی کے ملیامیٹ ہونے سے انھیں کیا مطلب! یہ ہونگی اور پھولوں کی سیج۔ مخملی گدے اور نواب صاحب کا پہلو!‘‘ میرا غصہ بڑھتا ہی جاتا تھا، مجھے صابرہ کے ستے ہوئے چہرے پر بھی رحم نہیں آتا تھا، مجھے جابیجا الفاظ کے استعمال میں تفریق کا بالکل خیال نہ تھا۔ میرے منہ میں جو کچھ آتا تھا بکے چلا جاتا تھا۔ نہ معلوم ابھی اور کیا کچھ کہتا کہ نور جہاں نے صابرہ سے کہا۔’’آؤ بہن چلو۔ یہ اس وقت اپنے حواس میں نہیں ہیں، نہ جانے کیا بک رہے ہیں۔‘‘ میں نے بھی کہا۔ ’’جی ہاں یہی بہتر ہے خدا حافظ!‘‘ اور کھڑکی بند کرکے اپنے پلنگ پر آکر پڑ رہا۔
گو رات بھر بیچینی اور تکلیف سے نیند نہیں آئی لیکن صبح تک غصہ رفع ہو گیا اور مجھے اپنی بیجا جھلاہٹ پر بیحد ندامت تھی۔ عقل نے صابرہ کی بے بسی دکھلاکر ہندوستانی قدامت کے معنی اور ریت اور رسم کی پابندی بتلاکر بہت کچھ تسکین دی اور سچ پوچھو تو خودداری نے بڑا ساتھ دیا، ورنہ دل نے مجھے کہیں کا نہ رکھا ہوتا۔ جذبات کا طوفان حسرتوں اور ناامیدیوں کا سیلاب عزت و حمیت کے مستحکم قلعہ کو جنبش نہ دے سکا۔ اس لیے کہ اس کا قول تھا کہ عشق ناکام عشق کامل ہے۔ وصل عارضی ہے۔ لطف دم بھر کا ہے۔ عیش و عشرت فانی ہے۔ ہاں اگر کسی چیز کو بقا ہے تو وہ درد ہے۔ ٹیس ہو یا ہوک یہ بوالہوسی کی علامتیں ہیں اور چشم زدن کی باتیں لیکن درد۔ دل کا درد یہ، زندگی کے ساتھ ہے، بلکہ انسان کو ابدی البقا بنانے والا ہے۔ صبر و تحمل مرد کے جوہر ہیں اگر اس وادی میں پیر ڈگمگایا تو پھر اس میں مردانگی نہیں! غیرت نہیں! شرافت نہیں۔
میں نے ایک موقع پر نور جہاں سے کہا تھا کہ ’’شمعم کہ جاں گدازم دوم برنیادرم! ’’زبان کا پاس یہی کہتا تھا کہ جو کچھ کہا ہے اسے نباہوں، جو کچھ منہ سے نکل گیا اسے کرکے دکھادوں، اس اصرار نے میرے کمزور دل و دماغ میں جان ڈال دی اور میں صبح کی نماز سے فارغ ہوکر یہ طے کرکے کھڑکی کے پاس آیا کہ صابرہ سے اپنی رنجدہ باتوں کی معافی مانگ لوں اور اسے ایک نظر جی بھر کر دیکھ لوں۔ کھڑکی کھولی تو تنہا نور جہاں جانماز پر دکھائی دی۔ میں نے اشارے سے اسے قریب بلایا اور کہا ’’نور جہاں بہن۔ میں نے جو کچھ رات غصہ میں کہا اسے بھلا دو۔ میں اپنے حواس میں نہ تھا۔‘‘
وہ شوخ مسکراکر بولی۔ ’’یہ تو مشتے بعد از جنگ ہے!‘‘
میں نے کہا۔ ’’جی ہاں۔ اسی لیے تو اپنے کو موت سے زیادہ سخت سزا دے رہا ہوں۔‘‘
وہ بولی۔ ’’ہائے رے بھولاپن! ارے نادان میں اپنے کو نہیں کہتی۔تم نے میرا کیا بگاڑا میں تو اس کو کہہ رہی ہوں۔ جس کے دل پر رات چھریاں چلیں، جس کے ہر زخم پر نمک چھڑکے گئے!‘‘
میں نے لجاحت سے کہا۔ ’’اچھی بہن اتنی اور عنایت کروکہ ان کو ایک مرتبہ اور یہاں لے آؤ! شایدمیں زخموں کے بھرنے اور ان کے اندمال کی بھی صورت کر سکوں۔‘‘
وہ شوخ سر ہلاتی اندر چلی گئی اور تھوڑی دیر بعد صابرہ شرماتی ہوئی آئی۔ لیکن تنہا! میں ساکت کھڑا اسے دیکھتا رہا اور وہ نظریں نیچی کیے سر جھکائے اس طرح کھڑی رہی جیسے کوئی کنیز اپنے آقا کے حکم کی منتظر ہو ۔۔۔ اف!!!
میں نے بمشکل اچھلتے ہوئے دل پر قابو حاصل کیا اور حلق اور تالو کی خشکی، ہونٹ چاٹ کر رفع کی اور کہا ’’صابرہ! میں نے رات تم کو نہ معلوم کتنا دکھ دیا۔ میں اس وقت اس لیے آیا ہوں کہ تم مجھے جو سخت سے سخت سزا دے سکو میں اس کا اپنے کو مستحق ثابت کر دوں!‘‘
اس نے مجھے ایک غم آلود نگاہ سے دیکھا اور بولی۔ ’’ہم اور آپ دونوں مجبور ہیں۔ ہماری زندگیاں دوسرے کے ہاتھوں میں ہیں۔ لیکن جو کچھ رات آپ نے کہا آپ کو اس کا حق تھا اور میں اس کی مستحق تھی!‘‘
اس انکسار پر میرا دم گھٹنے لگا۔ میں نے منہ پھیر لیا اور یوں کہہ چلا ’’صابرہ! صابرہ!! ہائے کتنا پیارا نام ہے۔ ہاں تو خواہ تم نہ مانو، لیکن میں نے رات بہت کچھ ناروا باتیں کیں، میں تم سے نہایت عاجزی سے معافی مانگتا ہوں۔ ان باتوں کو بھول جاؤ وہ ایک سودائی کی بک جھک تھی۔ لیکن ہائے جب سے میں نے تم کو دیکھا ہے میرے دل میں نہ جانے کیسے کیسے خیال آئے میں نے لاتعداد حسین و خوشنما خیالی محل بنائے اور تم کو ان میں ملکہ کی طرح بٹھایا۔ دیکھو میں پھر بہک چلا۔ ہاں تو میں تم سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ۔۔۔ یہ میری اور تمہاری آخری ملاقات ہے۔ کل سے تم کسی اور کی۔۔۔ ہو جاؤگی اور میرے لیے صرف بہن! لیکن اس کا یقین رکھو کہ میں دکھ میں رہوں یا سکھ میں، تمہارے لیے ہر وقت یہی دعا کرتا رہوں گا کہ تم سے رنج اتنا ہی دور رہے جتنی کہ آفتاب سے سیاہی! خدا تمہیں طرح طرح کی خوشیاں دے اور تمہارے دن ہمیشہ عیش و آرام میں کٹیں!‘‘
صابرہ نے روتے ہوئے مسکراکر پوچھا۔ ’’یہ سب تو میرے لیے ہے اور آپ؟‘‘
میں نے کہا کہ ’’میں! میری زندگی تمہاری خوشی! میرا چین تمہیں سکھ میں دیکھنا ہے! میری سب سے بڑی تمنا یہی ہے کہ خدا کرے تم مجھے بھول جاؤ! نہ کبھی تمہیں یہ میری منحوس صورت یاد آئے اور نہ کبھی آج اور کل کی باتیں۔‘‘ صابرہ نے مجھے ایک ایسی نگاہ سے دیکھا کہ میں لاجواب ہوکر ساکت ہو گیا۔ پھر میرے دل میں ایک آرزو پیدا ہوئی اور بیساختہ میرے منہ سے نکل پڑی۔ ’’صابرہ میری تمنا ہے کہ میں تمہیں وہی فالسئی ساری پہنے ایک بار دیکھ لوں، گویہ مقتضائے شرافت نہیں۔ لیکن شاید یہ میری آخری خواہش ہوگی!‘‘ صابرہ نے پوچھا۔ ’’آخری کیوں؟‘‘
میں نے کہا۔ ’’اس لیے کہ پھر کل سے ایسی خواہش تم سے نہیں کی جا سکتی!‘‘
صابرہ چپکی تھوڑی دیر مجھے پیار سے دیکھا کی اور اس کے بعد اندر چلی گئی۔ پانچ سات منٹ بعد وہی فالسئی ساری اور گلابی شلوکہ پہنے پھر آکر کھڑی ہو گئی۔ میں بڑی دیر تک اسے دیکھتا رہا اور اس تصویر کو دل پر نقش کرکے کانپتے ہاتھوں سے اسے سلام کرکے بولا۔ ’’صابرہ! جان و دل سے عزیز صابرہ رخصت! ہمیشہ کے لیے رخصت۔۔۔ جاؤ ۔۔۔ دنیا جہان کی خوشیاں اور نعمات الہی تمہیں ہمیشہ گھیرے رہیں!‘‘
صابرہ مبہوت بنی، چشم پُر آپ سے ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھا کی۔ میں اس تصویر کا خزانہ دل میں لیے کمرے کی طرف پلٹا لیکن تھوڑی ہی دور چلا ہوں گا کہ پلٹ پڑا اور صابرہ سے بولا: ’’مجھے اپنی بدّھی کا ایک پھول دے دو۔ میں اسے حرزجان بناؤں گا۔‘‘
صابرہ میری آواز سن کر چونکی اور ایک ٹھنڈی سانس لے کر اس نے بدّھی اتارنی چاہی میں نے کہا۔ ’’نہیں صرف ایک مرجھایا ہوا پھول!‘‘
اس نے ایک مرجھایا ہوا پھول بدھی سے نکالا لیکن میری طرف کچھ عجیب طرح سے دیکھتی گئی اور اس کی ایک ایک پتی نوچ نوچ کر پھینکتی گئی اور پھر اس نے ایک مرجھائی کلی نکالی اور ایک کاغذ پر کچھ لکھ کر اور کلی اس میں لپیٹ کر میری جانب پھینک دی۔ میں نے کاغذ کھولا تو اس میں لکھا تھا ’’صابرہ کا بن کھلا غنچۂ دل!‘‘ میں نے کاغذ اور کلی دونوں کو سمیٹ کر ہاتھ میں دبا لیا اور اسی ہاتھ سے اپنی زخمی دل تھام لیا اور اس سے کہا ’’خیر! زندہ رہو! لیکن خدا نہ کرے تمہارا غنچۂ دل یوں مرجھائے!۔۔۔ اچھا صابرہ خدا حافظ۔ جاؤ میرے سامنے یہاں سے چلی جاؤ!‘‘
صابرہ نے مجھے ایک منٹ تک بغور دیکھا۔ اس ایک نظر میں ماضی و حال و مستقبل کے احساسات و واقعات سب کی ایک جھلک موجود تھی! دفعتاً اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور وہ لڑکھڑاتی ہوئی مڑ مڑ کے مجھے دیکھتی ہوئی اندر چلی گئی!
میں نے صابرہ کی مرجھائی، بن کھلی کلی آنکھوں سے لگائی۔ اسے ڈرتے ڈرتے پیار کیا پھر دیر تک اس کی خوشبو سونگھتا رہا۔ اسی حالت میں کھڑکی بند کی۔ چکر سا آ گیا۔ اور وہیں فرش پر بیہوش ہوکر گر پڑا۔
صابرہ کے عقد کو آج پانچ برس ہو چکے ہیں۔ ہمارے ہاں ریت اور رسم کی پابندیاں ابھی اسی طرح قائم ہیں، ہندوستانی معیار شرافت اب تک زنجیر پا ہے۔ اس لیے اس دن کے بعد سے پھر میں نے اسے نہیں دیکھا لیکن دلوں کے ناسور اور زخم کی گہرائی کی کیفیت کا اسی سے اندازہ کیجیے کہ ہر سال عقد کی تاریخ کومیرے پاس کھڑکی کی طرف سے کاغذ میں لپٹی ہوئی ایک مرجھائی بن کھلی کلی پھینک دی جاتی ہے اور میں اسے اس کی ہم جنسوں کے ساتھ صندوق میں بند کرتا جاتا ہوں۔ دوست احباب نے اگر کبھی دیکھ لیا اور پوچھا کہ ’’بھئی یہ کلیاں کیسی ہیں؟‘‘ تو میں ان سے یہ کہہ دیتا ہوں کہ تابوت کے پھول ہیں!‘‘ لیکن ان میں سے کسی کو یہ نہیں معلوم کہ یہ تابوت میری زندگی بھر کی تمناؤں اور امیدوں کا ہے اور یہ پھول وہی چڑھاتا ہے۔ جس نےہماری معاشرت کا آلہ کار بن کر ان کا خون کیا! عجب نہیں کہ غنچوں کا یہ ڈھیر قبر میں میرے ساتھ ہو اور محشر کے دن جب یہ کلیاں پھولیں اور ان میں بہار کی تازگی پھر آ جائے تو میں ان کا ہار گلے میں ڈالے مستوں کی طرح جھومتا کسی کو تلاش کرتا پھروں ۔۔۔ لیکن
منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نا امیدی اس کی دیکھا چاہیے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.