Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بات پھولوں کی

جیلانی بانو

بات پھولوں کی

جیلانی بانو

MORE BYجیلانی بانو

    کہانی کی کہانی

    ایک پھول والے کے گرد گھومتی یہ کہانی ہے جو ہمارے سماج اور سماجی ڈھانچے کی روداد بیان کرتی ہے۔ کہانی اس بے رحم سماجی تانے بانے کو بیان کرتی ہے جسمیں خود غرضی عروج پر ہے۔ ایک طرف گاؤں کے بے قصور لاشیں ہیں تو دوسری طرف انتخاب میں کامیاب ایک امیدوار اپنی کامیابی کے جشن کے لیے پھولوں کا ہار بنوا رہا ہے۔

    ’’دیا سلائی جب چراغ روشن کر دیتی ہے تو اسے پھینک دیتے ہیں۔‘‘

    ’’پھول محل‘‘ کی گدی پر بیٹھے سوگندھی لال مجھے اپنے تجربے کی باتیں سکھاتے رہتے ہیں۔

    ’’اپنی باتوں میں پھولوں کے ہاروں میں اتنے چٹکلے لطیفے ٹانکتے جاؤ کہ سا لا گاہک اس میں الجھتا ہی چلا جائے اور پھر ہار کے منھ مانگے دام وصول کر لو۔‘‘ وہ بڑی زور سے ہنستے اس امید کے ساتھ کہ میں بھی ان کا ساتھ دونگا۔ مگر ان کی باتوں میں الجھ کر سوئی میری انگلی میں چبھ جاتی تھی۔

    سوگندھی لال اپنی گدی پر بیٹھے دن بھر نوٹ گن گن کر رسیدیں کاٹتے رہتے ہیں۔ ہر گاہک سے ایسے بات کرتے ہیں جیسے جنم جنم کا ناطہ ہو۔ دن بھر گاہکوں کا ہجوم، نئی نئی فرمائشیں اور سوگندھی لال کی ڈانٹیں ’’راجو۔۔۔ راجی۔۔۔ ابے راجو۔۔۔‘‘

    ’’پھول محل‘‘ کے سائن بورڈ کو ہم نے رنگ برنگے قمقموں سے ایسا سجایا ہے کہ دور سے گاہک دیکھ کر کھنچا چلا آئے۔ طرح طرح کے بو کے، جھلملاتے ہار۔۔۔

    پھولوں کے ساتھ لپٹے ہوئے کانٹوں سے میرے ہاتھ لہولہان ہو جاتے ہیں۔ مگر مجھے یہ کام اچھا لگتا ہے۔ بھاگ دوڑ کچھ نہیں، آرام سے بیٹھے پھولوں کے ہار گوندھے جاؤ اور سوگندھی لال کے ساتھ ساتھ ہنسنا سیکھ لو۔ ورنہ وہ خفا ہو جاتے ہیں۔

    جب میں نے پھولوں کے ہاروں میں پنی کے چاند ستارے اور پودینے کے پتے گوندھنا شروع کیے تو سارے شہر کے لوگ ہماری دوکان پر آنے لگے۔ پھر سیٹھ جی نے میری تنخواہ دو سو روپے سے بڑھا کر تین سو روپیے کر دی کہ کوئی دوسرا پھول بیچنے والا مجھے بہکا کر نہ لے جائے۔

    آج تو ہماری دوکان پر پھول خرید نے والوں کا ہجوم بڑھتا ہی جا رہا تھا جیسے شہر کے ہر آدمی کو آج پھولوں کی ضرورت پڑ گئی تھی۔

    ’’سوگندھی مہاراج! نمسکار! ایک شاندار پھولوں کا ہار چاہیے ہمیں۔ دس دس روپے کے نوٹ بھی پرونا اس میں اور گلاب کے پھول بھی۔‘‘

    ’’ابھی لوجی شرما صاحب۔۔۔ ارے راجو بیا! جھٹ پٹ صاحب کا آرڈر لو اور ان کا کام تمام کرو۔‘‘

    ’’ایسا لگتا ہے مکھن لال جی الیکشن جیت گئے ہیں۔ جب ہی آپ روپیوں کے ہار بنوا رہے ہیں آج؟‘‘ سوگندھی لال منھ کھول کر ہنسنے لگے۔

    ’’ہم جو ان کے ساتھ تھے سوگندھی لالہ۔ کیسے نہ جیت جاتے مکھن لال جی۔ دو ہزار آدمی کو مادھوپور سے لاریوں میں بھر کے لے گئے تھے۔ سب سے ووٹ ڈلوا دیے۔‘‘

    سوگندھی لال کے ساتھ شرما جی بھی زور سے ہنس پڑے۔

    ’’ مگر ایک لڑکا کہہ رہا تھا پولیس نے فائرنگ کر دی مادھوپور میں بہت لوگ مارے گئے۔‘‘ میں نے ایک بڑا سا گلاب ہار کے بیچ میں ٹانکتے ہوئے پوچھا۔

    ’’الیکشن میں تو یہ سب چلتا ہی رہتا ہے جی۔ دوسری پارٹی والے پولیس کو لے آئے۔ فائرنگ ہو گئی مگر جیت تو ہماری ہوئی نا۔‘‘ شرماجی جیت کے نشے میں تھرک رہے تھے۔ ایک نوجوان لڑکا آٹو رکشا سے اترا اور دوڑتا ہوا دوکان کی طرف آیا۔

    ’’ذرا سنیے سیٹھ صاحب!۔۔۔ آپ کے ہاں اتنے پھول مل جائیں گے۔۔۔ چالیس ارتھیوں پر ڈالنا ہیں۔‘‘

    چالیس ارتھیاں! سوئی اب کی بار میرے دل کی طرف چبھ گئی۔ شرماجی اس نوجوان کو دیکھ کر گھبرا گئے۔ پیچھے کو ہٹے۔ پھر ہمت کر کے بولے۔

    ’’ہیلو جان۔۔۔ ہاؤ آریو۔۔۔؟‘‘ انھوں نے ہاتھ آگے بڑھایا۔

    ’’فائین۔۔۔‘‘ نوجوان نے شرماجی کا ہاتھ جھٹک دیا۔

    ’’اتنی ارتھیاں؟ ایک ساتھ؟۔۔۔ کہاں سے آرہے ہو نوجوان؟‘‘ سوگندھی لال نے گھبرا کر پوچھا۔

    ’’ مادھوپور سے۔ الیکشن میں سالوں کا بس نہ چلا تو سارے گاؤں سے بہلا پھسلا کر نوجوانوں کو لے گئے بوگس ووٹنگ کے لیے۔ پولیس نے گولی چلا دی۔‘‘

    ’’اب تم مادھوپور سے آئے ہو پھول لینے؟‘‘ ایک گاہک نے بڑے دکھ کے ساتھ پوچھا۔

    ’’کیا کریں! ہمارے سارے گاؤں کے سارے پھول تو لوگ لے گئے ہیں مکھن لال جی کو پہنانے کے لیے۔‘‘

    ’’ تو کیا ان ارتھیوں کا جلوس شہر میں نکالا جائےگا؟‘‘ شرماجی نے جان سے پوچھا۔

    ’’جی ہاں۔ ہم سارے شہر میں جلوس لے جائیں گے۔ مکھن لال کے خلاف نعرے لگوائیں گے۔ مادھوپور میں دوبارہ الیکشن ہو گا۔‘‘

    ’’اچھا تو سوگندھی لال! ایک پھولوں کا شاندار گھیرا اور بنادو۔ مکھن لال جی بھی ان شہیدوں کو شردھا نجلی دینے ضرور جائیں گے۔‘‘ شرماجی نے پرس سے اور نوٹ نکال کر گنتے ہوئے کہا۔

    ’’ابھی لوجی۔ ابھی لو۔ ارے راجی بیٹھے۔ شرماجی کا آرڈر لے فٹافٹ اور ان کا کام تمام کر۔‘‘

    آج میں نے آدھے دن کی چھٹی لے کر اپنے ایک دوست کے ساتھ پکچر دیکھنے کا پروگرام بنایا تھا۔ مگر آج ہماری دوکان پر آنے والے گاہکوں کا ہجوم بڑھتا ہی جا رہا تھا۔

    ’’ذرا آپ ادھر بٹیے۔۔۔ آپ ادھر جائیے۔۔۔‘‘ ایک نوجوان اسکوٹر روک کر سب کو ہٹاتا ہوا آگے بڑھا۔ کسی تیز مہک والے پرفیوم میں ڈوبا ہوا۔

    ’’بالوں میں سجانے کے لیے ایک بہت خوبصورت سا گجرا چاہیئے۔ مگر پھول تازہ ہوں۔ خوشبو والے۔‘‘

    ’’ابھی ابھی لیجیے بابو صاحب۔‘‘ سوگندھی لال نے بڑے غور سے بابو صاحب کو دیکھا۔

    ’’راجو بیٹا! ایسی پھولوں کی بینی بنا کر لاؤ بابو صاحب کے لیے کہ ان کا کام تمام ہو جائے۔‘‘

    ’’ بابو صاحب! بھروسا رکھیے۔ ہماری دوکان پر ہر چیز اچھی ملےگی۔ آپ کو ایسا گجرا بنا کر دونگا کہ آپ کی مسز خوش ہو جائیں گی۔‘‘

    ’’اچھا تو پھر دو گجرے بنادو۔‘‘ ان صاحب نے کچھ شرمندگی کے ساتھ کہا۔

    ’’سوگندھی لال! ذرا جلدی کرو۔ چار بجے تک جلوس نکالنا ہے۔‘‘ جان نے ادھر ادھر دیکھ کر پوچھا، ’’ مگر تمہاری دوکان میں تو اتنے پھول نظر نہیں آ رہے ہیں کہ چالیس ارتھیاں سجائی جائیں۔‘‘

    ’’صبر کرو نوجوان!‘‘ سوگندھی لال نے دھیرج سے کہا۔

    ’’ابھی پجاری جی دو چار ٹوکرے پھول ہمیں بھیج دیں گے۔‘‘

    ’’پجاری جی؟ کیا مندر میں پھول بکتے ہیں؟‘‘ جان نے تعجب سے پوچھا۔

    ’’صبح سویرے جو لوگ پوجا کے لیے پھول لاتے ہیں نا۔ پجاری جی شام کو وہ پھر یہیں بھیج دیتے ہیں۔‘‘

    ’’لاحول ولاقوۃ‘‘ ایک مولوی صاحب نے غصے میں کہا۔

    ’’مندر کے پوجا کے پھول دوکان پر رکھتے ہو؟‘‘

    ’’ارے رکھتے کہاں ہیں مولانا۔ آج بریانی شاہ کا عرس تھا۔ سارے پھول وہیں لے گئے لوگ۔‘‘

    ’’اس دوکان کو بند کروا دینا چاہیے۔ ورنہ ہندو مسلم فساد شروع ہو جائےگا۔‘‘ مولانا دوکان پر کھڑے حاضرین کی طرف مڑ گئے۔

    ’’یہ مولوی صاحب سٹھیا گئے ہیں۔ جب آتے ہیں اللہ اور بھگوان کا بکھیڑا لے بیٹھے ہیں۔‘‘ سوگندھی لال نے مسکرا کے کہا۔

    ’’تم بےایمان ہو۔ لوگوں کا دھرم ایمان خراب کرتے ہو۔‘‘ مولوی صاحب چلانے لگے۔

    ’’چیخو مت مولوی صاحب۔ الیکشن کا جلسہ نہیں ہو رہا ہے یہاں۔ ہم چیز دے کر دام لیتے ہیں۔ لوگوں کو آگ کا دھواں اور خاک کی پڑیا دے کر الو نہیں بناتے۔‘‘ سوگندھی لا ل غصے میں آ جائیں تو پھر سلگتے ہی جاتے ہیں۔

    ’’ ہٹئے راستہ چھوڑئیے میڈم جی کے لیے۔ آئیے میڈم جی! آداب عرض! کیسے کیا حکم ہے؟‘‘ ایک دبلی پتلی بے حد پھر تیلی سی خاتون ایک چھوٹی سی بچی کا ہاتھ پکڑے آگے بڑھیں۔

    ’’ایک بہت اچھا سابوکے بنا دیجیے۔ مگر ذارا جلدی سے دیجیے۔ چار بجے تک مجھے پہنچنا ہے۔‘‘ میڈم جی نے کلائی کی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’ ابھی لیجیے۔ راجو بیٹا! میڈم جی کا آرڈر بک کرو اور جھٹاپٹ ان کا کا م تمام کرو۔ کیا ایرپورٹ جانا ہے میڈم جی؟ کسی منسٹر کا سواگت کرنے جا رہی ہیں؟‘‘

    سوگندی لال عورتوں کوباتوں میں یو ں الجھائے رکھتے جیسے کچی کلیوں کو دھاگے میں لپیٹ دیتے ہیں۔

    ’’نہیں سوگندھی لال! میری لڑکی اسکول کی دوڑ میں حصہ لینے گئی ہے۔ وہ ضرورت فرسٹ آئےگی۔‘‘

    ’’کیا زمانہ آ گیا ہے۔‘‘ مولوی صاحب نے بڑے دکھ کے ساتھ کہا۔

    ’’لڑکیوں کو دوڑنا سکھا رہے ہیں۔ آخر انھیں کسی مرد کے پیچھے ہی رہنا ہے۔‘‘

    ’’مولوی صاحب! آپ کا کام تما م ہوا اس لیے آپ تو پیچھے ہٹ جائیے۔‘‘

    ’’مگر ایک مولوی صاحب کے جاتے ہی ایک اور مولانا تشریف لے آئے۔‘‘

    ’’ سوگندھی لال! ہمیں ایک بہت خوبصورت شاندار سہرا چائیے۔ اتنا لمبا ہو کہ دولھا اس میں چھپ جائے۔‘‘

    ’’مگر دولہا کو چھپانے کے لیے تو بہت بڑا سہرا بنانا ہوگا۔ ہم تو بس اتنا لمبا سہر ابناتے ہیں کہ باراتی دولھا کو نہ پہچان لیں۔‘‘ میں نے جلدی گھبرا کر کہا۔

    ’’راجہ بیٹے۔ جو بات گاہک کہے مان لو۔ آپ اطمینان رکھیے مولانا۔ جیسا آپ نے حکم دیا ہے ویسا ہی سہرا تیار ہوگا۔ یہ چوتھا سہر ا ہے جو میں آپ کے بیٹے کے لیے تیار کرونگا۔ کبھی کوئی شکایت ہوئی آپ کو؟ لائیے۔ ایک ہزار روپے ایڈوانس دیجیے۔ سیدھے ہاتھ سے۔ شبھ کام ہے‘‘ سوگندھی لال دونوں ہاتھ مولانا کے سامنے پھیلا کر کھڑے ہو گئے۔

    ’’ایک بو کے بنانے میں کتنی دیر لگاؤ گے لالا؟‘‘ بے بی کی ماں بار بار گھڑی دیکھ رہی تھی۔

    ’’میڈم جی! میں آپ کو بہت ہی بڑھیا بو کے دونگا۔ دوڑ میں فرسٹ آنے والی بے بی کے لیے۔ بس ابھی چیف منسٹر کے آفس سے بہت سے بو کے آتے ہو نگے۔‘‘

    ’’اچھا تو تم سارے لیڈروں کو پہنائے گئے ہا ر واپس منگوا لیتے ہو لالہ جی؟‘‘

    ’’ارے نہیں میڈم جی۔ لیڈروں کے گلے میں پڑنے کے بعد تو پھول سوکھ جاتے ہیں۔‘‘

    ’’تو پھر پھول کسی حکیم کو گل قند بنانے کے لیے بیچ دیتے ہو؟‘‘ جان نے بڑے تعجب کے ساتھ پوچھا۔

    ’’نہیں بیٹے۔‘‘ سوگندھی لال نے سرجھکا کر بڑے دکھ کے ساتھ کہا۔

    ’’ہماری دوکان کے پیچھے قبرستان ہے۔ میں شام کو سارے پھول اٹھا کر وہاں لے جاتا ہوں۔‘‘

    ’’سوکھے پھول قبرستان میں لے جاتے ہو؟‘‘ میڈم نے تعجب سے پوچھا۔

    ’’ہاں میڈم کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کچھ عورتوں کے اوپر مٹی نہیں ڈالی گئی ہے۔ وہ کھلی پڑی ہیں۔ میں انھیں سوکھے پھولوں سے ڈھانپ دیتا ہوں۔‘‘

    سب چپ ہو گئے جیسے سوگندھی لال کے ساتھ ساتھ ہم سب بھی کسی کھلی قبر کے آس پاس کھڑے ہوں۔

    ’’مولوی صاحب! ایک بات پوچھوں آپ سے؟‘‘ سوگندھی لال نے آہستہ سے کہا، ’’سنا ہے قیامت کے دن مردے جی اٹھیں گے۔ مگر ان عورتوں کی گنتی تو وہاں بھی نہیں ہو گی۔‘‘

    مولوی صاحب نے اپنے بڑے بیٹے کا چوتھا سہرا بڑے چاؤ سے سنبھالا اور کار کی طرف بڑھ گئے۔

    پھر ایک چمچماتی ہوئی کار آ کر رکی۔ بہت شاندار سوٹ پہنے ایک بھاری بھرکم صاحب سر بلند کیے کار سے اترے۔

    ’’آئیے پروفیسر صاحب! ذرا رستہ دینا بھائی۔‘‘ سوگندھی لال گھبرا کر کھڑے ہو گئے۔

    ’’جی حکم دیجیے پروفیسر صاحب‘‘

    ’’مجھے ایک خوبصورت سا بہت اچھا سفید گلاب چاہئیے۔ وہ جو یہاں کوٹ کے کالر پر لگاتے ہیں۔ نا۔‘‘

    ’’جی، جی، میں سمجھ گیا۔ راجہ بٹوا۔ پروفیسر صاحب کا آرڈر لو اور ان کا کام سب سے پہلے تمام کر دینا بیٹے۔‘‘

    ’’تو کیا آج چندر موہن صاحب آ رہے ہیں پروفیسر صاحب؟‘‘

    ’’ہاں۔ آج صرف چند گھنٹوں کے لیے آرہے ہیں۔ انہیں اب امریکہ کی ایک سائنس کانفرنس میں۔۔۔‘‘

    پروفیسر کی بات سنے بغیر سوگندھی لال دوکان کے گاہکوں کی طرف دیکھ کر بڑے فخر کے ساتھ بولے، ’’پروفیسر صاحب کے سپوت، بہت بڑے سائنٹسٹ ہیں بھارت کے پوکھران دھماکے میں جس ٹیم نے حصہ لیا اس میں چندر موہن صاحب بھی شامل تھے۔‘‘

    یہ بات سنتے ہی مجمع زور دار تالیاں بجانے لگا۔ لوگ پروفیسر صاحب سے ہاتھ ملانے اور مبارکباد دینے آگے بڑھنے لگے۔

    ’’ممی! لوگ تالیاں کیوں بجا رہے ہیں۔۔۔؟‘‘ میڈم جی کی بےبی نے تعجب سے پوچھا۔

    ’’بےبی! آپ نے ہسٹری کی کتاب میں پڑھا ہے ناکہ دوسری جنگ ختم کرنے کے لیے ہیروشیما پر ایٹم بم پھینکا گیا تھا۔۔۔؟‘‘ جان نے بے بی کے پاس جا کر اسے سمجھایا۔

    ’’وہاں ہیروشیما کے سارے لوگ مر گئے تھے ایک ساتھ۔ اب ویسا ہی بم پروفیسر صاحب کے بیٹے نے بھارت میں بنا لیا ہے۔‘‘

    بے بی ڈر گئی۔ منھ کھول کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ ’’تو کیا بھارت میں بھی اتنے بہت سے لوگ مر جائیں گے۔۔۔؟‘‘

    ’’نہیں بےبی۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔۔۔‘‘ پروفیسر صاحب پیار سے بےبی کی طرف بڑھے تو وہ شرما کے ماں کے آنچل میں چھپ کر بولی، ’’ممی پھر اتنی بہت سی ارتھیاں سجانے کے لیے اتنے پھول کہاں سے آئیں گے۔۔۔؟‘‘

    ’’اس وقت تو صرف ایک ہی پھول کی ضرورت ہوگی۔‘‘ جان نے پھر بے بی کو اپنی طرف کھینچا۔

    ’’ایک ہی پھول۔۔۔؟ وہ کس لیے۔۔۔؟‘‘

    ’’پروفیسر صاحب کے سینے پر سجانے کیے لیے۔‘‘

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے