Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ببل

MORE BYراجندر سنگھ بیدی

    کہانی کی کہانی

    جنس کی طلب میں کھولتے ہوئے مرد کی کہانی ہے۔ درباری لال سیتا سے محبت کرتا ہے لیکن اس سے شادی نہیں کرنا چاہتا۔ درباری لال معاشی طور پر مستحکم ہے جبکہ سیتا ایک غریب بیوہ کی اکلوتی لڑکی ہے۔سیتا چاہتی ہے کہ درباری اس سے شادی کرنے کے بعد ہی جنسی رشتے قائم کرے لیکن درباری صرف اپنی ہوس پوری کرنا چاہتا ہے۔ وہ ایک ہوٹل میں سیتا کے ساتھ جاتا ہے جہاں انہیں مشکوک سمجھ کر کمرہ نہیں دیا جاتا ہے۔ دوسری مرتبہ وہ ایک بھکارن کے خوبصورت لڑکے ببل کو ساتھ لے کر جاتا ہے تو فوراً اسے کمرہ مل جاتا ہے۔ درباری جنسی آگ میں جل رہا ہوتا ہے لیکن ببل اپنی معصومانہ اداؤں سے اس کے ارادوں میں مخل ہوتا ہے، جھنجھلا کر وہ ببل کو تھپڑ مار دیتا ہے۔ سیتا کی مامتا جاگ جاتی ہے اور وہ ببل کو اپنی آغوش میں چھپا لیتی ہے اور درباری کو شرم دلاتی ہے۔ درباری نادم ہوتا ہے اور پھر سیتا سے شادی کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔

    درباری لال، شام گھر ہی میں بیٹھا، سیتا کے ساتھ بیکار ہو رہا تھا۔ کسی کے ساتھ بیکار ہونا اس حالت کو کہتے ہیں جب آدمی دیکھنے میں ایوننگ نیوز یا غالب کی غزلیں پڑھ رہا ہو لیکن خیالوں میں کسی سیتا کے ساتھ غرق ہو۔

    سیتا نے تو کہا تھا وہ ٹھیک چھ بجے ارورا سنیما کی طرف سے آنے والی سڑک کے موڑ پر کھڑی ہوگی۔ اس کی ساڑھی کا رنگ کا سنی ہوگا، لیکن۔۔۔

    درباری کنگز سرکل میں رہتا تھا جس کا نام اب مہیشوری ادیان ہو گیا ہے۔ وہ لاؤڈاسپیکروں کی ایک فرم میں کام کرتا تھا۔ آمدنی تو کوئی خاص نہیں تھی لیکن پیسے کی کمی بھی نہ تھی۔ باپ مہتا گردھاری لال نے ایک ہی دن کی فارورڈ ٹریڈنگ میں تین چار لاکھ روپئے بنالئے تھے اور پھر ایکایکی ہاتھ کھینچ لئے جواب تک کھنچے ہوئے تھے۔ آج بھی کاٹن ایکسچینج میں ان کے ساتھی مہتا صاحب کے مکھن میں سے بال کی طرح سے نکل جانے پر گالیاں دیتے تو وہ جواب میں ہنس دیتے۔۔۔ ایسی ہنسی جو آدمی تین چار لاکھ روپیہ اندر ڈال کر ہی ہنس سکتا ہے!

    پھر بڑے بھائی بہاری لال کی شادی مارواڑیوں کے گھر میں ہوئی تھی، جنہوں نے بیس سیر سونے کے کڑے اپنی لڑکی کے ہاتھوں میں ڈالے اور یوں اسے درباری کی بھابی بنایا۔ برس ایک بعد درباری کی اپنی بہن، ستونتی نار، ایک لکھ پتی اسماعیلی صالح محمد کے ساتھ بھاگ گئی اور نکاح کر لیا۔ گلی، محلے پورے شہرمیں ہنگامہ ہوا۔ برسوں مہتا صاحب نے لڑکی اور داماد دونوں کو پریم کٹیر۔۔۔ اپنے گھرمیں گھسنے نہ دیا۔ آحر من منوتی ہو گئی۔ لڑکے کے رشتے دار کہتے تھے لڑکی کو مشرف بہ اسلام کیا گیا ہے اور اس کا نام کنیز فاطمہ ہے اور مہتا صاحب کہتے تھے لڑکے کو شدھ کرنے کے بعد اس کا نام سرداری موہن رکھا گیا ہے لیکن سرداری موہن یا صالح محمد اپنا نام ہمیشہ ایس ایم نواب ہی لکھا کرتا۔ چونکہ لڑکے کی اس قبیح حرکت پر غصہ نکالنے کا اور کوئی ذریعہ نہ تھا، اس لئے درباری لال کے حواری جب بھی ستونتی نار کے پتی یا شوہر سے ملتے تو یہی کہتے، ’’کیوں بےصالح۔۔۔؟‘‘

    آج صالح یا سرداری اور ستونتی دونوں گھر پر تھے اوران کے دو بچے بھی۔ اس سمے بہاری اور بھابی گن وتی نے مل کر درباری کی شادی کا مسئلہ چھیڑ دیا۔ عورتیں مثالی مرد اور مرد مثالی عورت کی باتیں کرتے کرتے آپس میں الجھنے لگے۔ درباری برآمدے میں بیٹھا، اپنے بارے میں ساری گفتگو سن رہا تھا۔ ایکا ایکی وہ لپکا اور اپنے منہ کے لاؤڈ اسپیکر کو کھڑکی میں سے اندر کرتے ہوئے بولا، ’’میں درباری لال مہتا، ولد گردھاری لال مہتا، ساکن بمبئی ہرگز ہرگز شادی نہیں کروں گا۔۔۔‘‘ سب اس آواز پر چونک گئے، عورتوں اور بچوں کی تو جان ہی نکل گئی۔ درباری لال واپس اپنی جگہ پر آکر ایوننگ نیوز کے ورق الٹنے لگا اور پھر ارورا سنیما کی طرف سے گھر کو مڑتی ہوئی سڑک پہ دیکھنے لگا، جہاں اسے کاسنی رنگ کی ساڑھی کی تلاش تھی۔

    اندر سب ہنس رہے تھے۔ ماں بھی ان میں آکر شامل ہو گئی تھی۔ درباری گھر بھر کا بانکا تھا۔ جس طریقے سے وہ بالوں پہ ہیئر ٹانک لگاتا، محنت سے ان کو بٹھاتا۔ قینچی لے کر، آئینے کے سامنے گھنٹہ گھنٹہ دو دو گھنٹے مونچھوں کی نوک میں صرف کرتا، سب بانکپن کی دلیلیں ہی تو تھیں۔ بات در اصل یہ ہے کہ شادی سے پہلے عمر کے اس حصے میں لڑکے، لڑکیوں کی سی حرکتیں کرنے لگتے ہیں اور لڑکیاں لڑکوں کی سی۔ پھر شادی ہوتی ہے۔ آپس میں ملتے ہیں تب کہیں جاکر اپنا اپنا کام سنبھالتے ہیں۔ درباری کی ان حرکتوں کو دیکھ کر گھر کی عورتیں کہتی تھیں، یہ سب شادی کی نشانیاں ہیں اور مرد کہتے تھے۔۔۔ بربادی کی!

    برآمدے میں سکھ ترکھان نے جالی لگانے کا کام آج ہی شروع کیا تھا۔ وہ دن بھر ایک بے شکل، بےقاعدہ اور کھردری سی لکڑی کو چھیلتا، اس پر رندہ کرتا رہا تھا اور اسی لئے سارے گھر میں لکڑی کے چھلکے اور چھپٹیاں بکھری ہوئی تھیں اور پیروں میں لگ رہی تھیں۔۔۔ جبھی سامنے ڈان باسکو اسکول میں گھنٹی بجی اور سفید سفید قمیص اور نیلی نیلی نیکریں پہنے ہوئے لڑکے، ایک دوسرے پر گرتے پڑتے، ہاسٹل کے کمروں سے نکلے۔ شاید وہ شام کی دعا کے لئے گرجے کی طرف جا رہے تھے۔ اسکول کی گراؤنڈ میں لمبا سا فرغل پہنے، ابھی تک فادر بچوں کو فٹ بال کھلا رہا تھا۔ اس نے بھی سیٹی بجا دی، کھیل ختم کر دیا مگر سیتا نہ آئی۔۔۔

    ارورا سنیماکی طرف سے ادھر آنے والی سڑک پر کچھ گائیں السائی سی بیٹھی تھیں اور جگالی کر رہی تھیں۔ پھر اس جانب سے ایک کار اندر کی طرف مڑی اور دائیں طرف کی بلڈنگ کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔ جبھی ایک موٹی سی عورت آتے ہوئے دکھائی دی۔ اس کے پیچھے مدراسی ہوٹل اڈپی کا مالک راما سوامی آ رہا تھا۔ وہ بھی موٹا تھا۔ اگرچہ وہ موٹی عورت اور اڈپی کا مالک راماسوامی ایک دوسرے سے کافی فاصلے پر تھے۔ تاہم یہاں درباری کے ہاں سے یہی معلوم ہو رہا تھا جیسے وہ ایک دوسرے کو ٹھیلتے ڈھکیلتے، کوئی عجیب سا کھیل کھیلتے رہے ہیں۔

    سیتا کی بجائے الٹی طرف سے مصری چلی آئی۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی اس کی گود میں بچہ تھا۔۔۔ ببل! ببل ایک تندرست بچہ تھا۔ گول مٹول، نرم نرم، جیسے اسفنج کا بنا ہوا۔ اس نے یوں تو کئی دانت نکال لئے تھے لیکن نیچے کے دو دانت نسبتاً بڑے سے تھے۔ کمینہ ہنستا تو والٹ ڈزنی کا خرگوش معلوم ہوتا۔ آج تک کوئی ایسا دکھائی نہ دیا جو ببل کو ہنستے دیکھ کر بے اختیار نہ ہنس دیا ہو۔

    ’’ببل!‘‘ درباری نے پکارا اور ہاتھ بچے کی طرف پھیلا دیے۔ مسکراتے ہوئے ببل نے درباری کی طرف دیکھا اور اندر کی کسی بے بس سی تحریک سے ایکا ایکی درباری کی طرف ہمکنا شروع کر دیا۔ اب وہ اپنی ماں مصری سے سنبھالا نہ جا رہا تھا۔

    ’’ٹھہرو!‘‘ درباری نے کہا اور کرمرا لینے کے لئے اندر لپک گیا۔ وہ یہ بھی بھول گیا کہ سیتا آئےگی اور چلی جائےگی۔ ببل کے چہرے پرایک پرخلوص مایوسی کی لہر دوڑ گئی اور پل بھر میں وہ یوں محسوس کرنے لگا جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔ یہ ساری دنیا دھوکا ہے۔ پھرجیسے وہ مایوس ہو رہا تھا، ایسے ہی درباری کو آتے دیکھ کر خوش بھی ہو گیا۔

    ببل کی ماں، مصری ایک بھکارن تھی۔ احتیاج کی بنا پر اتنی چھوٹی سی عمر میں اس نے ببل کو بھیک مانگنے کا فن سکھا دیا تھا۔ بازار میں جاتی ہوئی وہ بابو قسم کے کسی بھی آدمی کے پاس کھڑی ہو جاتی اور ببل ایک ریہرسل کئے ہوئے ایکٹر کی طرح اس آدمی کی دھوتی یا قمیص کو کھینچنے لگتا اور اس چیز کی طرف اشارہ کرنے لگتا جو اسے مطلوب ہوتی۔ آدمی دیکھتا، نظریں بچاتا، پھر دیکھتا اور بےاختیار وہ چیز خرید کر ببل کے ہاتھ میں تھما دیتا۔ مصری بابو کے چلے جانے کے بعد ببل کے ہاتھ سے وہ چیز لے لیتی اور دکاندار کو واپس کر کے پیسے کھرے کر لیتی۔ ببل روتا چلاتا رہ جاتا۔

    لیکن درباری کے ساتھ ببل اور اس کی ماں مصری کا رشتہ ایسا نہ تھا۔ کرمرا لے کر اسے بیچنے کا سوال ہی کہاں پیدا ہوتا تھا؟ کرمرے کے ساتھ مصری کو سیدھے دونی یا چونی مل جاتی تھی جس سے ببل کو کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اسے تو اپنا کرمرا چاہئے تھا، جسے ماں نہیں چھینتی تھی اور نہ کسی دکاندار کو دیتی تھی۔ کرمرا وہ سیدھا منہ میں ڈال لیتا اور دانتوں میں پپولتے ہوئے ہمک ہمک کر اچھل اچھل کر اپنی خوشنودی کا اظہار کرتا۔ آج جب درباری نے ببل کو گود میں اٹھایا تو ایک ہی بار میں کرمرے سے مٹھی بھرتے ہوئے وہ ماں کی طرف لوٹنے، لپکنے لگا۔ درباری نے ببل کو بہت روکا، پیار دلار کی کوشش کی، لیکن وہ بھلا کہاں ماننے والا تھا۔ اوں اوں کرتا ہوا وہ تو جیسے ماں کی طرف گرا ہی جا رہا تھا۔

    درباری نے کہا، ’’کمینے۔۔۔ سالے۔۔۔‘‘ اندر سے صالح یا سرداری کی آواز آئی، ’’کیا حکم ہے حضور؟‘‘

    ’’آپ کو عرض نہیں کیا، فیض گنجور۔‘‘ درباری نے اندر کی طرف منہ کرتے ہوئے جواب دیا اور پھر ببل کے پیارے دلارے سے گالوں پر چپت لگاتے اسے ماں کو لوٹاتے ہوئے بولا، ’’اتنا خود غرض۔۔۔؟ سلام نہ دعا، شکریہ نہ دھنیہ واد۔۔۔ کام نکل گیا تو اب تو کون اور میں کون؟‘‘

    مصری، فٹ پاتھ کی زندگی نے شرم کو جس کے لے ایک تکلف بنا دیا تھا، بے باکی سے بولی، ’’یہ سب ایسے ہی ہوتے ہیں، بابو جی!‘‘ اور پھر ببل کو چھاتی میں چھپاتی وہیں کھڑی وہ اپنی دونی یا چونی کا انتظار کرنے لگی۔ ببل ہمیشہ کی طرح الف نہیں توب ننگا ضرور تھا کیونکہ بدن پر کمر کے نزدیک وہ ایک کالا سا تاگا پہنے ہوئے تھا جس میں ایک تعویذ لٹک رہا تھا۔ اس ’’لباس‘‘ میں خوش، ماں کے پاس پہنچتے ہی اس نے اپنا منہ مصری کی بڑی بڑی چھاتیوں میں چھپا دیا جہاں سے وہ ایک بہت بڑے فاتح کی طرح مڑ کر دیکھنے لگا جیسے وہ کسی بہت بڑے قلعے میں پہنچ گیا ہے۔ پھر نظروں کے تیر و ترکش تانے وہ قلعے کے کنگروں پر بیٹھا، سامنے کسی جدال فوج کا جائزہ لینے لگا، یورش سے پہلے ہی جس کے چھکے چھوٹ گئے۔ پھر ایکا ایکی، کسی پروں والے، خیالی گھوڑے پر بیٹھا وہ کسی شہسوار کی طرح لپکنے لگا۔ آگے ہی آگے، اوپر ہی اوپر۔۔۔ اور منزلیں تسخیر ہو ہو کر اس کے پیروں میں پڑی ہوتی ہیں۔

    مصری ایک پکے بلکہ کالے رنگ کی جوان عورت تھی اور ببل گورا چٹا۔۔۔ یہ کیسے ہوا؟ درباری نے کبھی نہ پوچھا۔ و ہ سمجھتا تھا یہ غریب عورتیں کتنی بے سہارا ہوتی ہیں۔ سڑک کے کنارے پڑی ہوئی مصری کو کوئی بابو آٹھ آنے روپے کے عوض ببل دے گیا ہوگا۔

    ’’آپ کے پاس تو پھر بھی چلا آتا ہے، بابوجی۔ ورنہ یہ ہل کٹ۔۔ کسی مرد کے پاس نہیں جاتا۔‘‘

    ’’کیوں، کیوں؟‘‘ درباری نے حیران ہو کر پوچھا۔

    ’’مالم نہیں۔‘‘ مصری کہنے لگی اور پھر پیارسے ببل کی طرف دیکھتی ہوئی بولی، ’’ہاں عورتوں کے پاس چلا جاتا ہے۔‘‘

    درباری جی کھول کے ہنسا، ’’بدمعاش ہے نا۔۔۔ ابھی سے عورتوں کی چاٹ لگی ہے۔ بڑا ہو کر کیا کرےگا؟‘‘ مصری خوب شرمائی اور خوب ہی اترائی۔ اسے یوں لگا جیسے وہ اپنی گود میں ان گنت گوپیوں والے کنہیا کو کھلا رہی ہے اور مصری کے تصور میں جو گوپیاں تھیں وہ خود بھی ان میں سے ایک تھی جیسے ببل مصری کا من تھا اور مصری کی اپنی برتیاں اس کے ارد گرد ناچ رہی تھیں۔۔۔ ببل ابھی ایک گوپی کے ساتھ تھا پھر انیک کے ساتھ! درباری نے جو مصری بائی کے ساتھ تھوڑی سی آزادی لی تھی، اسی سے گھبرا کر پوچھ بیٹھا، ’’اس کا باپ کیا کرتا ہے، مصری؟‘‘

    ’’اس کا باپ۔۔۔؟‘‘ مصری کو جیسے سوچنے میں وقت لگا، ’’نہیں ہے۔‘‘

    اس جواب میں بہت سی باتیں تھیں۔ یہ بھی تھی کہ وہ مر چکا ہے اور یہ بھی کہ مرنے سے بھی بدتر ہو گیا ہے۔ مصری کہیں دور دیکھنے لگی اور پھر درباری لال کی نگاہوں کے تاسف کو دور کرتے ہوئے بولی، ’’ایک بار وہ پھر آیا تھا۔۔۔ مجھے یوں ہی لگا، جیسے۔۔۔ وہی ہے۔ لیکن۔۔۔ میں کیا کہہ سکتی تھی، بابو جی۔۔۔؟ میں نے تو اسے جی بھر کے دیکھا بھی نہ تھا۔۔۔ جب تک میں نے اس بچے کا کوئی نام نہیں رکھا تھا۔ کبھی گوپو، کبھی ناریاں کہہ کے پکارتی تھی۔ جبھی اس نے اس کے ہاتھ پر پانچ کا ایک نوٹ رکھا اور بڑے پیار سے پکارا۔۔۔ ببل۔۔۔! جب سے میں نے اس کا نام ببل رکھ دیا ہے۔۔۔‘‘

    اور مصری پھر سوچنے لگی، ’’اس کا باپ نہ ہوتا تو پانچ روپے دیتا؟‘‘ درباری بھی سوچنے لگا، ’’ہو سکتا ہے وہ آدمی نہیں۔۔۔ پانچ روپے کا نوٹ ہی اس بچے کا باپ ہو۔‘‘ درباری نے آج اٹھنی مصری کے ہاتھ پر رکھنے کی بجائے ببل کے ہاتھ پررکھ دی۔ ببل نے سکے کو ہاتھ میں لیا، زور زور سے بازو کو ہمکایا اور پھر اسے پھینک دیا۔ اٹھنی سڑک پر کے مین ہول میں گرنے ہی والی تھی کہ جیسے مصری کی تقدیر کو ایک خشک، بے بضاعت سے آم کے چھلکے نے اسے روک لیا۔ مصری نے جھک کر اٹھنی اٹھائی اور ببل کو سینے سے لپٹاتے ہوئے بولی، ’’لچاہے نا۔۔۔‘‘ اور پھر اسے چومتے ہوئے وہ درباری لال سے بولی، ’’سچ پوچھو، بابو جی! تو میرا مرد یہی ہے۔‘‘

    ’’تیرا مرد۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘ مصری نے ببل کو سنبھالا جو اپنی ماں کے سر پر سے پلو کھینچ رہا تھا اور کہنے لگی، ’’یہ کماتا ہے، میں کھاتی ہوں۔‘‘

    مصری بہت باتونی تھی۔ وہ اور بھی بہت کچھ کہتی۔ ببل اور بھی کر مرا مانگتا لیکن درباری کو اپنی نظروں کے افق پر کاسنی رنگ لہراتا ہوا نظر آیا۔ اس نے جلدی سے مصری کے آبنوسی حسن اور ببل کی گوری چٹی معصومیت کو جھٹک دیا اور ’’میں چلا، صالح بھائی۔۔۔ اچھا بھائی‘‘ کہہ کر وہ جلدی سے باہر نکل گیا۔ ابھی وہ سڑک پر پہنچا بھی نہ تھا کہ پتلون کے پائنچے میں اسے لکڑی کے چھلکے اڑسے ہوئے دکھائی دیے، جنہیں درباری نے جھک کر باہر نکالا اور سیتا کے پاس جا پہنچا۔

    شیواجی پارک میں ’سمندر کے کنارے کلب اور بھیل پوری والوں سے کچھ دور ہٹ کر درباری اور سیتا ایک دیوار کا سہارا لے کر بیٹھ گئے۔ سیتا اٹھارہ انیس برس کی ایک لڑکی تھی جس کی ماں تو تھی پر باپ مر چکا تھا۔ گھر کی حالت کچھ اتنی خراب بھی نہ تھی کیونکہ مکان اپنا تھا جس کے مکینوں سے کبھی کرایہ وصول ہوتا تھا اور کبھی نہیں۔ سیتا کی ماں لچھمن دی یوں تو اپنی بیٹی ی شادی کرنا چاہتی تھی لیکن شادی سے زیادہ اسے اس بات کا خیال تھا کہ کوئی ایسا آئے جوہر مہینے اپنے ’’رباب‘‘ سے کرایہ اگا ہے تاکہ سیتا کے کہنے کے مطابق دروازے پر ہر مہینے جو بھیڑیا دکھائی دیتا ہے، بھاگ جائے۔۔۔ اور جینا سکھی ہو جائے۔ لچھمن دئی سے سیتا نے درباری کی بات بھی کی۔ پہلے تو ماں شک اور وسوسے کا اظہار کرنے لگی۔ لیکن جب اسے پتہ چلا، درباری کا پورا نام درباری لال مہتا ہے تو اس نے جھٹ سے اجازت دے دی کیونکہ بمبئی میں جو لوگ مکانوں کا کرایہ اگاہتے ہیں، انہیں مہتا بولتے ہیں۔

    سیتا کا قد درمیانہ تھا لیکن بدن کا تناسب ایسا جو مردوں کے دل میں جذبے بیدار کیا کرتا ہے اور کوئی بے خودسی سیٹی ان کے ہونٹوں پر چلی آتی ہے۔ چہرے کی تراش خراش اچھی تھی لیکن اِس کا پاس آنے ہی سے پتہ چلتا تھا۔ پلکیں کچھ نم سی رہتیں کیونکہ سیتا کی آنکھیں تھوڑا اندر دھنسی ہوئی تھیں اوران کے بچاؤ کے لئے پلکوں کو جھکنا پڑتا تھا۔ لیکن یہ ان دھنسی ہوئی آنکھوں ہی کی وجہ سے تھا کہ سیتا مرد کے دل میں بہت دور تک دیکھ سکتی تھی۔ وہ کسی کو کچھ کہے یا نہ کہے، یہ الگ بات تھی، لیکن جانتی وہ سب تھی۔ ہاں، سیتا کے بال بہت لمبے تھے جن کے کارن درباری اسے پوچھا کرتا، ’’تمہارے گھرمیں کوئی کسی بنگالن کو بھی بیاہ کر لایا تھا؟ اور سیتا کہتی، ’’میں خود جو ہوں بنگالن۔۔۔ میرا نام سیتا موجمدار ہے۔۔۔‘‘

    درباری کہتا، ’’سیتا مزے دار۔‘‘ اور سیتا ہنسنے لگتی۔ وہ خوش تھی کہ اس کا قد صرف اتنا ہے جس سے وہ اپنے حسین، کالے، چمکیلے اور کچکیلے بالوں والے سر کو درباری کی چھاتی پر رکھ سکتی ہے اور اپنے وجود کی روح تک کو کسی کے حوالے کر کے اپنے سارے دکھ بھول سکتی ہے اور تھوڑے سے فرق سے وہ پتی اور پتا کو ایک کر سکتی ہے۔

    دیوار کی اوٹ میں بیٹھا ہوا درباری سیتا سے پیار کر رہا تھا۔ سیتا نہ چاہتی تھی کہ اس کا پیار اپنی حد سے گزر جائے۔ کمر کے گرد ہاتھ پڑتے ہی سیتا چوکنی ہونے لگی۔ اس نے درباری کو باتوں میں لگانا چاہا۔ بلاؤز میں سے اس نے ایک چھوٹی سی چاندی کی ڈبیا نکالی اور درباری کے منہ کے پاس کرتے ہوئے بولی، ’’دیکھو۔۔۔ میں تمہارے لئے کیا لائی ہوں؟‘‘

    ’’کیا لائی ہے؟‘‘ درباری نے پوچھا اور ان جانے میں سیتا کی کمر سے ہاتھ نکال کر ڈبیا کی طرف بڑھا دیا۔ سیتا نے ڈبیا کو پرے ہٹا لیا اور بولی، ’’ایسے نہیں۔۔۔ میں خود دکھاؤں گی۔‘‘ اور پھر اسے درباری کی ناک کے پاس کرتے ہوئے بولی، ’’سونگھو۔‘‘

    شامت اعمال درباری نے ڈبیا کو سونگھ لیا اور اسے چھینکیں آنے لگیں۔ محبت کا سارا کھیل رک گیا۔ درباری چھینک پر چھینک مار رہا تھا اور جیب سے رومال نکال کر بار بار اپنی ناک کو پونچھ رہا تھا اور سیتا پاس بیٹھی ہنستی جا رہی تھی۔

    ’’یہ۔۔۔‘‘ درباری نے کہا اور پھر چھینکتے ہوئے بولا، ’’کیا مذاق ہے؟‘‘ سیتا کہنے لگی، ’’تم اسے مذاق کہتے ہو۔۔۔؟ بیس روپئے تولہ کی نسوار ہے۔‘‘

    ’’نسوار؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘ سیتا بولی، ’’تم چھینکتے ہو تو مجھے بڑے اچھے لگتے ہو۔‘‘

    درباری نے سیتا کی طرف یوں دیکھا جیسے کوئی کسی پاگل کی طرف دیکھتا ہے۔ سیتا نے پیار بھری نگاہ اس پر ڈالی اور کہنے لگی، ’’یاد ہے پہلی بار تم مجھے کہاں ملے تھے؟‘‘

    ’’یاد نہیں۔‘‘ درباری نے سر ہلاتے ہوئے کہا، ’’صرف اتناہی پتہ ہے، تم سے کہیں پہلی بار ملا تھا۔‘‘

    ’’وہاں۔۔۔‘‘ سیتا نے سامنے مہاتما گاندھی سوئمنگ پول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’تم نہا رہے تھے اور چھینک رہے تھے۔ میرے ساتھ تین چار لڑکیاں اور بھی تھیں۔ اس دن دفتر میں آدھے دن کی چھٹی ہوگئی تھی اور ہم یونہی گھومتی گھماتی ادھر جا نکلیں۔۔۔‘‘

    ’’ادھرکیوں؟‘‘

    ’’یونہی۔‘‘ سیتا نے کہا، ’’چھٹی ہوتے ہی نہ جانے ہم سب لڑکیوں کو کیا ہونے لگتا ہے؟ ہم گھر بیٹھ ہی نہیں سکتیں۔ ایسے ہی باہر نکل جاتی ہیں جیسے کچھ ہونے والا ہے۔ پھر ہوتا ہواتا تو کچھ نہیں، جبھی پتہ چلتا ہے۔۔۔ کوکا کولا پی رہی ہیں!‘‘ سیتا ہنسی تو ساتھ درباری بھی ہنس دیا۔ وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگی، ’’ہم سب تمہاری طرف دیکھ کر ہنس رہی تھیں کیونکہ تم چھینکتے ہوئے بورڈ سے فوارے تک اور فوارے سے کنارے تک آ جا رہے تھے اور ایسا کرنے میں سر سے پیر تک دہر ے تہرے ہوئے جاتے تھے۔۔۔ بچے کی طرح میرا جی چاہا، بھاگ کے تمہیں پکڑ لوں اور پلو سے تمہارا منہ تمہاری ناک پونچھوں اور پیچھے ایک چپت لگا کے کہوں، ’’اب جاؤ مزے اڑاؤ۔۔۔‘‘

    درباری جیسے ایک ہی بات سوچ رہا تھا:’’دوسری لڑکیاں کون تھیں؟‘‘

    ’’ایک تو کمد تھی۔‘‘ سیتا بولی، ’’دوسری جولی۔۔۔ وہاں، کھاڑی کے پار ماؤنٹ میری کے پاس رہتی ہے۔ تیسری۔۔۔‘‘ اور پھر ایکا ایکی رکتے ہوئے کہنے لگی، ’’تم کیوں پوچھ رہے ہو؟‘‘

    ’’ایسے ہی۔‘‘ درباری نے جواب دیا، ’’تمہاری سہیلیاں تمہاری جوتی کی بھی ریس نہیں کرتیں۔‘‘

    ’’تم نے دیکھی ہیں؟‘‘

    ’’دیکھی تو نہیں۔‘‘

    سیتا کا چہرہ جو تھوڑا کھل اٹھا تھا، ماند پڑ گیا۔ جبھی ایک چھینک نے درباری کے چہرے پہ پر تولے لیکن رک گئی۔ وہ سامنے دیکھتے ہوئے بولا، ’’آج دن ڈوبتا ہی نہیں۔‘‘

    سمندر میں جوار شروع ہو چکا تھا۔ لہریں کناروں کی طرف بڑھ رہی تھیں اور اپنے ساتھ بھیل پوری کے بے شمار پتل، گنڈیری اور مونگ پھلی کے چھلکے، ناریل کے خود ے لا رہی تھیں۔ پھر بیچ میں کہیں کوئلے بھی دکھائی دیتے تھے جو دور اندر ذخانی کشتیوں اور بڑے بڑے جہازوں نے اپنا غم ہلکا کرنے کے لئے سمندر میں پھینک دیے تھے۔ تیل کا الزام بھی خشکی پہ ٹال دیا تھا اور ان کا خالی کیا ہوا ڈیزل ریتے پر پہنچ کر اس کے ایک بڑے سے حصے کو چکنا اور سیاہ بنا رہا تھا۔ سیتا نے مڑ کر دیکھا، درباری کچھ عجیب سی نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ سیاہیوں کے پرے اس کے چکنے چہرے پر چھٹ رہے تھے۔۔۔

    دن ڈوب رہا تھا۔ اس نے اپنے لانبے لانبے بازو دنیا کے دونوں کناروں سے سمیٹے اور انہیں بغل میں دبا کر، ایک گہرے، کیسری رنگ کی گٹھری سی بنا، دور پچھم کے گہرے گہرے پانیوں میں اترنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کا تیج زمین کی گولائیوں میں گم ہو گیا۔ اب کنارے اور اس کے مکانوں اور مکینوں پر وہی روشنی تھی جو آسمان پر کے آوارہ بادلوں پرسے ہوتے ہوئے نیچے زمین پر پڑتی ہے اور جو ہولے ہولے دھیرے دھیرے، بڑے پیار سے اندھیرے کو اپنی جگہ دیتی ہے جیسے کہہ رہی ہو۔۔۔ لو اب تمہارا راج ہے۔ جاؤ، موج اڑاؤ۔۔۔

    وہی چھینک جس نے درباری کو سیتا سے کوسوں دور پھینک دیا تھا، ایک ہی وار میں اس کے قریب بھی لے آئی۔۔۔ سیتا کانپنے لگی، درباری ہانپنے لگا۔۔۔ اندھیرے کا تسلط ہوتے ہی پول اور کلب اور سڑک پر کے قمقمے تو ایک طرف، پھیری والوں کے جھابوں اور ٹھیلوں پر ٹمٹمانے والے دیے بھی لرزنے لگے۔ جبھی جیسے دیوار میں سے آواز آئی، ’’درباری! کیا کرتے ہو؟‘‘

    ’’اس کا مطلب ہے۔۔۔‘‘ درباری نے اپنا ہاتھ ہٹاتے ہوئے کہا، ’’تم مجھ سے پیار نہیں کرتیں۔‘‘

    ’’پیار کا مطلب۔۔۔ یہ تھوڑے ہوتا ہے۔‘‘

    ’’میں سب جانتا ہوں۔۔۔‘‘ اور درباری اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور اپنے کپڑے ٹھیک کر کے جانے لگا۔ سیتا نے اسے روکنے کی کوشش کی اور التجا آمیز لہجے میں بولی، ’’کیا کر رہے ہو، چاند۔۔۔؟‘‘ اور ریت پر پڑی ہوئی سیتا درباری کے پیروں سے لپٹ گئی جو غصے سے ہانپ رہا تھا۔ درباری نے اپنے پیر ایک جھٹکے کے ساتھ چھرا لئے اور بولا، ’’Bitch۔۔۔ بڑی پاکیزہ بنتی ہے، سمجھتی ہے۔۔۔۔‘‘

    ’’میں کچھ نہیں سمجھتی۔‘‘ سیتا نے وہیں گھٹنوں کے بل گھسٹ کر پھر سے درباری کو پکڑتے ہوئے کہا، ’’میں تمہاری ہوں، چندا۔۔۔ نس نس، پور پور تمہاری ہوں۔ پر میں، ایک بدھو اماں کی بیٹی ہوں۔۔۔ مجھ سے شادی کر لو، پھر۔۔۔‘‘

    ’’کوئی شادی وادی نہیں۔۔۔‘‘ درباری بولا، ’’تم سے جو کہہ دیا، کیا وہ کافی نہیں؟ کیا منتر پھیرے ضروری ہیں؟ قانون کی پکڑ، اس کی اوٹ ضروری ہے؟‘‘ اور درباری لال رک گیا جیسے اب بھی اسے امید تھی۔۔۔

    ’’ہاں ضروری ہے۔‘‘ سیتا روتے ہوئے بولی، ’’یہ دنیا میں نے، تم نے نہیں بنائی۔‘‘

    درباری کی آخری امید بھی ٹوٹ گئی۔ بولا، ’’میں اس پیار کو نہیں مانتا، جس میں بیچ کوئی بھی پردہ، کوئی بھی شرط ہو۔ روحوں کا ملنا ضروری ہے تو جسموں کا ملنا بھی۔ اس میں سویم بھگوان ہوتے ہیں۔ ایسا شاستروں میں لکھا ہے۔‘‘

    ’’لکھا ہوگا۔۔۔‘‘ سیتا بولی، ’’سب تمہاری طرح اس بات کو مانتے ہوتے۔۔۔‘‘

    ’’میں کسی کی پروا نہیں کرتا۔‘‘ درباری نے غصے سے پیر زمین پر مارتے ہوئے کہا، جو ریت میں دھنس گئے اور پھر وہ انہیں کھینچتے، ریت سے نکالتے ہوئے چل دیا۔ سیتا پیچھے لپکی، ’’سنو۔۔۔‘‘ ابھی درباری نے دیوار کی حد نہیں پھاندی تھی۔ اب بھی وہ اس کے سہارے بیٹھ سکتے تھے اور اندھیرے کو گلے لگا سکتے تھے۔ ایک دو لڑکے فضا میں تعجب دیکھ کر رک گئے۔ پھرچنے والا آیا، جس کی پھیری میں آگ، سمندر کی طرف سے آنے والی تیز ہوا میں ہر لحظہ بڑھتی جا رہی تھی۔

    اب کے سیتا نے نہ صرف درباری کے پیر پکڑے بلکہ اپنا سر اور بنگالی زلفیں ان پر رکھ دیں اور نم آنکھیں بھی، ہونٹ بھی۔ درباری پیروں تک جل رہا تھا اور اندر کی آگ سے لرز رہا تھا۔ پیر چومتی، ان پر آنسو گراتے ہوئے سیتا نے تھوڑا اٹھ کر درباری کی طرف دیکھا اور کہنے لگی، ’’تم سمجھتے ہو، میں کسی برف، کسی پتھر کی بنی ہوں؟ میرا تم میں گھل مل جانے کو جی نہیں چاہتا؟ تم مجھ سے لگتے ہو تو کیا میرا انگ ٹوٹنے، دکھنے لگتا؟ پرتم کیا جانو، ایک لڑکی کے دکھ۔۔۔‘‘ اور پھر کسی ان جانے ڈر سے کانپتی ہوئی بولی، ’’میں نہیں کہتی یہ دکھ تم نے دیے ہیں۔ یہ بھگوان نے دیے ہیں۔ بھگوان ہی نے عورت کے ساتھ بے انصافی کی ہے۔۔۔‘‘

    ’’میں سب جانتا ہوں۔‘‘ درباری نے اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا، ’’مرد سب سہہ سکتا ہے توہین نہیں سہہ سکتا۔‘‘

    ’’کس کی توہین؟‘‘

    درباری نے جواب دینے کی بجائے سیتا کے ٹھوکر ماری اور وہ پیچھے کی طرف جا گری۔ خود وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا روشنیوں کی طرف نکل گیا۔

    سیتا ایک ایسے ڈرسے کانپے جا رہی تھی جو اپنی اس مختصر سی زندگی میں اس نے کبھی نہ دیکھا تھا۔ جس کا تجربہ اس نے اپنے پتا کی موت پر بھی نہ کیا تھا۔ ماں کی چھاتی میں منھ میں چھپا کر وہ سب بھول گئی تھی جیسے جلتے ہوئے پھوڑے کے گرد ہلکی ہلکی انگلیاں پھیرنے سے ایک طرح کا حظ، ایک قسم کا آرام آتا ہے۔ ایسے ہی ماں کے سر پر ہاتھ پھیرنے سے اس کے سارے دکھ درد دور ہو گئے تھے۔۔۔ وہیں ریت پر پڑی پڑی سیتا دبی ہوئی سسکیاں لیتی رہی۔ بیچ میں کبھی کبھی وہ سر اٹھا کر دیکھ لیتی۔ کوئی دیکھ تونہیں رہا۔ مدد کے لئے تو نہیں آ رہا۔ جیسے مصیبت میں پڑی ہوئی عورت کے لئے کوئی نہ کوئی بانکا ضرور چلا آتا ہے۔۔۔ سامنے دیے کی لو میں کوئی چیز چمکی۔ سیتا نے اٹھائی تو وہ چاندی کی ڈبیا تھی جو نیچے جاگری تھی اور اب۔۔۔ اس میں ریت چلی آئی تھی۔۔۔

    یہ حقیقت تھی کہ درباری سیتا سے پیار کرتا تھا، لیکن اتنا نہیں، جتنا سیتا کرتی تھی۔ سیتا تو جیسے اس دنیا میں اپنے نام کو بجا ثابت کرنے کے لئے آئی تھی اور اب اشوک باٹیکا میں پڑی دیکھ رہی تھی کہ کوئی اوپر سے سندیسے میں انگوٹھی پھینکے۔۔۔ لیکن رام جی کے زمانے سے آج تک بیچ میں کیا کچھ ہو گیا تھا۔ اب تو انگریزی ’’فن‘‘ چلا آیا تھا، جس سے درباری پورا لطف اٹھانا چاہتا تھا۔

    گھرمیں جالی لگ گئی تھی۔ تین دن خوب ہی پریشان کرنے کے بعد سکھ ترکھان چھٹی کر گیا تھا۔ صاف ستھرے برآمدے میں بیٹھے ہوئے درباری خالی خولی نگاہوں سے سڑک کے اس موڑ کو دیکھ رہا تھا، جہاں کبھی کاسنی اور کبھی سردئی، کبھی دھانی اور کبھی جو گیا رنگ لہرایا کرتے تھے۔ پاس درباری کا بھانجا محمود یا بنواری سرکنڈے اور ٹین سے بنے ہوئے ایک بد وضع کھلونے سے کھیل رہا تھا، جس سے اس کے ہاتھ کے کٹ جانے کا ڈر تھا۔ شاید اسی لئے اندر سے ستونتی یا کنیز بھاگی ہوئی آئی اور آتے ہی بچے سے اس کا کھلونا چھین لیا۔ بچہ رونے لگے، مچلنے لگا۔

    ’’ہے ہے۔۔۔‘‘ درباری نے احتجاج کیا، ’’کیا کر رہی ہو آپا؟‘‘

    ’’تم چپ رہو جی۔۔۔‘‘ وہ بولی، ’’تم سے ہزار بار کہا ہے، مجھے آپا مت کہا کرو۔۔۔ دیدی کہتے کیا سانپ سونگھتا ہے؟‘‘

    ’’اچھا جی!‘‘ درباری بولا، ’’اور اصل بات کی بات ہی نہیں۔ دیکھو تو کیسے رو رہا ہے۔۔۔ ایسے تو لارڈ کچز بھی پورا بیڑہ ڈوب جانے پر نہیں رویا ہوگا۔۔۔ دوا سے کھلونا۔‘‘

    ’’کیسے دوں۔۔۔؟ کہیں آنکھ پھوڑ لے۔۔۔‘‘

    ’’سب بچے الٹے سیدھے کھلونوں سے کھیلتے آئے ہیں۔ کتنوں کی آنکھ پھوٹی ہے؟‘‘

    ’’جتنا یہ شیطان ہے، کوئی اور بھی ہے؟‘‘

    ’’سب ماؤں کو اپنا بچہ اتناہی شیطان معلوم ہوتا ہے۔‘‘

    اور محمود یا بنواری بڑی بیزاری سے رو رہا تھا۔ گھر بھر کو اس نے سر پر اٹھا لیا تھا۔ درباری نے طاق پر سے جاپانی بلی اٹھا کر دی جو چابی دیتے ہی بھاگنا اور قلابازیاں لگانا شروع کر دیتی تھی، جسے دیکھ دیکھ کر بچے تو کیا، بڑے بھی محظوظ ہونے لگتے تھے لیکن بچوں کو تو وہی کھلونا چاہئے جو کسی نے چھینا ہے۔ درباری نے برے برے منہ بنائے، کیسے کیسے خو خو، خا خا کیا، منہ میں انگلی ڈال کر ہنومان بنا۔ پھر جانی واکر، آغا۔۔۔ لیکن وہ رو رہا تھا۔ اسے اپنا وہی کھلونا چاہئے تھا۔ درباری کا جی چاہا، اسے تھپڑ مار دے۔ اگر بچے کے اور رونے کا ڈر نہ ہوتا تو وہ ضرور مار دیتا۔ درباری نے ایکا ایکی جھلا کر کہا، ’’اب بند بھی کر، سالے۔۔۔‘‘

    اندر سے آواز آئی، ’’رونے دے یار۔‘‘ بچہ رو رہا تھا۔ آخر دیدی بھاگی آئی، الٹے پیروں۔

    ’’ہے رام۔‘‘

    ’’ہائے اللہ کیوں نہیں کہتیں؟‘‘

    ’’بھگوان کے لئے۔۔۔ تم چپ رہو۔‘‘

    ’’خداکے لئے کہو تو۔۔‘‘

    پھر ستونتی یا کنیز جیسے کھلونا چھین کر لے گئی تھی، ویسے ہی لوٹا بھی گئی، ’’لے میرے باپ۔‘‘ اس نے کھلونے کو بچے کو ہاتھ میں ٹھونستے ہوئے کہا اور پھر جیسے اس کی حالت زار دیکھ بھی نہ سکتی ہو، اسے اٹھایا، چھاتی سے لگایا، ہلورے دیے۔ قمیص سے اس کا منھ پونچھا، ناک صاف کی۔ چوما، چاٹا۔۔۔ اور اس کے کہے کے مطابق ’’بڑی ٹھنڈ پڑی۔۔۔‘‘ پھر بہت گالیاں اپنے آپ کو دیں، ’’ہائے مر جائے ایسی ماں۔۔۔ نہ رہے اس دنیا میں، لال کو کتنا رلایا ہے۔‘‘ اور پھر اپنے پتی یا شوہر کی طرف دیکھتے ہی برس پڑی، ’’دیکھو تو کیا مزے سے بیٹھے ہیں۔‘‘ وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔ خاصے بے مزہ دکھائی دے رہے تھے!

    درباری بولا، ’’اب چاہے ہاتھ نہیں، گردن بھی کاٹ لے۔‘‘

    ’’کاٹ لے۔‘‘ دیدی بولی، ’’مروں گی میں۔۔۔ تم لوگوں کو اتنا سا بھی وہ نہ ہوگا۔‘‘

    ’ہوگا یا نہیں۔۔۔‘‘ درباری بولا، ’’کہتے ہیں۔۔۔ نادان بھی وہی کرتا ہے جو دانا کرتا ہے، لیکن ہزار جھک مارنے کے بعد۔۔۔ پہلے ہی چھیننے کی بےوقوفی نہ کی ہوتی۔‘‘

    ’’ہاں، میں بے وقوف ہوں۔‘‘ دیدی کہتی ہوئی بچے کو اندر لے گئی، ’’ماں ہونا اور عقل بھی رکھنا الگ باتیں ہیں۔‘‘

    جبھی سامنے ارورا سنیما کی طرف سے آنے والے موڑ پر نارنجی سارنگ دو تین بار لہرایا۔ درباری نے جلدی سے کپڑے ٹھیک کئے، سر پرٹوپی رکھی اور باہر نکل گیا۔ موڑ پر سیتا کھڑی تھی۔ اس نے ایک کی طرف تاکا اور پھر پرے دیکھنے لگی۔ اس کی آنکھیں کچھ اور بھی اندردھنس گئی تھیں، پلکیں کچھ اور بھی نم ہو گئی تھیں۔

    ’’کہیے حضور۔۔۔ کیا حکم ہے؟‘‘ درباری نے پوچھا۔ سیتا نے کوئی جواب نہ دیا۔ درباری کو یوں لگا جیسے سیتا کچھ کانپ سی رہی ہو۔ درباری کچھ دیر اس کی طرف دیکھتا رہا اور بولا، ’’اگر چپ ہی رہنا ہے، تو پھر۔۔۔‘‘ اور وہ لوٹنے لگا۔

    ’’سنو!‘‘ سیتا ایکا ایکی مڑتی ہوئی بولی، ’’مجھے چھما کر دو۔ اس دن مجھ سے بڑی بھول ہو گئی۔‘‘ درباری نے رک کر اس کی طرف دیکھا، ’’اب تو نہیں ہوگی؟‘‘ سیتا نے نفی میں سر ہلا دیا۔

    ’’جہاں کہوں گا، میرے ساتھ چلوگی؟‘‘

    سیتا نے اثبات میں سر ہلا دیا اور منہ پرے کرتی ہوئی ساری کے پلو سے اپنی آنکھیں پونچھ لیں۔ درباری کے بدن میں خون کا دورہ جیسے ایکا ایکی تیز ہونے لگا۔ اس نے اپنے کھردرے سے ہاتھ پھیلائے اور سیتا کا نرم سا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا، ’’تو تو ایسے ہی ڈر رہی ہے سیتے۔۔۔! تجھے دیکھ کرمجھے یوں لگتا ہے، جیسے میں بڑا نیچ ہوں۔‘‘

    سیتا جیسے یہی سننا چاہتی تھی۔ بولی، ’’نہیں۔۔۔ ایسا کیوں؟‘‘

    درباری اور سیتا وہیں پہنچ گئے۔ شیواجی پارک میں، دیوار کے نیچے۔۔۔ دن ڈوب چکا تھا۔ آج آسمان پر کوئی بادل بھی نہ تھا جو زمین کی گولائیوں سے آسمان پر منعکس ہونے والی روشنی کو ادھر زمین پر پھینک دے۔ اس لئے اندھیرے نے جلدی ہی دنیا کو لپک لیا۔ سامنے مہاتما گاندھی سوئمنگ پول کے ارد گرد بنے ہوئے جنگلے، خاکے بنے اور پھر معدوم ہو گئے۔ درباری کے بڑھتے ہوئے پیار کے سامنے سیتا منفعل سی بیٹھی رہی۔ درباری ایک دم جھلا اٹھا اور بولا، ’’کچھ ہنسو، بولو بھی نا۔۔۔‘‘ سیتا کو ہنسنا پڑا۔ درباری نے سیتا کی کھوکھلی ہنسی کی نقل اتاری اور سیتا سچ مچ ہی ہنس دی۔ درباری حوصلہ پا کر بولا، ’’تمہیں کیا سچ مچ مجھ پر وشواس نہیں؟‘‘

    ’’یہ بات نہیں۔‘‘ سیتا بولی، ’’تم مجھ سے شادی کر بھی لوگے، تو بھی مجھے نفرت کی نگاہ سے دیکھوگے۔ سمجھوگے، میں ایسی ہی تھی۔۔۔‘‘

    ’’نہیں سیتے، میں نہیں سمجھوں گا۔۔۔ کبھی نہیں سمجھوں گا۔‘‘

    جبھی کچھ لوگ ہاتھ میں لوہے کی سلاخیں لئے چلے آئے۔ درباری چونکا۔ اس کی تسلی ہوئی جب انہوں نے سلاخیں ریتے میں مارنی شروع کر دیں۔ وہ بیوڑے کے اس دفینے کو دیکھ رہے تھے جو دو ایک دن پہلے انہوں نے ریتے میں دبایا ہوگا اور اب سمندر میں جوار آنے سے پہلے اسے برآمد کرنا، استعمال میں لانا چاہتے تھے۔ درباری اور سیتا اٹھ کر ذرا پرے دیوار کے دوسرے کنارے پر جا بیٹھے۔ مڑ کر دیکھا تو دیوار کے اوپر، بمبئی کے برتن مانجھنے والے راما لوگ بیٹھے تھے اور آپس میں ٹھٹھا کر رہے تھے۔ درباری نے دیکھتے ہوئے بھی نہ دیکھنا چاہا۔ سیتا گھبرا رہی تھی، لجا رہی تھی، پسینہ پسینہ ہو رہی تھی۔ وہ مکمل طور پر درباری کے ہاتھوں میں تھی۔ آج اس کا اپنا کوئی ارادہ نہ تھا۔ و ہ تو کسی روٹھے کو منانا چاہتی تھی اور اس کے لئے کوئی بھی قیمت دینے کو تیار تھی۔

    جبھی کچھ من چلے ’’اسے مرے دل کہیں۔۔۔‘‘ گاتے ہوئے پاس سے گزرے۔ پھر ایک پولیس مین آیا اور درباری جھلا کر اٹھ گیا۔ اس نے خونیں آنکھوں سے ارد گرد کے منظر کو دیکھا اور انگریزی میں ایک موٹی سی گالی دی اور بولا، ’’چلو سیتے، جو ہو چلیں گے۔‘‘

    ’’جو ہو۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ اٹھو، کیڈل روڈ سے ٹیکسی لیتے ہیں۔‘‘ سیتا چپ چاپ اٹھ کر درباری کے ساتھ چل دی۔

    سیتا اور درباری جو ہو کے بیچ پر ادھر ادھر پھرنہ سکتے تھے، کیونکہ اس میں خطرہ تھا۔ روز کوئی نہ کوئی واردات ہوتی رہتی تھی۔ ابھی چند ہی دن ہوئے ایک قتل ہوا تھا۔ چند غنڈوں نے ایک میاں بیوی کو بحر زندگی کے دو کناروں پر جا کھڑا کیا تھا۔ لیکن اس دن جوہو کے سب ہوٹل، سب کاٹیج گاہکوں سے بھرے پڑے تھے۔ کوئی گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد درباری اور سیتا فورٹ کی طرف جا رہے تھے۔ راستے میں سیتا کوئی بات کرتی تھی، درباری کوئی اور ہی جواب دیتا تھا۔ دیتا بھی تھا تو اکھڑا اکھڑا، بے تعلق۔ زبان میں ایک عجیب طرح کی لکنت تھی جیسے کوئی نشے والی چیزمنھ میں رکھ لی ہو، جس سے زبان پھول گئی ہو۔

    ٹیکسی حاجی علی سے ہوتے ہوئے تاردیو میں داخل ہوئی، وہاں سے اوپرا ہاؤس ہوتے ہوئے ہارن بائی روڈ پر جا پہنچی، جس کا نام اب مہاتما گاندھی روڈ ہو گیا ہے۔ ایک ہوٹل پر پہنچتے ہوئے درباری نے منیجر سے پوچھا، ’’کوئی کمرہ ہے؟‘‘ منیجر نے غور سے درباری کی طرف دیکھا، جس کے چہرے سے معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی واردات کر کے آیا ہے، یا کرنے جا رہا ہے۔ پیچھے سیتا کھڑی زمین کی طرف دیکھتے ہوئے تھرتھر کانپ رہی تھی۔ دونوں گناہ کے عادی نہ تھے۔ خام، بےرحم فطرت کے ہاتھوں گرفتار وہ دیوانے سے ہو رہے تھے۔ جبھی منیجر نے پوچھا، ’’آپ کہاں سے آئے ہیں؟‘‘

    ’’جی؟‘‘ درباری نے ایکا ایکی سوچتے ہوئے کہا، ’’اورنگ آباد سے۔‘‘

    ’’خوب!‘‘ منیجر نے پیچھے سیتا کی طرف اور پھر درباری کے سیاہ چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’آپ کا سامان کہاں ہے؟‘‘

    ’’جی سامان تو نہیں ہے۔‘‘

    ’’معاف کیجئے۔‘‘ منیجر نے درباری کی طرف یوں دیکھتے ہوئے کہا جیسے وہ کوئی نجس اور لجلجی شے ہو اور بولا، ’’اپنے پاس کوئی روم نہیں۔‘‘

    ’’کیا مطلب؟ ابھی تو ٹیلی فون پر۔۔۔؟‘‘

    بیرہ نمبر ۲۷ جو ایک ٹرے پرویفر، مونگ کی دال، سوڈے کی بوتلیں اور چابی لے کر جا رہا تھا، بول پڑا، ’’یہ ہوٹل عزت والے لوگوں کے لئے ہے صاحب!‘‘

    درباری کچھ نہ کہہ سکا۔ حالانکہ وہ جانتا تھا، وثوق سے جانتا تھا، اس بیرے کاٹپ ایک روپیے سے زیادہ نہ تھا اور قبلہ منیجر صاحب کی عزت پانچ روپئے سے۔۔۔ اور آج یہ سب کے سب ایک دم نیکی اور عزت اور شرافت کے پتلے بن بیٹھے تھے۔ وہ عزت اور شرافت کے پتلے تھے یا نہیں۔ لیکن ایک بات طے تھی کہ زندگی میں کچھ بھی کر گزرنے کے لئے مشاق ہونے کی ضرورت ہے۔ نگاہوں میں ایک پیشہ ورانہ جرأت اور بے باکی اور بے حیائی لانی پڑتی ہے جس کے سامنے مد مقابل کا اخلاق، اس کی شرافت اور پارسائی جھوٹی پڑ جاتی ہے۔ درباری اپنے اندر کہیں کمزور، کہیں بزدل تھا۔۔۔ وہ ایک ناتراشیدہ ہیرا تھا۔ لوٹتے ہوئے وہ گالیاں بک رہا تھا، انگریزی میں۔ جنہیں وہ ہوٹل کے منتظمین کو سنانا بھی چاہتا تھا اور ان سے چھپانا بھی۔

    ’’چلو سیتا۔‘‘ درباری نے کہا، ’’پھر کبھی سہی۔‘‘ اور دونوں ٹیکسی پر بیٹھ کر گھر کی طرف چل دیے۔ زندگی بے کیف ہو گئی تھی۔ اتنی ہزیمت کا احساس درباری کو کبھی نہ ہوا تھا۔ اس کی نگاہوں میں کئی لوگ ہیرو ہو گئے اور بہت سے ہیرو پیروں میں آگرے۔

    آج اس کا کہیں جانے کا ارادہ نہیں تھا، کوئی پروگرام نہیں تھا۔ حالانکہ ایک مبہم سے احساس کے ساتھ وہ دفتر سے جلدی چلا آیا تھا۔ تھکا تھکا، ٹوٹا ٹوٹا، مضحل سا۔ اس شام کی شکست اور بےحرمتی کے بعد ایک تسکین کا سا احساس تھا جو تسکین بھی نہیں تھی۔ یہ آگ۔۔۔ یا تو پیدا ہی نہ ہوتی۔ اسی لئے بڑے، خیال کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ یا تویہ حضرت پیدا ہی نہ ہوں اور اگر ہوں تو آپ انسان کی اولاد کی طرح انہیں جھٹک نہیں سکتے، ان کا گلا نہیں گھونٹ سکتے کیونکہ ہر دو صورتوں میں سزا موت ہے۔ یہ دماغ کے کسی کونے میں چپکے دبکے پڑے رہیں گے، اور اس وقت آلیں گے، جب آپ مکمل طور پر نہتے ہوں گے، بالکل بے دست و پا۔۔۔ غسل دی جانے والی میت کی طرح۔

    درباری اس وقت برآمدے میں بیٹھا ڈان باسکو دیوار کے ساتھ اگے ہوئے پیڑوں کو دیکھ رہا تھا جن کی چھاؤں میں محلے کے امراء کی موٹریں سستا رہی تھیں۔ کچھ تو یہ ان امیر مزدوروں کی تھیں جو گھر سے دفتر اور دفتر سے سیدھے گھر چلے آتے تھے اور بیوی کے ساتھ جھگڑے ہی سے ان کی پوری تسلی ہو جاتی تھی اورکچھ ایسے لوگوں کی جنہوں نے انہیں چلتے پھرتے قحبہ خانے بنا رکھا تھا۔ ان کے ڈرائیوروں کو سرشام گاڑی چمکانے اور منہ سی رکھنے کی تنخواہ چپکے سے دے دی جاتی تھی۔ یہ بیرہ نمبر ۲۸ تھے۔

    درباری نے کھینچ کھانچ کر اس دن ہوٹل میں پیدا ہونے والی مایوسی کا، کار میں افزائش پانے والی امید سے تعلق پیدا کر لیا۔ لیکن کیا فائدہ؟ امید کو چمکانے دمکانے سے کار تھوڑے ملا کرتی ہے؟ باپ گردھاری لال مہتا تو پیسے کو ہوا بھی نہیں لگواتے تھے۔ اگلے جنم میں بھی سانپ بن کر دفینے پر بیٹھ جانے کا ارادہ تھا۔

    صالح بھائی یا سرداری لال مع اپنے بیوی بچوں کے اپنے گھر چلے گئے تھے۔ پیچھے ٹھنٹ سے بازوؤں والی بے بچہ بھابی رہ گئی تھی، جس کی بھیا سے بچہ نہ ہو سکنے پر تکرار ہی رہتی تھی۔ وہ کہتی تھی تم میں نقص ہے اور وہ کہتے تم میں۔ وہ کہتی تم ڈاکٹرکو دکھاؤ، وہ کہتے تم اپنا معائنہ کراؤ اور ناپید بچے مایوسی سے انہیں دیکھتے رہتے اور اپنا سر پیٹ لیتے۔

    درباری مکمل طور پر بور ہو چکا تھا۔ وہ جانتا تھا اور تھوڑی دیر گھر میں رہےگا تو ماں شادی کی باتیں کرنے چلی آئےگی اور وہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ہاں کچھ دن تو زندگی دیکھ لے۔ آخر تو ایک نہ ایک دن ہر کسی کی شادی ہوتی ہی ہے۔۔۔ کس کے ساتھ شادی؟ سیتا لپک کر اس کے دماغ میں آتی تھی۔ سیتا ویسے ٹھیک تھی، لیکن شادی کے سلسلے میں نہیں۔ وہ بہت ایثار والی لڑکی تھی، شکل صورت سے بھی بری نہ تھی لیکن بیوی۔۔۔ بیوی کوئی اور ہی چیز ہوتی ہے۔ اسے کچھ تو چلبلا ہونا چاہئے۔ ادھر ادھر جھانکنا چاہئے تاکہ مرد کان سے پکڑ کر کہے، ’’ادھر۔‘‘ اور پھر بدھوا کی بیٹی؟ مرد سے یوں چمٹتی ہے جیسے وہ اس کا شوہر نہیں، باپ ہے۔۔۔ میں کہاں کرایے اگاہتا پھروں گا؟ ہاں تھوڑی دیرکے پیار کے لئے سیتا سے اچھی کوئی نہیں۔ کیا جسم پایا ہے!

    جبھی مصری دکھائی دی اور ببل دکھائی دیا۔۔۔ مصری دور ہی سے ’’بابو جی‘‘ کی طرف انگلی کرتی ہوئی آ رہی تھی اور ببل وہیں سے غوں غوں غاں غاں کرتا ہوا ہمک رہا تھا۔ پھر یکایک ببل میں زندگی اچھلی، جیسے گیند زمین پر سے اچھلتا ہے اور مصری کو سنبھالنا مشکل ہو گیا۔ آج ببل خدا کے نہیں، انسان کے لباس میں تھا۔ ایک میلی سی بنیان پہن رکھی تھی۔ ہاں، نیچے اللہ ہی اللہ تھا۔ پاس آتے ہی ببل نے دونو ں ہاتھ پھیلا دیے۔

    ’’کمینہ! جیسے میں اس کے لئے کرمرا لیے ہی تو کھڑا ہوں۔۔۔‘‘ جیسے اندر جانا اور باہر آکر اس کے حضور باج گذاری اس کے صبر کی آخری حد ہے۔ درباری کر مرالے کر باہر آیا تو آج پہلی بار اسے خیال آیا۔۔۔ مصری ایک عورت ہے، اور ببل اس کا بچہ۔ اور یہ سب کتنا مقدس ہے۔ غریب لوگوں میں باپ ہوتا تو ہے، مگر ’محض تکلف کی چیز۔‘ جبھی درباری کا دماغ تیزی سے چلنے لگا۔ وہ ایک دائرے میں گھومتا تھا اور گھوم پھر کر وہیں آ جاتا تھا۔ پھر کوئی کشف کی سی کیفیت ہونے لگی۔ آنکھیں پھیلنے اور سمٹنے لگیں۔ درباری لال نے آج وہیں سے کر مرا ببل کو دے دیا تھا۔ جانے کیا بات تھی جو آج درباری ببل کو گود میں نہیں لے رہا تھا۔ جیسے وہ شرما رہا تھا۔ لیکن وہ ربڑکی گیند۔۔۔ ببل۔۔۔ جیسے دیوار کے ساتھ لگ کر پھرلوٹ آتا۔ یہ نہیں کہ آج اسے کر مرا نہیں چاہئے تھا۔ اسے کر مرا بھی چاہئے تھا اور آسمان کی بادشاہت بھی۔ ببل حیران ہو رہا تھا۔۔۔ آج یہ بابو مجھے لیتا کیوں نہیں؟

    ’’آج تم نے کتنے پیسے بنائے ہیں، مصری؟‘‘ درباری نے کچھ جھینپتے ہوئے پوچھا۔

    ’’یہی کوئی چودہ آنے۔‘‘

    ’’کیوں، صرف چودہ آنے کیوں؟‘‘

    ’’آج میرا مرد ناگ پاڑے چلا گیا تھا۔‘‘ مصری نے بے باکی سے کہا۔

    ’’تیرا مرد؟‘‘ درباری نے حیران ہوتے ہوئے کہا، ’’تم نے کوئی مرد کر لیا ہے؟‘‘

    مصری ہنسی اور ببل کو دونوں بازوؤں میں تھام کر اونچا، درباری لال کے برابر کرتے ہوئے بولی، ’’یہ ہے میرا مرد، میرا کماؤ مرد۔۔۔ اسے آج اس کی موسی پارلے کی چونا بھٹی لے گئی تھی۔ یہ بنیان دی، جو یہ ہل کٹ پہنتاہی نہیں۔ یوں کندھے جھٹکتا ہے، جیسے پوری دھرتی کا بوجھ لاد دیا۔‘‘ درباری سمجھا اور ہنسنے لگا۔ ابھی تک وہ ببل کو اپنے ہاتھوں میں نہیں لے رہا تھا اور ببل کرمرا وغیرہ سب بھول کر شور مچا رہا تھا۔ مصری بولی، ’’ننگا رہنے والی عادت پڑ گئی تو بڑا ہو کر کیا کرےگا؟‘‘

    ’’یہ ایسے ہی اچھا لگتا ہے، مصری۔‘‘

    ببل جیسے ہمک ہمک کر کہہ رہا تھا، ’’جھوٹ۔۔۔! اچھا لگتا ہوں تو پھر مجھے لیتے کیوں نہیں؟‘‘ اور اب تو وہ بہت ہی شور مچانے لگا تھا، ’’ہو، ہو، ہو۔۔۔‘‘

    ’’ببل ہوتا ہے تو تم کتنا کما لیتی ہو؟‘‘ درباری نے پوچھا۔

    ’’یہ؟‘‘ مصری ببل کو نیچے کرتے ہوئے بولی۔ اس کے بازو تھک گئے تھے، ’’یہ ہوتا ہے تو مجھے تین بھی مل جاتے ہیں، چار بھی۔۔۔‘‘ درباری نے اپنی جیب سے دس روپے کا نوٹ نکالا اور مصری کی طرف بڑھایا۔

    ’’یہ کیا بابو جی؟‘‘ وہ بولی اور اس کا چہرہ لال ہونے لگا۔

    ’’تم لو نا۔‘‘ درباری بولا۔ اور پھر ادھر ادھر دیکھ کر کہنے لگا، ’’جلدی سے لے لو، نہیں کوئی دیکھ لےگا۔‘‘ مصری نے ادھرادھر دیکھا۔ اب تک اس کا چہرہ قرمزی ہو چکا تھا۔ اس نے جلدی سے دس کا نوٹ لیا اور ادھر ادھر دیکھ کر اپنے نیفے میں اڑس لیا اور اس فقرے کا انتظار کرنے لگی جو اب وہ سال میں مشکل سے تین چار بار سنتی تھی۔ لیکن مصری کا رنگ سیاہ ہو گیا جب اس نے درباری کی بات سنی، ’’تم تو جانتی ہو، مصری!‘‘ درباری بولا، ’’میں اس سے کتنا پیار کرتا ہوں۔۔۔ ببل سے۔۔۔ اگر تم اسے ایک دن کے لئے مجھے دے دو۔۔۔‘‘ مصری کچھ نہ سمجھی۔ درباری نے کہا، ’’میں اسے کلیجے سے لگا کے رکھوں گا، مصری۔۔۔ ایک ماں کی طرح، تمہاری طرح یہ مجھے اتنا اچھا لگتا ہے، اتنا اچھا لگتا ہے کہ۔۔۔ بہت ہی اچھا لگتا ہے۔‘‘ اور درباری نے ہاتھ بڑھا کر ببل کو لے لیا۔

    ببل ایک دم خوشی سے اچھل گیا۔ درباری کی گود میں آتے ہی اب وہ کرمروں کے لئے گردن کو یوں ادھر ادھر گھمانے لگا جیسے مور چلتے وقت اپنی گردن کو ہلاتا گھماتا ہے۔۔۔ پھر اس کے گول گول، گدرائے ہوئے بازو کسی سائیکل کی طرح سے چلنے لگے۔ درباری نے کرمرے کے کچھ دانے ببل کے منہ میں ڈالے۔ جنہیں لیتے ہی وہ عام طورپر ماں کی طرف لپکا کرتا تھا لیکن آج وہ درباری ہی کے بازوؤں میں شیطانی حرکتیں کرتا رہا۔ کبھی کہتا چھوڑ دو، نیچے اتار دو۔ کبھی پکڑ لو، چھاتی سے لگا لو۔ بیچ میں اس نے ماں کی طرف دیکھا، ہنسا بھی لیکن منھ درباری کی طرف کر لیا۔ ماں کو چڑانے لگا، جیسے درباری کو چڑایا کرتا تھا۔ مصری ابھی تک بھونچکی کھڑی تھی اور غیریقینی انداز سے باپ بیٹے کی سی دونوں ہستیوں کو دیکھ رہی تھی۔

    ’’کہیں آپ کے کپڑے خراب کر دیے تو؟‘‘

    ’’توکیا ہوا؟‘‘ درباری نے کہا، ’’بچوں کی ہر چیز امرت ہوتی ہے۔‘‘ مصری کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ پہلے اس نے سوچا تھا، زندگی میں بہت ہی نایاب چیز تھوڑی دیر کے لئے اسے مرد مل گیا۔ اب اس نے سوچا میرے بچے کا باپ مل گیا اور پہلی چیز سے دوسری بہت بڑی تھی۔

    ’’میں اسے کھلاؤں گا، پلاؤں گا، مصری۔‘‘ درباری نے وعدہ کیا، ’’تم رات دس بجے کے قریب اسے لے جانا۔‘‘

    ’’اچھا۔۔۔‘‘ مصری نے سر ہلا دیا۔

    مصری چلی۔ پھر رک گئی۔ مڑکر بچے کی طرف دیکھا جو درباری کے بازوؤں میں کھیل رہا تھا اور اپنے اردگرد درباری کی بند مٹھی کھولنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس کے نہ کھلنے پر جھلا رہا تھا۔ مصری نے آواز بھی دی، ببل نے دیکھا بھی، مگر اسے آج کسی بات کی پروا نہ تھی۔ باپ کی پروا نہ تھی تو ماں کی بھی نہیں۔ مصری پھر چلی لیکن جیسے اس کا دل وہیں رہ گیا۔ رک کر پھر دیکھنے لگی اور جب اسے اس بات کی تسلی ہو گئی کہ ببل رہ لے گا تو وہ جلدی جلدی چلی گئی۔ کچھ دور جا کر اس نے نیفے میں سے دس کا نوٹ نکالا اور اس کی طرف یوں دیکھا جیسے کوئی اپنے شوہر کی طرف دیکھتی ہے۔

    درباری ببل کو لئے اندر آیا۔ ببل کو کمرے کی بہت سی چیزوں میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ ہر چیز اس کے لئے نئی تھی۔ ہرشئے کو وہ منھ میں ڈال کر ایک نیا تجربہ کرنا چاہتا تھا۔ ایسا تجربہ جس کی کوئی حد نہیں۔ ایسا سواد جس کی کوئی سیما نہیں۔ جبھی ماں اندر چلی آئی اور درباری کے ہاتھ میں بچے کو دیکھ کر حیران ہو اٹھی۔ ناک پرانگلی رکھتی ہوئی بولی، ’’ہائے رام، یہ کیا؟‘‘

    ’’ببل، ماں! مصری کا بیٹا۔‘‘ درباری بولا، ’’مجھے بڑا پیارا لگتا ہے۔‘‘

    ’’اس کی ماں کہاں ہے؟‘‘

    ’’گئی۔۔۔ میں نے تھوڑی دیر کھیلنے کولے لیا ہے، ادھار۔۔۔ ایک بار پیدا کر دیا، پھر ماں کا کیا کام؟‘‘ درباری نے ماں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

    ’’جارے جا۔‘‘ ماں بولی، ’’چھ آٹھ مہینے تک ہی ماں کی جرورت ہوتی ہے۔ پھر جیسے اپنے آپ تیرے ایسے لوٹھے بن جاتے ہیں۔‘‘

    ’’اچھا ماں۔‘‘ درباری نے کہا، ’’میں اسے پووار کالج کے سامنے والے میدان میں لے جاؤں گا، جہاں پاس ہی مجھے جگ موہن کی کتابیں بھی لوٹانی ہیں۔ تو ذرا اسے پکڑ۔‘‘ ماں نے جھرجھری لی، ’’ہا۔۔۔ گندا۔‘‘ اور ہاتھ ہلاتے ہوئے بولی، ’’میں تو اسے ہاتھ نہیں لگاتی۔‘‘ بھابی جو کچھ دیر پہلے آ کھڑی ہوئی تھی، بولی، ’’اتنا ہی شوق ہے تو اپنا ہی کیوں نہیں لے آتے؟ شادی کر لیتے؟‘‘

    ’’نہیں۔‘‘ درباری نے بھابی پر چوٹ کرتے ہوئے کہا، ’’مجھے دوسروں ہی کے اچھے لگتے ہیں۔‘‘

    بھابی نے ٹھنڈی سانس لی، ’’اب بھگوان نہ دے تو کوئی کیا کرے؟‘‘

    درباری نے ببل کو نیچے فرش پر بٹھا دیا، جہاں اس کی توجہ جرمن سلور کے ایک چمچے نے اپنی طرف کھینچ لی تھی۔ درباری خود اندر چلا گیا اور ببل چمچے کو منہ میں ڈالتا، چوستا رہا۔ شاید وہ کچھ اور بھی دانت نکال رہا تھا۔ ایکا ایکی ببل کو اپنا آپ اکیلا محسوس ہوا۔ اس نے اپنے ہاتھ پہلے ماں، پھر بھابی کی طرف پھیلا دیے۔ ماں تو چھی چھی کرتے ہوئے اندر چلی گئی۔ بھابی ایک لمحے کے لئے ٹھٹکی۔ پھر جیسے اندرکے کسی ابال نے اسے مجبور کر دیا اور لپک کر اس نے ببل کو اٹھا لیا۔ اور اسے سینے سے لگا کر ہلنے لگی، جیسے کسی اپار سکھ اور شانتی کے جھولے میں پڑی ہے۔ ببل اسے گندہ نہیں لگ رہا تھا۔ من ہی من میں اس نے ببل کو نہلا دھلا کر ایک بھکارن کے بیٹے سے کسی رانی کا بیٹا بنا لیا تھا اور اندر ہی اندر اس نے سیکڑوں ریشمی اور سوتی فراک بنا ڈالے تھے اور سوچ رہی تھی اتنا خوبصورت ہے، میں اس کے لئے لڑکیوں والے کپڑے بنواؤں گی۔

    اندر پہنچ کر درباری نے سوٹ کیس نکالا۔ اس میں کچھ کپڑے رکھے اور پھر اس کے اوپر کچھ کتابیں۔ پھر دھپ سے سوٹ کیس بند کیا اور بیٹھک کی کی طرف امڈا۔ بیٹھک میں پہنچا تو ببل ہمیشہ کی طرح چھاتیوں میں سردیے ہوئے تھا۔ درباری کے پہنچتے ہی اس نے منہ نکالا اور ایک فاتح کی طرح درباری کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر اگلے ہی پل جانے کس جذبے، کس گنتی سے اس نے اپنے پورے پر درباری کی طرف پھیلا دیے۔ درباری نے بڑھ کرایک ہاتھ میں ببل کو اٹھایا، دوسرے میں سوٹ کیس تھاما اور ’’اچھا بھابی۔۔۔‘‘ کہہ کر باہر نکل گیا۔

    دادر پہنچ کر، ریڈی میڈ کپڑوں کی دکان سے درباری نے ببل کے لئے ایک قمیص خریدی اور ساتھ ایک نکر بھی۔ قمیص تو جیسے تیسے ببل نے پہن لی لیکن نکر پہنتے وقت اس نے باقاعدہ شور مچانا، چیخنا چلانا شروع کر دیا تھا۔ جتنی دیر بھی وہ کھڑا رہا، برابر اپنی ٹانگوں سے سائیکل چلاتا رہا۔ ابھی ہمکا، پھر گرا۔ درباری ایک ہاتھ سے پکڑتا تو وہ دوسرے ہاتھ کی طرف لڑھک جاتا اور پھر منھ اٹھا کر درباری کی طرف حیرانی سے دیکھتا جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔ عجیب آدمی ہو، ایک بچہ بھی پکڑنا نہیں آتا۔

    پھرایکا ایکی بجلی کے ایک قمقمے نے اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ وہ اوپر کی طرف ہمکا۔ بجلی کے ڈر سے درباری نے ہاتھ اوپر کیا ہی تھا کہ ببل نے پاس چلتے ہوئے ٹیبل فین کی جالی میں اپنی انگلی جا ڈالی، دکاندار نے لپک کر ہاتھ ہٹا لیا، نہیں تو جناب کی انگلی اڑ گئی تھی۔ جھٹکے سے ہاتھ پرے کرنے پر اس نے رونا شروع کر دیا اور جب درباری نے اسے گود میں اٹھایا تو وہ شکایت کے لہجے میں پہلے درباری اور پھر دکاندار کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اور اس کی طرف ہاتھ اٹھا رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔ اس نے مجھے مارا۔

    ٹیکسی میں بیٹھتے ہی ببل کچھ جھلا سا گیا۔ در اصل اسے نکر کی وجہ سے تکلف ہو رہی تھی۔ وہ ’’زندگی بھر‘‘ یوں کسا نہ گیا تھا۔ درباری نے اسے سیٹ پر بٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ تکلے کی طرح اکڑ گیا۔ جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔ تم گاڑی پر بیٹھو، میں تم پر بیٹھوں گا۔ نہیں مجھے لے کر چلو۔۔۔ بازار میں، جہاں لوگ آ جا رہے تھے۔ پھر اس نے زور سے اوپر نیچے ہو کر آخر نکر نکال ہی دی اور اس پر کودتے ہوئے اسے یوں چرر مرر کر دیا کہ کوئی استری اس کے بل نہ سیدھے کر سکتی تھی۔ اور اب۔۔۔ نکر نکال دینے کے بعد وہ خوش تھا۔ ایک عجیب قسم کی آزادی کا احساس ہو رہا تھا اسے، جب وہ کھڑکی میں کھڑا ساری دنیا کو دیکھ اور دکھا رہا تھا!

    درباری جب سیتا کے ہاں پہنچا تو وہ گھر پر نہ تھی۔ درباری نے سر پیٹ لیا۔ ماں نے بتایا وہ پربھا دیوی میں کمد سے ملنے گئی ہے۔ پربھا دیوی کا علاقہ کوئی دور نہ تھا لیکن کمد کے گھر کا کیسے پتہ چلے؟ پوچھتا تو ماں کہتی۔۔۔ کیوں کام کیا ہے؟ اس لئے خاموش ہی رہنا اچھا تھا۔ اس پر ایک اور مصیبت۔۔۔ ماں بتانے لگی، پہلے مالے پہ رہنے والے سندھی نے ’’نوسٹ‘‘ دے دیا ہے۔ نوٹس دے دیا ہے تو وہ کیا کرے؟ اس وقت تو حالات نے اسے نوٹس دے دیا ہے۔ کچھ دیر بیٹھا وہ ماں کی بوڑھی باتیں سنتا رہا اور بتاتا رہا یہ ببل اس کا بھانجا ہے۔ بڑا پیارا دلارا بچہ ہے لیکن ماں کو جیسے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس نے صرف ایک بار کہا۔ کیوں رے؟ ببل نے جواب بھی دیا، لیکن ماں نے آگے بات نہ چلائی۔

    ببل کو ماں کی بولی معلوم تھی۔ لیکن ماں ببل کی بولی بھول چکی تھی۔ وہ پھر اپنے رونے لے بیٹھی، ’’کمیٹی کہتی ہے، ہر سال اتنے پیسے مرمت پر لگایا کرو۔ اب بھلا کوئی روٹی کھائے کہ مرمت کروائے۔ کیا کیا کانون پاس ہوگئے ہیں۔ کانگریس سرکار تو ڈوبنے کو آئی ہے۔ اشٹ گرہی میں کیا ہوگا؟ میں تو جگا دہری مائیکے لوٹ جاتی ہوں۔۔۔ تم شادی کب کروگے؟‘‘ کوئی ہی دیر میں ماں بور ہو گئی۔ ہاں، ماں بور ہو گئی۔ بولی، ’’سیتا پتہ نہیں آتی ہے کہ نہیں آتی۔ تم ٹیکسی پر تو آئے ہو۔ مجھے ذرا ماہم تک چھوڑ دو۔‘‘

    ’’میں ماہم کی طرف نہیں جا رہا، ماں جی۔۔۔‘‘

    ’’کدھر جا رہے ہو؟‘‘

    ’’شہر کی طرف۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ ماں بولی، ’’وہا ں بھی پریل کے پاس مجھے کام ہے۔۔۔ ہنڈولے آ رہے ہیں نا، مجھے مولی خریدنی ہے۔ مولی جانتے ہو کیا ہوتی ہے؟‘‘ درباری سٹپٹا کر رہ گیا۔ ببل تنگ کرنے لگا تھا۔ اس پر باہر ٹیکسی کا میٹر چڑھ رہا تھا۔ اسے کچھ نہ سوجھا تو دل ہی دل میں ماتھے پر ہاتھ مار کر بولا، ’’چلو ماں جی، میں آپ کو پریل چھوڑ دوں۔ راستے میں کمد کا گھر ہے نا؟‘‘

    ’’ہے تو۔‘‘ ماں اٹھتے ہوئے بولی، ’’پر آگ لگے۔۔۔ یہ بازار بمبئی کے۔۔۔ بیس بار گئی ہوں تو بیس بار ہی گھر بھول گئی۔۔۔‘‘

    ’’چلو، اکیسویں بار بھی بھول جانا۔‘‘

    ’’پر تم۔۔۔ سیتا کو لے کر کہاں جا رہے ہو؟‘‘

    ’’دیدی کے پاس۔۔۔ کہا نا۔‘‘

    ’’سنا ہے وہ مسلمان ہے؟‘‘

    ’’کیا بات کرتی ہیں، ماں جی؟‘‘ درباری نے جیسے کسی گرتے ہوئے پہاڑ کو تھام لیا۔ ستونتی نار کسی مسلمان عورت کا نام ہو سکتا ہے؟‘‘

    اس سے پہلے کہ ماں پورے طور پر درباری پر مسلط ہو جائے، سیتا چلی آئی۔ بہار کے ایک جھونکے کی طرح، دامن میں پتے ہی پتے، پھول ہی پھول لیے۔ اس نے آئرن گرے رنگ کی ایک چولی چست کی ہوئی تھی اور بیگمی چاولوں کے کلر کی سی ہینڈلوم ساری لپیٹ رکھی تھی، جو جسم کے سارے خطوں کو ایک آزاد، ایک طوفانی سے بہاؤ میں لے آئی تھی۔ خود وہ بہار کا جھونکا تھی، لیکن درباری کے لئے پت جھڑ کا پیغام۔ اس کے اندر کے پھول پتے ایک ایک کر کے خشک ہونے، گرنے اور کچھ آندھیوں کے ساتھ اڑنے لگے۔۔۔ اور جو ڈال پہ رہ گئے تھے، سوکھ کر، آپس میں ٹکرانے، دل کو دھڑکانے لگے۔ سیتانے آتے ہی پہلے ببل کو دیکھا اور آنکھیں پھیلائیں، ’’کس کا بچہ ہے؟‘‘ اور پھر لپک کر بچے کے پاس جا پہنچی، ’’ہے، کتنا پیارا ہے، ببلو سا۔‘‘

    ’’ہاں!‘‘ درباری نے کہا، ’’ببل ہی اس کا نام ہے، تمہیں کیسے پتہ چلا؟‘‘

    ’’مجھے کیا معلوم؟‘‘ سیتا نے تالی بجاتے ببل کو اپنی آغوش میں بلاتے ہوئے کہا، ’’ہربچے کی شکل سے اس کے نام کا پتہ چل جاتا ہے۔۔۔ تمہیں نہیں چلتا؟‘‘

    ببل نے پہلے شک و شبہ کی نظر سے سیتا کی طرف دیکھا اور پھر مسکرا دیا۔ جیسے برسوں سے جانتا ہو اور پھر ترازو کے انداز میں بازو اٹھا دیے۔ سیتا نے اسے اٹھا لیا، چھاتی سے لگا لیا اور سب عورتوں کی طرح تھوڑا جھول گئی۔ بس رشتہ قائم ہوتے ہی ببل نے چھوٹی الماری پر پڑی ہوئی کسی ٹوکری کی طرف اشارہ کیا اور ’’او۔۔۔ او۔۔۔‘‘ کرنے لگا جیسے کہہ رہا ہو، اس میں کچھ ہے، میرے لئے؟ درباری کی نگاہوں میں خواب تھے اور جب سیتا نے دیکھا تو اس کی نظروں میں سیجیں تھیں اور بچے۔ شاید ببل سیتا کی آنکھوں میں سے منعکس ہو رہا تھا۔ درباری نے کچھ اتاولے ہو کرکہا، ’’گھنٹہ بھر سے میں تمہاری راہ دیکھ رہا ہوں، دیدی نے بلوایا ہے۔‘‘

    سیتا نے ماں کی طرف دیکھا، ’’ماں۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں بیٹا۔‘‘ ماں نے اجازت دیتے ہوئے کہا۔

    ’’ٹھہرو۔۔۔ میں اس کے لئے کچھ بسکٹ۔۔۔‘‘

    درباری نے اور بےصبری سے کہا، ’’ہوتے رہیں گے، تم چلو۔۔۔ میرے پاس اتنا سا بھی وقت نہیں ہے۔۔۔‘‘ اور سیتا ببل کے گال رگڑتی ہوئی چل دی، کہتی ہوئے، ’’اے تو تو تھو تا سا، موتا سا، گوتا سا ببلو ہے۔۔۔‘‘ اور سیتا دل میں اتنا سا بھی وسوسہ لیے بغیر چل دی۔ باہر ٹیکسی کو دیکھتے ہوئے بولی، ’’اس میں چلیں گے؟‘‘ درباری نے سر ہلا دیا۔ ٹیکسی ڈرائیور جو بے کیف ہو رہا تھا، خوش ہو گیا۔ پیچھے کی طرف لپک کر اس نے ٹیکسی کا دروازہ کھولا اور ببل اور سیتا اور آخر درباری بیٹھ گئے۔ جبھی سیتا کی نگاہ سوٹ کیس پر پڑی۔۔۔ ایک شک کی پرچھائیں اس کے چہرے پر سے گذری، ’’یہ سوٹ کیس۔۔۔؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘ درباری نے کہا۔

    ’’دیدی کے ہاں جا رہے ہو؟‘‘

    ’’کہیں بھی جا رہا ہوں، تمہیں اس سے کیا؟‘‘ اور پھر ایک خشمناک نگاہ سیتا پر پھینکتے ہوئے بولا، ’’تم نے کہا نہیں تھا، جہاں بھی لے جاؤگے جاؤں گی۔‘‘ سیتا کو کچھ باتیں سمجھ میں آنے لگیں۔ درباری کے چہرے کی رنگت، سوٹ کیس۔۔۔ بچہ۔۔۔ اس نے ڈر کے عالم میں ببل کو سیٹ پر بٹھا دیا اور نتھنے پھلاتی ہوئی بولی، ’’ہاں، کہا تھا۔‘‘ سیتا نے پھر ایک تیز سی نظر درباری پر پھینکی اور پھر اپنی نگاہیں چرا لیں۔ اسے اپنا آپ جیسے کچھ گندا لگا۔ ساری کے پلو سے اس نے اپنا لال ہوتا ہوا چہرہ پونچھا۔ درباری نے خمارآلود نگاہ سیتا پر پھینکتے ہوئے کہا، ’’سیتا! تم پھر لگی ہو، اس دن کی طرح کرنے۔‘‘ سیتا ڈر گئی، ’’نہیں تو۔‘‘ وہ بولی۔

    ٹیکسی حاجی علی کے پاس سے جا رہی تھی۔ آج سمندر کا وہی رنگ تھا جو مانسون سے پہلے ہوتا ہے۔ میلا کچیلا، گندہ اور گیلا۔۔۔ شاید دور کہیں برسات شروع ہو چکی تھی اور بےشمار گندے نالے اور ندیاں سمندر میں پڑ رہی تھیں۔۔۔ پھر وہی سفر۔۔۔ تار دیو، اوپرا ہاؤس، مہاتما گاندھی روڈ، فلورا فاؤنٹین۔۔۔ اور ایک ہوٹل۔ آج وہ ہوٹل نہیں تھا جہاں وہ اس دن گئے تھے۔ سامنے ایک بیرہ کھڑا تھا۔ درباری، سیتا اور ببل کو دیکھ کر لپکا۔ بڑی عزت، بڑے ہی احترام کے ساتھ اس نے ٹیکسی کا دروازہ کھولا۔ درباری اترا۔ ٹیکسی والے کو پیسے دیے اور پھر بیرے کو سوٹ کیس اتارنے کا اشارہ کیا۔۔۔ سیتا اتری۔ اس کی آنکھیں جھکی جھکی سی تھیں اور ببل کو اپنے بازوؤں میں لینے سے جیسے اسے کچھ تامل ہو رہا تھا۔

    ’’اٹھاؤنا۔۔۔‘‘ درباری نے ببل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’’بچہ ہمیشہ عورت اٹھاتی ہے۔‘‘ سیتانے کچھ بے بسی کے عالم میں ببل کی طرف دیکھا جیسے وہ ابھی اسے اٹھانا نہ چاہتی تھی۔ لیکن درباری اور اس کے غصے سے ڈرتی تھی۔ مرد اور اس کی وحشت سے خائف تھی۔ اس نے ببل کو اٹھا تو لیا لیکن اس سے پیارنہ کر سکتی تھی۔۔۔ اسے کچی کچی، کھٹی کھٹی، گندی گندی ڈکار سی آنے لگی تھیں۔ ہوٹل اوپر تھا۔ درباری نے یہ بھی تو نہ پوچھا۔۔۔ کمرہ ہے۔۔۔؟ اب کوئی ضرورت نہ تھی۔ وہ اپنی نگاہوں میں وہی پیشہ ورانہ بےباکی پیدا کر چکا تھا، جس کی اب ضرورت بھی نہ تھی۔ سیتا نے دیکھا۔۔۔ سیڑھیوں پرجیسے کسی نے تیل اور گھی کے ڈرم کے ڈرم لڑھکا دیے ہیں۔ رسہ جس کی مدد سے نہ جانے کتنے لوگ اوپر گئے تھے ہاتھوں کے لگنے سے میلا اور گندہ ہو رہا تھا۔ پوری فضا سے کسی باسی دینی کی بو آ رہی تھی۔ رسے کو ہاتھ لگائے بغیر ہی سیتا درباری کے پیچھے پیچھے اوپر پہنچ گئی۔

    منیجر صاحب نے تینوں کو آتے دیکھا تو ان کے چہرے پر ایک عجیب مقدس سی چمک چلی آئی۔ وہ عجلت سے کونٹر کے پیچھے سے نکلا اور دونوں ہاتھ کمرے کی طرف سویپ کرتے ہوئے بولا، ’’ویلکم سر۔۔۔‘‘ آج سب کمروں کے دروازے سیتا اور درباری پر کھلے تھے۔ درباری نے منیجر سے کہا، ہم بلی مور سے آئے ہیں اور اس وقت ٹرانزٹ میں ہیں۔ رات گیارہ بجے والی پنجاب میل سے آگرے جائیں گے۔ جہاں تاج محل دیکھیں گے جو شاہ جہاں نے اپنی چہیتی ممتاز کے لئے بنوایا تھا۔ در اصل اسے ممتاز سے اتنی محبت نہ تھی، جتنا جرم کا احساس تھا۔ کیونکہ اس سے اس نے سولہ اٹھارہ بچے پیدا کئے تھے۔ اور اپنی اس زیادتی کا اسے صلہ دینا چاہتا تھا۔۔۔ پر ان باتوں کی ضرورت ہی نہ تھی۔ منیجر’’سر، سر‘‘ کرتا رہا۔ ضرورت پڑنے پر ہنستا بھی، ضرورت سے زیادہ بھی ہنستا۔۔۔ سر بھی ہلاتا، جھک جھک کر آداب بھی بجا لاتا۔ رجسٹر پر دستخط کرنے کے بعد درباری کمرے میں پہنچا تو ببل کے ہاتھ میں بسکٹ تھے۔

    ’’یہ کس نے دیے؟‘‘

    ’’بیرے نے۔‘‘ سیتا بولی۔

    ’’اور یہ۔۔۔ آئس کریم کی کون؟‘‘

    ’’پڑوس کا ایک مہمان دے گیا ہے۔‘‘

    اور بیرہ بچے کے لئے کٹوری میں دودھ لا رہا تھا۔۔۔ جیسے وہ صدیوں سے بیکار تھا اور آج ایکا ایکی اسے کوئی کام، ایسا روزگار مل گیا تھا جو کبھی ختم ہونے والا نہ تھا جس میں کبھی چھٹنی نہیں ہوتی۔ جس کے سامنے ٹپس کی آمدنی اور پکار کوئی معنی نہ رکھتے تھے۔ وہ خوش تھا اور دودھ کی کٹوری ہاتھ میں تھامے ہوئے وہ یوں کھڑا تھا، جیسے وہ کسی کو نہیں، کوئی اسے ممنون کر رہا ہے۔ وہ جانا، ٹلنا نہ چاہتا تھا۔

    ’’اچھا بیرا۔۔۔‘‘ درباری نے بے رحمی سے بیرے کو جھٹکتے ہوئے کہا، ’’ہم تھک گئے ہیں، دیکھونا، کب سے چلے ہیں۔ اب تھوڑا آرام کریں گے۔‘‘

    ’’جی؟‘‘ بیرا بولا، ’’میری جرورت پڑے صاحب۔۔۔‘‘ درباری نے کھٹ سے دروازہ بند کر لیا اور اندر سے چٹخنی چڑھا دی۔ وہ سچ مچ تھک گیا تھا۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا اور جا کر بستر پر بیٹھ گیا۔ اسے سیتا کا ببل کو دودھ پلانا برا لگ رہا تھا لیکن وہ کچھ کہہ نہ سکتا تھا۔ کہتا تو برا لگتا، بہت ہی برا۔۔۔ جبھی اپنے کھلنڈرے پن میں ببل نے کٹوری کو ہاتھ مارا اور دودھ نیچے گر گیا۔

    ’’ہات! گندا کہیں کا۔‘‘ سیتا نے کہا اور رومال سے اس کا منھ پونچھنے اور پھر جھاڑن سے فرش صاف کرنے لگی۔ ببل کو ہاتھ لگانے کی دیرتھی کہ وہ سیتا کی بانہہ پکڑ کر کھڑا ہو گیا۔ سیتا اندر ہی اندر کانپ رہی تھی، درباری کچھ خجل سا نظر آنے لگا تھا۔

    ’’یہ ہوٹل کوئی اتنا اچھا نہیں۔‘‘ وہ یونہی سی کوئی بات کرنے کے لئے بولا۔

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘ سیتا بے پروائی سے بولی۔ پھر درباری نے ناک سکوڑ کر ادھر ادھر سونگھا اور کہنے لگا، ’’کوئی بو سی آ رہی ہے۔۔۔‘‘ اور پھر اس نے پسینے کے قطرے اپنے ماتھے پر سے پونچھ ڈالے اور بولا، ’’تم اب اسے چھوڑو بھی۔‘‘ سیتا نے ببل کو بٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ تکلا ہو گیا۔ درباری نے ایک ایش ٹرے ببل کے پاس لا رکھی اور ببل اسے کھلونا سمجھ کر لپکا۔ وہ بیٹھ گیا اور کھیلنے لگا۔۔۔ وہ کیا کرتا؟ پھر آگے بڑھ کر درباری نے ایک اناڑی، بےڈھنگے، بھونڈے انداز میں سیتا کا ہاتھ پکڑ لیا۔

    ’’بھگوان کے لئے۔۔۔‘‘ سیتا بولی اور اس نے ببل کی طرف اشارہ کیا۔ لیکن درباری کی آنکھوں پر جیسے کوئی چربی چھائی ہوئی تھی، اسے کچھ نہ دکھائی دے رہا تھا۔ صرف ایک ہی احساس تھا کہ وہ ہے اور ایک تروتازہ اور شاداب لڑکی۔ وہ تیزی سے سانس لے رہا تھا۔ اس نے جب اپنے بازو سیتا کے گرد ڈالے تو وہ گوشت پوست کے نہیں، لکڑی کے معلوم ہو رہے تھے اور سیتا کے نرم اور گداز جسم میں کھبے جا رہے تھے۔ سیتا نے کوئی مزاحمت نہ کی۔ درباری کی بانہوں میں کانپتی ہوئی وہ ہر لحظہ بےدم ہوتی جا رہی تھی۔۔۔ آج وہ خود بھی بے سہارا ہو جانا چاہتی تھی۔

    ببل نے ڈر کر دونوں کی طرف دیکھا۔ سیتا کو ابھی تک روتے دیکھ کر درباری کہہ رہا تھا، ’’وہی مطلب ہوانا۔ تم مجھ سے پیارنہیں کرتیں۔‘‘

    ’’میں تم سے پیار نہیں کرتی۔۔۔؟ میں تم سے۔۔۔‘‘

    ببل نے ایش ٹرے کی راکھ منہ پرمل لی تھی اور اب رونے لگا تھا!

    ’’چپ بے۔‘‘ درباری نے نفرت اور غصہ کے ساتھ کہا۔ سیتا چونکی وہ باہر بھاگ جانا چاہتی تھی، لیکن۔۔۔ اس کے ہاتھ بازو جواب دے چکے تھے۔ درباری کی ڈانٹ کے بعد ببل نے ڈر کر چلانا شروع کر دیا۔ درباری ایک دم آگ بگولا ہو کر لپکا جیسے اس کا گلا گھونٹ دے گا۔ مرد اورعورت کے بیچ اس بے آہنگ آٓواز کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دے گا۔ ببل کے پاس پہنچتے ہی اس نے زور سے ایک تھپڑ ببل کو مار دیا۔ ببل لڑھک کر دور جا گرا۔

    ’’شرم نہیں آتی؟‘‘ کہیں سے مصری کی آواز آئی۔ درباری نے پلٹ کر دیکھا۔۔۔ مصری نہیں سیتا تھی جو کسی ان جانی طاقت کے آجانے سے نیم برہنہ حالت میں اٹھ کر ببل کے پاس چلی آئی تھی اور اسے اٹھا کر اپنی چھاتی سے لگا لیا تھا۔ ببل سیتا کی چھاتیوں میں سردیے رو رہا تھا، سسکیاں لے رہا تھا۔ پھر اس نے اپنا منھ اٹھایا اور بندھی ہوئی گھگھی کے باوجود درباری کی طرف اشارہ کرنے لگا۔ جیسے کہہ رہا ہو۔۔۔ اس نے مجھے مارا۔ درباری کو محسوس ہوا جیسے اتنے صاف ستھرے کپڑوں میں بھی وہ گندہ ہے، وہ سیتا سے اتنا شرمندہ نہ تھا، جتنا ببل سے۔۔۔ لیکن اپنے آپ کو حق بجانب سمجھنے کی اس کے پاس ابھی بہت سی دلیلیں تھیں۔

    جبھی درباری نے اپنا سر جیسے کسی دلدل میں سے اٹھایا اور ببل کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ سیتا کی طرف دیکھ بھی نہ سکتا تھا۔ کیونکہ وہ ننگی تھی اور ببل سے اپنے ننگے پن کو چھپا رہی تھی اور درباری کو دیکھ رہی تھی جیسے وہ دنیا کا سفلہ ترین انسان تھا جو اس کمینہ حد تک اتر آیا تھا۔۔۔ پھراس کی نگاہیں خالی تھیں، وہ کچھ بھی نہیں سمجھ رہی تھی!

    شرمساری، ندامت اور خجالت سے درباری نے اپنا ہاتھ ببل کی طرف بڑھایا اور سیتا کا بس چلتا تو وہ کبھی ببل کو درباری کے گندے اور نجس ہاتھوں میں نہ دیتی۔ لیکن وہ کیا کرتی۔ ببل خود ہی بیتاب ہو کر درباری کے بازوؤں میں لپک گیا اور روتے ہوئے الٹا سیتا کی طرف اشارہ کرنے لگا۔ جیسے کہہ رہا ہو اس نے مجھے مارا۔۔۔ اب درباری کے پاس کوئی دلیل نہ تھی اور نہ سیتا کے پاس۔

    ’’سیتا!‘‘ درباری نے کہا۔ سیتا کچھ نہ بولی- وہ رو بھی نہ سکتی تھی۔ جلدی سے اس نے ساری کا پلو کھینچا اور اپنا جسم ڈھک لیا۔

    ’’سیتا!‘‘ درباری پھر بولا، ’’تم کبھی۔۔۔ کبھی مجھے معاف کر سکوگی؟‘‘ اور پھر شک و شبہے کے انداز میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا، ’’ہم پہلے شادی کریں گے۔‘‘

    اور پھر اس نے ہمت کر کے اپنا دوسرا بازو سیتا کے گرد ڈال دیا۔ سیتا نے درباری کی آنکھوں میں دیکھا اور پھر ایک جست کے ساتھ درباری سے لپٹ گئی اور اس کے کاندھے پر سر رکھ کر بچوں کی طرح رونے لگی۔ اس کے آنسوؤں میں درباری کے آنسو بھی شامل ہو گئے۔ دونوں کے دکھ ایک ہو گئے اور سکھ بھی۔۔۔ ان دونوں کو روتے ہوئے دیکھ کر ببل نے رونا بند کر دیا اور حیرانی سے کبھی سیتا اور کبھی درباری کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔ جبھی ایکا ایکی وہ ہنس دیا، جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اور اپنے کرمرے کے لئے درباری کی مٹھی کھولنی شروع کر دی۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے