بڑی شرم کی بات
رات کے سناٹے میں فلیٹ کی گھنٹی زخمی بلاؤ کی طرح غرا رہی تھی۔ لڑکیاں آخری شو دیکھ کر کبھی کی اپنے کمروں میں بند سو رہی تھیں۔ آیا چھٹی پر گئی ہوئی تھی اور گھنٹی پر کسی کی انگلی بے رحمی سے جمی ہوئی تھی۔ میں نے لشتم پشتم جا کر دروازہ کھولا۔
ڈھونڈی چھوکرے کا ہاتھ تھامے دوسرے ہاتھ سے چھوکری کو کلیجے سے لگائے جھکی جھکی گھسی اور بھاگ کر نوکروں والے غسل خانے میں لپت ہوگئی۔ دور سڑک پر غول بیابانی کاشور اے روڈ کی طرف لپکا چلا آرہا تھا۔ میں نے بالکنی سے دیکھا عورتیں، بچے نشہ میں دھت، نوکر بے تحاشہ بولیوں میں نہ جانے کسے للکارتے چلے آرہے تھے۔
چوکیدار شاید اونگھ گیا تھا تبھی ڈھونڈی اس کی آنکھوں میں دھول جھونک کر گھس پڑی۔ وہ اس کے پیچھے لپکنے کے بجائے پھاٹک میں تالے جڑنے دوڑا اور جب مجمع کمپاؤنڈ کی دیوار پر چڑھ کر پھاندنے لگا تو اس نے لپک کر لوہے کا اندرونی دروازہ بند کر لیا اور سلاخوں میں سے حملہ آوروں کو ڈنڈے سے دھمکانے لگا۔
ادھر سےمحفوظ پاکر میں نے جلدی جلدی بجلیاں جلائیں۔ غسل خانہ سے ملا ہوا جو کوڑے کباڑ کا چھوٹا سا حصہ ہے اس میں ڈھونڈی میلے کپڑوں کی ٹوکری سے چپکی تھر تھر کانپ رہی تھی۔ اس کی ٹھوڑی لہولہان تھی اور خون گردن سے بہہ کر شلوکہ اور دھوتی کو تر کر رہا تھا۔ میں نے اس سے بہت پوچھا کہ کیا معاملہ ہے مگر اس کے آنکھیں پھٹی تھیں اور جوڑی سوار تھی۔ بچی پھٹی ہوئی چولی سے فائدہ اٹھا رہی تھی اور بڑی تندہی سے اپنی ازلی بھوک مٹانے میں مشغول تھی۔ چھوکرا حسبِ عادت ناک سڑک رہا تھا اور پیشاب سے تر ٹانگیں کھجا رہا تھا۔
ڈھونڈی کو میں اس وقت سے جانتی ہوں جب اس کا پتی راؤ چوتھے مالے کے سیٹھ کی ڈرائیوری کرتا تھا۔ نام سے تو لگتا ہے ڈھونڈی کوئی لحیم شحیم مرد مار قسم کی گھائن ہوگی مگر ڈھونڈی کا قد مشکل سے چار فٹ ہوگا۔ جی بھر کے بدصورت، چیاں سی آنکھیں، آگے کو گھسکا ہوانچلا جبڑا اور دھنسا ہوا ماتھا۔ چند ماہ پہلے ہی ایک عدد لونڈیا جنی تھی تو راؤ نے دارو پی کر اس کی ہڈی پسلی نرم کردی تھی۔ ڈیڑھ ماہ کی سوکھی ماری بچی نہ جانے رات کو کب مرگئی۔ اور ڈھونڈی ڈاڑھیں مار مار کر روئی۔
بائی لوگ کا کہنا تھا کہ ڈھونڈی نے ٹوپادے کے بچی کی چھٹی کردی۔ یعنی رات کو چپکے سے گلا دبایا۔ مگر ایسی بات ہوتی تو پھر اتنا ماتم کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
ڈھونڈی کا مرد ایک دم موالی تھا۔ بہت دارو پیتا تھا۔ مگر ڈھونڈی کہتی تھی رات کی وردی کرتا ہے۔ سیٹھ ساری ساری رات چھوکریوں کی سنگ ٹھٹھا کرتا ہے۔ وہ موٹر میں بیٹھے بیٹھے اوب جاتا ہے تو پوا مار لیتا ہے۔ بمبمئی کی شاید ہی کوئی بلڈنگ ہو جس کے احاطےکے کسی کونے میں اندھیری گیرج میں یا نوکروں کی کوٹھری میں حتی کہ گندے سنڈاسوں میں دارو نہیں کشیدکی جاتی۔ اور پھر ادھر ورلی کے سنسان علاقے میں ڈانڈا کی طرف جانے والی سڑک یہ جھونپڑ پٹی میں تو باقاعدہ ٹھرے کی بار جمی ہوئی ہیں۔۔۔ مکھن میں تلی ہوئی کیا فرسٹ کلاس مچھلی کھانا ہو تو ڈانڈا سے بہتر کوئی جگہ نہیں۔ وہاں مختصر ترین چولی اور لنگوٹی پہنے مچھیرنوں کا اکھے بمبئی میں جواب نہیں۔ ادھر جو نئے فلیٹ بن رہے ہیں ان میں سیٹھ لوگ اپنی رکھیل رکھتے ہیں۔ سیٹھانیوں کی جاسوسی کاروائیوں سےمحفوظ یہ سیٹھ لوگ جو فلم کا دھندا کرتے ہیں، یعنی ڈسٹریبیوٹر اور پروڈیوسر کے بیچ کے کنڈے جو فلم کے علاوہ چھوکری سے لے کر ہٹ فلموں تک کا لین دین پٹاتے ہیں۔
سیٹھ لوگ جب اوپر چلے جاتے ہیں تو نیچے اترنے کا وقت مقرر نہیں ہوتا۔ نیچے ڈرائیور جوا اور شراب کا دور چلاتے ہیں۔ وہیں سے راؤ کو شراب کی عادت نے پکڑ لیا۔ پھر یہ عادت اتنی بڑھی کہ ڈھونڈی کی سوت بن بیٹھی۔
بچی کے مرنے کے چند مہینے بعد ڈھونڈی کا پیر پھر سے بھاری ہوگیا۔ اب کے راؤ نے الٹی میٹم دے دیا کہ اگر پھر چھوکری ڈالی تو وہ اس کا پتہ کاٹ کے دوسری بہو کرے گا۔۔۔ لیکن چھوکری پیدا ہونے سے پہلے ہی ایک دن راؤ نے بچوں کواسکول سے لاتے سمے گاڑی فٹ پاتھ پر چڑھادی۔ بچوں کے چوٹ تو نہیں لگی مگر ہائے توبہ اتنی مچائی کہ سیٹھ نے اسے کھڑے کھڑے نکال دیا۔
راؤ اور ڈھونڈی کو گیرج خالی کرکےجانا پڑا۔ جس پر اسی دن نئے ڈرائیور نے قبضہ کر لیا۔
ایک دن کیا دیکھتی ہوں ڈھونڈی ایک چھپکلی کی شکل کی چھوکری چھاتی سے چپکائے فٹ پاتھ پر بیٹھنے والی ترکاری والی کے پاس جمی ہوئی ہیں۔ اجاڑ صورت، گھسٹی ہوئی۔
’’ارے ڈھونڈی کیسی ہے ری،‘‘ میں نے رسماً پوچھ لیا۔
’’ٹھیک ہے بائی،‘‘ وہ اٹھ کر میرے ساتھ ساتھ چلنے لگیں۔
’’راؤ کیسا ہے؟‘‘
’’او تو گیا بی۔‘‘
’’کدھر گیا؟‘‘
’’سمندر پار دبئی کو۔‘‘
’’تو کم بخت بچی کی وجہ سے تجھے چھوڑ گیا۔‘‘
’’نئی بائی چھوکری تو بعد میں آئی۔ وہ تو پیسہ کمانے کو گیا۔‘‘
’’اہو تب تو ٹھاٹھ ہوں گے تیرے۔ بہت روپے بھیجتا ہوگا تجھے۔‘‘
’’نئیں بائی۔ اسے اپنی آئی کو بھیجتا۔‘‘
’’اس کی ماں یعنی تیری ساس کو؟‘‘ مراٹھی میں آئی ماں کو کہتے ہیں۔
’’نئیں، وہ لچی جو اسے ادھر بھجوایا۔‘‘ تو ڈھونڈی صاحبہ طنز فرما رہی تھیں۔
’’ادھر ڈانڈا میں دونوں کا لفڑا چلتا تھا۔ جانے سے پہلے راؤ نے بیاہ کیا اس سے اور۔۔۔‘‘
’’مگر دوسری شادی تجھے طلاق دیے بنا کیسے کر سکتا ہے۔ ہتھکڑیاں پڑجائیں گی سور کو۔‘‘
’’کون ڈالتا ہتھکڑی بائی۔‘‘
’’ارے دس بارہ سال ہوئے قانون پاس ہوا کہ ایک سےزیادہ بیوی کی اجازت نہیں۔ طلاق بغیر دوسری شادی جرم ہے۔‘‘
’’کائے کو؟ اکھا گجراتی، مراٹھی، سندھی اور بھیا لوگ کتنی شادی بناتا۔‘‘
’’سب پر کیس چل سکتا ہے۔‘‘
ڈھونڈی قطعی ماننے کو تیار نہ تھی اور نہ میرے پاس وقت نہ وسیلہ کہ اسے قانون سمجھاتی پھروں۔ خود میرے جان پہچان کے معزز لوگوں کے پاس ایک بیوی کے علاوہ اور کئی عورتیں ہیں۔ سناہے پنڈت سے پھیرے ڈلوا لو، کوئی نہیں پکڑ سکتا۔ جی کو تسلی بھی ہوجاتی ہے کہ معاملہ حلال ہوگیا۔
’’بائی میرے کو کام دیو،‘‘ ڈھونڈی پیچھے پڑ گئی۔ میری پرانی جھاڑو کٹکا کرنے والی بائی، ڈھونڈی کو میرے ساتھ دیکھتے ہی دولتیاں جھاڑنے لگی۔ اور دونوں میں نہایت فراٹے کی مراٹھی میں جنگ شروع ہوگئی۔ میں اتنے سال سے بمبئی میں رہتی ہوں، کوئی رسان رسان بولے تو مراٹھی، گجراتی، سندھی، بنگالی خاصی پلے پڑ جاتی ہے۔ مگر جب انہیں زبانوں میں تو تو میں میں شروع ہوجاتی ہے تو میرے خاک سمجھ میں نہیں آتی۔ انتہائی روح فرسا پتھریلی چیخوں میں تو ہر لفظ گالی بن کر کان کے پردے پھارنے لگتا ہے۔ جیسے بنا ٹائر کی گاڑی کھڑنجے پر دوڑ رہی ہو۔
میں نے دونوں کو ڈانٹ کر الگ کیا۔ بالشت بھر کی ڈھونڈی چھوکری کو سیڑھی پر ٹکا کر لانگ کس رہی تھی۔ اور ڈھائی من کی دھوبن کسمابائی چاولوں کی بوری دیوار سے ٹکا کر خم ٹھوکا چاہتی تھی۔ بڑی مشکل سےدونوں کو ٹھنڈا کیا اور ڈھونڈی کو سمجھایا کہ کسمابائی کی شان میں کچھ بھی کہا تو اچھا نہ ہوگا۔ وہ تین برس سے میرے ہاں لگی ہے۔
برسات شروع ہوتے ہی بمبئی میں بائی لوگ کا بھاؤ گرنے لگتا ہے۔ سہانے جاڑوں اور گرمی میں آنکھ لگانے کو بائی نہیں ملتی۔ تب نہ بنا لائسنس کی چھابڑی لگائی جا سکتی ہے۔ نہ کیچڑ پانی میں لتھڑے ہوئے باغ باغیچے، سنسان کونے کتھرے، سمندر کے کنارے اونچے نیچے چٹان کسی بھی سہاونے دھندے کے لیے کام نہیں آ سکتے۔ فلیٹوں کی اگاسیوں میں مستقل والے نوکر جمے ہوتے ہیں۔ ہاں ان دنوں باورچی لوگ کے عیش ہوتے ہیں۔ اور جب مالک مکان سوجاتے ہیں تو باورچی کچن میں راجہ اندر بنے مزے اڑاتے ہیں۔ بچا کھچا کھانا بڑی دریادلی سے اپنی پریمیکاؤں کو نگلا دیتے ہیں۔ کبھی چار پانچ لفنگے جمع ہوکر جوا شراب سے شوق فرماتے ہیں اور اگر گرمی میں ایئر کنڈیشن کمروں میں صاحب لوگ بند ہوں تو ڈرائنگ روم میں بستر لگ جاتے ہیں۔ جو صبح دودھ لانےکے وقت خالی کرکے صفائی ہوجاتی ہے۔
شکر ہے برسات کے بہاؤ میں چھپکلی کی صورت کی چھوکری بھی اللہ کو پیاری ہو گئی۔ سڑی گلی ڈسٹ بن میں پھینکی ہوئی ترکاریوں کے چھلکوں کی بھاجی کھانے والی ماں کا دودھ پی کر موٹا تازہ بچہ بھی دم توڑ دیتا وہ تو پھر بھی ناچیز چھپکلی تھی۔
بچی کی موت نے جیسے ڈھونڈی کے دن پھیر دیے کہ بائی لوگ کے مختلف دھندے جاگ اٹھے اور نوکروں کا توڑا پڑ گیا۔ ڈھونڈی نے بلڈنگ کے چھبیس فلیٹو ں میں سے آٹھ دس مار لیے اور صبح سے شام تک کپڑا برتن جھاڑو کٹکا کر کے خوب کمانے لگی۔
راؤ نے روپیہ بھیج کر اپنی محبوبہ کو پردیس بلا لیا اور ڈھونڈی نے لال ہری دھوتیاں خرید کر ترکاری والی بائی کے پاس بیٹھنا شروع کردیا۔ جہاں بوجھ بھجکڑ یعنی شنکر کی بوڑھی ماں ناتجربہ کار بائی لوگ کو زندہ رہنے کے تیر بہدف نسخے بانٹتی۔ ڈھونڈی برے دھیان سے اس کے بھاشن سنتی اور سردھنتی۔
کام نمٹا کر یہ بائی لوگ شام کو نہا دھوکر سولہ سنگار کرتی ہیں۔ نکڑ سے پان کے بیڑے خرید کر کلا گرم کرتی ہیں اور تازی ہوا کھانے میرین ڈرائیو پر سمندر کے کنارے منڈیر پر بیٹھ کر تبادلہ خیالات کرتی ہیں۔ کھل کر ہنستی بولتی ہیں۔ راہ گیروں سے آنکھیں بھی لڑاتی ہیں۔ وہیں پہلی بار چھ فٹ اونچے رگھو ناتھ گھاٹے سےڈھونڈی کی آنکھ میں لڑ گئی۔ راؤ کے بعد اسے مرد کی آنکھ میں آنکھ ڈالنےکی مہلت ہی نہ ملی تھی۔ تین چار بار رگھو اس کے سامنے سے بڑے بانکپن سے ترچھی نظر ڈالتا گزرا۔ ایک بار ٹھہر کر بیڑی بھی سلگاتا رہا۔ پھر کچھ دور منڈیر پر بیٹھ گیا۔ دو چار دن میں دوری کم ہوتی گئی اور قربت بڑھتی گئی۔ کبھی پکوڑیاں سینگ چنا بھی پیس لیا۔ پہلے تو ڈھونڈی سرہلاتی رہی تھی۔ شنکر کی ماں کی آنکھ کا اشارہ پاکر کانپتے ہاتھوں سے دو چنے بھی اٹھالیے جو اس کی مٹھی میں پسیجتے رہے۔ منہ میں ڈالنے کی ہمت نہ ہوئی۔۔۔ قصہ مختصر ایک دن گھنٹی بجی، کھولنے پر چھ فٹ اونچے رگھو کے ساتھ چار فٹ کی ڈھونڈی شرمائی لجائی کھڑی تھیں۔
’’بائی ہم سادی بنایا۔ گنگا بائی کو بولا یا، کل سے وہ کام پہ آئے گی۔‘‘ انہوں نے کچھ سرپٹ مراہٹی میں دولہا میاں کو کچھ ہدایات دیں اور خود اندر آگئیں۔
’’ہمارا حساب کردو بائی۔ تیس روپیہ مہینہ کے حساب سے پچیس دن کے پچیس ہوتے تھے۔ میں نے دس دس کے تین نوٹ پکڑا دیے۔ ڈھونڈی کے مکھ سے پھول جھڑ رہے تھے۔ جھوٹے تلے کی لال لانگ والی نوگری دھوتی اور اودی چولی میں ڈھونڈی کا سیاہ رنگ پھوٹا نکل رہا تھا۔ بالشت بھر کی مہا بد صورت عورت میں بلا کی سیکس اپیل تھی۔ پتلی کمر بھاری کولہے، پیروں میں نئے چاندی کے توڑے ماتھے پر اٹھنی برابر سندور کا ٹیکہ سو سو بہاریں دکھا رہا تھا۔ باربار منگل سوتر کو چھو رہی تھی جیسے اطمینان کرنا چاہتی ہو کہ معاملہ قطعی معقول ہے۔
یاد نہیں کئی سال گزرے کہ ایک دن چلی آرہی ہیں بی ڈھونڈی۔ پونے دو برس کے چھوکرے کا ہاتھ تھامے پورے دن کا پیٹ سنبھالے، منہ پر ٹھیکرے ٹوٹ رہے تھے۔ منگل سوتر غائب پیروں کے توڑے اڑن چھو۔
’’بائی کوئی کام دیو۔‘‘
گنگا بائی نے اپنے وجود کا اعلان ایک عدد چھینک سے دیا اور چائے کی ٹرے میز پر ایک جھٹکے سے پٹخ دی تاکہ میں ان کے ری ایکشن کو نوٹ کرلوں۔
’’کیا ہوا ڈھونڈی؟ رگھوناتھ کا کیا حال ہے؟‘‘
جواب میں انہوں نے سرپٹ مراہٹی میں جواب کھڑکھڑایا۔ ساؤنڈ ایفکٹ سے میں نے فوراً ان کامطلب سمجھ لیا، معاملہ گھمبیر ہے۔
جب بیاہ کر سسرال پہنچیں تو پتہ چلا کہ رگھو کی بیوی میکے پٹخوادی گئی تھی کیوں کہ اس کی ساس سے ایک منٹ نہیں بنتی تھی۔ چار چوٹ کی مار دیتی تھی۔ اب ڈھونڈی کو بھی مارتی تھی ہلکٹ۔ اتنے برس بمبئی میں رہی اور ہلکٹ کے معنی بھی میرے پلے نہیں پڑے۔ ہاں اتنا پتہ چلا کہ ہلکٹ کے معنی بہت ہی خراب، بدمعاش، مرکھنی چال باز عورت۔
’’اس نے مجھے مارا اور پٹ لی، تو بھی مارتی بڑھیا کو۔‘‘
کائے کی بڑھیا، بس ڈھونڈی سے سال دو سال چھوٹی ہی ہوگی۔ لمبی تڑنگی مرد مار عورت پھونک مارے تو ڈھونڈی جیسی چوہیا وہ جائے۔ بڈھے کو روز نوٹاک منگتائج۔ یعنی اگر ٹھرے کا پوا نہ ملے تو طوفان برپا کردیتا ہے۔ اس کی عورت تو رگھو دس بارہ سال کا تھا تب ہی خلاص ہوگئی تھی۔ اس کے بعد رگھو کا باپ ادھر ادھر منہ مارتا رہا۔ راج مزدور کا کام کرتا تھا۔ بمبئی میں بڑے زورں سے بلڈنگیں کھڑی ہو رہی تھیں۔ خاک دھول پھیپھڑوں میں جمتی گئی، سیلن کی وجہ سے گٹھیا بھی ہوگئی اور دمہ تو ہے ہی دم کے ساتھ۔ اس وقت تک رگھو کا بیاہ ہوچکا تھا مگر کوئی مستقل روزگار آج تک نہیں جڑا۔ بڈھا گاؤں گیا تو کسی بہت سی چھوکریوں کے باپ نے ایک عدد اس کے سرمنڈھ دی۔
بڈھا تو کسی کرم کا نہیں تھا۔ رگھو اور سوتیلی ماں بھوری بائی کا ٹانکہ جڑگیا جس پر اس کی پتنی نے بڑے فیل مچائے۔ رگھو نے ہلکٹ کی مدد سے اسے مار کوٹ کر میکے پٹخ دیا کیوں کہ اس چڑیل نے بھی چھوکری تھوپ دی تھی۔
بڈھے کو جوان بیوی اور بیٹے کے تعلقات پر قطعی کوئی اعتراض نہ ہوتا اگر اس کی نوٹاک پابندی سے ملتی رہتی۔ مگر اتنا ٹھرا خریدنے کے لیے جوتینوں کو پورا پڑ جائے۔ بھوری تو ان دونوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیتی اور پانی کی طرح دارو ڈکار جاتی تھی۔ دارو کا توڑا پڑتا تو جو تم پیزار شروع ہو جاتی۔ رگھو جب بھوری کی ٹھکائی کرتا تو بڈھے کے دل میں کلیاں چٹخنے لگتیں۔ رقابت کا جذبہ تو کبھی کا مرچکا تھا کہ یہ نازک احساس دھن کی چھاؤں میں ہی پھلتا پھولتا ہے۔ بوڑھے کی رگ رگ پھوڑا بن چکی تھی تب ہی رقابت کی آگ بھی سڑگل کے رس گئی ہوگئی۔ اسے تو بس لگن تھی اور وہ دارو کی کہ سب سے بڑا مرہم مدہوشی ہے۔
پتہ نہیں بڈھے کے خاندان کے فرد اقلیت کی فہرست میں آتے ہیں کہ نہیں۔ آدھا بمبئی تو اسی قبیلے کا نظر آتا ہے۔ جن کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پچھلی دفعہ بڑا دند مچا تھا۔ بڈھے نے بہو اور رگھو کے ساتھ جا کر ووٹ بھی ڈالا تھا۔ تمام دیواریں گائے، بیل اور گھوڑے کی تصویروں سے بھر گئی تھیں۔ بڑی مشکل سے دو برساتوں میں دھلیں۔ اسے قطعی پتہ نہیں تھا کہ وہ ان کو ووٹ کیوں دے رہا ہے۔ اسے لاری میں لے جایا گیا اور اسے جو بتایا گیا تھا اسی تصویر پر نشان لگادیا تھا۔ نیلی سیاہی کا نشان اس نے حسب ہدایت فوراً انگوچھے سے رگڑ ڈالا تھا۔ اسے گنتی نہیں آتی اور نہ یادداشت کام کرتی ہے پر اس دن اس نے کتنے ہی پرچے ڈبوں میں ڈالے اور اس دن سب کو ملا کر پورے اڑتالیس روپے ہاتھ لگے تھے تب کی دن جی بھر کے ٹھرا اور بڑا گوشت اڑایا تھا۔۔۔ پتہ نہیں کون گدی پر بیٹھا کون اترا، پرچیوں پر بنی تصویریں خاموش ہیں نہ دیواروں پر لگے اونٹ گھوڑے کی وہ زبان جانتا ہے جو اپنی مشکلات کاکسی سے حل پوچھے۔۔۔ اور تب بھوری بائی کے دماغ آسمان پر چڑھنے لگے تھے۔ گھر کا خرچہ چلانے کے لیے وہ جھونپڑی والی بائی کی مدد سے دھندہ کرنے لگی تھی۔ وہیں اس کی ایک فلم والے سے بھینٹ ہوگئی۔ اور وہ اسے بھیڑ کے سین میں ایکسٹرا بنا کے لے گیا۔ اسی دن سے بھوری بائی اپنے کو فلم اسٹار سمجھنے لگی ہے اور دھرتی پر پیر نہیں ٹکتے۔
ادھر ڈھونڈی کی کمائی کی خیر خبر دور دور تک پھیل رہی تھی۔ آٹھ دس گھرں کا کام سمیٹتی ہے فی گھر سے تیس پینتیس مار لیتی ہے۔ پیر میں پازیب بھی جھنکتی ہے اور سود پر روپیہ بھی چلانے لگی ہے۔ تبھی رگھو ایک جان چھوڑ ہزار جان سے اس پر عاشق ہوا۔ مگر ڈھونڈی کے نصیب ہی کھوٹے ہیں۔ ہلکٹ نے فیل مچائے کہ فلم والے نے اسے ہیروئن بنانےکا پکا وعدہ کیا ہے۔ رگھو کی بیوی جو میکے چلی گئی تھی اس کابھائی نہیں بھیجتا کہ وہاں نئی کالونی میں بہت کام ہے۔ جو مزدور دور دور کے گاؤں سے آکر جٹے ہیں وہ گھر والی تھوڑے سنگ لے کے آئے ہیں۔ ان کی بھی تو ضروریات ہیں۔ رگھو گیا، ہاتھ پیر جوڑے مگر بھائی ٹس سے مس نہ ہوا۔ اس کی چھوکری مرگئی۔ اچھا ہوا اب اس کی گود میں چھ مہینے کا لونڈا ہے۔ رگھو کو تاؤ آتا ہے اور ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ اس کا سالا بہن کی کمائی کھا کھاکر سانڈ ہو رہاہے۔
کمپاؤنڈ میں اب بھی جھگڑا چل رہا ہے۔
بڑی مشکل سے سمجھ میں آتا ہے کہ ڈھونڈی پر کسی نے قاتلانہ حملہ نہیں کیا بلکہ ڈھونڈی نے اپنے پتی کی ناک چبا ڈالی۔ تھوکی بھی نہیں شاید نگل گئی۔ پولیس رگھو کو لے گئی مگر ڈھونڈی ارتکابِ جرم کے بعد سٹک گئی۔
رگھو بے ہوش ہے، شاید مر رہا ہے یا مرچکا ہے۔ اس کا مطلب ہے ڈھونڈی اسی عمارت کے کسی فلیٹ میں انڈر گراؤنڈ ہوگئی ہے مگر چوکی دار اندر سے تالا مار کر بیٹھ گیا ہے۔ صبح سے پہلے نہیں کھولے گا۔ مجھے سخت بے چینی ہے۔ چھوکرے چوکی دار پر آوازے کس رہے ہیں، پر وہ ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ صبح جب پولیس ڈھونڈی کی تلاش میں آئے گی تب دروازہ کھلے گا۔
مجھے ڈھونڈی سےڈر لگ رہا ہے۔ اس نے پتی کی ناک چبا ڈالی۔ میں نے آج تک ایسی بات نہیں سنی کہ کسی عورت نے غصہ یا رقابت میں پتی کی ناک کاٹی ہو۔ ہاں مردوں کی ناک تب ضرور کٹ جاتی ہے جب ان کی بہن بیوی یا بیٹی کسی کے سنگ بھاگ نکلیں یا حرام کا بچہ جن بیٹھیں، پر عورت ذات پر پتی کی ناک سچ مچ کاٹ ڈالنا بالکل نہیں سجتا۔
میں بڑی ترقی پسند بنتی ہوں۔ عورت اور مرد کی برابری کی شدت سے قائل ہوں۔ مگر ڈھونڈی کا ناک چبا ڈالنا بہت ویسا لگ رہا ہے۔ شاید اس لیے کہ دنیا کی تاریخ میں میرے علم کے حسابوں میں یہ پہلا حادثہ ہے۔
’’ارے سالی چبا کے گٹ گئی، تھوکی بھی نہیں۔‘‘ نیچے منڈیر پر بیٹھا کوئی تبصرہ کر رہاہے۔ ’’ہم نے بہت ڈھونڈی نہیں ملی شاید کسی کی چپل میں چپکی چلی گئی۔‘‘
اور ڈھونڈی کسی بات کا جواب نہیں دیتی۔ اس کا چپ کا سناٹا میرے کانوں کے پردے پھاڑے دے رہا ہے۔ اف اس کی آنکھیں کہاں گم ہو گئیں ہیں۔ ان میں کس بلا کی خالی پن ہے۔ آخر صبح ہوگئی۔ پھاٹک کا تالا کھلا مگر پولیس نہیں آئی۔ لوگ بالکنیوں پر کھڑے انتظار کر رہے ہیں، فٹ پاتھ پر بھی جماؤ جمے ہیں۔
ڈھونڈی سہمی ہوئی اتر کر فٹ پاتھ پر قدم تول تول کر چل رہی ہے۔ بائی لوگ آپس میں بدبد کر رہی ہیں ان کی آنکھوں میں اس عورت کے لیے سہمی ہوئی نفرت ہے جیسے زہریلی ناگن نے کسی مقدس چیز کو ڈس لیا ہو۔
ڈھونڈی مجرم سی بنی صفائی پیش کر رہی ہے۔ اس نے پتی دیو کی ناک نہیں کاٹی۔ نشہ میں دھت جب وہ اس پر پل پڑا اور کپڑے پھاڑنے لگا تو اس نے کاٹا نوچا تو بہت مگر وہ پتی کی ناک ہرگز نہیں کاٹ سکتی۔ ہوسکتا ہے وہ اس کے ہونٹ چومنے جھکا ہو اور ناک ڈھونڈی کے دانتوں کی زد میں آگئی ہو۔ ہاں اس پر رگھو کا خون تو برسا کیونکہ اس کے جسم پر کوئی زخم نہیں۔ اس کے کپڑوں پر پتی کے خون کے داغ دھو کر بھی پوری طرح نہیں چھوٹے۔
مگر بائی لوگ اس سے آنکھیں چرا رہی ہیں۔ اس نے بڑی بے جا کی۔ پتی بھگوان سمان ہوتا ہے۔ خدائے مجازی ہوتا ہے۔ اکثر عورتوں نے اپنے پریمیوں کا غیظ و غضب کی حالت میں خون کردیا ہے اس لیے میں نے خنجر اتار دیا ہے۔ ڈھونڈی بھی اگر رگھو ناتھ کا نرخرہ چبا ڈالتی، اس کی آنکھیں پھوڑ دیتی تو بھی کچھ نہ جاتا، مگر مرد کی ناک اف وہ چاہے چاقو سے کاٹی جائے یا دانتوں سے بڑی گھناؤنی حرکت ہے جو ہرگز قابل معافی نہیں۔
دن ڈھلا، دوپہر ہوئی اور سمندر پر ڈوبت ہوئے سورج نے آگ سی لگادی۔ فضا میں نحوست سی طاری ہے۔ ڈھونڈی دیوار سے لگی بیٹھی ہے۔ نہ وہ گئی اور نہ کسی فلیٹ سے اس کی پکار آئی۔ نہ جانےکب سب یہی چاہ رہے تھے کہ رگھو مر جائے اور ڈھونڈی کو پھانسی ہوجائے کہ قصہ پاک ہو۔
کوئی پانچ ساڑھے پانچ کا عمل ہوگا کہ چرچ گیٹ اسٹیشن کی اور سے لونڈوں کی بھیڑ میں گھرا لمبا بانس جیسا رگھو ناتھ گھاٹے آتا دکھائی دیا۔ لونڈے اچک اچک کر اس کی ناک دیکھ رہے تھے۔
رگھو کی ناک پر ٹانکوں تک کا نشانہ نہیں تھا۔ معجزہ ہوگیا، ضرور دھولکیا نے کیس ہینڈل کیا ہوگیا۔ بھئی کمال ہے نہ پھایا نہ پٹی۔ یہاں تک کہ کھرونچ تک نہیں۔ لوگ گم سم اس کی ناک کو تک رہے ہیں اور رگھو سب کی اور مشتبہ نظروں سے دیکھتا لپکا چلا آرہا ہے۔
’’کون بولا ناک کاٹا،‘‘ رگھو بگڑ کھڑا ہوا۔ جب جاستی پیتا تو ناک سے کھون آتا۔ پھر اس ہلکٹ نے ہم کو ٹکر مارا۔ تبھی ہم بے ہوش ہوگیا۔‘‘
ایک دم ڈھونڈی چنگھاڑ چنگھاڑ کر رونے لگی اور سرپٹ مراٹھی میں نہ جانے کیا کہہ رہی تھی۔
بالکنیوں سے صاحب لوگ جھک جھک کر نہ جانے کیا کہہ رہے تھے۔ سب ایک دم بول رہے تھے اور کسی کو دوسرے کی بات سمجھنے کی فرصت نہ تھی۔ اور کچھ سمجھنے کی بات بھی نہ تھی۔ سب ہی کچھ بوکھلائے ہوئے تھے۔ رگھو جلدی جلدی ڈھونڈی کا گوڈر سمیٹ رہا تھا۔۔۔ ان لوگوں کے جانے کے بعد مجمع کچھ مایوس سا ہوکر بکھر گیا۔ اتنے دھانسو ڈرامے کا انجام اتنا پھس پھسا۔ بجلی کے کھمبے کی روشنی میں رکھو کی ناک اور ڈھونڈی کے منہ سے خون ابلتا دیکھ کر کسی منچلے نے پولیس کو فون کردیا۔
ہسپتال کے ڈاکٹر بھی بےحد خفا تھے کہ نکسیر کے کیس کے لیے ان کی نیند حرام کی۔ پولیس شرمندہ تھی کہ غنڈوں نے جان بوجھ کر بے وقوف بنا دیا۔
خود میرے اوپر سخت کھسیان پن طاری تھا۔ جس کا الزام میں کسی نہ کسی پر تھوپنے کے منصوبے بنا رہی تھی۔ میں جو خود کو نہایت روشن خیال دکھی طبقہ کا ہم درد اور عام انسان سے بےحد قریب سمجھتی ہوں، ان کے بارے میں بس اتنا جانتی ہوں کہ نکسیر کو قتل کی واردات یقین کر لیتی ہوں۔ مرد و عورت کے برابر حقوق کی علم بردار مرد ناک کاٹتا ہے تو نفرت کرتی ہوں مگر عورت مرد کی ناک کاٹے تو دہل جاتی ہوں۔ اف کتنی شرم کی بات ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.