Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بدلہ

MORE BYعلی عباس حسینی

    کہانی کی کہانی

    یہ ایک منشی کی کہانی ہے جو سرکاری کام کے سلسلے میں جونپور کا سفر کر رہے تھے۔ راستے میں ایک انگریز عورت ملی جس کا شوہر اسے سزا دینے کے لیے سارا سامان ساتھ لیکر تنہا سفر پر نکل گیا تھا۔ اس بات سے ناراض ہو کر وہ عورت بھی منشی کے ساتھ جونپور چلی گئی اور وہاں ان کے ساتھ کئی رات رہی۔ واپس جاتے ہوئے اس نے کہا کہ یہ اپنے شوہر سے اس کا انتقام تھا۔

    پلیٹ فارم کا شور، گاڑی کی گھڑگھڑاہٹ۔ انجن کی بھک بھک۔ ’’قلی! قلی!‘‘، ’’اے بکس اس برتھ پر رکھو، بستر اس سیٹ پر۔‘‘، ’’شالا بیٹا دو آنہ مزدوری کم بتاتا ہے۔‘‘، ’’ام ایک آنہ سے زیادہ نہ دیگا امارا ملک میں ایک آنہ کا اخروٹ بہت ملتا ہے، بہت!‘‘، ’’میں کہتا اوں بالکل اندا اوگیا۔ سوجتا ناین!‘‘، ’’اے ہے میں کہتا ہوں حضّت یہ بھی کوئی انسانیت ہے کہ خود لمبے لمبے لیٹے ہیں۔ دوسروں کو بیٹھنے تک کی جگہ نہیں دیتے۔ بھئی کیا انسانیت ہے کہ خود لمبے لمبے لیٹے ہیں۔ دوسروں کو بیٹھنے تک کی جگہ نہیں دیتے۔ بھئی کیا لوگ ہیں، اخلاق تو چھوتک نہیں گیا!‘‘

    غرض بنگال کوئلیں بھی تھیں، سرحد کے سارس بھی، میرٹھ کے بگلے بھی اور لکھنؤ کی نزاکت مآب کتیرا ئی بھی! ان میں سے ہر ایک کی الگ الگ ٹولیاں تھیں۔ بیڑی، سگریٹ، سگار کے لمبے لمبے کش۔ ’’ہندو چائے! مسلم چائے! ہندو پانی مسلم پانی! پان سگریٹ، بیڑی! مسلمان پان، ہندو پان! بوشو ماشا! داغاروڑا! میں کیتاؤں حضت! حضت!‘‘

    میں نے گھبراکر اس طرف دیکھا جدھر چوڑان والی برتھ پر ایک صاحب بستر جمائے دراز تھے۔ صورت کچھ پہچانی سی معلوم ہوئی۔ اس طوفان میں انہیں روشنی کا منارہ سمجھا۔ ادھر بڑھا، ’’اخاہ انور صاحب ہیں، آئیے!‘‘ خاں صاحب نے کہا اور کچھ ٹانگ سکیڑلی۔ میں نے گرم جوشی سے ہاتھ ملایا۔ ہنگامے میں جائے پناہ ملی۔ رسمی ملاقاتی کی جگہ اس وقت خان صاحب کو جگری دوست اور بہت بڑا محسن ماننا پڑا۔ سچ ہے۔ خودغرضی پر ہی پر اخلاص کی بنیاد ہے۔

    ’’بہت دنوں کے بعد ملاقات ہوئی خان صاحب۔‘‘ میں نے اطمینان سے پمپ اتارتے اور چار زانو ہوکر بیٹھتے ہوئے کہا۔ انہوں نے میری طرف سگریٹ بڑھاتے ہوئے جواب دیا، ’’کیا کروں بھائی انور، سرکاری ملازم ٹھہرا اور وہ بھی کیمپ کلرک۔ میرا تو کام ہی دورہ ہے۔‘‘

    ’’میں اپنے ڈبے کے دلچسپ منظر کی طرف متوجہ ہو گیا۔ سانولے دُبلے پتلے بنگالی، انگریزی کوٹ پر لمبی لمبی دھوتیاں پہنے بنگلا بول رہے تھے۔ کئی کئی ایک ساتھ اس طرح بولتے جیسے معلوم ہوتا غوغائیں لڑ رہی ہیں۔ پشاوریوں میں پشتو چل رہی تھی۔ ان کے تنومند سینوں اور موٹی موٹی گردنوں سے ان کی خشن زبان کے الفاظ بالکل اسی زناٹے سے نکل کر کانوں پر پڑ رہے تھے جیسے غلیل سے غلٹے نکل کر نشانے پر پڑتے ہیں۔ پھر ادھر میرٹھ اور بریلی بول رہا تھا۔ میں کے ریااوں، تو اتنا پرے کیوں بیٹھا ہے؟۔‘‘ لکھنؤ والے حضت وحشت سے ان لوگوں کو دیکھتے، بار بار کانوں پر ہاتھ دھرتے اور عجیب عجیب طرح منہ بناتے تھے۔ ان کی زباندانی مجروح ہو رہی تھی۔ میں ان کی بےبسی سے لطف اندوز ہو رہا تھا کہ خانصاحب نے سرہانے سے تکیہ اٹھاکر میری جانب کر لیا، پھر خود بھی اٹھ بیٹھے۔ گاڑی نے بھی سیٹی دی۔ اسٹیشن سنیما کی تصویریں کی طرح، نظر کے سامنے سے گزر گیا۔ اب درختوں، جھاڑیوں، کھیتوں اور تار کے کھمبوں نے بھاگنا شروع کیا اور آسمان کا وہ سرا جہاں وہ زمین کے لب سے لب ملاتا ہے۔ کھڑکی سے دکھائی دینے لگا تھا۔ خاں صاحب نے میرا شانہ ہلاکر کہا، ’’ارے میاں انور، تم بھی کہاں ان لوگوں کی باتوں میں محو ہو گئے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’میں ان لکھنوی بزرگ کی پریشانی سے دلچسپی لے رہا تھا۔‘‘

    بولے، ’’اجی چھوڑو ان باتوں کو۔ میں تمہیں ایک دلچسپ واقعہ سناؤں۔‘‘

    میں نے دیکھا تو خان صاحب کی آنکھیں معمول سے زیادہ چمک رہی تھیں۔ ان کے چہرے پر اس طرح کی ہلکی سرخی تھی جو ڈھلتی دھوپ میں ہوتی ہے۔ شاید وہ کسی واقعہ کی یاد سے پھر سے جوان ہو رہے تھے۔

    انہوں نے میری طرف گردن بڑھا دی، بالکل اسی طرح جس طرح بھوکے جانور چارے کو دیکھ کر گردنیں بڑھادیتے ہیں۔ ان کے لب اس طرح پھڑک رہے تھے، جس طرح ریس میں دوڑنے والے گھوڑوں کے نتھنے قطار میں کھڑے ہوتے ہی پھڑکنے لگتے ہیں اور ان کی ناک کے بانسے پر پسینے کے چھوٹے چھوٹے قطرے اسی طرح جھلک رہے تھے۔ جس طرح بخار اترتے وقت مریض کی پیشانی پر!

    میں نے کہا، ’’ضرور! ضرور!‘‘

    وہ میری طرف اور بھی جھک گئے۔ اس طرح کہ ان کا منہ میرے کان کے بالکل قریب ہو گیا۔ اتنا قریب کہ گاڑی کی گھڑگھڑاہٹ، بنگالیوں کا غوغا، پشاوریوں کا شور، روہیلوں کی گفتگو، سب کچھ سننے کے باوجود میں خان صاحب کا ایک ایک لفظ سننے پر مجبور تھا۔ گویا یہ تمام باتیں محض ساز تھی اور اصل گیت خان صاحب کی حکایت تھی۔

    ’’یہی جاڑوں کے دن تھے، یہی سرمائی دوروں کا دور۔ میں صاحب کمشنر کے ساتھ غازی پور کے ضلع میں سیدپور کے قریب کہیں تھا کہ شام کو حکم ملا کل جونپور کا معائنہ ہے۔ مجھے گاڑی سے جانا پڑا۔ کوستا جھینکتا اسٹیشن آیا۔ ایک دیہاتی قسم کا بڑا سا جنگشن تھا۔ رات کے کوئی آٹھ بجے تھے، مگر ساری روشنیاں گل تھیں۔ صرف اسٹیشن کے اندر لیمپ جل رہا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میں ریلوے اسٹیشن کی جگہ پرانے زمانے کے کسی شاہی مقبرے میں آ گیا ہوں۔ بابوجی قرآن خوان کی طرح ایک ٹمٹمیا جلائے اپنے حساب کتاب اور ٹکوٹر میں محو تھے۔ باہر نہ آدمیوں کی چہل پہل، نہ قلیوں کی پکار، نہ سودے والوں کا شور۔ عجیب بھیانک سماں تھا۔ اس پر قیامت یہ کہ اس دن شام ہی سے کچھ سردی چمک اٹھی تھی۔ آسمان پر ہلکے ہلک ابر کے ٹکڑے آ گئے تھے۔ پھوہار پڑ رہی تھی اور برف میں جھلی ہوئی ہوا چل رہی تھی۔ میں بھی اپنے اوور کوٹ میں لپٹا تھا۔ ہاتھ میں چھتری تھی۔ تحصیل کا ایک چپراسی میرا بستر اور لالٹین لیے ساتھ تھا۔

    میری لالٹین کی روشنی میں برآمدے میں کچھ گٹھری نما انسان دکھائی دیے۔ وہ بیچارے اس روشنی کو دیکھ کر جیسے گرما سے گئے۔ میں سمجھتا ہوں اندھیرے میں سردی کچھ اور بڑھ جاتی ہے۔ اس لیے کہ انسان کے دل پر ایک مایوسی چھا جاتی ہے۔ ماحول کی تاریکی قوتِ ارادی کو مضمحل کر دیتی ہے۔ غرض معلوم ہوا کہ کوئی تین چار بجے رات کو گاڑی یہیں سے چھوٹتی ہے اور اندھیرے میں کنکھجورے کی شکل بناتی ہوئی پلیٹ فارم کی بغل والی پٹری پر کھڑی ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ کوئی انٹرکلاس کا ویٹنگ روم ہے۔ معلوم ہوا کہ بی۔ این۔ ڈبلیو کے جنگشنوں میں اس طرح کا کوئی جانور نہیں ہوتا۔ البتہ سکنڈ کلاس کے مسافروں کے لیے ایک کمرہ ہے، سو وہ بھی دراجابت کی طرح بند اور دیدۂ بے نور کی طرح اندھیرا۔ انور صاحب اگر آپ نے کافی سفر کیا ہوگا تو آپ کو معلوم ہوگی کہ ہمارے ریلوے بابو بھی خاص طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان کی عام خصوصیت یہ ہے کہ وہ باقاعدے قانون کی عدم پابندی اپنے لیے طرۂ امتیاز سمجھتے ہیں۔ تیسرے درجے کے غریب مسافروں سے تو وہ ہمیشہ چوتڑوں سے باتیں کرتے ہیں۔‘‘

    میں ہنس پڑا۔ خان صاحب نے متانت سے سلسلہ کلام جاری رکھا۔

    ’’میں سچ عرض کرتا ہوں۔ جہاں تیسرے درجے کے مسافر نے کھیسے نکال کے کہا، ’’اے بابوجی۔‘‘ اور وہ فوراً گھوم گئے۔ بالکل اسی طرح جیسے کسی پارک، یا ہوٹل میں داخلہ کا گھومتا ہوا دروازہ! اب بجائے ان کے موٹے موٹے ہونٹوں، چپٹی چپٹی ناکوں اور چربی سے بھری ہوئی موٹی گردنوں کے ان کی چوڑی چکلی پیٹھ اور نیلی پتلون میں کسے لوئے الٹی تھالی جیسے گول گول چوتڑ ہی دکھائی دیں گے!‘‘

    میں مسکرا رہا تھا مگر خان صاحب کے چہرے پر وہی پچھلی متانت جلوہ گستر رہی۔

    ’’تو بھائی صاحب، میں نے سوچا کہ یار اگر تم کو آرام سے سونا ہے اور بابو لوگوں سے ویٹنگ روم کھلوانا ہے تو کچھ نقصان برداشت کرو۔ چنانچہ میں نے بے جھجک ٹکٹ گھر میں کھٹ کھٹ داخل ہوکر کہا، ’’بابو ایک سکنڈ کلاس کا ٹکٹ جونپور کا دے دو۔‘‘

    بابوجی اس وقت ’’ٹکوٹرا، ٹکوٹرا، ٹراٹرا، ٹکوٹکو‘‘ کر رہے تھے، مگر میرا موٹا لب و لہجہ موٹا اور کوٹ اور سکنڈ کلاس کا نام، ان کے لیے سارے کام چھوڑدینے کے لیے کافی ہوا۔ سمجھے کوئی بڑا افسر ہے، فوراً ٹکٹ بنا دیا۔ میں نے جب ان سے ٹکٹ لے کر دام دیے توبہت بے پروائی سے پوچھا، ’’یہ ویٹنگ روم کیوں بند ہے؟‘‘ وہ سٹپٹاکے بولے، ’’جی دیکھیے میں ابھی انتظام کیے دیتا ہوں، تھوڑی دیر میں کھل گیا اور روشنی بھی ہوگئی۔ میں نے چپراسی سے بید سے بنے ہوئے ایک چوڑے بنچ پر اپنا بستر بچھوایا، دو کمبل نیچے، دو کمبل اوپر، پھر چپراسی کو رخصت کرکے اور روشنی کم کرکے لیٹ رہا۔ لیٹتے ہی سو گیا۔‘‘

    ’’قلی! قلی! روٹی کباب! ہندو چائے! مسلم پانی! ہندو پانی! سگریٹ، بیڑی، پان! ارے تم لوگ بابا رش گلا نہیں بیچتا، رش گلا! ارے میں کیتا اوں، تو بڑا الو ای ریا۔ الوای!‘‘

    خان صاحب نے آہستہ سے میرے شانے پر ہاتھ رکھا۔ میں ہمہ تن گوش ہو گیا۔

    ’’میں کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے سویا ہوں گا کہ مسافروں کی چیخ پکار، اسٹیشن کی چہل پہل نے مجھے جگا دیا۔ کچھ دیر پہلے کا سنسان اور تاریک اسٹیشن اب روشنی سے جگمگا رہا تھا۔ بالکل جیسے کسی حیرت زدہ بیوہ کو پھر سے دلہن بنا دیا جائے۔ میں تھوڑی دیر آنکھیں بند کرکے نیند آنے کی کوشش کرتا رہا۔ لیکن وہ کچھ بدمزہ ہوکر روٹھ سی گئی تھی۔ میں نے لمپ کی روشنی کم کر دی۔ میں چاہتا تھا کہ ٹی، ٹی، آئی اور گارڈ دیکھ لیں کہ آج ان کے عشرت کدہ میں سکنڈ کلاس کا مسافر سویا ہے اور اندر آنے کی ہمت نہ کریں اور ہوا بھی ایسا ہی۔ کئی ریلوے شیشے کے کواڑ سے جھانک کر باہر ہی باہر چلے گئے۔ اندر آنے کی کسی کو جرأت نہ ہوئی۔ میں نے اطمینان کی سانس لی۔ روشنی پھر کم کی اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ اتنے میں کسی نے دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گیا۔

    میں نے نصف آنکھیں کھول کر دیکھنے کی کوشش کی، لمپ کی دھیمی روشنی میں ایک سایہ دکھائی دیا۔ میں نے گھبراکر لمپ کی روشنی تیز کر دی۔ میں نے دیکھا کہ سیاہ گاؤن میں ایک نوجوان انگریزن کھڑی ہے!‘‘

    خاں صاحب نے رک کر میرے چہرے پر جو تعجب کے آثار تھے ان سے لطف اٹھایا۔ پھر سگریٹ کیس سے سگریٹ نکال کر خود جلایا اور کیس میری طرف بڑھاکر کہا،

    ’’آپ سمجھتے ہوں گے میں ایک عورت کو اس طرح گیارہ بجے رات کو اپنے ساتھ ایک کمرے میں تنہا دیکھ کر خوش ہوا ہوں گا۔‘‘

    میں نے کہا، ’’یقینی بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا!‘‘

    خاں صاحب تھوڑی دیر مجھ کو خاموشی سے دیکھتے رہے، پھر بولے، ’’جی میں اسے دیکھ کر ڈر گیا۔ میں سرکاری نوکر ہوں۔ غلامِ سرکار اور وہ مجسم سرکار تھی۔ میں نے جلدی سے منہ چھپا لیا۔ گویا میں بڑی دیر سے غافل سو رہا ہوں اور مجھے کسی کے آنے جانے کی کوئی خبر ہی نہیں! مگر اس استعجاب نے کہ دیکھوں میم صاحبہ کیا کرتی ہیں۔ کمل کے اندر سے جھانکنے پر مجبور کیا۔ وہ مسکرا رہی تھی۔ اس مسکراہٹ نے مجھے اور بھی لرزا دیا۔ گاڑی جاچکی تھی۔ نئی بیاہی کا سہاگ لٹ چکا تھا۔ اسٹیشن کی روشنیاں پھر گل تھیں، پھر سناٹا، پھر ہو کا عالم۔ مینہ پڑ ڑہا تھا۔ کمرے کے دروازے اور کھڑکیاں بند ہونے پر بھی یخ ہوا کو اڑوں سے اندر گھسی آرہی تھی اور وہ میم صاحبہ صرف ایک گاؤن پہنے کھڑی مسکرا رہی تھیں۔ نہ کوئی کمل تھا، نہ کوئی گرم کوٹ، نہ بستر، نہ اسباب!‘‘

    میں خودبخود خاں صاحب کی طرف کھسک آیا۔ میری دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی۔ گاڑی بڑی تیزی سے بھاگی جا رہی تھی۔ لکھنؤ قریب آتا جارہا تھا۔ ڈر تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو قصہ ناتمام ہی رہ جائے۔ میں نے بڑی بوڑھیوں سے کہانی سننے والے بچوں کی طرے بے چین ہوکر پوچھا، ’’پھر آپ نے کیا کیا؟‘‘

    خاں صاحب نے سگریٹ کا ایک لمبا کش کھینچا اور بہت سا دھواں فضا میں چھوڑ کر بولے،

    ’’میں کیا کرتا؟ مجھے اس سے زیادہ سوچنے کا موقع ہی نہ دیا گیا۔ وہ یکبارگی چمک کے بڑھی اور میرے قریب آکر کھڑی ہو گئی۔ میں نے جلدی سے سارا چہرہ کمبل سے چھپا لیا۔ مجھے یقین تھا کہ اب وہ مجھے ڈانٹ کر اس کمرے سے نکالنے والی ہے۔ مگر وہ میرا شانہ ہلاکر انگریزی میں بولی، ’’کیا تم دیکھتے نہیں کہ میں سردی سے کانپ رہی ہوں؟‘‘

    میں نے گھٹی ہوئی آواز میں کہا، ’’تو میں کیا کروں؟‘‘

    اس نے کہا، ’’منہ تو کھولو!‘‘

    میں اور سکڑ گیا۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہندوستانی دلہن پہلی شب دولھا کے منہ کھولنے کے اصرار پر اور زور سے منہ چھپا لیتی ہے!‘‘

    میں ہنس دیا۔ اب کے خان صاحب بھی مسکرائے، بولے۔

    ’’بعد کے واقعات کی وجہ سے اب میرا بھی ہنسنے کو جی چاہتا ہے، مگر اس وقت جان پر بنی تھی۔ آپ جانتے ہیں۔ میں کوئی ملائے مسجدی نہیں، کوئی کنٹھا پہنے برہمن نہیں! پٹھان بچہ ہوں۔ عمر میں سیکڑوں سے دل بہلایا ہے۔ لیکن میں ہوں سرکاری ملازم، گورے چمڑے والوں کا غلام۔ یہ عورت بھی اسی قوم و قبیلہ کی تھی۔ اس وقت تنہائی میں میرے سر پر چڑھی آتی تھی مگر نہ جانے کیا آفت ڈھائے۔ بہت سی وارداتیں سن چکا تھا۔ بس سہما جاتا تھا۔

    میں نے ڈبیہ سے پان نکال کر خان صاحب کو دیا۔ خود بھی کھایا۔ گاڑی چلی جارہی تھی۔ چھک! چھک! چھک! چھک! بوشوما شابو شو! داغا روڑا! بچۂ خنزیر! میں لیتا اوں، تو بیرا اوگیا اے! درخت بھاگ رہے تھے۔ جھاڑیاں دواں تھیں۔ تار کے کھمبے زناٹے بھر رہے تھے اور دور، بہت دور، آسمان نے جھک کر زمین کو آغوش میں لے لیا تھا۔

    ’’اس نے ایک جھٹکے سے میرے سر اور منہ سے کمبل الٹ دیا۔ میں بےبسی سے منہ تکنے لگا۔ وہ مسکراکر بولی، ’’تم انگریزی تعلیم یافتہ معلوم ہوتے ہو۔ میں نے لیٹے ہی لیٹے کہا، ’’جی ہاں۔‘‘ وہ بولی، ’’تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم گرم گرم کمل اوڑھ کر لیٹے ہوئے ہو اور ایک خاتون سردی کھا رہی ہے۔‘‘ میں نے اٹھتے ہوئے کہا، ’’تو میں کیا کروں؟‘‘ وہ بولی، ’’اپنے بستر میں سے کچھ مجھے بھی اوڑھنے بچھانے کو دو! میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے!‘‘ میں گھبراکر کھڑا ہو گیا۔ دوکمل اپنے بستر سے الگ کئے اور دوسری پنچ پر لگا دیے۔ اس نے کہا، ’’شکریہ‘‘ اور گٹھری بن کر لیٹ گئی۔ میں نے سویٹر اور گرم قمیص اٹیچی میں سے نکال کر پہن لی۔ پھر اپنا اوورکوٹ کھونٹی سے اتار کر اس کے کمبل پر ڈال دیا۔ اس نے آنکھیں کھول کر بڑے دلربایانہ انداز سے مسکراکے کہا، ’’تھینک یو!‘‘ اور سو رہی۔ میں نے روشنی کم کی اور اپنی جگہ پر آکر لیٹ رہا۔

    اس رات میں کیونکر سویا اور کتنا سویا، یہ میں نہیں بتا سکتا، کچھ تو حیوانیت ستارہی تھی۔ تنہائی، اندھیرا اور ایک مرہون منت دوشیزہ۔ وہ بھی شوخ طرار، زبردستی سر پر سوار ہوکر اپنے لیے گرمی ڈھونڈھنے والی! کچھ ہندوستانی غلامانہ ذہنیت ڈرا رہی تھی۔ یہ وہ چہرہ تھی جس پر سرکاری مارکہ لگا تھا۔ کالے مرد کی ہمت ہی کیا؟ اس پر نوکری کی زنجیریں گردن میں، ہاتھ پاؤں جکڑے ہوئے، جوان ہوتے ہوئے بھی دل کو بوڑھوں جیسا بنائے ہوئے، پھر یہ بھی خیال کہ کہ کوئی پاجی عورت نہ ہوکہ میرے سو جاتے ہی، کوٹ اور کمبل لے کر چلتی بنے۔ آخر اس کا کیا ٹھکانہ جواس طرح کی سردی میں یوں اس جریدہ بغیر اسباب و بستر کے سفر کرے۔ پھر یہ بھی خیال کہ ممکن ہے کہ دکھ کی ستائی ہو۔ کہیں سے بھاگی ہو۔ کسی مجرم کے پنجۂ غضب سے مرغِ اسیر کی طرح پھڑپھڑا کے نکلی ہو۔ غرض رات بھیگتی جاتی تھی، سردی بڑھتی جاتی تھی۔ نیند بھاگتی جاتی تھی اور تخیل اڑائے لیے جاتی تھی۔ مگر دوسری بنچ پر ایک پرترنم خراٹا تھا، وہ خراٹا جو سامعہ خراش نہیں ہوتا بلکہ جس کی آواز سن کر جی میں گدگدی ہوتی ہے کہ سونے والے کا منہ چوم لے! میں انہیں الجھنوں میں گرفتار سو گیا۔ اب جو آنکھ کھلی تو دیکھا کہ حسن صبیح مدھم روشنی کے دھندلے میں اس طرح چمک رہا ہے جس طرح چاند ملکۂ ابر میں۔ عجب جاذبِ نظر مرقع تھا۔ وہ کھڑی نیند کے خمار سے جھوم رہی تھی۔ بالکل ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ناگن پھن پھیلاکر لہرا رہی ہے۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ میں نے پوچھا، ’’میرے لائق کوئی خدمت؟‘‘

    وہ مسکرا دی۔ اس نے کہا، ’’نہیں!‘‘ ساتھ ہی اس نے دونوں ہاتھ انگڑائی کے لیے بلند کیے۔ مجھے اس دِن عزیز لکھنوی کے شعر کا پورا مزا آیا،

    میں نے خاں صاحب سے پہلے شعر پڑھ دیا

    اپنے مرکز کی طرف مائلِ پرواز تھا حُسن

    بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا

    خاں صاحب نے خود بھی دوسرا مصرعہ دہرایا، ’’بھولتا ہی نہیں عالم تری انگڑائی کا‘‘ اف وہ اس کا اپنے دستِ سیمیں کو بلند کرنا، پتلی پتلی نازک نازک انگلیوں کو ایک دوسرے میں پھنسانا، پھر ہلکا سا بل کھانا، رگوں کے کھینچنے سے ایک ہلکی سی آواز پیدا ہونا اور پھر دونوں ہاتھوں کاچھوٹ کر نیچے آ جانا! مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کسی نے مجھے اپنے سر سے اونچا بلند کرکے زمین پر دے مارا! دل بلیوں اچھلنے لگا۔ بیساختہ جی چاہتا تھا انگڑائی لینے والے کو گود میں بٹھا لوں۔ میں جلدی سے پھر بستر پر لیٹ گیا۔ وہ ایک ہلکی سی ہنسی کے ساتھ باتھ روم میں اپنا بٹوہ لیے چلی گئی۔

    میں نے روشنی تیز کرکے گھڑی میں وقت دیکھا۔ تین بج گئے تھے۔ میری گاڑی کے چھوٹنے کاوقت قریب تھا۔ میں جلدی جلدی اپنا بستر سمیٹنے لگا۔ اتنے میں وہ باہرآئی۔ منہ دھوکے بال سنوار کے نکلی تھی۔ غالباً لپ اسٹک اور غازہ بھی استعمال کیا گیا تھا۔ اس لیے اس بلا کا حسن تھا کہ الٰہی توبہ! سچ مچ گلاب کا پھول معلوم ہوتی تھی! میں سچ کہتاہوں۔ میں نے آج تک اس حسن کی انگریزن نہیں دیکھی۔

    میں نے کہا، ’’خاں صاحب انگریزنوں میں حسن کہاں!‘‘

    وہ بڑے جوش سے بولے، ’’بھائی صاحب آپ نے سچ کہا۔ ہم ہندوستانیوں کو انگریزی حسن مطلقاً پسند نہیں آتا۔ وہ ان کے رنگ کی شلجمیت، وہ ان کی نیلگوں آنکھوں اور وہ ان کے جلد کا کھردراپن! قریب سے دیکھو تو جان پڑتا ہے جیسے صابون سے رگڑتے رگڑتے جسم کی ایک تہ اڑا دی ہے۔ مگر یقین جانیے وہ چیز ہی اور تھی۔ رنگ کیا تھا، بالائی میں شنجرف گھلی ہوئی، اس پر آنکھیں بڑی بڑی بھی اور سیاہ بھی، مژہ گھنی اور مڑی ہوئی، بھویں پتلی نصف دائرہ بناتی ہوئی۔ بال پٹے نما مگر سیاہ چھلے دار۔ ناک چھوٹی۔ دہانہ مختصر اور ہونٹ تو قسم ہے اپنے آفریدی جدامجد کی! حوروں کے ویسے نہیں ہو سکتے۔ پتلے، سبک، سرخ مگر تر! میں نے مانا کہ اس وقت اس نے لپ اسٹک سے انہیں بیر بہوٹی کے رنگ کا خود ہی بنایا تھا۔ مگر میں نے ان کو سادہ بھی دیکھا ہے۔ اتنے تروتازہ کہ دیکھتے ہی منہ میں پانی بھر آئے۔ بیساختہ چوسنے کو جی چاہے اور پھر جسم! اے معاذ اللہ! سوائے گجرات کے پنگھٹوں کے اتنا سڈول، متناسب اور لوچدار جسم ہندوستان میں کہیں نصیب نہیں۔‘‘

    میں نے کہا، ’’یورپی مستوارت کے جسم کے حسن کا تو میں بھی قائل ہوں، شاید وہ مخصوص جسمانی ورزشوں کے ذریعہ انھیں ایسا بنا لیتی ہیں۔‘‘

    خاں صاحب نے کہا، ’’یہ سب میں نہیں جانتا، لیکن اس وقت مجھ پر یہ اثر ہوا کہ میں ہاتھ میں تہہ کرنے کے لیے ایک کمبل اٹھاکر کھڑا کا کھڑا ہی رہ گیا۔ وہ میری ہیئت کذائی پر مسکرا دی۔ اس نے مجھ سے پوچھا، ’’تم کہاں جاؤگے؟‘‘

    میں نے چونک کر کہا، ’’جونپور!‘‘ اس نے پوچھا، ’’وہاں ڈاک بنگلہ ہے؟‘‘ اور میرے اثبات میں جواب دینے پر بولی، ’’میں بھی وہیں چلوں گی۔‘‘

    میں نے جلدی سے بستر لپیٹا، قلی کو آوازدی اور اس کے ساتھ جونپور والی گاڑی میں جو اب پلیٹ فارم پر لگادی گئی تھی۔ سکنڈ کلاس میں سوار ہو گیا۔ وہاں میں نے پھر بستر کھولا، اس کے لیے دونوں کمبل نکال دیے اور اپنا بستر بچھاکر پھر لیٹ رہا اور پھر سو گیا!‘‘

    میں نے کہا، ’’خاں صاحب آپ نے بھی کمال ہی کیا!‘‘

    خاں صاحب مسکرا دیے بولے، ’’ہاں صاحب اس سو جانے کی وجہ خود میری سمجھ میں بھی نہیں آتی۔ شاید دماغ سوچتے سوچتے تھک گیا تھا، یا یہ کہ مجھے اب وہ اتنی اجنبی معلوم نہ ہوتی تھی جتنی کہ میرے کمبلوں کے استعمال کے پہلے محسوس ہوتی تھی، مجھے اس پر ایک بھروسہ سا تھا۔ ایک اطمینان سا کہ وہ کوئی غیر نہیں۔‘‘

    وہ تھوڑی دیر رک کر غالباً اس نفسیاتی مسئلے پر غور کرتے رہے۔ پھر بولے،

    بہرحال میں تھوڑی دیر سویا ہوں گا کہ اس نے میرا شانہ پکڑ کر ہلایا، ’’اٹھو، دیکھو صبح ہو گئی!‘‘ میں جلدی سے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ میں نے کھڑکی کا شیشہ گرا دیا۔ تازہ ہوا، شبنم سے بھیگی مٹی اور گھاس کی خوشبو سے معطر ڈبے میں گھس آئی۔ سامنے افق پر ہلکی سی سرخی جھلکی، ذرّے ذرّے میں اک زندگی سی نمودار ہو گئی اور میں ’’الااللہ‘‘ کہہ کر کھڑا ہو گیا۔ وہ مجھے اپنی سیٹ سے بیٹھی دیکھا کی اور میں منہ دھونے کے لیے اس حصے میں چلا گیا جو اس کام کے لیے مخصوص ہے۔ وہاں سے واپسی پر میں نے دو آفتاب ایک ساتھ دیکھے، ایک تو وہ جو زریں تاج سر پر رکھے افق پر مسکرا رہا تھا اور دوسرا وہ جو خندۂ زیرلب کے ساتھ میرے بستر پر جھکا ہوا کمبلوں کے تہہ کرنے میں مشغول تھا۔ میں نے کہا، ’’یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟‘‘ میں بستر لپیٹے لیتا ہوں۔ آپ تکلیف نہ کریں۔‘‘ وہ مسکراکر اپنی سیٹ پر جاکر بیٹھ رہی۔ میں نے بستر لپیٹا۔ کوٹ پر اوورکوٹ پہنا۔ پھر اپنی جگہ بیٹھ کر اس سے پوچھا، ’’آپ جونپور میں کہاں قیام کریں گی؟‘‘ وہ بولی، ’’تمہارے ساتھ ڈاک بنگلے میں!‘‘ میں نے رک رک کر پوچھا، ’’کیا میں یہ جان سکتا ہوں کہ آپ اس طرح بے سروسامان کیوں سفر کر رہی ہیں؟‘‘ اس کے چہرے پر سرخی دوڑ گئی، بالکل اسی طرح کی جس طرح کی چند منٹ قبل آفتاب کی پہلی کرن کائنات کے ہر ذرے پر چڑھا رہی تھی۔ وہ بولی، ’’یہ سب میرے شوہر کے کرتوت ہیں! ہم لوگ مرزا پور سے آرہے تھے۔ سمستی پور جانا تھا۔ بنارس میں گاڑی بدلنا تھی۔ ہماری گاڑی میں دیر تھی۔ میں نے کہا ذرا میں ایک دوست سے ملتی آؤں۔ مجھے ذرا دیر ہوگئی۔ گاڑی چھوٹنے لگی۔ وہ مجھے سزا دینے کے لیے میرا سارا اسباب، بستر، کمبل، سب کچھ لے کر چل دیا۔ اس پاجی کے دل میں ذرا رحم نہ آیا کہ اس سردی اور بےسروسامانی میں میری کیا گت بنےگی!‘‘

    میں نے کہا، ’’لیکن جونپور سے تو سمستی پور پر کوئی گاڑی نہیں جاتی۔‘‘

    وہ بولی، ’’میں جانتی ہوں، لیکن اب تو جب میرا جی چاہےگا۔ جب ہی پلٹ کے جاؤں گی!‘‘

    جونپور کا اسٹیشن آگیا۔ گاڑی رکتے ہی وہ اتر کر پلیٹ فارم پر کھڑی ہو گئی۔ قلی نے پوچھا، ’’اسباب ہجور۔‘‘ وہ بالکل حاکموں کی طرح اردو میں بولی، ’’منشی جی سے بولو۔‘‘ میں نے اسباب اتروایا۔ وہ کھٹ کھٹ کرتی اسٹیشن کے باہر چلی گئی۔ نہ بابو کی ہمت پڑی کہ وہ ٹکٹ مانگے اور نہ وہ خود ذرا سا بھی جھجکی۔ میں نے اپنا ٹکٹ دیا اور قلی کو ساتھ لیے باہر آیا۔ وہ ایک ٹھیلہ گاڑی طے کرکے منتظر تھی۔ اسباب لدوایا گیا۔ میں نے اندر بیٹھنا چاہا۔ حکم ملا کوچوان کی بغل میں باہر بیٹھو۔ اچھی طرح منشی بنا! ڈاک بنگلے پر آیا تو وہاں نہ خانساماں اور نہ باورچی، صرف ایک چوکیدار۔ منشی کو حکم ملا، ’’جلدی چائے کا انتظام کرو، ہم بہت بھوکا ہے۔‘‘ میں پھر اسی گاڑی میں بیٹھا اور چائے کی دوکان ڈھونڈھتا پھرا۔ بارے ایک جگہ ایک دوکان دکھائی دی۔ مجھے خود بھی بھوک لگی تھی۔ وہیں تپائی پر بیٹھ کر گرم گرم نہاری کھانا شروع کر دی اور چار انڈے ابالنے اور توس مکھن چائے تیار کرنے کو کہا۔ یہ سب لے کر روانہ ہونے والا ہی تھا کہ میری بلائے مبرم آکر کھڑی ہوئی، ’’ول منشی تم بڑا دیر لگایا!‘‘ جی چاہا ایک ڈانٹ بتاؤں کہ تیرے باپ کا نوکر نہیں ہوں۔ مگر ڈرا خدا جانے کیا کہہ دے۔ بھرے بازار میں ذلیل ہونا پڑے۔ غصہ پی گیا۔ گاڑی میں چیزیں رکھیں اور کوچوان کے ساتھ بیٹھ کر پھر بنگلے آیا اور دن کے ناشتے، لنچ او رچائے کے لیے چوکیدار کو خانساماں کی تلاش کا حکم دیا اور کمشنر بہادر کی فکر میں نکلا۔ وہ کلکٹر صاحب کے ہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ دن بھر ان کے حکم احکام کی تعمیل کرتا رہا۔ جب پانچ بجے کے قریب پلٹا تو معلوم ہوا کہ میم صاحبہ چائے پی کر ٹہلنے گئی ہیں۔ ڈاک بنگلے کا چوکیدار کہیں سے ایک باورچی پکڑ لایا تھا۔ اسے مرغ، مٹن چاپ اور خدا جانے کیا کیا پکانے کا حکم دے گئی تھیں۔ سب کے دام دینے پڑے۔ آٹھ بجے کے قریب تشریف لائیں۔ میں اپنے کمرے میں تھا۔ بلایا گیا۔ حکم ہوا ’’ہمیں کھانا کھلائیے۔‘‘ کھانا آیا۔ بیروں اور خانساماؤں کی طرح میم صاحبہ کو کھانا کھلانا پڑا۔ بار بار جی چاہتا۔ خود بھی کرسی کھینچ کر بیٹھ جاؤں اور اس دودھ کے دھلے سپید دسترخوان پر شریک ہو جاؤں، مگر رعب حسن اور غلامی کا ڈر مانع ہوئے۔ بارے کھانا ختم ہوا۔ اب دوسرے کمرے میں میری باری آئی۔ خانساماں نے بڑی خاطر کی۔ سب نعمتیں مجھ کو بھی دیں۔ خدمت کاشکر ادا کیا اور کھاپی کے پلنگ پر جاکر دراز ہو گیا۔

    دن بھر کا تھکا تو تھا ہی تھوری دیر میں نیند سی آنے لگی۔ لمپ کی روشنی بالکل مدھم کی اور چاروں طرف سے آنکھیں بند کیں۔ کہ میم صاحبہ اور میرے کمرے کے درمیان جو دروازہ تھا، وہ آہستہ سے کھلا۔ میں نے آنکھیں کھول کر ادھر جونظر کی تو دیکھا وہ کھڑی ہے۔ میں نے غصہ سے کمبل میں منھ چھپا لیا۔ دن بھر کی پریشانی کے بعد اب میں کوئی نیا حکم بجالانے کے لیے تیار نہ تھا۔ اس نے آہستہ سے کواڑ بھیڑے۔ میرے پلنگ تک ٹہلتی ہوئی آئی اور گاؤن اتار کر میرے کمبل کو ایک طرف سے اٹھایا اور بستر میں داخل ہو گئی۔

    میں نے گھبراکر پوچھا، ’’یہ کیا کر رہی ہو؟‘‘

    وہ بولی، ’’میں کیا وہاں پالے میں ٹھٹھرتی؟‘‘

    میں نے اٹھنے کی کوشش کرکے کہا، ’’تو میں کمبل دے دوں؟‘‘

    اس نے میری گردن میں باہیں ڈال کے کہا، ’’بیوقوف!‘‘

    خاں صاحب خاموش ہو گئے۔ ان کے ہونٹ بار بار کھلتے تھے۔ گو ان سے آواز نہ نکلتی تھی۔ لیکن ان کی وہی ہیئت بنتی جیسی کہ ’بیوقوف‘ کہنے میں بنتی ہے۔ گویا وہ اس لفظ کو دل ہی دل میں دہرا کے گزشتہ مسعود ساعتوں کی یاد تازہ کر رہے تھے۔

    گاڑی چلی جا رہی تھی۔ شیں، شیں، شیں! کھڑ، کھڑ، کھڑ، کھڑ، سائیں، سائی، جھک، جھک، جھک، جھک! چھک، چھک، چھک، چھک! درخت بھاگ رہے تھے۔ جھاڑیاں دوڑ رہی تھیں۔ تار کے کھمبے دواں تھے اور دور بہت دور آسمان جھک کر زمین کا پیار لے رہا تھا۔

    میں نے کہا، ’’خان صاحب منشی بننا تو پھل لایا!‘‘

    وہ ایک تلخ مسکراہٹ کے ساتھ بولے، ’’جی ہاں، اس نے خود مجھ کو رات کو سمجھایا۔ دن میں سوائے اس کے اور کوئی رشتہ نہیں ہو سکتا۔ گورے اور کالے سب کے سامنے سوائے حاکم و محکوم کے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے بھی کہا، ’’ٹھیک کہتی ہے!‘‘

    میں نے پوچھا، ’’خاں صاحب آپ نے اس کانام، پتہ ٹھکانا دریافت نہ کیا۔‘‘

    وہ ٹھنڈی سانس لے کر بولے، ’’میں نے سب کچھ پوچھا مگر اس نے ہمیشہ یہی کہا، ’’تمہیں پھل کھانے سے کام یا درخت گننے سے؟‘‘ چھ راتیں حُسن و عشق کی گھاتوں میں کٹیں۔ ساتویں دن صبح کو جب وہ اپنے کمرے میں جانے لگی تو دروازے کے پاس کھڑی ہوکر بولی، ’’خاں صاحب، تمہاری نیکی کا بدلہ ہو گیا۔‘‘

    میں نے پوچھا، ’’کیسی نیکی؟‘‘

    وہ بولی، ’’وہی جو تم نے ویٹنگ روم میں مجھے دو کمبل دے کر مجھے سردی سے بچا لیا تھا۔‘‘

    میں نے کہا، ’’یہ تو کوئی بات نہ تھی۔‘‘

    وہ بولی، ’’لیکن مجھے اپنے شوہر سے بھی تو بدلہ لینا تھا۔ اس نے مجھ پر شک اور غصہ کیا۔ اس نے میری تکلیفوں کاخیال نہ کیا اور سارا اسباب لے کر چل دیا، پاجی!‘‘

    میں نے پھر کہا، ’’اپنا نام اور پتہ اب تو بتا دیجیے۔‘‘

    اس نے مسکراکر سر ہلایا۔ وہی سر جو بارہا میرے سینے پر رہ چکا تھا۔ پھر وہ بولی، ’’ان باتوں کو اب بھول جاؤ۔ بس تمہارے لیے یہ ایک دلچسپ سفر اور میرے لیے۔۔۔ مکمل بدلہ!‘‘

    لکھنو کا اسٹیشن آ گیا۔ قلی! قلی! قلی! ارے تم کیشے اٹھاتا ہے۔ غشا آتا ہے شالا لوگ! ارے پَرے اَٹ۔ دیکتا نایں۔ بالکل اندا اور یا اے! میں عرض کرتا ہوں حضت ذرا ٹانگیں سمیٹیے تو میں باہر نکل آؤں۔

    میں نے خان صاحب سے ہاتھ ملایا۔ خدا حافظ کہا۔ مگر وہ کچھ بولے نہیں۔ ان کی آنکھیں اس ہنگامے میں بھی کچھ اور ہی ڈھونڈ رہی تھیں۔ وہ آہستہ آہستہ کہہ رہے تھے، تمہارے لیے ایک دلچسپ سفر! میرے لیے مکمل بدلہ!‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے