Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بدلے کے نرت بھائو

سمیع آہوجہ

بدلے کے نرت بھائو

سمیع آہوجہ

MORE BYسمیع آہوجہ

    سائیں سے سانچار ہو بندے سے ست بھائو

    چاہے لمبے کیس رکھ چاہے گھوٹ منڈائو

    بارک اللہ، شکر ہے کہ آپ خود ہی مجھ سے بھی دو قدم آگے اس سعی میں لگے ہوئے ہیں کہ واقعات کے ڈھیر کی بوسیدگی جب بو چھوڑے اور سب کو بیگانگی کا جبہ اڑھنے کو بانٹے، تو ۔۔۔؟

    اور بے حسی کی اذیتوں کے شکار نفوس اسے دفنانے میں جت جائیں، تو۔۔۔؟

    ایسے سوال توالجھن میں ہمیں ڈالے بیٹھے ہیں۔ مگر آپ۔۔۔؟

    آپ سمجھ بوجھ کی انگلی تھامے ہم سے آگے نکل آئے اور اس دفینے کی کرید میں جت گئے۔ اب ہماری بھی سنیے کہ ہمارے ہتھے کیا لگا۔۔۔؟

    یہ جو ہے نا الٰہ آباد۔۔۔؟

    وہی جہاں گنگا میا اور جمنا کا سنگم ہوتا ہے وہیں قریب میں یہ ہمارے بل بہادر بھیا جو اپنے نقش و نگار سے گورکھا لگتے ہیں اور ان کا نام کالنگاکے ایک جنگجو کے نام پر رکھا گیا تھا۔ گور کھا جنرل امرسنگھ شکست پر فرنگیوں کے ساتھ معاہدہ سکولی ہوا تو سکم خالی کر دیا گیا اور ساتھ ہی دریائے کالی کے مغربی چوکھٹے میں گڑھوال اور کمایوں کے علاقے انگریزوں نے فتح کے شگون میں اپنے مقبوضہ جات کے دفتری مقبرے میں چڑھاوے کا فلیگ لگا کر فائل تو بند کرڈالی مگر مقامی آبادی جو دراصل اسی زمین کے بیٹے تھے، ان کے ساتھ کیا حشر ہوا۔ بس لوٹ کھسوٹ اور قدموں تلے بچھانے کی انگیخت ان لکھی رہ گئی۔

    ہمارے بل بہادر کے دادا مشہور گورکھا کاشتکار، گڑھوال میں ان کی زرعی زمینیں تھیں، مگر ان کی کاشتکاری کی شہرت ہی انہیں ڈس گئی۔ جب معاہدے میں علاقہ فرنگیوں کے ہتھے لگا تو کاشتکاروں پر ظلم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، امر سنگھ گورکھا جنرل کی معاونت کے نام پر تمام گورکھا آبادی کو اپنے پاؤں کے نیچے خوف سے تڑپتے رکھنے کے لیے پندرہ کاشتکاروں کو سولی پر چڑھا دیا گیا۔ لیکن بل بہادر کی فیملی کے ساتھ دیگر لرزیدہ خاندانوں سے پیسہ بٹورنے کے لیے جرمانے کا حصاری بوجھ ان سب کی پشت پر باندھا گیا اور سرگوشیوں میں بات پھیلا دی گئی کہ جان جرمانے پر چھٹ گئی۔ مگر اس فرنگی جرمانے پر ہی دادا کا دل فرنگی روئیے سے کھٹا ہو گیا اور اسی پر سوچ لگ گئی کہ اب جائیں کہاں۔ بڑی بڑی فکر اور ادراک کے بعد اپنے ایک عزیز کے بلاوے پرسب کچھ سمیٹ سماٹ سنگم پہنچے اور تھوڑی بہت جتنی بھی مالی حیثیت تھی عزیز داروں کی سفارش سے زمیندار سے زمین خریدی اور سر جھکائے کام دھندے پرلگ پڑے۔ مگر ابھی گندم کی پہلی فصل کاٹی تھی کہ نجانے کس نے فرنگی سرکار سے مرات حاصل کرنے کے لیے اس کے دادا کو جنرل امر سنگھ کا مخبر بنا ڈالا۔ اتنی سی خبر اور کوئی تفتیشی بیٹھک نہ ہوئی اور شکایت اور جرم کا گھر بیٹھے فیصلہ اور اس پر دفعات لگا کر معاملات کو پس پشت ڈال دیا اور بل بہادر کے دادا اور باپ کو جیل میں سڑنے کے لیے ڈالتے ہوئے زمین اور گھر بار کا سارا سامان بحق سرکار ضبط کر لیا گیا۔ پانچ سالہ بل بہادر اور سکتے میں مقید ماں کو سپاہیوں نے دھکیل کر باہر سڑک پر بٹھا دیا۔ روتے بلکتے بل بہادر کچھ نہ سمجھتے ہوئے روتی سسکتی ماں سے لپٹ گیا اور اس کی گود میں بیٹھتے ہی سسکیاں لیتی ہوئی ماں کے زارو قطار رونے کی آواز نے اس کی اپنی ہچکیوں پر روک کھڑی کر دی۔ ماں کے دونوں رخساروں پر بہتے آنسوئوں کو ننھی ننھی انگلیوں اور ہتھیلی سے پونچھتے پچکارتے کمشنر کی بیوی نے اسے دیکھا تو بناچھت دیہاتی عورت کی بےکسی اور لاچاری پر اس کا دل بھر آیا اور۔۔۔؟

    اور وہ اپنے شوہر پر غرا اٹھی۔۔۔!

    بچے کے دادا اور باپ کی غداری کے جرم کی سزا ان دونوں کو ملے یا نہ ملے ، لیکن۔۔۔!

    ان کی سزا میں اس بچے اور اس کی جاہل ماں کو کیوں لپیٹتے ہو۔۔؟

    اور ان ہی قدموں پر وہ دونوں کواپنے بنگلے میں لے گئی اور سرونٹ کوارٹرز میں سے ایک خالی کوارٹر میں اسے رہائش دیتے ہوئے، اسے اپنے بنگلے کے جھاڑو پوچے پر ملازم رکھنے کی نوید بھی دے دی۔ کمشنر کی بیوی کے کہنے پر ہی اس نے بل بہادر کو چرچ کے مشنری سکول میں جانے کی اجازت دے دی۔ ابھی چرچ سکول جاتے پانچواں دن ہی ہوا تھا، کہ سکول سے واپسی پر میم صاحب کے کچن سے آیا ہوا دوپہر کا کھانا جو ماں ڈھانپ کر بنگلے میں چلی گئی تھی، وہی کھانا کھانے کے بعد وہ چارپائی پرلیٹا ہی تھا۔ گرائونڈ سے کسی کے بپھر پڑنے کی غراہٹیں آنے لگیں۔ بےوقت اصطبل کا انچارج اور گھوڑوں کا ٹرینر مختار اونچی اونچی آواز میں کسی کوڈانٹ رہا تھا۔ وہ الماتے کا باشندہ اور سارے قزاقستان کامانا ہوا گھڑ سوار تھا۔ کمشنر ہائوس کے اصطبل سے ملی ہوئی کافی بڑی گرائونڈ تھی، وہ بھی اسی کی تحویل میں تھی۔ جہاں صبح کا دودھیا سویرا پھیلتا تو گھوڑے دوڑنے کی آوازوں سے اس کی آنکھ کھل جاتی مگر وہ کروٹ بدل کر پھر سو جاتا۔ سورج کے نکلتے ہی تمام ملازمین گھوڑوں کی باگیں پکڑے، پیدل چلتے ہوئے دونوں ہی پسینے سے شرابور، اصطبل کی جانب جاتے نظر آتے۔ لیکن اس کے اسکول جانے سے لے کر تیسرے پہرتک گرائونڈ میں سناٹا چھایا رہتا شام کواصطبل کے ملازم پھر باگیں پکڑے گھوڑوں کو میدان کے کنارے کنارے گھماتے چکر کھلاتے رہتے اور ملگجی اندھیرا اترنے کے ساتھ ہی وہ پھر اصطبل کو لوٹ جاتے۔ لیکن گرائونڈ میں اونچی آواز میں ڈانٹنے کی آواز پہلی بار حملہ آوروں کی طرح شوروغل کے طوفانوں کی مانند جھپٹی تھی۔ وہی اسے بیتاب کرتے کھینچ کر کواٹروں کے پچھواڑے لے گئی۔ سرونٹ کوارٹروں کے پیچھے صفائی کرنے والے عملے پر وہ بری طرح برس رہا تھا۔او روہ چپ، اندر سے ہراساں، مگر ٹکٹکی باندھے اسے تکتا رہا اور جیسے ہی صفائی کاعملہ اس کے اختتامی جملے پربکھر کر دوڑنے لگا تو وہ ایک لمحہ تو انہیں اپنے صفائی کرنے والے ڈیوٹی گوشوں کی طرف لپکتا تکتا رہا اور پھر چہرا اس کی طرف گھمایا اور اسے دیکھتے ہی کھل اٹھا۔

    بل بہادر، کیوں پریشان کھڑے ہو۔۔۔؟

    میں۔۔۔!

    اور کوارٹروں کی طرف گھومتے ہی ہاتھ کا اشارہ بھی اٹھ گیا۔۔۔!

    میں وہاں رہتا ہوں۔۔۔!

    جی جی مجھے پتہ ہے میرے لاڈلے شہزادے، آپ میرے کوارٹر سے چوتھے کوارٹر میں رہتے ہیں اور آپ چرچ سکول میں پڑھتے ہیں۔اگر آپ کو گھوڑے پر بیٹھنے اور دوڑانے کا کبھی شوق

    ہو تو تیسرے پہر شام کو اصطبل میں آ جائےگا۔ میرے پاس پست قامت گھوڑوں کی ایک جوڑی ہے۔۔۔!

    آپ کو گھڑ سواری میں سکھا دوں گا۔

    جی اچھا۔۔۔!

    اور ساتھ ہی وہ کوارٹر کی طرف سٹک لیا۔۔۔

    اور چرچ کی آخری جماعت ایف اے کے تقریباً مساوی، وہ مختار سے بلاناغہ گھڑ سواری اور گھوڑوں کی پہچان اور تربیت پر بھی عبور حاصل کر گیا۔ لیکن اس کی آنکھوں سے وہ تصویریں کبھی اوجھل نہ ہوئیں۔کہ جب وہ باپ دادا کے گھٹنوں کے بل دوڑ دوڑ کر ان کے ساتھ کھیتوں میں جایا کرتا تھا، اسی زمانے میں کیسے وہ گڑھوال، اپنے بھرپرے مکان کو چھوڑ کر نکلے، وہاں ابھی تو کھیتوں میں فصل نے گھٹنوں برابر قد نکالا تھا مگر وہ سب کچھ اک جبر کے بل چھوٹا اور بے اماں چھپتے چھپاتے، دماغ چاٹتی، بے وطنی کو ہو نکتی زخم پچھتی، یاسیت تراشتی آوارگی اور واجبی ساگھریلو سامان لدے دو ٹٹو اور دو گھوڑوں پر سوار نکلے، ایک گھوڑے پردادااور ان کی گود میں سمٹا ہوا وہ اور دوجے گھوڑے پر ماں باپ، وہ خوف اور حیرت کے ملغوبے سے اٹی آنکھوں کے بل انہیں تکے جا رہا تھا کہ ان تینوں کے چہرے بےبسی اور پریشانی سے اٹے اور آنکھیں ویران اور خشک اور۔۔۔!

    اور پپڑیاں جمے ہونٹوں پرچپ کی مہر۔۔۔

    اور اصطبل میں اترا تو اس کے اندر وہی پرانی بے بسی اور ویرانی میں لپٹی غیرمحفوظ ہونے کی بےاعتباری پوری طرح مسلط تھی اور چہرا ہونق۔ مگر استاد مختار کے وجود سے اٹھتی مہاجرت کی پوری اندوہناک افسردگی بھی جب یہی کچھ ابلتی اس کے کانوں میں اتری تھی۔ تو سنگم میں ضبط ہونے والا گھر بار، بیج بونے کے لیے تیار کھیتیوں کا چھننا اور باپ اور دادا کی زندگی مانگتی ماں کی پژمردہ خوابوں میں بلبلاتے تڑپتے چہرے سے ٹپکتے آنسو۔ اور پھر ان دونوں کی یعنی باپ اور دادا کی مخبری کے الزام پر سولی پر لٹکتی لاشیں، وہ سب تڑپاتا ہوا درد، استاد کی مہاجرت کی شدید اندوہ ناک تنہائی سنتے، دیکھتے، سب خلش اور جلن سے رستے کچے زخموں پر انگور آنے لگا۔۔۔؟

    استاد مختار کی تو ماں بھی نہیں اور وہ کتنا پرسکون ہے اور میں۔۔۔؟

    میں۔۔۔؟

    کتنا بےچین اور دکھی، جبکہ میری ماں بھی ہے۔۔۔!

    وہ سب کچھ دھیرے دھیرے اندر ہی اندر نفرت اور انتقام کی چنگاری کو بھڑکتے الائو کی خونخواری میں ڈھالتے، اسی میں سارے قضیے کے مجرم فرنگیوں کو راکھ کرنے کو بیتاب۔ مگر۔۔۔؟

    شاید اس کے وجود میں مختار کی گھوڑوں کی تربیت کمال نے اس کے آہن کو سرخ ہونے اور ڈھالنے میں ایسی چابک دستی عنایت کی کہ اندر ہی اندر صبر اور سہج کا برستا بادل بن گئی۔ بےقابو جنگلی گھوڑے کو ہاتھوں کی خوشبو، گردن پر پیار انڈیلتی تھپکی، منہ زوری کے منہ میں لگام ڈالنے اور پھر اس لمحے کا بڑے سکون سے انتظار اور ٹرینر کی نموداری پر وہی گھوڑا ہنہنا اٹھے اور راسیں پکڑے اک لمبے عرصے تک لمبی دوڑ۔ اس ساری مدت میں گھوڑے کو کبھی بھی باندھ کر نہ پیٹنے کی ہدایت اس کے خون میں رچ گئی۔ گھوڑا بندے کے اندر پھیلی یاسیت کو چوستے اک محبت، آرزو، اور خواہش کو اتنا جوان کر دیتا ہے کہ اس گھوڑے اور ٹرینر کے اپنے اندر سے اٹھتی وفاداری باہم ایک خوشبو کی طرح روئیں روئیں میں جوان ہوتی چلی جاتی ہے اور سارے طوفانوں سے ٹکرانے کی صلاحیت اک سد کی طرح اندر پیوست ہو جاتی ہے اور اسی فرمانبرداری اور محبت کی صلاحیت کی بدولت اندر کی نشوونما پاتی فہم ادراک نے اسے دشمن کی پہچان کرا دی اور وہ ذہن کی سکرین پر پھیلی اپنے آبا اجداد کے کشت وخون کی کشیدہ تصاویر کو، باوجود کوشش کے مدہم نہ کر سکا۔ مگر زک دینے کی آگ ضرور روشن رہی، کہ یہ لمحہ کبھی بھی آ سکتا ہے اور مختار اس پر ہی بے پناہ خوش۔۔۔

    چرچ کے امتحانات سے فارغ ہوتے اور نتیجہ کے اعلان میں قابل تحسین پوزیشن لینے پر اور مختار کی سفارش اور کمشنر جیکسن کے بعد آنے والے کمشنر کی آنکھوں میں دوڑتی گھڑ دوڑ میں اس کی مہارت نے اسے اصطبل میں ہی مختار کا نائب بنا دیا اور اس خطے کی فتح کی سالگرہ پرپریڈ کے دوران اس کی گھڑ سواری کی مہارت اور مختلف انداز کی کلاکی رونمائی سے تمام مہمان پہلے لمحوں میں ہی دم بخود اور پھر ختم ہونے پربے ساختہ تالیوں سے اس کو داد دی اور کافی انعامات بھی ملے۔ماں کو جیسے ہی اس نے تمام انعامات دکھائے توقہر سے سے اس کا چہرہ سرخ، حلق سے پھوٹتی خرخراہٹ جو لمحوں میں ہی پلٹی اور بھاری غراتی آواز کاٹنے کو بیتاب دھار میں پلٹ گئی، اس کا لرزاں ہاتھ اٹھا اور انگلی نے سینے کا نشانہ لے لیا۔ بل نے فوراً ماں کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لیا اور چوم لیا۔ مگر وہ یک دم بل بہادر کی ماں سے، اس کے سولی پر لٹکے باپ کی بیوی بن گئی۔ اس کی آنکھیں بنجر، بے آباد۔ جس کے ریگزاروں سے امنڈتے بگولے قہرمانی خون سے مشروط۔۔۔

    کیا تم اپنے اجداد کی خون میں لت پت لاشیں گم کر بیٹھے ہو۔۔۔؟

    کیا گدھوں، چیلوں اور کوئوں سے نچتی، باپ اور دادا کی سولی پر لٹکی لاشیں، ان انعاموں کے بوجھ تلے مسخر ہو چکیں۔۔۔؟

    نہیں نہیں ماں، نہیں۔۔۔

    میرے وجود کی پرور ش ان کے آگے کا سہ لیسی کے لیے جوان نہیں ہوئی، میں تو وہ طلایہ ہوں جو بھیڑیوں اور کتوں کے بھونکتے انبوہ میں گھرا ہوا ہوں اور ان کے مالک کی تلاش میں ہوں، جس کے لیے میں اک مٹھا پیکانی تیروں کا ہوں جو۔۔۔؟

    ابھی تو ماں۔۔۔!

    اور اک لمبی سلگتی انگار سانس نے اگلا جملہ اگل دیا۔۔۔؟

    ماں ابھی تو یہ ابتدائی ہدف ملاہے جس کی تلاش ناممکنہ تھی۔ ابھی تو۔۔۔؟؟

    ماں میں انہیں کیسے بھول سکتا ہوں اور تو۔۔۔؟؟

    اور اتنا سنتے ہی ماں نے اک لمبا اطمینان بھرا سانس لیا اور ساتھ ہی اس کے دونوں ہاتھوں کی گرفت سے ماں کا بیدم ہاتھ پھسل کر نکلا اور چارپائی پر جا گرا۔۔۔

    ماں اس کی آنکھوں اور ہاتھوں سے نکل کر بادلوں سے اوپر چلی گئی اور نمناک تصور میں لرزاں، بےبسی میں جھلملاتی تصویروں میں وہ اسے باپ کی باہوں کے کلاوے میں اس کے کندھے پر سر ٹکائے، بل بہادر کو تکتے اپنی کتھا گنگنارہی تھی اور وہ۔۔۔؟

    وہ اب اپنی روک ٹوک کے سارے دروازے کھلے دیکھ کر گھوڑوں کے ساتھ پوری امنگ سے جت گیا۔۔۔!

    جب اسے چرچ سکول میں جاتے تیسرا برس شروع ہی ہوا تھا تو کمشنر نجانے کیوں اچانک انگلینڈ اپنی فیملی کے ساتھ روانہ ہو گیا شاید بچی کے سلسلے میں کوئی مسئلہ درپیش ہوا ہوگا۔ جو بچپن ہی سے اپنے ننہال کی زیر نگرانی ایک سکول کے بورڈنگ ہائوس میں پڑھنے کے لیے داخل تھی۔ مگر جب وہ بل بہادر کی ماں کے مرنے کے بعد سالانہ پریڈ پر اپنی بیٹی کے ساتھ آیا تو مختار اور بل بہادر سے ملاتے ہوئے دونوں کی گھڑ سواری اور کلا کی تعریف کی۔ اس نے بے ساختہ بیٹی سے میم صاحبہ کا پوچھا تو وہ چند لمحوں کے لیے آزردہ اور خاموش ہو گئی اور کمشنر نے بیوی کے انتقال کا وقفہ سال بھر پرانا ہی بتایا، اس کی ماں کے قریب قریب ہی۔۔۔

    پریڈ کی سلامی دیتے ہوئے دستے گزر گئے تو آخیر میں گھڑ سوار دستے کے بعد وہ دونوں بھی سلامی دیتے ہوئے گذرنے لگے تو مہمانوں کی طرف سے اک غوغا بلندہو گیا کہ وہ اپنی گھڑ کلا کو بھی اسی پریڈ کا حصہ بنائیں۔ دونوں نے اک دوجے کی آنکھوں میں افہام و تفہیم میں رچے نقشے اتارے اور وہ سلامی والے سٹیج کے روبرو بالکل آخری کنارے پر جا کر رک گیا تو مختار اپنا گھوڑا سرپٹ دوڑاتے ہوئے اس کے روبرو، سلامی سٹیج کے عین سامنے، اک جلتی ہوئی مشعل نیلگوں گردوں میں اچھالی اور سیٹی کی آواز کے ساتھ ہی اس کا گھوڑا ہنہناتا ہوا پچھلی ٹانگوں پر بلندہوا اور سرپٹ سلامی کے چبوترے کی طرف نکل پڑا۔ بل بہادر بار بار ایک رکاب پر اترتا اور اچھل کر دوجی رکاب میں دوجے پاؤں کے بل دوجے پہلو میں جا بیٹھتا اور پھر واپسی پہلے پہلو پر۔ اسی طرح پہلو اور رکاب بدلتے وہ نیچے اترتی مشعل کے نیچے پہنچا تو اسی تیزی سے وہ دونوں پاؤں کاٹھی پرجمائے کھڑا ہوا اور پلک جھپکتے ہی مشعل اس کے ہاتھ کی گرفت میں آ گئی اورمیدان مختلف نعروں اور تالیوں سے گونجنے لگا۔ لیکن وہ اسی تیزی سے مشعل کو لیے مختار کی طرف بڑھا اور مشعل کو اس کے روبرو گردوں کی دیگ میں اچھالتے پھر پلٹا اور اسی رفتار سے گھوڑا سلامی کے چبوترے کے روبرو ٹانگیں اٹھا کر ہنہناتا، پھر پلٹا اور بل بہادر کے اشارے پر مختار کی طرف لپکنے لگا۔

    مشعل کی واپسی اور گھوڑے میں فاصلے کے موجب سب ششدر اور ایکا ایکی چہ مگویوں کا اک ریلا امنڈا کہ مشعل اب کی بار اس کے ہاتھ نہیں آئےگی۔ مگر جو سرپٹ گھوڑے کی کمر سے نیچے اترتی دیکھی گئی مگر کسی نے بل بہادر کو ایک ہی رکاب میں تقریباً سر کے بل گرائونڈ کے متوازی ہوتے اور مشعل پکڑتے ہی چھلانگ لگائی اور سرپٹ دوڑتے گھوڑے کی زین پر دوبارہ پہنچتے ہی جم گیا۔ ان سارے ثانیوں میں گھوڑے کے سرپٹ دوڑنے کی رفتار میں ایک لمحے کا بھی توقف نہیں آیا اور گرائونڈ حاضرین، جس میں شریک مہمانوں کے علاوہ پریڈ میں شامل سارے دستوں کے ستائشی شور سے بھر گیا۔ پریڈ کمانڈنٹ، کمشنر اور اس کا سٹاف اور لنڈن سے لوٹا پرانا کمشنر سب ہی سلامی سٹیج سے گرائونڈ میں اتر آئے اور ہاتھ کے اشارے سے اسے رکنے کا اشارہ کرنے لگے۔ مگر وہ اسی رفتار سے گھوڑے کو دوڑاتے ہوئے گھڑ سواروں کے دستے کی طرف نکل گیا اور آناً فاناً اک پچھلے سوار کو اس کے گھوڑے کی پشت سے اٹھایا اور بغل میں دابے سلامی کے چبوترے سے نیچے اترے بنا، سب افسران کے سامنے بڑی آہستگی سے اسے کھڑا کرتے گھوڑے کو ایک چکر دیتے اس کو دھیمی رفتار پر لاتے پھر واپس گھڑ سوار دستے کے کھڑے ہونق نوجوان کی بغل میں اسے گھوڑے سے اتر کر کمانڈنٹ کو سلوٹ کیا تو داد اور شوروغل میں ہی وہ گھڑ سوار نوجوان کی چھاتی سے لپٹ گیا اور بےخبری میں اسے گھوڑے سے اٹھا لینے کی معافی مانگی جو بہت ہی دل خوشی سے مل گئی۔ مگر بار بار سوال اٹھایا گیا کہ اتنی تیز رفتار میں اس جوان کو زین سے کیسے اٹھایا آخر کو کچھ تو اس کا وزن تھاہی، اور اپنی بغل میں بھینچ کر سلامی کے چبوترے کے سامنے کتنی احتیاط سے کھڑا کیا۔۔۔!

    یہ سب کچھ کیا تو تم نے ہی کیا اور ہماری آنکھوں کے روبرو کیا، مگر۔۔۔؟

    مگر کیسے کیا۔۔۔؟

    میرا تو کچھ بھی کمال نہیں، یہ تو استاد مختار کا کمال ہے۔ کمانڈنٹ اگر اجازت دیتے تو اور بھی بہت کچھ دکھاتے، مگر انہوں نے موقع ہی نہ دیا۔۔۔!

    مگر پشت سے کندھے کو کمانڈنٹ نے تھپکی دی۔۔۔

    بل بہادر تم نے دونوں آخری آئٹم اتنی خوف ناک پیش کیں کہ ہم تمہیں درمیانی آئٹم پر ہی دفنا چکے تھے۔ سوچو کہ اگر ایک لمحہ بھی دیر ہو جاتی تو کیا ہوتا اور دوجے گھڑ سوار کے نوجوان کو تم نے اس کی بےخبری میں زین سے کھینچا اور اپنے ہم وزن کو بغل میں بجلی کی طرح سرپٹ دوڑتے گھوڑے پر لیا اور نہایت ہی حفاظت سے سٹیج کے سامنے لا اتارا۔ اس میں تمہاری، گھڑسوار نوجوان کی اور کسی حد تک تیز رفتار گھوڑے کی بھی موت واقع ہو سکتی تھی۔ تمام مہمان تو تمہاری چابک دستی کی داد دیتے تھکتے نہیں۔ اب آئندہ ایسا دل دہلانے والا آئٹم مت پیش کرنا۔۔۔

    اور گھوڑے کی لگام تھامے پیدل ہی مختار کی جانب بڑھ رہاتھا کہ اچانک لنڈن سے آئی ہوئی سابقہ کمشنر کی بیٹی راستہ روک کر کھڑی ہو گئی اور اسے دیکھتے ہوئے مسکرانے لگی۔۔۔!

    بل بہادر، آنکھیں اٹھا کر میری طرف دیکھو میں؟

    میں شیلا جیکسن۔۔۔!

    تم پر قربان، آج تو تم نے کمال کر دیا۔ میں نے زندگی میں ایسے ناممکن اور شاندار کرتب گھڑ سواروں میں نہیں دیکھے۔ کیا تم مجھے بھی بےخبری میں گھڑ سوار نوجوان کی طرح اٹھا کر بغل میں دابے، گھوڑے کی اسی رفتار سے پورے میدان کا چکر لگا سکتے ہو۔۔۔؟

    اور وہ چند دقیقے اس کی آنکھوں میں اترے، سوال پر سوال کرتے، اس کا منہ چوم گئی، شرم سے بہادر کا چہرہ سرخ ہوگیا، تھوک سے خشک حلق کو تر کرتے، اپنی آنکھیں اس کی آنکھوں کے شکنجے سے چھڑاتے ہوئے، گردونواح کے مجمع کو لوٹتے، اس پر سرسری نگاہیں پھینکتے باتوں میں الجھے دیکھتے ہی، ایک چھوٹے سے توقف کے بعد مسکرایا۔۔۔!

    مس شیلا جیکسن ، میں آپ کو نہیں اٹھا سکتا۔۔۔!

    کیوں، کیوں، کیوں۔۔۔؟

    آپ بہت وزنی ہیں۔۔۔!

    کیا۔۔۔؟

    جی ہاں، آپ۔۔۔!

    میں۔۔۔؟

    اور وہ اپنے مناسب سراپے پر ہاتھ پھیرتے جب تک اس کی جانب متوجہ ہوئی وہ آہستہ روی سے گھوڑے کے ساتھ دوڑتا مختار کی طرف بڑھ گیا۔

    مختار نے شیلا کو اس کے گھوڑے کی لگام پکڑتے، اسے روکتے اور چہرے پر پھیلی مسکراہٹ میں سارے وجود کی بہت ہی دھیمی لرزش میں اسے رنگتے، باتیں کرتے، اسیری کا پھینکا جاتا جال اس پر گرتے دیکھا تھا۔ گھوڑے کی لگام اس سے لیتے آہستہ سے آزادی میں رنگے قزاقی گیت گنگنایا اور سینے کے پھیلائو سے نکلتے ٹھٹھے نے اس کے قدموں کو زنجیر کیا۔

    کیوں چھوڑ دیا اس کو، لے جاتے اورکچھ دنوں کا مہمان بنا ڈالتے۔

    بل بہادر نے اسے دیکھا اور مسکراتے جواب دئیے بناہی، اس کے گھوڑے کی لگام پکڑی اور مختار کے ساتھ اصطبل کی جانب قدم مارتا ہوا چل پڑا۔۔۔!

    رات بھر خواب میں گھوڑے کی راس پکڑے شیلا کا سوال امنڈتا رہا اور ساتھ ہی مختار کے قزاقی گیت کی گنگناہٹ کے بیچ سے اس کی شوخی بھری مسکراہٹ آنکھوں میں اترتی، اور اس کے سوال کی انگلیاں چھیڑتی، گدگدی کرتی، شیلا کا گھوڑے پر سوار سراپا روبرو کرتے کداتے گھوڑے پر سے جھک کر اسے اٹھاتے بغل گیر کرتے چومتے پوچھتی کیا مجھے بھی تم میری طرح اٹھا سکتے ہو؟

    اور وہ کلاوے سے نکلتے، اس کے بھاری ہونے کا ورد اس کے دوڑتے دور ہوتے قدموں کے سنگ، گنبد چرخ کو اپنے آہنگ سے بھرتا رہا اور وہ گھوڑے کو دلکی چلاتے اس کی تعاقب میں کہ؟

    اس کی آنکھ کھل گئی صبح صادق کا دودھیا نور اور تازہ ہوا کی گنگناہٹ میں انگڑائی لیتے مسکرا اٹھا اور جلدی سے تیار ہو کر اصطبل پہنچا تو باقی لوگ بھی جمع ہو رہے تھے

    مگر اس کا گھوڑا غائب تھا۔ اس نے حیرت سے مختار کو دیکھتے پوچھا تو اس کا چہرہ کھل اٹھا اور باقی کارندوں کو پکے گڑ مٹھ بانٹتا اور اس کی تیز مٹھاس سے سب نہال ہوئے ان کے قہقہوں سے گونجا تو گرائونڈ سے اس کے گھوڑے کی ہنہناہٹ سنائی دی، وہ تیزی سے باہر لپکا تو شیلا اس کی لگام پکڑے کھڑی تھی۔ لگام اس کے ہاتھوں سے لیتے رکاب میں پاؤں رکھا ہی تھا کہ وہ ہنسی۔۔۔!

    تو کیا تم مجھے اپنی گود میں بھر کر گراونڈ کے چکر نہیں کھلائوگے آج۔۔۔؟

    البیلی لگاوٹ رکاب سے پاؤں کھینچتی، گرائونڈ پر جمے رہنے پر مجبور کرتی آواز کی مٹھاس، جس کے پکے، ٹپکتے رس سے ایک عجیب سے نشے سے آشنائی اور دونوں آنکھیں یکدم بند ہوگئیں۔ اس نے سارے گھوڑوں کو بند پلکوں کے بیچ پھیلے گرائونڈ کا لمبا چکر کاٹتے دیکھا، پٹ سے آنکھیں کھل گئیں اور حجاب کا مہین آنچل الٹ گیا۔۔۔!

    گرائونڈ ہی نہیں، میں تمہیں کہیں اور بھی لے جاؤں تو؟

    تو کیا۔۔۔؟

    تم لے جانے کی حامی تو بھرو۔۔۔!

    تمہیں مجھ سے ڈر نہیں لگتا، میں تمہیں لے گیا تو پورا فوجی یونٹ تمہاری تلاش میں میرے پیچھے لگ جائےگا، تاکہ وہ اغوا کا نام دے کر، میرے باپ دادا کی طرح میرا بھی لہو نچوڑ سکیں۔

    اتنی کس کی مجال، میں اپنی مرضی سے تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔

    مگر کوئی نہ مانے تو۔۔۔؟

    تومیں بھی تمہارے پیچھے، تمہارے ہی قدموں پر پاؤں رکھتےآؤں گی۔۔۔!

    مختار نے پیچھے سے اس کے کندھے کو تھپتھپایا اور اک تہہ کیا ہوا نقشے کھولتے، انگلی میرٹھ پر رکھتے، چہرہ اٹھایا۔

    یہ ٹھیک کہتی ہے، میں تمہارا باپ سمان ہوں نا، میں تمہیں اس کے ساتھ نکل لینے کی اجازت دیتا ہوں۔ اب جلد ہی نکلو، مگر تم دونوں دھیان سے میری بات پر بھی غور کر لینا۔۔۔

    دونوں ہی نے سر اثبات میں ہلاتے، اس کی نقشے پر ٹکی انگلی کے تعاقب میں اپنی آنکھیں اتاریں۔۔۔

    سنگم سے نکلو تو تمہارے سیدھے ہاتھ گنگا میا اور بائیں ہاتھ جمنا، بلا کسی توقف کے اپنے نشان مٹاتے، کسی بھی چھوٹے گھاٹ سے جمنا پار اور پانچ چھ میل کے بعد دوجے گھاٹ سے واپس اور اپنے پر پیچ نشانوں کو ہوا کے سپرد کرتے دلی سے بچنا اگر راہ میں قیام کرنا پڑے تو کسی دیہی سرائے میں اترنا، کھانا بھی دیہی سرائے میں کھانا، مگر شیلا تم مکمل اپنے آپے کو مکمل ڈھانپے رکھنا۔ گنگا جمنا کے بیچوں بیچ متوازی چلتے، کنارے سے دور رہتے ہوئے میرٹھ کی چھائونی کا بھی رخ نہ کرنا، اسی چھائونی سے ساڑھے چار میل پہلے، پکی سڑک سے نیچے کچے راستے پر جنگل کی جانب نکلیں تو دیہات سے جڑا ہوا اک وسیع گھوڑا پال فارم ہے، جس کا منتظم اک ساہوکار ہے جو دلی میں ہی رہتا ہے۔ مگر اس فارم کی دیکھ بھال اور تربیت میرے بڑے ماموں زاد بھائی کے سپرد ہے۔ وہ ازبک ہے اور اس کا نام حمزہ ہے وہ حکیم زادے خاندان سے تعلق رکھتا ہے ساری عمر میرے باپ کے پاس ہی گھوڑوں کی تربیت کی تعلیم پائی ہے وہ بھی میری طرح ہی زار کے فوجی افسروں کی چیرا دستی سے تنگ آکر بھاگ نکلا تھا۔

    بس استاد بس۔۔۔

    میں تمہارے ساتھ سونی پت سے آتے ہوئے اس کے پاس رکا تھا۔ تم نے میری اچھی خاصی پہچان کروا دی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ مجھے دیکھتے ہی پہچان جائےگا۔۔۔!

    ہاں ہاں، بس اس کے پاس ہی پہنچ کر قیام کرنا اور شیلا کے متعلق بتا دینا۔ اس کچے راہ کی اک اور بھی بڑی بھرپور نشانی ہے، کہ تمہیں جمنا پار پانی پت اور سونی پت کی خط کشی کا تو اندازہ ہے، میرے ساتھ دوبار جا چکے ہو۔ اسی سونی پت گھاٹ سے اگر کمان میں تیررکھ کر اسے گنگا کی جانب خط مستقیم میں چھوڑیں تو سیدھا تیر حمزہ کے فارم میں جاگرےگا۔ اسی فارم میں دو چار دن رکنا تا کہ تمہارا گھوڑا تازہ دم ہو جائے اور پھر وہیں سے شیلا کے لیے بھی گھوڑا لے لینا۔ وہ مطلع دیکھ کر تمہیں گھاٹ سے کشتی میں سوار کرا دےگا اور ساتھ ستلج پار کرنے کے لیے ایک گھڑ سوار راہبر بھی ساتھ کر دےگا اور جاتے ہوئے گھوڑے کو تیز مت دوڑانا، بس سیدھی تین تال ہی بجے اور ہاں تم شیلا۔۔۔!

    یہ ٹھیک ہے کہ تم ایک اچھی گھڑ سوار ہو اور گھڑ سواری کے ہی لباس میں آئی ہو مگر تم پر پیروںتک جھولتا جبہ زیب تن رہے گا اور سر پر مڑھی یہ ریشمی کاشمیرا شال، گلے تک ڈھانپے رکھنا۔ اب دونوں کے لیے محفوظ ترین جگہ بیاس ستلج سے پارتخت لہور ہے۔ اب نکل بھی جاؤ، ہاں کچھ جیب میں ہے بھی یا خالی ہے۔۔۔؟

    اور اس نے تیزی سے گھوڑے پر سوار ہوتے ہی اسے اپنی گود میں لیا اور راس کھینچنے سے پہلے جواباً کہا کہ انعام کی ساری رقم موجود ہے، ساتھ ہی شیلا زور سے چلائی۔۔۔!

    اب زندگی اسی کی تو ہے۔ میرے پرس میں جو کچھ ہے اسی کا ہے۔۔۔

    اور دونوں نے الوداع کہتے ہاتھ ہلایا ہی تھا کہ گھوڑا سرپٹ نکل پڑا۔

    الٰہ آباد سے نکلے تو راہ کی اک نواحی بستی میں پیٹ پوجا کے لیے پڑائو کیا۔ وہاں سے نکلے تو اگلی رات چلتے چلتے پھر سر پہ آ کھڑی ہوئی مگر دلی کی روشنیاں چھوڑتے اک سرائے میں رات بسر کی اور صبح میرٹھ سے کافی پہلے سونی پت کی باس جمنا کی لہروں سے اٹھتی، نہاتی، ہوائوں نے دے دی۔ یہ اک کچے راستے کا اشارہ تھا۔ اور سیدھے فارم پر جا پہنچا، مگر شیلا گھوڑے پر سوار اور وہ گھوڑے کی لگام پکڑے ہوئے پیدل ہی قدم مارتے ہوئے۔۔۔

    گرد میں اٹے ہونے کے باوجود حمزہ نے پہچانتے ہوئے اسے سینے سے لگاتے، شیلا کو گھوڑے سے اتارنے کے لیے کہا اور اپنے اصطبل کے کارندوں کے سپر د گھوڑا کر دیا۔ مگر چلنے سے انکار کی ہنہناہٹ نے بل بہادر اور شیلا کے اٹھے قدم پکڑ لیے۔ دونوں نے بے ساختہ اسے چومتے پیار کرتے جانے کے لیے کہا مگر اس نے نفی میں سرہلا دیا۔۔۔

    حمزہ خوشی سے کھل اٹھا اور اس کی تھوتھنی پر پیار کرتے، ٹانگوں کو ٹٹولتے، مالش کرتے تھاپڑا دیا تو وہ خوشی سے ہنہناتے اصطبل کی جانب چل پڑا اور وہ شیلا اور بل بہادر کو اپنے گھر لے گیا۔ دونوں ہی کو جدا جدا غسل خانے کی راہ بتاتے صرف اتنا کہا کہ تھوڑ ی دیر رکیں، بل بہادر نے تفتیش بھرا چہار پہلو سوالوں سے اٹا چہرہ فرش سے یکدم بلندکیا تو وہ ہنس پڑا۔

    پریشانی کی کوئی بات نہیں، پہلے تم پانی وانی تو پی لو، اسی دوران غسل خانوں میں تم دونوں کے کپڑے لگوا دئیے جائیں گے۔۔۔!

    یعنی۔۔۔؟

    ماپ کے بغیر۔۔۔؟

    نہیں۔۔۔!

    مختلف فرنگی مہمانوں کے لیے مہمان خانے میں ہر ناپ کے نئے کپڑے موجود ہیں۔ جو ابھی استعمال نہیں کئے گئے۔۔۔!

    تو کیا عورتوں کے بھی۔۔۔؟

    ہاں ہاں بھائی، عورتوں کے بھی!

    فرنگی تفریح کے لیے آئیں گے تو، بغیر اپنے خانوادہ کے آئیں گے گیا؟

    اتنی باتوں کے سوال جواب سنتے ہی تشویش پھر ابھری۔۔۔؟

    اگر ہمارے تعاقب میں کوئی آ نکلا تو۔۔۔؟

    ارے یار پریشان کیوں ہوتا ہے۔ یہ میرا گھر ہے مہمان خانہ نہیں۔ یہاں کی اگر تلاشی بھی ہو تو کوئی بات نہیں، بہت سے پنہاں خانے موجود ہیں، جس کی ساہوکار تک کو خبر نہیں اور یہاں کے سارے کارندے حلق پر چھری پھروالیں گے مگر میرے اشارے کے بغیر ایک لفظ نہیں اگلیں گے۔ کیا مختار نے تمہاری ایسی ہی کمزور تربیت کی ہے۔۔۔؟

    نہیں بالکل بھی نہیں۔ مگر میری عاشقی کی پہلی منزل ہے نا، تو شک شبے کا تصادم تو ہو ہی جاتا ہے۔۔۔!

    اور کارندے کے اشارے پر ہنسا اور شیلا کی طرف چہرہ گھمایا۔۔۔

    بچی تو بل بہادر کی کسی بات پر رنجیدہ نہ ہونا۔

    نہیں انکل جو ہوگا دیکھا جائےگا، اب فرنگی بلا بل بہادر کے گلے سے چمٹ گئی ہے، اتنا مضبوط جوڑ ہے کہ یہ چھڑانا بھی چاہے تو راہ فرار الوپ ہو جائے۔

    اور دونوں اپنے اپنے غسل خانوں میں گھسے اور اپنے بدن کے مساموں تک اتری ہوئی خاک اور پسینے سے بنے لپٹے لیپ کو چھڑاتے، کافی دیر تک جمنا کے پانی سے سرشار ہوتے نیا لبادہ اوڑھے نمودار ہوئے تو وہ پھر کھلکھلا اٹھا اور دونوں کے سر پر شفقت بھرا ہاتھ پھیرتے نہال ہو گیا!

    اور کارندے کے اشارے سے پہلے دوبارہ ہنسا اور شیلا کی طرف چہرہ گھمایا۔۔۔

    پانچویں دن سوار رہبر کرنال، پٹیالہ، نابھہ،فریدکوٹ کا عقب بنظر غائر ٹٹولتے لوٹا اور انہیں گھوڑوں سمیت فیروزپور سے نیچے کشتی پر سوار کرا کر لوٹ گیا۔ لیکن گھوڑوں پر سوارہونے سے پہلے اس نے دو تھیلیاں علیحدہ علیحدہ دونوں کو انکار کے باوجود دیں!

    انکار کی کوئی گنجائش نہیں!

    تم دونوں اپنے چچا کے گھر پہلے پھیرے پر آئے تھے خالی ہاتھ کیسے جا سکتے ہو۔۔۔

    ستلج پر تیرتی بیڑی کنارے لگی تو دونوں ہی کے چہرے کھل اٹھے، وہ سرتا پا محفوظ تھے انکے گھوڑوں کے سم تخت لہور کی جانب روا ہو چکے تھے۔

    پوچھ گچھ کرتے دلال کی معیت میں نخاس کے پیچھے کافی بڑا حویلی نما مکان مل گیا اور جس کے لیے اس کی گتھلی کے تین قیمتی پتھر ہی کافی نکلے۔ دلال کی ہی اعانت سے ملازمین کی فوج اور دونوں گھوڑوں کے لیے تین آزمودہ سائیس اور اوپری صفائی، خرخراہ کرنے کے لیے سائیسوں کے مددگار چار ملازم، پہلی شب بڑی خمار آگیں راوی صادقاں کی خوشبوئوں لبریز ہوائوں نے جی آیا نوں کہا اور اگلے دن پرچہ لگنے پر مہاراجہ دربار میں نگرانوں نے فرنگی مخبر ہونے کے شبہ میں دونوں کو اکٹھا پیش کر دیا۔ جہاں انہوں نے اپنے فرار کا سارا وقوعہ سنا ڈالا اور دونوں باہم ملتجی ہوئے کہ فرنگی انتقام سے بچنے کے لیے اب پناہ گاہ صرف تخت لہو رہے اور ہم اسی کے باسی بن کر رہنا چاہیں گے۔

    مہاراجہ مسکراتے ہوئے اپنے وزیر کی جانب متوجہ ہوتے ہوا۔ بھئی وزیر جی پناہ تو سسرال میں ملےگی نا، مگر اب لڑکے کے کام کاج کا بندوبست بھی ہونا چاہیے۔ سسرال کی بہو بیٹی کو بل بہادر نے حویلی تو لے دی، شکر ہے کہ سرائے میں قدم نہیں رکھے۔ لیکن جب شیلا کی زبانی گھوڑوں کی پہچان اور تربیت کا پتہ لگا تو فورا اس نے اپنے شاہی اصطبل کا نائب مقرر کرتے وقت، ساتھ ہی امتحان بھی لے لیا۔ کچھ عرصے کے بعد جب فرنگی قاصد نے دربار میں شیلا کی موجودگی کے شبے کا اظہار کیا تو رنجیت سنگھ نے مسکراتے ہوئے بتایا بیٹیاں کوئی مفرور یا بکائو مال نہیں ہوتیں۔ شیلا جیکسن تو اب شیلا بل بہادر ہے وہ اس سے بیاہی گئی ہے اور پھر فرانسیسی نژاد جنرل ونتورا کے چرچ پادری نے اس کی تائید بھی کر دی۔

    مأخذ :
    • کتاب : لوح (Pg. 815)
    • Author : ممتاز احمد شیخ
    • مطبع : رہبر پبلشر، اردو بازار، کراچی (2017)
    • اشاعت : Jun-December

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے