Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بدمعاش

مریم عرفان

بدمعاش

مریم عرفان

MORE BYمریم عرفان

    ماں نے میرا نام بدرالدین رکھا تھا جو بعدمیں پیار سے بگڑ کر بدرو ہو گیا۔ ویسے میری ماں کے پیار اور بگاڑمیں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اس کی زندگی میں دو شادیاں اور بےشمار معاشقے موجود ہیں جنہوں نے مجھے ہمیشہ متاثر کیے رکھا۔ پہلی شادی اس نے گھر سے بھاگ کرکی اور تین مہینے بعد طلاق لے کر واپس آ گئی۔ میرا باپ جب بھی اسے پہلے شوہر کے طعنے دے کر ذلیل کرتا، ماں بڑے سکون سے اپنی پنڈلی کھرچتے ہوئے اپنا دائیاں ہاتھ ماتھے اور گال پراوٹ بناکر ہنستی۔ماں کی جوانی ترش انار جیسی رسیلی تھی جو میری زندگی میں داغ بن کر رہ گئی۔ اس کا حسن میلے کپڑوں میں بھی برہنہ تھا۔جب وہ پانی پیتی تو اس کی گوری چٹی گردن کی نیلی رگیں دریا کی لہریں بن جاتیں جیسے وہ کوئی جھرنا ہو جہاں سے پانی سر سر کرتا گزرتا رہتا۔ وہ زیتوں کی شاخ تھی جس پر بلبلیں بیٹھنے کو مچلتی ہیں، جس کی خوشبو سے ہاتھوں کی پوریں مہکتی ہیں لیکن کہ وقت کی بےرحمی نے زیتون کی اس شاخ کو گورکن کے صحن میں لگا دیا۔ میں نے اپنے باپ کو بچے پیدا کرنے اور قبریں بنانے کے علاوہ نشے میں دھت ہی دیکھا۔ وہ صبح سویرے کدال کاندھے پر رکھ کر گھر کے پیچھے قبرستان کو نکل جاتا اور اکثر آدھی رات کو لوٹتا۔ میں نے اسے ہمیشہ دو باتوں پر ماں کو مارتے ہوئے دیکھا۔ جب وہ میرے باپ کی خواہش کے آگے انکار کا پتھر سرکاتی تو ابا وقت اور موسم کا لحاظ کیے بنا ہی اسے مارنے لگ جاتا۔ ہمیشہ میری بڑی بہن سخت جاڑے کی راتوں میں اسے نشئی باپ کے ہاتھ سے چھڑواکر کمرے میں لاتی۔ تب میری ماں کی آنکھیں زمین میں میخوں کی طرح گڑی ہوتی تھیں۔ اگر کبھی وہ ابے سے کہتی کہ گھر میں راشن نہیں ہے، توبس اسی لمحے میری ماں زمین بوس ہو جاتی اور ابا اس پر چڑھ کر گھونسوں کی بارش کر دیتا۔’’بہن چو۔۔۔پیسے منگدی اے۔ بدمعاش عورت۔‘‘ یہ میرے باپ کا پسندیدہ ڈائیلاگ تھا جس کی تکرار اس کی زندگی میں تیزابیت کی طرح بڑھ گئی تھی۔ غربت اور مفلسی کے ان کٹھے ڈکاروں نے میری ماں کو بدمعاش بننے پر مجبور کر دیا تھا۔

    گھر میں غربت دیمک کی طرح لگتی جا رہی تھی اورماں بچے ایسے پیدا کر رہی تھی جیسے صحن کی دیوار پر اپلے قطار در قطارمنہ سجائے کھڑے ہوں۔ پھریہ سارے اپلے میدان میں اکٹھے کرکے لیپ دئیے گئے۔ میری اکلوتی پھوپھی جب بھی اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ میری ماں کے چھلے کٹوانے آتی تو انہی دنوں ہمیں پیٹ بھرکر کھانا نصیب ہوتا۔ جس سویرے پھوپھی مختولاں میرے سامنے زردے کی پلیٹ رکھتی، میں جھٹ پوچھتا: ’’مائی! ہن کی ہویااے۔‘‘ پھوپھی شرماکر چمٹا دکھاتے ہوئے کہتی:’’چل بے شرمیا! زردہ مکا۔‘‘میں دوڑ کر کمرے میں جاتا جہاں ماں اپنے بازوؤں کا تکیہ بناکر سوئی ہوتی اور اس کی چارپائی کے دائیں طرف جھلنگی میں نووارد پڑا اونگھ رہا ہوتا۔ مجھے سوجھے ہوئے منہ والا بچہ، اپنی زبان سے کر تب دکھاتا ہوا زہر لگتا۔ ایسے میں مجھے اپنی ماں پر ترس آنے لگتا۔ کھردرے بان کی چارپائی پر بستر کے بغیرپڑی ہوئی پیازی رنگت کی مالک یہ عورت کٹے ہوئے شلجم کی طرح بےرنگ دکھائی دیتی۔ میں پائینتی پر بیٹھ کراس کی ٹانگیں دبانے لگتا تو ماں ہاتھ کے اشارے سے مجھے پاس بلاکر ماتھا چومتے ہوئے کہتی: ’’شہزادیا۔۔۔تیرے تھیوے تھیوے تے میوے۔‘‘ مجھے اپنے اوپر فخر ہونے لگتا جیسے میں کسی ملکہ کا شہزادہ ہوں کتنے ہی دن اسی سرشاری میں گزر جاتے لیکن ماں کب تک نیک رہتی۔ پھر کچھ دن بعد کوئی نہ کوئی عاشق اس کے ہاتھ میں سامان سے بھرا تھیلا پکڑا جاتا اور وہ صحن میں ہرنی جیسے قلانچیں بھرنے لگتی۔

    میری ماں کو زندگی بھر کوئی بڑا معاشقہ نہ کرنا آیا۔ اگر وہ شہرمیں ہوتی تو ضرور اس کے یارانے بڑے بڑے لوگوں سے ہوتے۔ یہاں ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہ کر وہ بھلا کتنا بڑا ہاتھ مار سکتی تھی۔ زیادہ سے زیادہ سبزی والے سے ہاتھ مس کروانے پرٹنڈے لے لیے، پرچون والے کے سامنے دوپٹہ چھاتی سے نیچے گرانے پر نمک مرچ لے لی، چوہدری کے گھر کی بیٹھک صاف کرنے پر کنک مل گئی۔ گویا ہم اس کے ان بظاہر چھوٹے چھوٹے معاشقوں پر زندگی کا راشن پورا کر رہے تھے۔ ابے کے لیے دیسی ٹھرا لینے کی خاطروہ بےدھڑک سودی گجر کے وہیڑے جاکر اس کی یہ موٹی موٹی پنڈلیاں بھی دبا لیتی تھی۔ ایسے موقعوں پر مجھے اپنی ماں کی بدمعاشی پر فخر ہونے لگتا کہ کیسے شیر کی کچھار میں گھس کر اس کا شکار منہ میں دبوچ لاتی ہے۔ میری ماں واقعی شیرنی تھی جو خود شکار کرکے لاتی اور میرا باپ شیر کی طرح اپنے بڑے بڑے جباڑے کھول کر گوشت کے ٹکڑے چبانے لگتا۔ جب بھی کوئی مرد میری ماں کی زندگی میں داخل ہوتا تو ان دنوں بڑی عجیب سی بو اس کے منہ سے آتی تھی، جیسے اس نے کچی کلیجی اپنے جبڑوں میں چبائی ہو۔ میرادل متلی کھانے لگتا مجھے اپنی ماں کے سرخ ہونٹ خون آلود لگنے لگتے۔ اس کے موتیوں جیسے دانتوں پہ مجھے پیلاہٹ کی تہیں محسوس ہوتیں۔ اس کی ناک کا کیل میرے لیے سولی تھا جسے وہ اداکے ساتھ اپنی انگلی سے چھیڑتی تو لگتا کہ میرے بخیے ادھیڑ رہی ہو۔ اس کا دنداسہ کیا ہوا دہانہ ایک تاریک غاربن گیا جہاں وہ کھڑی ہوکر مردوں کو ہاتھ کے اشارے سے بلاتی تو میں بڑبڑاتا:’’بدمعاش عورت۔‘‘

    ایک دن چھوٹے کو سرشام تاپ چڑھا تو پھر اترنے کا نام ہی نہیں لیا۔ حکیم نے کہاکہ اسے گردن توڑ بخارہے ہسپتال لے جاؤ، قسمت ہوئی تو بچ جائےگا۔ اس دن میں نے اپنی ماں کی آنکھوں میں بےبسی رگوں میں خون کی طرح تیرتے ہوئے دیکھی۔ میرا دل پسیج گیا لیکن اس سے پہلے کہ میں اسے نیک عورت ہونے کا سرٹیفکیٹ دیتا اس کی بدمعاشی نے مجھے اچک کرد بوچ لیا۔ وہ میرا ہاتھ پکڑکر پچھواڑے کے قبرستان گھس گئی۔ اندھیری یخ بستہ رات میں صبح کی بارش نے خاصا کیچڑ کر رکھا تھا۔ ماں نے موم بتی جلائی اور ایک تازہ قبر کے سرہانے بیٹھ گئی۔ وہ دیوانہ وار قبر کی مٹی اپنے ناخنوں سے کھرچتی جاتی تھی۔کوئی ایک گھنٹے کی مشقت کے بعد ہم نے قبر ڈھا دی۔ دن نکلتے ہی ماں اپنے سینے پر دو ہتڑ مارتے ہوئی چوہدری کے وہیڑے جا گھسی۔’’چوہدری جی! وڈی ملکانی صاب کی قبر ڈھے گئی جئے۔‘‘چوہدری میری ماں کی مکاریاں اور ہشیاریاں کیا جانے۔ ماں نے وہاں ایسا واویلا مچایا کہ چوہدری میرے گورکن باپ کوگالیاں دیتا ہوا سرپٹ دوڑا۔ میری ماں کے ہاتھ پر قبر کی مٹی کے لیے پیسے رکھتے ہوئے اس کی آنکھوں میں ممنونیت کے آنسو تھے۔ ماں نے سب سے پہلے چھوٹے کے لیے دوالی اور ساری رات روتے ہوئے دعائیں مانگتی رہی کہ مولا! مجھے معاف کر دے۔ میں چارپائی پر غصے سے کروٹیں بدلتا رہا اور آسمان کی طرف انگلی اٹھاکر کہتا: ’’ناں مولا! ناں۔۔۔ایس بدمعاش نوں نابخشیں۔‘‘

    میرے اندر میرا باپ پیدا ہو چکا تھا جو ہر وقت اس پر نظر رکھے ہوئے تھا۔ ماں میرے روٹھے ہوئے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لے کر چومتی اور میں آخ تھو کہتا ہوا سینے پر ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جاتا۔ پھر وہ اپنے نالے سے بندھی گتھلی میں ہاتھ ڈال کر چینی والی گولیاں نکالتی اور میرالالچ کچھ دیر کے لیے آنکھیں بند کر لیتا۔ گولیوں کی مٹھاس منہ میں گھل کر ختم ہو جاتی اور میں نیند میں جاگنے والے شیرخوار کی طرح بلکنے لگتا، یہاں تک کہ اسے غصے سے پیٹ دیتا۔ میری چھوٹی چھوٹی مکیاں ایسے ہی تھیں جیسے پرات میں گندھے ہوئے آٹے کو دو چھوٹے ہاتھ کچوکے لگا رہے ہوں۔ آٹے سے بھری پرات پیار سے دیکھتے ہوئے کہتی: ’’شوہدیا۔‘‘اور کبھی بولتی:’’چل بدمعاش۔‘‘میں غیرت مند آدمی بننے کے چکر میں تھا اسی لیے میں نے محلے میں کن سوئیاں لینا شروع کر دیں۔میں دل سے چاہتا تھا کہ کوئی میری ماں کی کردار کشی کرے اور میں اسے چھریوں کے وارکرکے ٹھکانے لگا دوں۔ کند چھری اس کی گوری چٹی گردن پر چلاؤں، وہ مرغ بسمل کی طرح تڑپے اور میں اسے بڑے سے ڈرم میں تڑپنے کے لیے پھینک دوں۔ میں نیتو قصائی کی طرح بےسدھ مرغی کو ڈرم سے نکال کر اس کی بوٹیاں بناتا اور اپنی ڈب کھڈبی پتیلی میں ڈال کر بھون دیتا۔ میرے دماغ میں ایسی ہی واہیات باتیں پکتی رہتیں اورمیں ہنڈیا سے اٹھنے والے دھوئیں کی طرح خود کو سینکتا رہتا۔

    مجھے اپنے باپ سے بھی خاص طرح کی نفرت تھی، شاید اس لیے کہ اس کی بےروزگاری اور نشے نے میری ماں کو آوارہ مزاج بنا دیا تھا۔ ابا ہمیں دنیا میں پیدا کرنے ہی آیا تھا، نشے کے روگ نے اس کی جان لے لی اور پھر قبرستان کا گورکن میرا بڑا بھائی بن گیا۔ میں سب کوباری باری اپنی لامحدود نفرت کے پھٹے پر غباروں کی طرح لگاکر لمبی ناک والی بندوق سے پھاڑتا رہا۔ مجھے ماں کی مجبوریاں رنگ رلیاں لگتی تھیں، اس کا بس نہیں چلتا تھا کہ قبرستان میں آئے جنازے کو روک کرمردے کا کفن اتروائے اور پھر رنگوا کے ہمیں پہنا دے۔ ہماری ضرورتیں اس کے لیے آسمان پراڑنے والی پتنگوں کی طرح تھیں جو کٹ کٹ کر نیچے گرتیں اور وہ انھیں لپک کر اٹھا لیتی۔ میں سال میں بس دو مرتبہ گھر کا چکر لگاتا تھا اور دور بیٹھ کر سوائے اندازے لگانے اور کڑھنے کے میرے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔

    میں شہر آکر مزدوری کرنے لگا، میرے ساتھ کے لڑکے اپنی ماؤں کے ہاتھ سے بنے ساگ مزے لے کر کھاتے اور میرے منہ میں کڑوی جڑی بوٹیوں کی کسیل گھلنے لگتی۔ پھر اس کڑواہٹ سے نکلنے کے لیے میں کوٹھوں پر جانے لگا، وہاں بھی بہت سی عورتیں تھیں۔ چھوٹی، بڑی، موٹی، پتلی، خوش شکل، بدشکل، تیزطرار اور معصوم بھی لیکن میری ماں جیسی تو کوئی نہیں تھی۔ یہاں میرے اندازے پکے ہونے لگتے کہ اگر نیناں کے کوٹھے پر میری ماں ہوتی تو دونوں میں سے جیت کس کا مقدر بنتی۔ان کسبیوں کے گاہک تو ان پر پیسہ پھینکتے تھے جبکہ میری ماں اپنے عاشقوں سے سودے لیتی تھی۔ یہ بھی میری ماں جیسی ہی عورتیں تھیں، ان کے جسموں کے ساتھ بھی بچے لٹکے ہوئے تھے۔ یہ بھوکے بچے اپنی کینگروماؤں کی تھیلیوں میں سے جھانکتے رہتے اور ان کی مائیں مردوں کے جنگل میں گھس کر ان کے لیے نوالے اکٹھے کرتیں۔ کبھی تو جی چاہتا ان تمام عورتوں کو بورے میں بند کرکے کسی ویران جزیرے میں پھینک آؤں۔ بہت کوشش کی کہ کبھی میں بھی تماش بین بن کے اپنی ماں جیسی کسی عورت کو چوم لوں اور پھر دیکھوں کہ وہ بدلے میں مجھ سے کیا مانگتی ہے۔

    وہ میری ماں کی زندگی کے آخری کچھ مہینے تھے،نصیبوں جلی مجھے ملنے کے لیے بے چین تھی۔ کمرے سے مسلسل کھانسنے کی آواز آ رہی تھی۔ میں نے اندر جھانکا تو لگا کوئی حور سفید چولا پہنے چارپائی پر بیٹھی ہو۔ ماں ہمیشہ کی طرح کھردرے بان کی چارپائی پر بستر کے بغیر لیٹی تھی، مجھے دیکھتے ہی اٹھ کر بیٹھ گئی اور میرامنہ چومنے لگی۔ اس کے سر پر چاندی کے تاروں کا جال بچھ چکا تھا۔ وہ مجھے دعائیں دینے لگی: ’’بدرو۔۔۔وے بدرو۔۔۔تیرے لکھ محتاج ہوون۔ وے میرے شہری باؤ، تینوں رب دیاں رکھاں۔‘‘ میں نے تنگ پڑتے ہوئے کہا: ’’چل بس کرمائی۔‘‘

    ’’کیا گل اے شوہدیا! ماں کولوں ایڈھا تنگ ایں۔‘‘ میرا جی چاہا ابھی کے ابھی بچپن سے جوانی تک کے غصے کا سارا بارود سیون ایم ایم میں بھرکر ماں کے سینے میں اتار دوں۔ پتہ نہیں کیوں میں ماں کے سامنے میں دل کی زبان سے اظہار کا کام لینے لگتا تھا۔ وہ منہ سے سوال پوچھتی اور میں دل ہی دل میں جواب دیتا چلا جاتا، کچھ دیر چپ رہنے کے بعد وہ بولی: ’’اپنی ماں نوں بدمعاش سمجھ داں ایں۔‘‘جیسے کسی زہریلے بچھونے مجھے شلوارکے اندرہی کاٹ لیا ہو۔ میں چارپائی کے پائے پر بیٹھا بیٹھا اپنی ٹانگ مسلنے لگا، زہر ناف تک چڑھنے ہی والا تھا کہ میں جان چھڑاتے ہوئے باہر کو بھاگا۔ اگلے دو دن میں ماں کے پاس رہا، میں نے محسوس کیا کہ عجیب سی نامعلوم سی خاموشی اس کے اندر اتر گئی تھی۔ مجھے رخصت کرتے ہوئے بھی اس نے بس ایک ہی جملہ بولا: ’’شاھلا۔ تیرے لکھ محتاج۔‘‘

    میں شہر آکر سب بھول گیا کہ دو ماہ بعد ماں کے مرنے کی خبر مل گئی۔ میں بوجھل دل کے ساتھ اس کے جنازے کو کندھا دینے گیا۔ ماں کے بغیر گھر ویران لگ رہا تھا میں اس کے کمرے میں پڑی ہر چیز کو ٹٹولنے لگا، میرے اندر کاشکی مرد ابھی زندہ تھا شاید اسی لیے میں نے کمرے میں پڑا صندوق الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔ وہ صندوق کم اور ماضی کی یادوں کی پٹاری زیادہ تھا، سب بہن بھائیوں کی کوئی نہ کوئی چیزیا کپڑا اس میں پڑا تھا۔ اچانک میری نظر ایک تعویز پر پڑی۔ اوہ! یہ تو وہی تعویزہے، مجھے جیسے یاد آ گیا کہ ایک دن گھر میں کسی میت کے ختم کی روٹی آئی۔ماں جانتی تھی کہ مجھے دیسی مرغ کتنا پسند ہے۔ اس نے مجھے سب سے چھپاکر دو بوٹیاں کھلا دیں۔ بس یہ کھانے کی دیر تھی کہ میرے اندر جوار بھاٹا سلگنے لگا۔ شدت کے پیٹ درد کے بعد مجھے پیچش لگ گئے۔ ماں پریشان ہو گئی ،کتنے ہی دن وہ مجھے حکیموں اور عطائیوں کے پاس لے کر جاتی رہی لیکن میری پیٹھ پھوڑا بن چکی تھی۔ جاڑے کی راتوں میں وہ مجھے اپنے پیٹ پر سلاتی میں کتنی بارپیشاب کرتا وہ کتنے ہی سوکھے کپڑے میرے نیچے بچھاکر خود گیلی رہتی۔ پھر وہ مجھے درگاہ لے کر جانے لگی وہاں کسی نے اسے میری پیٹھ پھٹکری کے پانی سے دھلانے کے لیے کہا۔ اس کے پاس پھٹکری لینے کے بھی پیسے نہیں تھے اور پھر وہ یکدم بدمعاش بن گئی۔ ساجے نے ماں کو میری بیماری کا توڑ کرنے کے لیے تعویز بھی بنوا کر دینے کا وعدہ کیا۔ پھر اگلے دن اس نے اپنا ایک ہاتھ میری ماں کے نیفے میں ڈالا اور اس کے دوسرے ہاتھ میں پھٹکری تھما دی۔ماں کی اس بدمعاشی نے میری جان بچالی۔ تعویز میرے ہاتھ میں جھول رہا تھا، میں بدرالدین عرف بدرو، جس کے آج لکھ محتاج ہیں، اس بدمعاش عورت کا مقروض ہوں جس کی بدمعاشی کا میرے پاس کوئی گواہ ہی موجود نہیں ہے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے