کہانی کی کہانی
’’یہ باغ کی دیکھ بھال کرنے والے ایک مالی کی کہانی ہے، جو اس باغ کے ہر پیڑ پودے سے اپنے بچوں کی طرح محبت کرتا ہے۔ وہ دل جان سے ان کی دیکھ بھال کرتا ہے اور اسی کام میں اپنی پوری زندگی گزار دیتا ہے۔ مالی کے بڑھاپے میں جب باغ کا مالک باغ کو کسی نئے آدمی کو بیچ دیتا ہے تو وہ مالی نئے مالک سے درخواست کرتا ہے کہ مرنے کے بعد وہ اس کی قبر بھی اسی باغ میں بنوا دے۔‘‘
ندی کے کنارے ایک چھوٹا سا باغ تھا۔
باغ کی سطح ذرا نیچی تھی اور کبھی کبھی برسات میں ندی کا پانی باغ کے نشیبی حصوں میں پہنچ جاتا تھا۔ پاس ہی سے سڑک گزرتی تھی،جہاں سے باغ کامنظر قابل دید تھا۔ راہ گیر جاتے جاتے ضرور نظر بھر کر پھولوں کے تختے کو دیکھ لیتے اور بچے ندی کے پل پر بیٹھ کر پھلوں پر للچائی ہوئی نظریں ڈالتے۔
ندی آہستہ آہستہ بہتی اور درختوں کاسایہ اس پر لرزتا ہوا معلوم ہوتا۔ ہوا چل کر ٹہنیوں کو ہلاتی اور پھول رقص کرنے لگتے۔ انسان کا تھکا ہوادماغ دن بھر کے کام کاج کے بعد فطرت کی ان دلکشیوں میں کس قدر لطف پاتا ہے۔
اس باغ کامالک جب دن بھر کی محنت کے بعد اس باغ میں آتا ہے تو اس کی مسرت کی کوئی انتہا نہ ہوتی۔
لیکن ایک ہستی ایسی بھی تھی، جس کو اس باغ سے بے پایاں محبت تھی۔ وہ اس باغ کا مالی تھا۔۔۔ اس باغ کا مالی جس نے اپنا خون پسینہ ایک کرکے ان پودوں کو پالا پوسا تھا۔ گرمیوں میں ان کو پانی دیا تھا، دن دن بھر ان پودوں کی تراش خراش کی تھی اور ان کی زندگی اور ترقی کا خیال اس کا نصب العین بن گیا تھا۔
وہ اکیلا تھا۔ اس کا کوئی رشتہ دار نہ تھا، شاید کوئی دور کا عزیز ہو۔ مگر ایسا تو کوئی نہ تھا جس کی کفالت اس کے ذمہ ہو۔ اس لیے بھی باغ اس کے لیے دنیا تھا۔ اس کی ساری محبت ان پودوں میں محصور ہو گئی تھی۔ وہ ان کو پروان چڑھتے دیکھ کر خوش ہوتا، جیسے کوئی اپنے بچوں کو پروان چڑھتے دیکھ کر خوش ہو۔ تنخواہ اس کی تن پوشی کے لیے کافی تھی اور اسے لے دے کے اگر کوئی فکر تھی تو صرف باغ کی۔
وہ باغ کی خدمت اس لیے نہیں کرتا تھا کہ یہ اس کا فرض تھا۔ غالباً اس نے اپنے فرض کو کبھی محسوس نہیں کیا۔ وہ پودوں کو اپنے بچے سمجھتا اور ان سے محبت کرتا۔ جیسے کوئی باپ اپنے بچے سےمحبت کرے۔
جب ہوا پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو کو اڑا کر پریشان کرتی تو مست ہو جاتا۔ اس کے دل میں محبت کا پاکیزہ ترین جذبہ تھا اور یہ اسی محبت کا اثر تھا کہ وہ ان پھولوں کی خوشبو میں ایک خاص فرحت اور لذت پاتا۔ وہ اکثر محبت بھری نظروں سے ندی کو تکا کرتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ندی اس کے باغ کے پاس سے بہتی تھی اور اس کے درختوں کو پانی دیتی تھی۔
اور اس طرح اس کی زندگی، مسرت، کیف اور لطف سے لبریز تھی۔ یہ سب محبت کا اثر تھا اور محبت جو ہردل میں کم وبیش موجود رہتی ہے، اس کے دل میں بھی تھی اور اسے دنیا و مافیہا سے بے پروا بنا چکی تھی۔
اس کا مالک جب باغ میں آتا اور باغ کی تروتازگی کو دیکھتا تو ٹھنڈی سانس بھر کر کہتا، ’’یہ سب مالی کی محبت کا اثر ہے۔ ہر ہر پھول سے مالی کی محبت کی خوشبو آ رہی ہے۔‘‘
شاید وہ اپنی محبت کو یاد کرنے لگتا، جو اس کے جوانی کے زمانے کی بہترین یادگار تھی۔
(۲)
دن گزرتے گئے۔ مالی بڈھا ہوتا گیا اور درخت تناور ہوتے گئے۔
اس کے مالک نے باغیچہ دوسرے کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ باغبان اب بہت بڈھا ہوگیا تھا، درختوں کو اب بڈھے کی خدمات کا احتیاج نہ تھا۔ بڈھے کے ہاتھ پیر، اب درختوں کی خدمت کر بھی نہ سکتے تھے۔ حالاں کہ اس کی دلی محبت بڑھتی جا رہی تھی۔ اس کی حالت ان پرندوں کی سی تھی جو درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھ کر اور پھولوں سے مخاطب ہوکر نغمہ سرائی کرتے۔ بڈھا مالی بہت فرطِ مسرت سے کوئی دیہاتی راگ گانے لگتا۔
ایک دن نئے آقا نے بڈھے مالی کو بلاکر کہا، ’’یہ لو اپنی تنخواہ۔ اب تم بڈھے ہو گئے باغ تم سنبھال نہیں سکتے، جاؤ اور گھر بیٹھ کر اللہ اللہ کرو۔ اب تم کام نہیں کر سکتے اور یہ خدا کو یاد کرنے کازمانہ ہے اور یہ لو انعام۔‘‘
بڈھے مالی نے ہاتھ جوڑ کر کہا، ’’حضور میری ایک تمنا پوری کر دیں گے؟‘‘
’’کیا؟‘‘
’’مرنے کے بعد میری قبر پر اس باغ کا ایک پھول ڈال دیجیےگا؟‘‘
یہ کہہ کر کہنہ سال باغبان نے ایک سرد آہ بھری اور لاٹھی ٹیکتا ہوا باہر نکل گیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.