امرتسر ریلوے اسٹیشن کا پلیٹ فارم نمبر ایک مسافروں سے بھرا پڑا تھا۔ لاہور کی جانب جانے والی گاڑی جسے دوپہر ایک بجے آنا تھا، ایک گھنٹہ سے زیادہ لیٹ تھی اور ابھی اس کے آنے میں آدھ گھنٹہ دیر ہے۔ مقامی کالج کے دو جواں سال اساتذہ جو لاہور جانے والے تھے گاڑی کے انتظار میں پلیٹ فارم پر ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ منتظر مسافروں میں چند نوجوان عورتیں بھی تھیں جو کم و بیش تنہا بنچوں یا اپنے سوٹ کیسوں پر بیٹھی تھیں یا پھر یوں ہی کھڑی تھیں کبھی کبھی یہ لوگ انہیں کنکھیوں سے دیکھ لیتے تھے۔ عورتیں بھی گاڑیوں یا اجنبی جگہوں میں اپنے معاملے میں قدرے بےجھجک ہو جاتی ہیں۔ نوجوان لوگ ایسے موقعوں پر عوام الناس کے درمیان دل پھینک ہو جاتے ہیں کیونکہ ریل کے سفر میں انہیں جاننے والا کوئی نہیں ہوتا اور یہ باتیں نہ تو ان دو نوجوانوں کے لیے غلط تھیں اور نہ ان عورتوں کے لیے قابل اعتراض۔
پلیٹ فارم پر گھومتے ہوئے چند لمحہ بعد ان کی آنکھیں پچیس سالہ یا اس سے کم کی ایک خاتون پر تھم گئیں، وہ قدرے پست قد، بھرا بھرا جسم رکھتی تھی لیکن اس کے چہرے میں جاذبیت تھی۔ دو پولس والے اس کے قریب کھڑے تھے غالباً وہ ان کو اپنی نگرانی میں کہیں لے جا رہے تھے۔
یہ عورت کسی اغوا یا فرار کے مقدمہ کا مرکزی کردار نہیں ہو سکتی، ایک استاد نے دوسرے سے کہا۔ دیکھنے میں وہ بدچلن نہیں لگتی ہے وہ ایک عزت دار عورت معلوم ہوتی ہے۔
شاید وہ کسی پولس آفیسر کی بیوی ہو۔ دوسرے نے کہا اور یہ پولس والے اسے گاڑی میں سوار کرانے آئے ہوں لیکن اپنے برتاؤ میں وہ افسروں کی بیویوں کی طرح نہیں لگتی اور نہ ہی وہ ان پولس والوں کے ساتھ اکڑ کے ساتھ پیش آ رہی ہے۔ وہ کسی پولس انسپکٹر کی بیوی نہیں کیونکہ بے حد سادہ لباس پہنے ہوئی ہے۔
پہلے نے دوسرے کی رائے سے اتفاق کیا اور پھر دونوں نے پلیٹ فارم کے کئی چکر لگائے۔
یہ عورت اپنے حلیے سے دیہاتی نہیں لگتی۔ وہ کچھ دیہاتی کچھ شہری عورت دکھائی پڑتی ہے۔ پہلے نے دوبارہ کہا۔
کیا اس سے شادی کروگے؟ دوسرا مسکرایا اور یہ سوال اس کے منہ پر دے مارا۔
اس سے زیادہ مبارک موقع کب آئےگا؟ پہلے نے جواب دیا اور دونوں مسکرا اٹھے۔ یہ دانشور اگرچہ جوان تھے، پر ایسے موقعوں کا تصور کرتے رہتے تھے جو ان کی غیرآسودہ زندگی میں خوشگوار تبدیلی لا سکے۔
میں کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایک خوش نصیب آدمی ہوگا جس کی یہ بیوی ہے۔ دوسرے نے مزید کہا۔ یہ قیاس کرنا آسان تھا کہ وہ شادی شدہ بھی ہے اور ماں بھی۔ دوسرے ہی لمحہ انہوں نے اس کے دو سالہ بیٹے کو دیکھا۔ وہ لڑکا تندرست اور چلبلا تھا اور اس کی شکل ماں سے ملتی تھی۔
’’ایسی عورتوں کی شادی عام طور پر بےجوڑ ہوتی ہے۔‘‘ پہلے نے اس یقین کے ساتھ جواب دیا جیسے صرف وہ خود ہی اس کے لیے مناسب تھا۔
’’بچہ اپنی ماں کی طرح ہے۔‘‘
’’بےشک، وہ اپنی ماں کا بچہ ہے۔‘‘
’’یار! اس کے بارے میں مزید پتہ کرنا چاہیے، کسی عورت کے بارے میں اتنا آدرش نظریہ نہیں رکھنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ فرار کے ڈرامے کی ہیروئن ہو۔‘‘ پہلے نے احتجاجاً کہا۔
’’نہیں، وہ ایسی نہیں ہو سکتی۔ اس کے باوجود یہ پولس والے اس کے ساتھ کیوں ہیں۔‘‘
انہیں سامنے سے آتے ہوئے ایک آدمی کو دیکھ کر اطمینان ہوا۔ یہ آدمی بہت باتونی، ادھر ادھر لگانے والا تھا اور اس کے بارے میں انہیں اس کا اندازہ تھا کہ وہ اس کے بارے میں سب کچھ پتہ لگائےگا۔
’’مولوی صاحب کیا آپ بتائیں گے کہ یہ عورت کون ہے اور اس کے ساتھ کیا معاملہ ہے؟‘‘ مولوی صاحب بھی کچھ کم مشتاق نہ تھے۔ انہوں نے قبل ہی اس کی جانچ کر لی تھی۔ مولوی صاحب نے فوراً ہی جواب دیا، ’’وہ ایک کانگریسی کارکن ہے جناب، وہ اسے گرداس پور سے لاہور لے جا رہے ہیں۔ اسے کل عدالت میں پیش کیا جائےگا۔‘‘
نوجوانوں میں سے ایک نے بےصبری سے پوچھا،‘‘ اس کا نام کیا ہے؟‘‘
’’کنتی جناب۔‘‘ مولوی صاحب کو پوری معلومات تھی۔ کنتی، دوسرا ایک لمحہ حافظہ پر زور دیتے ہی کہہ اٹھا، ’’کنتی ایک انقلابی کارکن ہے جو پچھلے دنوں اپنے شوہر اور دوسرے کارکنان کے ساتھ انقلابی لٹریچر کے ساتھ گرفتار کی گئی تھی۔ وہ اسی مقدمہ کے سلسلہ میں گرداس پور سے لے جائی جا رہی ہوگی۔‘‘
’’ہاں جناب۔‘‘ مولوی صاحب نے توثیق کر دی۔
یہ دو اور مولوی صاحب ہی صرف اس کی جستجو میں سرگرم نہ تھے بلکہ دوسروں کو بھی اس کے بارے میں جاننے کا اشتیاق تھا اور اس کے بارے میں طرح طرح کی باتیں سن چکے تھے۔ ایک کانگریسی کارکن ہونے کی بدولت دیکھنے والوں کی نگاہ میں وہ زیادہ خوبصورت دکھائی دینے لگی اور یہ دوہرا تاثر ان کے دل و دماغ پر چھا گیا تھا۔
پلک جھپکتے ہی پورا پلیٹ فارم ایک بگولے کی زد میں آ گیا۔ اس بگولے کی مرکزی قوت بے پناہ تھی! پہلے تو صرف پولس والے، ہمارے دو دانشور اور مولوی صاحب ہی اس بگولے کے عناصر ترکیبی تھے پھر کچھ کھدر پوش بھی اس کی جانب کھنچ آئے لیکن اب پلیٹ فارم کے ہر طرف سے لوگ اس کی طرف دوڑ پڑے۔ چند منٹوں میں بیس سے پچیس لوگ کنتی کے چاروں طرف جمع ہو گئے۔ دوسرے پانچ منٹ میں یہ بڑھ کر چالیس پچاس ہو گئے جن میں پانچ چھ عورتیں بھی تھیں۔ اس بھیڑ کا کوئی بھی شخص اب تک کنتی سے مخاطب نہ ہوا تھا۔ سب آپس میں سوال و جواب کر رہے تھے۔ پھر کچھ آگے گئے اور پولیس والوں سے باتیں کرنے لگے، کنتی اس ہجوم کے درمیان چپ چاپ کھڑی تھی۔
کون کہہ سکتا تھا کہ اس کے ذہن میں کون سے خیالات ابھر رہے تھے۔ اس کے چہرے پر کچھ ایسے اثرات تھے جیسے سنجیدگی اور خوبصورتی دونوں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہوں۔ کیا اسے یہ اندازہ ہوا ہوگا کہ یہ بھیڑ اس کی خوبصورتی کی وجہ سے یکجا ہوئی تھی لیکن خوبصورت عورتیں تو پلیٹ فارم پر نظر آتی ہی رہتی ہیں۔ اگر کوئی خوبصورت عورت کسی گوشے میں نظر آبھی جائے تو دو چار نوجوان اس کے گرد منڈلاتے ہوئے اور کنکھیوں سے دیکھتے ہوئے نظر آ ہی جاتے ہیں۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی آگے بڑھ کر اپنی قسمت آزمانے کے لیے اسے گھورنے لگے۔ ایسے معاملات میں دوسری جانب سے کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہوتی۔ زیادہ تر تو شرم سے اپنی نگاہیں جھکا لیتی ہیں اور اگر ایک سے زیادہ عورتیں ہوں تو وہ ایک دوسرے سے آنکھوں آنکھوں میں مسکراتے ہوئے اشاروں میں یہ کہیں گی کہ ان کا رنگ و روپ دیکھنے والوں کو مخمور کر رہا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان کا شوہر ان کے ساتھ ہو اور اگر اس میں حس مزاح نہ ہو تب وہ اور بھی پریشان نظر آنے لگیں گے اور ان کو بھی پریشان کر دیں گے اور اگر شوہر میں حس مزاح ہو تو وہ خود ہنستے ہوئے اس کو یہ بتائےگا کہ دیکھو یہ حضرات تمہارے کس طرح دیوانے ہو رہے ہیں اور اسے پریشان ہونے سے بچا لےگا۔
لیکن کنتی یہ جان چکی تھی کہ اگرچہ وہ خوبصورت تھی پر وہ لوگ جو اس کے چاروں طرف یکجا ہو گئے تھے، وہ اس کے کھلنڈرے پن کی وجہ سے نہیں ہوئے تھے۔ اس لیے اسے کوئی پریشانی نہ تھی۔ یہ صحیح ہے کہ وہ قدرے شرمائی ہوئی تھی لیکن اسی کے ساتھ ساتھ وہ بھیڑ کے ان لوگوں کو اس سنجیدہ انداز سے دیکھ رہی ہو جیسے ایک بہن اپنے بھائی کو یا ایک بیٹی اپنے باپ کو۔ کچھ ہی دیر بعد ایک کھدر پوش ادھیڑ آدمی اس سے گفتگو کرنے لگا جس سے ذہنی تناؤ کچھ کم ہو گیا۔
یہ قیاس کرنا بیکار ہوگا کہ کنتی کاحسن دیکھنے والوں پر کوئی اثر نہیں کر رہا تھا۔ یہاں تک کہ ہمارے یہ دو دوست بھی جو اس کے جسم کے تمام خطوط اور زاویوں سے محظوظ ہو رہے تھے۔
’’بس ذرا کمر موٹی ہے۔‘‘ ایک نے دوسرے سے کہا، ’’ورنہ اس میں کوئی کمی نہیں۔‘‘
’’یار! کمر تو ایک دوسال ہی تک ٹھیک رہتی ہے۔‘‘ دوسرے نے جواب دیا، ’’اور پھر قدرت کے قانون کے مطابق موٹی ہونے لگتی ہے۔ یہ کوئی عیب نہیں ہے۔ جب تک کہ بالکل بےڈول نہ ہو جائے۔‘‘
اب عورتیں الگ ہوکر کنتی سے باتیں کرنے لگی تھیں۔ ان کی گفتگو کا موضوع کیا ہو سکتا تھا؟ کسی نے پوچھا ہوگا۔
’’بہن تم کہاں سے آ رہی ہو؟‘‘
کنتی نے جواب دیا ہوگا، ’’گرداس پور سے۔‘‘
’’تم کس مقدمے میں پھنس گئی ہو؟‘‘
’’بس یہی کہ کسانوں میں سماجی کام کرتی تھی۔‘‘
’’یہ ظالم حکومت عورتوں تک کو نہیں چھوڑتی۔‘‘ ایک بوڑھی عورت نے کہا ہوگا
’’لیکن بیٹی تم ایسے معاملوں میں کیوں الجھتی ہو۔ یہ مردوں کے جھگڑے ہیں اور ان کے لیے چھوڑ دینا چاہیے۔ ذرا دیکھو اگر تم جیل بھیج دی گئیں تو تمہارے بچے کا کیا ہوگا۔‘‘ شاید کنتی اس مشورے پر مسکرائی ہوگی اور پھر ان میں سے کسی زیادہ بے باک عورت نے کہا ہوگا، ’’مائی یہ بچہ بھی ماں کے ساتھ جیل جائےگا۔ کیا بھگوان کرشن قید خانہ میں پیدا نہیں ہوئے تھے؟ ان سے بہتر کون ہو سکتا ہے۔‘‘
کنتی یقیناً اس پہ بھی مسکرائی ہوگی اور اپنے آپ سے کہا ہوگا کہ بھگوان کرشن کی جیل والی بات بڑی اچھی مثال ہے۔
اس موقع پر ایک جوان نے اتفاقاً مڑ کر دیکھا اور اس کی نگاہ ایک ایسے دیہاتی جوڑے پر پڑی جو بہ آسانی جوانی کے مناظر طے کرچکے تھے۔ ان کے ساتھ دو بچے تھے اور چاروں ایک ناشتہ دان سے کھانا کھا رہے تھے۔ جب وہ عورت بھی کنتی کی بھیڑ میں شامل ہونے کے لیے کھڑی ہوئی تو اس کے گھر والے نے اسے روکا، ’’ارے چھوڑو کیا فائدہ۔‘‘
بس میں ابھی آئی، یہ کہتے ہوئے عورت اپنے شوہر سے ہاتھ چھڑاکر عورتوں کی بھیڑ میں شامل ہو گئی جو اس سے باتیں کر رہی تھیں۔ نوجوان نے اپنے دوست کو اس کی جانب راغب کیا اور دونوں ہی مسکرا اٹھے۔ ان قصباتی بیویوں میں کہیں زیادہ محبت اور تجسس کا مادہ ہوتا ہے۔
دوسرے پلیٹ فارموں سے بھی مرد، عورت آنے لگے، مجموعی طور پر پلیٹ فارم نمبر ایک لوگوں سے کچھ اس طرح خالی ہو گیا تھا مانو یہ جھاڑو سے صاف کر دیا گیا ہو۔ پلیٹ فارم نمبر دو کے آدھے لوگ بھی سمٹ آئے تھے۔ اس طرح یہ کہانی پلیٹ فارم نمبر تین پر جا پہنچی اور وہاں سے بھی تمام نوجوان کنتی کی جانب چل پڑے۔
’’دیکھیں اب اسٹیشن کے ملازمین ادھر کب آتے ہیں۔‘‘ ایک نوجوان نے مسکراکر کہا۔
دوسرے نے فلسفیانہ انداز میں کہا۔ ’’یاں دو قوتوں کا سنگم ہے۔ حسن اور آدرش، دو پیار۔ ایک طرف عورت کی محبت تو دوسری طرف ملک کی۔‘‘
’’یہی وجہ ہے کہ میرا ہمیشہ یہ خیال رہا۔۔۔‘‘ دوسرے نے کہنا شروع ہی کیا تھا جب دونوں کی نگاہ کنتی کے بچے پر پڑی جو اپنی ماں کے گرد جمع بھیڑ کو چیرتا ہوا پلیٹ فارم پر دوڑنے لگا۔ پولس والوں میں سے ایک اسے اپنی ماں کے پاس واپس لانے کے لیے اس کے پیچھے دوڑا۔
’’بڑا چنچل ہے یہ بچہ۔۔۔‘‘ پولس والے کے قریب کھڑے ہوئے کسی نے کہا۔ پولس والے نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ’’بالکل اپنی ماں کی طرح۔۔۔‘‘ اور کچھ دوسرے لوگ بھی مسکرا دیے۔
پولس والے اب بھیڑ سے پریشان ہو گئے تھے۔ شاید کنتی بھی اب اس سے کافی پریشان ہو چکی تھی، بھیڑ سے منتشر ہونے کو کہا گیا۔ گاڑی کا سگنل بھی ہو چکا تھا۔
تماشائی جو پلیٹ فارم نمبر دو اور تین سے آئے تھے دوڑ کر واپس جانے لگے۔۔۔پلیٹ فارم نمبر ایک کے مسافر بھی اپنے سامان کو سنبھالنے کے لیے چل پڑے۔ بےتعلق قصباتی کی بیوی بھی اپنے شوہر کے پاس لوٹ آئی۔ اس کے شوہر اور بچے کھانے میں مشغول تھے ان کو کوئی خلل نہ ہوا۔ ان کے پاس واپس آکر عورت نے بھی دو چار لقمے لیے اور اس طرح کھانا ختم ہو گیا۔
مولوی صاحب کو کہیں جانے کی ضرورت نہ تھی کیونکہ وہ پہلے سے ہی اپنی گٹھری بغل میں دبائے ہوئے تھے۔۔۔نوجوان اساتذہ کے پاس کوئی سامان ہی نہ تھا۔ وہ ذرا سا ایک طرف ہٹ گئے۔
’’اسی وجہ سے میرا عقیدہ رہا ہے کہ قومی اور انقلابی تحریکوں میں عورتوں کی شرکت ضروری ہے۔ اس صورت میں مردوں کے لیے دوہری کشش ہوتی ہے۔ آزادی کے آدرش کے لیے اور عورت کے پیار کے لیے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپی ملکوں میں انقلابی تحریکیں کبھی ناکام نہیں ہوئیں۔ یار، ذرا سوچو کہ لینن نے عمر بھر کی جدوجہد کے دوران کروپسکیا کی رفاقت سے کتنی تقویت حاصل کی ہوگی۔‘‘
چھک چھک کرتی گاڑی آخر پلیٹ فارم پر لگی اور لوگ مناسب جگہ پر قبضہ کر لینے کے لیے ٹوٹ پڑے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.