Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بگلا بھگت

اعظم کریوی

بگلا بھگت

اعظم کریوی

MORE BYاعظم کریوی

    ہری پور کے زمیندار لالہ ہزاری لال کی عمر چالیس سال سے زیادہ ہو چکی تھی مگر وہ اپنے خیال میں خود کو نوجوان ہی سمجھتے تھے۔ لڑکپن میں ان پر سیتلادیوی کی نظر لگ گئی تھی جس سے ان کا چہرہ کچھ خراب ہو گیا تھا۔ مذہبی کاموں میں وہ بہت حصہ لیتے تھے۔ دوسرے تیسرے مہینے وہ ست نرائن کی کتھا بھی کراتے، جس سے لوگ انہیں پارسا اور خداپرست سمجھیں مگر حقیقت میں یہ سب ڈھونگ تھا، فریب تھا۔ ان کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ اور تھا۔

    وہ انسان کے قا لب میں شیطان تھے۔ بوالہوسی ان کا شعار، جھوٹ اور فریب ان کا مشغلہ تھا۔ چیچک سے ان کا چہرہ داغدار تھا پھر بھی ان کو اپنی خوش جمالی پر ناز تھا۔ بالوں میں خضاب اور آنکھوں میں سرمہ لگانا ان کا معمول تھا۔ اندھوں میں کانا راجہ والی مثل ان پر صادق آتی تھی۔ وہ حسن کے رسیا تھے۔ باغ حسن کی نہ جانے کتنی کلیاں شگفتہ ہونے سے پہلے ہی لالہ جی نے توڑ کر پھینک دیں تھیں۔ بچے اپنا کھلونا توڑ کر کچھ دیر رنجیدہ رہتے ہیں لیکن لالہ جی کو کلیوں یا پھولوں کو مسلنے میں ایک خاص لطف حاصل ہوتا تھا۔

    گھر میں کوئی بڑا بوڑھا روکنے ٹوکنے والا نہ تھا۔ دائم المریض بیوی اپنے میکے میں اپنی زندگی کے دن پورے کر رہی تھی۔ گاؤں میں کسی کی مجال نہ تھی کہ لالہ جی کے خلاف کوئی اپنی زبان ہلائے۔ زمیندار کا حکم ہی بادشاہ کا قانون تھا۔ کچھ تو لالہ جی کی دولت اور کچھ ان کی ظاہری خداپرستی ان کی بداعمالیوں کی پردہ دار تھی۔

    شام کے وقت لالہ جی کے دروازہ پر گاؤں کے چند بے فکرے جمع ہو جاتے، جنہیں جھوٹ سچ سے کوئی سروکار نہ تھا۔ لالہ جی کی ہاں میں ہاں ملانا ہی ان کے لیے معراج کمال تھا۔ لالہ جی لال پری کے بھی متوالے تھے، اس کے لیے انہیں کوئی خاص تکلیف نہیں اٹھانی پڑتی تھی، کیونکہ گھر ہی میں مہوہ کی شراب کھچوائی جاتی تھی۔ پولیس کا کوئی خوف نہ تھا۔ حلقہ کے داروغہ کو لالہ جی نے ملا رکھا تھا۔ صرف داروغہ جی ہی کی نہیں بلکہ ادنی کانسٹبلوں کے بھی پیٹ پوجا کا سامان مہیا کرتے رہتے تھے۔ ایسی حالت میں لالہ جی کو کسی کاڈر کیوں ہوتا۔

    بھگنا پاسی اور جودھا اہیر لالہ جی کے منھ چڑھے ہم راز پیادہ تھے۔ انہیں کے ذریعہ سے لالہ جی ایک طرف اپنی پارسائی، شرافت اور مذہبیت کا ڈھنڈورا پٹواتے اور دوسری طرف نفس پرستی اور گناہ کی زندگی بسر کرتے تھے۔ دنیا کا بھی عجیب حال ہے۔ غریب معمولی غلطی پر بھی بدنام ہو جاتا ہے لیکن سرمایہ دار کا گناہ بھی ثواب سمجھا جاتا ہے۔ امیر پنے گناہوں پر دولت کا پردہ ڈال کر پارسا بنا رہتا ہے مگر فاقہ کش مصیبت زدہ کو یہ بات کہاں میسر۔

    (۲)

    ماگھ کا مہینہ ختم ہو رہا تھا۔ ’’آئیں بسنت ہوئیں متواری‘‘ کی الاپیں گاؤں میں سنائی د ینے لگی تھیں۔ شام ہونے والی تھی۔ جنگلی ہنسوں کا جھنڈ اس وقت آسمان کی دھندلی غروب آفتاب کی سرخی کی مائل روشنی میں کسی ندی کے خالی ریت کے ڈھیر پر رات کاٹنے چلا جا رہا تھا۔ دن بھر کے تھکے بیل سر جھکائے چلے آتے تھے۔ پیڑوں کی پتیاں خاموش اور پھولوں کی زبانیں بند تھیں، پھر بھی ان میں ایک ناقابل بیان شاعرانہ دلآویزی تھی، جس کو دیکھنے اور سمجھنے کے لیے شاعر کا دل اور مصور کی نگاہ چاہیے۔ لالہ جی ایسے وقت میں پنے ہم راز پیادوں کے ساتھ کسی شکار کی تلاش میں نکلے تھے۔ سرسبز کھیتوں کو پائمال کرتے چوروں کی طرح ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ایک طرف چلے جا رہے تھے کہ سامنے سے گھاس کا گٹھا لا دے ایک جوان عورت نکلی۔ لالہ جی اور ان کی ٹولی کو دیکھ کر اس عورت نے گھونگٹ کاڑھ لیا لیکن بوالہوس لالہ جی اس سے پہلے ہی صرف ایک نظر دیکھ کر لٹو ہو چکے تھے۔

    عورت جوانی کے عالم میں تھی۔ اس کا حسن پھٹے پرانے کپڑوں سے باہر نکلا پڑتا تھا۔ دیہات کی آب و ہوا میں پلی ہوئی عورت کا جسم بہت سڈول تھا۔ اس کے ننگے پاؤں گرد آلود تھے۔ بھلا لالہ جی سا رسیا مرد ایسے موقع پر کیسے خاموش رہ سکتا تھا۔ انہوں نے فقرہ کسا تم تو ایسے چھپے موسے شیام سندر جیسے چاند اندر بدری۔ جودھا اہیر نے مالک کا ساتھ دیا۔ بھوجی ذرا سنبھل کر۔ غریب کی جورو کو بھوجی بھاوج بنانا بہت آسان ہے۔ بھگنا پاسی بولا، رام دے کبوتری ہے کبوتری۔ یہ سب بکتے ہی رہے اور وہ عورت جلدی جلدی قد م بڑھاتی ہوئی دور نکل گئی۔

    لالہ جی نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا، ارے یار جنگل میں یہ گلاب کب کھلا؟ میں نے تو آج سے پہلے کبھی اس کو گاؤں میں نہیں دیکھا۔ معلوم ہوتا ہے ابھی آئی ہے۔

    جودھا، ’’جی ہاں آپ کا منگروا چمار ابھی دوچار روز ہوئے، اپنا گون لایا ہے۔‘‘

    لالہ جی، ’’اس چمار کو ایسا عمدہ مال کہاں سے مل گیا؟‘‘

    جودھا، ’’یہاں سے پندرہ بیس میل پر ایک گاؤں چمر پروا ہے، اسی گاؤں کی یہ لڑکی ہے۔‘‘

    لالہ جی، ’’مگر مزا تو جب ہے کہ یہ مال یاروں کے ہاتھ لگے۔‘‘

    جودھا، ’’مالک کی دیا چاہیے، یہ کون بڑی بات ہے۔‘‘

    بھگنا پاسی نے کہا، ’’مدا، یہ مہرارو بڑی چتر اور نیک ہے۔ قابو میں مشکل سے آئےگی۔‘‘

    لالہ جی نے ڈانٹ بتائی، ’’بس تو اپنی قابلیت رہنے دے۔ تو ان باتوں کو کیا جانے؟ میں نے ایسی ایسی بہت سی چتر عورتوں کو بیوقوف بنا دیا ہے۔‘‘

    جودھا اہیر نے کہا، ’’بیشک بیشک، جس پر سرکار کی نظر پڑ جائے وہ بھلا کہاں بچ سکتی ہے۔ بھگنا تو ہمیشہ کا ڈرپوک رہا ہے۔‘‘

    بھگنا نے تیوری چڑھاکر جواب دیا، ’’میری تو جتنی بدھی ہے اتنی ہی بات کہوں گا، تو جودھا بنا رہے۔ وقت پڑنے پر دیکھ لینا، اس پاسی کے سامنے تمہاری جودھائی دھری رہ جائی۔‘‘

    لالہ جی نے بات بڑھتی دیکھ کر بیچ بچاؤ کرا دیا اور کہا، ’’یارو آپس ہی میں لڑوگے تو کیسے کام چلےگا۔ میں تو اب اسی کو عقل مند اور بہادر سمجھوں گا جو اس مال پر میرا قبضہ دلا دے۔‘‘ گھر پہنچنے پر بھی لالہ جی بڑی رات تک اسی کے متعلق باتیں کرتے رہے۔

    (۳)

    دوسرے دن لالہ جی کے پیارے منگروا چمار کو بلانے اس کے گھر پہنچے۔ اس وقت منگروا ناریل پی رہا تھا اور اس کی عورت سندریا اپلے تھاپ رہی تھی۔ علی الصبح زمیندار کے پیادوں کو اپنے گھر پر دیکھ کر منگرو گھبرا گیا۔ ابھی ایک مہینہ بھی نہیں ہوا تھا کہ منگروا بیگار میں پکڑا جا چکا تھا۔ اس نے پیادوں کو نہایت ادب سے را م رام کہا اور ڈرتے ڈرتے پوچھا، سویرے سویرے درشن دئیو کھیر (خیر) تو ہے۔‘‘

    جودھا نے کہا، ’’ہاں سب خیریت ہے۔ چلو تم کو لالہ جی بلاتے ہیں۔‘‘

    منگروا، ’’کاہے بلاوت (بلاتے ہیں) ‘‘

    جودھا، ’’یہ بات تم خود ڈیوڑھی پر چل کر پوچھ لینا۔‘‘

    اور کچھ پوچھنا بے کار تھا۔ منگروا سرجھکائے ڈرتا ڈرتا لالہ جی کے پاس پہنچ گیا۔ لالہ جی نے بڑی محبت کے ساتھ کہا، ’’کہو چودھری اچھے تو رہے۔‘‘

    گاؤں کا زمیندار ایک نیچ چمار کو چودھری کہے، منگروا کے سارے جسم میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ جاہل گنوار شکریہ کے الفاظ ڈھونڈنے لگا۔ اس کی سمجھ ہی میں نہ آتا تھا کہ ایک بڑے زمیندار کا شکریہ کس طرح ادا کرے۔ اس نے ہاتھ جوڑ کر کہا، ’’بھگوان مالک کو بنائے رکھیں۔ سب ہجور (حضور) کی کرپا ہے۔‘‘

    لالہ جی، ’’ہم کو ایک پیادے کی ضرورت ہے۔ تو کام کرےگا؟‘‘ منگروا کو اپنے کانوں پر اعتبار نہ آیا۔ اس نے کہا، ’’پیادہ۔۔۔‘‘

    لالہ جی، ’’ہاں ہاں پیادہ۔ کیا تجھے یہ نوکری پسند ہے؟‘‘

    جودھا نے دیکھا کہ یہی کارگزاری دکھانے کا وقت ہے۔ جھٹ سے بول اٹھا، ’’واہ بے منگروا تو بالکل گنوار ہی رہا، مالک تجھ کو پیادہ بنا رہے ہیں اور تیری سمجھ میں نہیں آتا۔‘‘

    بھگنا پاسی کے لیے یہ شرم کی بات تھی کہ ایک پیادہ تو اپنی قابلیت کا اظہار کرے اور وہ خاموش رہے۔ چنانچہ اس نے بھی وکالت کی، ‘‘ منگروا کا سوچت ہے؟ جلدی سے ہاں کر دے۔‘‘

    منگروا مارے خوشی کے بول اٹھا، ’’تو میں سرکار کے حکم سے باہر تھوڑو ہوں۔‘‘

    لالہ جی، ’’ہاں میں نے تیری تعریف سنی تھی کہ تو بڑا بہادر ہے۔‘‘

    بھاگنا پاسی، ’’منگروا کشتی بڑی اچھی لڑت ہے۔‘‘

    جودھا کو بھگنا پاسی کی یہ سبقت نہ گوارا ہوئی۔ اس نے کہا، ’’تونے تو سنا ہی ہوگا، میں خود اپنی آنکھوں سے اس کو کئی دنگوں میں دیکھ چکا ہوں۔ اس نے کئی کشتیاں ماری ہیں۔‘‘ منگروا چمار کو حیرت تھی کہ آج سے پہلے ان پیادوں نے اس کی تعریف کیوں نہیں کی تھی۔ اس سے پہلے تو وہ سیدھے منھ بات بھی نہیں کرتے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ کیسا انقلاب ہو گیا۔ لالہ جی نے کہا، ’’اچھا منگروا، اب جا، کل سے تو کام کرنے آ جانا۔ چار روپیہ مہینہ تنخواہ ملےگی۔ اس کے علاوہ ہر فصل پر آسامیوں سے تو جانتا تو ہوگا کچھ بھینٹ بھی مل جایا کرےگی۔‘‘

    لالہ جی سے رخصت ہوکر منگروا جب اپنے گھر کی طرف چلا تو خوشی کے مارے زمین پر اس کے پاؤں نہ پڑتے تھے۔ اب وہ چھاتی پھلاکر چل رہا تھا۔ اب وہ زمیندار کا پیادہ تھا۔ اس وقت وہ عالم خیال میں اڑا چلا جا رہا تھا۔ آج کا دن کیسا مبارک ہے۔ منھ اندھیرے اس نے سندریا ہی کو دیکھا تھا۔ اب وہ روزانہ صبح اٹھ کر سب سے پہلے سندریا کا منھ دیکھا کرےگا۔ غریب سندریا کے پاس کوئی اچھی دھوتی نہیں۔ وہ اب شہر سے ریشمی دھوتی لائےگا۔ زیور بھی تو نہیں ہے۔ اونھ کوئی پرواہ نہیں۔ پہلے تنخواہ ملتے ہی وہ اس کا بھی کچھ انتظام کرےگا۔ اب وہ اپنے دشمنوں سے ضرور بدلہ لےگا۔ ہر بھجنا بنئے نے اس کو بہت دق کیا ہے اب وہ بنئے کے بھی مزاج درست کر دےگا۔ پیادے کے لیے ایک لوہ بندی لاٹھی کی بھی ضرورت ہے۔ فی الحال وہ لالہ جی کے یہاں سے لے لے گا۔ اس قسم کی باتیں منگروا اپنے دل سے کرتا جا رہا تھا۔ وہ تصور کی نگاہ سے اپنا مستقبل دیکھ رہا تھا جو نہایت شاندار تھا۔

    (۴)

    لالہ جی نے جس مقصد سے منگروا کو اپنا پیادہ بنایا تھا، وہ پورا نہ ہوا، کیونکہ جب منگروا سے کہا گیا کہ وہ رات کو ڈیوڑھی پر سویا کرے تو اس نے صاف انکار کر دیا کہ وہ اپنی عورت کو گھر میں اکیلا نہیں چھوڑ سکتا۔ لالہ جی کا خیال تھا کہ جب گڑ سے کام نکل سکتا ہے تو زہر دینے کی کیا ضرورت ہے۔ چنانچہ منگروا کے انکار سے انہیں صدمہ تو بہت ہوا لیکن وہ مصلحتاً خاموش رہے۔

    اب انہوں نے دوسری چال چلی۔ جب وہ سیر کو جاتے تو گھومتے پھرتے چمروٹی کی طرف بھی نکل جاتے۔ جن چماروں سے انہیں کبھی بہت نفرت تھی، ان اچھوتوں کے سایے سے وہ دور بھاگتے تھے، اب وہی اچھوت ان کے دوست تھے۔ وہ چماروں کے گھر پر جاتے اور ان سے ہنس ہنس کر باتیں کرتے۔ زمانہ کے ستائے ہوئے بدقسمت اچھوت زمیندار کو اپنے حال پر مہربان پاکر بہت خوش ہوئے۔ لالہ جی نے اعلان کرا دیا کہ اب غریبوں سے بیگار نہ لی جائےگی۔ جو کام کرایا جائے گا اس کی مزدوری بھی دی جائے گی۔ لالہ جی کی اس شرافت کی دور دور شہرت ہو گئی۔

    ایک دن لالہ جی نے منگروا کو کسی کام سے ایک گاؤں پر بھیج دیا۔ خیال تھا کہ وہ آج واپس نہ ہوگا۔ شام کو سیر کرتے ہوئے منگروا کے گھر پر جاپہنچے، جودھا ان کی ہم راہی میں تھا۔ سندریا ایک طرف بیٹھی ہوئی چاول بین رہی تھی۔ لالہ جی کو دیکھتے ہی اس نے گھونگٹ کر لیا اور کھڑی ہوگئی۔ جودھا نے کہا، ’’واہ بھوجی، بھلا مالک سے بھی کوئی پردہ کرتا ہے؟‘‘ سندریا نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ پاؤں کے انگوٹھے سے زمین کریدنے لگی۔ تھوڑی دیر انتظار کرکے لالہ جی خود بولے، ’’منگروا کیا ابھی واپس نہیں آیا؟‘‘ سندریا اب بھی خاموش تھی۔ جودھا نے کہا، ’’بھوجی تم نے بھی شرم کی حدکردی۔ مالک جو کچھ پوچھتے ہیں اس کا جواب کیوں نہیں دیتیں؟‘‘

    سندریا نے شرماکر جواب دیا، ’’وہ ابھن (ابھی) نہیں آئے۔‘‘ لالہ جی سوچنے لگے واہ کتنی پیاری آواز ہے۔ اس آواز میں کتنی مٹھاس ہے۔ سندریا سے وہ کس قسم کی باتیں کریں، یہ ان کی سمجھ میں ہی نہ آتا تھا۔ تھوڑی دیر سوچ کر انہوں نے پوچھا، ’’تم کو منگروا کوئی تکلیف تو نہیں دیتا؟‘‘ سندریا نے اپنے دل میں سوچا، مالک کیسی باتیں کرتے ہیں۔ اس نے کہا، ’’موکا بہت آرام ہے۔‘‘ اتنے میں پڑوس کی دو ایک اور عورتیں آ گئیں۔ اب زیادہ دیر تک ٹھہرنا مناسب نہ سمجھ کر لالہ جی اپنے گھر واپس ہوئے۔

    لالہ جی کے خلاف توقع دن ڈوبتے ہی منگروا اپنے گھر واپس آ گیا۔ سندریا نے لالہ جی کا آنا اور اس کی باتیں بتاکر منگروا سے کہا، ’’موکا (مجھ کو) تو مالک کی نیت کھراب (خراب) معلوم ہوتی ہے۔‘‘

    منگروا نے ہنس کر کہا، ’’پگلی کہیں کی، مالک ایسا دیوتا سروپ زمیندار تو ڈھونڈے سے نہیں مل سکتا ہے۔ ایسے مہاتما کی نیت کھراب نہیں ہو سکت ہے۔ اب سے تو کہے مدا (مگر) ایسی بات کبھو نہ کہے۔ اچھا۔‘‘ منگروا نے اپنا ناریل اٹھایا۔ چلم پر تھوڑا سا تماکو جمایا اور سندریا کی طرف بڑھا کر کہا، ’’لے چلم پر تنی (ذرا) آگ رکھ دے، جس پڑی (پیالہ) میں کھائے، وہ ماں (اس میں) چھید کوؤ نا ہی کرت (کوئی نہیں کرتا) میں تو سمجھت رہوں کہ تو بڑی بدھمان (عقلمند) ہے۔ وا آج معلوم بھیا (ہوا) کہ مورکھ (نادان) ہے۔‘‘

    سندریا نے سوچا کہ اگر اس وقت وہ کچھ بولی تو بات بڑھ جائےگی۔ وہ چپ چاپ ہو گئی۔

    (۵)

    لالہ جی کی تمام کوششیں بیکار ثابت ہوئیں۔ انہوں نے ایک کٹنی کے ذریعہ سے سندریا کو دولت کے جال میں پھنسانا چاہا مگر سندریا نے کٹنی کو نہایت حقارت سے دھتکار دیا۔ لالہ جی کو حیرت تھی کہ آخر سندریا کس دل و دماغ کی عورت ہے جو ان کے قبضے میں نہیں آتی۔ ان کے خیال میں امیروں ہی کے گھر میں شرافت اور عزت کا نشان مل سکتا ہے۔ امیر عورتیں ہی عصمت کے زیور سے مرصع ہوتی ہیں۔ غریب اچھوتوں میں یہ جنس عنقا ہے۔ چاندی کے ٹکڑوں کے عوض میں ایک چمارن کی عصمت خریدی جاسکتی ہے لیکن لالہ جی کو شاید پہلی بار اس کے خلاف تجربہ ہوا۔ شریف خاندان میں پرورش پاکر بھی لالہ جی نے شریف دل نہ پایا، ورنہ ان کا تجربہ ان کو راہ راست پر لے آتا اور وہ ہمیشہ کے لیے اپنی کمینی حرکت سے باز آجاتے مگر ان کا دل سیاہ ہو چکا تھا۔

    سندریا اپنے گھر سے کبھی تنہا باہر نہ جاتی تھی۔ اس نے کئی مرتبہ اپنے شوہر پر لالہ جی کے متعلق اپنے شک کا اظہار کیا لیکن منگروا کو یقین نہ آیا۔ اس پر پیادہ گری کا جادو چل گیا تھا۔

    جب تک سندریا گھر سے تنہا باہر نکلتی تھی، اس وقت تک لالہ جی اس کی طرف سے مایوس نہ ہوئے تھے لیکن جب ان کو یہ پتہ چلا کہ اب سندریا اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتی تو وہ اپنا مطلب نکالنے کے لیے ٹٹی کی آڑ میں شکار کھیلنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اب انہوں نے دھرم کا سہارا لیا۔ اسی کی مدد سے ان کے مشکل کام بن جاتے تھے۔

    چنانچہ گاؤں میں منادی کرادی گئی کہ لالہ جی کے یہاں ست نرائن کی کتھا ہوگی۔ سب گاؤں والے ایسے شبھ کام میں ضرور شریک ہوں۔ اس کے لیے شہر سے ایک جٹادھاری پنڈت بھی بلائے گئے۔ منادی ہونے کے چوتھے دن رات کے وقت ایک عالی شان شامیانے کے نیچے پھول اور پتوں سے مزین تخت پر پنڈت جی نے خوش الحانی کے ساتھ ست نرائن کی کتھا شروع کی۔ گاؤں کے چھوٹے بڑے عورت مرد سب کتھا میں شریک تھے۔ عورتوں کے مجمع میں سندریا ایک طرف بیٹھی تھی کہ اس سے ایک عورت نے چپکے سے کہا، اری جلدی چل، منگروا کی نہ جانے کیسی خراب حالت ہو گئی ہے۔ وہ ادھر دالان میں بےہوش پڑا ہے۔ شوہر کی محبت میں سندریا اپنی ساری ہوشیاری بھول گئی۔ وہ عورتوں کے مجمع سے نکلی اور اسی عورت کے ساتھ چل دی۔

    سندریا کو کیا معلوم تھا کہ اس کو تباہ کرنے کے لیے فریب کا جال پھیلایا گیا ہے۔ اس کے شوہر کو شام ہی سے اتنی بھنگ پلا دی گئی ہے کہ وہ اپنے ہوش میں نہیں ہے۔ بوڑھی عورت کے ساتھ تھوڑی دور چل کر سندریا ٹھٹکی۔ اس کو کچھ شک گزرا۔ اس نے کچھ پوچھنا ہی چاہا تھا کہ کسی نے آکر اس کا منھ بند کر دیا اور تاریکی میں ایک طرف اٹھا لے گئے۔ اس کے ایک گھنٹہ کے بعد جب ست نرائن کی کتھا میں گاؤں والوں کو بڑالطف آ رہا تھا، سندریا چیختی ہوئی آئی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ چہرہ غصہ کے مارے تمتما رہا تھا۔ اس نے چلاکر کہا، پنڈت جی دہائی ہے۔ گاؤں والو دہائی ہے۔ لالہ جی نے میری عزت لے لی۔ لالہ جی ایک طرف سے لپکتے ہوئے آئے، ان کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں۔ پاؤں ڈگمگا رہے تھے۔ انہوں نے جودھا کو حکم دیا، اس بدمعاش عورت کو باہر نکال دو۔ ایک زمیندار پر جھوٹا الزام لگانا اور اس پر دھارمک کام میں کتھا کے وقت شوروغل مچانا مہاپاپ تھا۔ سندریا کو دھکے مار کر نکال دیا گیا۔

    جاتے وقت اس نے دانت پیس کر کہا، پاپیو میرا انصاف پرماتما کے یہاں ہوگا۔ اتنا کہہ کر سندریا تاریکی میں غائب ہو گئی۔ پھر اس کا کہیں پتہ ہی نہ چلا۔

    دوسرے دن جب منگروا چمار سے ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے لالہ جی نے سندریا کی بدمعاشی اور اس کی فراری کا ذکر کیا تو منگروا نے کہا کہ مالک اچھا ہوا جو ایسی بدمعاش عورت سے چھٹکارا ملا۔ چمارنیوں کی کمی نہیں۔ میں دوسری شادی کر لیہوں۔ ناکردہ گناہ بدنام ہوئی لیکن لالہ جی کے گناہ پر امارت کا پردہ پڑا تھا، کسی کو اصلیت کا پتہ ہی نہ چل سکا اور اگر کسی کو حقیقت معلوم بھی ہوئی تو ہو، ایک اچھوت عورت کے لیے زمیندار سے لڑنے یا سماج سے فریاد کرنے کے لیے تیار نہ ہوا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے