سورنا کا بیٹا ہیرتا دریائے زرینمند کے کنارے اپنی آبائی جاگیر پر ایک وسیع اور پرشکوہ محل میں رہتا تھا۔ ہیرتا سورنا کا اکلوتا بیٹا تھا اور سورنا اشکانی بادشاہ ارد کا وہ زبردست سپہ سالار تھا جس نے بین النہرین کے علاقے میں رومیوں کو شکست فاش دی تھی۔ اسی جنگ میں رومی سردار کراسوس مارا گیا تھا۔
ایران پر ساسانیوں کی حکومت ہو جانے سے اشکانیوں کا اقتدار ختم ہو گیا۔ بڑے بڑے ایرانی سردار ساسانی بادشاہ اور دشیر بابکان کے حلقے میں شامل ہوگئے۔ بچے کھچے اشکانیوں میں سے جنہوں نے ساسانیوں کے مقابلے میں سرکشی نہیں کی تھی وہ اپنے اپنے علاقوں میں خاموشی کے ساتھ زندگی گزارنے لگے۔ سورنا کا بیٹا ہیرتا بھی اپنے باپ کے گرمائی محل میں خاموشی کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا۔ چند سال ہوئے اس کی پہلی بیوی کی وفات ہو گئی تھی اور چونکہ اس بیوی سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی، اس لیے گزشتہ سال ہیرتا نے ایک اکیس سالہ دوشیزہ سے شادی کر لی تھی۔
اس دوشیزہ سے ہیرتا کی ملاقات اتفاقاً ایک گاؤں میں ہو گئی تھی۔ ایک دن شکار پر سے واپس ہوتے ہوئے گاؤں کے پاس اس نے ماندا کو دیکھا جو پانی کا گھڑا کندھے پر رکھے چشمے سے گھر واپس جا رہی تھی۔ ہیرتا نے اس سے پانی مانگا، اس کا نام پوچھا، اسی رات اس کے بوڑھے باپ سے اس کے لیے پیغام دیا اور دو دن بعد ماندا کو اپنے محل میں لے آیا۔
ماندا حسین، سرو قد اور پرکشش جسم کی لڑکی تھی۔ اپنی سیاہ وحشی آنکھوں، لمبی زلفوں، سفید نرم جلد اور متناسب اعضا کے ساتھ بڑی بڑی آرزوئیں لیے ہوئے وہ ہیرتا کے محل میں وارد ہوئی۔ لیکن ہیرتا کا زیادہ وقت اپنی دور افتادہ املاک کی دیکھ بھال اور شکار میں گزرتا تھا۔ اسے حسن و شباب سے بھرپور ماندا کی دلجوئی کا موقع بہت کم ملتا تھا۔ شروع کے چند ہفتے ماندا پر برے نہیں گزرے لیکن چند ماہ بعد اس کی زندگی جہنم ہو گئی اور اس کو ہیرتا کا عظیم الشان محل قیدخانہ معلوم ہونے لگا۔ پھر ہیرتا جوان بھی نہ تھا۔ وہ ماندا سے دگنی عمر کا تھا۔
ایک جوان اور پُرارمان لڑکی کی زندگی اپنے سے کہیں زیادہ عمر والے مرد کے ساتھ کیسی گزر سکتی ہے؟ ماندا کا دل عشق اور شباب کے جنون آمیز نغموں کے لیے تڑپ رہا تھا اور ہیرتا اپنی گوناگوں مصروفیتوں کی وجہ سے اس کی شوریدہ روح کو تسکین نہیں دے پاتا تھا۔ اس لیے ماندا افسردہ رہتی تھی اور اس تروتازہ گلاب کی طرح جو اچانک دہکتے ہوئے سورج کے نیچے آ جائے، مرجھاتی چلی جا رہی تھی۔
ہیرتا کی نظروں سے اپنی جوان بیوی کی حالت پوشیدہ نہ تھی۔ وہ بخوبی سمجھتا تھا کہ اگر بر وقت کوئی تدبیر نہ کی گئی تو اسے ماندا سے ہاتھ دھونا پڑے گا۔ وہ ماندا کو چاہتا بھی بہت تھا اور اسے اپنے بہترین مال اور گراں ترین جواہرات کی طرح عزیز رکھتا تھا۔
آج بھی دن کے کھانے پر حسب سابق ماندا کی بھوک غائب تھی۔ اس نے شراب کا جام اٹھایا، ہونٹوں سے لگایا اور پیے بغیر واپس رکھ دیا۔ اس نے افسردہ اور رحم طلب نظروں سے لمحہ بھر ہیرتا کو دیکھا اور سر جھکا لیا۔ ہیرتا نے گھٹی ہوئی مضطرب آواز میں کہا، ’’ماندا! میں جانتا ہوں کہ تم بہت پریشان رہتی ہو۔ لیکن کیا کروں؟ ایسے الجھاؤ میں گرفتار ہوں کہ تمہاری خاطرداری نہیں کر پاتا۔ بہر حال، اب میں نے تمہارے دل بہلاوے کی ایک صورت نکال لی ہے۔‘‘
اگرچہ اس بات میں ماندا کی دلچسپی کا کافی سامان تھا لیکن اس نے دوبارہ سر اٹھا کر اپنے شوہر کو نہیں دیکھا۔ ہیرتا نے پھر کہاٖ، ’’سنو ماندا! آج ایک جوان ہمارے محل میں آئے گا۔ وہ بہت اچھا شہسوار ہے۔ تیر اندازی اور چوگان میں بھی مہارت رکھتا ہے۔ میں نے اس سے کہا ہے کہ ہمارے یہاں قیام کرے اور تم کو شہسواری اور چوگان بازی سکھائے۔ اس کو بہت سے ہنر آتے ہیں۔ میں نے اسے فارس سے بلوایا ہے۔ وہ بالکل اپنوں کی طرح دن رات ہمارے ساتھ رہے گا، ہمارے ساتھ ہی گھومے پھرے گا اور ہمارے ساتھ ہی کھانا بھی کھایا کرے گا۔‘‘
ماندا کا دل بے اختیار دھڑکنے لگا، ’’شہسواری‘‘، ’’چوگان بازی‘‘، ’’دن رات ہمارے ساتھ رہے گا۔‘‘ یہ الفاظ اس کے کانوں میں کسی گھنٹے کی آواز کی طرح گونج رہے تھے۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس کی بدبخت زندگی کے اندھیرے میں ایک نئی روشنی داخل ہو رہی ہے۔
اسی دن سہہ پہر کو جب ہیرتا اور ماندا محل کے ایک بڑے اور شاداب چمن میں سیر کر رہے تھے، ایک نوکر نے آ کر اطلاع دی کہ جس مہمان کا انتظار تھا، وہ آ گیا ہے۔
مہیار، چھریرے بدن کا تیس سالہ جوان، گھنے بال، چاق چوبند، نئے دولہا کی طرح خوش و خرم ان کے سامنے کھڑا ہنس رہا تھا۔ ایک چھوٹا خنجر اس کی کمر سے بندھا ہوا تھا اور اس کی نگاہوں میں ایک کوندتی ہوئی بجلی تھی جو سیدھی دل میں اتر جاتی تھی۔
مہیار کو دیکھ کر ماندا کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ اس کے آنے سے دل ہی دل میں بے حد خوش تھی۔ کبھی کبھی کنکھیوں سے اس کی طرف دیکھ بھی لیتی اور اس کی باتیں بڑے غور سے سن رہی تھی۔ مہیار اپنے سفر کا حال اور راستے کی تکلیفیں بیان کر رہا تھا۔ اس نے ہیرتا کے محل کی سیر کے بعد اس کی تعریف کرتے ہوئے ہیرتا سے کہا، ’’میرے آقا، آپ کا محل اور باغ نہایت شاندار اور خوبصورت ہے۔ اکباتان کے باغوں میں واقعی بڑے دلفریب اور حسین پھول پیدا ہوتے ہیں۔‘‘ اور یہ کہتے کہتے یکبارگی اس نے پلٹ کر ماندا پر نظریں جما دیں اور کہا، ’’لیکن بانوے من! فارس میں بھی مہکتے ہوئے جاں فزاں گلابوں کی کمی نہیں ہے۔‘‘
ہیرتا کے محل میں قیام کے ساتھ ہی مہیار نے ماندا کے دل میں بھی گھر کر لیا تھا۔ ماندا بالکل بدل گئی تھی۔ وہ ایسے بچے کی طرح جسے کوئی دلچسپ اور انوکھا کھلونا دلا دیا جائے، ہر وقت خوشی سے چہکتی رہتی تھی۔ مہیار بھی بہت خوش تھا۔ وہ روز گھنٹے دو گھنٹے ماندا کے ساتھ گھوڑے پر سواری کرتا اور اس کو چوگان کھیلنا سکھاتا۔ آہستہ آہستہ وہ ماندا کی طرف کھنچنے لگا اور جب بھی موقع پاتا، اپنی نگاہوں اور حرکات و سکنات سے ماندا پر اپنا عشق ظاہر کرتا۔ جب وہ دونوں ساتھ ساتھ سیر کو نکلتے تو وہ کسی نہ کسی بہانے ماندا کی گردن یا بازوؤں یا ہاتھوں سے اپنے ہونٹ لگا دیتا، یا اس کی سیاہ مہکتی زلفوں میں اپنا چہرہ چھپا لیتا۔ آخر کار ایک دن سرخ گلاب کی ایک گھنی جھاڑی کے پیچھے ماندا اور مہیار کی باہیں ایک دوسرے کے گلے میں حمائل ہو گئیں اور ان کے ہونٹ بے اختیار آپس میں پیوست ہو گئے۔
اس کے کچھ عرصہ بعد ایک دن جب ہیرتا صبح کی گشت سے واپس آیا تو اس نے کپڑے بدلتے بدلتے ماندا سے پوچھا، ’’ماندا عزیزم! کہو مہیار سے خوش ہو؟‘‘
’’بہت خوش ہوں۔‘‘ ماندا نے جواب دیا، ’’اس نے مجھے بہت کچھ سکھا دیا ہے۔ اب میں گھوڑے پر بیٹھ کر بڑی سے بڑی نہر پار کر سکتی ہوں۔ چوگان میں بھی میں نے کافی ترقی کی ہے لیکن ابھی اور مشق بڑھانا ہے۔‘‘
’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ ہیرتا نے پوچھا، ’’کتنے دن میں چوگان اچھی طرح سیکھ جاؤگی؟‘‘
’’معلوم نہیں، وہ تو یہی کہتا ہے کہ میری صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے امید ہے کہ چار مہینے کے اندر میں چوگان بازی میں ماہر ہو جاؤں گی اور اس کے سارے داؤں پیچ سیکھ جاؤں گی۔ لیکن مہیار کو جلدی نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے آہستہ آہستہ بڑھنا چاہئے۔‘‘
ہیرتا بولا، ’’ٹھیک تو کہتا ہے، بہتر یہی ہے کہ ہر چیز دھیرے دھیرے سیکھو۔‘‘
پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ہیرتا نے اچانک پوچھا، ’’اچھا ماندا، سچ سچ بتاؤ، تم مہیار کو کتنا پسند کرتی ہو؟ اسے زیادہ چاہتی ہو یا مجھے؟‘‘
یکلخت ماندا کا دل بیٹھنے لگا، لیکن اس نے خود کو سنبھال کر کہا، ’’ہیرتا! ہیرتا! تم تو میرے شوہر، میرے آقا ہو، وہ فقط ایک شہسوار ہے۔‘‘
ہیرتا ماندا کے قریب آ گیا۔ اس نے ماندا کے ہاتھ پکڑ لیے اور انہیں سہلانے اور چومنے لگا۔ پھر بولا، ’’ماندا! میں تم کو اجازت دیتا ہوں کہ اس کے ساتھ ہنسی خوشی دن گزارو، سیر و تفریح کرو۔۔۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ تم خود پر قابو رکھوگی اور کوئی ایسا کام نہ کروگی جو میری شرافت کے برخلاف ہو۔‘‘
اس دن کے بعد سے ماندا کو مہیار کے ساتھ مگن رہنے کی اور بھی چھوٹ مل گئی۔ اب وہ اس کو پہلے سے زیادہ پیار دیتی، پہلے سے زیادہ پیار کرتی۔ جب کبھی وہ دور دراز کے باغوں اور سبزہ زاروں میں سیر کرنے جاتے تو وہ نرم گھاس پر مہیار کے ساتھ لوٹنے لگتی۔ لیکن جب بھی مہیار دست درازی کرنا چاہتا تو ماندا اس سے دور ہٹ جاتی۔ مہیار کے ساتھ گزرنے والے لمحات کتنے حسین تھے! لیکن وہ کوئی ایسی بات نہ ہونے دیتی جس سے ہیرتا کی عزت پر حرف آتا ہو۔ مگر مہیار ماندا کے عشق میں پاگل ہو رہا تھا اور وصال کے لیے بے تاب تھا۔ آخر ایک دن اس نے ماندا سے کہا، ’’ماندا!، شیرینِ من! آخر تم میری کب ہوگی؟ کیوں اپنے محبوب کو پھونکے ڈال رہی ہو۔ کیا تمہیں مجھ سے محبت نہیں؟‘‘
ماندا نے جواب دیا، ’’کیوں نہیں مہیار! کیوں نہیں۔ مجھے تم سے بے حد محبت ہے۔ مگر تم نہیں جانتے میری راہ میں کتنی مشکلیں ہیں۔ ابھی میں خود کو تمہارے حوالے نہیں کر سکتی، لیکن میرا دل تمہارا ہے۔ میری روح، میرے احساسات تمہارے ہیں۔‘‘
مہیار نے ایک آہ بھر کر پوچھا، ’’پھر کب؟ ماندا مجھے اتنا نہ ستاؤ، ہمارے سے محبت کرنے والوں کے لیے کوئی بات مشکل نہیں۔ اگر مشکلوں کے پہاڑ بھی ہوں تو پانی ہو سکتے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے، میں ساری مشکلوں کو راستے سے ہٹا سکتی ہوں۔ لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہ اس کی قیمت بہت زیادہ ہوگی۔‘‘
مہیار اس کا چہرہ اپنے سینے میں چھپا کر بولا، ’’جو قیمت بھی ہو، ماندا، جو قیمت بھی دینا پڑے۔ میں تمہیں حاصل کرنے کے لیے جان تک دینے پر تیار ہوں۔‘‘
ماندا کچھ دیر خاموش رہی۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ اور پھر یوں جیسے خواب میں بول رہی ہو، اس نے کہا، ’’یہی سہی، مہیار، یہی سہی۔ اب کی بار جب ہیرتا جاگیر پر جائے گا، میں تمہاری ہو جاؤں گی۔‘‘
بارہ دن بعد ہیرتا اپنے ہمراہیوں سمیت جاگیر پر چلا گیا۔ اس دن مہیار اور ماندا بہت خوش تھے۔
دوپہر ہونے سے پہلے، چوگان کھیلنے کے بعد وہ دونوں گھوڑوں پر بیٹھ کر وا نہ ہوئے اور پہاڑ کے اوپر واقع ایک پرسکون اور حسین سبزہ زار میں جا اترے۔ ماندا کی نظروں میں محبت، مہیار کی نگاہوں میں آگ تھی اور وہ مبہوت ایک دوسرے کو دیکھے جا رہے تھے۔ ان کی نظروں میں کیا حسن تھا، کیا شعریت تھی! انہوں نے آپس میں کوئی گفتگو نہیں کی، لیکن ان کے ایک ایک بوسے اور ان کی ہر ہر ادا سے ان کے محسوسات کی بہترین ترجمانی ہو رہی تھی۔
وہ دیر تک اس گھاس پر لیٹے رہے۔
وہ دن اور اس کے بعد کا زمانہ نہایت دلکش تھا۔ ان کے لمحات کتنے حسین تھے۔ محبت کتنی شیریں، کتنی پُرمزہ ہوتی ہے!
ماندا نے مہیار کو سمجھا رکھا تھا کہ کھانے کے وقت جب سب یکجا ہوا کریں تو اپنی نگاہوں اور حرکات پر قابو رکھے اور ہیرتا کے دل میں ذرا بھی شک پیدا نہ ہونے دے۔ لیکن محبت کرنے والے لاکھ چھپائیں، دوسروں کی نظریں جو دیکھنا ہوتا ہے، دیکھ ہی لیتی ہیں اور جو شوہر اپنی بیویوں کو نظر میں رکھتے ہیں، وہ سب سے زیادہ آسانی کے ساتھ اور سب سے پہلے ان کی بے وفائی کو تاڑ جاتے ہیں۔ ہیرتا جاگیر پر سے واپس آنے کے تھوڑے ہی دن بعد سمجھ گیا تھا کہ ماندا پیمان توڑ چکی ہے لیکن اس نے ماندا سے کچھ نہ کہا۔
آج رات جب ماندا دسترخوان پر پہنچی تو مہیار کی جگہ خالی تھی۔ سویرے وہ مہیار سے ملی تھی اور دوپہر کے بعد گھوڑے پر اس کے ساتھ سیر کو گئی تھی۔ اس نے ایک کنج میں مہیار کی آغوش میں عشق کی لذت بھی حاصل کی تھی۔ لیکن سیر سے واپس آنے کے بعد مہیار گھوڑوں کو لے کر چلا گیا تھا۔ اس کے بعد سے ماندا نے اسے نہیں دیکھا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ محل ہی میں کہیں ہوگا۔
وہ مہیار کی خالی جگہ کو بار بار دیکھ رہی تھی اور پریشان ہو چلی تھی۔ آخر ہیرتا نے کہا، ’’پریشان نہ ہو ماندا! میں نے اس کو قریب کے گاؤں میں بھیجا ہے کہ گھوڑے کا ایک سفید بچھڑا جو وہاں مجھ کو پیش کیا گیا تھا، لے آئے۔ میرا خیال ہے وہ کل دوپہر تک واپس آجائے گا۔‘‘
ماندا کھانے میں مشغول ہو گئی۔ اسے یاد آیا کہ وہ گھاس پر دیر تک مہیار کی آغوش میں سوتی رہی تھی۔ لذت کے اس احساس کو چھپانے کے لیے وہ شراب کا جام تہہ تک پی گئی۔ ہیرتا نے دوبارہ اس کے جام میں شراب بھر دی۔ خدمت گاروں نے کھانا لا کر ان کے سامنے لگا دیا۔
شراب نے ماندا کی بھوک چمکا دی تھی۔ اس نے بڑی رغبت کے ساتھ کھاتے ہوئے اپنی پوری قاب خالی کر دی۔ اور کچھ دیر بعد جب وہ سیب کاٹ کر کھا رہی تھی، ہیرتا نے اس سے پوچھا، ’’ماندا! کہو، کھانا مزے کا لگا؟‘‘
’’ہاں، بہت مزے کا تھا۔‘‘
ہیرتا نے پوچھا، ’’جانتی ہو یہ کھانا کس چیز سے تیار کیا گیا تھا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ ماندا نے کہا، ’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘
تب ہیرتا نے بہت سکون کے ساتھ کہا، ’’یہ اس کا جگر تھا۔۔۔ ماندا، تم نے ابھی مہیار کا جگر کھایا ہے۔‘‘
سیب اور چاقو ماندا کے ہاتھ سے چھوٹ گئے۔ اس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا۔ اس کا سارا بدن سرد پڑ گیا۔ اچانک وہ ایک وحشتناک چیخ مار کر کھڑی ہو گئی۔ وہ دیوانوں کی طرح بے تحاشا چلائے جا رہی تھی۔
وہ اٹھ کے بھاگی اور اس نے خود کو کھڑکی سے نیچے باغ میں گرا دیا۔
(فارسی عنوان، بہای عشق)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.