بینگن کا پودا
اگر چہ ماہی رام نے وہ بینگن کا پودا اکھاڑ دیا ہے، پھر بھی جب میں ترکاری کے کھیت کی مینڈھ پر سے ہوتا ہوا اپنی کوٹھی کو جاتا ہوں تو میری آنکھوں میں بینگن کا وہ سوکھا ہوا پودااور اس پر لٹکتا ہوا مرجھایا پچکا سا زرد بینگن پھر جاتا ہے۔
سردیوں کے مختصر سے دن کو گزرے ہوئے دیر ہو چکی تھی۔ کھانا کھانے کے بعد جب میں ایک لمبا سا چکر لگا کر نیچے کھا دی کی موٹی بنیان، اس پر چھوٹا گرم انڈرویر، اس پر موٹے کھدر کی قمیض، اس پر اچکن اور گلوبند اور ان سب کے اوپر اوور کوٹ پہنے، ہاتھ میں چھڑی لیے اپنے لوہے کی ایڑی والے فلیکس کے بوٹوں کی ٹھک ٹھک میں مست، دسمبر کی تیکھی، ٹھنڈی ہوا سے بچنے کے لیے کانوں کو اوور کوٹ کے کالروں میں چھپاتا ہوا اپنی کوٹھی کے برآ مدے میں داخل ہوا تو وہاں میلی سی چار پائی پر ایک نحیف و ناتواں بوڑھے کو خستہ اور بوسیدہ، اندھیری کالی رات کی طرح کا لا لحاف لپیٹے دیکھ کر کچھ ٹھٹک سا گیا۔
’’کیوں بھئی کیا بات ہے؟‘‘ میں نے اوور کوٹ کی جیبوں میں پڑے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے کے نزدیک لا کر کہا۔
’’ کچھ نہیں بابو جی! میں ماہی رام کا آدمی ہوں۔‘‘
’’ ماہی رام کے ہی سہی۔‘‘ میں نے کہا، ’’لیکن اتنی سخت سردی میں تم اس کھلے برآمدے میں کیوں پڑے ہو؟‘‘
’’میرے پاس کپڑا ہے بابو جی!‘‘
میں نے چپ چاپ اپنا کمرہ کھولا۔ ٹیبل لیمپ جلتا چھوڑ دیا تھا۔ اگر چہ اوپر کے دونوں روشن دان کھلے تھے پھر بھی کمرہ گرم ہو گیا تھا۔ میرے داخل ہوتے ہی مٹی کے تیل کا گرم تیز بھبکا آیا۔ بار ہا میرے دوستوں نے اس طرح لیمپ جلا کر چھوڑ جانے سے منع کیا ہے۔ ’’شہر کی گندی فضا کو چھوڑ کر اس کھلے ماحول میں رہنے کا فائدہ ہی کیا۔‘‘ وہ کہا کرتے ہیں، ’’اگر شہر کی مضر عادتوں کو نہ چھوڑا جائے۔۔۔‘‘ اور بتایا کرتے ہیں کہ ڈاکٹروں کی رائے کے مطابق کمرے کو بند کر کے اندر لیمپ جلائے رکھنا نہایت مضر ہے۔ سانس کے راستے گندی ہوا پھیپھڑوں میں داخل ہو جاتی ہے اور پھیپھڑوں پر اس کا دباؤ پڑتا ہے ۔
میں بار ہا یوں محسوس بھی کرتا ہوں لیکن مجبور ہو جاتا ہون۔ جب بھی کبھی دروازہ کھول کر بیٹھتا ہوں، تیز ہوا کا جھونکا اندر آتا ہے، میرے ہاتھ یخ ہو جاتے ہیں اور قلم چلنے سے انکار کر دیتا ہے تو میں اٹھ کر پھر کواڑ بھیڑ دیتا ہوں۔ جیسے سگریٹ پینے والوں کو اس کی کڑوی کسیلی سر چکرا دینے والی بو اچھی لگتی ہے، کچھ اس طرح یہ سب کچھ بھی اچھا معلوم ہونے لگا ہے۔
ہیٹ کو کھونٹی پر لٹکا کر اور گلوبند کو سر اور کانوں کے گرد لپیٹ کر میں کام پر آبیٹھا۔
بیٹھ تو گیا لیکن میرا دھیان برابر برآمدے ہی کی طرف لگا رہا۔
اس بوڑھے کو میں نے پہلے بھی دیکھا تھا۔ صبح ہی دیکھا تھا۔ وہ بینگن کے پودے چھانٹ رہا تھا۔ اور ’’کمیونٹی کچن‘‘ سے گھر کو آتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا بھی تھا کہ وہ کیوں ایسا کر رہا ہے۔ اس نے بتایا تھا بینگن کا پودا دو بار پھل دیتا ہے۔ ایک بار چھانٹ دیا جائے تو اور بھی پھلتا پھولتا ہے۔ میں نے ان سوکھے پتوں سے محروم بینگن کے پودوں پر ایک نگاہ ڈالی تھی۔ ایک پودے پر ایک مرجھایا ہوا سوکھا سکڑا پچکا زرد بینگن لٹک رہا تھا۔ وہاں سے ہٹ کر میری نظر اس بوڑھے پر جا ٹکی تھی۔ اس کی عمر نہ جانے کتنی تھی لیکن وہ بے حد ضعیف دکھائی دیتا تھا۔ حالانکہ سردی سے بچنے کے لیے اس نے کھیس اوڑھ رکھا تھا، پھر بھی اس کے لکڑی سے پتلے ہاتھ، بانس سی ٹانگیں، سوکھا چہرہ اور آنکھوں کے حلقے صاف نظر آتے تھے۔
اس وقت ایک عجیب سا خیال میرے دل میں پیدا ہوا تھا۔۔۔ بینگن کا پودا جب سوکھ جاتا ہے تب چھانٹ دینے پر پھر پھل لے آتا ہے ۔ سہانجنا بھی چھانٹنے پر بڑھتا ہے۔ دنیا میں ایسے درختوں اور پودوں کی کمی نہیں جو چھانٹنے پر پہلے سے بھی زیادہ پھلتے پھولتے ہیں۔ تو پھر انسان کو اس خدائے بر ترنے ایسا کیوں نہیں بنایا۔ لیکن وہیں کھڑے کھڑے جیسے مجھ سے کسی نے کہا، انسان کی بیل بھی امر ہے ۔ موت اس کی قینچی ہے۔ مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے اس کے پھل پھول اور شاخیں ہیں ۔ جب یہ سوکھ جاتے ہیں یا گل سڑ جاتے ہیں، یہ قینچی انہیں کاٹ دیتی ہے اور ان کی جگہ نت نئے ہرے بھرے زندگی سے بھر پور اچھلتے کودتے ناچتے گاتے پھول اور پتے لگتے ہیں اور زندگی کی امر بیل بڑھتی ہوئی پھولتی پھلتی جھومتی جاتی ہے ۔
لیکن یہ بوڑھا یہاں سردی میں کیوں آ پڑا ہے ۔ کیا اس کا کوئی گھر گھاٹ نہیں ۔ اور اپنی اس محویت سے ذرا چونک کر میں نے پوچھا، ’’ارے بھئی تم ہو کون؟‘‘
’’میں جی، ماہی رام کا آدمی ہوں۔‘‘
بوڑھا کچھ جواب دینے والا ہی تھا کہ اسے کھانسی کا دورہ پڑا۔ کئی لمحے لگا تار کھانسنے کے بعد اپنے سانس کو مشکل سے درست کرتے ہوئے اس نے بتایا کہ وہ رشتہ میں ماہی رام کا کچھ نہیں لگتا۔ وہ اس کا ہم وطن ہے ۔ اس کا کنبہ بہت بڑا ہے ۔ پانچ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور بیوی ہے ۔ دو لڑکیاں ہیں ۔۔۔ بیاہنے کے قابل۔۔۔ اور وہ روزگار کے لیے ماہی رام کے ساتھ آ گیا ہے ۔
اس کی آواز میں کچھ ایسا سوز تھا کہ کام کرنا میرے لیے نا ممکن ہو گیا۔ میں اتنے کپڑے پہننے کے با وجود پتلون پر کمبل ڈال کر بیٹھا ہوں ۔ اور وہ غریب باہر سردی میں پڑا ہے ۔ بستر کے نام پر شاید ایک میلی پھٹی دلائی اس کے پاس ہے۔ اور وہ میلا کالا لحاف بھی برسوں کا پرانا ہے ۔ قریب قریب پگھل کر میں نے کہا، ’’تو بھائی اندر لیٹ جاؤ۔ باہر تو بڑی سردی ہے۔ برآمدہ دونوں طرف سے کھلا ہے۔ باہر تم کیوں بیٹھے ہو؟‘‘
لیکن اس وقت سیمنٹ کے فرش پر بھاری جوتوں کی آواز سنائی دی اور دوسرے لمحے ماہی رام۔۔۔ وہ ٹھیکیدار گوپال داس کا چھ فٹ تین انچ لمبا آدمی دروازہ پر آ کھڑا ہوا۔ بڑی سی پگڑی، اس کے نیچے کالا موٹا کمبل، گھٹنوں تک دھوتی اور پاؤں میں سیر سوا سیر کا جوتا۔ ایک دن چھ مولیوں کے لیے دو ایک میل تک ایک آدمی کے پیچھے دوڑ تا گیا تھا اور اسے پکڑ کر اس نے وہ پٹخنیاں دی تھیں کہ پھر اس نے کبھی ادھر کا رخ نہ کیا تھا۔
’’ہم نے اسے خود یہاں سلایا ہے بابو جی۔‘‘ ماہی رام نے کہا، ’’نہ جانے کون سالا رات کو کھیتوں میں ڈاکہ ڈالتا ہے ۔ دو دن دیکھتے ہو گئے ہیں ۔ ایک رات گوبھی کے دس پھول غائب تھے، سارے کھیت میں ایسے پھول نہ ملیں گے۔ پر سوں کوئی تمام پکے ہوئے ٹماٹر اتار کر لے گیا۔ آپ جانتے ہیں کہ ہمیں کچن کو بھی سپلائی کرنی پڑتی ہے۔ اور پھر دو سو روپیہ کا ٹھیکہ لے رکھا ہے۔ وہ سب بھی تو اسی میں سے پورا کرنا ہے۔ اور پھر مزدوروں کی مزدوری۔۔۔‘‘
’’لیکن ترکاری پر کون ڈاکہ ڈال جاتا ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’یہاں تو کبھی چوری ہوتے سنی نہیں۔ میری کوٹھی سنسان جگہ میں ہے ۔ پاس کوئی کوٹھی بھی نہیں۔ لیکن میں تو دروازے کھلے چھوڑ کر گھنٹوں غائب رہتا ہوں۔‘‘
’’نہیں بابو جی، باہر کاآدمی اتنی سردی میں صرف دس گوبھی کے پھول لینے نہیں آسکتا۔‘‘
’’لیکن اس دن مولیاں؟‘‘
’’وہ اور بات تھی بابو جی۔ وہ تو کوئی راہ چلتا آدمی تھا۔ جاتے جاتے اکھاڑ کر لے گیا۔ کوئی یہیں کا ہے۔ میں سالے کو ایسا سبق دوں گا کہ عمر بھر کو کان ہو جائیں۔‘‘ اور اس کے موٹے موٹے ہونٹ پھیل گئے اور چیچک کا مارا ہوا چہرہ تن گیا۔
’’لیکن بھائی اگر اسے چاہو تو اندر سلا دو۔‘‘
’’نہیں بابو جی سردی تو امیروں کو لگتی ہے ۔ اسے تو یو نہی محض دکھاوے کے لیے یہاں سلا دیا ہے، ورنہ رکھوالی تو میں کروں گا۔ ان مونگروں کے پیچھے بیٹھ کر۔ جونہی یہ سمجھ کر، بوڑھا سو گیا ہے کوئی آیا، کہ میں نے اسے دبوچا۔‘‘ اور وہ ہنسا۔
’’لیکن اس کے پاس کپڑے۔۔۔؟‘‘
’’ کافی ہیں بابو جی۔‘‘ اور یہ کہتا ہوا وہ چلا گیا۔ بوڑھے کو پھر کھانسی کا دورہ پڑا۔
میں پھر کام میں منہمک ہو گیا لیکن کام مجھ سے ہو نہ سکا۔ میرے سامنے ان دونوں کے مالک کی تصویر کھنچ گئی۔ ٹھیکیدار گوپال داس۔۔۔ دھن، دولت، اولاد اور بے فکری کی وجہ سے اس کے گال اس پچاس برس کی عمر میں بھی گلاب کی طرح سرخ تھے۔ اس ہڈیوں میں پیوست ہونے والی سردی میں جب یہ بوڑھا باہر پڑا ہے، وہ اپنے گرم لحاف میں لیٹا، دہکتی ہوئی انگیٹھی سے گرم اپنے کمرے میں مزے سے گپیں ہانک رہا ہوگا۔ تاش اور شطرنج میں مشغول ہوگا۔
اور یونہی سوچتے سوچتے میری آنکھیں بند ہونے لگیں۔ کچھ غنودگی سی مجھ پر طاری ہونے لگی۔ کھانا زیادہ کھا گیا تھا۔ کپڑوں کا بوجھ میں نے لاد رکھا تھا اور کمرہ خوب گرم تھا۔ میں اٹھا، کچھ ضروری کاغذ اور قلم دوات لے کر سونے کے کمرے میں چھوڑ آیا۔ میں نے سوچا کل سویرے ذرا جلدی اٹھ کر کام کروں گا۔ دفتر کے کمرے میں تالا لگاتے ہوئے میں نے ایک بار پوچھا کہ اگر وہ چاہے تو دفتر کو کھلا چھوڑوں۔ لیکن ’’نہیں نہیں بابو جی میرے پاس کافی کپڑے ہیں۔‘‘ اس کا یہ جواب سن کر میں قفل بند کر کے میں اپنے چھوٹے سے کمرے میں سونے کے لیے چلا گیا۔ بستر بچھا ہوا تھا، صرف لحاف پر میں نے کمبل ڈال لیا اور کپڑے بدل کر لیٹ گیا۔
بستر برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔ میں نے پاؤں سکیڑ لیے اور پھر انھیں آہستہ آہستہ پھیلایا۔ کئی طرح کے خیالات دماغ میں گھومنے لگے۔۔۔ بے ربط بے ترتیب۔ لیکن لحاف کی گرمی سے آنکھیں بوجھل ہو گئیں اور پھر بند۔
سوتے سوتے کبھی ماہی رام، کبھی اس بوڑھے اور کبھی اس کے مالک ٹھیکیدار کی صورتیں میرے سامنے آنے لگیں۔
میں نے دیکھا ماہی رام نے چور پکڑ لیا ہے اور وہ اسے مارتا مارتا پاس کے گاؤں تک لے گیا ہے۔ سب گاؤں والوں کو جمع کر کے اس نے اعلان کیا ہے کہ جو ہماری سبزی چرائے گا، اسے ایسی ہی سزا دی جائے گی۔ اتنا کہہ کر وہ پھر چور کو زدد کوب کرنے لگتا ہے ۔ چور نہایت درد بھری نگاہوں سے اس کی طرف تکتا ہے۔ اور میں یہ دیکھ کہ حیران ہوتا ہوں کہ وہ چور ٹھیکیدار گوپال داس کے سوا کوئی نہیں۔ وہی گٹھا ہوا سر، وہی پھولے ہوئے گال اور چپٹی ناک۔
میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا پاؤں سے رضائی اتر گئی ہے۔ زیادہ کھا نے کی وجہ سے سینہ کچھ بھاری ہے اور گلا سوکھا جا رہا ہے۔
میں نے سرہانے رکھے ہوئے لوٹے سے پانی پیا۔ پھر لحاف کو اچھی طرح سے اوڑھ کر دونوں طرف سے اسے پاؤں کے نیچے کر کے لیٹ گیا۔ باہر ہوا مکانوں سے ٹکریں مار رہی تھی۔ درخت حتی الامکان اس کا مقابلہ کرتے ہوئے جوش کی شدت سے چنگھاڑ رہے تھے ۔۔ شاں شاں ۔۔ شاں شاں۔۔ اور دور بادل کی گرج اور رعد کی کڑک سنائی دے رہی تھی۔ لیکن گرم ہو کر جسم ڈھیلا پڑ گیا اور میں پھر سو گیا۔
اس بار کیا دیکھتا ہوں کہ بارش ہو رہی ہے۔ تیز ہوا چلتی ہے۔ پاؤ پاؤ بھر کے اولے پڑے ہیں ۔ کیاریوں میں پانی کھڑا ہو جاتا ہے ۔ ساری کی ساری سبزی تباہ ہو جاتی ہے ۔ صرف اسی مرجھائے ہوئے سکڑے سمٹے پیلے زرد بینگن کا پودا رہ جاتا ہے ۔ پھر وہ بینگن میرے سامنے بڑا ہونا شروع ہوتا ہے اور میں دیکھتا ہوں کہ اس کی شکل اس بوڑھے کی سی ہو گئی ہے۔ گھٹنوں کو پاؤں میں لے کر سینے سے لگائے وہ سکڑا سمٹا اپنی لمبی چوٹی کے سہارے لٹک رہی ہے ۔ اولے اس کے سر پر لگتے ہیں اور وہ اس بینگن کے پودے کے ساتھ لٹکا ہوا جھولتا ہے۔
پھر میں دیکھتا ہوں کہ وہ بینگن کا پودا ایک بڑا اونچا نہ جانے جامن کا، نہ جانے آم کا درخت بن جاتا ہے ۔ لوگوں کی بھیڑ نیچے کھڑی شور مچا رہی ہے، ’’بوڑھا مر گیا۔ بوڑھا پھانسی لگا کر مر گیا۔‘‘
پھر میرے کانوں میں صرف ’’مر گیا مر گیا‘‘ کی آواز آتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ شاخ ٹوٹ رہی ہے۔۔۔ کڑ کڑ۔۔۔ کڑ کڑ۔۔۔
میری آنکھ کھل گئی۔ دیکھا کوئی زور سے دروازہ کھٹ کھٹا رہا ہے۔
جلدی سے گرم جرابیں پہن، سر پر ٹوپی پہن اور کمبل کو اچھی طرح لپیٹ کر میں اٹھا، دروازہ کھولا۔ دیکھا تو سکریٹری صاحب دوسرے کئی صاحب ساتھ کھڑے ہیں ۔
’’ کیا بات ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’رات آپ کے برآمدے میں بوڑھا مر گیا۔‘‘
میں نے دیکھا، اس میلی سی کالی چار پائی پر اپنے ارد گرد وہی میلا کچلا لحاف لپیٹے بوڑھا جھکا ہو پڑا ہے ۔ اس کا جسم اکڑ گیا ہے اور آنکھیں پھٹی پڑی ہیں۔ اس کا لحاف بھیگ گیا ہے ۔ دور دور تک پانی ہی پانی دکھائی دیتا ہے اور برآمدے کا سارا فرش گیلا ہے ۔ٍ
’’میں نے تو رات ہی اس سے کہا تھا کہ دروازہ کھلا۔۔۔‘‘ میں نے کہنا شروع کیا۔
لیکن سکریٹری صاحب نے میری بات کو کاٹ دیا، ’’میں چائے کے لیے کچن سے دودھ لینے جا رہا تھا۔‘‘ وہ بولے، ’’کہ اسے بارش میں بھیگتے پایا۔ آواز دی لیکن یہ ہلا تک نہیں۔ آکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ رات سردی میں اکڑ گیا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر انھوں نے ٹھیکہ دار کے آدمیوں کو حکم دیا کہ اسے اٹھوانے کا انتظام کیا جائے۔
اس کے دو دن بعد کچن کو جاتے ہوئے اچانک رک کر میں نے ماہی رام سے کہا، ’’خدا کے لیے اس پیلے سے بینگن کے پودے کو اکھاڑ دو۔‘‘
میری آواز میں کچھ ایسی بات تھی کہ ماہی رام حیران سا میری طرف دیکھنے لگا اور پھر اس نے کہا، ’’بہت اچھا سر کار۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.