Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بالکنی

ترنم ریاض

بالکنی

ترنم ریاض

MORE BYترنم ریاض

    کہانی کی کہانی

    کہانی ایک ایسے کشمیری نوجوان فوجی کی ہے، جو 15 سال بعد اپنے بچپن کے گھر میں واپس آتا ہے۔ حالانکہ وہ گھر اب اس کا نہیں ہے، پھر بھی وہ گھر میں بغیر اجازت داخل ہو جاتا ہے۔ منع کرنے کے بعد بھی وہ گھر کی ایک ایک چیز کو بغور دیکھتا ہے اور اپنی یادوں کو تازہ کرتا ہے۔ گھر کی عورتیں اس سے اصرار کرتی ہیں کہ ان کے گھر میں اس وقت کوئی مرد نہیں ہے اور نہ ہی ان کے یہاں کوئی دہشت گرد ٹھہرا ہے۔ وہ ان کی باتیں سن کر مسکراتا ہے اور گھر کے اس آخری حصہ میں پہنچ جاتا ہےجہاں کبھی بالکنی ہوا کرتی تھی۔ مگر اب اس جگہ دیوار ہے۔ وہ جب اس دیوار کو دیکھتا ہے تو اسے بالکنی کی یاد آتی ہے اور وہ منہ چھپا کر رونے لگتا ہے۔

    ’’چلو۔۔۔ چلو چلو۔۔۔ راستہ دو۔۔۔ ایک طرف۔۔۔ ہاں۔۔۔‘‘

    دو سپاہی گیٹ سے اندر داخل ہوئے۔ ان کے پیچھے ایک اعلیٰ افسر اور اس کے عقب میں اور دو سپاہی تھے۔

    ’’لیکن ہم نے کِیا کیا ہے بھیّا۔۔۔ یہاں تو کوئی نہیں ہے۔ ہم تو خود پریشان ہیں حالات سے۔ ہمارے گھر میں کوئی لڑکا بھی نہیں ہے۔ چوکی میں سب جانتے ہیں۔ یہاں تو آج تک کوئی۔۔۔ ہم یہاں ۱۵ برس سے رہ رہے ہیں۔‘‘

    ادھیڑ عمر عورت گھبراکر بولی تو سپاہی رُک کر اپنے افسر کی طرف دیکھنے لگا۔

    ’’سر۔۔۔ یہی تھا نا۔۔۔؟ جس رپورٹ کا آپ ذکر کر رہے تھے۔۔۔ اس میں یہی گھر تھا نا؟‘‘

    ’’نہیں ایسا کچھ نہیں ہے ماں جی۔۔۔ ہم بس ذرا اپنی ڈیوٹی پوری کر کے لوٹ جائیں گے۔‘‘

    افسر نے سپاہی کی بات نظرانداز کر کے عورت کو دیکھ کر دائیں بائیں دیکھا۔ جملے کا آخری حصہ ادا کرتے ہوئے اس کے چہرے پر پریشان سے تاثرات چھا گئے۔

    وہ مکان کے کشادہ صحن کے عین درمیان آ گیا اور بوسیدہ دیواروں کو بغور دیکھنے لگا۔ پھر آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتا ہوا مشرقی دیوار کے بالکل قریب چلا گیا اور انگلی سے ایک اینٹ کو چھوا جو پلستر اکھڑ جانے کی وجہ سے آدھی سے زیادہ نظر آ رہی تھی۔ اینٹ کی اوپری سطح بھُربھُرا گئی تھی اور اُس کی انگلی کا پور سرخ ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی صاف شفاف وردی کے گریباں کے قریب جہاں بہت سے تمغے لٹک رہے تھے، انگلی کو ہلکے سے رگڑ کر صاف کیا اور پھر وردی پر لگے سرخ داغ پر بڑے سکون سے ہاتھ پھیر کر دونوں ہاتھ پتلون کی جیب میں ٹھونس دیئے اور زینے کی طرف بڑھ گیا۔

    ’’تم یہیں رکو۔‘‘ اس نے سپاہیوں کو حکم دیا۔

    ’’میرا یقین کرو بیٹا۔۔۔ آج تک ہمارے یہاں سے نہ کوئی ایسا انسان پیدا ہوا۔۔۔ نہ کبھی آیا۔۔۔ نہ رکا۔۔۔ ہم شریف لوگ ہیں میرے شوہر بجلی کے محکمے میں کام کرتے ہیں۔‘‘

    عورت اس کے پیچھے پیچھے زینہ طے کرتی ہوئی سہمی سہمی سی کہہ رہی تھی۔ اُس کی نظریں افسرکے پہلو سے لٹک رہی پستول پر ٹھہر ٹھہر جاتیں۔

    ’’یہ۔۔۔ یہ میری بیٹی کا کمرہ ہے۔‘‘ افسر نے ایک دروازے پر دستک دی تو ایک لڑکی نے دروازہ کھولا اور خوف زدہ سی ہو کر باور دی اجنبی کو دیکھنے لگی۔

    ’’نہیں نہیں۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ یہ اپنی ڈیوٹی کر رہے ہیں۔‘‘

    ماں نے اپنی آواز میں اعتماد پیدا کرتے ہوئے کہا،

    ’’اس گھر کا ریکارڈ سارا محلہ جانتا ہے۔۔۔ بیٹا۔۔۔ اس مکان کی تو سارے محلے میں عزت ہے۔۔۔ ہم سے پہلے جو لوگ یہاں رہتے تھے۔ بہت ہر دل عزیز تھے۔ وہ میرے شوہر کے محکمے میں ایک بہت بڑے افسر تھے مگر ہر ایک کے کام آنے والے۔ اُن سے ہم نے خریدا تھا یہ گھر۔۔۔ ۱۵ برس پہلے۔‘‘

    ’’وہ لوگ۔۔۔ اب کہاں۔۔۔ ہیں۔‘‘ افسر دھیرے سے بولا،

    ’’خدا جانے بیٹا۔۔۔ صاحب خانہ کے انتقال کے بعد ان کی بیگم نے یہ گھر بیچا تھا ہمیں۔۔۔ وہ پھر غالباً اپنے آبائی گاؤں چلی گئی تھیں۔‘‘ عورت کی آواز میں خوف کا عنصر کچھ کم ہو گیا تھا۔

    ’’اور بچّے۔۔۔؟‘‘ افسر نے دروازے کی چوکھٹ کے اوپری حصّے پر کھدا ہوا کوئی لفظ پڑھنے کی کوشش کی تو اس کے ہونٹوں پر ایک بے کیف سی مسکراہٹ چھا گئی۔

    ’’بڑا بیٹا کہیں باہر پولیس یا فوج کی بڑی ٹریننگ کرنے گیا تھا۔۔۔ اور چھوٹا ماں کے ہی ساتھ۔۔۔‘‘

    ’’یہاں سامنے کوئی رہتا۔۔۔؟‘‘ افسر کمرے میں داخل ہو کر کھڑکی کھول کر باہر دیکھنے لگا۔

    ’’ہاں۔۔۔ رہتے ہیں۔۔۔ دو میاں بیوی۔۔۔ بوڑھے ہو گئے ہیں۔۔۔ ایک بیٹی ہے غزالہ۔۔۔ سسرال میں۔‘‘

    ’’ہاں۔۔۔ اچھا۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ ہے۔۔۔ غزالہ۔۔۔‘‘ وہ دھیرے سے بولا۔ اور کمرے سے نکل کر دوسرے کمرے کی طرف بڑھا۔ کمرے کے اندر سامنے کی دیوار میں ایک بڑا سا دروازہ لگا ہوا تھا۔ اس نے لپک کر دروازہ کھول دیا تو اُس کے منھ سے چیخ نکل گئی۔

    ’’نہیں۔‘‘ اس کے چہرے پر بے یقینی کے تاثرات چھا گئے تھے۔ دروازہ ادھ کھلا چھوڑ کر وہ غیر ارادی طور پر دو قدم پیچھے ہٹا تو عقب میں کھڑی لڑکی کے پاؤں پر اس کے جوتے کی ایڑھی پڑ گئی۔ لڑکی کے منھ سے گھٹی گھٹی سی چیخ نکلی، لڑکی سہم کر ماں سے لگ گئی۔

    ’’کیا ہوا۔۔۔؟‘‘ عورت نے لرزتی ہوئی آواز میں جانے کس سے پوچھا۔

    ’’یہ۔۔۔ یہ الماری کہاں سے۔۔۔ یہ الماری آپ نے۔۔۔ کب بنائی۔۔۔ یہ۔۔۔‘‘

    افسر نے جلدی سے پوچھنے کی کوشش میں کہا مگر الفاظ اس کی زبان سے ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھے۔

    ’’بہت دن ہوئے بیٹا۔۔۔ تم۔۔۔ تم اس کی تلاشی لے لو۔۔۔ دیکھ لو۔‘‘ عورت اب بری طرح گھبرا رہی تھی۔۔۔ اس نے جلدی سے الماری کے دونوں پٹ پورے وا کر دیئے تو افسر کی کانپتی ہوئی آواز رک رک کر اس کے کانوں میں پڑی۔

    ’’یہاں۔۔۔ یہاں پر۔۔۔ چھوٹی سی بالکنی تھی۔۔۔ جو۔۔۔ جو سامنے والے گھر کے برآمدے کی بالکل سیدھ میں بنی تھی۔۔۔ اور۔۔۔ اور میں بالکنی میں بیٹھ کر پڑھا کرتا تھا۔‘‘ افسر آس پاس دیکھتا ہوا کمرے کی دہلیز تک آ گیا۔

    ’’غزالہ برآمدے میں ٹہل ٹہل کر پڑھتی تھی۔‘‘

    ’’یہ۔۔۔۔۔۔ اوپر!۔‘‘ اس نے دروازے کی چوکھٹ پر نرمی سے ہاتھ پھیرا۔

    ’’یہاں یہ۔۔۔ میں نے اپنا نام۔۔۔ لکھا تھا۔۔۔ پرکار سے۔۔۔ بہت برس پہلے۔۔۔ پھر مجھے گھر سے دور ہوسٹل میں رہنا پڑا۔۔۔ والد صاحب انتقال کر گئے۔۔۔ گھر بدل گیا۔۔۔ میرا۔۔۔ مگر میرا بچپن۔۔۔ میری آدھی عمر۔۔۔ اس۔اس گھر میں۔‘‘

    افسر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے