Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بن باس

صغرا مہدی

بن باس

صغرا مہدی

MORE BYصغرا مہدی

    اجودھیا کے راجا دسرتھ کے بیٹے رام چندر جی کو بارہ برس کابن باس ملا تھا۔ رام اپنی بیوی سیتا اور بھائی لچھمن کے ساتھ بارہ برس تک جنگلوں میں رہے تھے۔ ریاضت کی زندگی گزاری تھی۔ بن باس۔ بارہ برس جنگل؟ ہاں یہ جنگل ہی تو ہے۔ انسانوں مشینوں اور عمارتوں کاجنگل۔۔۔ اور اس جنگل میں وہ سات سال سے بھٹک رہا ہے۔ ماجد کی نظروں میں یوپی کے چھوٹے سے شہر میں اپنا دومنزلہ مکان گھوم گیا۔ جس پر اس کے نام کی تختی لٹک رہی تھی۔ ’’ڈاکٹر عباس ماجد مقیم لندن۔‘‘ ماجد وِلا۔۔۔ وسیع اور شاندار سات کمروں پر پائیں باغ والا ماجدولا، اس کی راہ تک رہا تھا۔ غیرارادی طور پر اس کی نظریں اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ کا جائزہ لینے لگیں۔ دو بیڈ روم کا اپارٹمنٹ جو فرنیچر، گھریلو استعمال کی طرح طرح کی مشینوں سے اٹا ہوا تھا۔ اس نے کتنا چاہا تھا کہ گھر کا نام ابا کے نام پر رکھا جائے۔ ’’اختر منزل‘‘ لیکن ابا نہیں مانے اور ایک دن وہ کالج سے آیا تو گھر کے بڑے دروازے پر سنگ مرمر کا چھوٹا سا ٹکڑا نصب تھا اور اس پر لکھا ہوا تھا، ’’ماجد وِلا۔‘‘

    ان دنوں وہ ہاؤس جاب کر رہا تھا۔ کیا امنگیں، حوصلے اور ارادے تھے۔ بڑے بڑے پلان تھے۔ مگر چار سال۔۔۔ پورے چار سال وہ کسی اچھی نوکری کی تلاش میں ٹھوکریں کھاتا رہا۔ مگر نوکری نہیں، ہاں نہیں ملی۔ گانو میں چند سو روپلی کی وہ حقیر نوکریاں، وہ بھلا گانو میں کیسے رہتا۔ جہاں زندگی کی بنیادیں ضرورتیں بھی میسر نہیں آتیں۔ وہ فائنل امتحان دینے کے بعد ایک دفعہ ابا کے ساتھ گانو گیا تھا۔ گانو کے لوگوں میں بوڑھے بچے جوان سبھی تھے۔ وہ سب اس سے ملنے، اس کو دیکھنے آئے تھے۔ اپنی اپنی چھوٹی چھوٹی بیماریوں کا ذکر وہ بہت تفصیل سے کر رہے تھے۔ ان کی بات پوری طرح اس کی سمجھ میں بھی نہیں آرہی تھی۔ مگر کس قدر محبت اور اپنایت تھی۔ فخر تھا ان نظروں میں، اُف یہ کیا ہوا کیوں ہوا۔

    اسے اپنا سانس گھٹتامحسوس ہورہا تھا۔ اس نے آنکھیں بند کرکے سر کرسی کی پشت پر ٹکادیا۔ اسے لگا جیسے وہ اپنے گھر کے بڑے کمرے کے دروازے پر کھڑا ہے، جہاں ابا عشا کی نماز پڑھ کر قرآن شریف کی تلاوت کر رہے تھے۔ اوراماں اپنے کمرے میں جانماز پر بیٹھی اپنے پردیسی بیٹے کی سلامتی کے ساتھ واپس لوٹ آنے کی دعائیں مانگ رہی تھیں، ’’اے پاک پروردگار!میرے سونے آنگن کو آباد کردے۔ میرے بچے واپس آجائیں۔‘‘

    روز دوپہر کو وہ پڑوس کی دلیا کی اماں سے رامائن سن کر کس درد سے کہتی ہیں، ‘‘ اے خدا!رانی کو شلیا نے اپنے بیٹے کی جدائی کے دن کیسے کاٹے ہوں گے۔ یہ تو کوئی ماں ہی جان سکتی ہے۔‘‘ ہر صبح وہ اپنے بیٹے کا کمرہ صاف کرانا نہیں بھولتی ہیں۔ بہو کے بھاری کار چوبی جوڑوں اور بیٹے کی زربفت کی اچکن کو تھوڑے تھورے دن بعد دھوپ دے لیتی ہیں۔ اور ابا ٹیری کاٹ، ٹرالین کی قمیصوں، فارن بلیڈزاگرم سوٹوں، جرسیوں، الیکٹرک شیور کے درمیان گھر ے اپنے بیٹے کی محبت، چاہت او رسعادت مندی کا ذکر کرتے رہتے ہیں۔ اس کے لوٹ آنے کے ان وعدوں کو دہراتے رہتے ہیں، جن کے وفاہونے کا خود انہیں بھی یقین نہیں ہے۔

    سات سال میں وہ ایک دفعہ ماجد وِلا کو نوازنے گیا تھا۔ اس دن اماں نے مولا مشکل کشا کی نیاز دلائی تھی۔ گلگلوں سے مسجد کا طاق بھرا تھا۔ دور دور سے عزیز رشتہ دار اور دوست ملنے آئے تھے۔ گھر میں چراغاں ہوا تھا۔ جب رام چندرجی بن باس سے لوٹے تھے تو پورا اجودھیا دیوں سے جگمگا رہا تھا۔ شہر کے لوگوں نے خوب خوشیاں منائی تھیں۔ یہ دیوالی ہم اسی دن کی یاد میں مناتے ہیں۔ مگر کیا رام چندر جی کو بھی اپنے دیس لوٹنے پر اسی اکتاہٹ، بیزاری اور اجنبیت کا احساس ہوا تھا۔ کیا وہ بھی اپنے ملک کی غریبی، بیکاری، بے اصولی، ضروریاتِ زندگی فراہم نہ ہونے اور پیسے کی کمی سے گھبراکر کسی دوسرے امیر، ترقی یافتہ تہذیب یافتہ ملک اڑکر چلے گئے تھے۔ آرام و عیش کی خاطر، پیسا بٹورنے، بینک بیلنس بڑھانے۔

    ارے آج اسے یہ کیا ہو رہا ہے۔ آج کلینک کے اس چھوٹے سے واقعے نے اس کی سوچوں کا رخ یوں پھیردیا ہے؟ چھوا سا واقعہ، یہ چھوٹا سا معمولی واقعہ ہے۔ تکلیف، درد، نفرت اور حقارت میں ڈوبی اس بوڑھے کی آواز بھی اس کے کانوں میں گونج رہی تھی، ’’میں اس کالے ڈاکٹر سے علاج نہیں کراؤں گا۔ نہیں کراؤں گا۔ نہیں۔ کبھی نہیں۔‘‘ کالا ڈا کٹر۔۔۔؟ ذلت و توہین کے احساس تلے وہ دباجارہا تھا۔ آئینے میں اس کا عکس منہ چڑا رہا تھا، ’’میرا لال میرا چاند۔‘‘ اماں کے الفاظ اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔۔۔ رام چندر جی نے اپنے ملک میں رہ کر دکھ اٹھائے، تکلیفیں سہیں، اس کی خدمت کی، ایسا راج کیا جو ’’رام راج‘‘ کہلایا۔ جو آج بھی ترقی یافتہ زمانے میں حکومتوں کا آئیڈیل ہے اور تم عباس ماجد یہاں پڑے ہو۔ زندگی کی آسایشیں حاصل کرنے کو، پیسا بٹورنے کو، اپنے بچوں کا مستقبل بنانے کو۔

    اس نے گھبراکر چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ سب کھڑکیاں دروازے بند تھے۔ کمرے میں زیرو بلب کی مدھم زرد رشنی پھیلی ہوئی تھی۔ دن بھر کی شدید محنت سے چور اس کی بیوی بے خبر پڑی سورہی تھی۔ اور بچے؟ اسے لگا کہ جیسے بچے اس کے پاس کھڑے اس سے سوال کر رہے ہوں کہ رام کو بن باس کیکئی نے دیا تھا اور ہمیں؟ ہمیں یہ بن باس کس نے دیا ہے؟ بولو کس نے دیا ہے؟ کس نے د یا ہے؟ وہ پسینے میں شرابور ہورہا تھا۔ چاروں طرف اندھیرا ہی اندھیرا۔ اے خدا! وہ کب تک اس گھٹی ہوئی فضا، اس ٹینشن کی کیفیت میں زندہ رہ سکتا ہے؟ تو وہ کیا کرے؟ کیا کرے؟ اسے لگا جیسے اندھیرا رفتہ رفتہ کم ہو رہا ہے او رایک رشنی کی کرن جگمگارہی ہے۔ تو۔ تو اس کا بن باس ختم ہوا۔ اس نے سکون کی سانس لی۔ خدا کا شکر ہے۔ اس کا بن باس صرف سات سال کا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے