سمندریوں تو محض پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ ہے مگر ہر لمحہ اس کی بدلتی ہوئی شکل لوگوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہوتی ہے۔ جب ہوا تیز ہو تو لہریں ساحل پر ایک شور کے ساتھ ٹکراتی ہیں اور توپانی دور تک ریت پر چڑھتا چلا جاتا ہے اور پھر تیزی سے واپس لوٹنے لگتا ہے اور اسی وقت، ایک نئی، آتی ہو ئی لہر، جاتی ہوئی لہر سے ٹکرا کے شور کرتی ہے۔ جب ہوا کم ہوتی ہے اور سمندر میں مد کی کیفیت ہوتی ہے تو لہریں آہستہ آہستہ پگھلتے ہوئے شیشے کی طرح پھسلتی ہوئی ساحل پرآجاتی ہیں۔ شاید یہ عمل زندگی کے مد و جزر کی غمازی بھی ہے، جوانی کے جوش اور اترتی عمر کی کہا نی، اس متحرک سمندر کے اوپر پرسکون، ساکت آسمان اور اس کا لا محدودپھیلاؤ کائنات وسعت کا ایک نمو نہ بھی ہے اور زندگی کے آزاد ہونے کانقیب بھی-
اڑتے ہوئے پرندے آسمان کے جمود کو توڑ رہے تھے. انسان کی طرح شاید ان کو بھی اپنا ٹھکانہ معلوم نہ تھا۔قدرت سب کو کشاں کشاں ایک سمت لئے جارہی تھی۔ وہ منزل فنا کی منزل تھی لیکن ان کو اس کا گمان بھی نہ تھا۔ ان کی پروازہی ان کے لئے حیات آفریں تھی، ایک منزل نا معلوم کی طرف مراجعت، یہی بصیرت انسان کے لئے اندیشۂ دراز تھی۔
شہر کے کبوتر خانوں میں رہنے والے جوکثیف ہوا میں سانس لینے کے عادی ہو گئے تھے، سا حل سمندر، ایک تازگی اور ایک آزادی کا احساس دیتا تھا۔ مگر جو ماہی گیر سمندر کے کنارے گاؤں میں رہتے تھے ان کو اس قسم کا کوئی احساس نہ تھا شاید اس وجہ سے، کہ گھٹن خود بھی آ زادی کی آرزومند ہے اور جو آ زاد ہے اسے آ زادی کی فٖضا کی قدر نہیں۔
سمندر کے اس ساحل پرہزاروں آدمی آتے تھے۔سندھی، پنجابی ، کچّھی، مکرانی۔ بلوچ اور پٹھان۔
سندھیوں کا ایک تین آدمیوں کا چھوٹا سا گروہ اک تار ے اور ہارمونیم پر، ایک مقبول سندھی دھن بجاتا تھا اور شہباز قلندر کے مزار کے لئے چندہ مانگتا تھا۔ پٹھان پگڑ باندھے نسوار چباتے تھے۔ پنجابی سینہ تان کے چلتے تھے اور تکے کی بوٹیاں منٹوں میں چبا جاتے تھے۔سب یہاں کی ٹھنڈی اور آزاد ٖفضا میں اپنی قومیتوں کو بھول کر بس ایک قوم بن جاتے تھے۔ ہر ایک اپنے طریقے سے اس فضا میں خوش تھا۔
کچھ سڑک کے کنارے کی دیوار پر بیٹھ کر سمندر کو دیکھتے۔ کچھ اپنی آل اولاد کے ساتھ پانی کے کنارے ٹہلتے تھے۔ کچھ ایک دوسرے پر پانی کے چھنٹے اڑاتے اور زور زور سے ہنستے۔ لڑکیوں پر پابندی تھی کہ زور سے نہ ہنسیں اور پیروں سے اوپر کے کپڑے نہ بھگوئیں کہ جس سے جسم کے قوس نمایاں ہو جائیں۔ لڑ کوں پر یہ پابندی نہ تھی۔ لڑکیاں خوش تھیں، اس لئے کہ انہوں نے مردوں کے مقابلے میں اپنی حیثیت کو ثانوی تسلیم کر لیا تھا۔ پھربھی جوانی کی جولانی کی قدرتی امنگیں ان کوٹھٹھے لگا کر ہنسنے کی ترغیب تو دیتی رہتی تھیں۔ لڑکے لڑکیاں، بچے اور بڑے سب ہی خوش تھے، خوشی سے ہنس رہے تھے، کہ سمندر کے کنارے سماجی قید کچھ کم ہو جاتی تھی، لوگوں کی سیلی ہوئی زندگی کی دھند میں کچھ روشنی آجاتی تھی، کچھ شور سنائی دینے لگتا تھا۔ کچھ لوگ سمندر کے کنارے گھوڑے اور اونٹ کی سواری کرتے۔ کچھ چاٹ کھاتے اور گنے یا نارنگی کا رس پییتے۔ ایک ہجوم رہتا تھا۔ تھوڑی دیر کے لئے ہی سہی، سب اپنی الجھنوں اور پریشانیوں کو بھلا دیتے ۔پولیس والے بھی سینہ پھلا ئے، مونچھوں پر تاؤ دیتے، موقعہ پاتے ہی گھوڑے اور اونٹ والوں اور خوانچہ والوں کا گلا دباکر اپنی جیب گرم کر لیتے تھے۔ لیکن جب کبھی کوئی فوجی افسر کسی کام سے آ جاتا توان کے سینے کے غبارے سے ہوا نکل جاتی اور وہ سر جھکا لیتے تھے۔ لڑکیاں ان سجیلے وردی پوشوں کودل دے بیٹھتیں اور دعائیں مانگتیں کہ ان کی شادی کسی فوجی افسر سے ہو جائے۔جو شان اور تحکم ان میں تھا کسی میں نہ تھا۔ ہر سپاہی ان کے لئے ایک ڈھول سپہیا تھا۔ وہ ان کے چمکتے بوٹوں پر سررکھنے کی آرزومند تھیں خواہ وہ جنرل رومل ہو یا ’’چاکلیٹ کریم سولجرؔ۔‘‘ سپہ گری ہمیشہ سے ایک معزز پیشہ رہا ہے۔ سپہ سالار بادشاہوں کے دربار میں اونچے درجوں پر فائز رہے ہیں۔ اس زمانے میں وہ سپہ سالار اور بڑے کماندڑ، تلوار لے کے چلتے تھے اور اِس ایٹم بم کی دنیا میں قمچی۔
مداری، سا نپ اور نیولے کی لڑائی کراتے تھے۔ کچھ بازی گر،ہاتھ کی صفائی دکھا تے تھے۔ کہیں ریچھ کا ناچ ہو رہا ہو تا، کہیں چند غریب لوگ پنجرے میں بند پرندے بیچنے کو، لئے پھر رہے ہوتے تھے۔ لوگ انہیں پیسے دے کر پرندوں کو آزاد کرا دیتے تھے لیکن کوئی ان کو پرندوں کو پکڑ کے قید کرنے کی سرزنش نہیں کرتا تھا۔
موسم خوشگوار تھا۔ سورج ڈوبنے میں ابھی دیر تھی۔ ایک طرف کچھ لوگ ایک گول سا حلقہ باندھے کھڑے کچھ دیکھ رہے تھے۔ دائرے کے درمیان میں ایک بندر والا بندر کے کرتب دکھا رہا تھا۔ بندر والا ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ اس نے ایک میلی اور جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی نیلے رنگ کی قمیض پہن رکھی تھی۔ اس کے او پر، ایک خاکی سوئیڑ، جو اکثر فوجیوں کے متروکہ مال کی دوکان یا لنڈا بازار سے سستا مل جاتا تھا، شلوارجو کبھی نیلی رہی ہوگی اب میلی ہوتے ہوتے، اس کی زندگی کی طرح، بدرنگ ہوگئی تھی۔ شلوارجس کی لمبائی اس کے قد کی مطابقت سے بہت لمبی تھی جس کے پائنچو ں میں زمین پر گھس گھس کے، اس کی خودداری کی طرح، پھوسڑے نکل آئے تھے۔ پیر میں ایک بوسیدہ سا بوٹ تھا۔ بال میلے تھے اور ایک دوسرے میں چپک گئے تھے۔ مونچھیں کالی تھیں۔ کھچڑی بالوں کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی۔ وہ بار بار اپنی زبان اپنے پھٹے ہوئے ہونٹوں پر پھیرتا تھا۔ چہرے پر تھکن اور مایوسی کے اثار تھے، ایک ایسی تھکن جو دائمی تھی۔ ایک ایسی مایوسی جو اس کی روح میں سرایت کر گئی تھی۔ حلقوں کے اندر دھنسی ہوئی چھوٹی چھوٹی آنکھوں سے حزن ٹپکتا تھا اور وہ دیکھنے والوں سے یہ سوال پوچھ رہی ہو تی تھیں کہ سارے دکھ مجھے ہی کیوں دے دئے؟ ایسے دکھ جو یوں لگتا تھا کہ جیسے اس کے خمیر کا جزو تھے۔ اس کی غمناک شٖخصیت کے اثر سے دیکھنے والے بھی افسردہ ہو جاتے تھے اور سوچنے لگتے تھے کہ یہ بندر کا تماشا ہے یا انسان اور جانور، دونوں کا مشترکہ تماشا، لیکن اشرف المخلو قات کو اس سے غرض نہیں کہ کون کس حال میں ہے اس نے سب کچھ قادرِ مطلق پر چھوڑ رکھا تھا۔
بندر کے گلے میں ایک ڈوری بندھی ہوئی تھی جس کا دوسرا سرا، بندر والے کے سوئیڑ کے دائیں ہاتھ کی آستین کے اندر چلا گیا تھا۔ ڈوری اس کے سیدھے ہاتھ کی ایک ڈھیلی گرفت میں تھی۔ الٹے ہاتھ میں ایک تقریباً چار فٹ لمبی قمچی تھی جس کے اشارے پر بندر اپنے کرتب دکھا تا تھا۔ بندر بہت ڈرا ہوا تھا، اس کی نظریں مسلسل اپنے آقا اور اس کی قمچی پر لگی ہوئی تھیں، جس کے اشارے پر وہ اپنا کرتب دکھارہا تھا۔ وہ ڈوری کو اپنے ہاتھ سے پکڑے رہتاکہ اس کا جھٹکا براہ راست گردن میں نہ پہونچے۔ بندر نے ایک جاکٹ پہنی ہوئی تھی جو نہایت ہی خراب سلی ہوئی تھی۔ رنگ کبھی سفید رہا ہوگا، اب مٹ میلا تھا۔۔۔ گلے میں ایک سرخ رنگ کا پٹہ تھاجس میں ایک گھنگھرو ٹکا ہوا تھا۔ وہ اپنے مالک کے مقابلے میں زیادہ چاق وچوبند تھا۔
دائرے کے بیچ ، فرش پر ایک چھوٹا سا مونڈھا رکھا تھا جس پر اس نے بندر کو بٹھا رکھا تھا۔ بندر ایک گومگو کی کیفیت میں، اپنی چھوٹی آنکھوں کو ٹپٹپا کے، کبھی اپنے تماش بینوں کو دیکھ لیتا اورکبھی کبھی اپنے پیروں کو دیکھنے لگتا۔ بندر والا مسلسل بول رہا تھا۔ اس کی قمچی کے اشارے پر بندر نے دو تین قلابازیاں کھائیں اور پچھلے دو پیروں پر کھڑے ہو کر ہاتھ جوڑ کر مجمع کو دیکھا اور پھر اپنے مونڈھے پر بیٹھ کر اپنے ناخونوں کو دیکھنے لگا۔ لوگوں نے خوب تالیاں بجائیں۔
بندر والے نے تھیلے سے نکال کر ایک لال ٹوپی بندر کے سر پر رکھ دی اور حاظرین کو مخاطب کر کے کہا ’’اب بندر بادشاہ اپنی شادی بنانے جا رہے ہیں۔‘‘
بندر کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ڈوری کو ہلکا سا جھٹکا دیا۔ اور جب بندر نے اس کی طرف دیکھا اس نے بندر سے پوچھا
’’بادشاہ شادی کروگے؟‘‘ بادشاہ نے انکار میں سر ہلا دیا۔
’’شادی بنا کے لوگ خوش ہوتے ہیں تم بھی خوش رہوگے۔‘‘
بندر نے پھر انکار میں سر ہلا دیا۔ بندر والے نے اسے حیرت سے دیکھا۔
’’سب لوگ شادی کر تے ہیں کیا وہ خوش نہیں؟‘‘
بندر نے پھر انکار میں سر ہلا دیا۔
’’ارے پاگل ہو گئے ہو کیا؟‘‘ بندر والے نے حیران ہو کر بندر کو اس طرح دیکھا گو یا اداکار، اسٹیج پر اپنا مکالمہ بھول گیا ہو۔
بندر نے پھر انکار میں سر ہلا دیا۔ سارے تماشبین ہنسنے لگے۔ بندر نے سب کو حیرت سے دیکھا اور اپنی چھوٹی چھوٹی آنکھیں ٹپٹپائیں جیسے کہ رہا ہو اس میں ہنسنے کی کیا بات ہے! پاگل‘‘ میں تو نہیں۔
’’اچھا، اب میں سمجھا‘‘ بندر والے نے مسکرا کے کہا ’’تم شادی کیوں نہیں بنانا چاہ رہے ہو۔ میں نے اجازت نہیں دی تھی کہ گھر والی کا خرچہ اٹھانے کے لئے بہت پیسہ چاہئے۔‘‘
بادشاہ نے پھر انکار میں سر ہلا دیا اور ٹوپی اتار کے اپنے مالک کی طرف پھینک دی۔۔بندر والے نے ٹوپی جھولے میں ڈال دی اور ایک ڈگڈگی نکالی اور اسے بجاتے ہوئے مجمع سے کہا۔
’’شادی کرنے کے لئے ،شادی کے وقت ، پیسوں کی ضرورت پڑ تی ہے مگر پیٹ بھرنے کے لئے روج پیسوں کی جرورت پڑ تی ہے۔ بادشاہ ابھی آپ کو کرتب دکھائےگا، جو کچھ دے سکتے ہو، دے دو ہم دونوں آپ کو دعائیں دیں گے، اﷲ آپ کو اپنی پناہ میں رکھےگا۔۔۔ آپ کی شادی بنی رکھےگا۔ اﷲ نے آپ لوگوں پر مہر بانی کی ہے، پانی ملتا ہے، اس کی رحمت سے آپ کو روٹی ملتی رہی۔ مہربانو، آپ کو معلوم نہیں کہ پیٹ کی آگ کیا ہوتی ہے، ہم دونوں اچھی طرح جانتے ہیں۔ کبھی جب ہم سارا دن پھر کر کچھ کما نہ سکے کھانے کو بھی کچھ نہ تھا۔ ہم دونوں نے صرف پانی پی کر پیٹ کی آگ کو بجھا نے کی کوشش کی، لیکن میں اﷲ کی قسم کھا کے آپ سے کہہ رہا ہوں بھائیو، یہ آگ پانی سے نہیں بجھی ،یہ ایک ایسی آگ ہے مہربانو جو پانی سے نہیں بجھتی ہے۔ بھائیو مدد کرنا۔ جاؤ بندر بادشاہ لوگوں کو سلام کرو اور صاحب لوگوں سے پیسے جمع کر لاؤ۔ اتنا لانا کہ کچھ شادی کے لئے بھی بچا سکو ہم دونوں مل کے کوئی بندریا خرید لیں گے اور تمہا را گھر بس جائیگا، اسی طرح جیسے سب کا بستا ہے اور تم کو کرتب دکھانے کو ایک ساتھی مل جائےگا۔ لوگ پیسے بھی جیادہ دیا کریں گے۔ جاؤ بادشاہ!۔۔۔ جاؤ بادشاہ جاؤ!‘‘ سب لوگ قہقہہ مار کے ہنسنے لگے، بندر والا بھی مسکرادیا پھر بولنے لگا۔
’’پیسے کے بغیر بندریا تمہارے گھر نہیں آئےگی۔۔۔‘‘ کسی نے مجمع میں سے آواز لگائی۔ ’’مگر جو جنگل میں آزاد ہو تے تو پیسے کی ضرورت نہ پڑتی اور بندریا مل جاتی اور تم سے اپنا بوجھ اٹھانے کو بھی نہ کہتی۔۔۔ لیکن بھاری بھرکم بندر اسے تم جیسے معصوم بندر کے ساتھ رہنے نہ دیتے۔‘‘
’’وہی رواج یہاں بھی ہے۔ عورت ہو، دولت ہو، سرکاری زمین ہو۔‘‘ ایک پتلون قمیض میں ملبوس نوجوان نے بات کاٹ کر کہا ’’تو چلے جاؤ جنگل میں، دوزخی۔‘‘ ایک بغیر مونچھ کی داڑھی والے نے گرہ لگائی۔ لوگوں نے ٹھٹھا لگایا۔
’’برا نہ ماننا لوگو،بادشاہ کو سمجھا رہا تھا مگر اس کی سمجھ بس پیٹ بھر نے تک ہے اور اس کے پیٹ بھرنے کا جمّہ اﷲ نے مجھکو دیا ہے، اسی طرح جس طرح اپنے بچوں اور اپنی عورت کے پیٹ بھرنے کا جمہ واری ہر گھر والے کی ہے۔‘‘، ’’چاہے وہ آپ سے محبت کرے یا نہ کرے۔ ہے نا۔‘‘ قمیض پتلون میں ملبوس نوجوان نے ہنس کر کہا، لو گوں نے ٹھٹھ مارا۔
’’ہاں!‘‘ ایک دوسرے آدمی نے کہا ’’اس کا خرچہ اٹھانے کی ذمہ داری اسکے مرد کی ہے۔ اگروہ اسے کھانا نہ دے تو وہ جہاں پیٹ بھرےگا ،چلی جائےگی با لکل اس طرح بھوک میں بندر بادشاہ بھی وہاں چلے جائیں گے جہاں پیٹ بھر کھانا ملے۔۔۔‘‘ پھر ذرا توقف کے بعد بولا ’’۔۔۔اگر ڈوری ٹوٹ جائے، ہے نا۔‘‘
’’ڈوری کیسے ٹوٹ جائیگی۔ نکاح کی ڈوری سے بندھی ہو تی ہے۔ دوسرے مردوں کو دیکھ بھی نہیں سکتی۔ جو جائے کہیں، تو بےغیرت کا گلا نہیں کٹ جائیگا!‘‘
’’میرے یار جب دن بھر کام پر ہوتے ہو توکون دیکھتا ہے کہ کہاں گئی اور کون آیا اور پھر برقع تو کیسا اچھا پردہ ہے کہ پارسا اور گناہگار دونو ں کی پردہ داری کرتا ہے، میرے یار، بیوی کے سر پر برتن پھوڑنے اور گلا کاٹنے سے اپنی ہی عورت ہمیشہ کے لئے چلی جاتی ہے، اس سے سوائے اپنے نقصان کے اور کچھ ملتا نہیں، میرے بڑے بھا ئی! وفا کی ڈوری تو 3 باندھتی ہے جسے موت کاڈر نہیں۔‘‘
’’کیا بکواس کر رہے ہو‘‘ مجمع میں سے کسی نے ڈانٹا ’’کیا ڈوری نے سب کو باندھ رکھا ہے۔‘‘ ایک دبلے پتلے لمبے آدمی نے کہا۔
’’ہاں۔ بڑا دل تو بس کتے کا ہی ہے، جو بھوکا رہ کے بھی ساتھ نہیں چھوڑتا اپنے مالک کا۔ اس کی ڈوری بغیر لالچ کے ہے۔ باقی سب کی فائدے یا مجبوری سے ہے۔‘‘
’’تو کیا کوئی کسی کا وفادار نہیں؟‘‘ کسی نے غصّہ سے کہا۔
’’ہیں، بس سب کے اپنے مطلب ہیں۔ غرض کی ڈوری کبھی نظر آتی ہے، کبھی نہیں۔‘‘
’’جیسے۔ جو ﷲ سے بندھی ہوئی ہے؟‘‘ کسی نے بھا ری لہجہ میں تائید کی۔
’’وہ ڈوری بھی مطلب کی ہے۔ دوزخ کا ڈر اور جنت کی لا لچ نہ ہوتی تو ہم میں سے بھی بہت سارے کہا ں کے کہا ں نکل چکے ہو تے، بندر بادشاہ سے بھی آگے۔‘‘ ایک لمبی ناک والے اور پستہ قد نے کہا۔
’’سچ تو کہہ رہا ہے۔ دین کو تو ہم نے چھوڑہی دیا ہے۔‘‘ ایک بھا ری آواز والے، جن کے منہ میں پان تھا، بڑی مشکل سے گول مول الفاظ میں بولے۔
’’ماف کرنا صاحب جی۔۔۔‘‘ بندر والا مجمع کو مخاطب کرکے بولا ’’ڈوری کی بات نہ کرو بس بادشاہ کے کرتب دیکھو بزرگو۔‘‘ پھر اس نے ڈوری کو ہلکا سا جھٹکا دیا۔ بندر نے اس کی طرف دیکھا۔ بندر والے نے کہا ’’باد شاہ کلابازی کھاتے ہوئے جاؤ، سامنے والے بڑے صاحب کے پیر پڑو اور پیسے لے آؤ۔‘‘ اورسامنے کھڑے ہوئے ایک خوش پوشاک آدمی کی طر ح اشارہ کیا جس کے ہاتھ میں بریف کیس تھا، بندر کی ڈوری ڈھیلی کر دی قمچی کو ہلکا سا جھٹکا دیا۔ بند ر نے ایک قلابازی کھائی اور اُس آدمی کی طرف چلا گیا۔ اس خوش پوشاک آدمی کے پاس پہنچ کے اس نے اپنا ہاتھ اس کے جوتے پر رکھا، سر زمین پر لگایا جیسے سجدہ کر رہا ہو اور پھر اس کی پتلون کا پائینچہ پکڑ لیا اور اس کے چہرے کو دیکھنے لگا۔
’’ارے اس نے تو میری پتلون گندی کر دی۔۔‘‘ وہ غصے سے چلایا ’’ہٹاؤ اس کو۔‘‘
بندر والے نے ڈوری کو جھٹکا دیا اور بندر نے اس آدمی کی پتلون چھوڑدی اور واپس آکے اپنے مونڈھے پر بیٹھ گیا۔
’’بدمعاش ہو تم۔ تم نے بندر کو اس طرح سد ھا یا ہے زبردستی پیسے لینے کو۔‘‘ وہ بولا
بندر والے نے کچھ کہنے کے لئے منھ کھولا ہی تھا کہ مجمع میں سے ایک آدمی بول پڑا۔
’’اس کو برا نہ کہو ۔ یہ ایک غریب آدمی ہے جو اپنا اور اپنے بندر کا پیٹ پالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہزاروں بدمعاش ہیں جو دولت میں لت پت ہیں اور اونچی کرسیوں پر بیٹھے ہیں، ان کو بدمعاش کہنے کی کسی میں ہمت نہیں، جب بندر نے سجدہ کیا تو کچھ نہ بولے تھے‘ مجھے ایسے لوگ اچھے نہیں لگتے جو سجدہ تو کر وا لیں لیکن اس کا اجر نہ دے سکیں۔ ‘‘
’’اس ملک کی یہی ریت ہے۔ اسی لئے غریب صبح سے شام تک محنت کر تا ہے پھر بھی غریب ہی رہتا ہے۔۔۔‘‘ ایک بلوچی نے کہا۔
’’صاحب جی، میں نے بندر کو اس طرح سدھایا نہیں، یہ ایک جانور ہے اس نے گلط کام کیا۔‘‘ بندر والے نے بات اچک لی۔ ’’مجھے مافی دو،گھر لے جا کے اسے بہت مارونگا کہ آ ئندہ ایسا نہ کرے کسی گاہک کے ساتھ۔‘‘
’’کیوں ماروگے ایک بے زبان جانور کو، اس کی سمجھ میں کیا آئےگا کہ کیوں مار پڑ رہی ہے۔ پتلون کا پائینچہ تو چھوڑو، یہاں تو لوگ گلا پکڑ لیتے ہیں، روز لوگ غلط کام کرتے ہیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔‘‘
’’وہ تو اﷲ سے بھی نہیں ڈرتے۔‘‘ مجمع سے آواز آئی۔
’’جانور صرف مار پیٹ سے ہی سدھرتے ہیں۔‘‘ ہنستے ہوئے کسی نے آواز لگا ئی
’’صرف تم جیسے جانور۔‘‘ کسی نے غصے سے کہا۔
’’خبردار جو بکواس کی‘‘ ادھر سے جواب آیا۔
’’تو کیا کر لو گے میرا۔‘‘
’’صاحب جی ایسی باتیں نہ کریں۔ مجھ غریب کی بات سنیں۔ میں یہا ں دو وقت کی روٹی کمانے آیا ہوں آپ لوگوں کی ناراجگی سے میں اوربادشاہ دونوں بھوکے سوئیں گے، سوئیں گے کیسے جب پیٹ میں کھانا نہ ہو نبھائیو تو نیند نہیں آتی اور صاحب جی بتا چکا ہوں کہ یہ آگ پانی سے نہیں بجھتی ہے، صاحب جی میں تو اپنی بھوک برداشت کر لیتا ہوں مگر بادشاہ کی صورت دیکھ دیکھ کے رات بھر روتا رہتا ہوں، وہ کچھ کہتا نہیں بس میرے پاس آکے مجھے دیکھتا رہتا ہے اپنی معصو م آنکھیں ٹپٹپا کے مجھے اس طرح دیکھتا ہے جیسے میں ﷲ کی طرف دیکھتا ہوں، کیسا دل کٹتا ہے میرا، کیا بتاؤں۔‘‘ اس کے آنسو بہنے لگے ’’صاحب جی اس کی جندگی سے میری جندگی ہے اور میری جندگی سے اس کی جندگی بندھی ہوئی ہے۔۔۔ بس اوپر ﷲ اور نیچے ہم۔۔۔ جیسی مالک کی مرضی! ہم دونوں صبح نکلتے ہیں، سارا دن شہر کا چکر لگاتے ہیں۔ جہاں لوگ ہوتے ہیں بادشاہ اپنے کرتب دکھا دیتا ہے کچھ پیسے مل جاتے ہیں۔ جب چلتے چلتے بادشاہ تھک کر بیٹھ جاتا ہے تو میں اسے اپنے کندھے پر بٹھال لیتا ہوں اور جب میں بھی تھک جاتا ہوں تو کسی اونچے مکان کے سائے میں لیٹ جاتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ کبھی تو ہمارے دن بھی پھیرےگا۔۔۔ بہت سے لوگ اس امید پر جی رہے ہیں اور ہم دونوں بھی۔۔‘‘ وہ آگے نہ بول سکا اس کے آواز رندھ گئی اس نے پھر بولنا شروع کیا ’’اور صاحب جی جب رات ہو جاتی ہے تو ہم اپنی جھونپڑی کی طرف چل دیتے ہیں، کبھی ایک گھنٹہ کبھی دو تین گھنٹہ لگتا ہے پہونچنے میں، بس سے جا نہیں سکتے، کنڈکٹر بادشاہ کو بس میں نہیں بٹھاتے اور صاب جی جھونپڑی میں اگر کچھ سوکھے روٹی کے ٹکڑے مل جاتے ہیں کھا کر پڑ لیتے ہیں ورنہ بھوکے ہی سونے کی کوشش کرتے ہیں اور دوسرے دن سے پھر یہی چکر۔ سالوں سے یہی جندگی ہے ہماری، اب اندھیرا ہونے والا ہے کچھ کمایا نہیں۔‘‘ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ چپ ہو گیا۔
کچھ دیر مکمل خاموشی رہی اور پھر کسی نے کہا ’’اور کوئی کام کیوں نہیں کرتے؟‘‘
’’پہلے بہت دوڑا تھا کہیں کام نہیں ملا تھا، پاس کی ایک جھونپڑی میں ایک اور بندر والا رہتاتھا اس نے کہا کہ بندر لے لو۔ تو میں نے بادشاہ کو کرجے پرکھرید لیا اور اپنے دوست کی مدد سے اسے سدھا لیا اور بھا ئیو، اگر یہ مجدوری نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘
’’مل میں نوکری کر لو، میں دلوا دونگا۔‘‘ ایک معمر شخص نے کہا
’’تو پھر بادشاہ کو کون دیکھےگا سائیں‘‘۔
’’ایک جانور کے لئے کیوں اپنے زندگی برباد کر رہے ہو،چھوڑ دو کہیں چلا جائےگا۔ دفع کرو اس کو۔‘‘
’’اس جانور نے ہی تو میرا ساتھ دیا سائیں جی، آدمی تو کوئی نہیں آیا میری مدد کو؟ یہی تو میرے برے وقت کا ساتھی ہے اس کے وجہ سے روٹی ملتی رہی۔ جب میں بھوکا سوتا تھا تو یہ بھی بھوکے پیٹ رات کاٹتا تھا اپنے بورےٗ سے کو دکے میرے پاس آ کر میرا ہاتھ پکڑ لیتا تھا اور میرے ساتھ بیٹھا میرے دل کو ڈھارس دیتا رہتا تھا۔ بس یہ بے زبان جانور میرے دکھ کا ساتھی ہے، بس اﷲ سے دعا مانگ کر، بادشاہ کے سہارے اور آپ لوگو ں کی مہربانی سے دن گجر جاتا ہے۔ ﷲکے اتنی بڑی دنیا میں بس بادشاہ ہی تومیرا سہارا ہے۔‘‘ اس کے آنسو پھر بہنے لگے۔
’’بہروپیا ہے، یہ آنسو پیسے لینے کا ایک ڈھونگ ہے۔‘‘ کسی نے آواز لگائی۔
’’چپ رہو، ایک غریب آدمی کو اس طرح کہہ کر گناہ مت لو، اگر کچھ دے سکو تو دیدو ورنہ چپ رہو۔‘‘ کسی نے بولنے والے کو سرزنش کی۔سب چپ رہے۔
’’بادشاہ !‘‘ بندر والے نے بندر کی طرف دیکھ کے کہا ’’چلو کہیں اور چلیں ورنہ پانی پی کر سونا ہو گا‘‘۔
’’ہاں جاؤ وہاں جہاں انسان ہو ں ،ان جانوروں کا حال تو تم نے دیکھ لیا‘‘ لمبی ناک والے نے لوگوں کی طرف ہاتھ سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
’’ﷲ کے بنائے ہوئے انسان کو جانور کہہ رہا ہے۔ شرم کر دہرئے!‘‘ شرعی داڑھی والے نے درشت لہجے میں کہا۔
’’مجھے دہریہ کہہ کر تجھ کو جنت کا پاس نہیں مل جائےگا تو تو ہے ہی جانور بندر کاکزن۔‘‘ لمبی ناک والے نے کہا۔
’’تیرے پاس کیا شجرۂ نصب ہے جو اس طرح کا کفر بک رہا ہے، جاہل۔‘‘
’’لائبریری جا کے پڑھ، پھر آنا بات کرنے شجرے کی۔‘‘ لمبی ناک والے نے درشت لہجے میں کہا
’’مگر جو لائبریری بھی یہی بات کہے تو اس کفر کے دفتر میں آگ ہی نہ لگا دوں اور اس کے بعد تجھے بھی جہنم واصل نہ کر دوں کہ تو مرتد ہے، دو زخی۔‘‘ اس نے غصّہ سے کہا۔
’’منہ بند کر‘‘۔ لمبی ناک والا گرجا۔
بندر والے نے اپنی ڈگڈگی اٹھا کے زور زور سے بجانا شروع کر دی اور بندر کے مونڈہے کی طرف بڑہا۔ ایک قیمتی شلوار سوٹ میں ملبوس آدمی نے بندروالے کو مخاطب کرکے کہا۔
’’ٹھہرو۔ بات سنو۔ یہ بندر ہی تمہاری پریشانی کا سبب ہے۔ میں تم کو پاتچ ہزار روپے دونگا یہ بندر مجھے دے دو میں اسے چڑیاگھر میں دے دوں گا اور تم آزاد ہو جاؤگے مزدوری کر نے کے لئے۔ یہ پیسے جب تک تم کو پگار نہ ملے سہارا دیں گے ۔ پکی نوکری ہوگی۔ میں تم کو اپنی زمینوں پر بھیج دوں گا‘‘۔
’’آپ کی مہربانی صاحب جی مگر میں اپنے دوست کا سودا کیسے کر لوں؟ اس کے بعد اکیلی جندگی کیسے کاٹوں گا ۔ یہ ایک ساتھی تو ہے میری جندگی کا۔ اس کا احسان ہے کہ اس کے وجہ سے اور اﷲ کی رحمت سے روٹی تو مل جاتی ہے اور اکیلی جھونپڑی میں اس سے بات بھی کر لیتا ہوں۔‘‘
’’چار سو بیس ہے۔ بس مظلوم بن رہاہے۔‘‘ کسی نے منحنی آواز میں کہا۔
’’شرم نہیں آئی ایک بد نصیب آدمی کو برا کہہ کر۔ تمہا رے پیسے ہیں کیا جو تمہاری جان نکل رہی ہے، جھینگے۔‘‘
’’چپ رہ، بھڑوے۔‘‘ ایک لحیم شحیم آدمی غصہ سے چلایا اور مجمع میں سے نکل کر اس آدمی کی طرٖف دوڑا جو ابھی بولا تھا۔ جیسے ہی وہ آگے آیا بندر نے اس کی پتلون پکڑ لی جیسے وہ پیسے مانگنے کے لئے پکڑا کرتا تھا۔ اس آدمی نے بندر کو زور کی لات ماری۔ بندر دور جا گرا اور ڈری ہوئی آواز میں چیں چیں کرکے بھاگنے کی کوشش کرنے لگا لیکن ڈوری کے سبب بھاگ نہ سکا۔ بندر والے نے دوڑ کر اس آدمی کا گریبان پکڑ لیا۔ اس کا چہرہ غصے سے لال ہو گیا تھا۔
’’بادشاہ کو ہاتھ بھی لگایا تو تم کو جان سے مار دوں گا۔‘‘ بندر والے نے چلاکر کہا۔
ایک دم خاموشی چھا گئی۔ دوسرے ہی لمحے بندروالے نے اس آدمی کا گریبان چھوڑ دیا اور زمین پر اس کے قدموں میں بیٹھ گیا اور بڑی لجاجت کے لہجے میں بولا، صاب جی مجھے جتنا مارنا ہومار کے دل ٹھنڈا کر لو کچھ نہیں کہوں گا لیکں بادشاہ کے ساتھ ظلم میں دیکھ نہیں سکتا، میں آپ کے پیر پر گر کے مافی مانگتا ہوں اور کیا کہوں مجھ سے بہت بڑی گلطی ہو گئی صاحب جی!‘‘ اس نے روہانسی آواز میں کہا۔ وہ آدمی خاموشی سے اپنا گریبان ٹھیک کر تا رہا اور بندروالا اس کا پیر پکڑے ،سر جھکائے بیٹھا رہا۔ با لکل سناٹا رہا اور پھر اس آدمی نے بندر والے کو بازؤں سے پکڑ کر، کھڑا کیا اور جیب سے کچھ روپئے نکال کر اس کی مٹھی میں رکھے اور بھیڑ میں غائب ہو گیا۔ بندر والے نے بندر کو گود میں اٹھا کر تھپتھپایا۔ بندر نے مجمع کو حیرانی سے دیکھا۔
’’دیکھا نا، کیسا ڈرامہ تھا پیسے لینے کا۔‘‘ ایک اونچی ناک اور چھوٹے قد کے آدمی نے کہا۔
’’پھر تو بولا، منہ سے سڑائند ہی نکلتی ہے ہمیشہ!‘‘۔
’’ابھی تجھے سیدھا کرتا ہوں۔‘‘ چپٹی ناک والے نے کہا۔
’’نہ صاحب جی ایسا نہ کرو۔ مہربانی ہوگی ہم دونوں تو کرتب دیکھا رہے تھے اپنا پیٹ پالنے کو اور آپ لوگوں کو خوش کرنے کو، جھگڑے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ہم دونوں یہا ں سے جاتے ہیں کہ لڑائی کھتم ہو۔‘‘
’’بندر نہیں دو گے پانچ ہزار میں؟‘‘ اس آدمی نے کہا جس نے بندر خریدنے کی بات کی تھی۔
’’مہربانی سائیں،مگر میں اپنے ساتھی،اپنی جندگی کو نہیں بیچ سکتا۔ جب یہ چھوٹا سا تھا تب میں اسے لایا تھا ۔ مجھ سے لپٹ کر سوتا تھا۔ اس کو میں نے اپنی اولاد کی طرح پالا ہے، اﷲ کی اتنی بڑی دنیا میں یہی تو میرا دوست ہے۔‘‘
’’پیسے بڑھادوں‘‘۔
’’نہیں صاحب جی ایک لاکھ بھی دو گے تو اسے نہیں دونگا۔ دوست بھی کبھی بیچے جاتے ہیں؟
’’شریک حیات!‘‘ لمبی ناک والے نے آواز لگائی۔
’’کیا بولا آپ نے‘‘۔ بندر والے نے حیرت سے پوچھا۔
’’زندگی کا ساتھی! شریک حیات۔‘‘
’’بڑی دور کی کوڑی لائے۔ جانور کیا زندگی کا ساتھی ہو سکتا ہے؟‘‘ ایک داڑھی والے نے کہا۔
’’ہاں‘‘ انسان نہیں ہوسکتا۔
’’پھر بولا تو، شرم کر، افلاطون کی اولاد۔‘‘ ایک بہت پتلی آواز وا لے بولے۔
’’کیوں سب لوگ اتنے گرم ہو رہے ہیں؟ تحمل سے بات نہیں کر سکتے‘‘۔ ایک معمر آدمی نے کہا۔
’آپ ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔ ہم سب ہر وقت غصّے میں کیوں رہتے ہیں۔ کبھی جانورں کو دیکھا اس طرح؟‘‘
’’نا شکرے ہیں۔‘‘ کسی نے آواز لگائی۔
’’ہاں۔ ہمارا مذہب بھی ہم کو تحمّل کی تعلیم دیتا ہے مگر ہم۔۔۔‘‘
کچھ دیر خاموشی رہی۔ پھر وہ معمر آدمی بولا ’’جب پاکستان بنا تو میں انڈیا سے ہجرت کر کے کراچی آیا، کاروبار کے سلسلے میں لاہور گیا، پشاور گیا، راولپنڈی گیا، سکھر اور کوئٹہ گیا۔ پٹھان، پنجابی، سندھی، بلوچی سب لوگوں سے بات کر نے کا موقع ملا۔ سب کی زبان شائستہ تھی اور لہجہ دوستانہ تھا اور اب تو ایسا لگتا ہے جیسے سب ایک دوسرے کا ادھا ر کھائے بیٹھے ہیں کوئی نسلی دشمنی چلی آ رہی ہے، کسی کو کسی سے لینا دینا کچھ نہیں تو بھائیو اگر نرم لہجے میں بات کروگے تو سب کا ہی دل خوش ہوگا۔۔۔ ہم لوگ کیوں گٹر میں گرتے چلے جا رہے ہیں۔‘‘
’’بڑے صاحب آپ کا زمانہ چلا گیا۔ اب تو جو پیار سے بولے وہی گالی کھائے گا، یا پھر گولی سے مارا جائےگا۔ یہ نیا زمانہ ہے‘‘۔ ایک لڑکا جو طالب علم لگتا تھا بولا-
’’تو کیا پاکستان بھی نیا ہو گیا؟‘‘ کسی نے پوچھا۔
’’کیوں نہیں، آدھا گنوا دیا جو باقی ہے وہ بھی تڑخ گیا ہے۔‘‘ لڑکے نے کہا۔
’’اتنے جو خود کش بم پھٹ رہے ہیں تو کیا ہوگا‘‘۔ کسی نے تاسف سے کہا۔
’’ناشکرے ہیں ہم‘‘۔ ایک منہنی آواز والے بولے۔
’’کھانے کو مل رہا ہے تو منھ سے آواز نکل رہی ہے، جاہل۔‘‘ کسی نے بات کاٹی۔
’’تم نے مجھے جاہل کیوں کہا، اس سے تم کو کیا ملا۔ کوئی کسی کو جہنمی کہہ رہا ہے کوئی دہریہ، اس سے کہنے والا بڑا ہو جاتا ہے کیا؟ دل میں سب جانتے ہیں کہ اپنی اوقات کوڑی کی بھی نہیں‘‘۔
’’تمہاری نہ ہوگی، میری تو بہت ہے۔‘‘ ایک دبلے پتلے مد قوق آدمی نے سگریٹ کا لمباکش لیتے ہوئے کہا۔
’’بس اپنی نظر میں‘‘ چپٹی ناک والا بولا
’’نہیں اپنی کامیابیوں کی وجہ سے۔‘‘
’’اچھا، کیا بہت بڑے دینی عالم ہو؟‘‘
’’نہیں، تعلیم تو ہائی اسکول بھی نہیں مگر اب میرے پاس زمینیں ہیں، مکان ہے۔ میں نے ایک ہاؤسنگ کمپلیکس بنایا اور بہت پیسے کمائے اور سب سے بڑھ کے ﷲ کے فضل سے سول اور فوج کے بڑے افسران مجھ پر بہت مہربان ہیں۔ پلوں اور سڑکیں بنانے کے ٹھیکے آسانی سے مل جاتے ہیں۔۔۔ وڈیرے میرے۔۔۔‘‘
’’۔۔۔ تیرے سمدھی ہیں، سیاستدان تیرے محسن اور مولوی اور مولانا تمہارا تجارتی قبلہ۔۔۔ چالاک آدمی ہو۔‘‘ کسی نے بات کاٹ کر گرہ لگائی۔ پھر ذرا توقّف کے بعد بولا۔
’’پیسے بنانے کے لئے ہمارے ملک میں تعلیم کا نہ ہونا ہی اچھا ہے، تعلیم، ٹائم اور پیسے کی بربادی ہے۔ ایماندری سکھا کر لوگوں کو بے ایمان دنیا کے قابل نہیں رکھتی ہے۔ ایماندار تو بس کاٹھ کا الو ہے۔‘‘ اس نے طنز سے کہا۔
’’مگر پیسے کیسے بنائے میرے دوست؟ محنت کر کے یا بندر کی طرح قلابازیاں کھاکے؟‘‘ کسی نے پوچھا۔
’’دیکھ بدزبانی نہ کر! اپنا قیمہ بنوائےگا‘‘۔
’’تم میرا قیمہ بناؤگے، تم ٹڈی!‘‘
’’نہیں یہ کام میرے آدمی کرتے ہیں، غائب ہو جاؤ گے دنیا سے‘‘۔ اس نے تیز لہجہ میں کہا۔
’’میں تمہیں بلیک میلر سمجھا تھا تم شاید ایجنسی کے آدمی ہو‘‘۔ اس نے تضحیک سے ناک سکوڑ کر کہا۔
’’اکبر شاہ ذرااِسے فٹ کرو۔‘‘ اس نے آواز دی۔
ایک گراں ڈیل آدی نے مجمع سے نکل کر اس آدمی کی گردن پکڑ لی جس نے مدقوق آدمی کو ٹڈی کہا تھا اور بہت بھاری آواز میں بولا ’’منھ بند کرے گا یامیں توڑوں تیرا جبڑا‘‘۔
’’غلطی ہو گئی بھائی!‘‘ وہ لجاجت سے بولا۔ ’’معاف کرنا میں نے تو سنا تھا کہ ملک میں جمہوریت آگئی ہے اور بولنے کی آزادی ہے‘‘ وہ گڑگڑا کے بولا۔ سب ہنسنے لگے۔
’’بیوقوف آدمی، یاد رکھ اوپر سے جمہویت ہے اور اندر سے میرا کنٹرول۔‘‘ اس نے چپٹی ناک والے کی گردن چھوڑ دی۔
’’ہمیشہ یاد رکھونگا، چوہدری صاحب، اب اجازت دو تو ایک بات پوچھوں‘‘۔
’’پوچھ۔‘‘ اس نے مسکرا کے، تحکمانہ لہجہ میں کہا۔
تم کوئی مافیا تو نہیں؟‘‘ اس نے بڑی لجاجت کے لہجے میں پوچھا۔
’’سارا مجمع ہنس پڑا۔ وہ آدمی خود بھی زیرلب مسکرایا۔
’’سید صاحب اگر گر بتا دو تو میں بھی کوشش کر لوں شاید تقدیر بن جائے۔‘‘ اس نے اس مدقوق آدمی سے کہا۔
’’گھر آنا میرے، تیار ہو کے کہ جو کام کہوں کر نا ہوگا۔ جائز ناجائز کی بات نہ کرنا۔‘‘
’’راضی چوہدری جی۔ اﷲ تم کوخوش باش چاق و چوبند رکھے۔ پتہ بتادو‘‘۔ اس نے لجاجت سے کہا۔
’’اکبر خان اسے پتہ بتا دو اور کام سمجھا دو الگ لے جاکے‘‘۔
’’ہاں سائیں‘‘ اور پھر اس آدمی سے کہا ’’جو بھی کام کہوں کرنا ہوگا۔ قانون اور شریعت کا بہانہ نہ کرنا۔‘‘
بندر والے نے پھر زور زور سے ڈگڈگی بجانی شروع کر دی۔۔۔تڑ تڑ تڑ۔۔۔تڑ۔۔۔ترڑڑ۔۔۔ترٖڑڑ۔۔۔ اور بولنا شروع کر دیا۔
’’ماف کرنا ان باتوں سے کئی فائدہ نہیں صاحب جی۔ بادشاہ کی کلاباجیوں کے کرتب دیکھو۔۔۔ ابھی تک کسی نے کوئی بندر ایسا دیکھا ہے جو اس کی جیسی کلاباجی مار سکے؟‘‘
’’ایسی قلابازی تو امریکہ بھی نہیں مار سکتا؟‘‘ ایک شرعی داڑھی والے بولے۔
’’چپ رہو مولوی کیوں اپنے پیچھے پڑے ہو۔ پولیس پکڑ لےگی اور پھر حکومت انعام لے کے تم کو امریکہ کے حوالے کر دےگی اور ان کی مرضی ہے کہ وہ تم کو کہاں بھیج دیں، افغانستان، مصر یا کہیں اور،پھر ایک دن تمہاری ایسی تصویر آئےگی ٹی وی پر کہ سب کے وضو ٹوٹ جائیں گے، ہا ہا ہا ہا۔۔۔ کیا تم نے وہ تصویریں دیکھی نہیں،بس گئے تم ہمیشہ کے لئے۔۔۔ ذرا منہ سنبھال کے بولو۔‘‘ سب ٹھٹھا مار کر ہنسے۔
بندر والے نے پھر ڈگڈگی بجانا شروع کر دی۔۔۔ترڑ ترڑ ترڑ۔۔۔تڑ۔
’’بھا ئیو۔ بادشاہ کی کلا باجیاں دیکھو۔ امریکہ کی بات نہ کرو۔ وہ کیاکلابا جیاں مارےگا بادشاہ کے مکا بلے میں‘‘۔
’’ہی، ہی،‘‘ کوئی مجمع میں سے ہنسا۔
’’کیوں ہنس رہے ہو؟‘‘ چپٹی ناک والے نے کہا۔
’’ہی، ہی ہی ہی۔۔۔‘‘
’’کیوں ہنس رہا ہے، مخنچو!‘‘
’’خبردار جو مخنچو کہا، کچومر بنا دونگا چنڈول! ہنس اس لئے رہا ہوں کہ ہنسی رک نہیں رہی ہے، ہی ہی ہمارے موٹی توندوں والے بھاری بھرکم سیاسی مولوی جو پارلیمنٹ اور سیاست میں ہیں کوئی بھی ان سے بڑی قلابازی نہیں مار سکتا ہے۔۔۔ دیکھا نہیں تم نے، کہا کر تے تھے فوجی حکو مت کو ہٹا کے رہیں گے مگر ووٹ اس بل کی موافقت میں دیا تھا کہ فوج کا جنرل ملک کا صدر بن سکتا ہے، کہتے ہیں شریعت نافذ کریں گے، بچوں کو پولیو کے ٹیکے لگانے والوں کو مروا دیتے ہیں۔ لڑ کیوں کو تاوان میں ونی میں دینے کے خلاف فتویٰ نہیں دیتے۔ کاروکاری کو گناہ نہیں کہتے اور سوائے دینی تعلیم کے، ہر تعلیم کو کفر کہتے ہیں کہ یہ فرنگیوں کی تعلیم ہے۔ فرنگیوں کی تعلیم سے ان کے ممالک کتنا آگے چلے گئے کتنی چیزیں ان کی وجہ سے آئیں دوائیں، ٹرین،ہوائی جہاز۔ جس لاؤڈ اسپیکر پر اذان دیتے ہیں کیا اِس کی ایجاد باڑے میں ہوئی تھی ؟ ہی ہی ہی ہی۔۔۔ بجلی کے بجائے چراغ کیوں نہیں جلاتے۔ کار کے بجائے گدھے پر کیوں نہیں جاتے۔ یاد ہے نا بےرحموں نے عورتوں کے سر کاٹ کر دَھڑ سڑک پر پھینک دیئے تھے اور کہا تھا کہ فاحشہ تھیں۔‘‘
خوہ خوہ خووہ خوہ کوئی ہنسا۔
’’کیوں ہنس رہا ہے، یہ ہنسنے کی بات ہے کیا۔۔۔ چپ رہ۔‘‘ کسی نے ڈانٹا۔
’’خوہ خوہ خو۔ خوہ، خوہ۔۔۔‘‘ ہا ہا ہا۔ سب ہنسنے لگے۔
’’یہ سب روس اور امریکہ کی جنگ سے شروع ہوا۔ امریکہ کی آشیرواد سے اپنے پیارے اسلامی جنرل کے زمانے میں۔۔۔‘‘ ایک ادھیڑ عمر آدمی نے کہا ’’۔۔۔جنرل صاحب نے ایک مذہبی پاڑٹی کو مشیر بناکر ملک میں شرعی عدالت بنائی۔ قانون کو شرعی عمامہ باندھنے کی کوشش میں اور مشکل بنا دیا۔‘‘
’’تو ہم کیوں پاگل ہو گئے۔‘‘
’’اس لئے کہ ہماری ڈوری قمچی والے ہاتھ میں ہے۔ سیاسی بندر بھی تو اس سے بہت ڈرتے ہیں۔ سنا نہیں لکڑی کے آگے تو مکڑی بھی ناچتی ہے۔ سیا ست دان اپنا الو سیدھا کر تے رہتے ہیں۔ پبلک کے فائدے کی بات بھی ہوتی ہے تو بات بدلنے کو، فوراً میڈیا کی ڈگڈگی بجوا دیتے ہیں۔‘‘ بہت سے لوگ زور زور سے ہنسے۔
ترڑ ترڑ ترڑ بندر والے نے بہت زور سے ڈگڈگی بجائی۔
’’بھائیو، میری بات سنو۔ امریکہ، مولوی اور جنرل ان سب کو برا کہنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ اپنے کام سے کام رکھو بھائیو۔ ان باتوں سے پیٹ میں کھا نا نہیں آ جائےگا مجھ غریب کو بادشاہ کا تماشہ کھتم کر لینے دو۔ ابھی تک کچھ کمایا نہیں،کچھ کھایا نہیں۔ حجّت میں کافی ٹائم برباد ہو گیا‘‘۔
’’ہاں یار غریب کے پاس دو وقت کی روٹی نہیں اور باقی سب پراٹھے کھارہے ہیں، ہے نا لمبو؟‘‘
’’تیری زبان پھر پٹری سے اتر گئی۔ کتروا دے چھوٹو۔ ‘‘
ترڑ ترڑ۔۔۔تڑ۔۔۔تڑ۔۔۔بندر والے نے جھٹکے سے ڈگڈگی بجائی۔
’’توہم پاگل کیوں ہو گئے تھے کہ اب ملاؤں کی چلم بھرتے رہے۔‘‘ کسی نے پوچھا۔
’’ابے یار۔۔۔ ہم سب مَفلو ک الحال لوگوں کی ایک بھیڑ ہیں۔۔ پیسہ، یا تو بزنس والوں کے قبضے میں ہے یا سیاست دانوں نے ملک سے باہر رکھ چھوڑا ہے۔ ان سے تو لے نہیں سکتے، بس رشوت اور بےایمانی سے جو نکل سکے، نکال لیتے ہیں۔جب کبھی ہمارے فا ئدے کی بات شروع ہوتی ہے تووہ اس کے خلاف میڈیا کی ڈگڈگی بجوا دیتے ہیں۔ملّاؤں سے فتو یٰ دلوا دیتے ہیں۔ ہماری سیاست تو بس بندربادشاہ کے وہ کرتب ہیں جوبندر والے نے اسے سکھائے ہیں۔‘‘
کسی نے مجمع میں سے جواب دیا، بہت سے لوگ زور زور سے ہنسے۔
ترڑ۔۔۔ ترڑ۔۔۔ ترڑ بندر والے نے ہنسی کی آواز دبا نے کو بہت زور سے ڈگڈگی بجائی۔
’’بادشاہ دیر ہو رہی ہے۔ الٹی کلٹیاں مارکے شکرانہ ادا کر اور چل، ابھی بہت دور جانا ہے‘‘۔۔۔بندر والے نے ڈوری کو ہلکا سا جھٹکا دیا اور قمچی سے اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
بندرنے دو الٹی قلابازیاں کھائیں اور پچھلے پیروں پر کھڑا ہوکر، قمچی کوتکنے لگا۔ پھر قمچی کے اشارے پر، دونوں ہاتھ کمر کے پیچھے با ندھ کر، اپنے پچھلے پیروں پر چل کر دائرے کے بیچ خاموش کھڑے ہو کے اپنے دونوں ہاتھ اس طرح جوڑکر اوپر اٹھائے، جیسے دعا مانگنے کے لئے اٹھا تے ہیں، چند سیکنڈ وں کے لئے خاموش کھڑا رہا اور پھر سجدے میں گر گیا۔
ذرا دیر مکمل خاموشی رہی پھر سب لوگ پیسے بندر کی طرف پھینکنے لگے۔
بندر اپنے مونڈھے پر بیٹھ گیا۔
’’دیکھ لیا۔ دیکھ لیانا کیسا کفرہے۔ حکم تو صرف خد ا کو سجدہ کرنے کا ہے‘‘۔شرعی داڑھی والے نے ڈانٹا۔
’’تو نے پھر جانوروں پر شریعت لگائی۔‘‘ لمبی ناک والے نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ٹھہر، تجھ کو شریعت سمجھاتا ہوں‘‘۔ شرعی داڑھی والے نے بہت غصّے سے کہا اور اپنی چپل ہاتھ میں لے کے، لمبی ناک والے کی طرف دوڑا ۔لمبی ناک والا ہنستا ہوا دوربھاگ گیا۔
بندر والے نے جذباتی آواز میں کہا ’’بھائیو! آپ کی بڑی مہربانی ہم دونوں دعائیں دیں گے اور اﷲ آپ کو اس نیکی کا بدلہ دےگا۔‘‘
بندر والے نے ایک ایک کرکے زمین پر بکھرے ہوئے پیسے اٹھائے، مونڈھے اور قمچی کو جھولے میں ڈالا، جھولے کو کاندھے پر لٹکایا۔ جھک کے بندر کو تھپتھپایا اور اٹھا کے کندھے پر بٹھا لیا۔بادشاہ نے اُس اونچائی سے، ارد گرد کے لوگوں کو اس طرح دیکھا جیسے وہ بادشاہ نہیں، شہنشاہ ہو، بندر والاسامنے،سڑک کے کنارے ذرا دور ایک ہوٹل کی طرف تیز قدموں سے چلتا ہوا، اندھیرے میں گم ہو گیا۔
آسمان ابر آلوداور ماحول سوگوار ہو گیا تھا۔ اندھیرا گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ ملوں اور بسوں کے دھوئیں کی کثافت کی گہری دھندمیں کھمبوں پر لگی ہو ئی بجلی کی روشنی بس ٹمٹما رہی تھیں۔ لہریں سُست ہو گئی تھیں۔ سمندر میں جزر کی کیفیت تھی۔ تماشائی، کشاں کشاں اپنی اپنی اندھیری بستیوں کی سمت چلتے گئے جہاں ان کی بود وباش ان کا انتظار کر رہی تھی۔
ایک آواز فضا میں گونج رہی تھی۔
’’بس اﷲ پالنے والاہے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.