گاؤں کے میدا ن میں، کچے راستے کے پاس، برگد کا پیڑ یوں کھڑا ہے جیسے کوئی عہد ساز مفکر، حکمت کے سرمائے تلے جھکا ماحول کا جائزہ لے رہا ہو۔ وقت نے اس کی جٹاؤں میں ان گنت لمحات گوندھ ڈالے ہیں۔ گرمیوں کی آمد سے پہلے اس کے دور اندیش پتے اپنے اندر پانی جمع کر لیتے ہیں۔ سردیوں میں ہر پتے کی ڈنڈی پر برگدیوں کے جوڑے کی نمود اعلان کرتی ہے کہ یگانگت فطرت کا حسن نکھارتی ہے۔ برسوں کی جگر سوز سے اس کے تنے میں گھاؤ آ گیا ہے۔ اس کے پتے ضرب کھاکر آنسوؤں کے سفید قطرے بہاتے ہیں تو اس کی چوٹی صدا دیتی ہے، ’’شانتی! شانتی! آؤ یہ دکھ ہم آپس میں بانٹ لیں۔‘‘
گاؤں میں مشہور ہے کہ برگد کا پیڑ کلام کرتا ہے۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ برگد کا پیڑ نہیں بلکہ اسے دیکھ کر خود گاؤں کے باسیوں کی یاداشت بولتی ہے۔
گاؤں کا نامی پہلوان کچے راستے سے گزرتا ہے تو برگد کا پیڑ کہتا ہے، ’’اے کمہار کے فرزند! بچپن میں تو میرے چھتر کے نیچے، ننگے پاؤں، سات سمندر، کھیلا کرتا تھا۔ طاقت کے نشے میں تو کیوں اپنے آباؤ اجداد کے آوے اور چاک توڑ رہا ہے؟‘‘
پہلوان سینہ تان کر جواب دیتا ہے، ’’میں جو اس وقت تھا اب نہیں ہوں، میراحال میرے ماضی پر حاوی ہے۔‘‘
تحصیلدار، گھوڑے پر سوار، شہر سے گاؤں آتا ہے تو برگد کے پیڑ سے آواز آتی ہے، اے تیلی کے بیٹے! لڑکپن میں تو میری چھاؤں میں، چور منڈلی، کھیلا کرتا تھا مجھے تیرے پیوند لگے کپڑے یاد ہیں۔ اب تیری پگڑی کا شملہ بہت اونچا ہو گیا ہے۔
تحصیلدار گرجتا ہے، ’’میں اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کر رہا ہوں۔ یہ میرا فرض ہے۔ میں اس تحصیل کا مالک ہوں۔ میں اگر چاہوں تو تجھے آرے سے کٹوا ڈالوں اور تیرا نام و نشان مٹ جائے، پھر مجھے اپنا بچپن یاد نہ آئے۔‘‘
پیڑ کے زرد پتے جھڑ کر زمین پر بکھر جاتے ہیں تو مسجد کا امام آگاہ کرتا ہے، ’’کل جو پتے سبز تھے آج انہیں پامال ہوتے دیکھ کر عبرت پکڑو۔‘‘
علاقے کا بدنام ڈاکو دل ہی دل میں سوچتا ہے کہ یہ باتیں ہم برسوں سے سن رہے ہیں مگر زرد پتے جھڑتے ہیں تو ان کی جگہ نئے پتے نکل آتے ہیں۔ پیڑ جوں کاتوں کھڑا ہے اور پیڑ اس کا مددگار ہے، تاریک راتوں میں اسی پیڑ کے نیچے بیٹھ کر اس نے ڈاکہ زنی کے کامیاب منصوبے بنائے۔ زرد پتے تو ان کسانوں کی طرح ہیں جو سر جھکائے کھیتوں میں ہل چلاتے، بیج بوتے اور درانتیوں سے فصلیں کاٹتے ہیں۔ وہ تو جیتے جی مر جاتے ہیں۔ اس لیے کہ ان کا اگایا ہوا اناج تھوک کا بیوپاری اونے پونے خرید لیتا ہے۔ تھوک کے بیوپاری کے پاس ایک لمبی موٹر کار ہے۔ اس کے خاندان کے افراد ایسے کپڑے پہنتے ہیں کہ انسان دیکھا کرے۔ ڈاکو نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ اس وقت تک منصوبے بناتا اور انہیں عملی جامہ پہناتا رہےگا جب تک تھوک کے بیوپاری کی لمبی موٹر کار کے حصے بخرے نہیں ہو جاتے۔
گاؤں کا نوجوان دیوانہ بار بار کہتا ہے کہ وہ خزاں کا گلا گھونٹ دےگا اس لیے کہ اس موسم میں اس کی بانسری کے سینے میں نغموں کے چشمے منجمد ہو کر رہ جاتے ہیں۔ بہار میں جب وہ بانسری بجاتا ہے تو سبز پتے جھوم جھوم اٹھتے ہیں، کونپلیں رقص کرتی، جٹائیں دھمال مچاتی اور چھال تھرکتی ہے۔ عالم استغراق میں برگد کا پیڑ آنکھیں نیم وا کرکے سرگوشی کرتا ہے، ’’دیوانے! بانسری کی لے تیز کر دے، مایا کی کالی گھٹا ئیں گاؤں پر منڈلا رہی ہیں۔‘‘
ننگ دھڑنگ، شور مچاتے بچے دیوانے کا تعاقب کرتے ہیں تو وہ دوڑ کر برگد کے پیڑ کے پاس چلا جاتا ہے اور اسے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پیڑ بانہیں پھیلاکر کہہ رہا ہو، ’’دیوانے! میں تیرا دکھ جانتا ہوں، دیکھ میرے سینے میں بھی گھاؤ ہے۔ یہ میرے وجود کو کھوکھلا کر دےگا۔ میں اس دن کا انتظار کر رہا ہوں، جب میں ٹوٹ کر گر پڑوں گا۔ وہ دن میری تکمیل کا دن ہوگا۔ اس روز میرا جسم زمین سے ہمکنار ہوگا اور زمین سے مجھے محبت ہے۔‘‘
برگد کے پیڑ کو یاد ہے کہ ایک دن تین شہریوں نے اس کے چھتر کے نیچے بیٹھ کر دھرتی سے محبت کی باتیں کی تھیں۔ ان کی گفتگو نے رخ بدلا تو کارخانوں کے محنت کشوں کا ذکر چھڑ گیا۔ چمنیوں سے نکلتے دھوئیں نے پھیپھڑے جھنجھوڑ کر رکھ دئیے۔ تھکے ماندے چہروں سے پسینے کے قطرے ٹپ ٹپ گرنے لگے۔ باتوں باتوں میں بحث بڑھ گئی، منہ سے جھاگ اڑنے لگے۔
ایک شہری نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، ’’روایات معاشرے کی جڑیں ہیں۔ یہ جڑیں کھوکھلی ہو جائیں تو معاشرہ زیرو زبر ہو جاتا ہے۔‘‘
دوسرے شہری نے خط تنسیخ کھینچا، ’’یہ جڑیں ہمار ی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن گئی ہیں۔ ہم انہیں کاٹ دیں گے۔ ہم پرانی عمارت گرا کر اس کی جگہ نیا محل تعمیر کریں گے۔‘‘
تیسرے شہری نے پتھر مارا، ’’تم دونوں غلط کہتے ہو۔ ہم بھوکے ہیں۔ ہمیں روٹی دو اور ہماری سوچ لے لو۔‘‘
تینوں شہری گاؤں کی گلی میں داخل ہوئے تو پہلا شہری ایک چھبیلی نار کو دیکھ کر بےاختیار بول اٹھا، ’’کیا قیامت ہے!‘‘
دوسرے شہری نے ڈانٹ پلائی، ’’انسان بنو، گاؤں کی بیٹی ہے۔‘‘
تیسرے شہری نے دو ٹوک فیصلہ سنایا،’’وہ قیامت ہے نہ گاؤں کی بیٹی، وہ محض ایک عورت ہے۔‘‘
گاؤں کا کڑک بانکا شہریوں کی باتیں سن کر غصہ کے مارے بھوت ہو گیا۔ کڑک کر بولا، ’’چلے جاؤ واپس نہیں تو ہڈی پسلی توڑ دوں گا۔‘‘
شہری خون کے گھونٹ پی کر رہ گئے۔ الٹے پاؤں بھاگے۔ راستے بھر اس بات کا رونا روتے رہے کہ گاؤں کے لوگ غیرمہذب ہیں۔
دن کی روشنی میں چمگادڑیں، برگد کے پیڑ کی ٹہنیوں سے لٹکی رہتیں اور رات کے اندھیرے میں اڑ جاتی ہیں۔
گاؤں کے شاعر کو دیکھ کر برگد کے پیڑ سے صدا نکلتی ہے، ’’تو جانتا ہے کہ دو ٹانگوں والی چمگادڑیں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ تو اپنے گیتوں کی آگ سے چمگادڑوں کو جلاکر راکھ کر دے۔‘‘
شاعر جواب دیتا ہے، ’’میں تو خود اپنی آگ میں جل رہا ہوں۔ یہ روشنی بڑی اذیت ناک ہے۔‘‘
برگد کے پیڑ کی گھمبیر آواز سنائی دیتی ہے، ’’یہ آگ ہی تو زندگی کا راز ہے۔ یہ روشنی اذیت ناک نہیں، مقصد حیات ہے۔‘‘
گاؤں کا ایک بزرگ جلال الدین، فجر کی نماز پڑھ کر میدان میں ٹہلتا ہے۔ برگد کا پیڑ گواہ ہے کہ برسوں پہلے جلال الدین نے ایک دوشیزہ۔۔۔ کرم جان کو اپنی محبت کا یقین دلا کر جھوٹ بولا تھا۔ ایک تاریک رات میں، برگد کے پیڑ کے نیچے جلال دین نے قول دیا ایک دن جلال دین اچانک روپوش ہو گیا۔ کرم جان اپنے ماہیے کی جدائی میں ڈھولک پر گیت گاتی۔ اس کی آواز دکھ میں ڈوب کر ابھرتی تو پیڑوں میں بیٹھے پنچھی پر سمیٹ کر گم ہو جاتے۔ گلہریاں پھدکنا بھول کر دم بخود ہو جاتیں اور آنکھوں میں کنواریاں، کام کاج چھوڑ کر کسی گہری سوچ میں ڈوب جاتیں۔
کرم جان، انتظار کرتے کرتے، حسن، جوانی اور گیتوں سے بچھڑ گئی۔ یوں جیسے کوئی حسین لمحہ وقت سے جدا ہو کر درد کی راہوں میں بھٹک رہا ہو۔
نٹ کھٹ، منہ پھٹ، گاؤں کے بچے، کرم جان کے پیچھے بھاگتے۔ پگلی! پگلی! کی آوازیں پتھراؤ کرتیں۔ کرم جان ہانپتی کانپتی، آنکھوں کے ڈھیلے گھماتی، دوڑ کر برگد کے گھاؤ میں چھپ جاتی اور پیڑ کا جی چاہتا کہ کرم جان کے سر پر ہاتھ رکھ کر اس کے سارے دکھ اپنے اندر جذب کر لے۔
مدت کے بعد جلال دین شہر سے لوٹ کر گاؤں آیا تو اس کے ساتھ اس کی شہری بیوی تھی جس نے اٹھی ایڑی کی جوتی پہن رکھی تھی۔ سر پر مصنوعی بالوں کا اینڈوا تھا۔ رخساروں پر روج اور پاؤڈر کی بہتات تھی اور ہونٹوں پر لپ اسٹک کی چیخ و پکار۔ جلال دین کو جب پتہ چلا کہ کرم جان مر چکی ہے، تو کلیجہ پاش پاش ہو گیا۔ اب جلال دین گاؤں میں جلال شاہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ جلال شاہ کے چہرے پر نور برستا ہے۔ وہ دم کرتا اور تعویذ لکھتا ہے۔ اس کے مریدوں کا دائرہ وسیع ہوتا جا رہا ہے۔
باراتیں برگد کے پیڑ کے نیچے پڑاؤ ڈالتی ہیں۔ براتی پیٹیاں درست کرکے مونچھوں کو تاؤ دیتے ہیں۔ ڈھول کی دھمک گونجتی ہے۔ شہنائیاں بجتی ہیں۔ دولہا سہرا باندھ کر گھوڑے سر سوار ہوتا ہے۔ برات چڑھتی ہے۔ برگد کے پیڑ کی چوٹی، دولہا کو آنگ کر، جنبش کرتی ہے۔ کبھی اثبات میں کبھی نفی میں اور کبھی گومگو کے عالم میں۔ گاؤں کی بیٹی، ڈولی میں اکڑوں بیٹھ، جانی پہچانی راہوں، پگڈنڈیوں، کھیتوں کھلیانوں سے جدا ہوکر ایک اجنبی دنیا کا رخ کرتی ہے تو برگد کا پیڑ مراقبے میں چلا جاتا ہے۔ تب آواز آتی ہے، ’’گاؤں کی بیٹی ایک بہن بھی تھی اب وہ بیوی کا روپ دھار لے گی۔ جب وہ ماں بن جائےگی تو اس کا وجود فطرت کی دلکشی میں جذب ہو کر نہال ہو جائےگا۔‘‘
نور کے تڑکے، ٹیلوں ٹبوں کے اس پار، کھیتوں میں تیتر بولتے ہیں تو اونگھتے پتے چونک پڑتے ہیں۔ برگد کے پیڑ کے دھیان میں کھیت آتے ہیں تو وہ اداس ہو جاتا ہے۔ اس نے جب زندگی کا پہلا سانس لیا تو فطرت نے اس کے کان میں کہا تھا ’’زمین کا مالک خداہے مگر انسان کہتے ہیں کہ کھیتوں کے مالک خود انسان ہیں۔‘‘ گاؤں والے تو زمین کے چپے چپے کی خاطر کٹ مرتے ہیں۔ برگد کا پیڑ اکثر سوچتا ہے کہ کھیت کسی کے بھی نہیں اور سب کے ہیں۔ اناج کسی کا بھی نہیں اور سب کا ہے مگر تھوک کا بیوپاری کسی کو سوچنے کی مہلت ہی نہیں دیتا۔
ڈگڈگی کی آواز سن کر گاؤں کے بچے برگد کے پیڑ کے نیچے جمع ہو جاتے ہیں۔ ڈوری سے بندھی، سرخ رنگ کا گھاگھرا پہنے بندریا، توت کی چھڑی کے اشارے پر ناچتی ہے۔ بندریا نچانے والا، ڈوری کو جھٹکتا، کھینچتا، ڈھیل دیتا اور گیت گاتا ہے۔ کچے راستے پر گاڑیاں رک جاتی ہیں۔ گاڑی بان، نسوار کی چٹکی منہ کے گوشے میں دبا، بندریا کے ناچ کے مزے اڑاتے ہیں۔ یہ تماشا دیکھ کر گاؤں کا شاعر آنسو بہتا اور تنہائی میں برگد کے پیڑ سے کہتا ہے! ’’بندریا نچانے والا، ڈگڈگی، بندریا، بپتا کے ان تین عناصر کو تم سمجھتے ہو یا میں۔‘‘
گرمیوں میں بھینسیں، جوہڑ کے گدلے پانی سے نکل کر برگد کے پیڑ کی چھاؤن میں چلی جاتی ہیں۔ ایک بے چینی کی حالت میں دم ہلاتی، کان پھڑ پھڑاتی، پاؤں دھب دھب زمین پر مارتی ہیں مگر ان کے جسموں سے چمٹی جونکیں ٹس سے مس نہیں ہوتیں۔ گاؤں کا مدرس کہتا ہے کہ جونکیں کسی کی دشمن نہیں، خون چوسنا ان کی فطرت ہے۔
بہار کے موسم میں گاؤں کے نوجوان کھڑتالیں بجا بجا، سمی کھیلتے ہیں۔ لڑکیاں گیت گاتی ہیں۔ لہلہاتے کھیتوں کی خوشبو فضا میں مچلتی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر گاؤں کا شاعر برگد کے پیڑ سے ہمکلام ہوتا ہے، ’’یہ لمحات جاکر واپس نہیں آئیں گے، میں ان ساعتوں کے بانکپن سے شعروں کی محفل سجاؤں گا۔‘‘
گاؤں کے میدان میں، کچے راستے کے پاس برگد کا پیڑ یوں کھڑا ہے جیسے کوئی عہد ساز مفکر حکمت کے سرمائے تلے جھکا، ماحول کا جائزہ لے رہا ہو۔
گاؤں میں مشہور ہے کہ برگد کا پیڑ کلام کرتا ہے۔ بزرگ فرماتے ہیں کہ برگد کا پیڑ نہیں بلکہ اسے دیکھ کر گاؤں کے باسیوں کی یاداشت بولتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.