Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بارش اور آنسو

بابا مقدم

بارش اور آنسو

بابا مقدم

MORE BYبابا مقدم

    سرما کی شام تھی۔ بندرگاہ پہلوی کے کہر آلود اور اداس ساحل پر میں اور محمود چہل قدمی کر رہے تھے۔ ساحل پر میں تھا اور وہ، اور موجوں کا شور اور پرندوں کی آوازیں جو دور سمندر کی سطح سے ملے ملے، پر مارتے چلے جا رہے تھے۔ آگے بڑھ کر سمندر تاریک ہو گیا تھا اور کالے بادل اس پر اس طرح جھک ا ٓئے تھے کہ خیال ہوتا تھا وہاں آسمان اور سمندر مل کر ایک ہو گئے ہیں۔

    اس نواح کی سردیوں میں ساحل کی فضا رُندھی اور غم آلود سی ہو جاتی ہے۔ دور دور تک پھیلے ہوئے بانس کے بنگلے اور لکڑی کے رنگ برنگے کیبن مکینوں سے خالی ہو کر خوابیدہ ہیولوں کی طرح پڑے نظر آتے ہیں اور گلے ہوئے لٹھے، خالی ڈبے، گزشتہ گرمیوں میں سمندر پر آنے والوں کی عارضی قیام کی بے رنگ نشانیاں، اور بوتلیں جنہیں موجیں ساحل پر پھینک دیتی ہیں اور گھونگھے اور سیپیاں ریت پر بکھری ہوتی ہیں۔ وہاں پر آدمی کو محسوس ہوتا ہے کہ فراموشی اور خاموشی کی ان گھڑیوں میں وہ خود بھی حل ہوا جا رہا ہے۔ ایک اندوہ ناک سکون اس کے وجود میں سرایت کرنے لگتا ہے اور مایوسی اور رائیگانی کی کیفیت نیم گرم بھپارے کی طرح اس کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔

    ایک بہت بڑی موج سفید چادر کی طرح ہمارے پیروں کے آگے بچھ گئی۔ کچھ دیر تک زمین پر سفید سفید جھاگ ٹکا رہا، پھر وہیں کاو ہیں جذب ہوگیا۔ ہمارے پیروں تلے بالو دب کر سخت ہوتی گئی اور اس میں سمندر کا پانی اکٹھا ہونے لگا۔ ہمارے پیر اسے دھنسا کر اس میں سے تھوڑا تھوڑا پانی اوپر کھینچ لیتے تھے۔ ہم پلٹے، مڑکر دیکھا تو موجوں نے ہمارے قدموں سے پڑنے والے نشانوں کو بھر دیا تھا۔ گویا ہم وہاں تھے ہی نہیں۔ گویا کبھی کسی نے وہاں قدم ہی نہیں رکھا تھا۔ محمود نے یہ دیکھا تو کہنے لگا،

    ’’عجیب دنیا ہے۔ چند سال پہلے تک میں اسی شہر میں توپ خانے کا افسر تھا۔ جنگ چھڑی تو سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا۔ میں روسی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہو کر اسی شہر میں سلاخلوں کے پیچھے پہنچ گیا۔ روسیوں نے توپوں پر قبضہ کر لیا اور افسروں کو جیل میں ڈال دیا۔ سپاہی بھی ادھر ادھر ہو گئے۔ بس گھوڑے باقی رہ گئے۔ میرا گھوڑا اَبلق تھا، بڑا خوش رنگ، جوان اور چلبلا، خوب گردن باندھ کر چلتا تھا۔ اس کی آنکھوں کی رنگت بھی انوکھی تھی، نیلی نیلی سی معلوم ہوتی تھیں۔ بیرکوں میں اس کا نام ’کاسی‘ پڑ گیا تھا۔

    ’کاسی‘ میری سواری کا گھوڑا تھا۔ جوانی اور مستی کے دن تھے۔ کاسی پر سوار ہوتا تو مزہ آ جاتا۔ افسر کا گھوڑا تھا، اس لیے اس کی خیال داری اور مان گون بھی دوسرے گھوڑوں سے زیادہ ہوتی تھی اور وہ ہمیشہ چاق رہتا تھا۔ میں جیسے ہی اس پر سوار ہوتا، وہ ٹانگیں کھول کر چمکتا اور گردن اٹھا کر اگلی ٹاپوں پر دُلکی چلنے لگتا تھا۔ راستے کی پتھریلی زمین پر اس کے نعل پڑنے کی آواز سے فضا گونجنے لگتی اور داہنے بائیں لوگ کاسی کی مستانہ چال دیکھنے کے لیے چلتے چلتے رک جاتے تھے۔ میں اس پر سینہ تانے بیٹھا ہوتا اور خود بھی گردن اکڑا لیتا اور ترنگ میں آ کر جھومنے لگتا۔

    میں اور کاسی شہر بھر میں مشہور تھے۔ کاسی مجھ سے اتنا ہلا ہوا تھا کہ اگر میں دور سے اس کو پکارتا تو وہ فوراً گردن گھماتا اور جواب میں ہنہنا کر مجھے دیکھنے لگتا۔ جب میں جیل میں بند ہوا تو سب سے زیادہ فکر مجھے کاسی ہی کی تھی کہ معلوم نہیں اس کے دانے گھاس کی خبرگیری اور ملائی دلائی ہو رہی ہے یا نہیں۔۔۔ اور یہ کہ اس کا کیا حشر کیا جائے گا۔ اور بھی ہزار فکریں تھیں۔ خود میرا کیا ہوگا؟ ہمیں یہیں قید رکھا جائے گا یا سائیبریا یا کسی اور علاقے میں پھینکا جائے گا؟

    جنگی قیدیوں کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں سننے میں آ رہی تھی۔ جتنے منھ اتنی باتیں تھیں۔ مجھ کو کہا گیا کہ میں نے تو لڑائی میں توپیں استعمال کی تھیں اور اپنا سارا گولہ بار دو دشمنوں پر جھونک دیا تھا، اس لیے میرا انجام بہت برا ہونا ہے۔ لیکن کسی کو ٹھیک ٹھیک کچھ بھی پتہ نہیں تھا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ ہمارا معاملہ کس کروٹ بیٹھے گا۔ جیل میں ہمارے پاس کرنے کو کچھ نہ تھا۔ میں ایک کونے میں جا بیٹھتا اور سوچا کرتا۔ دل چاہتا تھا آزاد ہوجاؤں اور جاکر کاسی کو دیکھوں، اس کی گردن تھپتھپاؤں، اس کی تھوتھنی پر ہتھیلی رکھ کر اس کی سانس کی گرمی محسوس کروں۔ یہ سارے خیالات دن ہی دن رہتے، مگر راتیں!

    راتیں وحشت ناک ہوتی تھیں۔ قیدیوں کے سونے کی اپنی اپنی ادائیں تھیں۔ کچھ تھے جو زور زور سے خراٹے لیتے تھے۔ بعض پوری آواز سے بولے جاتے، حکم احکام دیتے اور کبھی رونا شروع کر دیتے۔ ان کی فریادیں اور بولیاں سن کر طبیعت میں عجیب مایوسی اور افسردگی پیدا ہو جاتی۔ وہاں آدمی دیکھتا کہ لوگ کیا کیا ارمان لے کر سونے لیٹتے ہیں اور خوابوں کی دنیا میں پہنچ کر کابوسوں سے دوچار ہو جاتے ہیں، چلاتے ہیں، گالیاں بکتے ہیں، گھگھیاتے ہیں۔ کبھی کسی بات کا اعتراف کر جاتے ہیں، کبھی کسی تمنا کا اظہار، اور کبھی بہکنے لگتے ہیں۔ میرے خوابوں کی دنیا کے زیادہ حصے پر کاسی کا عمل تھا۔ مجھے اس کی نیلگوں آنکھیں نظر آتیں کہ اندھیرے میں چمکتی ہوئی میری طرف ٹکٹکی باندھے ہیں۔ ان نگاہوں میں التجا ہوتی اور ملامت بھی ہوتی۔

    ایک دن جیل میں خبر پھیل گئی کہ کل روس والے توپیں اور گھوڑے جہازوں میں بھر کر لیے جا رہے ہیں۔ میرا دل ڈوبنے لگا۔ کاسی کا کیا ہوا؟ اسے بھی لیے جا رہے ہیں، اگر یہی ہوا۔۔۔؟ میں اکیلا رہ جاؤں گا۔ یہ آس بھی ٹوٹ جائے گی کہ کبھی کاسی کو پھر دیکھ سکوں گا۔ وہ میرا دوست تھا۔ ہم دونوں ہی جنگ کی لپیٹ میں آ گئے تھے، اوراب اس کو لیے جا رہے تھے۔ اگر یہ خبر صحیح ہے تو کاش میں بھی اس کے ساتھ چلا جاتا۔ میں نے اپنے ساتھی قیدیوں کے سامنے توپوں اور گھوڑوں کا ذکر چھیڑا اور کاسی کے بارے میں ان کا خیال دریافت کیا۔ سب قیاس آرائیاں کرنے لگے۔ آخر ایک قیدی نے کہا کہ کاسی سواری کا گھوڑا ہے۔ توپ گاڑی کھینچنے کے کام کا نہیں، پھر لڑائی کا زمانہ ہے، رسد کی یوں ہی کمی ہے۔ اس لیے یقینی بات ہے کہ کاسی کو کاٹ کر اس کا گوشت کھا لیا جائے گا۔

    تو کاسی کو ذبح کر ڈالا جائے گا اور اس کا گوشت فوجیوں کوکھلا دیا جائے گا۔۔۔ پھر وہ فوجی بھی محاذوں پر مارے جائیں گے، بیچارے!

    اسیر ہونا اور جیل میں پڑنا بری چیز ہے۔ قید میں آدمی کا مزاج عجیب سا ہو جاتا ہے۔ خود پر اس کا بس نہیں ہوتا اور وہ ایک فاضل شے بن کر رہ جاتا ہے۔ ہر دن، ہر ساعت اس کے دماغ میں ہزار خیالوں کے بلبلے ابھرتے ہیں اورایک ایک کر کے پھوٹ جاتے ہیں۔ رات آتی ہے تو خوابوں کی کہریلی دنیا کے آسیب اس پر یلغار کرتے ہیں۔ دوسرے دن پھر وہی فکریں، وہی خیال، وہی ہراس، وہی ناامیدی، وہی جیل کے بدذائقہ پتلے شوربے کے ساتھ سخت پتھر روٹیاں نگلنا اور سوچتے رہنا۔

    جب یہ خبر اڑی کہ کل گھوڑوں کو لے جائیں گے، مجھے سارے دن کاسی ہی کا خیال آتا رہا۔ رات کو بھی بڑی بے چین نیند سویا۔ دوسری صبح ہم سب قیدی وقت سے پہلے جاگ اٹھے تاکہ جیل کی کھڑکیوں سے توپوں اور گھوڑوں کے لے جانے کا تماشا دیکھیں۔ یہ تماشا دیکھنا بھی ایک تماشا ہی تھا۔ آدمی سلاخوں کے پیچھے کھڑا ہے اور دیکھتا ہے کہ اس کا مال لوٹے لیے جاتے ہیں، اور کچھ نہیں کر سکتا۔

    ہم کھڑکیوں کے پاس جا کھڑے ہوئے۔ وہاں سے بارکوں کا احاطہ اور اصطبل دکھائی دے رہے تھے۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ بارش کی ہلکی دھند میں دور سے گھوڑوں کے سر نظر آئے۔ ایک ایک روسی سپاہی دو دو کو تل گھوڑوں کو دہانوں سے پکڑے کھینچتا لا رہا تھا۔ گھوڑوں کو دیکھ کر مجھ پر عجیب ناامیدی سی چھا گئی۔ دل دھڑ دھڑ کرنے لگا، ٹانگوں میں دم نہ رہا اور منھ خشک ہو گیا۔ پھر بھی میں نے گردن آگے بڑھا دی کہ ان گھوڑوں میں کاسی کو تلاش کروں۔ ہماری فوج کے سب گھوڑے گہرے رنگ کے سرنگ اور کمیت تھے۔ صرف کاسی کے رنگ میں سفیدی اور اجلاپن تھا۔ وہ ابلق گھوڑا تھا۔ اس کے بدن پر بھر پر چھوٹی چھوٹی بھوری اور کتھئی چتیاں تھیں۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سفید رنگ پر ان دو رنگوں کا چھینٹا دے دیا گیا ہے۔

    دور پر میں نے اس کا چتکبرا رنگ دیکھا۔ میری سانس گھٹنے لگی۔ وہی تھا۔ اس کے تیوروں کا تیکھاپن اور گردن کا کھنچاؤ رخصت ہو چکا تھا۔ سر لٹکا ہوا اور کنوتیاں گری ہوئی تھیں۔ اگلی چھل بل اور طراروں کا کہیں پتہ نہ تھا۔ میلا چکٹ ہو رہا تھا۔ ٹانگوں پر کیچڑ اور لید کے تھکے جم گئے تھے۔ ہفتوں سے نہ ملائی دلائی ہوئی تھی، نہ کھریرا پھیرا گیا تھا۔

    وہ جیل کے سامنے پہنچا تو میری زبان کو قفل لگ گیا۔ چاہتا تھا پکاروں، کاسی کو بلاؤں، چوکیداروں سے کہوں کہ اسے ذرا میری طرف گھما دیں۔ میں نے کسی طرح خود کو سنبھالا اور سوکھے گلے سے دو تین بار صرف ایک لفظ نکال پایا،

    ’’کاسی! کاسی! کاسی!‘‘

    ابلق گھوڑے میں جان سی پڑ گئی۔ یقین کرو، اس کی گردن تن گئی۔ اس نے سر گھمایا اور جہاں سے میں نے اسے پکارا تھا، اس طرف دیکھنے لگا اور زور سے ہنہنایا۔ نہیں معلوم قیدیوں کے جھرمٹ میں کھڑکی کے پیچھے، میں اس کو دکھائی دیا کہ نہیں، مگر چند لمحوں کے لیے اس کے پیروں میں وہی رقص کی سی چلت پھرت نظر آئی۔ پھر سپاہی نے اس کے دہانے کی آہنی ڈنڈی کو اس کے منہ کے اندر زور سے کھٹکھٹایا اور تکلیف کی شدت سے اس کی حالت پھر اسی طرح ردّی ہو گئی۔

    کاسی کو لے گئے۔ دوسرے گھوڑوں کے ساتھ اسے بھی جہاز پر چڑھا دیا گیا اور ہم دور سے دیکھتے رہے کہ وہ دور ہوتے جا رہے ہیں۔‘‘

    *

    ہم دونوں سنسان پشتے پر چل رہے تھے۔ سمندر کی جانب سے تیز ہوا کے جھونکے آ رہے تھے اور موجیں پشتے سے ٹکرا ٹکرا کر پانی اڑا رہی تھیں۔ ہلکی ہلکی پھوار بھی پڑ رہی تھی۔ میں نے محمود کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں کے نیچے اور رخساروں پر تری تھی۔ میں نے پوچھا، ’’کیا روئے ہو؟‘‘

    ’’نہیں، ہماری عمروں کے آدمی روتے نہیں، آنسو ہی نہیں نکلتے، بارش ہوئی ہے۔‘‘

    اندھیرا پھیل رہا تھا۔ سمندر کالا ہوتا جا رہا تھا۔ ہم واپس آنے لگے اور راستے میں محمود کو میں نے یہ قصہ سنایا،

    ’’میں فوج میں نیا نیا افسر ہوا تھا۔ روز صبح صبح میں اپنے گھر کی گلی کے آگے سڑک پر جا کھڑا ہوتا۔ میری رجمنٹ کی بس آتی اور میں اس پر سوار ہو کر کیمپ چلا جاتا تھا۔ ایک دن میں ذرا جلدی سڑک پر آ گیا تھا۔ کچھ بس نے بھی دیر لگائی۔ میرا ایک دوست ادھر آ نکلا اور ہم وہیں کھڑے کھڑے باتیں کرنے لگے۔ وہ بھی فوج میں افسر تھا۔ باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ اس کے پاس ایک خوبصورت بادامی سمند گھوڑا ہے، جسے وہ بیچنا چاہتا ہے۔ میں اس دوست سے بخوبی واقف تھا اور جانتا تھا کہ وہ معاملات کا کھرا آدمی ہے، اور سمندگھوڑے مجھ کو پسند بھی تھے۔ لہٰذا میں نے جانور کو دیکھے بغیر خرید لیا اور سودا وہیں کا وہیں پکا ہو گیا۔ دوست یہ کہہ کر رخصت ہو گیا کہ اسی دن گھوڑے کو میری رجمنٹ میں بھجوا دے گا۔

    ہماری رجمنٹ کا پڑاؤ شہر سے فاصلے پر تھا اور دوپہر کو ہم وہیں رہ جاتے تھے۔ اس دن میں کھانا کھا کر اٹھا ہی تھا کہ ایک سپاہی خبر لایا کہ گھوڑا آ گیا ہے۔ ہمارے کیمپ کے بیچ میں ایک لمبی سڑک تھی، جس کے دونوں طرف چنار اور سفیدار کے درختوں کی قطاریں تھیں۔ ان میں سفیدار چناروں سے اونچے نکل گئے تھے۔ میں دفتر سے باہر آ کر سڑک پر کھڑا ہو گیا۔ دیکھا ایک سپاہی شوخ رنگ کے ایک گھوڑے پر بیٹھا ہوا آ رہا ہے۔ بڑے قد کاٹھ اور بلند گردن کاگھوڑا تھا۔ جسامت ایسی کہ اس کے زین پر بیٹھا ہوا سپاہی چھوٹا سا معلوم ہو رہا تھا۔ قریب آیا تو میں نے دیکھا کہ عجب خوش انداز اور خوش رنگ گھوڑا ہے۔ اس کے رونگٹے سنہری مائل تھے اور جھلمل جھلمل کر رہے تھے۔

    چھوٹا سر، نرم چمکیلی آنکھ، مضبوط جوڑ بند اور بھاری سُم، اونچی گردن، تنا ہوا سینہ، چلنے رکنے میں سر کو باندھے ہوئے۔ اس چھب کا گھوڑا آج تک میری نظر سے نہیں گزرا تھا۔ سمند گھوڑا کم ہوتا ہے، خصوصاً یکساں اور شوخ بادامی رنگ کا سمند۔ میں بے اختیار ہو کر اس کی سری اور کنوتیاں سہلانے لگا۔ وہ مزے میں کھڑا رہا، جیسے برسوں کا مجھ سے ملا ہوا ہو۔ سپاہی اس پر سے اتر پڑا اور میں وہیں آزمائش کے لیے اس کی رکاب میں پیر ڈال کر زین پر بیٹھ گیا۔ گھوڑا آگے بڑھا تو میں نے اسے پویا چلایا۔ پھر دلکی۔ اس کے بعد کیمپ کی سڑک پر دور تک بڑے اطمینان کے ساتھ سرپٹ دوڑایا۔ اس کی سواری ایسی ہموار اور عمدہ تھی کہ معلوم ہوتا تھا نرم گدے پر بیٹھا ہوں اور فضا میں تیر رہا ہوں۔

    ہم نے اس کو اصطبل میں پہنچا دیا اور وہاں سپاہی کو لوٹانے کے لیے اس کا زین اتارا گیا تو ہم یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ یہ خوبصورت گھوڑا زیں پشت ہے۔ زیں پشت اس گھوڑے کو کہتے ہیں جس کی کمر میں نیچے کی طرف خم ہوتا ہے۔ یہ گھوڑے کا عیب سمجھا جاتا ہے، کہتے ہیں اس خم کے زیادہ ہونے سے گھوڑے کا دم کم ہو جاتا ہے۔ اس گھوڑے کی کمر میں زیادہ خم تھا۔ اس کی پیٹھ کا وہ حصہ جہاں زین رکھتے ہیں، کمان کی طرح جھکا ہوا تھا۔ لمحہ بھر کو مجھے خیال آیا کہ اسے واپس پھیر دوں۔ لیکن میرا جی نہ مانا۔ بہت خوبصورت گھوڑا تھا۔ اس کی اصالت، اس کے تیور اور اس کے جمال سے کیونکر آنکھیں پھیر لیتا۔

    گھوڑے کو اصطبل میں باندھ دیا گیا اور دوسرے دن سے وہ میری سواری میں رہنے لگا۔ تمہارے اور اس ابلق گھوڑے کی طرح مجھ میں اور اس سمند میں بھی عجب چاہت اور لگاؤ پیدا ہو گیا تھا۔ میرا بلند قامت زیں پشت سمند، جو گردن اٹھا کر چلتا اور بن بن کر زمین پر پاؤں رکھتا، بہت جلدی مشہور ہو گیا۔ سرپٹ چال میں وہ صرصر کی طرح فضا کو چیرتا نکل جاتا اور چونکہ اس کی کمر میں خم تھا، اس لیے اس پر بیٹھنے میں بڑی راحت ملتی تھی۔

    ایک ہی دو سال گزرے تھے کہ توپ گاڑیاں پٹرول سے چلنے لگیں۔ پرانی چال کی گاڑیاں کباڑخانوں میں ڈھیر ہوتی گئیں اور انہیں کھینچنے والے گھوڑے گلوں میں بھیجے جانے لگے۔ فوج سے اصطبل اور گھوڑوں کا صیغہ ہی ختم ہو گیا تو میں بھی مجبور ہوا کہ اپنے سمند کو وہاں سے ہٹا لے جاؤں، اور چونکہ میرے پاس اسے رکھنے کا ٹھکانہ نہیں تھا، اس لیے اس کو بیچنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ دو تین ہفتے اسی ادھیڑ بن میں گزر گئے۔ میرا دل اس کو الگ کرنے پر کسی طرح نہیں اٹھتا تھا۔

    مگر بالآخر جب سارے اصطبل گھوڑوں سے خالی ہو گئے اور توپ گاڑیاں ہٹا دی گئیں اور خود میرا تبادلہ بھی اسٹاف میں ہو گیا تب مجھے اپنے گھوڑے کو صبر کرنا ہی پڑا۔ میری رجمنٹ کا ایک سائیس، جو چھٹنی میں آ گیا تھا، ایک خریدار کو لے آیا۔ اس نے گھوڑے کو دیکھا بھالا، پسند کر لیا اور پیسے بھی اچھے دیے۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا کہ اس لاڈلے گھوڑے کو تکلیف نہ دے، اور اگر اسے بیچے تو کسی ایسے آدمی کے ہاتھ بیچے جو اس کو فٹن یا چھکڑے میں نہ جوتے۔

    کئی مہینے گزر گئے۔ مجھے اپنے زیں پشت سمند کی یاد آتی رہتی تھی اور جیسا کہ تم نے بتایا، میرا بھی دل چاہتا تھا کہ کسی صورت اسے دیکھوں، تھپتھپاؤں اور اس بے زبان کے منہ کے آگے ہاتھ کروں اور اس کی گرم اور نرم سانسوں کو محسوس کروں۔

    ایک دن خیابان شمیران کی چڑھائی پر مجھ کو ایک اونچا، لاغر، زیں پشت گھوڑا دکھائی دیا۔ آنکھیں بجھی بجھی، نڈھال بدن پسینے میں تر بتر، مگر اسی آن کے ساتھ جو مجھے اپنے سمند میں نظر آتی تھی، بوجھ سے لدے ہوئے ایک کھڑ کھڑے میں جُتا اسے کھینچ رہا تھا۔ کوچوان نیچے اتر کر اس پر چابکیں برسا رہا تھا اور کھڑکھڑے کو دھکا لگا کر تیزی سے چڑھائی چڑھنے کی کوشش کر رہا تھا۔

    وہی تھا۔ اس کا سنہرا بدن میل کچیل اور پسینے کے لیپ سے چکٹ کر کالا ہو رہا تھا۔ میرا بہت جی چاہا کہ اس کو قریب سے جا کر دیکھوں، اسے پکاروں اور اس کا بدن سہلاؤں، لیکن مجھے اس سے شرم سی آ رہی تھی۔ وہ ایسے حال میں نہ تھا کہ میں اس کے سامنے جا سکتا۔ اس کی رگیں ابھر آئی تھیں اور داہنے بائیں پٹھوں پر اور پیٹھ پر چابک کی مار سے نالیاں سی بن گئی تھیں۔ میں نے سوچا کوچوان سے بات کر کے گھوڑے کی کچھ سفارش کروں لیکن اس سے ہونا کیا تھا۔ وہ شکستہ حال قیدی، وہ تھکا ہارا زیں پشت سمند، جو اب میرا نہیں تھا، اپنے مقدر کا لکھا پورا کر رہا تھا۔ میں خود سمجھ سکتا تھا کہ وہ میرے بارے میں کیا سوچتا ہوگا۔‘‘

    *

    پانی تیز برسنے لگا تھا اور تاریکی پھیل گئی تھی۔ میں اور محمود اپنے کمرے پر پہنچ گئے تھے۔ بلب کی روشنی میں محمود نے مجھے دیکھا اور بولا، ’’تمہارا چہرہ بھیگا ہوا ہے۔ روئے ہو؟‘‘

    ’’اس عمر کو پہنچ کر آدمی روتا نہیں۔۔۔‘‘ میں نے کہا، ’’پانی برس رہا ہے۔‘‘

    فارسی عنوان، ’’باران و اشک‘‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے