بس ایک نقطہ
پھولدار ساری پہنے ہوئے وہ آہستہ آہستہ قدم اٹھاتی کھیت کی طرف آتی دکھائی دی، وجئی سر اٹھائے اسے دیکھتا رہا اور سوچتا رہا۔
کا ہو منا کے ابا۔۔۔آج کھانا کھائے کھاتِر گھر کاہے نا ہی آئیو؟۔۔۔
گنگا نے اپنے سر پر سوتی، پرانی جگہ جگہ سے پیوند لگی ساری کا آنچل درست کیا اور میلا سا رومال کھول کر دو جو کی روٹیاں ایک پھانک اچار نکال کر شہتوت کے درخت کے نیچے دستر خوان سجا دیا۔
وجئی نے پھاوڑا درخت کے ایک کنارے رکھّا اور انگوچھے سے ہاتھ صاف کر تا ہوا بولا۔
بچے کچھو کھائین۔۔۔؟
ہاں ہاں کھائے لہِن۔ تم ای روٹی کھائیے لیو سارا سارا دن گرمی ما ہیا ں لگے رہت ہو۔کھیہو نہ تو کیسے کریہو۔۔۔ (سارا دن گرمی میں یہاں لگے رہتے ہو کھاؤگے نہیں تو کیسے کروگے )
گنگا نے پیتل کی پانی بھری بندھنی ہری گھانس پر جمادی اور خود ایک کنارے بیٹھ کر پیر پھیلا دیئے۔ دور سے چل کر آئی گنگا تھکن سے چور تھی۔۔۔ہری گھانس کی ٹھنڈک بھلی لگ رہی تھی۔
وجئی کے اندر ایک ابال سا آرہا تھا جیسے وہ کچھ طے نہ کر پا رہا ہو۔
روٹی کی طرف ہاتھ بڑھائے بغیر اس کی نگاہیں گنگا کے ناتواں چہرے پر جمی تھیں۔
کتنی سندر تھی وہ۔ چاندی کی پائلیں چھن چھن کرتی جب میرے مٹی کے لپے پتے آنگن میں اتری تھی۔
اپسرا جیسی لگتی تھی۔ میں کچھ نہ دے سکا اِس کو۔ چار بچے غریبی فاقہ کشی اور شدید محنت۔ جس نے اسے نچوڑ کر رکھ دیا تھا۔
وہ پیڑ کے نیچے گٹھری بنی لیٹی تھی۔ اس انتظار میں کہ وہ کھانا ختم کرے تو برتن لے کر گھر جائے۔
وجئی کا اصلی نام تو وجے پر شاد تھا مگر بگڑتے بگڑتے سات نقطوں میں بس یہی ایک نقطہ رہ گیا تھا۔
پہلے تو اچھی خاصی زمین کا مالک تھا وہ اپنی ہی زمین پر مٹی کا لپا پتا گھر، تین بچے اور اپسرا جیسی گنگا۔ ایک محنتی اور ایمان دار انسان کو اس سے ذیادہ کی خواہش بھی نہیں ہوتی۔ بچے اسکول میں پڑھ رہے تھے۔ ان دونوں نے بچوں کے لیئے بڑے خواب دیکھے تھے۔
سارے دن کی محنت مشقت کے بعد بھی دونوں خوش تھے۔
پچھلی بار کچھ فصل کم ہوئی اور گاؤں کے پر دھان نے سرکار سے قرض لینے کا راستہ دکھا یا۔
ارے کاہے گھبرا ت ہو۔ ۔ہم بیٹھ اہیں نا؟ قرضہ نہ لیہو تو ای بیج اور کھاد کہاں سے ایئہے؟ سیکڑن کسان قرضہ لیئے بیٹھے ہیں کام چلاوت ہیں۔ تم ہو لے لیو۔۔۔فصل اچھی ہو جیئہے تو ایکے بار میں سب قرضہ اتر جیہئے۔ (ارے کیوں گھبراتے ہو۔ ہم بیٹھے ہیں نا قر ضہ نہیں لوگے تو یہ بیج اور کھاد کہاں سے آئےگی۔ سیکڑوں کسان قر ضہ لئے بیٹے ہیں اپنا کام چلا رہے ہیں تم بھی لے لو فصل اچھّی ہو جائے تو ایک ہی بار میں قرضہ اتر جائےگا )
اور جو فصل اچھّی نہ ہوئی تو۔۔۔، اس کے ذہن میں خدشے پل رہے تھے۔
تو کونو بات نہیں تھو ڑا دے دیہو۔۔۔تھوڑا اگلی بار۔۔۔گنگا کا کچھ زیور تو ہوئی؟؟ رہن رکھ دیو۔
نا ہی مکھیا جی۔۔۔ای نہ کہیو۔ ۔۔اتنی بے عجتی نہ سہہ پو بے۔۔۔
کچھ جمین نکال دیہو دوئی بگہا بہت ہیں تمکا۔۔۔باقی نکال دیو، جب قرضہ واپس ہوجائی تو پھر آپن جمین اگلی پھسل ما پھر لے لیہو۔۔۔ہمری مانو تو لے لیو۔۔۔سب ہوئی جات ہے۔۔۔(کچھ زمین نکال دو جب قرض واپس ہو جائے تو پھر اپنی زمین اگلی بار واپس لے لینا۔۔۔)
اس نے کتنا قرض مانگا اور کتنا ملا یہ سب تو پر دھان ہی جانتے تھے۔ انکا حصّہ کتنا ملا۔ وجئی ان پڑ غریب کو تو یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ کس کس کاغذ پر انگو ٹھا لگوایا گیا، اسے کچھ روپیئے دے دئے گئے۔ جس سے گیہوں خرید نے کے بعد اتنے ہی پیسے بچے کہ اسنے اپنے کھیت میں ٹریکٹر سے بوائی کروا لی۔ ایک گھنٹہ کے لئے ٹریکٹر چلانے والا 500 روپئے لیتا تھا۔ مگر گیہوں کی کھڑی فصل بے وقت بارش ہوجانے سے پہلے ہی بر باد ہو چکی تھی۔سنہرے گیہوں کے تیار پودے زمین میں گر کر کیچڑ میں مل گئے، ساتھ ہی اسکے سارے خواب بھی۔۔۔چند دانے بھی نہ بچ سکے جو وہ منڈی لے جا تا اور قرض کی کوئی قسط دے دیتا۔
پھر ایک ایک کرکے کئی زمینوں کے ٹکڑے بک گئے۔ سودچلا گیا اور اصل قرض وہیں کا وہیں رہا۔
اس بار بارش ہو جاتی تو شاید۔
اس نے آسمان کی طرف نظر کی ایک بھی بادل کا ٹکڑا دکھائی نہیں دیا۔ پہلے ندی سے نہروں میں پانی آتا تھا اور نہر بھری رہتی۔ بھینسیں ان میں نہاتیں۔ بچّے بھی ڈبکیاں لگاتے ایک دوسرے پر پانی پھینکتے اور جھر نوں جیسی ہنسی بکھری رہتی۔
نہر کے پانی سے سارے کسان اپنے اپنے کھیتوں کی سنچائی بڑے آرام سے کر لیتے تھے۔ پھر تالابوں میں پانی بھر لیا جاتا جہاں صبح صبح دھوبی اپنا گھاٹ لگا تے اور عور تیں بکری اور بھینسوں کو نہلاتیں پانی پلاتیں۔ اب وہ سلسلہ بھی ختم ہو گیا تھا، تالابوں کے سوکھے گڑھے اپنی بے نور ی پر ماتم کرتے۔ انکا چمکتا لہرا تا پانی بس ایک یاد بنکر رہ گیا تھا۔
جن لوگوں کے پاس ٹیوب ویل لگے تھے وہ اپنے کھیت میں پانی لگا لیتے مگر ٹیوب ویل لگانا ہر ایک کے بس کی بات تو نہیں انھیں تو بارش کا انتظار رہتا۔۔۔آسمان پر نگاہ ٹکی رہتی۔ وجئی کی ساری زمین یا تو رہن پڑی تھی یا اس قرض کی نذر ہو گئی۔
وہ بچے ہوئے آخری کھیت کی مینڈ پر بیٹھا خلاؤں میں تکتا رہتا۔ کہیں سے کوئی مدد نہیں۔۔۔گاؤں میں تقریباً سبھی کسانوں کا ایک سا حال تھا کون کس کے قرض اتار تا کون کس کے کاندھے پر سر رکھ کر روتا۔ سب اپنی ہی آستین سے آنسو پوچھتے رہے۔ دھوپ میں جل جل کر کسانوں کی رنگت سیاہ پڑ چکی تھی۔
لوگ یہ بھی نہیں سوچتے کہ اگر کسان نہ ہو تو انکا دستر خوان کیسے سجےگا؟
سرکار قرض دے دیتی ہے۔ جگنو کی چمک جیسی خوشی اور پھر وہی اندھیا را۔ قرض کی وصولی کے نام پر انکا چین سکون یہاں تک کہ انکے خواب بھی ان سے چھن ِ گئے تھے۔
اس دن جب راجن اور منا اسکول سے بھاگتے ہوئے گھر کی جانب آئے اور کھیت کی منڈیر سے گر کر راجن کا پیر مڑگیا کپڑے کیچڑ میں سَن گئے تو گنگا اس پر برس پڑی۔۔۔مگر جب راجن نے روتے روتے بتایا کہ وہ دونوں اسکول سے نکال دئے گئے، چھ مہینے سے فیس نہیں دی ہے اب وہ کبھی اسکول نہیں جا سکیں گے تو گنگا بچوّں کو لپٹا کر بہت دیر تک روتی رہی۔
جس طرح پانی میں برف گھل کر اپنا وجود کھو دیتی ہے اسی طرح انسانوں کے اس سمندر میں کسان اپنا وجود کھو رہا تھا۔
بچوں کی اعلیٰ تعلیم اس کا خواب تھے مگر وہ ان کو زمین پر پھاوڑا چلاتے دیکھتا تھا۔ وہ تینوں بچے صبح شام آکر اس کا ہاتھ بٹاتے تو وہ کراہ اٹھتا۔
اس کی ساری خواہشات دم تو ڑچکی تھیں۔ کب تک؟
آخر کب تک؟
بس یہ آخری سوال تھا جو اس کے ذہن میں آیا۔ اسنے کمر سے بندھی پڑیا کھول کرزہر پانی کے ساتھ رگوں میں اتارا تب گنگا ہری گھانس پر بےخبر سو رہی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.