بے ڈھنگا
نوری نے ماچس کی ڈبیا ہلائی، تو ابھی اس میں اچھی خاصی تیلیاں موجود تھیں۔ اس نے ٹیڑھی میڑھی لکڑیاں درست کرتے ہوئے سوچا کہ ان سے کچھ دن چولھا گرم رکھا جا سکتا ہے۔ اس نے ایک تیلی مسالے پر رگڑی تو جیسے سورج روشن ہونے لگا۔
نوری نے ایک امید بھری نگاہ افق پر ڈالی، لکیر گلابی ہونے لگی تھی۔ بالکل اس کے تازہ ملائم ہونٹوں کی طرح۔ اس نے تیلی کو دیکھا تو وہ جل کر زمین کی طرف جھک گئی تھی۔ ’’یہ تو ایک دم، بےجان ہو گئی ہے۔‘‘ نوری کے دل نے کہیں اندر ہی اندر سرگوشی کی۔
نوری کو یاد آیا کہ وہ بچپن میں اس معمولی سی تیلی کو، کوئی توپ چیز سمجھ کر کس قدر خوف زدہ رہا کرتی تھی۔ تنہا، نوری کے پاس سوچنے کے لیے اب بہت وقت تھا، اسی لیے اس پر کئی راز منکشف ہو نے لگے تھے۔ اسے یاد آیا کہ ننھی تیلی کے خوف کا سبب وہ شخص تھا۔جس نے اس کی بڑی بہن کے ساتھ کھیلتے ہوئے اچانک پھلجھڑی چھوڑ دی تھی۔ چنگاریاں دیکھ کر نوری ڈر گئی تھی۔ نوری نے تیلی کاموٹا بےجان سرا جھکا ہوا دیکھا توایک فاتحانہ مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر پھیل گئی۔
آج وہ بہت دنوں بعد مسکرائی تھی۔۔۔ تھکاوٹ کا احساس ہوا تو اپنی ٹانگیں دبانے لگی۔ ٹانگیں دباتے ہوئے اپنے چھلنی پاؤں دیکھ کروہ پھر سے اداسی کی اوٹ میں چلی گئی۔۔۔ یہ وہی پاؤں تھے جنھیں بارہا چوما گیا تھا۔ اسے اپنی فلموں کے ایسے سین بہت پسند تھے جن میں اس کے پاؤں وارفتگی کے عالم میں چومے جاتے تھے۔ آج یہ پاؤں اس کمبخت، منحوس کو بہت تلاش کر آئے تھے، لیکن اس کا کچھ پتا نہ چلا تھا۔۔۔ اس ٹیڑھی میڑھی ہڈیوں والے کو صرف نوری ہی نہیں بلکہ پورا جنگل تلاش کر رہا تھا۔
سورج نکلتا تو درختوں کے سائے مغرب کی طرف بھاگتے اور دور دراز کی کھائیوں تک اسے تلاش کر آتے اورجب سورج غروب ہوتا تو اس بےڈھنگے کواونچے درختوں کے سائے، مشرق کی چوٹیوں کے پار دیکھ آتے۔ جنگل کے ساتھ ساتھ نوری سنگلاخ چٹانوں، خارزاروں اور ریگزاروں کو پاؤں کے تلووں تلے روند آتی پر اس کا کچھ پتا نہ چلتا۔ جنگل اداس تھا۔۔۔ نوری اداس تھی۔۔۔ پرندے اداس تھے۔۔۔ کنواری کلیاں اداس تھیں۔
بے ڈھنگا، بہت ہی بے ڈھب تھا۔ لفظ بے ڈھنگا آپ جتنی باربھی سوچ لیں وہ اس سے بھی کہیں زیادہ بے ہنگم، بے جوڑ اور بے ترتیبا تھا۔اس کے ٹیڑھ پنے میں کوئی ترتیب تھی ہی نہیں۔ ۔۔یعنی قدرت نے اسے کسی ڈھنگ سے بے ڈھنگا نہیں بنایا تھا۔۔۔ کان تھے کے باہر کو نکلے ہوئے۔ماتھا اٹھاہوا،آنکھیں تھیں کہ اندر کو دھنسی ہوئیں، ٹھوڑی چپٹی اور آخر سے ابھری ہوئی، ریڑھ کی ہڈی پیچ دارتھی۔اگر ایک پسلی اندر کی جانب مڑی ہوئی تھی تو دوسری باہر کو کمان بناتی تھی۔ ہاتھ ضرورت سے زیادہ بڑے اور ایسے بلدار کہ کوئی چیز تھام نہ سکتے تھے۔پاؤں کے جوڑ اکڑے ہوئے۔ بازو اور ٹانگیں۔ ۔ ۔ وہ ایک ایسا موم کا گڈاتھا، جسے کسی ضدی بچے نے کئی باربے دردی سے بل دے رکھے تھے۔۔۔لیکن سب حیران تھے کہ اتنا بے ترتیبا جو مرضی سے ہل بھی نہیں سکتا تھا، آخریہاں سے نکل کر گیا کہاں؟ بہر حال بے ڈھنگا بھاگتے ہوئے غلطی سے اپنا وہ اکڑا ہوا، داغداراتکیہ چھوڑ گیا تھا۔جسے وہ سوتے وقت ٹانگوں میں دبا کر رکھتا تھا۔
یہ قدرتی آفات اچانک نازل ہوتی ہیں یا ان کے پیچھے کوئی منصوبہ کارفرما ہوتا ہے؟اس بات پر نوری نے پچھلے چند دنوں میں بہت سوچالیکن وہ کسی نتیجے تک نہیں پہنچ سکی تھی۔اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے، قدرت انسان سے اسی طرح ناراض ہے جیسے وہ کسی زمانے میں ڈائنو سار سے ناراض ہوئی تھی۔’’آج ڈائنوسار پتھروں پر نقش تصویر سے زیادہ کچھ نہیں ہیں، شاید کل انسان بھی۔۔۔؟؟‘‘کھِلنڈری نوری کا دماغ کبھی ایسی باریک باتیں سوچےگا۔ اس کا تو خود نوری کو بھی اندازہ نہیں تھا۔اس سانحے نے اسے بقا کی آخری سیڑھی پر لا چھوڑا تھا۔۔۔اس نے سوچا حادثے سے پہلے ڈھنگ کے کتنے مرد اس کے آگے پیچھے ہواکرتے تھے۔ آج پوری دنیا میں ایک بے ڈھنگا بچا تھا،جس پر وہ سارے داؤ پیچ آزما چکی تھی نہ تو اس کمبخت کو سیبوں سے رغبت تھی نہ گندم کے دانے کی ضرورت۔
نوری قدرت کے انتقام پر ششدر تھی۔ قدرت نے آخری چانس دیا بھی تو کیساکہ آج وہ حوائے ثانی بن کر انسان کی جنگ لڑٖ رہی تھی۔اس کا حسن تھا کہ سورج کی طرح روشن تھا۔وہ ترتیب و تناسب میں گندھی ایک پورن سٹار جونمائش کا فن بھی خوب جانتی تھی، بے بس کر دی گئی تھی کیونکہ اس وقت دنیا میں صرف دوآنکھیں بچی تھیں جو ماتھے کی ہڈی تلے دھنسی ہوئی تھیں۔۔۔اب مسئلہ فن کا نہیں ضروت کا تھا۔سو تناسب کی شاہکار، بد ہیتی کے انتظار میں مری جاتی تھی۔ملن چاہتی تھی۔انسان کی بقا چاہتی تھی۔
قدرت نے جنگل کو خوب ڈھیل دے رکھی تھی۔جنگل نے اپنی حکمت سے ایک ترتیب کو قائم رکھنا تھا۔ جنگل کو اپنی بقا عزیز تھی۔وہ انسان کے ساتھ رہ رہ کر اس کا عادی ہوگیا تھا۔سو وہ اسے ڈھونڈتاتھاکہ بے ڈھنگا جو بھی تھا،رانوں کا پورا تھا۔گھٹنوں سے نیچے اور ناف سے اوپر اس کا ٹیڑھ پنا خوب بل کھاتا تھا۔ وہ تاک کی بیل کی طرح بل دار تھا۔ تاک کی بیل پرانگور چمکتے تھے، نوری اور جنگل، پھل توڑنا چاہتے تھے۔مگر بے ڈھنگے نے۔۔۔
جنگل ابھی مایوس نہیں ہوا تھا لیکن وہ پلان بی اور سی پر سوچنے لگا تھا۔وہ آدم کا محتاج تو نہیں تھا صرف عادی تھا۔ وہ اپنی سانسیں کیڑے مکوڑوں سے بھی بحال رکھ سکتا تھا۔
نوری چوکی پر بیٹھی گود میں وہی تکیہ لیے، گھٹنوں پر سر رکھے، چولھے کو دیکھ رہی تھی۔ شام کے سائے چولھے کی رنگت کو اورسیاہ کر رہے تھے۔ اچانک نوری کی آنکھوں میں ایک نا آسودہ منظر جاگا۔ اس نے تیزی سے ماچس کی ایک تیلی جلائی، تیلی آگ روشن کیے بغیر دھواں دے کر ٹھنڈی ہو گئی۔ نوری نے سوچا،کہیں بے ڈھنگا بھی۔ ۔۔؟شایدوہ یہ چاہتی تھی کہ انسان کی بقا کا بار اس کے کندھوں سے ہٹ جائے اور یہ بات ثابت ہوجائے کہ انگور کھٹے ہیں۔
اچانک جھاڑیوں میں جنبش ہوئی، نوری نے بے تابی سے باہر دیکھا۔ ۔۔کچھ بھی نہیں تھا۔کوئی پرندہ پھڑپھڑایا تھا۔
جنگل بھی چونکا،اس نے ایک آنکھ کھول کر دیکھااورپھرسے آنکھیں بند کر کے پلان بی اور سی پرسنجیدگی سے سوچنے لگا۔وہ صرف حوا سے کام نہیں چلاسکتا تھا۔ جنگل نے وحشت بھری نظر وں سے نوری کو دیکھا۔
نوری موت دیکھ کر سہم گئی اس نے بے چینی سے بے ڈھنگے کو آوازیں دیں، ادھر ادھر بھاگی،پھر ننگی گالیاں بکتے بکتے رونے لگی۔ ۔۔چھلنی پاؤں اسے کہاں چلنے دیتے تھے۔لنگڑاتی ہوئی واپس آئی اور تکیے میں منہ چھپا کر آنسو بہانے لگی،کیونکہ وہ اپنے ماتم پر خود ہی آنسو بہا سکتی تھی۔۔۔ بے ڈھنگا غائب تھا۔ کبوتر، ہدہد کوئی بھی اس کی خبر نہ لاتا تھا۔خضر تھا کہ منہ بسورے آب حیات میں زہریلا تیزاب انڈیل رہا تھا۔ اس کی دکان بھی اب بند ہونے کو تھی۔خضر، بہت کوشش کے باوجود، دکھوں سے بل کھائے بے ڈھنگے کی رہنمائی نہیں کر سکا تھا۔
بے ڈھنگا رائیگانی کی آگ میں جل کر نسل نو کا منبع لیے ایسے غائب تھا جیسے وہ کبھی تھا ہی نہیں۔۔۔
جنگل میں بال کھولے ویرانی، اب نوری سے کہتی تھی کہ وہ نہیں آئے گا۔ تیری خیر نہیں ہے، دیکھ! راستوں پر گھاس اگ رہی ہے۔ عمارتوں کے سَر گرد سے اٹے جاتے ہیں۔ پرندے کھل کر سانس لینے لگے ہیں۔ جانور سینہ تان کر چلنے لگے ہیں۔ چیزیں جو تمھاری عادی تھیں اپنی عادت بھول رہی ہیں۔ نوری ماچس میں بچی تیلیاں جلا جلاکر اچھے دنوں کا ماتم کرتی تھی۔افسوس کرتی تھی کہ کاش کوئی ایک عورت ہی اور بچ جاتی، کم از کم سارا الزام تو مجھ پر نہ آتا۔
کائنات کی قیمتی اور لازمی ترین تخلیق، یعنی مادہ، یعنی حوا، یعنی نوری بےثمر ہونے کے ڈر سے قدرت کے سامنے سہمی ہوئی کھڑی تھی۔ انسانی بقا اس کی ذمہ داری تھی۔۔۔قدرت اس پر ہنس رہی تھی۔۔۔ آخر یہ عجیب وغریب تماشا دیکھ کر نوری قدرت سے مخاطب ہوکر چلائی: ’’میں کیا کرتی۔ میرا قصور کیا ہے حادثے میں دوسرا کوئی بچا ہی نہیں اور وہ کمبخت بے ڈھنگا ہے کہ۔۔۔‘‘وہ چپ ہو گئی اس کے سینے میں کوئی ایک گالی بھی نہیں بچی تھی۔۔۔ قدرت ہنس رہی تھی۔۔۔ کبھی نوری حسین تھی۔ مرد، مرتے تھے اس پر، اس کا ملاپ چاہتے تھے، اسے تلاش کرتے تھے۔۔۔ خدا کی قدرت، آج بے ڈھنگا تلاش کیا جا رہا تھا۔۔۔ ضرورت نے حسن کا معیار بدل دیا تھا۔
نوری تکیہ ایک پل خود سے جدا نہ کرتی تھی۔ بات بے بات اس میں منہ چھپا کر روتی تھی۔ آنسو پڑنے سے تکیے میں بسی بو اور زیادہ مہک اٹھتی تھی۔۔۔ وہ اپنی بے بسی اور اپنی طلب پر ایک ہی تڑپ میں یوں مچل جاتی کہ خود فیصلہ نہ کر سکتی تھی کہ کس چیز پر ماتم کرے تو اسے ایک پل کا سکون میسر آئے۔ بس ایک امید تھی کہ وہ ہاتھوں کا ٹیڑھا اپنا تکیہ لینے ضرور آئے گا۔ اس کا مسئلہ بغیر تکیے کے حل نہیں ہو سکتا تھا۔
جنگل نے پلان بی اوکے کر لیا تھا۔ اب وہ نوری کو ایک قاتل کی نظر وں سے گھورنے لگا تھا۔ اسے بد صورتی کے طعنے دے دے کر مارنا چاہتا تھا اور وہ بےچاری کچھ نہ کر سکتی تھی۔
بے ڈھنگا، ابھی تک مرا نہیں تھا کیونکہ آسمان، گدھوں سے خالی تھا۔ وہ صرف گم ہوا تھا شاید اس لیے کہ وہ ٹیڑھی پسلی کا درد برداشت نہیں کر سکتا تھا۔وہ رائیگانی کا مارا نوری کو تڑپتا منت سماجت کرتا نہیں دیکھ سکتا تھا۔
اس رانوں کے پورے، بےدست نے خود کو ایک تکیے تک محدود کیوں کر رکھا تھا؟؟ اب بے ڈھنگا آدمیت کی بقا کے لیے ایک سپرم صدقہ خیرات کرنے کے لیے کیوں تیار نہیں تھا؟؟ نوری سوچ سوچ کر ہلکان ہو چکی تھی۔
نوری کے پاس وقت کم تھا۔ جنگل نے اسے چند دنوں کی مہلت دے رکھی تھی۔ کئی خونخوار جانور اس کا طواف کرنے لگے تھے۔ جنھیں اس کے جسم سے لذت کی نہیں رزق کی بو آتی تھی۔ ماچس کی ڈبیا میں آخری تیلی بچی تھی۔ نوری اب کسی آہٹ پر چونکتی نہیں تھی۔ بس کسی موہوم سی امید پر، اس نے تکیہ کسی خزانے کی طرح اپنی برہنہ رانوں میں دبا رکھا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.