واپس گھر پہونچنے تک ٩ بج گئےتھے۔
اسےجھنجھلاہٹ ہو رہی تھی۔ ہر بار وہ چاہتا ہےکہ جلد سےجلد گھر پہونچے لیکن اس کی یہ چاہ کبھی پوری نہیں ہوتی تھی۔ آفس سےنکلنےکےبعد راستےمیں کچھ نہ کچھ مسائل اٹھ کھڑےہوتے تھےاور وہ تو دس بجے ہی گھر پہونچ پاتا تھا۔
کبھی آفس کی مصروفیات یا باس کا کوئی آرڈر اسےآفس سےجلد نہ نکلنے کے لئےمجبور کر دیتا تھا۔ تو کبھی لمبی مسافت کا سفر اور سفر کے دوران پیش آنے والے واقعات۔
اس نے کبھی بھی اس کے گھر پہونچنے پر مایا کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں دیکھی تھی۔
اسےدیکھ کر مایا کے چہرےپر کوئی تاثر نہیں ابھرتا تھا اور وہ کسی روبوٹ کی طرح بیزار سی اس کی خدمت میں لگ جاتی تھی۔
خدمت کیا، اس کے اتارےکپڑوں کو سلیقہ سے لےجاکر ہینگر میں لگانا، اسےگھر میں پہننے والے کپڑے دینا، جب وہ واش بیسن سےمنہ دھوکر ہٹے تو ٹاول لےکر کھڑی رہنا۔
اس کے بعد بہت مختصر سے معمولات ہوئے تھے۔
دونوں ساتھ کھانا کھاتے، تھوڑی دیر تک ٹی وی دیکھتے اور سو جاتے۔ سویرے جلدی اٹھ کر مایا اس کے لئے ٹفن بناتی اور وہ دفتر جانے کی تیاری کرتا اور آٹھ بجے سے پہلےگھر چھوڑ دیتا۔
اس دن جب وہ کمرےمیں داخل ہوا تو رگھو اطمینان سے بیٹھا کرسی بنا رہا تھا۔ مایا ٹی وی دیکھ رہی تھی، اس کی آہٹ سن کر مایا نےپلٹ کر اسے دیکھا، اس کےچہرےپر کوئی تاثر نہیں ابھرا، وہ دوبارہ ٹی وی دیکھنےمیں مصروف ہو گئی۔
رگھو نے اس کی آہٹ پاکر سر اٹھا کر اسے دیکھا اور دوبارہ اپنےکام میں مصروف ہو گیا۔
اس کے چہرےپر اطمینان اور ہونٹوں پر مسکراہٹ رینگ گئی۔
اس نے اندازہ لگالیا تھا، سب کچھ ٹھیک ہے۔
بجوکا اپنی جگہ کھڑا ہے، اس کے سر کی جگہ رگھو کا سر لگا ہوا ہے اور وہ اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔
اسے اطمینان محسوس ہوتا، جیسے یہ اطمینان اس کی سب سےبڑی دولت ہے، اس کی زندگی کا حصول ہے۔ اس اطمینان کو قائم رکھنے کے لئے وہ زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے اور اس اطمینان میں اس کی فتح یابی پنہاں ہے۔
وہ ایک کسان ہےاس کے ماں باپ، دادا، پردادا کسان تھی۔ گاوں میں زراعت کرتےتھی۔ اس نے کھیتی نہیں کی ہی۔ وہ اپنے گاوں اور کھیت سےکوسوں دور ہے۔ لیکن اس کی فطرت نہیں بدل پائی ہے۔ ایک کسان کی طرح اسےسب سےزیادہ فکر اپنےکھیت کی رہتی ہے۔
لیکن یہاں تناظر بدل گیا ہے۔
اس کے پاس کھیت نہیں ہے وہ اپنی زمین، کھیت، گاوں سےبہت دور ہے۔ اسےان کی کوئی فکر نہیں ہے۔
لیکن نئے تناظر نےاسے ایک نئی فکر دے دی ہے۔
مایا
مایا اس کے لئے ایک مسئلہ ہے۔ اس کی سب سےبڑی فکر، پریشانی ہے۔ اس کی زندگی کی سب سےبڑی الجھن ہے، اس کی سب سےبڑی چنتا ہے۔
مایا اس کی بیوی۔
کبھی کبھی اسےمحسوس ہوتا ہےکہ اس نے مایا سےشادی کرکےسب سےبڑی غلطی کی ہے۔
لیکن جب سنجیدگی سےسوچتا تو اسے یہ اپنی کوئی غلطی محسوس نہیں ہوتی تھی۔
اسے شادی تو کرنی تھی، بنا شادی کے تو وہ جی نہیں سکتا تھا۔
اگر مایا سےشادی نہیں کرتا تو کسی ریکھا، روپا یا گنگا سے شادی کرتا۔
اور جب اپنےحالات پر غور کرتا تو اسے محسوس ہوتا، جو بھی لڑکی اس کی بیوی بن کر آتی، اس کے لئے وہی مسئلہ ہوتی جو مایا ہے۔
کبھی سوچتا مایا سےہمیشہ کےلئےنجات پالے۔
لیکن بھلا مایا سےنجات ممکن ہے؟
کبھی سوچتا مایا کو اپنے گاوں یا اس کے میکے بھیج دے۔ لیکن دونوں میں سے کوئی بھی کام مسئلہ کا حل نہیں تھا۔ وہ اور مایا اسی مسئلہ میں گھری رہتی جس میں آج گھری ہے۔
آج کم سے کم مایا کے پاس یہ احساس تو ہے کہ رات کو اس کا پتی اس کے پاس ہوتا ہے۔ اگر وہ مایا کو اپنے گاوں یا اس کے میکے بھیج دے تو اس سے یہ احساس بھی چھن جائےگا۔ تب اس کی حالت کیا ہوگی؟ اور وہ کیا کر ڈالےگی اس کے تصور سے ہی اس کی روح کانپ اٹھتی تھی۔
مایا اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مایا اسے پسند ہے وہ مایا کو بےحد چاہتا ہے۔ مایا بھی ایک سعادت مند بیوی کی طرح اس کی ہر طرح سےخدمت کرتی ہے۔ اس کا ہر طرح سےخیال رکھتی ہے، اس نے اسے زندگی میں کبھی کوئی کمی محسوس نہیں ہونے دی ہے۔
اور اس نے بھی اپنی جان سےبڑھ کر مایا کا خیال رکھا ہے۔ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے اپنے اور مایا کے لئے ہی تو کرتا ہے۔ ان کی زندگی میں اور کوئی بھی نہیں ہے۔ اسے مایا کی ہر خواہش، ہر مانگ کو پوری کرنےمیں روحانی مسرت ہوتی ہے اس کا دل چاہتا ہے کہ مایا اس سے کوئی چیز مانگے اور فوراً مایا کی مانگ پوری کرے یا مایا کی مانگ پوری کرنے کے لئے اپنے تن، من، دھن کی بازی لگا دے۔
لیکن مایا کا رویہ اس کے لئے ایک سوالیہ نشان تھا۔
صرف کبھی کبھی ہی نہیں، ہمیشہ اسےمایا کےرویے سے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے مایا اس کے ساتھ خوش نہیں ہے یا مایا اسے شریک حیات کےطور پر پاکر خوش نہیں ہے۔
اس بات کو سوچ کر اس پر ایک افسردگی کا طوفان چھا جاتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگتا تھا اور دل کی دھڑکنیں ڈوبنے لگتی تھی۔
‘’آخر مجھ میں کیا کمی ہے، میں نےمایا کی کسی خواہش کو پورا نہیں کیا ہے، مایا کی زندگی میں ایسی کون سی کمی رکھی ہے جو مایا میرے ساتھ خوش نہیں ہے۔؟’‘
وہ خود سے یہ سوال بار بار کرتا تھا۔ لیکن اس میں مایا سے یہ سوال پوچھنے کی ہمت نہیں تھی۔
وہ ڈرتا تھا کہ اگر مایا اس بات کا اقرار کر لےکہ وہ اس کے ساتھ خوش نہیں ہے اور اپنی زندگی کی اس کمی کے بارے میں بتا دے جو وہ پوری نہیں کر پا رہا ہے تو شاید اس کی زندگی میں ایسا طوفان آ جائےگا جو دونوں کو بہالےجائےگا اور ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے کو جدا کر دےگا۔
یہ سوال جیسے اس طوفان کو روکنے والا دروازہ تھا اور وہ خود یہ سوال پوچھ کر اس طوفان کا دروازہ کھول کر اس کی تاب لانے کی سکت نہیں رکھتا تھا۔
دھیرے دھیرے اسےمایا کی خواہشات کا پتہ چلنے لگا تھا۔ مایا چاہتی تھی کہ وہ مہینےمیں ایک دو بار کسی دوسرے شہر سیر و تفریح کے لئے جائے، ہر شام جلد گھر آ جائے اور اسے لےکر شہر کے تفریحی مقامات پر جائے، ہوٹلوں میں کھانا کھائے، فلمیں دیکھے، اپنے دوست اس کی سہیلیوں کے گھر پارٹیوں میں لے جائے۔
اور اتوار کا دن کا تو ایک لمحہ بھی گھر میں نہ گذارے۔
لیکن سب کچھ مایا کی امیدوں کے برخلاف ہوتا تھا۔
آفس کی مصروفیات کی وجہ سےوہ رات نو، دس بجے سے پہلے گھر نہیں آ پاتا تھا۔
کوئی سرکاری نوکری نہیں تھی کہ پانچ بجے بھی اگر دفتر چھوڑ دیا جائے تو کوئی جواب طلب کرنےکی ہمت نہیں کرےگا۔
پرائیویٹ سروس تھی۔ ہر لمحہ، قدم قدم پر باس منیجمنٹ کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔
آفس آنےکا وقت متعیّن تھا۔ اس میں تاخیر نہیں ہو سکتی تھی۔ لیکن آفس سے جانےکا کوئی وقت متعین نہیں تھا۔ اگر رات کےبارہ بھی بج جائے تو بنا کام پورا کئے گھر جانےکی اجازت نہیں تھی۔
مایا کو اس کی اس مجبوری کا علم نہیں تھا۔
ویسے وہ مایا کو سیکڑوں بار اس بارے میں سمجھا چکا تھا۔
لیکن مایا کی خواہشات کے آگے اس کی مجبوریاں کچھ نہیں تھیں۔ ہفتہ بھر تو صبح آٹھ بجے سے نو، دس بجےتک گھر کے باہر ہی رہنا پڑتا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد بھلا جسم میں اتنی قوت کہاں باقی بچتی تھی کہ کہیں باہر جایا جائے یا رات زیادہ دیر تک جاگ کر آوارگی سےلُطف اندوز ہوا جائے۔ کیونکہ سامنےصبح جلدی اٹھ کر آفس جانے کا آسیب منہ پھاڑے کھڑا ہوتا تھا۔
اتوار کو اس کا من چاہتا تھا، وہ ہفتہ بھر کام کی تھکن اتارے۔ اور دن بھر سوتا رہے، دن بھر تو سو نہیں پاتا تھا، اٹھ کر تیار ہونے اور دوپہر کا کھانا کھانے میں دو بج جاتے تھے۔ پھر ایک دو گھنٹہ کے لئے بھی باہر جانا ہوگیا تو اچھی بات تھی۔ اگر کوئی مہمان آگیا تو وہ بھی ممکن نہیں تھا۔ ایسےمیں مایا کی خواہشات کیسےپوری ہو سکتی تھیں۔
اس کے آفس جانے کے بعد وہ گھر میں اکیلی رہتی تھی۔ اس کا آفس بھی گھر سے ٠٦، ٠٧ کلومیٹر دور تھا۔ وہ مایا کی خبر بھی نہیں لے سکتا تھا۔ نہ مایا اس کی خیریت پوچھ سکتی تھی۔
شادی کے بعد برسوں تک یہی معمولات چلتے رہتے۔
ان میں کچھ دنوں کی تبدیلی اس وقت آئی تھی جب وہ دونوں ایک دو دِنوں کے لئے گاوں جاتے تھے۔ لیکن یہ صرف سالوں میں ہی ممکن تھا۔
پھر دھیرے دھیرے اسے ایسی خبریں ملنے لگیں جن کو سن کر اس کی زندگی کا سکون درہم برہم ہو جاتا تھا۔
آس پڑوس والوں نےبتایا کہ اس کےآفس جانے کے بعد مایا گھنٹوں گھر سےغائب رہتی ہی۔ اس سے ملنے اجنبی لوگ گھر آتےہیں اور گھنٹوں گھر میں رہتےہیں۔
اس نے اس سلسلہ میں جب مایا سے پوچھا تو مایا کے پاس اس کا بڑا سیدھا سا جواب تھا۔
آج اس سہیلی کےگھر اس سے ملنے گئی تھی۔
ملنے کے لئے آنے والا وہ مرد میری اس سہیلی کا شوہر تھا۔ وہ یہ چیزیں لینے کے لئے گھر آیا تھا۔
مایا کے اس جواب کےبعد دوبارہ کوئی سوال کرنےکی اس کی ہمت ہی نہیں ہوتی تھی۔
دھیرے دھیرے ایسےثبوت ملنے لگے کہ اس کا شک یقین ہے اور مایا کی ہر بات جھوٹی ہے۔
گھر میں فون تو نہیں تھا جس کےذریعے پتا لگایا جا سکےکہ مایا گھر میں ہےیا نہیں؟ پڑوس میں فون تھا، دو چار بار اس نے پڑوس میں فون لگاکر مایا کو فون پر بلانا چاہا، ہر بار اسے جواب ملا کہ گھر پر تالہ لگا ہے۔
رات میں اس سلسلہ میں اس نےمایا سے پوچھا تو مایا کا جواب تھا۔
‘’وہ لوگ جھوٹ کہتے ہیں، میں تو ایک لمحہ کے لئے بھی گھر سے باہر نہیں نکلی۔ پر تالہ لگا ہے، میں گھر میں نہیں ہوں، یہ کہہ کر وہ مجھے بدنام کرنا چاہتے ہیں اور تمہارے دل میں بدگمانی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
مایا کا جواب اسے الجھن میں ڈال دیتا تھا۔
سچائی کا پتہ اس وقت لگ سکتا تھا جب گھر میں کوئی گھر کا بڑا ہو، گھر کےکسی بھی چھوٹے بڑے آدمی کےگھر میں آئےمایا کا گھر سے باہر قدم نکالنا مشکل تھا۔ نہ اس کے ہوتے کوئی غیرمرد گھر میں آ سکتا تھا۔
اس کا دنیا میں کوئی بھی تو نہیں تھا۔ ماں، باپ، بھائی، بہنیں، کوئی بھی تو نہیں جس کو وہ گھر میں لاکر رکھتا تاکہ مایا کے پیروں میں زنجیریں پڑی رہے۔
ایک ہی راستہ تھا جو مایا کو راہ پر لا سکتا تھا۔ لیکن وہ راستہ بھی اسےمسدود محسوس ہو رہا تھا۔
اسےاپنا بچپن یاد آیا۔
وہ بچپن میں اپنےماں باپ کے ساتھ کھیتوں میں جایا کرتا تھا۔ ماں باپ دِن بھر کھیتوں میں کام کرکے اپنےخون پسینے سے سیراب کرکے کھیتوں کو لہلہاتے تھے۔
جب فصل پک جاتی تو اس فصل کو پرندوں سے بچانا سب سےبڑا مسئلہ ہوتا تھا۔
اس کے لئے وہ کئی طریقے استعمال کرتےتھے۔
ڈھول تاشے بجاکر شور مچاکر پرندوں کو اڑاتے تھے۔
اور ہر فصل کےساتھ ایک بجوکا تو بنایا جاتا ہی ہے۔
لکڑیوں سےبنا ہوا بجوکا، جس کو پرانے کپڑے پہنا دئے جاتے تھے اور سر کی جگہ ایک ہانڈی لگا دی جاتی تھی۔ جس پر یہ بھیانک آنکھیں منہ، ناک وغیرہ بنا دئے جاتے تھے۔ تب پرندے اسے کوئی انسان سمجھ کر پھر اس طرف کا رخ نہیں کرتےتھے۔
اسے شدت سے احساس ہونے لگا اسے اپنےگھر کی حفاظت کے لئے ایک بجوکا کی ضرورت ہے۔
جو اس کے کھیت کی حفاظت کر سکے۔
کچھ ماہ قبل اسےاس کے چاچا کا خط ملا تھا۔
‘’رگھو نےبہت پریشان کر رکھا ہے۔ ٨١ سال کا ہو گیا ہے کوئی کام دھندا نہیں کرتا ہی۔ اسکول وغیرہ تو بہت پہلے ہی چھوڑ چکا ہے۔ اسے اپنے پاس بلاکر کسی کام دھندے سے لگا دو۔ ورنہ بگڑ جائےگا۔’‘
اس خط کو یاد کرکے اس کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔
اسے ایسا محسوس ہوا جیسے اسے اپنے گھر کے لئے بجوکا مل گیا ہے۔
رگھو اگر صرف اس کےگھر میں رہے تو بھی کافی ہوگا۔ بھلے سے وہ کوئی کام نہ کرے، کم سے کم اس کے گھر، مایا کی حفاظت تو کرےگا۔ اس نے چاچا کو خط لکھا کہ رگھو کو اس کے پاس بھیج دیں۔
آٹھ دن بعد ہی رگھو ان کے پاس آ گیا۔
اور جیسے اس کی ساری پریشانیاں دور ہو گئی تھیں۔
وہ دن بھر گھر میں بیٹھا ٹی وی پر فلمیں دیکھا کرتا تھا یا گھر کے چھوٹے موٹےکام کیا کرتا تھا۔
رات کو جب وہ گھر آتا تو مایا کو اپنےکام میں مصروف پاتا اور رگھو کو اپنے۔
وہ اپنے تصور کے بجوکا کو دیکھتا تو اس کےسر کی جگہ اسے رگھو کا سر لگا نظر آتا اور وہ مسکرا کر اس سےکہتا میں اپنا فرض بخوبی نبھا رہا ہوں۔
رگھو کے آجانے سے مایا بھی بجھی بجھی سی تھی۔ اس کی ساری آزادی سلب ہو گئی تھیں لیکن وہ چاہ کر بھی اس کےخلاف احتجاج نہیں کر پا رہی تھی۔
ایک دو بار دبےلفظوں میں اس نے اس سے کہا بھی۔
‘’یہ رگھو کب تک یوں ہی گھر میں بیٹھا رہےگا۔ اس کے لئے کوئی کام تلاش کرو، ورنہ اس کےماں باپ ہم پر الزام لگائیں گےکہ ہم سے ایک چھوٹا کام بھی نہیں ہو سکا۔ ہم رگھو کو کام بھی نہیں دلا سکتے۔’‘
‘’میں اس کے لئےکام تلاش کر رہا ہوں۔“ کہہ کر وہ مایا کو لاجواب کر دیتا تھا۔
وہ سکون بھری زندگی گذار رہا تھا۔ اس کی ساری پریشانیاں، وسوسے، بدگمانیاں، شک و شبہات رگھو کے گھر آجانے کی وجہ سےجیسےختم ہو گئے۔
ایک دن جب وہ آیا تو اسے گھر کا ماحول کچھ بدلا بدلا سا محسوس ہوا۔
رگھو الماری کی صفائی کرتا ایک پوربی لوک گیت گا رہا تھا۔
اور مایا بھی دھیرےدھیرےکچھ گنگنا رہی تھی۔
اس کا چہرہ پھول سا کھلا ہوا تھا، چہرے اور آنکھوں میں ایک عجیفب سی چمک تھی۔
اس کا دل دھڑک اٹھا۔
اس نے اپنے تصور کے بجوکا کو دیکھا تو اسے ایک جھٹکا سا لگا۔
اسے اس بجوکا کے سر کی جگہ رگھو کے بجائے اپنا سر لگا ہوا دکھائی دے رہا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.