Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بےخوشبو عکس

رشید امجد

بےخوشبو عکس

رشید امجد

MORE BYرشید امجد

    داستان گو اس کہانی کو یوں سنا تا ہے کہ جب میں شہر میں داخل ہوا تو کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی، ہر طرف ایک شور اور ہنگامہ تھا۔ شہر کے کل مرد، عورتیں، بوڑھے، جوان اور بچے ہاتھوں میں کچھ نہ کچھ پکڑے بجا رہے تھے۔ شہر کی سڑکوں اور گلیوں میں ایک شیر بدحواسی کے عالم میں کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف بھاگ رہا تھا۔ جدھر جاتا اُدھر سے ڈھول بجاتے ہجوم میں گھِر جاتا، ایک سرے سے دوسرے سرے تک بھاگ بھاگ کر شیر اتنا بد حواس ہو گیا کہ شہر کے ایک چوراہے میں آن گرا۔ آوازوں کے برستے پتھروں سے بچنے کے لیے اس نے اپنا سر گھٹنوں میں دبا لیا، لیکن آوازیں مسلسل اس پر ٹوٹ رہی تھیں اور آہستہ آہستہ اس کے اندر اتر رہی تھیں۔ شہر کے لوگ اب اس کے گرد اگرد اکٹھے ہو گئے تھے اور مسلسل ڈھول پیٹ رہے تھے۔ جس کے ہاتھ میں جو کچھ تھا وہ اسے بجا رہا تھا۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ شیر بے بسی کے عالم میں کبھی اپنا سر اٹھاتا اور آوازوں کے تھپیڑوں سے گھبرا کر دوبارہ گھٹنوں میں دبا لیتا۔ آہستہ آہستہ اس کی حالت بدلنے لگی اور کچھ دیر بعد یوں معلوم ہوا جیسے اس کے وجود میں سے گیدڑ جنم لے رہا ہے، پھر رفتہ رفتہ اس کے وجود میں سے مکمل گیدڑ نکل آیا۔ اس نے منہ اٹھا کر گیدڑ کی آواز نکالی اور دم دبا کر ایک گلی میں بھاگ گیا۔

    شہر کے لوگ ہنستے قہقہے لگاتے اپنے اپنے ڈھول اور برتن پیٹتے گھروں کی طرف لوٹے۔

    داستان گو نے ایک شخص سے پوچھا۔۔۔ ’’یہ کیا تماشہ ہے؟‘‘

    وہ شخص بولا۔۔۔ ’’اجنبی لگتے ہو۔‘‘

    داستان گو نے سر ہلایا تو وہ کہنے لگا۔۔۔ ’’ہم شیروں کو گیدڑ بنا دیتے ہیں۔‘‘

    پھر وہ ہنسنے لگا، لمحہ بھر توقّف رہا پھر بولا۔۔۔ ’’جب بھی اس شہر میں کوئی شیر پیدا ہوتا ہے تو ہم سب مل کر اتنا ہونکا لگاتے ہیں کہ وہ شہر کے گلی کوچوں میں بےبسی سے دوڑنے لگتا ہے۔ ہم اسے دوڑا دوڑا کر اور ڈھول پیٹ پیٹ کر ایسا بے بس اور بدحواس کرتے ہیں کہ بالآخر وہ گیدڑ بن جاتا ہے۔‘‘

    داستان گو نے پوچھا۔۔۔ ’’اب تو اس شہر میں ایک بھی شیر نہیں ہوگا؟‘‘

    اس شخص نے فخر سے سر اٹھایا۔۔۔ ’’ہم نے رہنے ہی نہیں دیا۔‘‘

    داستان گو بتاتا ہے کہ میں کئی دن سے اس شہر میں رہا اور میں نے دیکھا کہ شہر کے لوگ تماشے کے بڑے شوقین ہیں۔ انہیں دوسروں کو بےبس اور بدحواس کرنے کا ایسا چسکا پڑا ہے کہ اگر شیر نہ ملے تو اپنے ہی کسی ساتھی کے پیچھے پڑ جاتے ہیں اور اس کے گرد اکٹھے ہو کر اس طرح ہو ہاؤ کرتے اور ڈھول پیٹتے ہیں کہ وہ آدمی شہر کے کسی چوراہے پر بےدم ہو کر گر پڑتا ہے۔ وہ اس کے گرد اکٹھے ہو جاتے ہیں اور ڈھول پیٹے جاتے ہیں ، یہاں تک کہ اس آدمی کے قالب سے بھیڑ برآمد ہونے لگتی ہے اور آہستہ آہستہ وہ آدمی سے بھیڑ بن جاتا ہے۔

    داستان گو بتاتا ہے کہ اب شہر میں یا گیدڑ ہیں یا بھیڑیں۔ شہر کے اونچے مکانوں، سجے ریستورانوں اور پر ہجوم دفاتر میں ہر طرف بھیڑیں ہی بھیڑیں یا گیدڑ ہی گیدڑ دکھائی دیتے ہیں۔ داستان گو جب کوئی سوال کرتا ہے تو وہ حیرت سے اسے دیکھتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تو اجنبی تو نہیں ، کیونکہ ہم تو سوال کرنے کی عادت ہی بھول بیٹھے ہیں اور انہیں برا لگتا ہے کہ یہ سوال کرنے والا ان کے درمیان کہاں سے آ گیا، سو ایک صبح انہوں نے داستان گو کو شہر بدر کر دیا کہ انہیں نہ کوئی داستان سننی تھی نہ سنانا تھی۔

    داستان گو بتاتا ہے کہ شہر چھوڑنے سے پہلے میں نے شہر کی فصیل سے شہر پر آخری نظر ڈالی۔ ہر طرف ایک خاموشی تھی۔ بھیڑیں اور گیدڑ سر جھکائے اپنے روز کے کاموں میں مصروف تھے۔ کسی کو ذرا بھر بھی فکر نہ تھی کہ داستاں گو اس شہر سے نکالا جا رہا ہے کہ انہیں سوچنے اور سوال کرنے کی عادت ہی نہیں تھی۔

    بس یہ آخری منظر تھا جو داستان گو نے شہر کی فصیل سے دیکھا۔

    داستان گو چپ ہوا تو میں نے پوچھا۔۔۔ ’’پھر کیا ہوا؟‘‘

    وہ چند لمحے خاموش رہا پھر بولا۔۔۔ ’’میں وہاں سے چلا آیا اور ملک ملک، دربدر کی خاک چھانتا پھرا لیکن اس شہر کو، کہ میرے دل میں بستا تھا، بھول نہ سکا۔ جی چاہتا تھا کہ وہاں لوٹ جاؤں لیکن شہر بدری کے حکم اور لوگوں کے خوف نے دل تو ڑ دیا تھا۔‘‘

    داستان گو خاموش ہو گیا پھر کہنے لگا۔۔۔ بعد ایک مدت کے میں دل کے ہاتھوں مجبور ہو گیا اور میں نے شہر لوٹنے کا ارادہ کر لیا۔ کوسوں کی مسافتیں سمیٹتا ایک صبح شہر کے دروازے پر جا پہنچا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دروازہ کھلا ہے اور دور دور تک کوئی پہرے دار دکھائی نہیں دیتا۔ حیرت زدہ ہوا کہ یا الٰہی یہ کیا ماجرا ہے۔۔۔ خیر قدرے پس و پیش کے ساتھ اندر داخل ہوا۔

    یا حیرت۔۔۔ کیا دیکھتا ہوں کہ شہر کا شہر ویران پڑا ہے اور سڑکوں گلیوں میں دھول اڑ رہی ہے۔

    الٰہی یہ کیا قصہ ہے۔۔۔ شہر کے لوگ کسی نئے کھیل میں تو مشغول نہیں۔ کچھ ڈر بھی لگا کہ یہ شہر کے لوگوں کی کوئی نئی گھات نہ ہو۔ کیا معلوم شیروں کے بعد، شہر کے آدمی گیدڑ بن چکے ہوں اور اب وہ اجنبیوں کو گیدڑ بناتے ہوں۔ کچھ جھجکا، پھر اللہ کا نام لے کر آگے بڑھا۔۔۔ بازار کے بازار سنسان پڑے تھے۔ البتہ گلیوں اور سڑکوں پر جا بجا خون کے دھبّے اور کٹے ہوئے، چبائے ہوئے انسانی اعضا دکھائی دئیے۔ دل میں ڈر جاگا کہ ضرور کوئی اسرار ہے؟

    ابھی اسی سوچ میں تھا کہ آگے بڑھوں یا لوٹ جاؤں کہ کسی کے کراہنے کی آواز آئی۔ چونک کر آواز کی سمت بڑھا تو دیکھا کہ ایک تھڑے کے نیچے ایک شخص، جس کا آدھا دھڑ کوئی چبا گیا ہے، پڑا کراہتا ہے۔

    قریب جا کر پوچھا۔۔۔ ’’اے شخص! یہ کیا ماجرا ہے، شہر والے کیا ہوئے اور تجھ پر کیا افتاد پڑی؟‘‘

    آواز سن کر اس نے بمشکل آنکھیں کھولیں اور نحیف مرئی آواز میں بولا۔۔۔ ’’اے داستان گو! میں نے تجھے پہچا ن لیا ہے۔ ہم نے تمہیں شہر بدر کیا تھا۔‘‘

    داستان گو نے کہا۔۔۔ ’’لیکن جب مجھے شہر بدر کیا گیا تھا اس وقت تو شہر ہنستا بولتا تھا، ایسی کیا افتاد پڑی کہ شہر کا شہر ہی ویران ہو گیا اور اس شہر کے تماش بین لوگ کہاں گئے ؟‘‘

    اس شخص نے کہ زخموں سے چور اور مرنے کے قریب تھا، بڑی مشکل سے کہا۔۔۔ ’’شہر والوں کو چسکا پڑ گیا تھا کہ شیر کو گیدڑ بنا دیتے تھے۔ جب بھی کوئی شیر پیدا ہوتا وہ ڈھول پیٹ پیٹ کر اور شور مچا مچا کر اسے گیدڑ بنا دیتے، پھر انہوں نے ان آدمیوں سے بھی، جو ذرا سر اٹھا کر چلنا چاہتے تھے، یہی سلوک کیا۔

    ’’پھر‘‘۔۔۔ داستان گو نے سوال کیا،

    ’’پھر یہ کہ شیر تو سارے ایک ایک کر کے ختم ہو گئے، لیکن شہر والوں کے مسلسل شور اور ڈھول پیٹنے سے آس پاس کے گیدڑ شیر بن گئے اور ایک دن وہ شہر پر ٹوٹ پڑے۔ شہر والوں نے ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا اور انہیں دیکھ کر ڈھول پیٹتے باجے بجاتے ان کے گرد اکٹھے ہو گئے لیکن۔۔۔ ‘‘

    ’’لیکن کیا؟‘‘

    ’’یہ کہ جوں جوں شور بڑھتا گیا اور ڈھول باجوں کی آوازیں تیز ہوتی گئیں ، گیڈروں کی آنکھیں سرخ ہونے لگیں ، ان کا جوش بڑھتا گیا اور ایک لمحہ وہ آیا کہ وہ شیروں کی طرح دھاڑیں مارتے ہوئے لوگوں پر ٹوٹ پڑے۔‘‘

    داستان گو چپ ہو گیا۔

    بہت دیر خاموشی رہی پھر داستان گو نے مجھ سے پوچھا۔۔۔

    ’’تمہیں کیا ہوا؟ تم کیوں اتنے چپ ہو؟‘‘

    میں نے کہا۔۔۔ ’’میرے شہر والے مجھے بھی شہر بدر کر رہے ہیں۔‘‘

    داستان گو کچھ نہیں بولا۔ ہم دونوں خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔

    کہ مقدر کے لکھے کو تو شاید ٹالا جا سکتا ہے، لیکن اپنے کئے کو ٹالنا ممکن نہیں!

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے