بےسائبان
آج پہلی بار یہ نہیں ہو ا۔۔۔
اب کی تو جب سے سیتا گھر آئی، اس کا یہی حال ہے۔ رات رات چیخ مار کر اٹھ جاتی ہے آنگن میں بھاگتی ہے کبھی چو کے میں جاکے چھپتی ہے اور کبھی زینہ کے نیچے دبکتی ہے۔ اس کی آواز میں ایسا درد ہوتا ہے کی سن لو تو رونا آئے۔ بڑی اماں دو بار جاکر بھوسیلے سے اسے نکال کر لائی ہیں۔ بھوسے کے ڈھیر میں چھپی سیتا سبک سبک کر روتی جائے۔۔۔بڑی اماں نے کس کس جتن سے بیاہ کیا۔۔۔اور اب دیکھو لیلا بھگوان کی۔۔۔
کرشنا نے ٹھنڈی سانس بھر کے چو ڑیوں کا ٹوکرا اٹھا لیا اور گلی میں نکل آئی چوڑیاں لے لو چوڑیاں، رنگ برنگی چوڑیاں ہری نیلی لال گلابی پیلی پیلی چوڑیاں بولتے بولتے ایک بار پھر اس کا دل بےچین ہو گیا۔ پورے محلے میں ایک سیتا تھی جو سب سے زیا دہ شوق سے چوڑیاں لیتی تھی، چوڑیوں سے بھرے بھرے ہاتھ سارے گاؤں میں چھنکاتی پھرتی اور ایک مہینہ پورا نہ ہوتا پھر ننگے ہاتھ لیئے ٹو کرے کے پاس بیٹھی ہوتی۔
’’لاکر شنا۔۔۔کوئی اچھی سی چوڑی نکال کے دے‘‘ وہ جلدی جلدی سا رے ڈبے کھول ڈالتی۔ مگر اب تو کرشنا آواز بھی دے تو مڑکر نہیں دیکھتی۔ اپنے ہی دھیان میں کھوئی رہتی ہے۔
وہ یہی سب سوچتی ہوئی گلی سے باہر نکل آئی کئی ننگ دھڑنگ بچے کھلیان کے قریب تالاب کے کے کنارے کھیل رہے تھے، کچھ تالاب میں کود کر ایک دوسرے پر پانی اچھال رہے تھے، کچھ عورتیں سر پر دھان کے گٹھر لیئے چلی جا رہی تھین۔ کئی مرد عورتیں موگری سنبھال چکے تھے۔
’’آج دھان پیٹا جیہئے۔۔۔چلہیو کر سنا؟‘‘ گلابو نے تالاب کے کو نے میں کو ڑا پھینکتے ہو ئے مڑکر کرشنا کو دیکھا۔
’’ناہی آج نہ جابئے گھر ما کونو نہیں ہے روٹی کؤ بنائے‘‘ گلابو اپنا ٹو کرا لیکر دوسری طر ف مڑ گئی اس نے پھر چوڑی کے لیئے آواز لگائی مگر اس کی آواز با لکل خالی تھی۔ جیسے ٹین کے خالی ڈبے لڑھک رہے ہوں۔ وہ کھلے زینے سے ہو تی ہوئی سیتا کے گھر اتر گئی وہ روز ہی آ جاتی تھی مگر سیتا کو تو جیسے کوئی فر ق ہی نہین پڑتا تھا۔ وہ تو بس پہلے دن کی طر ح خلاؤں میں دیکھے جاتی۔
کئے اماں! سیتا رانی کو وید بابو کے لئے چلیں؟ کرشنا نے سیتا کا سر ہلکے ہلکے دباتے ہوئے بڑی اماں سے پو چھا۔
بڑی اماں کو فکرو ں نے بالکل لاغر کر دیا تھا، سر کے سفید جھوا جیسے بال چھوٹی چھوٹی بےچین آنکھیں۔۔۔اور چہرے پر پڑی وقت کی دھول اور گہری لکیروں نے اسے انسان سے جانور بنا دیا تھا۔ وہ آگے کو جھک کر چلتی اور لیٹتے وقت ایک گٹھری کی طر ح جھلنگا چارپا ئی پر گر جاتی۔
سیتا کو بیاہ کر اس کی ساری فکریں ختم ہو گئی تھیں ایک اکیلی جان کے پیٹ کو تو گاؤں میں کوئی نہ کوئی روٹی پانی دے ہی دیتا تھا مگر یہ جوان جہان پھر سے سر پر نازل ہو گئی تھی کیا جانے دکھیا پر کیا بپتا پڑی منھ سے تو کچھ پھو ٹتی ہی نہیں تھی۔
کرشنا کے سر سہلانے پر اس نے آنکھین کھو ل کر دیکھا آنکھوں میں تیرتی بےیقینی بےخوابی اور چہرے پر پھیلے خوف نے اپنی پکی سہیلی کو بہت کچھ بتانے کی کو شش کی۔
پرشاد کی بےوفائی بےرہمی اور ظلم کی کہانی اس کا رؤاں رؤاں بیان کر رہا تھا سمجھنے کے لیئے بس ایک ہمدرد دل کی ضرو رت تھی۔ مگر ایک مجبو ری اور بےبسی تھی جس کی وجہ سے سب کی آنکھیں بند تھیں، زبان بند تھی اور کھول کر کر تے بھی کیا؟
جب سیتا بیاہ کر گئی تو پرشاد نے اسے بہت پیار دیا وہ گڑیا جیسی سارے آنگن میں کد کڑے لگاتی پھرتی ساس نند بھی واری صدقے ہوتیں اور اس کے خوش باش چہرے کو دیکھ کر پرشاد نہال ہوتا۔
پھر ہوا یہ کہ کچا مکان پکا بن گیا۔ چھوٹا سا زینہ بناکر اوپر بڑا سا کمرہ، صرف سیتا اور پرشاد کے لیئے بنایا گیا۔ تب بھی سب ٹھیک رہا سب اسے بھا گوان مانتے رہے پرشاد کی چھوٹی سی کرانے کی دوکان بھی بڑی اچھی چل پڑی تھی، اس نے دوکان بڑی کر کے پر شاد سپر اسٹور کر لیا تھا، ایک لڑکا بھی کام کے لیئے رکھ لیا تھا۔ دن بہ دن خوشیاں آتی رہیں اور سیتا چہکتی رہی۔
مصیبت تو تب آئی جب اس کا پکا مکان دوسرے گاؤں والوں کی نظر مین کھٹکنے لگا اور پھر دوکان پر گوری چٹی رمیا پرشاد سے ہنسی دل لگی کر نے آنے لگی اور اسی روز سے سانولی سی سیتا پرشاد کے جی سے اترنے لگی۔
دوسرا برس لگ گیا بچہ نہ ہونے کے کارن اماں بھی اکھڑی اکھڑی رہنے لگی، نند بھی طعنے مارنے لگی اور پھر ایک اور غضب ہوا، جس دن وہ سوتے سوتے اٹھ کر کھڑکی پر آئی اور آنگن میں پر شاد اور رمیا کی کھسر پھسر سننے کے بعد بھاگتی ہو ئی زینے سے اتری اور لکھڑا تی ہوئی کئی سیڑھیاں نیچے آ گئی۔ گرتے ہی پا ؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی تبھی وہ اچانک سب کے دل سے گر گئی۔ سیتا کو پکا یقین تھا کہ سیڑھی پر تیل رمیا نے ہی ڈالا تھا مگر سنتا کون؟ اب تو وہ اپا ہج اور رمیا مالکن۔
پھر جو کچھ ہو ا وہ سو چکر ہی اسکا جی گھبراتا۔ اوپر کے کمرے میں جانا اس کے بس مین ہی کہاں تھا، بکریوں کے باڑے میں چھپر کے نیچے بیٹھے بیٹھے سیتا بوڑھی ہوتی گئی پکے کمرے کے بند دروا زوں کے پیچھے رمیا کی چوڑیاں کھنکتی رہیں پرشاد کی ہنسی مذاق کی آوازیں سیتا کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ اتارتی رہیں۔
پیر کا زخم اب برداشت سے باہر تھا، کبھی کبھی زور زور سے چلاتی چیختی پر کوئی نہ سنتا۔۔۔پھر ایک دن وہ ایسے ہی رو رہی تھی کہ پرشاد کا دو ست آکر اس کے برابر بیٹھ گیا۔ کا ہے سور مچائے ہو بھوجی! کو ئو نہ سنہئے۔ اب ہم آئے گیئن ہے نا۔ اب چپی سادھو۔ اس کے منھ سے آتی ہوئی گندی سی بد بونے سیتا کو ہلاکر رکھ دیا۔
بھوجی کا ہے پریسان ہوت ہو۔ بتاؤ کہاں پیرا ہوت ہے؟؟؟؟ (کیوں پر یشان ہوتی ہو بتاؤ کہاں درد ہے) اس نے اپنا مضبوط بالوں سے بھرا ہاتھ سیتا کی نازک سی پنڈلی پر رکھا اور وہاں سیتا کی پکار سننے والا کوئی نہیں تھا۔ پھر وہ گھڑی آئی جب فیصلہ اسکو خود ہی لینا پڑا۔
تبھی سے وہ اماں کی کٹیا میں آن پڑی۔
کرشنا نے اس کے بال سنوارے چہرہ دھلایا دھول پسینے سے اٹی ساڑی بدلوائی۔ پیر کا زخم ابھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہوا تھا ہڈی جڑ جانے کے بعد بھی چلتے چلتے لڑکھڑا جاتی تھی وہ۔ زخم پر جڑی بوٹی کا لیپ بھی لگاتی تھی کرشنا۔
گاؤں کے سبھی لوگوں کا جام نگر والے آشرم اور وہا ں کے بابا پر شو رام پر پورا بھرو سہ تھا وہ چھوٹی موٹی بیماری کا علاج تو مفت ہی کر دیتے تھے کئی عورتیں بچے وہاں جاکر ٹھیک ہو چکے تھے۔ ان کی دوا علاج آس پا س کے کئی گاؤں میں مشہور تھا۔ صبح اندھیرے سے جاکر حاضری لگانا پڑتی تب کہیں شام تک نمبر آتا تھا۔ کئی مریض تو جاکر وہیں آشرم میں پڑ جاتے یا تو ٹھیک ہوکر یا پھر مر کر ہی نکلتے پھر بھگوان نے جس کی جتنی لکھ دی اس سے زیادہ بابا جی کیسے بنا دیتے؟؟؟
اماں سب کے کہنے پر تیار تو ہو گئی مگر راستہ لمبا تھا راہ میں کئی جھاڑ جھنکاڑ، ایسے میں کرشنا کا جی نہ مانا وہ اپنی چوڑیوں کا ٹوکرا گھر میں ڈال کر ان کے ساتھ ہولی۔
’’ہم ہو چلبئے بڑی اماں‘‘ اس نے آدھے راستے سے انھیں جالیا۔
’’ہاں ری کر سنا تو چل ایکا لیئ کے ہم سے تو اب چلا نا ہی جات ‘‘(کرشنا تو اس کو لیکر جا ہم سے اب چلا نہیں جاتا) اماں اس کے آنے سے بےفکر ہوکر وہیں پڑے پتھر پر بیٹھ گئی۔
کرشنا سیتا کا ہاتھ تھام کر آہستہ آہستہ چلنے لگی۔
آشرم کا ادھا کائی لگا کلس دور سے چمک رہا تھا آس پا س نیم اور گولر کے پیڑ کھڑے تھے آشرم کے پیچھے ایک کو ٹھری میں باباجی کچھ بچوں کو شکشا دے رہے تھے۔
پہلے دونوں نے آشرم پر ماتھا ٹیکا، کرشنا نے ہاتھ جوڑ کر بھگوان سے سیتا کا بھلا مانگا۔ آشرم کے ایک چیلے نے آکر بپتا پو چھی اور اندر چلا گیا۔ وہ دونوں پسینہ پو چھتی ہوئی نیم کے نیچے بیٹھ گئیں۔ کچھ دور ہینڈ پمپ لگا دیکھ کر کر شنا اٹھی اور جاکر پانی پیا، پاس پڑی ایک مٹی کی ہنڈیا میں سیتا کے لئے پانی بھر لائی۔ اپنی دھوتی کے کو نے میں بندھے مر مرے اور چنے تھو ڑے خود لیکر باقی سیتا کو دے دیئے۔
دھوپ کی تپش اب کم ہو نے لگی تھی، ٹھنڈی ہوا چلنا شروع ہو گئی دوسری طرف لگے جامن کے پتے تالیاں بجا رہے تھے وہین تالاب میں کچھ بھوری اور سفید بطخیں تیر رہی تھیں آس پاس گاؤں کے بچے کھیل رہے تھے عورتیں میلی میلی ساریاں با ندھے آ جا رہی تھیں۔
شام اور بڑھ آئی تو وہ چیلا پھر نمودار ہوا۔
’’چلو باباجی بلاتے ہیں‘‘
سیتا کرشنا کا ہاتھ تھام کر بڑی مشکل سے کھڑی ہوئی مگر چیلے نے اسے روک دیا۔
’’روگی کون ہے؟؟‘‘
’’یہ ہے بھیا۔ سیتا بہن۔۔۔‘‘
’’تو پھر تم یہیں بیٹھو ہم دکھلا کر لاتے ہیں۔۔۔‘‘ وہ سیتا کو لیکر آگے بڑھ گیا۔
لمبا سا چندن کا ٹیکہ لگائے سفید وستر، لکڑی کی کھڑا ویں پہنے باباجی نے اپنی سرخ سرخ آنکھیں اٹھا کر سیتا کو دیکھا۔ وہ بھد سے زمین پر بٹھ گئی اور ہاتھ جوڑکر آنکھین بند کر لیں۔
’’بو لو کیا کشٹ ہے۔؟؟‘‘ ان کی بھاری آواز گو نجی سیتا نے ڈرتے ڈرتے سر اٹھایا مگر ہو نٹو ں سے آواز نہ پھو ٹی۔
’’ہوں۔۔ں۔‘‘ با با جی نے ہنکا را بھرا۔
’’سورگ بھگوان کا ہے نرک بھگوان کا۔ پیرا بھگوان کی ہے سکھ بھگوان کا‘‘ انھوں نے چلتے چلتے کوٹھری کا دروازہ بھیڑ دیا۔
’’سب مایا بھگوان کی ہے سب لیلا بھگوان کی ‘‘ انھوں نے کنڈی چڑھاکر اس میں لوہے کی سلاخ گاڑ دی۔
’’بھگوان مہان ہے، دکھ درد اسی کی دین ہے۔ پچھلے جنم کا بھوگ ہے۔‘‘
بھبھوتی سے بھرا ہاتھ سیتا کے ماتھے پر مل دیا
’’بھگوان ہے تو جگ ہے جگ والے ہیں۔ اس کے آگے سب لاچار۔ ‘‘ انھوں نے دونوں ہتھیلیاں سیتا کے کاندھوں پر جما دیں اور باہر نیم کے نیچے کرشنا رات گئے تک راہ تکتی رہی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.