Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بیچ بچولن

سلمیٰ اعوان

بیچ بچولن

سلمیٰ اعوان

MORE BYسلمیٰ اعوان

    میرا باپ ذات کا اعوان پر پیشے کا ترکھان تھا۔ موٹی موٹی باہر کو ابلتی ہوئی سرخ سرخ آنکھوں میں شاید ہی کبھی نرمی اور حلاوت گھلی ہوئی نظر آئی ہو۔ سدا غصہ اور تناؤ ہی موجیں مارتے دیکھا۔ پاؤں میں پھٹا پرانا جو تا، لنڈے کی خستہ حال پینٹ، بے ڈھنگی سی قمیض جس کا سفید رنگ اس کے شباب کے چند دن تک تو ضرور بہار دکھلاتا۔ یوں بیچاری اس سرعت سے ادھیڑ عمری اور بڑھاپے میں داخل ہو تی کہ امّاں کف افسوس ملتی رہ جاتی۔ اس کے منہ پر تو نہیں پر اس کی غیرحاضری میں غریب کو سوڈے کے کھاری پانی میں غوطے دے دے کر اس پر ڈنڈوں اور سونٹوں کی بارش کرتے ہوئے ضرور بڑ بڑ کرتی۔

    ’’اللہ مارا کندن کی طرح دمکتا بدن ہے، پر مٹی کے غبار جانے کہاں سے اندر بھر گئے ہیں۔‘‘

    عجیب سی بات تھی کہ اماں کو مٹی کے وہ غبار ہمیشہ بھول جاتے تھے جن میں پھنسا وہ سارا دن کام کرتا تھا۔ کندھے پر چار خانی لیلن کا انگوچھا، سردیوں میں تن پر سوئیٹر جس کا باڈر ادھڑا ہوا ہوتا۔ بائیں شانے پر کھدر کی ملگجی چادر کا اضافہ بھی ہو جاتا۔

    یوں وہ بڑا تگڑا جوان تھا۔ پینتالیس انچ کی چوڑی چھاتی، کسرتی بدن اور پٹھانوں جیسا سرخ و سفید رنگ۔

    دلفریب نقش و نگار اور چنبیلی جیسے رنگ والی امّاں کو اسے اچھے کپڑے پہنانے کا بہت ارمان رہتا۔ در اصل وہ اپنے میکے والوں سے بہت شرمندہ رہتی تھی۔ اس کے بھائی پڑھے لکھے افسر آدمی تھے۔ اونچی ملازمتوں پر بیٹھے تھے۔ محل نما گھر میں رہتے تھے۔ جس کا ایک کمرہ اور اس سے ملحقہ ایک چھوٹا سا باورچی خانہ انہوں نے ترس کھا کر اپنی اس بہن کو دے رکھا تھا۔ ایسے میں وہ چاہتی تھی کہ اس کا گھر والا کم از کم ان کے لئے شرمندگی اور خفت کا باعث تو نہ بنے۔

    ابا کو اماں کے میکے والوں سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔ یہ تھوڑی کہ کوئی خونی ناطہ نہ تھا۔ خلیرے چچیرے بھائیوں والی بات تھی۔ امّاں جب بھی دھلے ہوئے کپڑوں کو ہاتھوں میں پکڑ کر اسے پہنانے کے لیے اس کے آگے کھڑی ہوتی۔ وہ انہیں ہاتھ مار کر جھٹک دیتا۔ امّاں ذرا مسکینی سے کہتی۔

    ’’اے ہے لوگ کیا کہیں گے؟ ان کا داماد کیسا فجا سودائی ہے؟‘‘

    بس اماں کی اتنی بات کہنے کی دیر ہوتی کہ ابا کی لال لال آنکھیں مانویوں لگتا جیسے ابھی فرش پر گر پڑیں گی۔

    ’’ہونہہ‘‘ کا ہنکارہ ایسا طنزیہ اور زور دار ہوتا کہ اس وقت امّاں بے چاری بھی سہم سی جاتی۔

    اپنی دادی اور پھوپھیوں سے شدید محبت رکھنے کے باوجود میں انہیں بہت کوستی کہ جنہوں نے ابا کو ہتھیلی کا پھپھولا بناکر پالا۔ بارہ سال تک اس گھوڑے کو گود میں اٹھائے اٹھائے پھریں۔

    اسکول میں پڑھنے جاتا تو میری دادی پیچھے دس چکر لگاتی۔ بیس بار منشی جی کے کانوں میں یہ ڈالتی۔

    ’’بڑا مہنگا پتر ہے جی۔ اس سے پہلے تین اللہ کو پیارے ہو گئے۔ یہ بچا ہے۔ اللہ اس کی لمبی حیاتی کرے‘‘۔

    ایسے میں وہ تیسری میں تین بار اور چوتھی میں چار بار فیل نہ ہوتا تو اور کیا کرتا۔ بس یہ پڑھائی لکھائی والا خانہ ہی خالی رہا۔ بقیہ سب خانوں کی خانہ پری ٹھیک ٹھاک ہوئی۔ اپنی ووہٹی کا اسے بڑا چاؤ تھا۔ وہ ابھی اپنے میکے گھر بیٹھی تھی کہ اسے اس کے سک سرمے کی بڑی فکر رہتی۔ جونہی گاؤں کی گلی میں سک سرمے والے کی آواز گونجتی۔ وہ فوراً گھر کی چھت پر چڑھ کر بنیرے سے جھانکتا۔ اس وقت شوق کا اجالا اس کی موٹی موٹی آنکھوں کو روشن کئے ہوئے ہوتا۔ جب وہ کہتا۔

    ’’سک سرمے والے پھاگا میاں میری ووہٹی کو دنداسہ دیتے جانا‘‘۔

    اردگرد کے گھروں میں رہنے والوں کو اس کی آواز میں خوشیوں کی چہکار سنائی دیتی۔ پھاگا ماں زور سے ہنستے ہوئے کہتا۔

    ’’کنجر دیا! پیسے تو دیویں گا یا تیرا پیو‘‘

    اور وہ سینے پر زور سے اپنا ہاتھ مارتے ہوئے کہتا۔

    ’’میں دیواں گا۔ میں‘‘

    بس یہیں اس سے تھوڑی سی غلطی ہو گئی تھی۔ وہ ذرا بیاہ کے بعد کا بھی سوچ لیتا کہ پیدا ہونے والوں نے لاہور پہنچ جانا ہے۔ مدرسوں میں پڑھنا ہے۔ یہ پوچھنے پر کہ باپ کیا کرتا ہے؟ ترکھان کا بتاتے ہوئے شرم محسوس کرنی ہے۔

    کیسی ستم ظریفی تھی کہ میرے اکلوتے بھائی کے جینز (GENES)نے ابّا کی کوئی خوبی نہیں لی تھی۔ وہ جب پیدا ہوا تھا، شریکے کی کم و بیش سبھی عورتوں نے کہا۔

    ’’ارے سارے خانوادے میں ایسا کوئی نہیں۔ یہ کالا میراثی کس پر گیا؟‘‘

    اس کے کچھ بڑا ہونے پر محسوس ہوا کہ جینز پر موروثی اثر پذیری کا عمل ضرور ہوا ہے۔ یوں کہ پڑھنے لکھنے کے معاملے میں وہ بھی صفا چٹ تھا۔ سوائے پڑھنے کے اسے بقیہ سب شوق تھے۔ کتے بلیوں اور ان کے پلوں بلونگڑوں کو پالنے کے لیے وہ مرا جاتا۔ مرغیوں اور اس کے چوزوں سے اسے دلچسپی تھی۔ کبوتر وہ اڑاتا تھا۔ کھانا پکانے جیسے زنانہ کاموں سے بھی اسے گہری رغبت تھی۔

    امّاں ہر سال نتیجہ نکلنے سے پہلے اس کے اسکول ضرور حاضر ہوتی۔ عام ماؤں کے برعکس وہ ماسٹروں کو تاکید کرنے جاتی کہ وہ پڑھائی میں اگر کمزور ہے تو اسے فیل کر دیں۔

    اور ماسٹر حیرت سے کہتا۔

    ’’تم بھی عجیب ماں ہو۔ فیل کرنے کا کہنے چلی آتی ہو۔

    میرے سلسلے میں بھی معاملہ رنگ و روپ کے سلسلے میں ویسا ہی رہا۔ میں بھی کالی کٹی تھی۔ کئی بوڑھیوں نے امّاں کے سرہانے بیٹھ کر گوہر افشانی کی۔

    ’’اب یہ تو تمہاری ساس کو چاہیے تھا کہ تمہیں بتاتی کہ پوری چاند راتوں میں ملاپ کرنے اور پیٹ ہو جانے پر نو مہینے نہار منہ دہی کھانے سے بچہ خوبصورت پیدا ہوتا ہے‘‘۔

    اور اماں نے دھیمے سے افسردہ لب و لہجے میں اپنی چچیا ساس سے کہا تھا۔

    ’’یہ سب تو مقدر کی باتیں ہیں۔ اس میں انسان کا کمال اور اس کی کاریگری کیا؟‘‘۔

    یوں میں تگڑے جینز کی پیداوار تھی۔ اس اصول کہ عورت فطرت کی مکمل حیاتیاتی پیدا وار ہے کی عملی تفسیر تھی۔

    تیز دھاری دار گنڈاسے سے اگر میں اپنی شخصیت کے تہہ در تہہ چانے اُتارنے لگوں تو تھوڑے بہت تو ضرور اتر جائیں گے۔ پر اپنی کھال اُتار کر اندر کو مکمل طور پر باہر لانا ممکن نہیں۔ یقیناً میں ’’ایڈی پس‘‘ دور میں سیگزر رہی تھی۔ میرے خیالات و افکار اور خواب ہائے پریشان کاسٹریشن کمپلکس کا نتیجہ تھے۔

    اس لیے شاید۔

    مجھے بچپنے ہی سے بیوی بننے کا بڑا ارمان تھا۔ آٹھ سال کی عمر میں میں نے جس کی جلوتوں اور خلوتوں کو آباد کیا۔ وہ میرا ماسٹر تھا جو مجھے ہر روز سبق نہ آنے پر اپنی پوری طاقت سے پیٹتا۔ اللہ مارا کالا بھجنگ، سوکھا سٹریل، باہر کو نکلے ہوئے دانت اور چوڑے چوڑے کان۔ بچوں کو پڑھاتا بھی خوب اور انہیں مارتا بھی خوب۔

    میں اس کے لیے کھانا بناتی۔ اس کے کپڑے دھوتی۔ اس کے پاؤں دباتی اور اس کے اکلوتے کمرے میں اونچی ایڑی کے جوتے پر ساٹن کی جھلمل جھلمل کرتی شلوار اور بنیان پہنے گھومتی پھرتی۔ مٹک مٹک کر کمرے میں پھرنے کا پس منظر صرف اتنا سا تھا کہ میں نے اپنی ایک سہیلی کی چچی کو ایسے پوز میں اپنے صحن میں چلتے پھرتے دیکھا تھا۔ کیا ٹھمک ٹھمک چلتی تھی۔ میرے تو ذہن پر اس کا یہ پوز ثبت ہو گیا تھا۔

    یوں جس دن میں بہت زیادہ پٹتی۔ گھر آکر اس کے مرنے کی دعائیں ضرور مانگتی۔

    یہ غالباً اتوار کا دن تھا۔ میں اپنے گھر کی چھت پر سنگ مرمر کی سلیب پر بیٹھی دھوپ سینک رہی تھی۔ آسمان کانچ کی نیلی گولیوں کی طرح شفاف تھا اور دھوپ میں خوش گوار سی حدت تھی۔ ہماری مہترانی کمائی کے لیے اوپر چھت پر آئی اور مجھے دیکھتے ہی بولی۔

    ’’ارے بی بی تو یہاں بیٹھی ہے اور وہ تیرا ماسٹر مر گیا ہے‘‘۔

    میرا ننھا سا دل دھک سے ہوا

    ’’مر گیا ہے کیسے؟ میں نے ہونقوں کی طرح اسے گھورا۔

    ’’یہ تو مجھے معلوم نہیں۔ بس سارے علاقے میں شور پڑا ہوا ہے‘‘۔

    کسی قدر حیرت اور غم زدہ ان لمحوں کی اڑان اس تیز رفتار پرندے جیسی تھی کہ جوشوں کر کے سر کے اوپر سے گزر جائے اور پتہ بھی نہ چلے کہ وہ چیل تھی یا کوا۔

    اندر سے کہیں خوشی پھوٹی تھی۔ ابھی کل شام تقسیم کے سوال نہ آنے پر میری ہڈی ہڈی کٹی تھی۔ میں نے رضائی میں منہ دے کر ڈھیر سارے آنسو بہائے تھے۔ اماں سے کچھ کہنا لا حاصل تھا کہ وہ تعلیم کے معاملے میں اس مدرسۂ فکر سے تعلق رکھتی تھی جہاں استاد گوشت اور والدین ہڈیوں کے وارث ہوتے ہیں۔

    دفعتاً ایک نئی سوچ بند دروازہ کھول کر باہر آئی۔ ابھی چند ماہ پیشتر ایک منگتی آنکھوں میں گلابی کجلے کے ڈورے سجائے بالائی منزل کے صحن میں اترنے والی سیڑھی کے آخری پوڈے پر آکر بیٹھی۔ اس نے عاجزی سے نہیں بڑے رعب سے ایک روپیہ خیرات کر نے کو کہا۔ ایک روپے کا سن کر ماں جی (نانی) تو مانو جیسے شعلوں سے بھڑکتے تنور میں گر گئی۔

    ’’مشٹنڈی روپیہ مانگتی ہے۔ کوئی حرام کا ہے میرے پاس‘‘۔

    ’’بی بی بھلے میں رہے گی۔ کالی زبان والی ہوں۔ جو کہہ دیتی ہوں پنج تن پاک مان لیتا ہے‘‘۔

    ماں جی جنگلی بلیّ کی طرح غرائی۔

    ’’ہمارے تو کچھ لگتے نہیں۔ کنجری تیرے ہی تو یار ہیں پنچ تن پاک والے۔ اتر جا سیڑھیاں۔ وگرنہ وہ چھترول کرواؤں گی کہ ہلدی چونا ملواتی پھرےگی۔ ‘‘

    وہ منہ میں بڑبڑاتی۔ دگڑ دگڑ کرتی پل جھپکتے میں نیچے اتر گئی تھی۔ ایسی بلا سے کیا مشکل تھا کہ چونا ہلدی لگنے والی بات ہو جاتی۔ میں اس وقت نچلی منزل کے غسل خانے میں دستی نلکے سے پانی نکال رہی تھی۔ منگتی رکی۔ ہاتھ کی اوک سے اس نے پانی پیا اور مجھے سناتے ہوئے بولی۔

    ’’یہ بڈھی کتے کی موت مرے گی۔ میں کالی زبان والی ہوں‘‘۔

    اور میں سچی بات ہے اس وقت لرز کر رہ گئی۔

    راتوں کے تاریک لمحوں میں میں نے بارہا اپنی زبان کالی ہو جانے کی دعائیں مانگی تھیں۔

    اس وقت جب آسمان نیلی کانچ کی گولیوں کی طرح شفاف تھا۔ میرے اوپر انکشاف ہوا کہ میری زبان کالی ہے۔ ایک اونچی جست لگا کر میں نیچے بھاگی۔ چھوٹے سے بد رنگے شیشے میں سے میں نے اپنی زبان نکال کر اس کے دائیں بائیں کنارے دیکھے۔ کناروں پر چھوٹے چھوٹے سیاہ دھبے تھے۔

    بس وہیں بیٹھ کر میں نے اپنی ان تمام سہیلیوں اور رشتے داروں کے فی الفور مرنے کی دعائیں مانگیں جن سے مجھے بے شمار شکایتیں تھیں۔

    اب خوابوں کے جالوں میں بڑے ماموں مقید ہو گئے تھے۔ بڑے قد آور نوجوان تھے۔ مشرقی پنجاب کی دیہی ہواؤں کی پروردہ اس چھ فٹی گھبرو جوانی پر افسرانہ شان اور حسن کی آب تاب کچھ ہی ایسی تھی جیسی کہ کسی بڑی میز پر ہاتھی دانت کی مینا کاری ہو۔ کشمیری کڑھت کا گرم گاؤں پہن کر گھر کی چھت پر چہل قدمی کرتے یا تھری پیس سوٹ میں جہازی صوفے پر بیٹھے دوستوں سے باتیں کرتے وہ کسی طور ٹھسے کے برطانوی لارڈ سے کم نظر نہ آتے تھے جن کی تصویریں میری تاریخ کی کتابوں میں ہر دوسرے صفحے پر جلوہ فگن ہوتیں۔

    ان کی زندگی میں ازدواجی سکھ کا شدید فقدان تھا۔ وہ اپنی بیوی کے طرز عمل سے بہت شاکی رہتے تھے۔ ان کے لمبے لمبے خط جو گلگت سے ان کی ماں بہنوں کے نام آتے اس درد سے بھرے ہوئے ہوتے۔ تیروں کی بوچھاڑ کی طرح یہ درد میرے دل میں اترتا جاتا اور میں نوک مژگان سے ایک ایک تیر کو نکالتی رہتی۔

    یہ ایک لمبا چوڑا سترہ کمروں پر مشتمل دو منزلہ گھر تھا جس کا ایک چھوٹا سا کمرہ اور اس سے ملحقہ باورچی خانہ ہمارے پاس تھا۔ اسی سائز کا دوسرا کمرہ اماں سے ایک نمبر چھوٹی خالہ کو ملا ہوا تھا۔ جس میں وہ اپنی چار بیٹیوں اور شوہر کے ساتھ رہتی تھی۔ بقیہ سارا گھر میری ننھیال کے قبضے میں تھا۔ نچلی منزل کے کمرے تقسیم کے بعد کے لوٹ مار کے سامان سے بھرے اپنے اپنے منہ پر پانچ پانچ سیر پکے تالے چڑھائے ایک پراسرار اور نئی دنیا کا پتہ دیتے تھے۔ ایک ایسی نئی دنیا کا جو سمندر کے رواں پانیوں پر اچانک کسی جزیرے کی مانند ظاہر ہوتی ہے۔

    گھر کیا تھا۔ تضادات کا مجموعہ تھا۔ بلغمی اور صفراوی مزاج اکٹھے ہو گئے تھے۔ دو تین ماہ میں ایک بار زورو شور کی خانہ جنگی انتہائی ناگزیر تھی۔ اماں، ماں جی اور خالاؤں کے مقابلے پر بڑی جی داری سے صف آرا ہوتی۔ پر اس کی پسپائی ہمیشہ را جہ پورس کے ہاتھیوں جیسی ہوتی کہ جو اپنی ہی فوجوں کو روندتے ہوئے بھاگ جاتے۔ تین گھنٹے بعد میدان خالی ہو جاتا۔ فاتح اپنے خیموں میں خوش و خرم کھانے پینے میں جت جاتے اور مفتوح آنسوؤں کے کھارے پانیوں میں غوطے کھاتی ان ممکنہ اسباب کا جائزہ لیتی کہ جن کی وجہ سے شکست اور پسپائی اس کا مقدر بنتی۔

    بس چار پانچ دنوں میں امن و آشتی کے سفید پھریرے لہرانے لگتے۔ اماں اپنے کمرے میں پھٹے پرانے کپڑوں کی مرمت کرتے ہوئے ’’گلستان بوستان‘‘ کی ان حکایتوں کو یاد کرتی جو اس کے قاری صاحب نے اسے ازبر کروائی تھیں۔

    مولانا غلام رسول کی ’’یوسف زلیخا‘‘ کا وہ حصہ دھیمے دھیمے گنگناتی جس میں زلیخا اپنے یوسف سے شکوے کرتے ہوئے سوال جواب کرتی ہے۔ ماں جی اپنے پلنگ پر بیٹھی پنجابی شعروں کو موزوں کرتی۔ چھوٹی خالہ اپنے سائنس کے مضامین میں الجھی ہوئی ہوتی۔ چار بیٹیوں والی خالہ اپنے میاں سے شیکسپیئر کے فن پر زور دار مقالہ سن رہی ہوتی۔

    میری یہ خالہ اور اس کا شوہر بھی ایک عجوبہ تھے۔ کھدر پہنتے۔ کھا پی کر تبلے موندھے مارتے۔ چارپائیوں پر بیٹھ کر خیام۔ حافظ۔ شیکسپیئر اور ورڈز ورتھ سے عشق کرتے۔

    خالو علم کی ایسی پوٹلی تھا جس میں ہاتھ ڈالو اور جس موضوع پر چاہو مواد نکال لو۔ ان کی بڑی بیٹی رضیہ حمید (اب ڈاکٹر رضیہ آفتاب نیو جرسی امریکہ) میری ہم عمر تھی۔ عجیب بات تھی لڑکیاں جو ان ہو رہی تھیں۔ اس گھر میں جوانیاں ٹھکانے لگانے کی بجائے ڈگریوں کے حصول پر زور تھا۔ ایک دوڑ لگی ہوئی تھی۔

    گرمیوں میں ابھی ملگجا سا اجالا بکھرنے ہی لگتا۔ جب میرا خالو اپنی بیوی اور بیٹیوں کو اٹھا کر بٹھا لیتا۔ پاکستان ٹائمز اس کے ہاتھ میں ہوتا اور وہ اس کی موٹی موٹی خبروں سے ان کے کانوں اور ذہنوں کی تواضع کرتا۔ شام ہوتی تو چھت پر چھڑکاؤ ہوتا۔ قطار در قطار چارپائیاں بچھتیں۔ ’’کارل مارکس‘‘ کی ’’داس کیپٹل‘‘ میں سے نکتے نکلتے اور ان نقطوں کا اسلام کے ساتھ موازنہ ہوتا۔

    شیکسپیئر کا وہ عاشق تھا۔ پر عجیب بات تھی کہ وہ اسے فرد واحد نہیں مانتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ شیکسپیئر افراد کے مجموعے کا نام ہے۔

    ’’ارے بھئی دیکھو نا!

    اس کی آواز گھن گرج کے ساتھ اوپر اٹھتی۔ میں نے مانا کہ وہ ۲۵ء املین سیل کا مالک ہوگا۔ آئن سٹائن کی طرح۔ مگر کسی بھی فطین آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ اس زندگی جس کی ہزار جہتیں ہیں۔ سینکڑوں پہلو ہیں جس کے ہر پہلو میں لاکھوں پیچیدگیاں ہیں۔ وہ ان کے ہر پہلو اور ہر رخ پر لکھے۔ ایسا لکھے کہ تڑپا دے۔ کلیجہ نکال کر ہتھیلی پر رکھ دے۔

    کبھی کبھی ہیملٹ کا SOLILOQUOY پورشن زیر بحث آ جاتا۔ خود کلامی کا مرحلہ۔ فصاحت اور بلاغت کی رواں دواں ندی میں ایسی طغیانی آ جاتی کہ پانی شراٹے مارتا کناروں سے اچھل اچھل کر نشیب میں بہنے لگتا۔ چھوٹی خالہ کی گوری چٹی کلاس فیلو لڑکیاں مبہوت بنی پرنس ہیملٹ کو دیکھ رہی ہوتیں۔ سنگ مر مر کی سلیب پر وہ کس کس انداز میں خود کلامی کے مرحلوں سے گزرتا۔

    اس وقت آسمان پر ہمسائیوں کی کابکوں سے چھٹے کبوتر چہلیں کرتے پھر رہے ہوتے۔ رنگ برنگی پتنگیں بانکپن سے آسمان کے سینے پر جھولے لے رہی ہوتیں۔

    میں لکڑی کے جنگلے سے ٹکی دفعتاً نیچے بہت نیچے دیکھتی۔ ابا کسی بوڑھی منحوس صورت نائیکہ جیسی میز پر جھکا رندے سے گھل رہا ہوتا۔ اوپر اور نیچے کا یہ تفاوت۔ اس پل میراجی رات کی رانی کے بوٹے والا گملا نیچے، بہت نیچے گرا دینے کو چاہتا۔ یوں کہ ابا کی ریڑھ کی ہڈی دو ٹوٹے ہو جائے۔

    ایسی تلخ اور باغیانہ سوچ۔ جیسے کوئی تیز دھار والے چاقو سے میری شاہ رگ کاٹ دیتا۔ میں نیچے اپنے کمرے میں بھاگ جاتی اور بکسوں کے پیچھے منہ دے کر دھواں دھار روتی۔

    اس کی آریاں میرے کلیجے پر چلتیں۔ اس کے بسولے اور ہتھوڑیاں میرے سر پر ضربیں لگاتے۔ اس کے رندوں میں سے میری آرزوؤں کا برادہ نکلتا۔

    سچی بات ہے سترہ سال تک میں نے چکی کے ان پاٹوں کی طرح جن میں کبھی ونڈدلا جاتا اور کبھی دلیہ اپنے باپ کے لیے محبت اور نفرت کے جذبات دے۔

    پھر ایک عجیب سی بات ہو گئی۔

    یہ وہ دن تھے۔ جب گاؤں میں کھیت بسنتی ڈوپٹے اوڑھ لیتے ہیں۔ شہر کے کسی تنگ سے کمرے میں بیٹھ کر گاؤں کے کھیتوں کے بسنتی رنگ و روپ کے تصور جبکہ نیوٹن کے ’’ایکشن ری ایکشن‘‘ کے کلیے زیر غور ہوں عجیب سے لگتے ہیں۔

    واقعہ یہ تھا کہ گاؤں سے ماں جی کی زمینوں کا مزارع آیا ہوا تھا۔ وہ بیچ آنگن سوت کی رنگین پایوں والی چارپائی پر بیٹھا حقہ گڑگڑا رہا تھا۔ ماں جی سیاہ جارجٹ کے ڈوپٹے کا چھوٹا سا گھونگھٹ کاڑھے اس کی طرف قدرے پیٹھ موڑے بیٹھی اس سے باتیں کرتی تھی۔

    ’’بی بی بیگم کھیتوں میں سرسوں پھولی ہوئی ہے۔ کماد کوٹھے کوٹھے جتنا لمبا ہے اور چٹالے پر ایسا نکھار ہے کہ لوگ خریدنے کے لیے میرے آگے پیچھے پھرتے ہیں۔ آپ چکر لگائیں تو اچھا ہے‘‘۔

    وہ اک ذرا نے منہ سے نکالتا۔ نہایت پھوہڑپن سے سارا دھواں بھک سے منہ سے باہر اگل دیتا۔ اس انداز میں حقہ پینا مجھے بہت ناپسند تھا۔

    ’’کم بخت بھلا پینی ہے تو سگریٹ پئیں۔ تھوڑا سا سلیقہ اور رومانیت تو نظر آتی ہے اس میں۔ ‘‘

    اپنے کمرے میں فرش پر بیٹھے ہوئے مجھے ماں جی کے اس طرح گھونگھٹ کاڑھنے پر بھی اپھارہ سا ہو رہا تھا۔

    ’’لو یہ تو صاف دعوت نظارہ تھی‘‘۔

    کالے ڈوپٹے میں سے چھن چھن کرتا ہوا ان کا سرخ سفید رنگ مجھ جیسی کو چھلانگ مار کر ان کی چمی لینے پر اکسا رہا تھا۔ عین سامنے چھ فٹ کا پلا ہوا جنا بیٹھا تھا۔

    ’’بی بی بیگم جیج (عزیز) پٹواری کا بڑا لڑکا ڈاکٹری پڑھنے ولائت چلا گیا ہے۔ چھوٹا والا مشینوں کا کورس کرنے کے لیے کنیڈا سدھار گیا ہے‘‘۔

    یہ خبر کوئی نئی نہیں تھی۔ دو ماہ پرانی تھی۔ جیج پٹواری ماں جی کا بھانجا تھا۔ اس کا چھوٹا لڑکا انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم کے لیے کینیڈا سے گیا تھا۔

    ’’بی بی بیگم غلامے اور دینے کے لڑکے پائلٹ بھرتی ہو کر امریکا چلے گئے ہیں‘‘۔

    یہ خبر بھی نئی نہیں تھی۔ پر جانے کیا ہوا۔

    پھولی ہوئی سرسوں کے کھیت، کوٹھوں کے بینریوں کو چھوتا کماد سبز فرغل پہنے چٹالے کے قد آور بوٹے، ماں جی کا چھوٹا سا سیاہ گھونگھٹ۔ اس آدمی نذیرے یعنی نذیر محمد کا بھدے سے انداز میں منہ سے دھواں نکالنا سب سلیٹ پر لکھے اس سوال کی طرح صاف ہو گیا تھا جسے بچے نے حل کرنے کی بجائے عجلت میں اس پر گیلی ٹاکی پھیر دی ہو۔

    میرے اندر ایک نئی سوچ نے سر اٹھایا تھا۔

    آدمی اگر معاشی لحاظ سے کمزور ہے۔ ہلکا اور پتلا ہے۔ پر قابل اور لائق اولاد جیسا خزانہ اس کے پاس ہے۔ تو اس کی ساری کمزوریاں ایک دن دور ہو جاتی ہیں۔ وہ اپنے معاشرے میں قدآور ہو جاتا ہے۔ جیج پٹواری عزیز احمد پٹواری۔ دینا دین محمد اور گامّاں غلام محمد بنتے ہیں۔

    میرا باپ بیچارہ خود بھی کوتاہ قامت اور ایک بیٹا وہ بھی کسی خصّی کئے ہوئے بیل کی طرح ناکارہ۔ اب ایسے میں کوئی کسی کے گھر میں چارپائی پر بیٹھ کر حقے کی نے ہاتھوں تھام کر لبوں سے دھواں اڑاتے ہوئے اس کے بارے میں کوئی بات نہیں کرےگا۔ بیچارہ رندوں اور آریوں سے گھلتا مر جائےگا۔

    میری زندگی کا یہ لمحہ فیصلہ کن تھا۔ میرے دل میں اس کے لیے محبت کے وہ سوتے ابلے جن کے منہ میرے شعور میں آنے کے بعد سے بند تھے۔

    مجھے اپنے خوابوں اپنی سوچوں سے شدید نفرت محسوس ہوئی۔ میں نے ان سب پر دو حرف لعنت کے بھیجے۔

    اس پس منظر میں ’’میں ‘‘نے جب بھی عشق کرنے کا سوچا۔ میری آنکھوں کے سامنے جوہڑوں اور گندے تالابوں کے کناروں پر کیچڑ میں رینگتی پھرتیں لج لج کرتی سیاہ جونکیں ابھر آتیں جو نہ چاہتے ہوئے بھی میرے منہ میں گھس کر دانتوں تلے آ جاتیں۔ مارے کراہت کے میرے سارے سریر میں جھرجھریاں سی آنے لگتیں آخ تھو کرتے ہوئے انتڑیاں باہر نکلنے کو تڑپتیں اور میں دونوں کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے در توبہ کھول لیتی۔

    یہ کاتک کے دن تھے۔ دونوں وقت ملتے تھے۔ پچھم یوں سرخ تھا کہ جیسے ابھی کوئی البیلا عاشق اسے خون کا نذرانہ دے کر سرخرو ہوا ہو۔ سامنے نیم کے گھنے درخت میں چڑیوں کا زور زور سے چہچہانا کچھ ایسا ہی تھا جیسے کہ ان کی عدم موجودگی میں ان کے گھروں میں ڈاکہ پڑا۔ باگڑ بلے چیل کوی ان کے نوزائیدہ بوٹ اٹھا کر لے گئے ہوں۔

    میں نے انگڑائی لی تھی اور کتابیں سمیٹ کر اس بوری کو لپیٹ دیا تھا جس پر میں تین گھنٹے سے جمی بیٹھی تھی۔ تبھی ساتھ والی چھت پر میری ہم عمر لڑکی کسی فلمی اشتہار کی طرح نمودار ہوئی۔ فیروزی ململ کا چنٹ والا ڈوپٹہ جس پر ابرق جگنوؤں کی طرح ٹمٹماتی تھی اس کے سر پر ٹکا تھا۔ اس سانولے سے اجالے میں اس کی گلاب کی طرح دمکتی رنگت نے مجھے جلن سے اس کی طرف دیکھنے پر مجبور کیا تھا۔ میرے لئے وہ کوئی نئی لڑکی نہیں تھی۔ میں اسے جانتی تھی پر دوستی وغیرہ نہیں تھی۔ ہمارے یہ ہمسائے کاروباری لوگ تھے۔ جن کے ہاں رزق کی فراوانی ضرور تھی پر علم کی بڑی قلت تھی۔ لڑکیاں پڑھنے لکھنے میں جتنی نکمی فیشن پرستی میں اتنی ہی لائق تھیں۔

    ہمارے گھر میں ان کے لیے اچھی رائے نہیں تھی؟ ہمارے گھر کی خیر سے کیا بات تھی۔ اللہ مارا منشی عالم اور منشی فاضل کی سان پر چڑھا ہوا، وہابیت کا پکا علمبردار پر امام جعفر صادق کے نام کی نذر نیاز کھانے میں بھی بڑا تگڑا۔

    ’’میری بات سنو‘‘

    بھدی اور موٹی آواز تھی۔ ذرا نسوانیت نہیں تھی۔ پر اس کا ہاتھ۔ شاہی قلعے کے عجائب گھر میں رکھا ہوا رانی جنداں کا سنگ مرمر کا ہاتھ میرے سامنے شیشے توڑ کر آ گیا تھا۔ انچ بھر لمبے ناخن بیر بہوٹی جیسے رنگ کی پالش سے رنگے ہوئے تھے۔

    میرے یہ پوچھنے پر کہ کیا کام ہے؟ اس نے کہا تھا۔

    ’’ہماری چھت پر آ جاؤ یا پھر میں تمہارے پاس آ جاؤں۔‘‘

    دونوں باتیں خطرناک تھیں۔ پر اول الذکر میں خطرہ موخرالذکر کی نسبت کم تھا۔ چند لمحوں کے تذبذب کے بعد میں نے چیتے جیسی پھرتی کے ساتھ ان سوراخوں میں پیر جمائے جو مشترکہ دیوار میں تھے اور چھلانگ مار کر ان کی چھت پر کود گئی۔

    رانی جنداں کے ہاتھ نے میرا چھپکلی جیسا سوکھا سڑیل بد رنگا ہاتھ تھاما اور مجھے اس برساتی میں لے گئی جہاں چار چار پائیاں بچھی تھیں۔

    ’’تمہیں خدا کا واسطہ کسی سے کچھ مت کہنا۔ لو اسے پڑھ کر جواب لکھ دو‘‘۔

    اس نے نیلے رنگ کا کوئی اٹھ تہوں میں مڑا تڑا ایک خط سینے سے نکال کر میرے ہاتھوں میں تھما دیا۔ مجھے یوں لگا جیسے اس نے خط نہیں خوشبو کی شیشی کا ڈھکنا کھول کر میرے ہاتھ میں پکڑا دی ہے۔

    خوشبوؤں کے پانیوں میں غسل کرنے والے پتر ہمیشہ عاشقوں کے ہی ہوتے ہیں۔ یہ بھی عشق نامہ ہی تھا۔ پر عزیز احمد تو کھڈے لین لگا ہوا تھا۔ سارے میں اختر شیرانی اپنی سلمیٰ اور عذرا کو حال دل سنا رہا تھا۔ سنتے سنتے یکدم اس نے سنگ مر مر کا چپہ کھڑکھڑاتے کاغذ پر مارا اور دونوں بھنوؤں کو سکیڑ کر بولی۔

    ’’یہ کن کا ذکر ہو رہا ہے؟‘‘

    ’’تیرا عزیز احمد اپنے گرو کی بات کر رہا ہے۔ اس سے آشیرباد مانگ رہا ہے۔ دونوں ہاتھ اٹھائے دعا گو ہے کہ گرو تو اپنے عشق کے ڈانڈے متوازن نہ رکھ سکا پر اسے توفیق نصیب ہو کہ وہ پیار کی ان پیچ دار گھاٹیوں سے بہ حفاظت عزت و آبرو کے ساتھ کامیابی کی وادیوں میں اتر سکے۔

    بڑا لمبا ہنکارہ بھرا تھا اس نے۔ اٹھ کر برساتی کی بتی جلائی اور مجھ سے درخواست کی کہ اس کا جواب بھی لکھ دوں۔

    میں نے خط اس کے سینے میں ٹھونستے ہوئے کہا۔

    ’’تیرا عاشق تو بڑا شاعرانہ مزاج کا آدمی لگتا ہے۔ ایسے کے ساتھ عشق کرنا تھا تو پڑھنا لکھنا بھی تھا۔ اب میں اس کا جواب کیسے لکھ پاؤں گی۔ مجھے تو شاعری اتنی نہیں آتی۔

    اس نے دونوں ہاتھ یوں میرے آگے جوڑ دئیے اور چہرے پر زمانے بھر کی مسکینی انڈیل لی کہ مجھے کاغذ قلم تھامتے ہی بنی۔ لکھنے سے پیشتر میں نے عزیز احمد کا پس منظر اور

    محبت کی اس کہانی کا آغاز سنا کہ جس کے نتیجے میں یہ خط اسے آیا تھا۔

    وہ اس کی بڑی بہن کے سسرالی عزیزوں میں سے تھا۔ مٹیالی سی ایک شام جب وہ بھاٹی دروازے میں واقع اپنی بہن کے چوبارے کی تنگ و تاریک سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ عزیز احمد جانے کہاں سے نکل آیا تھا۔ اس نے ثریا کو دونوں شانوں سے تھام لیا تھا۔ اپنی سانسوں کی ساری گرمی اس کے چہرے پر چھوڑتے ہوئے بولا تھا۔

    میں ایک سال تین ماہ اور پانچ دنوں سے تجھ سے بات کرنے، تجھے اپنا حال دل سنانے کو ترس رہا ہوں۔ بڑا بھاگوان دن ہے آج کا کہ میں کامیاب ہوا۔ دیکھو! مجھے آج رات چھت پر ضرور ملنا۔

    ’’اور تم اس سے ملیں‘‘۔

    ’’تو اور نہ ملتی۔ وہ بےچارہ ایک سال تین ماہ اور پانچ دنوں سے مجھ سے ملنے کے لیے تڑپ رہا تھا‘‘۔

    کاتک کی اس رات کا چاند پورا جوان تھا۔ برساتی کے ساٹھ پاور کے بلب کی روشنی میں وہ بڑا تنو مند دلکش اور خوبصورت نظر آتا تھا۔

    چاند رات کا اٹھان اپنے عروج پر ہو۔ عاشق کو چٹھی لکھنے کے لوازمات بھی پورے ہوں۔ ایسے میں مجھے اماں پر پیچ و تاب تو کھانا ہی تھا کہ جس نے دو بچوں کو جن کر اپنے حسابوں بڑا تیر مارا تھا۔ بھلا میری بھی کوئی بہن موچی دروازے، دلی دروازے یا رنگ محل کے کسی چوبارے میں بیاہی ہوتی تو یقیناً کوئی مجھے بھی شانوں سے تھام کر جھوٹے سچوں محبت بھرا سندیسہ دے سکتا تھا۔ تب اس کائی زدہ تالاب کے ٹھہرے ہوئے سڑاند مارتے پانی جیسی زندگی میں لطیف سا ارتعاش تو پیدا ہو جاتا۔

    پھر میں اس کی جگہ خود بیٹھی اور جواب لکھا۔

    جب میں واپسی کے لیے اس دیوار تک آئی جو دونوں گھروں کے درمیان حد فاضل تھی۔ میں نے یوں جھان کا جیسے غنیم کے علاقے میں پھنسا کوئی بدبخت سپاہی مورچے میں سے گاٹی نکال کر دائیں بائیں دیکھتا ہے کہ میدان صاف ہو تو بھاگ نکلے۔ پر میرے پیروں میں چونٹیاں رینگنے لگی تھیں اور ما تھا ٹھنڈے پسینہ میں نہا گیا تھا کیونکہ ممٹی کے پاس رضیہ حمید کا باوا اور امّاں بیٹھے تو تکار کی صورت حال سے دوچار تھے۔

    مسئلہ رضیہ کے کالج جانے کی ٹرانسپورٹ کا تھا۔ رضیہ کا باوا اتا ترک کا سچا جانشین، آزادی تحریک نسواں کے ہر اول دستے کا سالار بیچارے کا بس نہ چلتا تھا کہ پاکستان کی عورتوں کے برقعے قانوناً ان کے بکسوں میں ٹھنسوا دے۔

    اس وقت بیوی کو سرسید احمد خان کی تحریکوں کے حوالے سے قائل کر رہا تھا کہ بیٹی کے لیے سائیکل سے بڑھ کر کوئی موزوں سواری نہیں۔ وہ بسوں میں رش کی صورت کالجوں کے لڑکے، مرد اور کنڈیکٹر لڑکیوں اور عورتوں کے جن جن حصوں کو جس جس انداز میں نشانہ بناتے تھے ان کی تفصیلی اور سچی تصویر کھینچ رہا تھا۔ پر بیوی اس کی رائے کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے بھی بھائیوں کے ڈر سے دہلی جاتی تھی۔

    میں بلی کی چال چلتی دیوار کے شگافوں میں پیر رکھتی یوں نیچے اتر آئی کہ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ پر جب کمرے میں آکر میں نے کتابیں کھولیں۔ مجھے محسوس ہوا تھا کہ صفحوں پر سے حروف غائب ہو گئے ہیں اور جو محبت نامہ میں ابھی لکھ کر آئی تھی وہ چپکا پڑا ہے۔ فزکس کو بند کیا اور کیمسٹری کھولی۔ اسے بھی کھٹاک سے بند کیا اور زوالوجی کھولی۔ اسے بھی ٹپا۔ سب کو الماری میں اوندھے پوندھے پھینکا اور خاکی کھیس سر تک تان کر لیٹ گئی۔ امّاں کمرے کے آگے بیٹھی ماچس کی تیلی ناک کے نتھنوں میں گھسیڑ گھسیڑ کر فضول چھینکیں لے رہی تھی۔ مجھے یوں لیٹے دیکھ کر بولی۔

    ’’طبیعت تو ٹھیک ہے نا تیری‘‘۔

    میں اماں سے ناراض تھی۔ میری حالات اس دیہاتی جیسی تھی جو بے چارہ شہر میں پہلی بار آیا اور جس نے آتے ہی مدھوبالا کی فلم دیکھ لی ہو۔ میں بھی محبت کے ۱۰۶ ڈگری بخار میں پھنک رہی تھی۔ سارا جسم کپکپا رہا تھا۔

    اور جب صبح کا اجالا کوٹھے کے بینروں تک اتر آیا۔ میں نے نیم کی مسواک سے دانت صاف کئے۔ سوکھی روٹی کالی چائے سے کھائی۔ کتابیں اٹھائیں اور کالج چلی گئی۔

    روشنی کتنی ظالم تھی۔ رات کی تاریکیوں میں دیکھے گئے خوابوں کو اس نے ایک پل میں تار تار کر دیا تھا۔ میرا بخار وخار سب اتر گیا تھا اور میں پوری طرح تندرست اور نو بر نو تھی۔ ابا کو کالج میں مضمون نویسی کا مقابلہ جیتنے کی خوشخبری سنائی۔ اس نے ہمیشہ کی طرح اپنی موٹی موٹی ابلتی غصیلی آنکھوں سے مجھے گھورا۔

    ابا کو لڑکیوں کے ہونٹوں پر پھیلی ہنسی سے چڑ تھی۔ میرے ہونٹوں پر بکھری ہوئی ہنسی تو اس کا چڑھا ہوا پارہ اور بھی چڑھا دیا کرتی تھی۔ صاف بیزاری چھلکتی تھی جب وہ بولا تھا۔

    ’’چل ہٹ۔ روٹی کھانے دے مجھے۔ ہاں یہ کیا کھوتے کی طرح دانت نکالے ہوئے ہیں‘‘۔

    ابا کے ان طور طریقوں سے مجھے اب اذیت کم ہوتی تھی۔ میری نظر میں وہ اب قابل رحم بن گیا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اس بات کے ساتھ پنہاں کانٹوں نے ذرا بھی چبھن نہیں ہونے دی۔ بس ایسا ہی تھا جیسے کسی نے سینے پر پھول مار دیا ہو۔

    میرے پاس قلم تھا۔ دماغ تھا۔ خیالات کی جولانیاں جو کسی منہ بند چشمے کی طرح اندر ہی اندر ابلتی تھیں اب اپنا منہ پھاڑ کر باہر بہنے لگتی تھیں۔ ثریا کے پاس بیش قیمت

    ملبوسات تھے۔ رنگ رنگیلی جوتیاں تھیں۔ نت نئے فیشنوں کے ڈھیر سارے لوازمات تھے۔

    کوئی باقاعدہ معاہدہ تو طے نہیں پایا تھا۔ پر پھر بھی ایک خاموش سا سمجھوتہ ضرور ہو گیا تھا۔ یوں کالج میں میری ساکھ خاصی مضبوط ہو گئی تھی۔

    بیساکھ کے آخری دنوں کا جلتا سورج جب گاؤں کے لوگ پاؤ پاؤ بھر دیسی گھی کٹوروں میں ڈال کر پیتے اور پانی میں بھگوئے صافے سروں پر رکھے درانتیوں کے ساتھ گندم کی کٹائی کرتے ہیں۔ چھوٹی خالہ ٹھپ ٹھپ کرتی نچلی منزل کے ٹھنڈے کمروں میں آئی۔ اس نے برقی پنکھا فل اسپیڈ پر چھوڑا۔ پٹی والے گلے کے اوپر کے بٹنوں کو کھولا۔ کمرے میں چکر کھاتی ہوا کو اندر گھسیڑتے ہوئے وہ ماں جی سے بولی۔

    ’’باہر محاورے والی گرمی چوٹی سے ایڑی تک بہنے والے پسینے کی صورت میں پڑ رہی ہے۔ آپ چاہتی ہیں کہ میں اور انور تھل جا کر فصل کو دیکھیں۔ ماں جی یہ درد سری ہم سے نہیں ہو گی۔ سو بار آپ سے کہا ہے کہ زمین بیچ کر شہر میں کوٹھی بنوا لیں۔ ہر ماہ کرایہ وصول کریں اور جانے آنے کی کِل کِل سے نجات پائیں۔ پر آپ ہیں کہ پرکھوں کی جائیداد نہ بیچنے کے فارمولے پر خزانے کے سانپ کی طرح پہرہ دیتی ہیں۔ ‘‘

    ماں جی اسوقت سید فضل شاہ کے ساتھ سندھ کے ریگزاروں میں بھٹک رہی تھی۔ سسی بھی وہاں تھی۔ ماں جی کی مترنم آواز ساری ڈیوڑھی میں بکھری ہوئی تھی۔

    اِک آپ تتی، دوجے ریت تتی، تیجا تتڑیرُت بہار پنوں۔

    چھوٹی خالہ کی کسی بات کا جواب دینے کی انہیں فرصت نہیں تھی۔

    میں اس وقت غربی سیڑھیوں کے تیسرے پوڈے پر بیٹھی اس قوم کی خصوصیات رٹنے میں جتی ہوئی تھی جسے دس نکالا مل چکا تھا۔ پر جو اس سر زمین کے چپے چپے پر اپنے قدموں کے نشان چھوڑ گئی تھی اور قوم ہاتھوں میں لوہے کے تسلے تھامے ان نقوش کو محفوظ کرنے میں جتی ہوئی تھی کہ کہیں باد مخالفت انہیں مٹا نہ ڈالے۔

    اماں نے لوہے کے جنگلے پر کھڑے ہو کر مجھے دلار سے پکارا۔ میں دو دو سیڑھیاں الانگتی اوپر پہنچی۔ اماں اپنے کمرے میں داخل ہوئیں اور پیچھے پیچھے میں بھی۔ صورت حال کو سمجھنے میں میری چھٹی حِس بہت بودی ثابت ہوئی۔ اماں نے کمرے کی کنڈی لگاکر جھاڑو اٹھا کر میری ٹانگوں پر مارا۔ سانپ کی سی پھنکار تھی لہجے میں۔

    ’’حرامزادی۔ کنجری تو نے یہ وچولہ گیری کب سے شروع کر دی ہے؟‘‘

    لمحے کے پہلے حصے میں میری کیفیت اس ہنستے مسکراتے بچے جیسی تھی جسے اچانک ماں نے کس کر تھپڑ مارا ہو اور اس کی آنسوؤں سے لبریز آنکھیں پوچھتی ہوں کہ میرا قصور؟

    پر لمحے کے دوسرے حصے میں میرا حال اس مجرم جیسا تھا جس نے جرم کرنے سے پہلے کواڑ اچھی طرح بند کئے تھے پر دروازہ دھڑ سے کھل جانے پر وہ یہ نہیں سمجھ پا رہا تھا کہ یہ آخر کھلا کیسے؟

    میں نے فوراً امّاں کا جھاڑو والا ہاتھ پکڑ لیا۔ پر امّاں کی زبان کو تو پہیے لگ گئے تھے۔

    جو غلیظ اور متعفن راستوں پر سرپٹ بھاگے جا رہے تھے۔

    ’’حد ہو گئی ہے۔ خط ہی لکھ کر دئیے ہیں نا۔ کوئی عشق تو نہیں کیا۔ بھاگ تو نہیں گئی کسی کے ساتھ‘‘۔

    میں منہ پھٹ تو تھی ہی پر اس حد تک امّاں کو اس کا اندازہ نہیں تھا۔

    گاؤں کی عورتیں لڑتے ہوئے ایک دوسری کو چھبیاں دیتی ہیں۔ اماں نے مجھے بھی ایسی ہی چھبیوں سے نوازا۔

    ’’ارے تیرے جیسی چھنال وہ بھی کر لے گی ایک دن۔ ناک کٹوا دے گی ہماری‘‘۔

    ’’ارے عشق ہی تو نہیں کر سکتی میں۔ تیرا فجا سودائی سامنے آ جاتا ہے میرے۔ ابکائیاں آنے لگتی ہیں مجھے عشق کے تصور سے‘‘۔

    اس درجہ بیباک انداز پر تو اماں جی جان سے دہل گئی۔ چھ سات جھاڑو کھا کر میں نیچے آ گئی۔

    رات کو معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ ثریا کی بہن کی سسرال میں خطوط کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ سارے خط لڑکے کی ماں بہن نے اس کے منہ پر دے مارے۔ اب ثریا کی ماں، بہن دونوں سر جوڑ کر بیٹھیں کہ یہ آخر لکھے کس نے؟ وہ تو الف بے لکھنے سے کوری۔ قیاس کے گھوڑے بگٹٹ بھاگتے میرے آنگن میں اترے۔ دونوں نے امّاں کو بلایا اور صورت حال سے مطلع کیا۔ اماں زرد پیلی ہوئی اور گھگیائی کہ کہیں اس کی ماں بہنوں کو پتہ نہ چلے۔ وگرنہ حشر ہو جائےگا۔

    اب اللہ جانے اس کا ساہا زور دار تھا۔ لاہور سے اس کا آب و دانہ اٹھ گیا تھا یا اس کے گھر والوں کو اس کی ڈولی اٹھا دینے میں ہی اپنی عافیت نظر آئی تھی۔ بہرحال وہ ایک ماہ کے اندر بیاہ کر جہلم چلی گئی۔

    ہر روز اساڑ کا سورج جلتا۔ نیچے زمین آگ اگلتی۔ گھاس پات نڈھال اور دیکھنے میں بد رنگے نظر آتے۔ دھول مٹی اڑتی اور سارے میں ’’اداسی برس رہی ہے‘‘ جیسی بلبلاہٹ سننے میں آتی۔

    ایسے ہی چبھتے ہوئے دنوں میں سے ایک دن میرے اوپر یہ انکشاف ہوا کہ میری ساتھی لڑکیوں میں سے ہر ایک عشق کے مرض میں مبتلا ہے۔ بلکہ اس مزید انکشاف نے اور بھی ستم ڈھایا کہ کالج کی ہر دوسری لڑکی اس بیماری کی مریض ہے۔

    بوڑھے برگد کی گھنی چھاؤں میں بیٹھ کر فہمیدہ نے اپنے ’’راک ہڈ سن‘‘ کا ذکر کیا۔ خدا کی قسم ’’راک ہڈسن‘‘ اٹھاؤ اور نعیم بٹھاؤ بس ایک ہی بات ہے۔ نعیم نسبت روڈ کے ایک ایسے گھر میں رہتا تھا جس کے گھر کی چھتیں فہمیدہ کے گھر کی چھتوں سے بہت نیچے رہ جاتی تھیں۔ پستیوں سے بلندیوں کی طرف چڑھنا مہم جو لوگوں کو بہت پسند ہے اور فہمیدہ کا وہ عاشق بھی کچھ ایسا ہی تھا جو رام چندر جی کی طرح شوجی کی کمان کو کوزہ کوزہ کرنے کا ہی نہیں بلکہ ٹوٹے ٹوٹے کر دینے کا پکا ارادہ رکھتا تھا۔

    آصفہ دل کے دروازے اس ٹیوٹر پر کھولے بیٹھی تھی جو اس کے بھائی کو گھر پر سائنس پڑھانے آتا تھا۔ بات آنکھوں، ہاتھوں اور ہونٹوں تک کے فاصلے طے کر بیٹھی تھی۔

    تحسین خالہ زاد سے الجھی ہوئی تھی۔ خالہ زاد یتیم ہو کر ان کے دروازے پر آ گیا تھا۔ تحسین کے باپ نے اس کی ساری پڑھائی کا بوجھ اٹھا رکھا تھا۔ اس نے گھر میں ہی سیندھ لگا دی تھی۔

    عرفانہ نخروں کی پوٹلی تھی۔ خوبصورت بھی بلا کی تھی۔ کسی کپتان سے سلسلہ جوڑے بیٹھی تھی۔

    پھر ان سب نگاہوں کا میں مرکز تھی۔ ماشاء اللہ سے میرے گھر میں خالہ زادوں اور پھوپھی زادوں کی تو کوئی کمی نہ تھی پر وہ سب کم بخت عشق نہیں جوتیاں مارنے کے قابل تھے۔ ایسے کاؤ بوائے کہ انہیں دیکھنے کو جی نہ چاہے، کجا کہ محبت کی نگاہ ڈالی جائے۔ یوں بھی کٹڑ گھرانہ تھا۔ لڑکیوں کے ناکوں میں خوف و ڈر کی ایسی نکیلیں ڈالی ہوئی تھیں کہ جنہوں نے ناک چھوڑ براچھیں بھی چیری ہوئی تھیں۔

    میں چپ تھی۔ یقیناً میرے چہرے پر ایسا ہی کوئی رنگ بکھر گیا ہوگا جیسا کسی یتیم ویسیر بچے کے چہرے پر ہوتا ہے۔ فہمیدہ کی نگاہوں میں چچ چچ کی کیفیت ابھری تھی۔ فائزہ کے بند ہونٹوں نے جیسے میرے کانوں میں طنزیہ جملے کی سرگوشی کی تھی۔

    ’’واقعی کوئی احمق تھوڑی ہے جو تمہارے اس پکے جامن جیسے رنگ پر دل لٹاتا پھرے‘‘۔

    بڑا کھلا چیلنج تھا یہ۔ میرا اندر یوں بھڑکا تھا جیسے کسی نے کھوری اور ٹوک کے ڈھیر کو آگ لگا دی ہو اور بھانپڑ مچ اٹھا ہو۔

    میں نے فی الفور اپنے عشق کا ننھا سا بچہ تخلیق کیا اور ان سب کے سامنے پیش کر دیا۔ میرا یہ عاشق جیٹ فائٹر کا پائلٹ تھا۔

    فائزہ اور فہمیدہ نے بےاعتباری سے دیکھا۔

    ’’میرا عم زاد ہے۔ پی اے ایف کیڈٹ کالج رسالپور میں ٹریننگ کے آخری مراحل میں ہے۔ سولو فلائٹز SOLO FLIGHTS میں بہت کامیاب رہا ہے۔ فضائیہ اسے میراج کی تربیت کے لیے فرانس بھیج رہی ہے‘‘۔

    میری زبان نے یہ ساری تفصیل اگلنے میں ذرا بھی لکنت سے کام نہیں لیا تھا۔ لکنت بھی کیسے کھاتی ؟کوئی زیادہ دنوں کی بات تھوڑی تھی۔ یہی کوئی چھ دن ہوئے ہوں گے۔ بڑی ممانی کا چھوٹا بھائی ’’ہاورڈ‘‘ میں والٹن ائیرپورٹ پر اترا تھا اور فلائنگ سوٹ میں ہی ہمارے گھر آ گیا تھا۔ ماں جی کو اس نے تین فوجی سیلوٹ مارے تھے۔ چھوٹی خالہ کو بڑی میٹھی نظروں سے دیکھا تھا اور ہم لڑکیوں کے سروں پر چپت مارتے ہوئے بولا تھا۔

    ’’ارے یہ مکھیاں تو بڑی بڑی ہو گئی ہیں‘‘

    اور گھر کی انگنائی میں چکر کاٹتے ہوئے اس نے اپنے بارے میں وہ سب کچھ بتایا تھا جسے میں نے بڑے امتیاز کے ساتھ اپنی سہیلیوں کے سامنے پیش کیا تھا۔ سارے حقوق اپنے نام محفوظ کرتے ہوئے۔

    آنکھوں کی ساری بے اعتباری دھل گئی تھی۔

    میں نے میدان جیت لیا تھا۔ پائلٹ تو اس زمانے میں کسی بخت والی کو نصیب ہوتا تھا۔

    میں نے برگد کے موٹے تنے کے ساتھ ٹکی لیڈیز سائیکل کا تالا کھولا اور گدی پر یوں بیٹھی جیسے پائلٹ کاک پٹ میں بیٹھتا ہے۔ اور اس جلتی دوپہر میں گیٹ سے باہر آ گئی۔

    یہ سائیکل رضیہ حمید کی تھی۔

    رضیہ حمید کے باپ نے ساری خدائی ایک طرف اور جورو کا بھائی ایک طرف والی مثال کی تکا بوٹی کر ڈالی تھی۔ اس نے اپنے سالوں کی خود ساختہ عزتوں کی سفید پگڑی اپنے پیروں تلے مٹی سے لت پت کر دی تھی۔ سلونی سی ایک شام کو کسی دلہن کی طرح پاؤں میں پازیب بجاتی یہ ڈیوڑھی پار کر کے برآمدے کی دیوار کے ساتھ آ ٹکی تھی۔ ماں جی نے سینہ کوبی کرتے ہوئے کوسنوں کی بوندا باندی شروع کر دی تھی۔

    ہانڈی وچ پنیاں، جہانوں جاناں، دو گاڑا لگنا۔

    ماما حمید ہنستے ہوئے بیچ آنگن کے کھڑا ہوا اور بولا۔

    ’’پھوا بیگم آپ کو اگر اتنی تکلیف ہے تو بیٹوں کو لکھ دو کہ وہ میری بیٹی کے لیے گاڑی بھیج دیں‘‘۔

    گالیوں اور بد دعاؤں کی بوندا باندی تیز بارش کی صورت اختیار کر گئی تھی۔

    میرے ابا کے خیال میں طاعون کی بیماری گھر میں گھس آئی تھی۔ ساری لڑکیاں اس کا شکار ہونے والی تھیں۔ شاید اسی لیے اس نے اپنی آنکھوں کو پہلے سے بھی زیادہ خوفناک بناتے ہوئے دھمکی دی۔

    ’’آنکھیں پھوڑ دوں گا تیری جو تو نے سائیکل پر نظر ڈالی‘‘۔

    پر میں ابا کو اب اتنے وسیع اختیار دینے کے حق میں قطعی نہ تھی۔ یہ کیا کم تھا کہ میں نے اپنے دل کے معاملات میں اس کی تھانیداری قبول کر لی تھی۔ وہ میری آنکھیں پھوڑنا چھوڑ میرے ٹوٹے ٹوٹے بھی کر دیتا تب بھی میں نے سائیکل پر چڑھنا تھا۔

    معاملہ یوں طے ہوا تھا۔ رضیہ مجھے بس اسٹاپ سے اٹھاتی۔ گلبرگ کالج سے سائیکل میرے نیچے آ جاتی۔ واپس پر میں بس اسٹاپ پر اترتی اور اس سے پندرہ منٹ بعد گھر میں داخل ہوتی۔

    جیسے کسی حد درجہ نالائق طالب علم کی یونیورسٹی ڈگری کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ بعینہ میرا ہر لفظ اپنے گھر گھرانے سے متعلق چھوٹی بڑی گپ کے لیے بہت مستند تھا۔ بےشک میرا لباس معمولی اور میرے سر پر اکاسی اکاسی کی ململ کا ڈوپٹہ ہوتا تھا۔

    ۱۹۶۳ء میں میرا کالج آنا جانا سائیکل پر تھا۔

    شطرنج کا پیادہ ایسی چال چلا کہ بادشاہ چاروں شانے چت پڑا۔ در اصل اماں کا فجا سودائی ایسا گھاگ اور کائیاں نکلا کہ اس نے سارے گھر کی بساط الٹ دی۔ جھوٹے سچے کلیم پر پوری بلڈنگ اپنے نام الاٹ کر والی اور ماں جی کو گھر خالی کرنے کا نوٹس دے دیا۔

    اور یہ وہ دن تھے جب شمال کے پہاڑوں کی چوٹیاں برف کے پیر ہن پہن کر پکا سوکی تصویروں کے مختلف ٹکڑے بن جاتی ہیں۔ یخ ہوائیں ہڈی ہڈی اور جوڑ جوڑ کو بر چھی کی طرح کاٹتی پھرتی ہیں۔ بڑے ماموں کے باغ میں بادام سیب اور آلوچے کے درختوں کی ٹہنیاں جھکڑوں میں ڈولتی پھرتی تھیں۔ وہ بخاری کے سامنے آرام کرسی پر نیم دراز تفہیم القرآن پڑھتے رہتے۔ وقفے وقفے سے اپنے ملازم کو آواز دیتے۔

    ’’ابراہیم لکڑیاں اور ڈالو نا۔ ہاں میرے لیے کافی کا بڑا پیالہ بناؤ نا‘‘۔

    ان دنوں میں وہ نیچے آ جایا کرتے تھے۔ پنجاب کے ہرے بھرے میدانوں میں، اپنی ماں کے پاس، اپنی بہنوں کے پاس۔ لیکن اس بار وہ ابھی تک ان ٹھنڈی ٹھار برفیلی ہواؤں میں ہی بیٹھے تھے۔ ابھی دو دن پہلے انہیں خط ملا تھا۔ ماں جی نے گھر کی صورت حال انہیں بتاتے ہوئے فوراً آنے، مقدمہ کرنے اور کیس لڑنے کا کہا تھا۔ جو اب انہوں نے ابھی لکھا تھا۔

    ماں جی گاؤں میں ہمارا گھر دو کنال کے رقبے میں ضرور تھا۔ پر اس گھر کی چھت، فرش۔ کسی دیوار۔ کسی روشن دان یا طاق میں ایک بھی پکی اینٹ نہیں لگی ہوئی تھی۔ آدھی بھی نہیں تھی۔ اب آپ ہی فیصلہ کر دیں کہ میں کلیم کے کاغذ میں پکا کوٹھا کیسے ظاہر کروں؟ میری بیس چھٹیاں باقی ہیں۔ اگر آپ نے کوئی کرائے کا مکان تلاش کر لیا تو خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا۔ وگرنہ ملاقات اگلے سال رہی۔

    جس دن یہ خط آیا تھا۔ ماں جی نے گھر میں قیامت صغریٰ نہیں قیامت کبریٰ برپا کی تھی۔ امّاں نے چور نالے چتر والی پالیسی سے مکمل انحراف کیا۔ اپنے کمرے میں بیٹھی اپنے آپ سے باتیں کرتی رہیں۔

    ’’کوئی حرام کی تھی جو کوڑھیوں کی طرح اٹھا کر کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دیا۔ ساری عمر چنگڑوں اور شودروں جیسا سلوک کیا۔ کوٹھیاں لوٹیں اور سامان کو ہوا تک نہ لگنے دی۔

    ’’ارے میرے بھائی تو ایسے بیبے اللہ کا نام لینے والے ایسے پیارے کہ بندہ تعویذ بنوا کر گلے میں ڈال لے۔ یہ چنڈالیں ساری عمر ان کے کچے کانوں میں کانا پھوسیاں ہی مارتی رہیں۔

    اور پھر قالین لپیٹے گئے۔ ساگوان کی لکڑی کے صوفے اور فرنیچر ریڑھوں پر لد گیا۔ گھر خالی ہو گیا اور سب بکھر گئے تھے۔

    ملال تو تھا۔ اس کا اثر تھوڑے دن رہا۔ سارا نچلا حصہ کرائے پر اٹھوا دیا گیا۔ بھائی نے کاروبار شروع کیا ور وہ خوب چمکا۔ میں نے ملازمت کر لی اور گھر میں پیسے کی ریل پیل شروع ہو گئی۔

    میری ملازمت کی مدت بس ایک گابھن بھینس کی زچگی کی منزل پر پہنچے جتنی تھی۔ دسواں پورا ہو کر گیارہویں نے ابھی تین دن اوپر لئے تھے جب اچانک میری آفس میں طلبی ہوئی۔ کرسی پر بیٹھنے کے ساتھ ہی بم گرا جو یقیناً ناگاساکی پر گرنے والے بم سے کسی طور کم نہ تھا۔

    ’’بہتر ہے استعفی آپ لکھ دیں۔ وگرنہ پھر مجھے معطل کر دینے کا اختیار ہوگا‘‘۔ کرسی میں دھنسے بلکہ پھنسے وجود نے میری طرف دیکھے بغیر کہا۔

    میں نے فدویانہ انداز میں اپنی خطا کے بارے میں استفسار کیا۔

    مادر ملکہ جیسے انداز میں پہلو بدلا گیا اور فرد جرم شروع ہو گئی۔

    یہ میں تھی جس نے ان کی چھوٹی بہن کی شادی اور بچے کی پیدائش کی تاریخوں کے درمیانی فاصلے کا حساب لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ بچہ ہے تو اپنے باپ کا ہی پر ہے قبل از وقت۔

    ’’بھلا ست ما ہے بچے نہیں ہوتے‘‘۔

    ’’ضرور ہوے ہیں جی۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق بچہ ست ماہا نہیں پورے نو ماہ کا تندرست و توانا تھا اور آپ کو تو پتہ ہی ہے جی مس خان کی بہن اسوقت لیبر روم میں تھی‘‘۔

    ’’تمہیں شالا مار باغ میں ایک مرد کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ چند والدین نے اعتراض کیا ہے‘‘۔

    ’’جی آپ کو آدھی بات بھول گئی ہے۔ ساتھ ایک لڑکی بھی تھی۔ کباب اور ہڈی دونوں اکٹھے ہوں تو رپھڑ نہیں پڑتا اور مشکوک ہونے کا اندیشہ باقی نہیں رہتا۔

    پورے دس ماہ اور اوپر تین دن میں نے اس عورت کی چمچہ گیری کرنے میں گزارے تھے۔ میں گرمیوں کی چھٹیوں کی تنخواہ گھر بیٹھ کر لینا چاہتی تھی۔ پروہ کچا کوٹھا دھڑام سے گر گیا تھا جسے میں گزشتہ کئی ماہ سے مٹی گارا تھوپ تھوپ کر بنا رہی تھی۔ اس لئے اب تابڑ توڑ جواب دینے میں ہرج ہی کیا تھا؟

    یوں بھی یہ صریحاً نمک حرامی والی بات تھی کہ میں کباب اور ہڈی کی تفصیلی کہانی اسے سناتی۔ کوئی زیادہ دن تھوڑی گزرے تھے۔ بریک میں تہمینہ میرے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ بیچاری کاسپننگ ماسٹر کالے کوسوں کا سفر کر کے صرف اس سے ملنے آیا تھا۔ دو ہاتھ جوڑ کر اس نے مجھ سے شالا مار باغ چلنے کے لیے کہا تھا۔

    میں اس وقت یوں بھی نیکیوں کے موڈ میں تھی۔ عبدالحمید اسحار کی مصری کہانی کا اثر میرے ذہن پر تازہ تازہ تھا۔ بھلا نامی گرامی کرائے کا قاتل کسی غریب کے لیے فی سبیل اللہ قتل کرتا ہے۔ میں اب اتنی بے ضمیر تو نہیں تھی کہ فی سبیل اللہ کسی کا ملاپ بھی نہ کروا سکتی۔

    ’’جوتے کی نوک پر لوگ اور جوتے کی نوک پر نوکری‘‘

    آخری جرم بچوں کے ہوم ورک کی غلط چیکنگ تھی۔ زبان پر کھجلی ہو رہی تھی۔ پر میں نے اس پر دانتوں سے خارش کر دی اور اسے باہر نہیں نکلنے دیا۔

    میں ان دنوں کیمپس کے سبزہ زاروں پر رہتی تھی۔ میری آنکھیں ہمہ وقت وہاں کے خوابوں سے بوجھل اور نشیلی رہتی تھیں۔ کیونکہ ڈیڑھ ماہ بعد میں اس دریا میں غوطہ مارنے والی تھی۔ اب ایسے میں کیڑے مکوڑوں والی کاپیوں پر نظریں پھوڑی جاتی ہیں بھلا کہیں؟

    ایک ماہ اور تین دن کا حساب لگا۔ ایک ہفتے کی اس نے ڈنڈی مارنی چاہی۔ پر میری لال پیلی آنکھوں نے اسے سمجھا دیا کہ سر پھٹول بھی ہو سکتی ہے۔ پیسے میں نے زپ ادھڑے پرس میں ڈالے اور گیٹ سے باہر آئی۔

    سچی بات ہے ’’بہت بے آبرو ہو کر ہم نکلے والی‘‘ بات ہو گئی تھی۔

    راستے میں میں نے بےوقت ٹپک پڑنے والی سہیلیوں کے لیے کچھ خشک چیزیں خریدیں۔ اماں میری سہیلیوں سے بہت عاجز تھیں۔ پیشانی پر پڑے دو بل انہیں دیکھتے ہی چھ میں بدل جاتے تھے۔ خالی پلیٹیں دیکھ کر وہ ضرور بڑبڑاتیں۔

    کم بخت جانے گھر سے بھوکی اٹھ آتی ہیں۔ دال تو ایسے چٹ کر گئی ہیں جیسے ستواں فاقہ ہو۔

    نہر کے کنارے کنارے بستی درسگاہ میں جس دن میں نے قدم رکھا مجھے بیسواں سال لگنے ولا تھا بس چودہ پندرہ دنوں کا ہیر پھیر ہوگا۔ بیسی اور گھیسی والی مثال پرانی عورت کے لیے تھی۔ چھ فٹے مرد کی ناک تک پہنچنے والی پونے چھ فٹی عورت جو دیسی گھی اور دیسی گندم کھاتی تھی۔ جس کی اکثریت بیس کے بعد اپنے آپ کو دریا میں غوطہ کھانے والے اس آدمی کی طرح ڈھیلا چھوڑ دیتی تھی جسے ڈوب جانے کا سو فی صد یقین ہوتا ہے۔ پر ڈالڈا میکسی پاک اور ۷۰ چناب کی پروردہ ناٹی سینک سلائی متوازن غذا کی روح رواں اور اپنے فگر کے بارے میں حد درجہ چوکنی پانچ چھ سال کی ڈنڈی تو پل جھپکتے میں مار جاتی ہے۔ تیس پر جا کر بھی پچیس کی لگتی ہے۔

    پر ایسا میرے ساتھ نہیں تھا۔

    کم بخت رنگ گورا کرنے کے جنون میں حکیم سید ظفر عسکری کے نسخوں کے پڑوں نے چہرے کا رنگ نکھارنا تو ایک طرف جسم پر چربی کی تہیں چڑھا دی تھیں۔ مجھے اپنے مزاج سے ابھی تک آشنائی نہیں ہوئی تھی کہ اللہ مارا صفرا وی ہے یا بلغمی۔ پر میں بھی پن چکی کی طرح دھن کی پکی تھی۔ پانی والے تالاب کی جان نہیں چھوڑتی تھی۔ شروع شروع میں تو کونڈی ڈنڈا اور پڑوں کے اغراض و مقاصد اماں کی سمجھ میں نہیں آئے پر جب آ گئے تو۔

    کالے کدی نہ ہوندے بگھے۔۔۔بھانویں نو من صاب ملے۔

    کہنا اماں کا معمول بن گیا۔

    اور میں وہ کونڈی ڈنڈا شدت سے چاہنے کے باوجود نہ کبھی اپنے سر پر مارسکی اور نہ ہی اماں کے۔

    میرے تخلیقی عشق کا وہ بچہ جو اس تپتی دوپہر کو کالج کے سبزہ زار پر بیٹھے بیٹھے دفعتاً میرے دل کے کسی کونے کھدرے سے نکل کر باہر آ گیا تھا۔ میری من گھڑت باتوں کے دیسی اور بدیسی دودھ پر پلا۔ میرے ساتھ ساتھ چلا۔ کالج سے آتے ہوئے میں اسے گھر نہیں لاتی تھی۔ کڑے حقائق کی زہریلی ہوا میں اس کے دم گھٹنے کا ڈر تھا اور جب کالج چھٹا وہ بھی کہیں وہیں رہ گیا۔

    بڑی ممانی کے چھوٹے بھائی نے فرانس سے واپس آکر چھوٹی خالہ کے لیے پروپوزل دیا تھا۔

    یہ آتی سردیوں کی ایک سوگوار سی شام تھی۔ ماں جی کشمیری کڑھت کی چادر میں لپٹی اپنی منی سی ٹھوڑی کو ہاتھ کے پیالے میں لیے بیٹھی تھیں۔ جب چھوٹی خالہ ملی راجرز سٹائل کا کوٹ ہاتھوں میں لئے ہوئے اندر آئی۔ وہ صوبہ خان کے پاس سے آ رہی تھی۔ اس وقت اس کا چہرہ گلنار تھا اور وہ صوبہ خان کو شہرہ آفاق ڈیزائنر چارلس جیمز سے بھی برتر ثابت کرنے کی پوری کوشش میں تھی۔ اس وقت ٹھک ٹھک کرتی اس کی جوتی بلاشبہ زمین پر تھی پر وہ کہیں پانچویں چھٹے آسمان پر تھی۔ تبھی ماں جی نے اس سے بات کی تھی۔

    پنجابی فلم کی کسی ہیروئن کی طرح وہ ڈرامائی اندا زمیں مڑی۔ اڑی ترچھی نظروں سے اس نے اپنی ماں کو دیکھا اور بولی۔

    ’’کمال ہے ماں جی۔ اس الو کی پٹھی نے ہمارے اتنے گیلنٹ بھائی کی زندگی میں زہر گھولا ہوا ہے اور میں اس کے بھائی سے بیاہ کر لوں تاکہ وہ مجھ سے سارے اگلے پچھلے جنموں کے بدلے لے۔

    میں نے اس وقت اپنا سر جھکا لیا تھا۔ کیونکہ میں مکھی تھی۔ شہد کی نہیں، غلاظت پر بیٹھنے والی، جس پر اونچے لوگ جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ کرتے ہیں۔ بیماریاں پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے نا۔

    میں نے چھوٹی خالہ کے چہرے کو دیکھا۔ بہت سے مان تھے وہاں۔

    اور میں وہاں سے اٹھ گئی تھی۔ کیونکہ کبھی کبھی اٹھ جانے میں سلامتی کا پہلو پنہاں ہوتا ہے۔ مجھے بھی اپنی سلامتی درکار تھی۔

    میں قطعی احمق نہ تھی۔ چوبیس سال کی عورت جب کسی پائلٹ سے جھوٹوں سچوں اپنا ناطہ جوڑتی ہے تو جھوٹ گویا اپنے چہرے پر سجا لیتی ہے۔ پائلٹ بیوی کے لیے کسی طور بھی اٹھارہ بیس کی حد فاضل سے آگے نہیں بڑھتا۔

    میں نے جھوٹ تو بولے اور بہتیرے بولے، پر ہضم ہونے والے، یقین کی گرفت میں آنے، والے مونگ کی دال سے گو بھی گوشت اور مرغ گوشت تک بات نبھ جاتی ہے۔ چائینز بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں۔

    یہ کاتک کے دن تھے۔ بڑے روشن اور نکھرے کسی ابدی حقیقت کی طرح حقیقت پسند سے۔ اس صبح میں نے آنکھ کھول کر آسمان کو دیکھا۔ اس کا وجود کورے لٹھے کے تھان کی طرح تھا۔ بےداغ اور شفاف۔ ڈیڑھ بجے جب اپنی آخری کلاس اٹنڈ کر کے میں نے برآمدے کی دیوار پر کہنیاں ٹکا کر اوپر دیکھا۔ مجھے احساس ہوا کورے تھان کو بھوری مائل سیاسی میں ڈبو دیا گیا ہے۔ حیرت زدہ سی میں نے سوچا۔

    ’’بھادوں کو تو گئے ہوئے بھی بہت دن ہو گئے ہیں‘‘۔

    برآمدے میں گزرنے والے لڑکوں کی ایک ٹولی میں سے کسی نے کہا۔

    ’’یار یہ موسم کو ایکا ایکی کیا ہوا؟‘‘

    ’’ہونا کیا ہے؟ کوئی دوسرا بولا تھا۔ ہمارے یہاں تو موسم سے لے کر سیاست تک ہر بات میں مغرب کی اجارہ داری ہے۔ اب ویسٹ میں ڈسٹربنس ہو گئی ہو گی یا پھر روسی ترکستان میں لو پریشر ایریا پیدا ہو گیا ہوگا۔ ٹرف بن جانے سے لاہور میں گڑبڑ تو ظاہر ہے ہوگی۔

    ’’یار بہت برا ہوا۔ بہن کی کل شادی ہے۔ گھر چھوٹا اور ابا نے برادری کا کٹھ کر لیا ہے۔ بنےگا کیا؟‘‘

    عین اس وقت پہلا قطرہ ٹپ سے میرے ہاتھ پر پڑا جو دیوار سے بہت آگے اس کے استقبال کے لئے فضا میں پھیلا ہوا تھا۔

    اور اب ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہو گئی تھی۔ میری نظر یں مستطیل صورت ڈیپارٹمنٹ کے برآمدوں اور کمروں کی بیرونی دیواروں سے ٹکر کھاتی سیکنڈ فلور کے اس کمرے پر آکر رک گئی تھیں جہاں ڈاکٹر منظور بیٹھتا تھا۔ ڈاکٹر منظور میانوالی اور راج شاہی کے اشتراک عمل کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوا تھا۔ لڑکیاں بتاتی تھیں کہ کسی زمینی سروے کے سلسلے میں اس کا باپ راج شاہی گیا تھا۔ یہیں کسی کلچرل شو میں اس گرانڈیل عیسیٰ خیلوی نے اس کی ماں کو دیکھا تھا جس نے مشہور بنگلہ لوک کہانی ’’الن فقیر‘‘ کو کتھک کے ٹکڑوں میں ڈھالا تھا۔ اس چلبلی نار نے جس خوبصورتی سے رقص کے بھاؤ سے کہانی کو پیش کیا تھا۔ عیسیٰ خیلوی کے دل کے دو نہیں ہزار ٹکڑے ہوئے۔

    حریت پسند قسم کے مرد و زن کی طرح جو ملاپ کے لیے کسی گواہ کی موجودگی ضروری نہیں سمجھتے وہ بھی راجہ وسینت کی طرح شکنتلا کو بازوؤں سے تھام کر بستر پر لے آیا تھا۔ ڈاکٹر منظور دو تہذیبوں کا سنگم تھا۔ اس کی آنکھوں میں بنگال کا جادو بولتا تھا۔ وہ جب ڈپارٹمنٹ میں چلتا پھرتا تو بےجان کمرے اور برآمدے مسکرانے لگ پڑتے۔ ڈپارٹمنٹ کی بیشتر لڑکیاں اس سے بات کرنے کے بہانے ڈھونڈتی تھیں۔ میرا ایک مضمون اس کے پاس تھا میں ایک اچھے طالب علم کی طرح لیکچر سننے اور اس کے مضمون میں بہترین نمبر لینے پر ہی گزارہ کر رہی تھی۔ اس لئے کہ مجھ میں کوئی انفرادیت نہیں تھی۔

    جب بھلا خوبصورت، خوش رنگ اور قیمتی قالین نہ بن سکے تو راہداروں میں بچھی بنات بننے سے فائدہ؟

    عین اس وقت ڈاکٹر منظور کمرے سے نکلا۔ اس کے پیچھے وہ چھمک چھلو بھی تھی۔ سرخ اور سیاہ چیک فلیپر اور ٹی شرٹ میں۔ اب یہ تو خدا جانے کہ ڈاکٹر منظور اس کا سچا مہینوال تھا جسے ملنے کیلیے وہ کچے گھڑے کے رنگ جیسی مرسیڈیز میں ہر روز آتی تھی یا شہزادی مارگریٹ کی طرح اپنی تنہائیوں کے کرب کو نت نئے عاشقوں کے وجود سے تحلیل کرنا چاہتی تھی۔ کسی لینڈ لارڈ آدمی کی بیوہ تھی اور اس کے دو بچوں کی ماں بھی۔ لڑکیوں نے اسے دس ٹائیٹل دے رکھے تھے جن میں سب سے زیادہ دل پسند ولگر تھا۔ ولگر پر کچھ اعتراضات ہوئے تھے۔ ایک دو نے کہا بھی۔

    ’’بھئی پڑھی لکھی لڑکیوں کی زبان پر ایسے فحش لفظ نہیں سجتے‘‘۔

    دوسری تنک کر بولی تھی۔

    ’’اتنے خوبصورت بچوں کی ماں ہے اور حرکتیں رنڈیوں جیسی۔ ولگر نہ کہیں تو رابعہ بصری کہیں‘‘

    ’’ماں نالوں ماسی ہیجلی۔ تمہیں کیا؟ بچے اس کے ہیں‘‘۔

    پہلی والی نے داہنا پاؤں زمین پر مارا اور گرجی۔

    ’’سڈپڈ۔ الٹی کھوپڑی میں کوئی سیدھی بات کیسے آئے؟ میرا مطلب ماں کے مقام سے تھا۔‘‘

    دوسری لڑکیوں نے بحث میں الجھتا جھگڑتا یہ ٹولہ ’’بھئی دفع کرو لعنت بھیجو کہتے چائے کے لیے کنٹین کی طرف دھکیل دیا تھا۔‘‘

    دونوں ایک دوسرے کے کندھے سے کندھا جوڑے سیڑھیاں اترے۔ لیفٹ رائٹ جیسے انداز میں پاؤں اٹھاتے گاڑی تک پہنچے۔ دونوں بیٹھے اور پکا گھڑ در یا پر تیرنے لگا۔

    میں نے بہت لمبا سانس بھرا تھا اور آنکھوں کے ڈھیلوں کو دونوں ہاتھوں سے دبایا بھی تھا اور مسلا بھی کیونکہ مجھے ان میں درد سا محسوس ہونے لگا تھا۔

    پر اتنا میں ضرور جانتی تھی کہ میری آنکھوں پر تھکاوٹ کا اثر نہیں تھا۔ ان میں کوئی جلن بھی نہیں تھی۔

    بات صرف اتنی سی تھی کہ یکدم نچلے متوسط طبقے کی بہت سی محرومیاں میرے اوپر سوار ہو گئی تھیں۔

    تبھی کسی نے میرے قریب آ کر زور دار قسم کا سلام مارا۔ میں نے جلدی سے گردن موڑی۔

    پلانٹ پلینگ کلاس میں تین ایسے طالب علم تھے جو نہ تو مرد تھے۔۔۔ اور لڑکے کہنا بھی گویا ان پر تہمت لگانے کے مترادف تھا۔

    اللہ مارے جنگل سے شاید اٹھ کر آ گئے تھے۔ کپڑوں پر اتنی شکنیں ہوتی تھیں جتنی کسی نوے سالہ عورت کے چہرے پر جھریاں۔ سر پر تیل یوں تھوپتے کہ آدھا ما تھا چپڑ جاتا۔ آنکھوں میں سرمہ ایسی باقاعدگی سے لگتا جیسی باقاعدگی سے ایک فیشن ایبل عورت کے ہونٹوں پر لپ اسٹک۔

    باہر بارش شروع ہو گئی تھی اور میرے پاس ان میں سے ایک کھڑا تھا۔

    میں نے سلام کا جواب دیا اور پوچھا۔ کہ اسے مجھ سے کیا کام ہے؟

    نیو کیمپس کی پر شکوہ عمارت اگر ایک دھماکے سے زمین بوس ہو جاتی تو بھی مجھے اتنا تعجب نہ ہوتا جتنا اس کام سے جو اس نے مجھے بتایا تھا۔

    وہ میرے لئے اپنے اس ساتھی کا پروپوزل لایا تھا جو ان میں کنوارا تھا۔ وہ بقیہ دونوں میں سے کون سا تھا یہ میں نہیں جانتی تھی۔

    لڑکی اور بیری ایک دوسرے سے مشابہ ہیں۔ جس گھر میں لڑکی ہو وہاں رشتے آتے ہیں۔ بیری والے گھر میں روڑے ناگزیر ہیں۔ یوں میں ایک ایسی بیری تھی جس کے بیروں کے لئے آج تک ایک روڑا نہیں آیا تھا۔ آیا تو ایسا کہ میرا جی اپنے آپ کو پاش پاش کر دینے کو چاہا۔

    ’’بڑا سیلف میڈ لڑکا ہے۔ اس کا مستقبل بڑا تابناک ہے۔ بےچارے کا دنیا میں کوئی نہیں۔ وہاں تو وہ حال ہے سس نہ ننان بچی جم دی پردان۔ ‘‘

    بارش ایک تواتر کے ساتھ برس رہی تھی اور اسی تواتر سے وہ بولے جا رہا تھا۔

    اس کی باتیں میرے لئے تکلیف دہ تھیں یا خوش کن۔ قطع نظر اس کے میں نے اس کے کنویسنگ کے انداز کو سراہا تھا۔ وہ اس کے مستقبل میں جھانک آیا تھا اور اس نے مجھے خود مختارانہ زندگی کی بھی نوید دی تھی۔ رشتے کروانے والی عورتوں کی پیشہ ورانہ مہارت اس کے آگے پانی بھر رہی تھی۔

    سچی بات ہے میرے اندر جیسے سرطان کا پھوڑا پھٹ گیا تھا۔ اور ٹیسیں اٹھ رہی تھیں۔ بڑے ضبط سے میں نے کہا۔

    ’’سیلف میڈ عورتیں میکے گھر اور سسرال گھر دونوں جگہ پردان ہوتی ہیں۔ انہیں پردانی نہ ملے تو وہ طلاق لے لیتی ہیں۔ باقی ہم لوگ اپنی ذات سے باہر رشتہ نہیں کرتے۔ میرا تو یوں بھی فیصلہ ہے کہ بیاہ میں نے اپنے باپ کی پسند سے کرنا ہے۔

    ’’اوہو‘‘

    اس لفظ کی ادائیگی کے لئے اس نے اپنے دونوں ہونٹوں کو جس طرح سیکٹرا تھا۔ دونوں بھنویں ماتھے کی جانب جس انداز میں اٹھی تھیں۔ آنکھوں کی پتلیوں نے جو پیغام مجھے دیا تھا مجھے لگا جیسے میرے جسم کا ہر مسام کھل گیا ہے۔ خفت اور شرمندگی کا پسینہ ان میں سے پھوٹ نکلا ہے۔ میرے تو گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ گنوار ا جڈ سا دیہاتی اس درجہ شاطر ہو سکتا ہے۔

    میں نے نیچے لان کی ہری بھری گھاس کو دیکھا۔ باڑھ پر چند لمحوں کے لئے نظریں ٹکائیں۔ فرنٹ کوریڈور میں گزرنے والے دو پروفیسروں کے ساتھ ساتھ تھوڑی دور چلی۔ پھر میں نے اسے دیکھا تھا۔

    میرے اندر کی ٹیسیں میرے ہونٹوں پر آ گئی تھیں۔

    ’’چلے جائیے یہاں سے ‘‘

    اپنی گردن بہت آگے جھکا کر چہرہ آسمان کے نیچے کیا۔ آگ کی طرح دہکتے دو آنسونکلے اور بارش کے قطروں کے ساتھ مل کر زمین پر گر گئے۔

    اس برستی بارش میں میں سر سے لے کر پاؤں تک بھیگتی ہوئی گھر آئی تھی۔

    شاید اس طرح میں اندر کی آگ بجھانا چاہتی تھی۔

    توقیر اور نادرہ سے میری ملاقات فلمی اور ڈرامائی انداز جیسی تھی۔ لائبریری میں دو گھنٹے گزار کر گراؤنڈ پر آنے کے لیے جب میں سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ خاموش زینوں پر اک ذرا رک کر میں نے اپنے آپ کو دیکھا تھا۔ میرے گھوڑے کی دم کی طرح سخت لمبے بال دو ڈھیلی چوٹیوں میں گندھے میرے سینے پر سانپوں کی طرح لہراتے تھے۔ میرا ڈوپٹہ گلے میں تھا اور سینہ چست قمیص میں پوری طرح نمایاں تھا۔ مجھے محسوس ہوا تھا جیسے میں پرنچے کالے کوے کی طرح ہنس راج کے پراٹھا اٹھاکر اپنے اوپر لگاتی جا رہی ہوں۔

    اس احساس نے میرا دل بوجھل سا کر دیا تھا۔ آخری سیڑھی پر میرا ایک پاؤں اور فرش پر دوسرا پاؤں تھا۔ میرے اندر سرچ لائٹ جلی تھی۔ میں نے راستہ دیکھا تھا اور میرے بوجھل دل نے یہ کہہ کر اپنا بوجھ ہلکا کیا تھا۔

    ’’ارے واہ! سب ایسے ہی پر سجا سجا کر ہنسوں کی برادری میں شامل ہوئی ہوں گی۔

    باہر دھوپ پھیکی اور ہوائیں تیز تھیں۔ سارے میں درختوں کے سوکھے پتے، کاغذ اور مٹی اڑتی پھرتی تھی۔ اکتوبر کا اواخر اداسی کے بوجھ تلے ایسے ہی دبا ہوا تھا جیسے بال بچے دار غریب قرض کے نیچے۔

    بس سٹینڈ خالی تھا اور دور دور تک کوئی بس آتی نظر نہ پڑتی تھی۔

    میں نے کیمپس کی غربی سمت دیکھا۔ سامنے کام ہو رہا تھا۔ مزدور اور ٹھیکیدار کسی بات پر الجھ رہے تھے۔ ان کی تیز آوازیں دور ہونے کے باوجود بھی مجھ تک پہنچ رہی تھیں۔

    دفعتاً شور سا ہوا۔ میں نے فوراً گردن پھیری۔ میرے قریب من موہنی سی لڑکی اور خوش شکل لڑکا سائیکلوں پر گرے پڑے تھے۔ دونوں نے تنگ مہری کی نیوی بلیو پتلونیں پہن رکھی تھیں۔ لڑکی کے بال کھلے، کانوں میں بڑے بڑے بالے، چہرے پر اشتہاری مسکراہٹ اور سر میں سرخ کنگھا ٹھنسا ہوا تھا۔ لڑکے کا لباس بھی ایسا ہی اوٹ پٹانگ سا تھا۔

    دونوں نے اٹھ کر سائیکلیں سنبھالیں۔ میرے قریب آئے۔ تعارف کروایا اور بتایا کہ وہ اولڈ کیمپس سے آ رہے ہیں۔ شرط یہ تھی کہ کارنر سے سائیکلیں کنٹرول سے آزاد ہوں گی۔ جہاں یہ گریں گی اگر وہاں کوئی انسان ہوا تو وہ چائے پلائے گا وگرنہ اسے وہ دونوں پلائیں گے۔

    عجیب تھرل سیکر جوڑی تھی۔ مجھے اچھی لگی۔ افسوس نہیں دکھ سا ہوا کہ بٹوے میں صرف واپسی کا کرایہ تھا۔

    ’’میں نے بصد افسوس انہیں صورت حال بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اگر شرط کا دوسرا حصہ پورا کرنا چاہیں تو میں ان کے ساتھ اس نیک کام میں شامل ہوں گی‘‘۔

    چائے پیتے ہوئے انہوں نے مجھے اپنے متعلق بتایا۔ دونوں فائن آرٹس میں پوسٹ گریجویشن کر رہے تھے۔ نادرہ چھاؤنی میں رہتی تھی اور بریگیڈئیر کی بیٹی تھی۔ توقیر ہوسٹل میں تھا اور گوجرانوالہ کے کاروباری گھرانے کا سپوت تھا۔ نادرہ نے مجھے اپنے گھر آنے کی بھی دعوت دی تاکہ میں اس کی تصویریں دیکھوں۔

    ایک شام بیٹھے بیٹھے مجھے ہڑک سی اٹھی۔ میں نادرہ سے ملنے اس کے گھر گئی۔

    ایلگن روڈ پر یہ وسیع و عریض، جھاڑ جھنکار والے، بالا و پائیں لانوں پر مشتمل پرانے وقتوں کی انگریزوں کی بنائی ہوئی کوٹھی تھی۔ نادرہ مجھے اپنے کمرے میں لے گئی۔ کِس قدر خوبصورت کمرہ تھا اُس کا۔ لا ابالی پن، لا پروائی اور پھوہڑ پن جیسی عادتیں جو فنکاروں کی ذات کا ایک اہم جز تصور ہوتی ہیں۔ نادرہ ان سب سے مبرا تھی۔ اس کا سگھڑا پا ایک ایک چیز سے نمایاں تھا۔

    جب میں نے اس کے شاہکار دیکھے۔ مجھے محسوس ہوا جیسے میں ایک ایسی وادی میں کھڑی ہوں جس کے گرد ایستادہ بلند پہاڑوں پر غربت، بھوک، بیماری، بے بسی ننگی ناچ رہی ہے۔

    جس تصویر کو اٹھاتی مجھے جھرجھریاں سی آنے لگتیں۔

    اس کی تصویریں دیکھ کر میں عجیب سی ہو گئی۔ یہ اس کا کون سا روپ تھا؟ تصویروں کے چہرے یاس میں ڈوبے ہوئے تھے۔ گھروں میں غربت کی پرچھائیں تھیں۔

    توقیر کے بارے میں پوچھا۔

    تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد بولی۔

    ’’اچھا لڑکا ہے مجھ سے شادی کرنے کا متمنی ہے۔ پر میں ایسا نہیں چاہتی۔ دوستی کی حد تک ٹھیک ہے۔ در اصل میں تضادات کا مربہ بن کر رہ گئی ہوں۔ ازدواجی زندگی کے جو جھمیلے ہیں میں ان میں پھنسنا نہیں چاہتی۔ ‘‘

    میں عجیب سی پژمردگی لئے واپس آئی تھی۔ گلی کی نکڑ پر گھروں کی غلاظت اپنے سینے میں سمیٹنے والی نالی اس وقت کسی چھوت چھات والی بیماری کی طرح اچھی بھلی صاف ستھری گلی کو اپنے لپیٹے میں لئے آ پھری پڑی تھی۔ میں نے شلوار کے پائینچے ذرا سے اوپر اٹھاتے ہوئے نالی الانگ کر پار کی۔

    ابھی آگے ایک قدم ہی اٹھایا تھا کہ یوں جھٹکا کھایا جیسے ایک ہارس پاور کا ہنڈا اپنے سامنے اچانک گہری کھائی پا کر ایمرجنسی بریکوں سے کھاتا ہے۔ دائیں ہاتھ والے گھر کی کھڑکی میں اک چاند سا مکھڑا بیٹھا تھا۔ بجلی کا کوندا تو ایک پل کے لئے لشکارا دیتا پر یہ کڑکتی بجلی لشکارے پر لشکارے مار رہی تھی۔ میری آنکھیں پلکیں جھپکنا بھول گئی تھیں۔

    ’’یہ کون تھی؟‘‘

    میں نے اس سے پہلے اس خانہ خراب کو نہیں دیکھا تھا۔ شاید کوئی نئی کرایہ دار تھی۔

    جب دیر تک میری آنکھیں اس کے چہرے پر جمی رہیں۔ اس نے موتیوں جیسے آبدار دانتوں کو کلیوں کی مانند چٹکایا اور بولی۔

    ’’ارے آپ تو راستہ روک کر کھڑی ہو گئی ہیں۔ مجھے دیکھنے کا اتنا ہی شوق ہے تو اندر آ جائیے‘‘۔

    بدبخت اپنے حسن سے اچھی طرح آگاہ معلوم ہوتی تھی۔ کھڑکی سے ایک پل کے لئے غائب ہوئی۔ اگلے لمحے دروازے پر پڑی چق اٹھا کر میرے سامنے تھی۔ میرا ہاتھ اس نے پکڑا۔ میں اس کے پیچھے کسی معمول کی طرح چل دی۔

    میرا قیافہ درست تھا یہ لوگ نئے کرایہ دار تھے۔ ابھی کوئی ہفتہ بھر پہلے یہاں آئے تھے۔ گھر جیسے لڑکیوں سے بھرا پڑا تھا پر اس جیسی جہان سوز ایک بھی نہ تھی۔ اسی سے پتہ چلا کہ وہ سات بہنیں ہیں۔ دو چھوٹے بھائی ہیں۔ صحن میں جو دو لڑکے ایک دوسرے سے لڑ رہے تھے اور ماں بہن کی گالیاں ایک دوسرے کو رغبت سے دے رہے تھے یقیناً اسی کے بھائی تھے۔

    وہ مجھے کمرے میں لے گئی۔ درمیانی لمبائی چوڑائی والا کمرہ تھا۔ دیواروں کے اندر لگے لکڑی کے تختوں پر بیچھے دو سوتی کے سفید چھاٹ جن کے نیچے کروشیے کی رنگین جھالریں لٹکتی تھیں بچھے تھے۔ ان پر سفید سچی چینی کے پیالے اور شیشے کے گلاس جفت صورتوں میں سجے تھے۔ بڑی پیٹی پر کوئی دس گیارہ ٹین کے رنگ کئے ہوئے بکس رکھے تھے۔ بڑے سے جہازی پلنگ پر دستی کڑھائی کی چادر بچھی تھی۔ اندر برسات کے دنوں والی باس پھیلی ہوئی تھی۔

    ایک لڑکی پلیٹ میں کچھ گلاب جامن رکھ کر لائی۔ اس نے پلیٹ بہن کے ہاتھ سے پکڑ کر پلنگ پر رکھ دی۔

    میں نے گلاب جامن اٹھا کر منہ میں ڈالی۔ ایسی رسیلی اور ذائقہ دار جیسی سکر دو کی خوبانی کہ منہ میں رکھو اور پل میں گھل کر حلق سے نیچے۔

    میں نے دوسری اٹھاتے ہوئے پوچھا۔

    ’’بہت لذیذ ہیں کہاں سے لی ہیں؟‘‘

    ’’میرے ابا حلوائی ہیں۔ رنگ محل میں بہت بڑی دکان ہے ان کی‘‘۔

    میری زبان پر گلاب جامنوں کا رسیلا چٹخارہ یقیناً بہت دیر تک رہتا اگر میں نے انہیں کسی عام سی صورت والی کے گھر سے کھائی ہوتیں۔ پر میں تو اس میڈونا سے مل کر آ رہی تھی جسے مائیکل اینجلو نے نہیں بلکہ اس نے تراشا تھا جو میری بھی تراش خراش کا ذمہ دار تھا۔ میں نے اس کی فنکاری پر بہت پیچ و تاب کھایا تھا۔ بھلا کوئی بات تھی۔ تیشہ ہاتھ میں تھا اور سارے قیمتی پتھروں کا وارث تھا۔ پھر بھی گوبر گارا تھپ کر پاتھی بنائی اور بھیج دی۔ میڈیم چیانگ کائی شیک کی تیسری بہن چنگ لنگ جیسی، منہ نہ متھا تے جن پہاڑوں لتا۔

    غصے کی ہنڈیا میں کتنے ابّال آتے آخر کو توا سے معتدل ہوکر پکنا ہی تھا۔ سو جب کچھ اعتدال آیا تو یونہی دل میں تشنہ خواہش کی لہر سی اٹھی۔

    بھلا اگر میں اتنی خوبصورت ہوتی تب۔ یقیناً زمیں نے خوشی کے کوئی شادیانے تو بجانے نہیں تھے اور نہ ہی آسمان کے چاند ستاروں نے بھنگڑا ڈالنا تھا۔ پر یہ دونوں کام نہ بھی ہوتے تب بھی ایک انفرادیت تو جنم لے ہی لیتی۔ زارینہ کتھرائن کی طرح احساس برتری کی ماری جو عاشقوں کی ناکیں تک کٹوا دیتی تھی۔

    مجھ جیسی بھی اپنے حلقے میں خاصا شور و غوغا برپا کر دیتی۔ کیسا مزہ رہتا؟ پر اس مزے کے منہ میں دانتوں تلے ریت آ گئی تھی کیونکر میرے کمرے کی دیوار پر شیشہ ٹنگا ہوا تھا اور میرا رخ اسی کی طرف تھا۔

    کوئی دو دن بعد کی بات ہے۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھی کولہو کے بیل کی طرح پڑھنے میں جتی ہوئی تھی۔ وہ ہیلن آف ٹرائے میرے گھر آئی۔ بھابھی سے پوچھ کر ’’کہ میں کہاں ہوں ‘‘ میرے کمرے کے دروازے پر آ کھڑی ہوئی۔ اس وقت شاید نہا کر آئی تھی اور سبز لچکیلی ٹہنی پر اس گلاب کی مانند نظر آ رہی تھی جس کی ڈوڈی کو شبنم نے رات بھر غسل کروایا ہو اور صبح دم وہ چٹک کر پھول بن گئی ہو۔

    اس نے چھوٹا سا خاکی لفافہ میرے سامنے میز پر رکھ دیا۔ لفافے کی بیرونی سطح چکنی تھی۔ میں نے کچھ سمجھتے ہوئے بھی انجان پنے کا مظاہرہ کیا۔

    ’’یہ کیا ہے‘‘؟

    ’’تمہیں گلاب جامنیں بہت پسند آئی تھیں۔‘‘

    ’’اوہو پر اس تکلف کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ میں خوش دلی سے مسکرائی۔

    وہ بیٹھی۔ اس نے ادھر ادھر کی باتیں کیں؟ صاف لگتا تھا جیسے وہ کچھ مضطرب سی ہے۔ کچھ اکھڑی اکھڑی سی۔ میں نے اس کی بے کلی کو محسوس کیا اور کہا۔

    ’’کوئی بات ہے تو بولو‘‘

    ’’تمہارے سامنے والے گھر میں جو لڑکا رہتا ہے‘‘۔

    میں نے فوراً اس کی بات کاٹی۔

    ’’گھروں کی پوری پٹی سامنے کی صف میں آتی ہے۔ تم کس گھر کی اور کس لڑکے کی بات کر رہی؟‘‘

    ’’کونے والا پہلا گھر‘‘

    ’’اچھا‘‘ کہتے ہوئے میں نے کتابیں ایک طرف کیں۔ پنسل دراز میں رکھی اور پوری دلچسپی سے اس کی طرف دیکھا۔

    میں اس گھر کو اچھی طرح جانتی تھی۔ یو۔ پی کی طرف کا نہایت معزز اور شریف گھرانہ۔ لڑکا بہت خوبصورت شاید ڈاکٹر بن گیا تھا یا بننے کے قریب تھا۔ اس کی دونوں بڑی بہنیں چھوٹی خالہ کی کلاس فیلو اور سہیلیاں تھیں۔

    ’’بات کیا ہے؟‘‘

    اس لڑکے کو مجھ سے پیار ہو گیا ہے۔ یہ خط اس نے لکھا ہے مجھے‘‘۔

    اس نے نہ تو عام لڑکیوں کی طرح مجھ سے راز مخفی رکھنے کے کوئی وعدے لئے تھے، نہ ہی فضول شرم یا جھجھک کا مظاہرہ کیا۔ خط میرے سامنے ڈال دیا اور میرے کچھ کہنے سے پیشتر دروازہ بھی بند کر دیا۔ مجھے برناڈشا پر افسوس ہوا کہ ناحق اس نے اس خوبصورت عورت کا دل توڑ دیا جس نے اسے شادی کی پیشکش کی تھی۔ شانے کیسے فرض کر لیا کہ خوبصورت عورت کوڑھ مغز ہی ہو سکتی ہے۔

    پر ساتھ ہی میرا اندر بھی بولا تھا

    ’’بات ہوئی نا۔ جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں یہاں آئے ہوئے اور عاشق بھی پیدا ہو گئے ہیں اور نامے بھی آ گئے ہیں۔

    کچھ لوگ برسوں سے یہاں رہ بھی رہے ہیں پر کسی کو نظر نہیں آتے۔‘‘

    خطہ میں والہانہ اظہار تھا۔ اس کے حسن کو خراج تھا۔ جواب دینے کی تاکید تھی۔

    ’’یہ تمہیں کیسے ملا ؟کہیں پہلے سے ملاقات ہے؟‘‘

    اس نے فی الفور سر انکار میں ہلا دیا۔ چند لمحے میرے چہرے کو دیکھا اور بولی۔

    ’’اس گھر میں آنے کے اگلے دن شام کے وقت میں چھت پر چڑھی۔ یہ اپنی چھت پر ٹہل رہا تھا۔ بس مجھے دیکھا پھر میرے گھر کے سامنے نظر آنے لگا۔ کل ایک بچے کے ہاتھ یہ خط آیا۔

    ’’تم کیا کہتی ہو؟‘‘

    مجھے نوے فیصد اندازہ تھا کہ اس کا جواب کیا ہو سکتا ہے؟ پر جانے کیوں میں نے یہ پوچھا تھا ؟شاید میں اپنے دل کی تسکین چاہتی تھی۔

    ’’کہنا کیا ہے؟ مجھے تو خود وہ جی جان سے اچھا لگا ہے۔ جواب میں نے لکھا ہے۔ ذرا پڑھو کوئی غلطی تو نہیں اس میں۔‘‘

    اس کے انداز میں حجاب کا حال کچھ نائیلون کے ڈوپٹے جیسا تھا جو سینے پر ہونے کے باوجود نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

    اسے میرے قلم کی ضرورت نہیں پڑی۔ وہ پانچ جماعت پاس تھی۔ اس نے پرانے بڑے بوڑھوں کی یہ کہاوت سو فیصد سچ کر دکھائی تھی کہ لڑکیاں پڑھ لکھ کر اپنے عاشقوں کو چھٹیاں لکھنے لگ پڑتی ہیں۔ میرے خیال میں تو اس نے پڑھا ہی سجنوں کو پتر لکھنے کے لئے تھا۔ وہ اللہ کی بہت شکر گزار تھی کہ خط لکھنے کے معاملے میں خود کفیل ہے۔

    ویسے چونکہ وہ اونچے حلوائی کی بیٹی تھی اور دل والی بھی تھی۔ میرا ذہن نت نئے ذائقوں کی لذت سے آشنا ہوا تھا۔ بےشمار ایسی مٹھائیاں جنہیں میں نے بڑی بڑی دکانوں کے شو روموں میں صرف سجی دیکھی تھیں اور جنہیں خریدنے کی کبھی ہمت نہیں ہوئی تھی اب وہ سب ہر روز کھاتی تھی۔ ان کے سب نام مجھے از بر ہو چکے تھے۔ ایسے میں اسے نت نئے نقطے بتانا فرض بھی بنتا تھا اور کچھ حق نمک ادا کرنا بھی مقصود تھا۔

    دلہن سنگار کے بغیر نہیں سجتی اور عاشقی ملاقاتوں کے بغیر نامکمل اور تشنہ رہتی ہے۔ اب بھلا پروردگار کی اپنے خاص الخاص ہاتھوں سے تیار کردہ وہ مُورت نام جس کا کہ زہرہ تھا اس باب کو کھولے اور پڑھے بغیر ہی چھوڑ دیتی۔

    اس شام جب آسمان کے سینے میں چھید ہو گئے لگتے تھے اور دھواں دھار پانی برستا تھا۔ وہ شلوار کے پائینچے نیفے میں اڑسے سر پر پرانی چادر کی بکل مارے میرے کمرے کی دہلیز پر آ کھڑی ہوئی تھی۔ کھلی چپل میں اس کے محرابوں والے پاؤں کہ جن کے نیچے سے کسی گھنے بالوں والی عورت کی لمبی موٹی چوٹی جتنا سانپ بھی گذر جائے تو پتہ نہ چلے پر کہیں کہیں تنکے چمٹے ہوئے تھے۔ وہ یقیناً گلی میں کھڑے پانیوں میں انہیں غوطے دیتی آئی تھی۔

    ’’اللہ! اس طوفانی بارش میں کیا مصیبت نازل ہو گئی تھی جو یوں بھاگی ہوئی آئی ہو؟‘‘

    ’’ارے یہ محبت کیا خود کم مصیبت ہے جو میں اور مصیبتوں کا پالن کرتی پھروں‘‘۔

    اس نے چادر کو سر سے اتار کر کرسی پر پھیلایا۔ نیفے میں گچھوں کی صورت میں ٹھونسی ہوئی شلوار کھولی اور میرے پاس بیٹھ کر میری مدد کی طالب ہوئی۔

    پاس بیٹھ کر رس رسیلی چٹخارے دار عشقیہ کہانیاں سننا اور مشورے دینا اور بات تھی۔ ایک آدھ بار ملاقات کروانے کے لیے بھی قربانی کا بکرا بنا جا سکتا تھا۔ یوں مجھے یہ اچھی طرح احساس ہو گیا تھا کہ زہرہ عشق کی جس گاڑی میں بیٹھی ہے وہ پسنجر نہیں ایکسپریس ہے اور اسے کِسی جنکشن پر ایک پل کے لئے ٹھہر کر پانی لینا بھی گوارہ نہیں۔

    اور میں نے تو اپنے اوپر دو غلاپن کی چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ اس ڈرامے کا ایک کردار بننے کا مطلب تھا کہ اس کھیل تماشے میں میں بھی ننگی ہو جاتی۔ کیمپس میرے گلے میں جھولتا ڈوپٹہ گھر سے تین سٹاپ پرے میرے سینے پر پھیلتا پھیلتا میرے سر کو بھی ڈھانپ لیتا۔ جب میں اپنے محلے کی گلیوں میں سے گذرتی تو رابعہ بصری کی جانشین نظر آتی جس کا ایک بال ننگا نہ ہوتا اور جس کی آنکھیں فرش کی اینٹوں کو سجدے کر رہی ہوتیں۔

    یوں بھی مجھے اسّی نہیں نوے نہیں سو فیصد یقین تھا کہ یہ ڈاکٹر اس کسان کی طرح ہے جو علی الصبح گنوں کی پوری پہری میں سے موٹے اور اچھے گنوں کے رس سے شادیلا کرتا ہے اور چھلکے وہیں گلنے سڑنے کو چھوڑ جاتا ہے۔

    پر مصیبت تو ایک اور بھی تھی۔ منہ کھاوے تے اکھ شرمائے۔ دھتکارتی کیسے؟

    ویسے میرے وسوسے اور اندیشے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ دو خوبصورت ذہنوں نے میرے وجود کے ساتھ جو مثلث بنائی اس میں میرا زاویہ صرف دس ڈگری کا بنتا تھا۔ وہ طے شدہ پروگرام کے مطابق صبح میرے ساتھ یونیورسٹی آ جاتی جہاں اس کا ڈاکٹر منتظر ہوتا۔ وہ اس کے پیچھے موٹر سائیکل پر بیٹھ جاتی۔ پل بھر میں وہ پھٹ پھٹ کرتی نظروں سے اوجھل ہو جاتی۔ واپسی پر وہ مجھے بس سٹاپ پر ملتی اور راستہ اس کی باتیں سننے میں کٹ جاتا۔

    نادرہ اور توقیر کبھی کبھی مجھ سے ملنے نیو کیمپس آتے رہتے تھے۔ توقیر نادرہ کو قائل کرتے تھک سا گیا تھا میں بھی اکثر اسے قائل کرنے کی کوشش کرتی۔

    خورشید اور نفیسہ میری کلاس فیلو تھیں اور دونوں جوڑوں کی سرگرمیوں سے واقف۔ ایک دن ہم تینوں کنٹین میں بیٹھی تھیں جب دفعتاً نفسیہ نے کہا۔

    ’’مجھے تو سچی بات ہے تو وچولن لگتی ہے؟ بتا کچھ لیتی بھی ہے۔‘‘

    میں نے چائے کا کپ ڈنڈی سے پکڑ کر ابھی اٹھایا ہی تھا کہ میرا ہاتھ وہیں لٹک سا گیا۔ باتوں کے ترازو پر میں ہمیشہ پوری اترتی تھی۔

    ’’نادرہ اور توقیر فی سبیل اللہ کے کھاتے میں آتے ہیں۔ ہاں البتہ اس جوڑے نے بہت منہ میٹھا کروایا ہے‘‘۔

    ’’اور سار امیٹھا اکیلے اکیلے‘‘۔

    بات ہنسی میں آئی گئی ہو گئی۔ البتہ لفظ وچولن میرے دل پر بیٹھ گیا۔ یہ دوسری بار تھی۔

    یہ وہ دن تھے جب دھوپ میں بیٹھو تو تپش جسم کے اندر چبھتی چلی جاتی ہے۔ چھاؤں میں جاؤ تو سر سے لے کر ایڑی تک ٹھنڈی لہریں اندر ہی اندر اترتی چلی جاتی ہیں۔ میں کبھی دھوپ میں کھڑی ہوتی کبھی چھاؤں میں۔ نفسیہ جھلا کر بولی۔

    ’’کیا گھمن گھیریاں کاٹتی پھرتی ہو۔ ٹک کر ایک جگہ نہیں کھڑا ہوا جاتا تم سے۔‘‘

    عین اس وقت میں نے ڈاکٹر مظفر کو فسٹ فلور کے مشرقی برآمدے میں چلتے ہوئے دیکھا۔ اس کی نگاہیں کچھ کھوج رہی تھیں۔

    ’’کِسے؟‘‘

    ’’یقیناً مجھے۔‘‘

    کیونکر میرے چہرے کو دیکھ لینے کے بعد اس کی توجہ اپنے راستے پر مرکوز ہو گئی تھی۔

    میرا رنگ فق ہوا۔ دل یوں ہلا جیسے کسی کمزور درخت کی ٹہنیاں تیز ہوا کے جھونکوں سے ڈول جائیں۔ بس چند لمحوں میں ہی لش لش کرتے سیاہ بوٹ مجھ سے چند قدم پرے رک گئے تھے۔

    ’’میں آپ سے کچھ ضروری بات کرنا چاہتا ہوں؟‘‘

    مجھے ایسا لگا جیسے دھوپ میں نہایا ہوا سارا کوریڈور ایک سوالیہ نشان بن گیا ہو؟

    نفیسہ سے میں نے معذرت کی۔ چند قدم اٹھائے پر لگتا تھا جیسے ریورس گیئر لگ گیا ہو۔ گیارہ ساڑھے گیارہ فٹ تو چلی اس کے بعد کوریڈور کی دیوار کے ساتھ ٹک گئی۔ میری کتابیں میرے سینے سے چمٹے ہونے کے باوجود سرک سرک جاتی تھیں۔

    ’’کہیے کیا بات ہے؟‘‘ تیزی سے سوکھتے ہونٹوں پر زبان پھیری۔

    ’’میں زہرہ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ گھر والے رضامند نہیں۔ پنڈی میرے دو عزیز دوست ہیں۔ نکاح وہیں ہوگا۔ بعد میں امریکا کا پروگرام ہے۔ سب کاغذات تیار ہیں‘‘۔

    تو گویا سوہنی جس کچے گھڑے پر دریا پار کر رہی تھی وہ مٹی کا نہیں پیتل کا تھا اور اس کے ٹوٹنے کا کوئی ڈر نہیں تھا۔

    میں نے آسمان کو دیکھا تھا۔ پرندوں کا ایک غول انجانی منزلوں کی طرف اڑا جا رہا تھا۔ سورج پر عالم شباب تھا گراؤنڈ اور فسٹ فلور پر لوگوں کی آمد و رفت برائے نام تھی۔

    میں نے نظروں کا رخ باہر سے اٹھا کر اندر کی طرف کیا اور اسے دیکھا۔ وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے ایڈورڈ ہشتم جیسا حوصلہ لئے میرے سامنے تھا۔

    ’’آپ چاہتے ہیں اسے بھگانے میں میں آپ کی مدد کروں‘‘۔

    لفظ ’’بھگانے‘‘ پر اس کے چہرے کا رنگ فی الفور سرخ ہو گیا تھا۔ اس نے مجھے گہری نظروں سے تولا اور تھوڑے سے تذبذب کے بعد بولا۔

    ’’آپ یہی کہہ لیں‘‘۔

    ’’سیانے کہتے ہیں کہ کوئی کام کرنے سے پہلے دس بار سو چو۔ بیس بار کسی سے پوچھو۔ اگر پوچھنے کے لیے کوئی نہ ملے تو دیواروں سے کہو۔ آپ نے یہ سب کیا۔‘‘

    ’’میں در اصل ایٹمی دور کی پیداوار ہوں اور ان فرسودہ باتوں پر یقین نہیں رکھتا۔‘‘

    اس کی گھنی چھوٹی چھوٹی مونچھوں تلے مسکراہٹ پیدا ہوئی تھی۔

    ’’ٹھیک ہے‘‘ میں نے مزید گفتگو کے امکان کو فی الفور ختم کر دیا۔

    ’’میں آپ کے تعاون کا شکر گذار ہوں گا‘‘۔

    اور ڈیوک آف ونڈسرنپے تلے قدم اٹھاتا ہوا سامنے کی سیڑھیوں سے نیچے اتر کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔

    میں کھڑی تھی۔ چپ چاپ۔ میری پتھرائی ہوئی آنکھیں آسمان پر جمی تھیں جو لامحدود تھا پر ڈپارٹمنٹ کی اونچی اونچی دیواروں میں محدود ہو گیا تھا۔ میرا بیرونی وجود گرمی سے جلا جا رہا تھا۔ اندر فریج میں رکھے ہوئے برتن کی طرح ٹھنڈا تھا۔

    اس کا باپ میرے سامنے تھا۔ پانچ پی کے لٹھے کا کھڑکھڑاتا تہمد باندھے جس کے لڑاس کے گوڈوں کو چھوتے تھے۔ سفید قمیض میں سے نکلا ہوا اس کا پیٹ جسے دیکھ کر بس یوں لگتا تھا جیسے وہ ابھی بچہ جننے بیٹھ جائےگا۔ ایک بار میں نے زہرہ سے کہا بھی۔

    ’’خدا کے لیے اپنے باپ کا پیٹ ہلکا کرواؤ۔ اس نے تو پورے دنوں پر بیٹھی عورت کو مات دے دی ہے‘‘۔

    وہ ہنسی اور اس قدر ہنسی کہ دیر تک کمرہ اس کی ہنسی کے مترنم شور سے بجتا رہا۔

    ’’بھئی حلوائی جو ہوا‘‘۔

    کبھی کبھی چھٹی کے دن جب میں گلی میں کھلنے والی کھڑکی میں کھڑی ہوتی۔ وہ مجھے نظر آتا۔ دھوبی کے دھُلے سفید کپڑے پہنے، گلا کھنکھارتا، قمیض کے بٹن بند کرتا، کالی گر گابی کو ٹھک ٹھک بجاتا، اپنے گھر سے برآمد ہوتا۔

    کیسی ستم ظریفی تھی کہ اس کا اتنا سفید پہنا وا داغ دار ہونے والا تھا۔

    میں نے برآمدے میں نظریں دوڑائیں۔ نفیسہ کہیں نہیں تھی۔ میں مڑی اور دھیرے دھیرے سیڑھیاں اترنے لگی پر پہلی ٹرن پر رک گئی۔

    ’’بھلا اگر میں کسی کے ساتھ بھاگ جاؤں تو‘‘۔

    میرا دل عجیب طرح دھڑکنے لگا تھا۔ ہاتھ پاؤں میں سنسناہٹ سی ہوئی جیسے سچ مچ میں ابھی کسی کے ساتھ بھاگنے والی تھی۔

    انسان بھی کیسی کمینی شے ہے۔ غلاظتوں میں لتھڑنے کے لیے مرا جاتا ہے۔ خیر و شر کے دہانے پر کھڑا ہو تو باہیں پھیلا کر شرکی کھائیوں میں ہی گرےگا اور گوڈے گٹے سب تڑوا بیٹھے گا۔ اگر گرنے جو گا نہیں ہو گا تب بھی گرنے کا سوچےگا ضرور۔

    جیسا اب میں نے سوچا ہے۔

    گراؤنڈ فلور پر قدم رکھتے ہی ہوا کا زور دار تھپیڑا میرے چہرے پر سوتیلی ماں کے تھپڑ کی طرح پڑا۔ تھپڑ میں نے چہرہ دائیں بازو کے رخ پر موڑ کر اس جارحانہ کاروائی سے اپنے آپ کو بچایا اور باہر آئی۔ نفسیہ کو ڈھونڈا تاکہ اس نئے موضوع پر اس سے کچھ بات کر سکوں۔ وہ جانے کہاں تھی؟ تھک ہار کر گھر جانے کے لیے بس میں بیٹھ گئی۔ کھٹے ڈکاروں جیسی سوچیں تھیں جو سارا راستہ میرے منہ کا ذائقہ خراب کرتی رہیں۔ پانچ جماعت پاس والی کے نصیبوں نے امریکہ دریافت کر لیا تھا۔

    کمبخت وہاں جا کر تو قیامت بن جائےگی۔ سارے سکھ قدموں میں لوٹنیاں لیتے پھریں گے۔

    اماں نے گوبھی گوشت پکایا تھا۔ گوبھی گوشت میں بلک بلک کر پکواتی تھی اور تڑپ تڑپ کر کھاتی تھی۔ محلے میں جس واقف کے ہاں اس کے پکنے کی خوشبو میری ناک تک پہنچ جاتی۔ ان کی ہنڈیا ابھی چولہے پر ہوتی اور میری کٹوری پہنچی ہوئی ہوتی۔ پر آج نہ وہ ذائقہ تھا اور نہ کھانے کی لگن۔ بس زہر مار کرنے والی بات تھی۔

    تھوڑی دیر بعد زہرہ آ گئی۔ چمکتی دمکتی۔ خوف اور شوق دونوں جذبوں کی بلندی پر پہنچی ہوئی۔ پروگرام کی تفصیلات میں نے جانیں۔ اپنی عقل کے حساب سے اس میں ضروری ترامیم کیں۔

    میں یقین سے نہیں کہہ سکتی ہوں۔ وقت کا وہ کون سا لمحہ تھا؟ جب میں کیدو بن گئی تھی۔ شام ڈھلنے اور دونوں وقت مل جانے تک تو سب معاملہ ٹھیک ٹھاک ہی تھا۔

    باہر ہلکا ہلکا اندھیرا تھا اور اندر گاڑھا گاڑھا تھا۔ بتی جلائی نہیں تھی۔ کرسی پر جسم تھا اور ٹانگیں میز پر دھری تھیں۔ پلکیں الوؤں کی طرح جھپک رہی تھی اور خود جانے کہاں گم تھی؟ جب امّاں نے سوئچ دبا یا اور روشنی میں مجھے دیکھا۔ وہ اس وقت مغرب کی نماز سے فارغ ہو کر آئی تھی۔ ہماری آنکھیں چار ہوئیں۔ اماں کا نہورا فضا میں گونجا۔

    ’’بس یہ موٹی موٹی کتابیں تجھے پار کروائیں گی۔ قسم ہے جو کبھی سجدہ دیا ہو۔ قسم ہے جو کبھی قرآن کھولا۔ ہو قبر میں بھی انہیں ساتھ رکھ لینا۔ بخشش کروا دیں گی تیری‘‘۔

    اماں نے اپنی آنکھوں پر چمڑے کے کھوپے چڑھا رکھے تھے اور کولہو کے بیل کی طرح اپنی گرہستی کے گرد دن رات چکر کاٹ رہی تھی۔ اور نہیں جانتی تھی کہ اس چکر کاٹنے کے علاوہ بھی کچھ کام کرنے والے ہیں۔

    جی تو میرا چاہا تھا کہ گلا پھاڑ کر کہوں۔

    ’’اماں تو نے مجھے ڈولی میں تو ابھی تک بٹھایا نہیں۔ قبر میں پہنچانے لگ گئی ہو۔

    پر چپکی رہی۔ کیونکہ اس وقت میرا دل کسی شور شرابے کے حق میں نہیں تھا۔ یوں بھی مجھے معلوم تھا کہ اماں نے ترکی بہ ترکی جواب دینا تھا۔

    ’’بول بتا۔ تیری عمر میں کس کا بیاہ ہوا ہے؟ تجھے خصم کی زیادہ ضرورت ہے‘‘۔

    اپنے حسابوں وہ بھی ٹھیک ہی تھی۔ ہمارے خاندان نے تو چھوٹی عمر میں بیاہ کی ریت ہی نہیں ڈالی تھی۔ ساری لڑکیاں موٹی موٹی کتابوں سے آنکھیں پھوڑنے میں جتی ہوئی تھیں۔

    شاید اسی لیے میرے اندر کیدو نے جنم لیا تھا۔

    زہرہ کی پونے چھ فٹی جٹی مٹیار ماں میرے خفیہ بلاوے پر جب ہماری بیٹھک میں میرے پاس صوفے پر آکر بیٹھی تو پتہ نہیں کیوں میرا جی چاہا کہ اس کے رخساروں کے گوشت کو چکی مار کر ایسے ہی کھا جاؤں جیسے کشمیر کے سیبوں کو کھایا جاتا ہے۔ اس کی آنکھوں میں دم دار سرمہ تھا۔ وہاں دئیے جلتے تھے۔ ہونٹوں پر مسی تھی جو سرخی کو پرے پھینکتی تھی۔ بیٹھی ہونے کے باوجود اس کی گردن اور چھاتی میں خط مستقیم کا سا تناؤ اور اکڑاؤ تھا۔

    پر جب وہ اٹھ کر گئی۔ دیئے بجھ گئے تھے۔ کشمیر کے سیبوں کی لالی ماند پڑ گئی تھی۔ خط مستقیم تڑاقہ کھا گیا تھا۔

    جٹی مختاراں نے گھاگ شکاری کی طرح جال بچھایا۔ ہونٹوں پر ٹان کے لگائے۔ جوش کو ہوش کے تابع رکھا ہمسایوں میں ساس بہو کا جھگڑا ہوا۔ ساس انصاف کے لیے آئی۔ دیوانگی پر فرزانگی غالب کی۔ مسکرا کر معاملہ نپٹایا چہرے پر رنج و الم کی ایک بھی ایسی شق ابھرے نہیں دی جو یہ بتاتی کہ آج رات اس کی بیٹی ان کی عزتوں کو نیلام کرنے والی ہے۔ بچوں کو معمول کے مطابق کھانا کھلایا۔ خود آنگن میں چارپائی بچھوائی۔ زہرہ بولی۔

    ’’اماں رات کو ٹھنڈ ہو جاتی ہے۔ باہر سونا ٹھیک نہیں‘‘۔

    ’’ارے نہیں۔ رات میں مچھر ستاتا ہے۔ ڈھنگ کی نیند نہیں آتی‘‘۔

    اور جب گجر نے بارہ بجائے۔ سنسار نیند کے خراٹوں میں ڈوبا۔ تب ہیر اٹھی۔ بغچی بغل میں دابی۔ بلی کی چال چلتی دروازے تک آئی۔ کنڈی کھولی۔ پر کنڈی کا سرا ابھی ہاتھ سے نہیں گرا تھا جب آہنی ہاتھ کی گرفت نے گردن دبوچی اور ایک ہی جھٹکے سے کھینچتی ہوئی باپ کی چارپائی پر لا ماری۔

    باپ خون آلود آنکھوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ اٹھا۔۔۔ تیز دھار والا چمکتا چھرا تہبند میں اڑسا۔ وہاں پہنچا جہاں رانجھا کھڑا تھا۔ تیز دھار والا چھرا اس نے لہرایا اور بولا۔

    ’’میں حلوائی ہوں پر عزت دار ہوں۔ ان پڑھ ہوں پر عقل والا ہوں۔ تمہیں قتل کر سکتا ہوں پر بدنامی سے ڈرتا ہوں۔ تمہاری ہڈیاں توڑ سکتا ہوں پر بیٹی کو قصور وار سمجھتا ہوں۔ اب مجھے بتا دو کہ تم جینا چاہتے ہو یا مرنا۔

    اور سننے میں آیا کہ رانجھا اس کے پاؤں پڑ گیا وہ اس کے سر کو ٹھوکر مار کر چلا آیا۔

    ’’ میں گجر ہوں اور بیٹی گجروں میں ہی بیاہوں گا‘‘۔

    عین ساتویں دن سکھر سے سیدو آیا ہیر کو بیاہنے

    وہ وہاں دودھ دہی کی دکان کرتا تھا۔ اس کے پاس اپنا گھر تھا۔ چھ بھینسیں، دو گائیں، دس بکریاں اور کوئی پچاس بھیڑیں تھیں۔ صندوقچی بھر زیور لایا تھا۔ پوری بتیسی کھول کر ہنستا تھا کہ زہرہ پر عاشق تھا اور اب من کی مراد پا رہا تھا۔

    جب اس کی سہیلیوں نے اسے سوہے کپڑے پہنا دئیے۔ اسے سونے سے پیلی کر دیا۔ اس نے سوا تولے کی موٹے ڈنڈے کی لشکارے مارتی نتھ کو اس زور سے کھینچا کہ ناک چیری گئی اور وہ خون خون ہو گئی۔ اپنے خون کو اپنے ہونٹوں سے پیتے ہوئے اس نے دونوں بازو بین کے انداز میں اوپر کئے اور آنکھیں بند کر کے بولی۔

    کنجری۔۔۔ دلی۔۔۔ وچولن۔۔۔ کھان دی کتی۔

    یہ چاروں خطاب میرے لئے تھے۔۔۔ ایک پرانا اور تین نئے۔

    اور جب میں نے یہ ساری کتھا کہانی سنی تھی میرے دل میں بھی پانی تھا اور آنکھوں میں بھی۔

    وہ سپاٹ راستے کا ہی ایک موڑ تھا جو اچانک میرے سامنے آ گیا تھا۔ نفیسہ نے میرے شانے پر ہاتھ رکھا تھا۔ میرے وجود کے گیلے ہاتھوں نے بجلی کی ننگی تاروں کو چھوا تھا اور جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹا تھا۔ اب پورا بدن تڑخ رہا تھا۔

    ’’دیکھو جان دو راہا ہمیشہ قوت فیصلہ کو مضمحل کر دیتا ہے۔ لیکن یہی وہ لمحہ ہے جب یا تو پچھتاوا گندے بیروزے کی طرح جسم سے چمٹ جاتا ہے اور چھٹائے نہیں چھٹتا یا پھر اپنا آپ دریافت ہو جاتا ہے اور لیونڈر کی مہکی خوشبو کی طرح رُوح تک سرشار ہو جاتی ہے۔

    یہ اس شام کا ذکر ہے۔ جب ہم دونوں میں اور نفیسہ لائبریری سے نکلی تھیں۔ فضا پر نظر ڈالتے ہی وہ کوفت سے بولی تھی۔

    ’’کیسی دق کی ماری شام ہے۔ آدمی خوامخواہ اپنے آپ پر اور شام پر ترس کھاتا پھرتا ہے۔ ماحول کی سوگواری کو اس نے مجھ سے زیادہ محسوس کیا تھا۔

    میرے اوپر اس حقیقت کا اطلاق آج ہوا تھا کہ دل شاد جہاں شاد۔ ایک طرح سے میری ایڑیاں زمین سے دو بالشت اوپر اٹھی ہوئی تھیں۔ فضا پر سناٹے یا ویرانی کے راج کو نہ آنکھوں نے دیکھا تھا اور نہ دل نے محسوس کیا تھا۔

    ڈاکٹر منظور نے میری اسائنمنٹ کو گزشتہ دس سالوں سے اس موضوع پر لکھی گئی اسائن منٹوں میں سے بہترین قرار دی تھی۔

    ڈاکٹر منظور جینئس تھا۔ خود پسند تھا۔ اور بخیل بھی تھا۔ اس کے ہاں طلبہ کی حوصلہ افزائی کے لیے چند الفاظ اتنے ہی مہنگے تھے جیسے لاہور میں کستوری۔

    ابھی ہم پٹڑی پر نہیں چڑھے تھے۔ جب نفیسہ نے ایک سکوٹر سوار کو گلا پھاڑ کر یوں آواز دی کہ مجھے بےاختیار کانوں پر ہاتھ رکھنے پڑے۔ لمبا تڑنگا لڑکا اس صور اسرافیل کو سن کر ہماری طرف آ گیا۔ یہ اس کا ممیرا بھائی تھا اور تین چار گھنٹے کے لیے اسے گھر لے جانے کے لیے آیا تھا۔

    میں ان دنوں نفیسہ اور خورشید کے پر زور اصرار پر ہوسٹل میں ڈیرے ڈالے بیٹھی تھی۔ خورشید تو پہلے ہی بورڈر تھی۔ نفیسہ کا باپ داؤد خیل میں کیمیکلز کے ایک پلانٹ پر چیف کیمیکل انجینئر ہو کر فیملی سمیت وہاں چلا گیا تھا۔ گرمائی تعطیلات کے بعد وہ بوریا بستر سمیٹ کر ہوسٹل آ گئی تھی۔ میں نے بھی سوچا کہ بسوں میں خجل خواری بہت ہے اور وقت بھی ضائع ہوتا ہے۔

    نہر میں گدلا پانی بہتا تھا ہولے ہولے پون کی طرح۔ پاپلر کے درختوں کی لمبی لمبی ٹہنیاں کسی عاجز کی طرح جھکی جاتی تھیں۔ میں سینہ اکڑائے چلی جا رہی تھی کسی نو دو لیتے کی طرح۔

    جب عین میرے سامنے نیلی ٹیوٹا آ کر رکی۔

    ’’چلتی ہو ذرا سیر سپاٹے کے لیے۔‘‘ عمارہ نے شیشے سے گردن نکال کر پوچھا۔

    ’’نیکی اور پوچھ پوچھ‘‘ میں نے ریڑھ کی ہڈی کو دہرا کیا اور کار میں جھانکی۔ عمارہ فرنٹ سیٹ پر نسرین اور عائشہ بیک پر ایک خوبصورت سا نوجوان ڈرائیونگ سیٹ پر اور دوسرا نسرین اور عائشہ کے ساتھ جڑا بیٹھا تھا۔

    عقبی نوجوان نے انصار جیسا حوصلہ اور کلیجہ نکالا۔ فی الفور سمٹ کر میرے لیے تھوڑی سی جگہ بنائی۔ پر مجھ جیسی کم ظرف اور تھڑدلی مہاجر اسوقت گھی شکر ہونے کے موڈ میں نہیں تھی۔ کولہے پر کولہا چڑھانا اور ذرا سے جھٹکے پر اس ایثار پسند جوان کی گود میں پکے پھل کی طرح گرنا مجھے کچھ اتنا اچھا نہ لگا۔

    دوپہر سے تو یوں بھی میں فلکی کائنات کی تسخیر میں جتی ہوئی تھی۔ چاند کی طرح چمکنے اور سورج کی طرح روشن ہونے کے امکانات زیر غور تھے۔

    میں نسرین کی طرف بڑھی ’’تم پلیز ذرا آگے سر کو۔ میں یہاں بیٹھتی ہوں‘‘

    چپہ بھر جگہ تھی پر اطمینان سے ٹک گئی۔

    کھلے شیشوں میں سے لڑاکی عورت کی طرح دنگا فساد کرتی ہوا سر کے بالوں سے گتھم گتھا ہو رہی تھی۔

    گاڑی ساہیوال روڈ پر بھاگی جا رہی تھی۔ دونوں لڑکوں کے متعلق معلوم ہوا تھا کہ ڈرائیو کرتا ہوا عمارہ کا فرسٹ کزن ہے اور پیچھے والا اس کا دوست اور کسی مل اونر کا بیٹا۔ بھائی پھیرو کے قریب ایک ماڈل فارم پر پڑاؤ ہوا۔

    یہاں فطرت نوزائیدہ بچے کی طرح ننگی تھی اور حسین بھی۔ میں ایک منڈیر پر بیٹھ گئی تھی۔ ٹیوب ویل چل رہا تھا۔ اس کے موٹے پائپ سے گرتا ہوا پانی دور سے کسی آبشار کا پتہ دیتا تھا۔ میں اس کے چلنے کی آواز کو مختلف لفظوں کے جامے پہنا کر ان کی موزونیت اور غنائیت پرکھنے کے دھندے میں لگ گئی تھی۔

    دھک دھک، ٹھک ٹھک، تھپ تھپ، تھک تھک، پھک پھک۔

    جس سانچے میں ڈالتی صوتی روپ اسی میں ڈھلتے جاتے۔

    اور اس سنہری شام میں ایسا کرنا بہت دلچسپ لگا تھا۔

    جب وہ مل اونر کا بیٹا میرے پاس آ کر بیٹھا اور دھیرج سے بولا۔

    ’’آپ خود کو کیا سمجھتی ہیں؟‘‘

    پل بھر کے لیے میری آنکھوں کے سمندر میں حیرانگی اور بوکھلائے پن کی دس فٹ اونچی لہریں تڑپ کر اٹھیں۔ ذات کو ہدف بنا کر جھنجھلاہٹ پیدا کرنے اور توجہ کھینچنے کی یہ نفسیاتی کاوش چند لمحوں میں ہی بےاثر ہو گئی تھی۔ شاید اس لئے کہ میری ذات کا شیشہ نہ تو حساس اور نازک تھا اور نہ ہی شفاف۔ بیچارہ خراشوں اور دھبوں سے اٹا پڑا تھا۔ ایسی چھوٹی موٹی کنکریاں کہاں خاطر میں لاتا تھا۔ ذہن کی مستعدی اور ڈھٹائی نے مچلتی لہروں کو ساکن کر دیا۔ میں نے مسکراہٹ ہونٹوں میں دبا لی۔

    وہ کھڑا تھا۔ اب بیٹھ گیا اور بیٹھنے سے شام کی کرنوں میں نہانے لگا۔ اسوقت اس کا سانولا رنگ پکے دھان جیسا ہو رہا تھا۔

    ’’احساں کمتری کی شکار بھی معلوم ہوتی ہیں‘‘۔

    ’’دو باتیں میرے ذہن میں پیدا ہوئی تھیں۔ یا تو نہایت احمق اور کودن تھا۔ اور یا پھر حد درجہ زیرک اور کائیاں۔ میں بھی باتوں کی ترازو میں ہمیشہ پوری اترتی تھی۔

    ’’کوئی نئی بات یا کوئی ڈھنگ کا اعتراض کرو۔ یہ تو مانی ہوئی بات ہے کہ لوئر مڈل کلاس فیملی کی لڑکی ہمیشہ احساس کمتری کا شکار ہوتی ہے۔ بیچاری ڈربے میں بند مرغی کی طرح پلتی ہے۔ جب کھڈے کی کنڈی کھول کر باہر آتی ہے تو اردگرد پر قناعت کرنے کی بجائے پٹوسی مار کر اونچی دیوار پر چڑھتی اور اکثر گر کر اپنا پٹڑہ کر لیتی ہے۔

    کھِل کھِل کرتے ہوئے وہ اس زور سے ہنساکہ اس کی آواز بہت دور تک بکھرتی گئی۔ ان چاروں کی چوکڑی دور گھومنے میں مصروف تھی۔ وگرنہ وہ بھی متعجب ہو کر پوچھتے ضرور کہ یہ آتش بازی کس خوشی میں؟

    ’’واللہ ذہین بھی ہیں اور دلچسپ بھی۔‘‘

    ’’چلو شکر اکٹھے ملا کر کسی نے یہ دو خوبصورت خطاب تو دئیے مجھے‘‘۔

    میں نے اپنے خوبصورت دانتوں کی بھرپور نمائش کر دی۔

    مغرب کے بعد کہیں واپسی ہوئی۔ نفیسہ آ چکی تھی۔ اسے یہ معلوم ہو گیا تھا کہ میں ہسٹری ڈپارٹمنٹ کی تین لفنگی لڑکیوں کے ساتھ آوارہ گردی کرنے نکلی ہوئی ہوں۔ جونہی کمرے میں قدم دھرا اس کا لکچر شروع ہو گیا۔

    ’’ایک تو میں تمہاری یہ ہر نوالے بسم اللہ سے عاجز ہوں۔ گشت کرتی ہوئی رات آٹھ بجے آ گئی ہو۔ مجھے وہاں قورمہ بریانی کھانا دوبھر ہو گیا۔ ٹفن میں بھروا بھاگم بھاگ یہاں آئی کہ چلو مزے لے لے کر کھائیں گے۔ جی جل کر کباب ہو گیا۔ وہ پڑا ہے ٹفن۔ خود ہی گرم کرو اور ڈپ لو۔ ہاں زیادہ دیر بتی مت جلانا۔ میرا سر درد سے پھٹا جا رہا ہے‘‘۔

    ’’چولہے میں جائے تیرا قورمہ بریانی۔ نہیں کھاتی میں۔ خود ہر دوسرے تیسرے دن ممیرے چچیرے بھائیوں کے گھر بھاگتی پھرتی ہو اور الزام مجھے دیتی ہو۔ ہاں بتی تو ضرور جلےگی۔ مجھے پڑھنا نہیں کیا؟

    اور اس رات پور اپون گھنٹہ میں اور وہ جنگلی بلوں کی طرح ایک دوسرے پر غراتے اور آنکھیں نکالتے رہے۔ جب تین بجے اسکی آنکھ کھلی۔ میں کرسی پر جمی بیٹھی کتابوں سے دیدے پھوڑ رہی تھی۔ اس نے تکیے سے سر اٹھایا۔ ذرا پہلو بدلا اور بولی۔

    ’’تم یونیورسٹی میں ٹاپ چھوڑ نمبروں کا ایک نیا عالمی ریکارڈ بھی قائم کر دو۔ تب بھی میری جان ڈاکٹر منظور تم سے شادی نہیں کرےگا‘‘۔

    اس نے سر تکیے پر گرا دیا۔ پہلو سیدھا کیا اور کمبل اوڑھ کر یوں مردہ بن گئی جیسے وہ صرف یہی اہم بات کہنے کے لیے قبر سے اٹھی تھی۔

    اور رات کے تین بج کر پانچ منٹ پر ہم نے پاکستان اور ہندوستان کی طرح ایک دوسرے پر ائیر ریڈ شروع کر دی جو تقریباً بیس منٹ جاری رہی۔

    ایمانداری والی بات تو یہ تھی کہ میں اپنے داخلی جوار بھاٹے کا ہی تجزیہ نہ کر پاتی۔ کبھی کبھی بس یوں لگتا جیسے میں کتابی کیڑا بن کر ڈاکٹر منظور کے دماغ میں جھنجھنی پیدا کرنا چاہتی ہوں۔ دوسرے لمحے یہ ساری تگ و دو اپنا آپ منوانے کی نظر آتی۔

    بہرحال جو کچھ بھی تھا۔ اس نے گدھے کی طرح مجھے اپنا آپ میں جوتا ہوا تھا۔

    ایک دن وہ مل اونر کا بیٹا لائبریری آیا۔ میں اسوقت چور چور تھی اور چاہتی تھی کہ بھاگم بھاگ جا کر بستر پر ڈھیر ہو جاؤں پر اس نے ہنستے ہوئے کہا تھا۔

    ’’آپ سے ملنے کو جی چاہتا تھا۔ چلا آیا ہوں۔ امید ہے مائینڈ نہیں کریں گی‘‘۔

    میں نے سوچا چلو اب یہ بیچارہ آیا ہے۔ ایک کپ چائے سے اس کی تواضع ہی کر دوں۔ خود بھی پی لوں کچھ تھکن اترےگی۔

    کنٹین کی طرف مڑنے سے پہلے اس نے کہا۔

    ’’ذرا گاڑی لاک کر آئیں۔ میں کھلی چھوڑ آیا ہوں‘‘

    گاڑی میں بیٹھ کر لاک کرنے کی بجائے اس نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول دیا اور بولا۔

    ’’آپ کی کنٹین کی جوشاندے جیسی چائے چھوڑئیے۔ آج آپ کو اچھی سی چائے پلاتے ہیں‘‘۔

    ابھی صرف ایک قدم اٹھا تھا۔ ابھی فرنٹ ڈور کے شیشے پر ہاتھ بھی نہیں رکھا گیا تھا۔ ابھی دماغ اور دل نے جانے یا نہ جانے کے بارے میں امکانی بحث کا آغاز بھی نہیں کیا تھا۔ جب مجھے احساس ہوا کہ میں جہاں پاؤں رکھے کھڑی ہوں اُس زمین میں مائنز بچھی ہوئی ہیں اور وہ اچانک پاؤں کا دباؤ آنے سے پھٹ گئی ہیں اور میں پچھاڑ کھا کر کمر کے بل گری ہوں۔

    ابا پتہ نہیں میرے اندر سے نکل کر اس سڑک پر عین میرے سامنے کیسے آ کھڑا ہوا تھا؟ میں نے گزشتہ دو ہفتوں سے اس کے متعلق سیکنڈ کے چالیسویں حصے میں بھی ایک بار نہیں سوچا تھا۔ پچھلی سے پچھلی اتوار میں گھر گئی تھی پر وہ تھا ہی نہیں۔ کہیں کامونکی میں مونجی اکٹھی کرنے گیا ہوا تھا۔ مجھے امّاں کی زبانی پتہ چلا تھا کہ باپ بیٹا ان دو تجوریوں کو بھرنے میں پسینہ پسینہ ہو رہے ہیں جو اس مکان میں ہندو بنیئے جاتے ہوئے چھوڑ گئے تھے۔

    اور میں نے کسی قدر شاکی لہجے میں کہا تھا۔

    ’’ارے ابا سے کہا کرو۔ کچھ تھوڑی سی خیر خیرات اپنے مال کی مجھے بھی دے دیا کریں۔ کمائی پاک ہو جاتی ہے‘‘۔

    سچ تو یہ تھا کہ میں باپ سے زیادہ اپنی محنت اور حکومت کی شکر گزار تھی۔

    اس وقت اس کی ابلتی لال لال آنکھیں، اس کے روکھے آدھے کچے آدھے پکے بال، وہی خستہ حال حلیہ۔ بس عین اس لمحے مجھے اساطیر کا وہ مہیب دیو ’’اطلس‘‘ یاد آیا جس نے کہانی کے ہیرو ’’پرسی اس‘‘ سے التجا کی تھی کہ وہ خوفناک چڑیل میڈوسا کا کٹا ہوا سرا سے ایک نظر دکھا دے کیونکہ وہ آسمان کو تھامے تھامے تھک گیا ہے اور اب پتھر بن جانا چاہتا ہے۔

    میں بھی بہت تھک چکی تھی اور پتھر بن جانا چاہتی تھی پر میرے ساتھ بہت سی مصیبتیں تھیں۔

    میں بھاگی۔ بگٹٹ بھاگی۔ میرے تعاقب میں آوازیں تھیں۔ مجھے کچھ نظر نہیں آیا۔ نہر میں بہتا ہوا، پانی کنارے کے درخت، ہوسٹل کے لان میں اگے ہوئے پھول، یا پھر سیڑھیاں۔ اپنے کمرے میں پہنچ کر میں نے کتابیں رکھیں۔ گلاس پانی سے بھرا۔ کمرے کے بیچوں بیچ کھڑی ہو کر اسے گھونٹ گھونٹ پیا۔ پھر ٹوٹے قدموں سے چلتی بستر تک آئی۔ پائنتی پر تہہ کی ہوئی چادر کھولی اور اُسے سر تک اوڑھ لیا۔

    میں بےچینی اور اضطراب کے سمندر میں غوطے پر غوطے کھا رہی تھی۔ اناڑی ہونے کی وجہ سے پانی میری ناک کے راستے دماغ میں پہنچ گیا تھا۔ سارے جسم میں مرچوں جیسی جلن اور خراش تھی۔ چار منٹ بعد ہی کمبل پرے پھینک کر اٹھ بیٹھی۔ بس میرا جی چاہ رہا تھا۔ کہیں سے بلیڈ لے کر اپنے دونوں ڈھیلے نکال باہر پھینکوں۔ سارے میں خون ہی خون اور گوشت کے لوتھڑے بکھر جائیں۔ تب شاید ابّا کو چین آ جائے۔

    اگلے دن میں لائبریری کی بجائے اپنے کمرے میں تھی۔ کتاب کو گھٹنوں پر پھیلائے، نگاہیں بظاہر حروف پر جمائے اور دماغ کو کہیں اور الجھائے۔

    میں اپنے اندر کی ٹوٹ پھوٹ سے خوف زدہ تھی۔ خود کو داؤد پر لگانے سے گریزاں تھی۔ تپ تپ کر کندن بننے سے فراری تھی۔

    اور ایسے ہی لمحوں میں نوکر اس کا مونوگرام والا کارڈ لایا۔ ابھرے ہوئے حروف میں اس کا نام چمکتا تھا۔ نیچے بائیں کونے میں اس مل کا نام جس کا وہ جنرل منیجر تھا جو شاید اس کے باپ کی ملکیت تھی۔

    میں کافی لہولہان ہو چکی تھی۔ مزید ہونے کی تاب نہ تھی۔ انکار کر دیا۔

    نفیسہ پانچ دنوں سے داؤد خیل گئی ہوئی تھی۔ ہوتی تو شاید دل کا کچھ بوجھ ہی ہلکا ہوتا۔ خورشید سے میں ویسے بات کرنا نہیں چاہتی تھی۔

    پر اگلے دن عین اسی وقت پھراس کا کارڈ آیا۔ میرے ٹھہرے ہوئے دل میں اتھل پتھل ہونے لگی تھی۔ رومانٹک زندگی کا اپنا ایک گلیمر ہے۔ بلا سے کوئی اس میں کامیاب ہو یا ناکام رہے۔ یہاں تو یوں بھی ساری زمین کلر اور شورے کی ماری ہوئی تھی۔ گلاب کا کوئی پھول تو کجا کوئی خودرو ننھی منی سی جھاڑی بھی نہیں تھی۔

    پر ابا بڑا کم بخت تھا۔ سارے راستوں کی ناکہ بندی کئے بیٹھا تھا۔ ہر موڑ پر کھڑا تھا۔ اور میں اسے روند کر کس مپرسی سے عشق کرنا نہیں چاہتی تھی۔

    یوں ان سب کے علاوہ قطار در قطار وہ کہانیاں بھی تھیں۔ جو اپنے دلکش سراپوں کے ساتھ احساس کمتری کی ماری لڑکیوں کی دلی تسکین کے لئے زمانوں سے نفسیاتی سہارے بنی ہوئی ہیں۔ کہیں بہت وجیہہ لڑکا عام سی لڑکی سے شادی کر لیتا ہے۔ بادشاہ فقیر کی بیٹی پر عاشق ہو جاتا ہے۔ کروڑ پتی بھکارن کو من کی رانی بنا لیتا ہے۔ دل گدھی پر آ جاتا ہے جیسے باہر کو نکلے ہوئے دانتوں والی بدصورت جوزیفائن نپولین بونا پارٹ جیسی عظیم شخصیت کے من مندر کی وہ رانی بنی کہ حسین شہزادیاں اپنے تام جھام سمیت منہ دیکھتے رہ گئی تھیں۔

    پر نفیسہ کیا آئی اس نے چیتھڑے کر ڈالے۔

    ’’میری ہڈہڈی چٹخی ہوئی ہے دم لینے دو۔‘‘ وہ بولی تھی۔

    بھلا مجھے کہیں قرار تھا۔ میں نے چائے کی پیالی اسے کیا تھمائی کہ ساتھ ہی گرا مو فون کی سوئی چلا دی۔ وہ چپ چاپ بیٹھی سنتی رہی۔ سننے کے بعد ہلکی پھلکی منظر کشی بھی کروائی۔

    ’’دراصل گوشت کھاتے کھاتے آدمی اکتا جاتا ہے۔ کبھی کبھی دال کھانا چاہتا ہے۔ ہری مرچ اور پودینے لہسن کی چٹنی کے لیے مرا جاتا ہے۔‘‘

    میری آنکھوں پر بھنویں اتر آئی تھیں۔ میں یوں بولی تھی جیسے پاتال میں دھنسی ہوئی ہوں۔

    ’’میں گویا دال ہوں۔ چٹنی ہوں‘‘۔

    ’’ تم خود کو مرغ مسلم سمجھتی ہو‘‘۔ نفیسہ نے چھری میرے کلیجے میں اتار دی۔

    ’’میں نے تم سے ہمدردانہ رائے طلب کی ہے۔ گوشت اور دال کی تھیوریوں پر تبصرے کے لیے نہیں کہا‘‘ اس نے میرے شانے پر زور دار دو ہتڑ جمایا اور بولی۔

    ’’حقیقت سننا چاہتی ہو۔ تین انگلی کا تمہارا یہ اندر کو دھنسا ہوا ما تھا، ناک تمہاری ایسی کہ پیچھے سے کھڑی اور آگے سے اتنی چوڑی کہ چاہو تو ہتھیلی ٹکا لو، گول گول شاطر دیدے، چہرہ سارے، مسام کھلے ہوئے۔ کم بخت لاہور میں ابھی حسین اور امیر لڑکیوں کا قحط نہیں پڑا۔

    ’’حرامزادی‘‘

    میں نے اسے دونوں ہاتھوں سے پیٹ ڈالا اور خود بھاگ کر اپنے بستر پر آ گری۔

    تین گھنٹے سونے کے بعد جب وہ اٹھی۔ میں اس وقت بھی تکئیے پر سر رکھے مراقبے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ اسی لمحے نفیسہ نے مجھے محبت سے اپنا آپ دریافت کرنے کے لئے کہا تھا اور وہ یہ نہیں جانتی تھی کہ وہ میں پہلے ہی کر بیٹھی ہوں۔

    تمے کھانا جی داری کا کام ہے پر جب کوئی اسے کچھ دن کھا لیتا ہے تو وہ گویا زہر کو زہر سے مار دینے کے قابل ہو جاتا ہے۔

    اگلے دن پھر کارڈ آیا۔ میں نے اطمینان سے پکڑا اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی باہر آئی۔ کسی پھل دار بوجھل ٹہنی کی طرح میں گاڑی کے فرنٹ سیٹ کے شیشے کے سامنے جھکی اور نرمی سے بولی۔

    ’’کیا چاہتے ہیں آپ؟‘‘

    ’’آپ سے دوستی‘‘

    ’’دوستی یا شادی بھی‘‘

    ’’فی الحال دوستی۔ شادی تو بعد کا مسئلہ ہے۔ ‘‘

    ’’مگر میں تو نہ دوستی چاہتی ہوں اور نہ شادی۔ ‘‘

    میں گزشتہ کئی دنوں سے جو تُمے کھا رہی تھی اب اس قابل تھی کہ اندر کے پیدا شدہ زہر سے اس بیرونی زہر کو مار سکوں۔

    بس بڑا فیصلہ کن انداز تھا۔ بڑی جارحانہ قسم کی آواز تھی۔

    ’’ہائی جینٹری کے ایک مہذب فرد کو لڑکیوں کے پیچھے پھرنا زیب نہیں دیتا۔ کل اگر آپ کا کارڈ آیا تو میں اپنی پرووسٹ کو اطلاع دے دوں گی۔ خدا حافظ۔‘‘

    جھٹ پٹے کا سمے تھا۔ گاڑی کو سڑک خالی کئے ہوئے تین منٹ ہو چکے تھے۔ میں دوڑ کر نہر کی پٹڑی پر چڑھی اور دونوں بازو اوپر اٹھائے یوں جیسے میں ایڈ منڈ ہلاری یا شیر پا تین سنگھ ہوں جنہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر ایورسٹ کی چوٹی فتح کی۔ میں بھی فاتح تھی اور اب اپنی فتح کا جھنڈا لہرا رہی تھی۔ مجھے فتح کا خمار ضرور تھا پر کہیں دل کے ایک ننھے منے کونے میں جیسے سپاہیوں کے کٹنے مرنے کا دکھ بھی تھا۔

    ویسے اس مار دھاڑ کے عمل میں چند نقطے دریافت ہوئے تھے۔ ایک اہم نقطہ یہ بھی تھا کہ جسمانی ڈھانچہ دیدہ زیب نہ بھی ہو۔ تب بھی منفرد بنا جا سکتا ہے۔

    مقامات آہ و فغان اور بھی آئے پر وہ سب اس تربیت کے نتیجے میں سبک خرامی اور سہولت سے طے ہو گئے۔ ڈھاکہ یونیورسٹی میں قیام بھی اطمینان بخش رہا۔

    اور میں نے ۲۸ ویں سال میں قدم رکھا تھا۔

    اونچے رسوخ والے کھاتے پیتے گھرانے کی لڑکی اٹھائیس سال کی عمر میں تھل کی بارانی زمین بن جاتی ہے جس کے بار آور ہونے کا انحصار کلی طور پر بار ان رحمت کے برسنے پر ہوتا ہے۔ نصیب اور حالات نے یاوری کر دی تو بیڑہ پار وگرنہ بیڑہ غرق۔

    یہاں تو سیم اور تھور نے ناس ما را ہوا تھا۔ اب ایسے میں چھوٹی خالہ تنک کر کیسے نہ کہتی۔

    ’’ارے اس کے لئے اس بیچاری کے لیے تو آج تک کوئی رشتہ ہی نہیں آیا‘‘

    آیا تھا۔ ایک آیا تھا۔ میں نے چاہا تو بہتیرا کہ چیخ چیخ کر اس کا اعلان کر دوں۔ پر یہ بھی جانتی تھی کہ چھوٹی خالہ ایک نمبر کے شاطر وکیلوں کی طرح جرح کرتے ہوئے مردے بھی قبروں سے گھسیٹ لائےگی اور دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر کے رکھ دےگی۔ میں چاہے جھوٹ کے ہزار پل بھی باندھوں۔ اس کا ایک بل ڈوزر ان کا تیا پانچہ کر دینے کے لیے کافی ہے۔

    واقعہ یہ تھا کہ چھوٹی خالہ کی تشریف آوری کا ٹوکرا ان دنوں منجھلے ماموں کے ہاں پڑاؤ ڈالے بیٹھا تھا۔ مجھے اس بھڑ سے کٹوانے جانا ہی جانا تھا۔ منجھلے ماموں کی کوٹھی کے کشادہ آنگن میں انہوں نے بظاہر بڑی محبت سے میرے سر کے کچے بالوں میں سے چار پکے بال اکھیڑتے ہوئے تاسف اور دکھ سے میری عمر کا حساب کتاب جوڑتے ہوئے یہ سب کہا تھا۔

    ’’ارے وہ پھر ہنسیں میرے لیئے تو رشتوں کے ڈھیر لگ گئے تھے‘‘۔

    پہلا وار سہنا پڑا تھا کیونکہ دفاع بڑا کمزور تھا۔ اس بار میری لتری زبان ایک گڑ گڑاہٹ کے ساتھ پٹڑی سے اتر گئی تھی۔

    ’’چھوڑئیے بھی رشتے تو آپ کے بھائیوں کے عہدوں، ساگوان کی لکڑی کے فرنیچر اور شاہرہ ریشم سے آنے والی غیر ملکی مصنوعات کے لیے آتے تھے۔‘‘

    اس سمے میری آنکھوں میں تعصب کا کالا موتیا اترا ہوا تھا۔

    اس اینڈرو میڈا شہزادی نے اپنے حسن و جمال اور بھائیوں کے جاہ و جلال کا مان کرتے ہوئے ان آنے والوں کے تکے تو بنے کر ڈالے تھے۔ کیونکہ کوئی کالا تھا۔ کوئی ناٹا اور کوئی لمبوترا۔ ان چک پھیریوں میں جب چھبیسواں لگا تو منڈی کا بھاؤ گر گیا۔ خریدار ٹانواں ٹانواں رہ گیا۔

    اب آنکھیں کھلی تھیں۔ عجلت میں جو جال میں پھنسا وہ تھا تو اگرچہ بڑا افسر پر ایسا کہ اٹھتا تو گوڈے کے ساتھ گوڈ اٹکر کھاتا تھا اور چلتا تو دق کا تیسری سٹیج کا مریض جان پڑتا۔

    پر چھوٹی خالہ کا طنطنہ پھر بھی عروج پر ہی تھا۔

    یہاں ایک اور سنسنی خیز انکشاف ہوا تھا۔ رضیہ حمید ORGANIC CHEMISTRY میں آنرز اور ایم ایس سی سے فارغ ہو کر اسلام آباد یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے لیے منتخب ہو گئی تھی اور بس کسی بھی وقت امریکہ کے لیے پرواز کرنے والی تھی۔ میں تو صرف اتنا ہی جانتی تھی۔

    اب چھوٹی خالہ بڑے طمطراق سے اس کے کلاس فیلو لڑکے آفتاب احمد کا ذکر کر رہی تھیں جس نے اسے پروپوزل دیا تھا۔

    بس جی یوں سمجھ لو کہ فلم سٹار ندیم اور آفتاب IDENTICAL TWINS ہیں۔

    مجھے لگا تھا جیسے جلتے سورج کا فیوز یکدم اڑ گیا ہو۔ سارے میں گھپ اندھیرا چھا گیا ہو۔ ایسا گھور اندھیرا جس میں کچھ نظر نہیں آتا اور اگر کچھ دکھتا ہے تو ہم عصری والی رقابت کا چہرہ۔

    ’’ارے بیس سال ایک چھت کے نیچے گزارے۔ آسمان کے اس ٹکڑے کے نیچے جو ہمارے کوٹھے پر سائبان کی طرح تنا رہتا تھا۔ اندھیری راتوں میں بس تاروں کی جھلملا ہٹوں کے سایوں میں ہم ڈھیر ساری باتیں اپنے اپنے کالج، اپنی سہیلیوں، اپنی پڑھائی اور مستقبل کے بارے میں کرتے۔ کبھی کبھی وہ نا آسودہ آرزوئیں اور تشنہ تمنائیں بھی زیر بحث آ جاتیں جن کے پورا ہونے کے امکانات ہماری نظر میں ناممکن تھے۔

    ہمارے دکھ سانجھے، چھوٹی موٹی خوشیاں سانجھیں، راز سانجھے، حتیٰ کہ رنگ و روپ بھی سانجھے ہی تھے۔

    مجھے یاد آیا میرے کالج میں کوئی فنکشن تھا۔ وہ اور میں پاس پاس کھڑی تھیں۔ کسی نے پوچھا تھا۔

    ’’آپ دونوں بہنیں ہیں؟ کرسچین ہیں؟‘‘

    بےچاری پوچھنے والی بھی ہماری طرح کسی مڑے تڑے خاندان سے ہوگی جو نہیں جانتی تھی کہ لمبوترے کالے شہوتوں جیسے رنگوں والے چوہڑے کرسچین کیمونیٹی کے چنگڑ اور شود رہیں۔

    چرچوں میں فادرز کا کہا مان کر لڑکیوں کو پڑھانے لکھانے لگ گئے ہیں۔ ان بے چاروں کا اونچی جاتی کے لوگوں سے کیا واسطہ اور ناطہ۔ اور اب دیکھو تو اس چوہڑی نے مجھ چوہڑی کو یہ تک نہیں لکھا تھا کہ ایک وجیہہ لڑکے نے اسے پروپوزل دیا ہے۔

    اور تبھی چھوٹی خالہ نے مزید انکشاف کیا۔

    ’’ارے ڈنگر ہے علم پڑھ لیا تو کیا ہوا؟ مانی نہیں۔۔۔ باپو کے غم میں مری جاتی ہے کہ بے چارہ اسے پڑھاتے پڑھاتے اپنی داڑھی بھی چٹی کر بیٹھا ہے۔ وہ بیاہ رچا لے اور کما کما کر ست غیروں کو کھلاتی پھرے۔

    سورج کو فیوز لگ گیا تھا اور سارا آنگن از سر نو جگمگا اٹھا تھا۔

    ’’اے کوئی ٹٹ پونجیا ہے وہ۔ بڑے باپ کا بیٹا ہے۔ بہت بڑا کاروبار اور زمینیں ہیں۔ پر تن جگرا اس لڑکے کا بولا۔ چلو میں انتظار کروں گا۔ جرمنی سے فارغ ہو کر امریکہ تمہارے پاس آؤں گا۔‘‘

    میں نے اپنے آپ سے کانا پھوسی کی۔

    ’’ارے کوئی نہیں کرتا انتظار و نتظار۔ چار سال میں ڈاکٹریٹ کرے گا۔ جرمنی میں ایک سے ایک بڑھ کر طرحدار اور شعلہ بدن ہیں۔

    میرے ہاتھ میں کاسہ گدائی نہیں تھا اور نہ ہی میں نے اسے چھوٹی خالہ کے آگے پھیلایا تھا۔ وہ تھیں کہ مجھے دان پن کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔

    ’’تو پھر میں تیرے لئے کوئی بر ڈھونڈتی ہوں وہاں اسلام آباد ہیں‘‘۔

    میں نے بات کو سر سے ہوا کی طرح گذار دیا۔

    ’’اب لڑکا تو ملنے سے رہا۔ کوئی دوہا جو ہی ملے گا۔ ایک تمہارا باپ چنگڑوں جیسا حلیہ بنائے رکھتا ہے۔ کوئی اس کی تجوریوں میں تھوڑا جھانک کر دیکھےگا کہ نوٹوں کے انبار لگے ہیں وہاں‘‘۔

    جیسے میری زبان پر مری ہوئی چھپکلی رکھ دی ہو۔ ابکائی سی آئی۔ پی گئی۔ انسان بھی کیا چیز ہے؟ حقیقوں کا سامنا کرتے ہوئے کیسے گھبرا گھبرا جاتا ہے؟

    ’’تم کچھ بولیں نہیں‘‘۔

    ’’کار کوٹھی والا دوہا جو ہو تو چلئے ٹھیک ہے‘‘۔

    ’’چلو اتنی مالدار سامی نہ ملی تو بیٹھی رہو گی کیا؟‘‘

    ’’کمال کرتی ہیں آپ بھی۔ تیلی بھی کروں اور وہ بھی روکھا۔ بخشیئے مجھے‘‘۔

    گرمیاں ان دنوں اپنے پورے جوبن پر تھیں۔ چار بج چکے تھے۔ میں برآمدے میں بیٹھی اپنے سامنے مسوری ویلی کالج اور سائرا کس یونیورسٹی کی طرف سے آئی ہوئی رجسٹریاں کھول رہی تھی۔ رضیہ حمید سینٹ لوئس یونیورسٹی جا چکی تھی اور میرے یہ لکھنے پر کہ اب میرا بھی کچھ بندوبست کرو۔ اس نے مختلف یونیورسٹیوں کو لکھ بھیجا تھا۔ وہ مجھے ہر تیسرے دن پلندے بھیج رہی تھیں۔

    بھابھی سو رہی تھی۔ امّاں ساتھ والوں کے گھر بچہ پید ا کروانے گئی ہوئی تھی۔ میں پسینہ پسینہ ہو رہی تھی۔ شلوار کو گھٹنوں تک اٹھائے فرش پر پھسکڑا مارے بیٹھی تھی۔ جب سیڑھیاں چڑھنے کی آوازیں آئیں۔ میں نے توجہ نہیں دی۔ اس وقت محلے کی لڑکیاں امّاں کے پاس قرآن مجید پڑھنے آتی تھیں۔

    جب ماسی جی سلاماں علیکم، بھابھی جی سلامّاں علیکم، کے کورسوں نے فضا میں ارتعاش نہ پیدا کیا میں نے چونک کر نظریں اٹھائیں۔ بیس فٹ پرے ایک دراز قد مرد جس کے سلور گرے بال اس کی شخصیت کو پرکشش بناتے تھے کھڑا مجھے دیکھ رہا تھا۔ عقب میں نسواری ہملٹن کے برقعے میں ایک ادھیڑ عمر عورت اور اس سے بھی پیچھے ایک نوجوان لڑکا کھڑے تھے۔ میں نے چیتے جیسی پھرتی کے ساتھ جست لگائی اور بیٹھک کا دروازہ کھول کر انہیں بٹھایا۔

    انہوں نے ماں جی کا پوچھا۔ ماموؤں کے بارے میں سوال جواب ہوئے۔ اماں کے بارے میں استفسار ہوا۔ میں نے انہیں بلوا بھیجا۔ اماں آئیں اور واری صدقے ہوئیں۔ معلوم ہوا کہ اماں کی قرابت داری ہے۔ یہ لوگ کوہاٹ سے تبدیل ہو کر یہاں آئے تھے۔ جاتے ہوئے وہ امّاں کو بھی اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر لے گئے کہ وہ ان کا گھر دیکھ آئیں۔

    کوئی دو ماہ بعد امّاں نے مجھ سے کہا۔

    اس لڑکے کے ساتھ اگر تیرا بیاہ ہو جائے تو۔۔۔

    میں ہنس پڑی ’’ارے چھوڑو اماں‘‘ دن میں خواب دکھاتی ہو۔ اتنا وجیہہ لڑکا، خود بھی افسر اور باپ بھی بڑا افسر۔

    امّاں جیسے تڑپ کر بولی۔

    ’’ارے تو اتنی لائق فائق۔ ذرا سے رنگ میں مار کھا گئی ہے۔ وگرنہ تیرے نین نقش تو چاند بی بی جیسے ہیں امّاں کو تاریخ میں چاند بی بی بہت پسند تھی۔

    ’’ارے بڑے درویش لوگ ہیں۔ دیکھا نہیں تھا کیسے اس دن جپھی ڈال کر تیرے فجیّ سودائی باپ سے ملا تھا۔‘‘ اماں نے لڑکے کے باپ کے بارے میں بات کی۔

    ’’چھوڑو اماں‘‘۔۔۔ میں اٹھ گئی تھی۔

    دراصل میں اب خوابوں کی دنیا میں اپنا وجود ایک پل کے لیے برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ بس تہیہ کئے بیٹھی تھی کہ امریکہ پہنچ کر جلتی کڑکتی جلد جھلساتی دھوپ میں چلنا بند کر دوں گی۔ جہاں نخلستان ملا کٹیا ڈال لوں گی اور اگر کٹیا نہ ڈال سکی تو بھی سستاؤں گی ضرور۔ جب مشرق اور مغرب کا رب سوال جواب کرےگا تو دو دو ہاتھ کروں گی اس سے۔

    پر دو دو ہاتھ کرنے کی اس سے نوبت ہی نہ آئی۔ صرف ایک ماہ بعد میری اس شاندار لڑکے سے منگنی ہو گئی اور چھ ماہ بعد وہ مجھے بیاہ کر اپنے گھر لے گیا۔

    میرے بنیئے باپ نے میرا بیاہ اس شان و شوکت سے کیا کہ مدتوں برادری اور محلے والوں کو یاد رہا۔ جھلملاتے کپڑے پہن کر، ماتھے پر ٹیکا، ناک میں نتھ سجا کر اور نکاح نامے پر دستخط کر کے بھی مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔

    متین اور بردبار لڑکا تھا۔ رشتے ناطوں کی نزاکتوں کو سمجھتا اور ان کے مقام پہچانتا تھا۔ دل کا سخی اور ہاتھ کا کھلا تھا۔ گاڑی شان سے چلی کیونکہ میں نے اس سے عشق کیا اور ٹوٹ کر کیا۔ کوپے میں خوبصورت نین نقشوں والے خوش رنگ بچے بھی آ شامل ہوئے۔

    ایکا ایکی ایک دن مجھے احساس ہوا جیسے میاں میری ایک دوست میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ میری اس دوست کی شخصیت بہت سے خوش اور بہت سے خوب کے ساتھ مکمل ہوتی ہے، مثلاً خوش شکل، خوش لباس وغیرہ وغیرہ۔ وہ جب میرے گھر آتی تو میں محبت اور اصرار کی زنجیروں سے اسے باندھ لیتی ہوں۔

    ’’آرام سے بیٹھو۔ چھوڑ آئیں گے تمہیں‘‘

    جب میاں اسے چھوڑنے جاتے ہیں تو میری ہمیشہ یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ گاڑی کی بجائے سکوٹر پر چھوڑ آئیں۔

    ’’کمبخت گیلن پٹرول پھنک جاتا ہے اس کے گھر تک جاتے جاتے۔‘‘

    میرے اندر کی کفایت شعار عورت یہ فضول خرچی برداشت نہیں کر پاتی۔

    چھٹی کے دن بچے ضد کریں اور میاں بھی کہیں کہ پھر چلتی ہو چکر لگا آئیں۔ تو میں ان کے دونوں ہاتھ تھام لیتی ہوں۔

    ’’پلیز جان بچوں کے ساتھ آپ چلے جائیں۔ دیکھو نا صبح سے ذرا وقت نہیں ملا پڑھنے اور لکھنے کا‘‘۔

    ’’احمق عورت ہو۔ میں اکیلا اس کے گھر جاتا اچھا نہیں لگتا‘‘۔

    میری یہ دوست بیوہ ہے اور تین بچوں کی ماں۔

    اور میں سوبہانوں سے انہیں بھیج کر خود پڑھنے لکھنے میں جت جاتی ہوں۔ یا پھر کبھی خود بھی چلی جاتی ہوں میں اپنی تحلیل نفسی نہیں کر پاتی۔

    میرے دل کی زمین محبت کی بارش سے اتنی سیر ہو چکی ہے کہ اس میں مزید پانی جذب کرنے کی گنجائش ہی نہیں۔

    یا پھر

    وچولہ گیری میری فطرت میرے خون میں رچ بس گئی ہے۔

    تنوع انسانی فطرت ہے۔ منہ کے ذائقوں سے لے کر دل کے ذائقوں تک انسان تھوڑی سی تبدیلی کا آرزو مند ہوتا ہے۔ میں اس آرزو کی تسکین کا باعث بننا چاہتی ہوں۔

    یا پھر

    میں عورت کی نفی کر رہی ہوں۔

    فیصلہ آپ پر چھوڑتی ہوں۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Rekhta Gujarati Utsav I Vadodara - 5th Jan 25 I Mumbai - 11th Jan 25 I Bhavnagar - 19th Jan 25

    Register for free
    بولیے