کہانی کی کہانی
کہانی آزادی اور تقسیم سے پہلے کے ہندوستانی سماج کے اعلیٰ طبقہ کی عیش و آرام اور عیاشیوں کی داستان بیان کرتی ہے۔ ایک شخص اپنے راجہ دوست کے کہنے پر بمبئی کی سیر کے لیے جاتا ہے۔ وہاں وہ اعلی طبقے کی ایسی عیش و آرام اور عیاشی دیکھتا ہے کہ اسے وہاں بیتتے دن اور راتیں بالکل بیکار نظر آنے لگتی ہیں۔
ایک بیکار تو وہ ہوتے ہیں جن کی آنتیں بیکار ہوتی ہیں اور آنتیں اس لیے بیکار ہوتی ہیں کہ کھانا نہیں ملتا اور کھانا اس لیے نہیں ملتا کہ ان کاتعلق اس طبقے سے ہوتا ہے جس کو کھانے کے لیے محنت کرنا اور کمانا پڑتا ہے اور محنت اس لیے نہیں کرتے کہ یا کاہل ہوتے ہیں اور نہیں کرنا چاہتے، یا کرنا چاہتے ہیں اور کام نہیں ملتا۔ میری بیکاری اس قسم کی نہیں۔ میری آنتیں بیکار نہیں۔ میرا دماغ بیکار ہے، میرا ضمیر بیکار ہے اور وہ اس لیے کہ سات پشتوں سے میرے اجداد نے کبھی کمانے کے لیے محنت نہیں کی۔ انھیں ایک بڑی اچھی ترکیب سوجھی تھی۔ محنت دوسرے کریں اور کھائیں وہ خود۔ میرے اجداد نے قانون بنائے کہ وہ جو ان کے لیے محنت کرتے ہیں خود کھانے سے محروم رہیں، اخلاق ایجاد کیے۔ جنھوں نے ضمیر کو بےہوش کر دیا اور رفتہ رفتہ میرے آبا و اجداد کے پاس اتنا روپیہ آ گیا کہ ان کی سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا کریں۔ میرے مکان کا جتنا رقبہ ہے اتنے ہی رقبے میں سو دھیڑوں کی جھوپڑیاں ہیں اور جھونپڑیوں کی مجموعی آبادی پانچ سو کے قریب ہے جن میں سے ہر سال کوئی سانپ کاٹنے سے مرتا ہے، بیس پچیس ہیضہ یا طاعون کے نذر ہو جاتے ہیں۔ دس بارہ ٹائیفائڈ سے مرتے ہیں اور دس بارہ ان جڑی بوٹیوں اور طرح طرح کے علاجوں سے جو ٹائیفائڈ سے اچھے ہونے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ یہ دھیر ابلے ہوئے چاول یا جوار کی روٹی کے ساتھ مرچیں کھاتے ہیں۔ اب جنگ کے زمانے میں تو دن میں دو مرتبہ لیکن اس سے پہلے دو دن میں ایک مرتبہ ہم لوگ چار پانچ کو دس کا کھانا جنگ سے پہلے کھاتے تھے۔ اب جب سے حضور وائسرائے بہادر نے خود چاول کھانا چھوڑ دیا ہے، ہم نے بھی چاولوں کا استعمال بہت کم کر دیا ہے، صرف دعوتوں اور تقریبوں میں چاول کھاتے ہیں۔ جب دس دس سیر پلاؤ پکتا ہے۔
میرے لیے بیکار کا سوال بڑا اہم ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ وقت کس طرح کاٹا جائے۔ میرے اجداد کو اتنی زحمت نہ اٹھانا پڑتی تھی۔ وہ صبح کو افیون کھانے کے وقت تک شطرنج کھیلتے رہتے۔ دوپہر کا کھانا کھانے کے چار پانچ بجے تک قیلولہ کرتے، پھر شطرنج اور گنجفہ میں منہمک ہو جاتے۔ ملاقاتی یا اہل غرض آتے تو ان سے چاپلوسی کی باتیں سنتے اور خوش ہوتے جاتے۔ رات کا کھانا کھاکے بچوں کو سوتا اور بیوی کو کوستا چھوڑ کے رنڈیوں کا گانا سننے چلے جاتے۔ دو تین بجے رات کو واپس آتے اور دوسرے دن پھر وہی۔۔۔
میری بیکاری کا مسئلہ بالکل مختلف ہے۔ میں نے تعلیم پائی ہے اس لیے میں صبح سے شام تک شطرنج یا گنجفہ نہیں کھیل سکتا۔ لوگ کیا کہیں گے اور اپنے جد مرحوم کی طرح دن بھر لنگی باندھے خواصوں کے ہجوم میں بیٹھنا میرے بس کی بات نہیں۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ کبھی کبھی شادی بیاہ میں، یا کبھی اپنے کسی مقطعے پر رنڈیوں کا گانا سن لوں تو بہت ہے، مگر ایک مرتبہ بھی میں محبوب کی مہندی میں دیکھ لیا جاؤں تو لوگ کیا کہیں گے۔ اب لوگ اسی بات کو معیوب سمجھتے ہیں۔ مجھے پڑھنے کا بالکل شوق نہیں۔ رائڈر ہیگڑو اور۔۔۔ دیکھیے اس کا نام بھی بھول گیا۔ بہرحال سراغ رسانی کے ناول پڑھ لیتا ہوں۔ مگر جب سے تیرتھ رام فیروز پوری کے ترجموں پر نظر پڑی، میں نے انگریزی میں یہ ناول بھی پڑھنے چھوڑ دیے۔
ایک زمانے میں سوچا کیا کہ سیاسیات میں حصہ لوں۔ لیکن اگر کبھی جیل خانے بھیج دیے گئے تو یہ لیجیے یک نہ شد دو شد۔ یوں میرے بہت سے دوست اور جان پہچان کے نواب ہیں، حیدرآباد میں بھی اور حیدرآباد کے باہر بھی۔ لیکن یہ اپنی اپنی محبت۔۔۔
بس جناب گزشتہ سال اسی بیکاری سے تنگ آکے میں راجہ باجپائے کے ساتھ بمبئی پہنچا۔ مجھے راجہ باجپائے کی طبیعت بہت پسند ہے۔ کیا دوست آدمی ہے۔ سیر چشم، مہمان نواز، سچا راجہ۔ بس اس کی ایک عادت مجھے سخت ناپسند ہے، کھنکھارنے اور تھوکنے کی۔ آپ سے اچھی خاصی طرح باتیں کرتا ہوگا۔ ایک دم سے برآمدے جا پہنچےگا اور باہر گملوں میں جہاں کہیں موقع ملےگا گلا صاف کرکے کھنکھار کے تھوک آئےگا۔ دوسری بات یہ ہے کہ جھوٹ بولنے میں راجہ کا جواب کم ہے۔ لیکن راجہ صرف دوہی موقعوں پر جھوٹ بولتا ہے۔ جب دوکاندار اپنے بلوں کی ادائیگی کا تقاضا کریں، تب راجہ ایسی میٹھی میٹھی باتیں کرکے ٹالتا ہے، ایسے اچھے اچھے وعدے کرتا ہے کہ حیرت معلوم ہوتی ہے۔ ممکن ہے کہ راجہ کے یہاں کھانے پر کسی سچ مچ کے والی ریاست کی دعوت ہو۔ لیکن نوکروں کی کوٹھریوں کے پاس یا صحن میں یا کسی دور دراز برآمدے میں دوچار تقاضا کرنے والے دوکاندار ضرور موجود ہوں گے جن کو راجہ نے ’’ابھی‘‘ چک دینے کا وعدہ کیا ہے اور یہ ’ابھی‘ آج سے کل میں، دنوں سے مہینوں میں، مہینوں سے برسوں میں بدلتا رہتاہے اور عجیب بات ہے کہ قرض دینے والوں اور دوکانداروں کی آس نہیں ٹوٹنے پاتی۔ راجہ صاحب کے اور بھی کئی سنہری اصول ہیں۔ مثلاً گریٹ ایسٹرن ہوٹل کا بل تین ہزار ہو تو وہ تو ادا کریں یا نہ کریں مگر ہوٹل کے منیجر اور نوکروں کو سینکڑوں روپے انعام ضرور دیں گے۔
دوسرا موقعہ جب راجہ صاحب جھوٹ بولتے تھے، مبالغے کا ہوتا تھا۔ سابق وائسرائے لارڈ و لنگڈن نے مجھ سے کلکتہ کی کرسمس پارٹی میں کہا، ’’راجہ صاحب۔۔۔‘‘ اور پھر بڑے آدمیوں سے بےتکلفی کی ایک داستان سنائی جاتی۔ راجہ صاحب یوں تو اعلیٰ سوسائٹی میں مقبول تھے بھی، مگر مبالغہ ان کی گفتگو اور ان کی شخصیت کی جان تھا۔ باقی رہ گیا قرض تو راجہ صاحب کی جاگیر کی آمدنی قریب قریب چار ہزار روپیہ ماہانہ تھی، چاہتے تو اچھی طرح رہ سکتے تھے مگر ان کا ماہانہ خرچ آٹھ ہزار سے زیادہ تھا۔
جنوری کا پہلا ہفتہ تھا اور پونا کے مقابل بمبئی میں گرمی پلیٹ فارم پر اترتے ہی معلوم ہوئی۔ کچھ اچھی صورتیں تھیں اور جب ہم راجہ صاحب کے آبائی مکان پہنچے جو ہارکنس روڈ پر تھا تو ملا بار ہل سے سمندر ابلتا ہوا، نیلا اور بڑا خوبصورت معلوم ہوا۔ چار منزل کی ایک ہری عمارت سمندر کے کنارے گھوم سی گئی۔
بھولا بھائی ڈیسائی کے یہاں پارٹی میں سندھ کے ایک مسلمان لیڈر نے اپنے ساتھی سے کہا، ’’کل ہی رات کو جناح صاحب سے ملاقات ہوئی تھی۔ میں نے کہا، مسلم لیگ کے پیچھے ابھی تک نظر ہے اور خیال کی طاقت نہیں ہے۔ جناح صاحب نے کہا قرآن پاک میں سب کچھ ہے۔ میں نے کہا تو پھر اسی سے نظریے خیال اور طاقت کو اخذ کیجیے۔ قرآن ہی کی بنیاد پر جدید سیاسی نظامات سے منطبق کرکے کوئی ایسا اساس بنایے۔ جناح صاحب نے کہا، اقبال نے اس کی کوشش کی ہے۔ میں نے کہا اقبال کے تصورات کے پیچھے بھی معاشی نظام کی طاقت نہیں۔‘‘
اتنے میں مسز سروجنی نائیڈو آئیں اور سب اٹھ کھڑے ہوئے اور سندھ کے لیڈر صاحب ان سے گاندھی جی کی صحت کے متعلق گفتگو کرنے لگے۔
خان بہادر نواب علی امداد خاں ریاست برہان پور میں پرائم منسٹر رہ چکے تھے اور ابھی دو مہینے ہوئے تھے کہ انہیں بھی اپنا اصطبل جمانے کا خبط سمایا تھا۔ جنگ کے زمانے میں ٹھیکہ داروں نے امیر ہوتے ہوتے انھیں بھی بہت امیر کر دیا تھا اور ایسے ہی کسی الزام کی بنا پر پولٹیکل ایجنٹ نے انھیں نکلوایا تھا۔ وہ اس وقت میرے میزبان راجہ باجپائے کے پاس گھوڑوں کی خرید کے متعلق گفتگو کرنے آئے تھے۔ راجہ صاحب ابھی غسل خانے میں نہا رہے تھے، کھنکھنار رہے تھے، تھوک رہے تھے۔ علی امداد خاں کے جانے سے کچھ ہی دیر پہلے مہتاب جنگ آئے، سراپا تبسم، سراپا سوسائٹی کے محبوب، ریاستوں کے شیر، علی امداد خاں سے بڑے تپاک سے ملے، مگر ان کے جاتے ہی ان پر تبصرہ شروع کیا۔ ’’اگر علی امداد خاں اچھی طرح چلتے تو کسی بڑی ریاست کے وزیر اعظم ہو جاتے۔ مگر دیکھیے۔‘‘
اور پھر راجہ صاحب سے مخاطب ہوکے مہتاب جنگ نے کہا، ’’ریاستوں سے تو بھئی میرا دل بھر گیا ہے۔ اب کشمیر، حیدرآباد، بھوپال کہیں جانے کو طبیعت نہیں چاہتی۔ میں بھی جب تک کوچ خزاں میں دیوان رہا۔ میرا اصول رہا کہ مہاراجہ اور مہارانی سے انتہا درجے کی ذاتی وفاداری۔۔۔ راجہ یہ وفاداری ریاست کی خدمت کی جان ہے، مگر پھر حالات بدل گئے۔ موجودہ حضور سکریٹری کابدلا جانا ضروری ہے۔ میرے خیال میں تو حضور سکریٹری کی خدمت ہی تمام رجواڑوں میں سرے سے ختم کردی جانی چاہیے۔ اب دیکھیے علی امداد خاں کا کیا ہوا۔ ان سے اور خان بہادر رفیق سے رقابت تھی۔ دونوں کی پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف سازش کرتی رہیں۔ اب علی امداد خاں کو تو آپ جانتے ہی ہیں۔ مرحوم سر علی امام کھلم کھلا کہا کرتے تھے کہ یہ نوجوان بڑا ہونہار ہے، مگر قابل اعتماد نہیں۔ خان بہادر رفیق ادھر حضور سکریٹری کی خوشامد کر رہے تھے اور ان سے اندر ہی اندر یہ طے کر رہے تھے کہ خود پرائم منسٹر ہو گئے تو حضور سکریٹری کو ہم منسٹر بنا دیں گے۔ اب رہ گیا پولیٹیکل ایجنٹ شروع شروع تو وہ علی امداد ہی کا طرف دار تھا، مگر پھر حالات بدل گئے۔‘‘
اتنے میں لنچ کا وقت آہی گیا اور نواب مہتاب جنگ نے گملٹ کا گلاس ٹرے پر رکھ دیا۔
شام کو میجر نذیر کے ساتھ سی سی آئی گیا، جہاں ایک بڑا سا گول میدان دیکھا، کچھ لوگ دیکھے جو تاش کھیل رہے تھے۔۔۔ میرے آباواجداد کی طرح۔۔۔ ایک نہانے کاحوض دیکھا جس کی تہہ میں پچی کاری کا کام دیکھا اور صرف ایک خوبصورت عورت دیکھی۔ میرین ڈرائیور پر ٹہلتے ٹہلتے اور کئی کئی منزلوں کے گھروندے فلاں نواس اور فلاں نواس دیکھتے دیکھتے میجر نذیر کو ریویرا کی یاد آئی۔ امجد نے آلڈس بکسلے اور بیورلی نکلس کا ذکر کیا جن کے نام میں نے سنے ہیں مگر ان کی کوئی کتاب کبھی نہیں پڑھی۔
دوسرے دن اولگا کو ٹیلیفون کیا۔ او لگا کی ایک اور دوست تھی، سیلون کی رہنے والی، سیاہ فام حسن کا نمونہ، کالی گھٹا مگر خوبصورت اور اس سے نذیر کی دوستی تھی، نذیر برابر اپنے کپڑوں کی طرف متوجہ تھا اور نذیر کی خاطر مجھے اولگا سے اس لنکا کی بیٹی کا پتہ پوچھنا پڑا۔ وہ کسی اور لڑکی کا ذکر سن کر چونکی تو میں نے وجہ بتائی، ’’میرے ایک دوست ہیں میجر نذیر، وہ اس لڑکی کو جانتے ہیں۔‘‘ اس پر اولگا نے چھوٹتے ہی کہا، ’’تو ایسا کیوں نہ کرو۔ شام کو چھ بجے آجاؤ اور اپنے ساتھ اپنے دوست کو بھی لیتے آؤ، ڈرنکس کے لیے میں کرشنا کو بھی بلوا لوں گی۔‘‘
جب میں نے ٹیلیفون کا ریسیور رکھا تو نذیر نے پتلون کی کریز ٹھیک کرتے ہوئے کہا، ’’کرشنا۔۔۔ ہاں کرشناہی اس سنگھالیز لڑکی کا نام تھا۔ دیکھو مجھے یاد ہی نہ آتا تھا۔‘‘
نذیر میرے مقابل بدر جہا خوبصورت ہے، اس لیے جلن کے مارے میں نے راجہ باجپائے کو بھی ساتھ لیا تاکہ اولگا کونذیر سے بات چیت کرنے کا موقعہ زیادہ نہ ملے اور راجہ باجپائے کو میں نے اولگا کا حال سنایا، اس کا باپ بیجاپور میں سول سرجن تھا اور اڈوانی اس زمانے میں اس کا اسسٹنٹ تھا، اڈوانی کی صورت دیکھی ہے؟ دانت چوتھائی انچ ہونٹوں سے باہر نکلے ہوئے۔ خیر وہ اولگا پر عاشق ہوا تو ایک بات بھی تھی، مگر اولگا کو اس میں کیا خاص بات نظر آئی ہوگی؟ پھر ہزار میں ایک مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ کسی ہندوستان میں رہے ہوئے انگریز افسر کی لڑکی ہندوستانی سے شادی کرے۔ خیر راجہ تم اس سے مل کر خوش ہوگے۔ کہہ رہی تھی ذرا بیمار ہے۔ اسے پیلورسی ہو گئی ہے۔ کرنے کو تو اس نے اڈوانی سے شادی کر لی، اب گھٹ رہی ہوگی۔
چھ بجے کے ذرا بعد، عمداً ذرا دیر سے ہم تینوں وارڈن روڈ پہنچے۔ اولگا نے ہمیں اوپر اپنی خواب گاہ میں بلا بھیجا، چوڑے بستر پر ہلکا سا پلش اوڑھے ہوئے، وہ نیم دراز تھی۔ میں بھی نہیں سمجھتا تھا کہ وہ اتنی بیمار ہوگی کہ اترکے نیچے بھی نہ آ سکےگی۔ اس نے معافی چاہی اور کہا ڈاکٹر نے اسے چلنے پھرنے کی اجازت نہیں دی۔
وہ دو سال پہلے کے مقابل اب دبلی معلوم ہو رہی تھی، مریضہ مگر بڑی ہی دلکش اس کے اوسط ہموار دانت، اس کے مڑے ہوئے ترشے ہوئے ہونٹ، اس کے خدوخال کی دلکشی۔ واپسی پر نذیر اور باجپائے دونوں نے اس کے حسن کا اعتراف کیا۔
نذیر کی سنگھالی، کالی چنگاری کرشنا بید کی آرام کرسی پر نیم دراز آنکھیں آدھی کھلی آدھی بند۔ نذیر کی طرف دیکھ دیکھ کر مسکرا رہی تھی۔ مجھ سے وہ بالکل غافل ہے۔ راجہ صاحب وہسکی اور سوڈا کے سوا اور ہرچیز سے قطعی بے پروا ہیں۔ میں کوشش کر رہاہوں کہ اولگا اور کسی طرف متوجہ نہ ہونے پائے اور اس سلسلے میں ایک مصنوعی احساس برتری، یعنی اصلی احساس کمتری کا شکار ہوں۔
اتنے میں اولگا کا شوہر آتا ہے، کم رو، کم نظر، کم سواد۔ حسن اور بدشکلی کے قبضے میں اور یہاں معاشی توجہیہ نہیں کی جاسکتی۔ یہ تو نفسیات کی غلطی ہے اور دفعتاً میں نے محسوس کیا کہ اولگا بھگت رہی ہے، اپنے ماحول کو بھگت رہی ہے۔ یہ زندگی جس کا اس نے غلطی سے انتخاب کیا اور اس کاغلط انتخاب جس نے اسے فریش کردیا۔ یہ دونوں اس کاخون چوس رہے ہیں۔ ڈاکٹر اڈوانی نے آکے تعارف کے بغیر اپنے مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور پھر اولگانے میرا تعارف کرایا اور میں نے نذیر اور باجپائے کا۔ ڈاکٹر اڈوانی اپنی بیوی کے قریب لیٹ گیا۔ مہمانوں سے اخلاق کی کچھ باتیں کیں۔ اٹھا اور بہانہ کیا کہ کسی مریض کو دیکھنے جانا ہے، وارڈ روپ سے کپڑے نکالے اور نیچے کے کمرے میں جاکے غالباً روز کی عادت کے مطابق سنگترے کی پھانکوں کا آملٹ چائے کے ساتھ کھانے لگا۔
ہم لوگ بھی تھوڑی دیر کے بعد اٹھے، مگر پھر بھی جانے کو جی نہیں چاہتا، کھڑے کھڑے باتیں کرتے رہے۔ کرسمس کا درخت معنوی طور پر مرجھایا ہوا معلوم ہوتا تھا، کمرے پر ایک طرح کی مونث تنہائی طاری تھی۔ صرف کرشنا کی آنکھوں کی سفیدی، اس کی جلد کی سیاہی کے بحر ذخار میں چھوٹے چھوٹے جزیروں کی طرح چمک رہی تھی اور آہستہ آہستہ ہمارے دلوں نے ارادہ کر ہی لیا اور دروازے کے طرف ہمارے قدم واپس ہوئے۔ تنہا خاتون، تنہا کمرے میں تنہا رہ گئی۔ کرشنا کی آنکھوں کی چمک کے باوجود۔
پھر ہم تاج گئے۔ جہاں ہندوستانی وہسکی کے ساتھ بھنی ہوئی مونگ پھلیاں ملتی ہیں اور نیچی کھڑکیاں سمندر کی طرف کھلتی ہیں۔ جہاں ہزمجسٹی کے بحری بیڑے کے کچھ جہاز ابھی تک ہندوستان کے ساحل کی پاسبانی کر رہے ہیں، دروازے کے قریب وسط یورپ کی ایک یہودن ایک گورے چٹے ہندوستانی سے باتیں کر رہی ہے۔ ایک موٹا تازہ، گو آ کا رہنے والا موسیقی کا بادشاہ پیانو بجا رہا ہے، طوفانی انداز میں اور حاضرین اگرچہ کہ زیادہ تر انگریز ہیں، تالیاں بجا رہے ہیں۔ ہزمجسٹی کی بحری فوج کے افسر بہر حال بہ آواز بلند گاگا کے اپنی خوشنودی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہندوستانی وہسکی میرے سر پر چڑھتی چلی جا رہی ہے، لیکن ابھی پیانو خلا میں تیرنے نہیں پاتا کہ راجہ باجپائے کھنکھارتے ہیں اور تھوکنے کے لیے ہار بر بار کے باہر پھولوں کا اسٹال کتابوں کے اسٹال کے اس پار سیڑھیوں کی طرف چلے جاتے ہیں اور بحری افسروں کی گیت کے شور سے الگ اور واضح نذیر کی آواز آتی ہے اب چلنا چاہیے۔
کئی دن بعد کا ذکر ہے، شام کو وہ آئی جس کا نام میں نہیں بتا سکتا۔ سرسری سی ملاقات کے لیے۔ بلند بالا، خوبصورت اور اس کے ہلکے سانولے چہرے پر نمک ہی نمک ہے۔ چہرے پر نمک ہے اور معلوم ہوتا تھا کوئی چیز شکن درشکن ٹوٹ رہی ہے۔ اس کے باوجود اس کے سرخ لبوں، اس کی رَس بھری کالی کالی آنکھوں اور اس کے چہرے کے اس شکن درشکن ’’نمک‘‘ میں کوئی بے آہنگی، بیگانگی نہ تھی۔ وہ یقیناً خوبصورت تھی۔
اسے پر نام کرکے میں ہٹ گیا اور وہ راجہ باجپائے سے باتیں کرتی رہی۔
پھر شام اور گہری ہو گئی تو میری طبیعت بیٹھے بیٹھے اور زیادہ گھبرانے لگی۔ مجھے نواب مہتاب جنگ کی علالت کی اطلاع ملی تھی، خیال کیا کہ انھیں دیکھ آؤں۔ شام گہری ہو رہی تھی اور آفتاب کے نیزے ٹوٹتے جا رہے تھے۔ مہتاب جنگ سیٹھ ہارون یعقوب کے یہاں مہمان تھا، جو آج کل اپنے جوہو والے مکان میں نہیں بلکہ کونیز روڈ والے فلیٹ میں مقیم تھے، جس کے سا منے سے تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد بی بی اینڈ سی آئی کی گاڑیاں کھڑ ر کھڑر کرتی گزر جاتیں اور سڑک پر ہر لمحہ بیسیوں موٹروں کے ہارن برقی مکھیوں کی طرح بھنبھناتے۔
مہتاب جنگ بستر پر رضائی اوڑھے پڑے تھے۔ رضائی سر سے لپٹی ہوئی تھی اور ان کاچہرہ رضائی سے باہر نکلا ہوا بڑا اچھا، بھولا بھالا معلوم ہو رہا تھا۔ ابھی ابھی انہوں نے ڈپتھیریا کا انجکشن لیا تھا۔ کہنے لگے سیٹھ ہارون یعقوب کا بیان ہے کہ ’’اگر بمبئی میں حلق میں ذرا تکلیف ہو یا حلق میں سمیت پیدا ہو جائے تو ڈپتھیریا کا بڑا اندیشہ رہتا ہے۔‘‘
میں نے پوچھا کہ سیٹھ صاحب کہاں ہیں۔ تو معلوم ہوا کہ مالا بار ہل کی طرف گئے ہیں۔ میں سمجھ گیا امجد کے پاس گئے ہوں گے۔ امجد کے ساتھ مل کے وہ گود اوری کے علاقے میں آہنی سامان بنانے کا ایک کارخانہ کھولنے کی تجویزوں میں غرق تھے۔
نواب مہتاب جنگ کہنے لگے، ’’میری عمر ایسی زیادہ نہیں۔‘‘ (ان کی عمر صرف باون سال کی ہے) ’’میں نہ بیکار بیٹھ سکتا ہوں اور نہ اب کسی ریاست میں کام کرنے کی ہمت ہے۔ میرا بھی ارادہ ہے کہ کوئی کاروبار شروع کروں۔ مگر کون سا کاروبار شروع کروں۔ یہ سمجھ میں نہیں آتا۔ یار اس دربار داری نے کہیں کا نہ رکھا۔‘‘
سیٹھ ہارون یعقوب کا یہ فلیٹ بڑا آراستہ پیراستہ تھا۔ تمام فرنیچر آرمی اینڈ نیوی کا بنوایا ہوا۔ سلیقہ ذرا کم ہی کم تھا، مگر شان امارت میں کوئی کمی نہ تھی۔ سیٹھ ہارون یعقوب کا تمدن بھی کچھ اسی قسم کا تھا، مثلاً یہ کہ اردو ان کی مادری زبان تھی، لیکن اردو میں ان کا ہر جملہ ’’اَجون‘‘ سے شروع ہوتا اور ’’آئے لاہے، جائے لاہے، کھائے لاہے‘‘ پر ختم ہوتا۔
سیٹھ صاحب کے فلیٹ سے نیچے جو سیڑھیاں اترتی تھیں، وہ اس مکان کو دیکھتے ہوئے بڑی گندی سی تھیں۔ یہ یقین کرنا بڑا مشکل معلوم ہوتا تھا جو بلڈنگ باہر سے اتنی شاندار ہے اس کی سیڑھیاں اندر سے اتنی گندی ہوں گی۔ یا جس مکان کی سیڑھیاں اتنی گندی ہیں اس میں سیٹھ صاحب کافلیٹ اندر سے اتنے شاندار سامان سے آراستہ کھلےگا۔
ان گندی سیڑھیوں پر ایک کلرک، بالکل کھدر پوش، ایک اور کلرک کی اجلی اجلی سی کھدر پوش بیوی سے باتیں کر رہا تھا، ذرا لگاوٹ کی۔
پونے آٹھ کے قریب سی سی آئی پہنچا۔ خواجہ انور جو، کشمیر کے قالینوں کے بادشاہ خورشید مقدس جی سے باتیں کر رہے تھے۔ جس میز پر وہ بیٹھے ہوئے تھے اس کے قریب سے ایک اور جوڑا گزرا اور انور جو نے مجھ سے ان کا تعارف کرایا۔ رحیم بھائی یہ پہلوان قسم کے بوہرے تھے، مسز زرنگار رحیم بھائی یہ ان کی ذرا بھونڈی سی شکل کی بی بی جی تھیں اور پھر وہ دونوں آگے بڑھ گئے۔ آج شام کو سی سی آئی میں کتنی بہت سی عورتیں تھیں، زیادہ تر دبلی، زیادہ تر پیلی پیلی، زیادہ تر بدشکل۔ چھ قابل برداشت لڑکیاں سرخ سرخ ہونٹوں میں سفید سفید دانت چمکاتی ایک ہی میز کے اطراف بیٹھی تھیں۔ ایک میز اور چھ لڑکیاں۔ حسن اور اس قدر افراط سے اس شام کو ضائع ہو رہا تھا۔
طے یہ ہوا کہ ہم یعنی میں، انور جو اور خورشید مقدس جی تاج محل میں کھانا کھائیں۔ خورشید مقدس جی کے پاس کیا اچھی کیڈلک ہے اور ان کی کیڈ لک میں سوار ہوتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ یا تو میں احساس کمتری کا شکار ہوں، یا خورشید مقدس جی کو کچھ تو احساس برتری ہے اور وہ ہم لوگوں کو جو ان کے اتنے نودو لیتے اور ان کے برابر امیر نہیں، حشرات الارض سے کچھ ہی برتر سمجھتے ہیں۔ تاج محل میں کچھ دیر اوپر برآمدے میں بیٹھ کے دیسی وہسکی پیتے رہے اور سمندر کی ہوا کھاتے رہے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد سرپرستی کے انداز میں خورشید مقدس جی انور جو سے پوچھتے، ’’پھر کیا ہوا انور اعظم۔‘‘ ’’پھر کیا ہوا انور دی گریٹ۔‘‘ خورشید مقدس جی دراصل انور جو کے والد کے دوست تھے۔ وہ ان کی سرپرستی مسکرا کے اور بڑی معصومیت سے شانے ہلاکے سہہ لیتا۔
کھانا ایسا برا نہیں تھا۔ تاج محل ہوٹل ناحق کھانے کے معاملے میں اس قدر بدنام ہے۔ خورشید مقدس جی نے کانٹا سنبھال کے پلیٹ پر رکھا اور عینک سیدھی کی۔ میں نے ان کی عینک کی سیدھ میں تفتیش کی، تو ان کی طرح میری بھی نظر اسی پر رکی۔ وہی سانولی سلونی خاتون جو آج سہ پہر کو راجہ باجپائے سے ملنے آئی تھی۔ دراز قد، اس کے چہرے کا شکن درشکن نمک، اب مسطح ہو چکا تھا، جیسے سمندر سے موجیں مفقود ہو جائیں۔ اس کے ساتھ کوئی اور تھا، ایک امریکن افسر۔ یقیناً اس میں بڑی دلکشی تھی، گجراتی عورتیں عموماً دلکش ہوتی ہیں۔ مگر ان میں یہ سب کی ملکہ معلوم ہوتی تھی۔ مجھے اپنی جانب دیکھ کر وہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ مسکرائی اور خورشید مقدس جی کی عینکوں کی طاقتور دوربین خورد بین بن کر میرا جائزہ لینے لگی، ’’آپ اسے جانتے ہیں؟‘‘
’’ہاں بہت معمولی طور پر۔ ایک آدھ مرتبہ ملاقات ہوئی تھی۔‘‘
’’کون ہے؟‘‘ خورشید مقدس جی نے بیتابی سے پوچھا۔
خورشید مقدس جی جواب کا انتظار کرتے رہے۔۔۔ مجھے اب اپنے احساس کمتری، ان کے احساس برتری کا بدلہ لینا تھا۔ میں انور جُو سے کشمیر کے حالات پر پوچھنے لگا۔
کھانے کے بعد خورشید مقدس جی نے کہا کہ معشوقہ کاہمیشہ اعلیٰ ’’طبقے‘‘ سے تعلق ہونا چاہیے جب تک اچھے طبقے کی لڑکی نہ ہو، عشق بازی میں کوئی لطف نہیں اور اچھے طبقے کی لڑکیاں وہی ہیں جو کلبوں، خصوصاً ولنگڈن کلب میں خورشید مقدس جی کو ملتی ہیں۔
آہستہ آہستہ لی کر کو چکھتے ہوئے خورشید مقدس جی نے کہا، ’’اس معاملے میں کوئی شہر بمبئی کی برابر نہیں کر سکتا۔‘‘ اور پھر گلاس آہستہ سے میز پر رکھ کے انور جو کو مخاطب کرکے اور میری ہستی کو قریب قریب فراموش کرکے انھوں نے کہا، ’’اب تو جنگ کی وجہ سے عاشقی بھی قریب قریب محال ہو گئی ہے۔ ورنہ میں نے میرین ڈرائیو میں ایک فلیٹ لے رکھا ہے۔ گھر پر لڑکیوں کو بلواؤں تو جوتے پڑیں گے۔ اس کے علاوہ اب میری لڑکی کی عمر اٹھارہ سال کی ہورہی ہے۔ خیر تو میرین ڈرائیو کافلیٹ زبردستی لے لیا گیا۔ اب اس میں رائل نیوی کے دو افسر ہیں۔ شہدے، خوب ٹھاٹھ کرتے ہوں گے۔‘‘
اس زمانے میں ۵۵۵ سگریٹ بالکل عنقا تھے۔ خورشید جی نے اپنی جیب سے چاندی کا سگریٹ کیس نکالا جس پر زمانہ ماقبل جنگ کی مملکت آسٹریا کا نقشہ تھا اور اس میں ۵۵۵ بھرے ہوئے تھے۔ بے نیازی سے انہوں نے سگریٹ میری طرف بڑھائے۔ پھر اس کا انتظار کرنے لگے کہ انور جو ان کا سگریٹ جلائے اور پھر ایک کش لے کر انھوں نے کہا، ’’بمبئی کی بات ہندوستان کے کسی شہر میں نہیں آتی۔‘‘
میں نے محض مخالفت کرنے کے لیے کہا، ’’سیٹھ صاحب ہم تو لاہور کے قائل ہیں۔ دیکھیے نا گزشتہ جنگ کے بعد یورپ میں ایک نئی طرح کی لڑکی وجود میں آئی، جو بڑے ہلکے پھلکے کپڑے پہنتی تھی اور مردوں کے دوش بدوش ہر کام میں حصہ لیتی تھی۔ اب تو وہ اور بھی زیادہ سادہ اور مرد کی ہمجولی سی ہو گئی ہے۔ سلیک پہنتی ہے، کوٹ پہنتی ہے۔۔۔کبھی کبھی ٹائی بھی لگاتی ہے۔ سائیکلوں پر چڑھی چڑھی پھرتی ہے۔ ستر میل فی گھنٹہ کی رفتار سے موٹر چلاتی ہے۔ اسی نئی طرح کی لڑکی کو فلیپر کہتے ہیں۔ ہندوستان کے کسی اور شہر میں اب تک فلیپر نے نشوونما نہیں پائی۔ مگر لاہور کی لڑکی فلیپر بن چکی ہے۔ فراک نماقمیص اور سفید شلوار پہنے، دوپٹے کوآرائش کے لیے گلے میں ڈالے وہ مال پر، انارکلی میں، لارنس گارڈن میں کھٹ کھٹ کرتی پھرتی ہے۔ اس میں کوئی جھوٹی زنانہ نزاکت نہیں۔ وہ ٹینس کھیلتی ہے، اسکواش کھیلتی ہے۔ سایکلوں پر ماری ماری پھرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ کہ اسے ذرا آزادی بھی حاصل ہے یہ بات بمبئی میں۔‘‘
’’اجی کیا باتیں کرتے ہو۔‘‘ عرب ڈاربی کے جیتنے والے بوہرہ تاجر خورشید مقدس جی نے میز پر گھونسہ مار کے بات کاٹتے ہوئے بےصبری سے کہا، ’’لاہور، لاہور کیا، ہم بھی لاہور دیکھ آئے ہیں۔ لاہور میں کیا ہے۔‘‘
انور جو نے بڑی معصومیت سے شانے ہلائے۔ وہ بھی شاید کسی زمانے میں لاہور کے حسن کازخم خوردہ رہ چکا تھا اور کہا، ’’نہیں سیٹھ صاحب اس معاملے میں تو ہم بھی لاہور کے قائل ہیں۔‘‘
سیٹھ صاحب نے بالآخر اس بحث کو رفع دفع کر دینے کے لیے کہا، ’’خیر ہوگا، اپنا اپنا تجربہ ہے۔ مگر ہم کو تو بمبئی کی لڑکیوں کے برابر کہیں کی لڑکیاں پسندنہیں اور بھئی بمبئی میں میں نے جتنا مزا اڑایا ہے اتنا تم دونوں نے مل کے لاہور میں نہ اڑایا ہوگا اور تو اور میں تو یورپ بھی ہو آیا ہوں۔ آسٹریامیں وی آنا گیا تھا۔ وہاں کی لڑکیاں اہا ہاہا۔‘‘ وی آنا کے قریب ایک فیکٹری ہے۔ وہاں کی مزدور لڑکیاں سولہ سولہ سترہ سترہ سال کی، سنتروں کی جیسی۔ سب دیکھا ہے لیکن بمبئی کی بات کسی شہر میں نہیں آتی کیونکہ یہاں تو اچھے طبقے کی لڑکیاں نہیں ملتیں اور جب تک لڑکیوں کا ’’طبقہ‘‘ اچھا نہ ہوب ھلا عاشقی میں کیا لطف۔‘‘
رات زیادہ ہو رہی تھی اور قریب کے میزوں سے یکے بعد دیگرے بہت سے جوڑے اٹھ چکے تھے۔ خورشید مقدس جی نے اٹھتے ہوئے کہا، ’’ایکٹریسیں مجھے اسی لیے سخت ناپسند نہیں۔ سب روپے کے درپے ہوتی ہیں۔ ان میں وہ ’طبقہ‘ کی خوبی نہیں ہوتی۔ ضرورت اس کی ہے کہ محبوبہ ہمیشہ اعلیٰ طبقے کی ہو۔ مگر اس کے لیے بہت روپے کی ضرورت ہے۔‘‘
میں صرف جاسوسی ناول پڑھتا ہوں۔ میرے پاس جاسوسی ناولوں کا ذخیرہ ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے میں پہلے تو فورٹ کی کتابوں کی دوکانوں کا چکر لگاتا ہوں، پھر اسٹیشن جاتا ہوں جہاں وہیلر کے بک اسٹال پر مزے مزے کے جاسوسی ناول اکثر مل جاتے ہیں۔ اسٹیشن پر دو سانولی سی اینگلو انڈین لڑکیاں میرے قریب سے ہو کر گزرتی ہیں اور میری طرف دیکھتی تک نہیں، کاش ان دونوں میں سے کوئی ایک میری ہو سکتی۔ ایک پستہ قد موٹی سی عورت مرچ کے رنگ کی ساڑی پہنے، ہونٹوں پر گہری سرخی لگائے اپنا بیگ گھماتی ہوئی کسی کا انتظار کر رہی ہے اور باربار گھڑی دیکھتی ہے۔ میں اس کی طرف گھور کے دیکھتا ہوں، اس کے دانت نظر آ رہے ہیں اور اس کے لبوں پر جو مسکراہٹ ہے وہ شرمیلی سی ہے، سرد ہے اور کسی قسم کا وعدہ نہیں کرتی۔
شام کو میں دادر جانے کے ارادے سے نکلتا ہوں۔ بس کے انتظار میں کھڑا ہوں اوپر جو نظر اٹھا کے دیکھتا ہوں تو جھروکوں اور چبوتروں سے راجہ باجپائے کے تمام نوکر کھڑے ادھر ہی دیکھ رہے ہیں، بوائے، بٹلر، باورچی۔ بس جہاں ٹھہرتی ہے وہاں اسکول جانے والی مرہٹہ لڑکیوں کا ایک بڑا ہجوم ہے، صحت مند، جوان، سانولی جل پریوں کاایک طوفان سا ہے جو امنڈ رہا ہے۔ اتنی سب یہاں کیسے آ گئیں اور بس میں ان کو جگہ کیسے ملےگی۔ اچھا یہ برلا ہاؤس میں گاندھی جی کے درشن کرنے آئی ہوں گی۔ راجہ باجپائے کے نوکر مجھے ان لڑکیوں کی طرف گھورتا دیکھ کر مسکرا رہے ہیں اور میں ان لڑکیوں کی طرف سے منہ موڑ کے کھڑا ہو جاتا ہوں اور سمندر کے جھاگ کے کنارے کنارے امنڈتے ہوئے کوؤں کو دیکھتا ہوں۔
بس آتی ہے اور سرکس کی بازی گروں کی طرح اسکول کی لڑکیوں کا یہ امنڈتا ہوا سیلاب بس کی اوپر کی منزل پر چڑھ جاتا ہے، اوپر کی منزل کھلی ہوئی ہے، چھت غائب ہے اور ہلکی ہلکی خوشگوار دھوپ بڑی اچھی معلوم ہوتی ہے۔ میں بھی انہیں لڑکیوں کے ریلے میں بس کی اوپر کی منزل تک پہنچ جاتا ہوں اور بیٹھنے کے لیے جگہ ڈھونڈ رہا ہوں، ادھر دیکھتا ہوں تو ادھر راجہ باجپائے کے نوکر ابھی تک میری طرف دیکھ کے مسکرا رہے ہیں، دوسری طرف گردن پھیرتا ہوں تو کوئی میرا نام لے کر پکارتا ہے اور اس ہجوم میں کوئی میری آستین پکڑ کے اپنے پاس بٹھا لیتا ہے۔ یہ میجر نذیر ہے۔ اس کی آنکھیں شرارت سے چمک رہی ہیں۔
ایک عورت جوان لڑکیوں کی بڑی استانی ہے، بار بار ان سے مرہٹی میں کچھ نہ کچھ کہہ رہی ہے، ایک ادھیڑ عمر کا مرد جو بڑی اجلی دھوتی اور سفید کھدر کا کرتا پہنے ہے اس کا بھی ان لڑکیوں اور ان کے مدرسے سے ضرور کچھ نہ کچھ تعلق ہے، بڑی استانی کو رجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
نذیر شرارت سے مسکرانے لگتا ہے اور پوچھتا ہے، ’’کدھر کا ارادہ ہے؟‘‘
’’دادر کا!‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’بس ایسے ہی سنا ہے وہاں کوئی ریستوراں ہے جہاں تمام فلم اسٹار جمع ہوتے ہیں۔ اس ریستوراں کو ڈھونڈھنے جا رہا ہوں۔‘‘
’’کیا وقت خراب کر رہے ہو۔ اجی جتنی ایکٹرسوں سے ملنا چاہو۔ راجہ باجپائے سے کہو وہ تمہیں ملا دےگا۔‘‘
’’نہیں، اس خیال سے نہیں۔ یوں ہی ذرا ان کی زندگی دیکھنے جا رہا ہوں۔‘‘
نذیر نے کہا، ’’اچھا زندگی دیکھنے کا شوق کب سے شروع ہوا؟‘‘
’’اور تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘
’’سنیما۔‘‘
’’ہرگز نہیں۔‘‘
’’اچھا ہاربر بار جا رہا ہوں۔ بس۔‘‘
میں چرنی روڈ پر اتر جاتا ہوں۔ اسٹیشن کا پلیٹ فارم بہت غلیظ ہے اور چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں کے سوا ہندوستان میں اسٹیشنوں کے پلیٹ فارم، کہاں غلیظ نہیں ہوتے۔ ایک عجب طرح کی مرکب بدبو مسافروں کے ہجوم، فرش اور دیوار و در سے آ رہی ہے۔ مکھیوں کے ہجوم ہر چکنائی کے دھبے پر بھنبھنا رہے ہیں اور اتنے میں بی بی اینڈ سی آئی کی کھڑکھڑاتی ہوئی لوکل بھی آہی جاتی ہے۔
اس لوکل ٹرین میں سیکنڈ کلاس کا ڈبہ کھچا کھچ بھرا ہے۔ مگر ایک مسلمان تاجر، سیاہ فراک کوٹ پہنے، زری کی دستارسی باندھے، تن وتوش ضرورت سے بہت زیادہ فربہ داڑھی گالوں پر چھدری چھدری مگر ٹھوڑی کے نیچے کافی بڑی، ٹائمز آف انڈیا ہاتھ میں دبوچے، کھڑے ہوئے مسافروں کے زمرے سے نکل کے ایک سیٹ کی طرف بڑھتا ہے اور گھس کے بیٹھ جاتا ہے، جو مسافر اس بنچ پر پہلے سے بیٹھے تھے جن میں ویک آئی کی ایک ادھیڑ افسر بھی تھی، اس کی طرف گھور کے دیکھتے ہیں، مگر سب اس کی اس کامل با اطمینان بدتمیزی سے مرعوب ہیں۔
دادر غلیظ مقام ہے۔ آج اسٹیشن سے ذرا آگے ہی سڑکوں کی روشوں پر میلہ لگا تھا۔ مرہٹیں جن کے رنگ ہلکے زیتونی سے لے کر گہرے سرمئی تک مختلف انواع کے تھے مگر سب کے سب نمکین، دھوتی پہنے ترکاری بیچنے والوں، کنجڑوں اور خوانچہ فروشوں سے سودا چکا رہی تھیں۔ ہرجگہ مرہٹی بولی جاتی تھی اور سیواجی پارک قریب تھا میں میلے کا تماشا دیکھتا ہوا سیواجی پارک کی طرف ہو لیا۔ جہاں وہی سبز رنگ کا ریستوراں ہے۔ راستہ میں کئی لوگوں سے پتہ پوچھا۔ ایک صاحب پتلون پر نیم آستین قمیص پہنے چلے جا رہے تھے۔ کہنے لگے ’’نہ میں کبھی ہندوستانی فلم دیکھتا ہوں نہ ہندوستانی فلمی ستاروں کے نام مجھے معلوم ہیں نہ میں اس سبز ریستوران سے واقف ہوں جہاں یہ سب جمع ہوتے ہیں۔ میں انشورنس ایجنٹ ہوں۔ اگر جیب میں کچھ ٹکے ہوں تو اپنی زندگی کا بیمہ کرا لیجیے۔‘‘
ایک جگہ موڑ پر ایک پان سگریٹ کی دوکان نظر آئی اور پان سگریٹ لینے میں ٹھہر گیا۔ پان والے سے میں نے پوچھا، ’’بھیا یہاں کوئی ایسا ریستوراں ہے جس کے دروازے اور دیواریں ہری ہیں اور جہاں فلموں میں کام کرنے والے لوگ آتے ہیں۔‘‘
پان بیچنے والے لٹھ مار الہ آبادی بھیا نے کہا، ’’ہاں جرا اُدھر سامنے کی طرف چلے جاؤ۔ وہ کیا ایرانی ہوٹل ہے۔ بس وہیں یہ سنیما والے جمع ہوتے ہیں۔‘‘
اور فی الحقیقت بالکل قریب وہی ایرانی ریستوران تھا۔ بظاہر اس میں کوئی خاص بات نہیں تھی، بالکل ایسا ہی تھا جیسے بمبئی کے اور ہزاروں ایرانی ریستوراں، دیواروں پر آئینے اور آئینوں کے حاشیوں پر موٹے رنگ کے دھبوں سے نقش و نگار۔ میزوں کے اطراف چھوٹی چھوٹی کرسیاں۔ میزوں کے تختے سنگِ مرمر کے اور ان پر ہزاروں مکھیاں وہی کھانا کھلانے والے چھوکرے، دو ہاتھوں پر تین تین چار چار رکابیاں سنبھالے ہوئے، ان چھوکروں کے ہاتھوں میں میلے کپڑے جن سے وہ ہر نئے گاہک کے آنے پر میز کا سنگِ مرمر صاف کرتے ہیں۔ وہی ٹماٹو کی چٹنی اور سیاہ مرچ اور نمک۔
یہ شام کا وقت تھا اور گاہک قریب قریب مفقود تھے۔ ہوٹل کا منیجر بڑے اطمینان اور غرور سے ہاتھ پر ہاتھ دھرے ’’سالا چھوکرا لوگ‘‘ پر حکمرانی کر رہا تھا۔ اس کا سفید ڈک کا پتلون بالکل شفاف تھا اور سفید قمیص صرف گردن کے قریب پسینے کی وجہ سے ذرا ملگجی ہوگئی تھی۔ منیجر کے قریب کیپ سٹن سگریٹوں کا ڈبہ ہاتھ میں لیے ایک اور نوجوان بیٹھا تھا جس کے آگے بہت سے اخبارات پڑے ہوئے تھے۔ میں سوچنے لگا۔ یہ صاحب فلم اسٹار تو نہیں؟ اخباروں سے یہ صاحب غالباً بہت دیر پہلے فارغ ہو چکے تھے اور اب یکے بعد دیگرے کیپ سٹن کے ڈبے سے سگریٹیں نکالنے اور ان کو دھواں بناکر اڑانے میں مصروف تھے۔ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ ایک آدھ منٹ کے لیے کوئی اخبار اٹھا لیتے اور اسے پھر اپنی جگہ رکھ دیتے اور کبھی کبھی منیجر صاحب سے ایک آدھ بات کر لیتے۔ مگر وہ اور منیجر صاحب دونوں خوشگوار خاموشی کا لطف اٹھا رہے تھے۔
ایک مکعب گوشے میں، یعنی لکڑی کے کابک میں ایک جوڑے کے ہنسنے اور بات کرنے کی آوازیں آ رہی تھیں۔ میں نے کہا یہ ضرور فلم اسٹار ہوں گے اور یہ کیپ سٹن اور اخبار والا تو فلم اسٹار تو کیا، فلموں کے منشی یا مصنف قسم کا کوئی انسان ہوگا اور میں غور سے پھر اس جوڑے کی ہنسی اور باتوں کی آواز سننے لگا جو اس لکڑی کے ڈبے میں چوں چوں کر رہا تھا۔ محض ان دونوں کی صورت دیکھنے کے لیے میں نے چائے کی ایک پیالی اور دوسڑی گلی پیسٹریاں ختم کرنے میں آدھا گھنٹہ لگا دیا۔ منیجر نے میری طرف ایک نظرے خوش گزرے ڈالی اور پھر مجھ نووارد کو بالکل بےضرر، بےخطر سمجھ کے اپنے ساتھی نوجوان سے باتیں کرنے لگا۔
اور اتنے میں وہ لکڑی کی کابک والا جوڑا باہر نکلا۔ مرد ڈک کے پتلون اور جالی دار رنگین بش شرٹ میں اور عورت چہرے پر، ناخونوں، ہونٹوں پر سرخی جمائے گندمی رنگ مگر جوان اور اچھی خاصی قبول صورت۔ منیجر کی طرف دیکھ کے وہ مسکرائی اور منیجر نے اس کی مسکراہٹ کا اس طرح جواب دیا کہ گویا وہ اس سے بہت زمانے سے، بہت اچھی طرح واقف ہے مگر اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
میں سوچنے لگا معلوم نہیں یہ لڑکی فلم اسٹار ہے، فلم اسٹار بننے والی ہے یا اکسٹرا بنے اس کے ساتھ جو سرطان صورت آدمی ہے وہ تو کوئی اعلیٰ فلم اسٹار نہیں معلوم ہوتا۔ ممکن ہے تصویر کش ہو، مصنف ہو۔ بھئی یہ اتنی دور کا سفر بیکار ہی ہوا۔ ایک فلم اسٹار بھی نظر نہ آیا۔
باہر نکل کے میں پھر پان والے بھیا کی دوکان پر پہنچا۔ اس نے ایک پان بنا کے میرے حوالے کیا۔ میں نے کہا، ’’بھیا وہاں فلم اسٹار تو فلم اسٹار فلم کے چوہے بھی نہیں۔‘‘ بھیا کہنے لگا کہ ’’نہیں۔ موتی لال اور چودھری اکثر وہاں آتے ہیں۔ قریب قریب روز۔‘‘ اور اتنے میں سامنے ہی ایک بڑی سی موٹر ٹھہری، اس میں سے ایک صاحب گلابی رنگ کا زرق برق بش شرٹ پہنے اترے۔ پان والے نے کہا، ’’دیکھو چودھری یہی ہیں۔‘‘
میں جلدی سے آگے بڑھا اور چودھری صاحب نے سر سے پاؤں تک مجھے ذرا چڑ کے استفہامیہ نظر سے دیکھا مگر جب میں نے اپنا تعارف کرایا اور یہ بتایا کہ میں مالا بار ہل پر راجہ باجپائے کا مہمان ہوں تو بڑی مشکل سے صبر کرکے انہوں نے کہا، ’’بڑی خوشی ہوئی ارشاد۔‘‘ چودھری صاحب کے دانت پان کی شدت سے بہت میلے ہو رہے تھے۔ بہرحال انھوں نے بڑی نوازش کی اور فرمایا، ’’ہر روز وہ صبح و شام اس ریستوراں کو آتے ہیں‘‘ اور مجھے دعوت دی کہ میں یہیں آکے ان سے ملوں۔ میں نے اپنا ٹیلیفون نمبر بتانا چاہا تو انھوں نے کہا، ’’اجی نہیں صاحب یہاں کسے اتنی فرصت ہے کہ آپ کو ٹیلیفون کرتا پھرے آنا ہو آ جائیے ورنہ خدا حافظ۔‘‘
یہ کہہ کے انھوں نے سرپر ہاتھ رکھا اور ریستوراں کے اندر جا پہنچے، جہاں کا منیجر میری طرف ناپسندیدگی اور غور سے دیکھ رہا تھا۔
بس فلم کے ستاروں کے درشن کی حد تک اس روز مجھے صرف اسی قدر کامیابی ہوئی لیکن اسی طرح میں ان کی زندگی دیکھنا چاہتا تھا۔ بھلا اس میں کیا لطف کہ ایک پارٹی دے کے راجہ باجپائے آسمان سیمیں کے دو درجن ستاروں کو بلا بھیجیں۔ پھر ایک گندی سی بس میں، جس میں گنجائش سے زیادہ بھیڑ میں بوری بندر پہنچا اور وہاں سے میرین ڈرائیو جانے کے لیے وکٹوریا لی شام کے وقت بمبئی کی سڑکوں پر وکٹوریا میں سفر ایک خاص کیفیت رکھتا ہے۔ دو رویہ کئی کئی منزلوں کے درمیان، شام کی مہلک فضا میں اور بہت سے جانداروں، کئی طرح کی مرکب حرکت کے ساتھ ساتھ انسان کو اپنے مقید اور مجبور ہونے کا احساس ہونے لگتا ہے اور یہ اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک چرچ گیٹ کے قریب سمندر کی پہلی جھلک نظر نہیں آ جاتی۔ لیکن سمندر پر نظر پڑتے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ دو رویہ عمارتیں انسان کو قید نہیں کر سکتیں، نہ بے کیف شام اسے اسیر کر سکتی ہے، اس میں تفریح اور آزادی کی اتنی ہی وسعت ہے، جتنی بےکنار سمندر میں۔
وکٹوریا والے کو پیسے دے کے میں اترا ہی تھا کہ راجہ ہریش چندر نظر آئے۔ یہ راجہ باجپائے کے رشتے کے بھائی ہیں، عمر میں ان کے آدھے ہیں اور ابھی ابھی ان کی شادی ہوئی ہے، ان کی رانی بھی ساتھ تھیں۔
ان کی رانی کا چاکلیٹ کا سا رنگ تھا، سر کے بال چکنے اور بنے ہوئے اور ہونٹ پتلے اور دونوں سروں پر ایک قدرتی طنز کے انداز میں جھکے ہوئے۔ بچاری بہت دبلی پتلی تھیں اور سینہ اس عنفوان شباب کے عالم میں اندر کی طرف دھنسا ہوا۔
’’ارے تم۔۔۔؟‘‘
رانی نے اپنے پتلے طنزیہ لبوں سے متبسم ہوکے، ہاتھ جوڑ کے نمستے کہا۔ راجہ ہریش چندر پر تنی ہوئی شیروانی بہت زیب دے رہی تھی اور میرن ڈرائیو کی روش پر سے گزرنے والی گجراتی لڑکیوں کی آنکھیں کبھی کبھی لمحے بھر کے لیے ان کی شیروانی سے اٹک جاتیں، پھر ان کے چہرے کی طرف ایک لحظہ کے لیے اٹھیں، پھر سر سے قدم تک ان کا جائزہ لے کے دوسرے لمحے ان کو بھول کے اپنا راستہ لیتیں۔
پریشین ڈائری میں ٹھنڈی کافی پی کے ادھر ادھر کی مہمل چیزوں کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ رانی صاحبہ بھی کبھی کبھی کچھ کہتیں، ہنستی، پھر سمندر کی طرف دیکھ کے سوچ میں کھو جاتیں اور ان کے ماتھے کی بندی مدھم پڑ جاتی۔
ریس کورس پر حسن ہی حسن ہوا میں اڑتے ہوئے ساڑھی کے پلوؤں میں حسن، سر سے ڈھلکتے ہوئے آنچلوں میں حسن، سڈول جسموں کے اطراف لپٹی ہوئی ساڑیوں کی شکنوں میں حسن۔ رنگوں میں حسن، چہروں میں حسن، کٹی ہوئی لہراتی ہوئی زلفوں میں حسن، نیلی شربتی کالی آنکھوں میں حسن، چمکتے ہموار دانتوں میں حسن، ہاتھوں کے ہلانے، زبان کے ہلانے میں ہونٹوں کی جنبش، قدموں کی رفتار میں حسن۔ میں گھوڑدوڑ کیا خاک دیکھوں۔
راجہ صاحب ہزاروں کی شرطیں کھیل رہے ہیں۔ کبھی کبھی میرے جیب سے بٹوہ نکال کے اس میں سے روپے نکال کے لے جاتے ہیں اور پھر کچھ زیادہ روپیہ لاکے مجھے دے دیتے ہیں۔ بھئی میزبان ہو تو راجہ باجپائے کا ساہو۔ ہر چیز کی، ہر بات کی فکر۔ راجہ باجپائے گھوڑدوڑ میں مجھے ڈھونڈھ نکالیں گے۔ مگر میں ان کو نہیں ڈھونڈھ سکتا۔ فیشن ایبل انسانوں کے اس ہجوم میں وہ پارہ ہیں، سیماب ہیں۔ ابھی یہاں، ابھی وہاں ان کا ڈھونڈھنا ناممکن ہے۔ نذیر کہہ رہا ہے۔ وہ کیا راجہ صاحب کھڑے اس سنیما ایکٹرس سے باتیں کر رہے ہیں اور ایکٹرس سر سے بار بار ساڑی کا آنچل گراکے ہنس ہنس کے بجلیاں گرا رہی ہے۔ جوان ہے، شاداب ہے، اس کا جسم ذرا بھاری ہے اور جب ہنستی ہے تو اس کی بوٹی بوٹی پڑی تھرکتی ہے اور ایک لکھنوی جوان بڑے ہی بڑھیا سوٹ میں کچھ دور کھڑا اپنے ساتھی سے کہہ رہا ہے، ’’دیکھ رہے ہو، مار ڈالا ظالم نے، ہائے ماتھے پہ بندی، بوٹا سا قد۔‘‘
ایرانی لڑکیوں کی فصل کی فصل کھڑی ادھر دیکھ رہی ہے، جہاں گھوڑے پھرائے جا رہے ہیں اور ابھی ابھی مہاراجہ بردوان ڈیڑھ میل والی دوڑ جیت چکے ہیں۔ ان ایرانی لڑکیوں کے ساتھ سب سے زیادہ سیاہ پوش ایک معمر خاتون ہے۔ اس کی بے عیب فارسی میری سمجھ میں نہیں آتی۔ مگر اس کی انگریزی بھی بے عیب ہے۔ اس سے گفتگو کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ پہلے تو یہ کہ کس گھوڑے پر شرط لگائی جائے یہ مجھے کیا معلوم البتہ راجہ باجپائے نے میری کتاب پر کچھ نشانات بنا دیے۔ معمر ایرانی خاتون ان نشانات کو نقل کر لیتی ہے اور پھر اپنی ساتھ والی ایک لڑکی سے کچھ کہتی ہے۔ یہ لڑکی بھی سیاہ پوش ہے، مگر اس کی سیاہ آنکھوں کی چمک غمی کی نہیں اس میں رس ہی رس، کشش ہی کشش ہے۔ اس لڑکی کے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی میں شادی کی انگوٹھی ہے، قبضے کی مہر۔ پھر بھی اس کی آنکھیں کسی کی ملکیت نہیں بن سکتیں، ان میں شیراز کی شراب ہے۔ جو جام سے چھلکی جاتی ہے، ان میں آب رکنا باد کی، زندہ رود کی شفآف چمک ہے۔ میری ٹوٹی پھوٹی فارسی پر وہ شائستگی سے مسکراتی ہے اور پھر ہمت افزائی کے لیے فارسی ہی میں جواب دیتی ہے۔ جملے میں دو ایک لفظ میری سمجھ میں آ جاتے ہیں اور پھر معمرخاتون ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگتی ہے۔ معمر خاتون کا شوہر تیس سال تک بمبئی میں درآمد برآمد کا کاروبار کرکے خدا کے پاس جا پہنچا۔ اسی لیے یہ ایرانی خاندان سیاہ پوش تھا۔ لیکن بھلا کہیں گھوڑدوڑ سے مفر ممکن ہے۔ اسی جمگھٹ میں ایک اور زیادہ کمسن لڑکی ہے جس کی آنکھیں غزالی ہیں۔ بالکل ہرنوں کی سی آنکھیں، مگر اس کی ٹھوڑی بھی غزالوں کی سی ہے اورمیری سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے خوبصورت قراردوں یا بدشکل۔
ایک پارسی لڑکی آکے ان سب سے باتیں کرنے لگی۔ اس کا قد بلند اور نازک تھا۔ وہ ہری ساڑی پہنے تھی اور بڑی حسین معلوم ہوتی تھی۔ ایک سنہرے بالوں والی ہندو لڑکی قریب سے ہوکر نکلی، جس کے چہرے پر غازے یا سرخی کا خفیف سا دھبہ بھی نہ تھا اور اسی لیے اس کے چہرے سے بڑی غیرمعمولی قدرتی ملاحت ٹپکتی تھی۔
میں نے خورشید مقدس جی کی دعوت پر ان کے ساتھ چائے پی۔ انگریزی میں وہ سیٹھ ہارون یعقوب سے کہہ رہے تھے، ’’اجی سر ایوب خاں کی اندھیری والی کوٹھی میں ایک پارٹی کا انتظام کیوں نہ کریں۔ مگر ذرا بے تکلف لوگوں کو بلائیں گے۔ راجہ باجپائے کو بلائیں گے اور اپنے ان حیدر آبادی دوست کو۔‘‘ اور یہ کہہ کے بڑی سرپرستی کے انداز میں انھوں نے میری طور اشارہ کیا، ’’اور انور جو کو، نواب اور بیگم مہتاب جنگ کو، اب مہتاب جنگ کیسے ہیں؟‘‘
’’اب تو اچھے ہیں۔‘‘ سیٹھ صاحب نے انگریزی ہی میں جواب دیا۔
’’اس میں موتی لال کو بھی بلا ہی لیں گے۔ بیگم پارہ اور پروتیما داس گپتا کو بھی بلالو۔ ہارون تم کو معلوم ہے میں سنیما کی ایکٹرسوں سے نہیں ملتا۔ مگر یہ لڑکیاں اچھے طبقے کی ہیں۔ لیکن ممتاز جہاں کونہیں بلائیں گے۔ وہ سب سے زیادہ خوبصورت ہے۔ میں نے مانا، مگر لڑکی کم سے کم متوسط طبقے کی تو ہو۔ بڑی مشکل یہ ہے کہ میرا اسٹیوارڈ چلا گیا ہے، اس کی وجہ سے تمام بٹلر بےقابو ہو رہے ہیں۔ نوکروں میں کوئی انتظام باقی نہیں رہا۔ سب سے زیادہ ضرورت تو ایک اسٹیوارڈ کی ہے۔‘‘ اور مجھ سے مخاطب ہوکے خورشید مقدس جی نے پھر اسی سرپرستی کے انداز میں کہا: ’’مہاراجہ کارومنڈل کو میں نے آج بے تکلفی سے کاک ٹیل پینے کے لیے ولنگڈن بلایا ہے۔ تم بھی آجاؤنا، بلکہ یہیں سے میرے ساتھ چلے چلو۔‘‘
چائے پی چکنے کے بعد میں ادھر ادھر پھر کے دیکھنے لگا۔ ایک پنجابی لڑکی، بھاری بھرا ہوا جسم، موٹے دعوت دیتے ہوئے سرخ سرخ ہونٹ، ایک بڑے کم رونیاز مند سے شوہر کے ساتھ ساتھ تیز تیز چلی جا رہی تھی۔ میں نے اس کی طرف گھور کے دیکھا تو برا مانے بغیر سوالیہ انداز میں اس کی آنکھوں نے پوچھا ’’کیوں، کیا اس سے پہلے آپ سے ملاقات کا شرف کبھی حاصل ہوا ہے؟‘‘
نواب علی امداد خاں بھی تھے۔ گھوڑدوڑ اور شرطوں میں بہت منہمک۔ ان کے ساتھ ساتھ ان کی نوجوان بیگم صاحبہ۔ تروتازہ چہرے اور سرخ ہونٹوں میں چمکتے ہوئے سفید دانت مسکراہٹ مگر وہ دوسری خواتین کے ہجوم ہی میں زیادہ تر شامل رہتیں۔ نواب امداد علی خاں البتہ بڑے اہتمام سے ہر دوڑ میں ہر گھوڑے کی خصوصیات، اس کے جاکی کے ماضی اور حال کے کارناموں، ہر گھوڑے کے وزن، اس کی تربیت کرنے والے کے ہنر، اس گھوڑے کے مالک کے اصطبل اور ایسی بہت سی تفصیلوں کو اچھی طرح جانچنے کے بعد گھوڑے کا انتخاب کرتے، کبھی ’’ون‘‘ نہ کھیلتے، ہمیشہ ’’پلیس‘‘ کھیلتے اور اس پر بھی کبھی سو روپیہ سے زیادہ کی شرط نہ لگاتے اور اس طرح قریب قریب ہر دوڑ میں جیتتے۔ تھوڑا ہی جیتتے مگر ضرور جیتتے۔ یہ سبق انھوں نے بہت کھوکے سیکھا تھا اور اب اپنے اصطبل کو وہ بڑے سائنسی انداز سے چلا اور بڑھا رہے تھے۔
اس شام کو میں خورشید مقدس جی اور انور جو کے ساتھ ولنگڈن میں بیٹھا وہسکی پی رہا تھا اور ثقیل ثقیل سنبو سے کھا رہا تھا۔ باہر میزوں کے اطراف ہلکا سا اندھیرا تھا اور اندر زوق برق ساڑیوں، یا متین کالے اور سیاہ فراکوں میں عورتیں مسکراتی ہوئی، سانسیں پھولی ہوئی مردوں کے ساتھ ناچ رہی تھیں۔ ایک ٹھنگنا سا کالا آدمی، معمر، یقیناً پنشن یافتہ، ایک جوان یعنی ایک تیس سال کی لڑکی کے ساتھ ناچ کے فرش کی طرف جا رہا تھا۔ یہ لڑکی اس کی کون ہوگی۔ لڑکی؟ شلوار پہنے تھی یعنی بمبئی میں ریس کورس کا فینسی ڈریس۔ اس کی بیٹی؟ نہیں اس نے تو اس لڑکی کو چمٹا کے ناچنا شروع کیا۔ لڑکی کا قد اس سے آٹھ انچ زیادہ بلند ہے اور عمر میں وہ اس سے تیس سال چھوٹی ہے، یقیناً یہ اس کی محبوبہ ہے۔ کوئی لڑکی جو محض ولنگڈن کلب میں ہفتے کی شام کی بہار دیکھنے اس کے ساتھ آئی ہے، شاید وہ ماہیم یا دادر کی طرف کسی اسکول میں پڑھاتی ہے یا کسی ہسپتال میں نرس ہے یا اس کا باپ نچلے متوسط طبقے کا آدمی ہوگا اور ممکن ہے وہ اس ٹھنگنے سے بوڑھے کالے آدمی کا ماتحت، منشی ہو۔
میں نے خورشید مقدس جی سے پوچھا تو وہ انگریزی میں کہنے لگے، ’’تم ان لوگوں کو نہیں جانتے۔ یہ پھڈ کے اور مسز پھڈکے سب سے پہلا ہندوستانی تھا جو سی سی ایس ریلوے میں چیف کمرشل منیجر کے عہدے تک پہنچا اور یہ اس کی دوسری بیوی ہے۔ یہ بھی بڑے اچھے خاندان کی ہے، اس کا باپ پولیس کا ڈپٹی کمشنر تھا اور تم نے بوڑگاؤں کر کا نام سنا ہوگا نا جو سیپرس اور مائنرس میں تھا، جسے وکٹوریا کراس ملی، بچارا اندھا ہو گیا۔ یہ اس کی بہن ہے۔‘‘
میں نے کہا، ’’مگر یہ تو عمر میں بہت چھوٹی ہے، پھر ذرا اس کی صورت دیکھیے اور اس بوڑھے کو دیکھیے۔ حور کے پہلو میں لنگور۔‘‘
’’اجی ایسا تو ہوتا ہی رہتا ہے۔‘‘ خورشید مقدس جی نے کہا۔ ’’مگر وہ اچھے طبقے کی تو ہے۔ اصلی چیز یہ ہے لڑکی اچھے طبقے کی ہو خواہ وہ بیوی بنے یا معشوقہ۔ اچھا ذرا معاف کرنا۔ ادھر مسز کرسٹ جی بیٹھی ہے۔ میں ذرا ایک ناچ ناچ کے آتا ہوں۔ کہو تو تم کو بھی کسی اچھی لڑکی سے ملادوں۔ اس سے ملتے ہو؟‘‘
یہ کہہ کے خورشید مقدس جی نے ایک پارسی عورت کی طرف اشارہ کیا۔ جس کی ساڑی کا بارڈر اس کے چہرے سے زیادہ حسین تھا، ایک امریکن ملاح افسر کے بازو پر لٹکی ہوئی وہ ناچ کے فرش کی طرف چلی جا رہی تھی۔
’’نہیں معاف کیجیے۔ میں انور جو سے باتیں کرتا رہوں گا۔‘‘
’’ہا۔ ہا۔ ہا‘‘ خورشید مقدس جی اپنی دانست میں اپنے بے مثل مذاق پر خوش ہوکے آہستہ آہستہ ہنسے اور پھر مسٹر اور مسز کرسٹ جی کے میز کی طرف جا نکلے۔
باہر جہاں ہم بیٹھے ہوئے تھے سبزہ بڑا خوبصورت تھا اور لان پر میز ہی میز تھے میں نے انور جو سے باتیں کرتے کرتے ادھر ادھر گردن گھما کے دیکھا۔ عورتیں بڑے خوش وضع لباسوں میں تھیں۔ بمبئی کی تجارت اس کی تہذیب پر اتنی چھائی ہوئی ہے کہ عورت اور مرد کے رشتے میں بھی تجارت کا ذرا تعلق سا ہے اور لکھ پتی تاجر اور کارخانوں کے مالک جب ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو ایک ایسی بین الاقوامیت لیے ہوئے جس کی تہہ میں گجرات اور بمبئی ہے۔ بمبئی کی تہذیبی رسم سورت میں کمپنی بہادر کے کارخانوں اور سالسٹ اور بیسن کی ہے۔ پارسی ہندو اور مسلمان، گجراتی اور مرہٹے، خوجے، بوہرے اور میمن، اتنے تمدن، اتنے آئین و رسوم اور یہ سب اس تجارتی بین الاقوامیت میں گم ہو جاتے ہیں، جس کا نام بمبئی ہے۔
ناچ کے بعد خورشید مقدس جی، مسز کرسٹ جی کے ساتھ مسٹر کرسٹ جی کو بھی اپنے ہی میز پر لے آئے۔ مسز کرسٹ جی چھوٹی سی تھی، ذرا پھیلی ہوئی، دانتوں کے درمیان ذرا ذرا سی جگہ خالی اور عمر کی دوپہر کا آغاز تھا۔ مسٹر کرسٹ جی بڑے نیاز مند قسم کے لوگ تھے۔ بات کم کرتے، ٹھہر ٹھہر کے کرتے اور بات کرنے سے پہلے سوچ لیتے کہ کوئی حماقت کی بات تو نہیں کر رہے ہیں، پھر بھی زیادہ تر باتیں ایسی ہی کرتے جن میں اگر حماقت کو زیادہ دخل نہیں تھا تو عقل مندی بھی زیادہ نہیں ہوتی تھی۔
سنبھل سنبھل کے، ٹھہر ٹھہر کے انھوں نے انور جو سے اس کا پیشہ دریافت کیا اور پھر اپنے گھر کے عجائبات کا ذکر کرنے لگے۔ ان کے دادا نے سورت میں کمپنی بہادر کے ساتھ ساتھ ترقی کی تھی اور ان کے والد کو سرکا خطاب ملا تھا۔ اگر دانشمندی سے اتنے زیادہ معذور نہ ہوتے تو موجودہ کرسٹ جی کو بھی سر کاخطاب کب کا مل گیا ہوتا۔ انہوں نے انورجو کو اپنے گھر کے عجائبات دکھانے کے لیے گھر چل کے وہسکی پینے کی دعوت دی اور ساتھ ہی ساتھ خورشید مقدس جی کو اور مجھے بھی مدعو کیا ہے۔ خورشید مقدس جی نے گجراتی گفتگو کا مطلب ہمیں سمجھایا اور اب سوا آٹھ ہو رہے تھے، گھر کی طرف جانا تو تھا ہی۔ کلب کے باہر اپنی نیلی بیوک کے دروازے کے پاس خورشید مقدس جی بڑے شاہانہ انداز سے کھڑے ہو گئے، ایک پیر پر گھوم کے دروازہ کھولا۔ مسز کرسٹ جی پیچھے کی نشست پر بیٹھنے لگی تو انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا، وہ ٹھہر گئی اور مسٹر کرسٹ جی بڑی ہی روادار شائستگی سے مسکرائے۔ مسز کرسٹ جی سامنے کی نشست پر بیٹھ گئی اور خورشید مقدس جی نے اسٹیرنگ وہیل سنبھالا۔ ہم سب پیچھے بیٹھے اور وارڈن روڈ ہوتے ہوئے ہارکنس روڈ کی طرف چلے، جہاں کرسٹ جی کا سوسال پرانا مکان تھا۔
تی تانیو کی ایک آرا میدہ زہرہ تھی، جس کے متعلق رک رک کے، ٹھہر ٹھہر کے مسٹر کرسٹ جی نے ہم سب کو یقین دلایا کہ یہ اصل ہے اور اس کے دادا اسے بولو نیا سے خرید کے لائے تھے۔ پھر مسٹر کرسٹ جی نے ہم سب کی صورتیں دیکھیں، خورشید مقدس جی ایک صوفے کی آڑ میں مسز کرسٹ جی کا ہاتھ مروڑ رہے تھے اور ہم لوگوں کو تو یہ معلوم ہو رہا تھا کہ تصویر کا رنگ و روغن ذرا نیا نیا سا ہے اور یہ اصل نہیں بالکل حال حال کی نقل ہے۔ لیکن یوں مجھے تصویروں کی زیادہ پہچان بھی نہیں۔
بہرحال ایک چیز ضرور دلچسپ تھی، سنگ مرمر کے میز پر کمرے کے ایک سرے پر ایک منقش چوبی پردے کے آگے، انیسویں صدی کی بنی ہوئی ایک بڑی سی گھڑی رکھی تھی، اس کے متعلق بہت تامل اور انکسار سے کرسٹ جی نے کہا کہ یہ ایک فرانسیسی کمپنی نے ترکی کے کسی سلطان کے لیے بنوائی تھی۔ اوپر ایک سنہرا ہلال تھا اور ڈائل پر فرانسیسی عبارت ترکی نما حروف میں لکھی ہوئی تھی اور بھی کئی چھوٹی چھوٹی چیزیں بڑی دلچسپ تھیں۔ برک آبریک چینی گل دان، جے پور کے سنگ مرمر کے کھولنے، پرانی تصویریں، فرنیچر لوئی چہاردھم کے زمانے کی نقل تھا اور کرسٹ جی نے انکسار سے دونوں ہاتھ مل کے اور پھر ایک ہاتھ پتلون کی جیب میں ڈال کے کہا۔ یہ سب سامان میرے دادا پہلے کرسٹ جی کا فراہم کیا ہوا ہے جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں سورت میں۔۔۔ پھر ان کا لہجہ انکسار، خاکساری اور مصنوعی شرمیلے پن سے اس قدر مدھم ہوگیا کہ باقی الفاظ صاف سنائی نہیں دیے۔ صوفے کے پیچھے خورشید مقدس جی نے مسز کرسٹ جی کا ہاتھ پھر مروڑا اور مسز کرسٹ جی آہستہ سے اپنا ہاتھ چھڑا کے ہٹ آئی۔
خورشید مقدس جی نے کہا، ’’دیکھو میں آبان (یہ مسز کرسٹ جی کا نام تھا) سے کہہ رہاتھا۔ تمہارا نام کرسٹ، اصل میں خورشید ہے۔ یہ کرسٹ خورشید کا انگریزی تلفظ ہے نا؟ سورت میں ایسٹ کمپنی کے زمانے میں تمہارے دادا نے یہ تلفظ بنا لیا ہوگا۔ تو دیکھو مینو (یہ مسٹر کرسٹ جی کا نام تھا) ہم بھی خورشید تم بھی خورشید اور خورشید پارسیوں کے لیے مقدس ہے۔ اس لیے ممکن ہے کہ ہمارے باپ دادا بھی کسی زمانے میں پارسی ہوں۔
اتنے میں بٹلر وہسکی کی بوتل اور سوڈا بنانے کا شیشہ لایا۔ دوسرا بٹلر اس عجائبات سے بھرے ہوئے ڈرائنگ روم سے مناسبت رکھنے والی ایک چینی کی کشتی میں کٹ گلاس کے خوش وضع کام کے گلاس لایا۔ مسز کرسٹ جی میزبانی کے فرائص انجام دینے لگیں۔ سب کے لیے انھوں نے ایک ایک گلاس میں ’’بڑا‘‘ پیگ انڈیلا اور بٹلر ہم لوگوں کے سامنے گشت کرنے لگا۔
کٹ گلاس پر بجلی کا قمقمہ کئی جگہ سے چمک رہا تھا۔ کسٹ جی نے اپنے گلاس سے ایک چھوٹے سے آٹھ انچ کے مجسمے کی طرف اشارہ کیا اور ہم سب اس جسمے کے اطراف جمع ہو گئے۔ یہ کرسٹ جی کے سورت والے پردادا کا چھوٹا سا سنگ مرمر کا مجسمہ تھا۔ قدیم پارسی لباس اور ٹوپی، مکمل، اتنی خوبصورتی اور نزاکت سے بنا ہوا کہ شال کے کشمیری نقش و نگار بھی سنگ مرمر کے اس چھوٹے سے مجسمے پر ترشے ہوئے تھے۔
مسٹر کرسٹ جی ذرا ذرا احمق ضرور ہے، مگر وہ غرور اور تصنع اور اکڑ جو خورشید مقدس جی ایسے نودو لتیوں میں ہے، اس میں نہیں اور بہرحال اس میں خورشید مقدس جی سے بہت زیادہ ہے۔ کیوں کہ جب وہ اپنے دادا کا مجسمہ دکھا رہا تھا تو خورشید مقدس جی وہسکی کے ہلکے ہلکے سرور میں کسی سے مخاطب ہوئے بغیر آپ ہی آپ آہستہ آہستہ ہنس رہے تھے۔ ’’با۔ ہا۔ ہا۔‘‘ اور ان کی ہنسی یقیناً کرسٹ جی کو ناگوار گذر رہی تھی۔
مسز کرسٹ جی بات چیت کی حد تک بہت سلجھی ہوئی تھی، بڑی شائستہ مگر مجھے تو وہ بڑی غیر دلکش معلوم ہو رہی تھی۔ معلوم نہیں خورشید مقدس جی کو اس میں ’’اعلیٰ طبقے‘‘ کے سوا اور کون سی کشش نظر آتی تھی۔
وہسکی کے نشے میں میں اپنی فیلٹ ہیٹ وہیں مسٹر کرسٹ جی کے ہیٹ اسٹینڈ پر بھول آیا اور واپسی پر اپنے میزبان راجہ باجپائے سے جو کھانے پر ابھی تک میرا انتظار کر رہے تھے، میں نے کہا، ’’راجہ کرسٹ جی بیوقوف ضرور ہے، مگر اچھا بیوقوف، یعنی اس سے دوبارہ ملنے کو طبیعت چاہتی ہے۔‘‘
’’اور مسز کرسٹ جی؟ خورشید مقدس جی تو اس پر بہت مرتا ہے۔‘‘
سوپ پیتے ہوئے میں نے منہ بنایا اور راجہ باجپائے اپنے دانتوں میں خلا ل کرنے لگے۔
وہ ڈبہ جس میں بیٹھا ہوا میں جوگیشوری جا رہا تھا بی بی اینڈ سی آئی کا اچھا خاصا سیکنڈ کلاس کا ڈبہ تھا۔ اخبار کے پیچھے ایک شخص کا ہاتھ پھر اس کا منہ نظر آیا۔ ہاتھ اور منہ دونوں پر جذام کے داغ تھے۔ مرض کا پھیلنا ضروری ہے۔ پانچ انگریز افسر تھے، سب کے سب کپتان۔ ان کے ساتھ تین پارسی لڑکیاں تھیں۔ آٹھویں کے ساتھ نہانے کے جوڑے تھے۔ آج اتوار کا دن تھا اور یہ سب کے سب جوہو جا رہے ہوں گے۔ ایک غنڈہ جذامی کے پاس آکے بیٹھ گیا اور تینوں پارسی لڑکیوں کی طرف گھورنے لگا۔ پارسی لڑکیوں نے منھ پھیر لیا اور اپنے ساتھی انگریز کپتانوں سے باتیں کرنے لگیں۔
جوگیشوری کے اسٹیشن پر میں اُترا اور مسافروں کے ہجوم سے ذرا الگ میں نے دیکھا کہ چالیس سال کا ایک لنگڑا جس کے دونوں پاؤں سوکھے اور مڑے ہوئے ہیں، بارہ برس کے ایک لڑکے کی پیٹھ پر سوار ہے۔ معلوم نہیں یہ لڑکے کا باپ ہے، ماموں ہے، چچا ہے، کون ہے۔ بوجھ اٹھائے ہوئے بارہ برس کے لڑکے پر ابھی سے بڑھاپے کے آثار ہیں، اس کے ماتھے پر جھریاں پڑنی شروع ہو گئی ہیں۔ آنکھیں زرد اور مردہ سی ہیں اور ان کے اطراف سیاہی ہے۔ پیر تسمہ پا کا شکنجہ اس کے کاندھوں پر کسا ہوا تھا۔
باوجود اس کے کہ میں بیکار ہوں اور ایسی باتوں پر غور نہیں کیا کرتا۔ پھر بھی اس عجیب منظر کو دیکھ کے میں ٹھٹک سا گیا۔ ایک دن اس بارہ برس کے لڑکے کو دفعتاً یہ معلوم ہو جائےگا کہ وہ اس پیر تسمہ پا کے بوجھ سے آزاد ہو سکتا ہے۔ وہ اس کو چھوڑکے کہیں بھاگ جائےگا اور یہ لنگڑا چوہے کی طرح سسک سسک کے، رینگ رینگ کے مرےگا۔
پنچ محل تک وکٹوریا کا کرایہ دو روپیہ ہوا۔ جنگ سے پہلے وکٹوریا والا بارہ آنے لیتا تھا۔ پنج محل کی دیواریں دس دس فیٹ اونچی ہیں اور چور آنا چاہے تو نقب لگا کے آئے۔ دس فیٹ اونچی دیوار پر گھاس اگی ہوئی ہے۔
اک ملاح لڑکا جو کوکب کابھائی نکلا، وکٹوریہ والے کی آواز سن کے پھاٹک کے قریب دیکھنے آیا کہ کون ہے۔ اس ملاح لڑکے کو کمیشن مل کے شاید ابھی تھوڑے ہی دن ہوئے تھے۔ اس کی سفید وردی صاف شفاف چمک رہی تھی۔ مسٹر حسین نے ’’آہا‘‘ کہہ کے خیر مقدم کیا۔ میں ابھی کوکب سے کہہ رہا تھا کہ اور سب نے تو آج آنے کاقطعی وعدہ کیا تھا۔ صرف آپ کے آنے کا کچھ ٹھیک نہیں تھا۔
عورتوں کا انبار کا انبار تھا۔ ایک ناریل کے درخت کے نیچے دوعورتیں ایک سوزنی پر دراز تھیں، ایک پارسی عورت ان کے قریب بیٹھی ہوئی کچے ناریل کا پانی آہستہ آہستہ پی رہی تھی۔ دومنزلے مکان کے سائے میں ایک قالین بچھا ہوا تھا جس پر ایک تیس سال کی لڑکی، اپنی دونوں ہتھیلیوں کو تکیہ بنائے لیٹی آسمان کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ملاح لڑکا اس کے قریب جاکے بیٹھ گیا۔ تین کرسیوں پر مسٹر حسین کے ساتھ، دو اور آدمی بیٹھے تھے۔ انھوں نے ایک کا تعارف رستم بھائی کہہ کے کرایا اور پھر مسز رستم بھائی کی طرف اشارہ کرکے تعارف کرایا، دو کچا ناریل کھاتے کھاتے مسکرائی۔ رستم بھائی کے ساتھ دوسرا آدمی جو تھا، اس کو میں نے فوراً پہچان لیا۔ یہ وہی پستہ قد کم رو آدمی تھا، کسی ریلوے کا وظیفہ یاب چیف کمرشل منیجر جس کو میں نے کل شام ولنگڈن کلب میں دیکھا اور پھر جیسے ہی مسٹر حسین نے تعارف کراتے ہوئے مسٹر اور مسز پھڈ کے کہا۔ مجھے دفعتاً خیال آگیا کہ یہ تیس سال کی عورت جو مکان کے سائے میں قالین پر لیٹی ہوئی اپنی دونوں ہتھیلیوں کا تکیہ بنائے آسمان کی چوندھیا دینے والی روشنی کی طرف دیکھ رہی ہے، مسز پھڈ کے ہے، جو اپنے شوہر کے ساتھ شلوار پہنے ہوئے کل و لنگڈن کلب میں ناچ رہی تھی اور میں نے خورشید مقدس جی سے کہا تھا، ’’حور کے پہلو میں لنگور۔‘‘
کوکب نے اٹھ کے مجھ سے ہاتھ ملایا اور مسٹر حسین نے مذاق میں کہا، ’’اور اگر آپ ان سے واقف نہیں تو میں ان سے آپ کا تعارف کراتا ہوں۔ یہ میری بیوی کو کب ہیں۔‘‘ میں ہنسا، کوکب ہنسی۔ اس نے ایک کچا ناریل مجھے بھی دیا اور کہا، ’’میں ان سے اس زمانے سے واقف ہوں، جب میں آپ سے ملی بھی نہ تھی اور آپ سے شادی کرنے کا خیال میرے ذہن میں آنے بھی نہ پایا تھا۔‘‘
ایک ہلکا سا تاریک سایہ، کڑی دوپہر میں ہلکے سفید ابر کے سائے کی طرح چھاکر مسٹر حسین کے چہرے پر سے گزر گیا۔ مسٹر رستم بھائی ہان کاؤ اور نانکنگ کے قصے سنا رہے تھے، جہاں ریشم کی تجارت میں انھوں نے عمر کا بڑا حصہ گزارا تھا۔
کوکب روپہلی اشرفیوں کا بلاؤز اور سادی جارجٹ کی سفید ساڑی پہنے تھی۔ اس کے چوڑے، گورے، حسین چہرے پر شباب کی تازگی تھی اور اس کی آنکھوں سے جھوٹ اور ریا کی جھلک مٹتی جا رہی تھی۔ کیسی غلطی، کیسی بڑی غلطی اس نے کی تھی۔ وہ صابن کے جھاگ اور بلبلوں کے پیچھے دوڑتی رہی اور اس کی آنکھوں پر پٹی کس کے، زندگی اُسے دھکہ دے کے بازو سے نکل گئی۔
میرے دل میں بھی کانٹا ٹوٹ گیا تھا اور کسک باقی رہ گئی تھی۔
تعارفوں کا سلسلہ ختم نہیں ہوا تھا۔ وہ دوعورتیں جو مسز رستم بھائی کے قریب لیٹی ہوئی تھیں، مسز سنگھ اور مس چند تھیں۔ ان میں سے مس چند کم سواد، کم رنگ، کم رو رستم بھائی کی باتیں غور سے سن رہی تھی۔
اور رستم بھائی یانگ چاؤ کی خوبصورت جھیل کا حال سنا رہے تھے، جس کا مقابلہ مسٹر پھڈ کے لن یوٹانگ کے ناولوں کے بیانات سے کر رہے تھے۔
مسٹر حسین مجھ سے ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے اور پھر جب ہم رستم بھائی کی طرف متوجہ ہوئے تو وہ یانگ چاؤ کی جھیل میں کشتی رانی چھوڑ کے جاپان سے ہندوستان ریشم بھجوا رہے تھے۔ ان کی باتوں میں بڑی انسانیت، متانت اور شرافت تھی اور مسٹر رستم بھائی مجھے پسند آئے۔ ان میں بڑی ہی شائستگی تھی جو نہ ہندوستان کی تھی نہ بمبئی کی جو انھوں نے غالباً چین میں سیکھی تھی، کچھ اسی طرف کی شائستہ سنجیدگی۔
مسز رستم بھائی کے متعلق معلوم ہوا کہ وہ کبھی چین نہیں گئیں۔ مسٹر پھڈ کے چین تو نہیں انگلستان میں البتہ کئی سال رہے تھے اور کہتے تھے کہ ایک زمانے میں وہ فی بین سوسائٹی کے ممبر بھی تھے۔
مجھ سے نہیں رہا گیا۔ تھوڑے ہی دن ہوئے میں نے روس کے متعلق ایک موٹی تازی کتاب پڑھی تھی جو راجہ صاحب نے مجھے بڑی تاکید سے پڑھنے کے لیے دی تھی۔ اسی کی بنا پر رستم بھائی اور مسز پھڈ کے کے سامنے میں نے دعویٰ کر دیا کہ میں بھی ذرا روس تک ہو آیا ہوں۔ میں بالشویکوں کے طرزِ حکومت کی تعریف کر رہا تھا اور کوکب حیرت سے میرے سفید جھوٹ سن رہی تھی۔ اسے اچھی طرح معلوم تھا میں نے کبھی ہندوستان سے باہر قدم نہیں رکھا۔ مگر میں تھا کہ ماسکو اور کیف اور وسط ایشیا کی داستانیں سناتا ہی جا رہا تھا اور مسٹر پھڈ کے منھ کھولے ہوئے سن رہے تھے۔ مسٹر رستم بھائی بےاعتباری سے ایک بار مسکرائے۔ مگر زبان سے اخلاقاً کچھ نہیں کہا۔ میں نے اپنا سفر لینن گراڈ سے شروع کیا، ماسکو پہنچا، کیف پہنچا اور پھر سمرقند اور مرد آکردم لیا۔ جہاں پہاڑ تھے وہاں دریا بسادیے، جہاں دریا تھے، وہاں ریگستان پھیلادیے اور مسٹر حسین نے انگریزی میں تو نہیں اردو میں آہستہ سے کہا۔
’’جہاندیدہ بسیار گوید دروغ۔‘‘
میں ان کے اس شعر کوان سنا کرکے مسٹر پھڈ کے کوسو ویٹ روس کی خاندانی زندگی اور جنسی عیاشی کے حیرت ناک قصے سناتا جا رہا تھا اور کوکب میزبان کی بیوی کی حیثیت سے ہنسی ضبط کرکے کچے ناریل سب کو دیتی جا رہی تھی۔
اتنے میں مہمانوں کے دو اور جوڑے آئے۔ دونوجوان بش شرٹ پہنے ذرا رنگارنگ قسموں کی، ان کے ساتھ دونوجوان خواتین تھیں۔ ان میں سے ایک یقیناً خوبصورت تھی مگر اسے حمل کا کوئی چھٹا ساتواں مہینہ ہوگا۔ دوسری کے ہونٹ موٹے تھے، مگر بڑی اعلیٰ درجے کی بنارسی ساڑی پہنے تھی۔
اب باہر بیٹھنے کی جگہ ذرا کم تھی۔ کوکب سب خواتین کو اپنے ساتھ سمیٹ کے مکان کے اندر لے گئی۔ اس کے جانے کے بعد پنچ محل کے صحن میں خلا ہی خلا تھا۔
خواتین کے جاتے ہی گفتگو کارخ بدل گیا۔ جو دو نوجوان ابھی ابھی آئے تھے ان میں سے ایک صاحب آغا خانی تھے اور میزبان کے اس اعتراض کا جواب دے رہے تھے کہ جن ہیروں میں آغا خاں تولے جانے والے ہیں۔ ان کے لیے غریبوں نے بھی چار آنے مہینہ چندہ دیا ہے اور مسٹر پھڈ کے مہاراجہ بھینسواڑ کے دیوان کا ذکر کر رہے تھے کہ وہ ہر ماہ شراب اتنے روپیوں کی پی جاتے ہیں کہ اس سے ایک چھوٹا موٹا ہسپتال کھولا جاسکتا ہے اور بھینسواڑ کے لوگوں کو تو چبینہ میسر نہیں اور یہاں مہاراجہ کے گھوڑے ہیں کہ۔۔۔
اتنے میں مسٹر حسین دونوں نووارد نوجوان کو کوئی جنسی لطیفہ سنانے لگے، جس پر دونوں قہقہہ مار کے ہنسے۔ ان نوجوانوں میں سے دوسرا مسٹر خان مدراسی تھا۔ مگر اردو اس صفائی سے بولتا تھا جیسے کوئی یو-پی کا رہنے والا بولے۔ کہنے لگا وسیم کے نام سے اردو میں مختصر افسانے لکھ لیتا ہوں جو اکثر ’’گلشن‘‘ دہلی میں شائع ہوتے ہیں۔ وہ سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی سے مل چکا تھا اور ان کے مداحوں میں سے تھا۔
پھر اس موضوع پر گفتگو ہونے لگی کہ جنگ کی وجہ سے بمبئی میں مکان اور فلیٹ نہیں ملتے۔ ’’پگڑی‘‘ دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ سینکڑوں کی جگہ ہزاروں کی پگڑی دو، تب کہیں جاکے کوئی فلیٹ لو۔ سب نے اس رائے سے اتفاق کیا کہ جنگ کے بعد کپڑوں کے متعلق باتیں کرنے لگے۔ اصلی ریشم کے متعلق جس کی پہچان یہ ہے کہ جب دھویا جائے تو پیلا پڑ جائے۔ شارک اسکن کے متعلق جو لکڑی کو کوٹ کے بنایا جاتا ہے۔ شارک اسکن سے مسٹر خان کو بڑی دلچسپی تھی اور انھوں نے پچیس روپے فی گز تک شارک اسکن خریدا تھا۔ اپنی کرسی انھوں نے مسٹر رستم بھائی کے قریب کر لی اور غور سے شارک اسکن کے ملنے کے امکانات پر غور کرنے لگے۔ یہ گفتگو ناقابل برداشت ہوتی جا رہی تھی۔ کوکب کے بغیر خلا ہی خلا تھا۔ میں نے ناریل کے اونچے درخت کی پھنگی کی طرف دیکھا اور شارک اسکن ک متعلق گفتگو کی عام سطح سے بلند ہونے کی کوشش کی، یہاں تک کہ میزبان کی خاتون نے سیڑھیوں پر سے چلاکے کہا، ’’چائے تیار ہے۔‘‘
چائے اچھی تھی، بہرحال دیر ہو رہی تھی، چائے پینے سے سرکا درد جاتا رہا۔ کئی طرح کے کیک تھے، پیسٹریاں تھیں اور کھانے کے دوران میں میں زیادہ تر مسٹر خان سے باتیں کرتا رہا۔ کبھی شارک اسکن کے متعلق اور کبھی ان کے اپنے افسانوں کے متعلق۔ ڈرائنگ روم بڑا اچھا سجا ہوا تھا۔ برآمدے سے نمکین، مسطح، کالی زمین پر ناریل کے درختوں کے جھنڈ بڑے خوبصورت معلوم ہو رہے تھے۔ کسی نے بمبئی کا قلابہ عدن سے جا ملایا تھا۔ واپسی پر مسٹر رستم بھائی، مسٹر پھڈ کے (جو روس کے مزید حالات سننا چاہتے تھے) اور مسٹر خان نے میرا ٹیلیفون نمبر مانگا اور میں نے راجہ باجپائے کا ٹیلیفون نمبر بتا دیا۔ سب کے جانے کے بعد مسٹر حسین نے مجھے روک لیا۔ میں، ملاح کا لڑکا، کوکب اور مسٹر حسین باہر صحن میں بید کی کرسیوں پر بیٹھے۔ میں نے مسٹر رستم بھائی کی تعریف کی۔ مسز رستم بھائی بھی بڑی شائستہ عورت معلوم ہوتی تھی۔ میں نے بےخیالی میں کہا، ’’مگر دونوں کی عمروں میں بڑا فرق ہے۔‘‘
’’دونوں کی عمروں میں بڑا فرق ہے، پھر بھی دونوں ایک دوسرے سے بہت خوش ہیں۔‘‘ کوکب نے یہ کہا اور اس کی آنکھ میں ایک چنگاری سی بجھتی ہوئی معلوم ہوئی۔ مسٹر حسین کے چہرے پر سفید بادل کا ٹکڑا ایک لمحہ کے لیے سایہ ڈال کے ذائب ہو گیا اور ان کی کنپٹی کے کھچڑی کھچڑی بال ان کی پھیکی مسکراہٹ کی دھوپ میں چمکنے لگے۔
راجہ باجپائے مجھ سے بہت دنوں سے کہہ رہے تھے کہ یونیورسٹی کا نووکیشن ہال میں ایک بین الاقوامی نمائش ہے۔ اس کا دیکھنا اس لیے ضروری ہے کہ پچاس فیصدی دعوتوں میں اس کا ذکر ہوتا ہے۔ راجہ باجپائے نے کہا، ’’چلو اسے دیکھ آئیں، ورنہ دعوتوں میں جب نمائش کے متعلق گفتگو ہوتی ہے تو مجھے جاہلوں کی طرح خاموش بیٹھے رہنا پڑتا ہے۔ میں بڑا جاہل اور ان پڑھ محسوس کرتا ہوں۔‘‘
لیکن راجہ باجپائے اس روز نمائش دیکھنے گئے جب میری دعوت مسٹر اور مسز حسین کے یہاں تھی۔ میں ان کے ساتھ نہ جا سکا۔ وہ واپس آئے تو اپنے تمام مہمانوں سے کھانے پر بار بار نمائش کا ذکر کرتے اور اب میری اپنے آپ کو ان پڑھ اورجاہل محسوس کرنے کی باری تھی۔ میں نے خیال کیا کہ چلو اس نمائش کو دیکھ ہی آئیں کچھ دیر نے پیین سی روڈ پر بس کا انتظار کیا۔ پھر ارادہ کیا کہ ذرا اوپر چڑھ کے والکے شر روڈ سے دوسری بس کا انتظار کیوں نہ کروں۔ بس اسٹینڈ پر چار پانچ منٹ تو میں اکیلا کھڑا رہا۔ اتنے میں ایک پینتیس سال کی پارسی عورت آئی۔ سوکھے ہوئے ہونٹ جن پر اس نے سرخی نہیں لگائی تھی، اچھی خاصی مگر ایسی زیادہ خوبصورت بھی نہیں۔ کوئی پینتیس سال کی عمر ہوگی۔ میں نے بس کے متعلق گفتگو شروع کی اور اس نے جواب دیا۔ پھر وہ ذرا اور کھلی۔ اس نے بتایا کہ پونا میں بچوں کو پڑھایا کرتی تھی۔ اب نیس پین روڈ پر ایک بڑے پارسی گھرانے میں لڑکیوں کو سکھانے پر نوکر ہے۔ بس آج بیس منٹ دیر سے آئی اور اس اثنا میں وہ کبھی باتیں کرتی، کبھی خاموش ہو جاتی۔ یہاں تک کہ دو ایک پارسی بوڑھیاں آئیں اور صاحب جی کہہ کے وہ ان سے باتوں میں لگ گئی۔ بس آئی، میں نے غلطی یہ کی کہ اسی کی سیٹ پر اس کے پاس نہیں بیٹھا۔ دوسری بنچ پر بیٹھا۔ اس سے رخ بدل گیا۔ معاملہ بگڑ گیا۔ ہم جب فلورا فونٹین کے قریب پہنچے تو پھر اجنبی بن چکے تھے اور بس میں معلوم نہیں کس ترکیب سے ایک کملے کیڑے کا بچہ میرے کوٹ کی سیدھی آستین پر چڑھ گیا۔ ایک لالہ صاحب جو میرے پاس بیٹھے تھے انھیں یہ بہت ناگوار گزرا اور انھوں نے مجھے چھوٹے سے دشمن کی خبر دی۔ میں نے کمل کیڑے کو جھٹکا تو وہ نشست پر گرا اور لالہ جی کپڑے جھٹک کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں نے کیڑے کو نیچے پھینک دیا۔ مگر لالہ جی نے دوبارہ بیٹھنے سے انکار کر دیا۔ ’’نہیں جی، ہم ادھر اترنے مانگتا۔‘‘
کانووکیشن ہال میں نمائش تھی۔ بین الاقوامی نمائش سے مجھے کیا خاک دلچسپی ہوتی میں تو ان لڑکیوں کو دیکھنے آیا تھا جو نمائش دیکھنے آئی تھیں۔ تین چھوٹی سی مرہٹہ لڑکیاں ایک لانبی اور ذرا ویران ویران صورت کی، دوسری متوسط قد کی مگر بہت کالی، تیسری پستہ قد اور خوش رو آئیں اور دربان ان سے حجت کرنے لگا کہ اپنی کتابیں یہیں چھوڑتی جاؤ۔ شاید اسکول کی لڑکیاں تھیں، ان کی سمجھ میں نہیں آیا۔ میں نے صورت حال سمجھائی کہ یہ نمائش کا قاعدہ ہے۔ لانبی لڑکی شکریے کے طور پر مسکرائی۔ نمائش کے اس حصے میں جہاں وسط ہند کی آثار قدیمہ کی کھدائیوں کی تصویریں تھیں، ہندوستان کے متعلق اور بعض بہت غیر متعلق کتابیں تھیں۔ ہوئی ڈاک کے لفافے اور ٹکٹ تھے، مغل راجپوت اسکول اور رابندرناتھ ٹیگور کی جدید تصویریں تھیں، جیرارڈ کے بنائے ہوئے نقشے او رچھوٹے چھوٹے تانبے اور پتھر کے مجسمے تھے، میں ایک اسٹال سے دوسرے اسٹال کی جانب تینوں مرہٹہ لڑکیوں کے پیچھے پیچھے پھرتا رہا۔ اس تعاقب میں ایک پارسی پروفیسر خلل انداز ہوا جس نے زبردستی مجھے مخاطب کرکے ویریرایلون کا ذکر چھیڑ دیا۔ ویر یرایلون نے ایک گونڈ عورت سے شادی کی تھی، یہ اس پارسی پروفیسر کو بہت ناگوار تھا۔ پارسی پروفیسر سے چھٹکارا حاصل کرکے میں پھر ان تینوں مرہٹہ لڑکیوں کے پیچھے پیچھے ایک اسٹال سے دوسرے اسٹال کی جانب پھرنے لگا۔ میں نے پستہ قد اور خوش رومرہٹہ لڑکی سے موقع دیکھ کے ہندی کے لسانی نقشے کے متعلق محض بات کرنے کے لیے پوچھا۔ وہ کہنے لگی یہ حروف کا ارتقا ظاہر کرتا ہے اور میں اس کے لبوں کی حرکت دیکھتا رہا۔ دوسرے اسٹال پر میں نے پھر موقع دیکھ کر اس لڑکی کو چارلس جیرارڈ کے اس نقشے کا مطلب سمجھانا چاہا جس میں آرٹ کی تاریخ کا خلاصہ تھا۔ وہ مسکراکے آگے بڑھ گئی۔ میں ایک اسٹال کے بعد دوسرے اسٹال کو ان تینوں کے ساتھ پھرتا رہا۔ یہاں تک کہ کچھ اور مغل تصویریں نظر آئیں جن کے نام درج نہیں تھے۔ میں نے پستہ قد خوش رو مرہٹہ لڑکی سے موقع پاکے پوچھاکہ آپ کے پاس جو فہرست ہے اس میں شاید ان تصویروں کے نام ہوں۔ اس نے ورق الٹے پلٹے اور کہنے لگی نہیں فہرست میں بھی نام نہیں۔ پھر کہنے لگی میں نے فہرست اس لیے خریدی تھی کہ اس سے مدد ملے گی مگر یہ تو بالکل بیکار ہے۔ یہ کہہ کے وہ ہنسی اور اپنی سہیلیوں کے ساتھ نمائش کے باہر چل دی۔ میں نے اپنے دل میں کہا، تین تین لڑکیوں کا تعاقب کتنی حماقت ہے۔ یہ اکیلی ہوتی یا ان تینوں میں سے کوئی لڑکی اکیلی ہوتی تو شاید رسم و راہ کی صورت نکل سکتی۔ مجبوراً دل کو تسلی دینے کے لیے چینی نمائش میں چینی جیڈ اور جیڈ کا بنا ہوا ایک گل دان دیکھتا رہا۔ ایک چینی نمائش دیکھنے والوں کو نیم موسیقانہ لہجے میں گلدان کے تاریخی اسرار و رموز سمجھا رہا تھا۔
کاوس جی جہانگیر ہال جاتے میں تینوں مرہٹہ لڑکیاں پھر دکھائی دیں۔ مگر اب ان کا تعاقب مجھے تضیع اوقات معلوم ہوا۔ کاوس جی جہانگیر ہال کے دروازے پر پارسی لڑکیاں مسکرا مسکرا کے نمائش کا مرقع بیچنے کے لیے بڑھیں۔ میں نے بڑی لاچاری سے منھ بناکے اپنی جیبوں کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ ’’نہیں‘‘ وہ ہٹ گئیں اور ان میں سے ایک دوسری سے مخاطب ہو کے کوئی نیا امریکن گیت گنگنانے لگی۔ ثقافتی نمائش میں ایک شمال یا وسط یورپ کی لڑکی دیہاتی کپڑے پہنے ہوئے ایک داڑھی والے پول سے باتیں کر رہی تھی۔ کچھ دور پر ناروے کا پہلا قنصل جنرل اسی پارسی پروفیسر سے، جس کو ویریر ایلون کی شادی پر اعتراض تھا، باتیں کر رہاتھا۔ ’’ہاں برگن کے لوگ بڑے خوبصورت ہوتے ہیں۔۔۔ ہاں بےشک بےشک۔ بڑے مہمان نواز مگر اوسلو کے لوگ نہیں، نہیں۔ جب سے جنگ شروع ہوئی، میں ہی۔۔۔ ہاں آپ ٹھیک کہتے ہیں۔۔۔ میں ہی، میں ہندوستان میں ناروے کا پہلا قنصل جنرل ہوں۔‘‘
بعض عجیب عجیب ’’مجموعے‘‘ تھے۔ ایک پکا کانگریس والا یا شاید کمیونسٹ قسم کا نوجوان ایک بڑی خوبصورت سیاہ بالوں والی اینگلو انڈین لڑکی کے ساتھ پھر رہا تھا۔ ناروے کے اسٹال پر اس نے اپنی ساتھی حسینہ سے کہا، ’’چلو، یہاں سے چلیں۔ ناروے میں بڑی سردی ہے۔‘‘ ناروے کا قنصل جنرل ان دونوں کی طرف دیکھ کے ذرا مسکرایا اور پھر پارسی پروفیسر سے باتیں کرنے لگا۔ اس کانگریس والے کھدر پوش اور سیاہ بالوں والی اینگلو انڈین لڑکی کے ساتھ مثلث کی تکمیل کے لیے ایک نیم سفید سے چمڑے کا نوجوان تھا جو ممکن ہے کہ براعظم یورپ کا یہودی ہو یا شاید بمبئی ہی کا کوئی اینگلواینڈین نوجوان ہو۔ وہ اس لڑکی کی بچی کھچی توجہ اپنی طرف منعطف کرنے میں کوشاں تھا۔
پھر ٹینس کے دو ریکٹ تھے۔ ٹینس کی ریکٹوں کے ساتھ دونوں نوجوان لڑکیوں کی کمریں بھی ذرا ذرا لچک جاتیں۔
پھر جب پریاں رخصت ہونے لگیں تو ایک ادھیڑ عمر عورت نے جو بڑی بیش قیمت بنارسی ساڑی پہنے تھی مجھ سے پوچھا کہ چین کہاں ہے۔ میں نے کہا۔ ہندوستان اور چین کے اسٹال تو کانووکیشن ہال میں ہیں۔ پھر اس نے مجھ سے کہا کہ سویڈن کا اسٹال کہاں ہے۔ میں اشارے سے بتانے لگا تو اس نے کہا، ’’میں سمجھی نہیں۔‘‘ مجبوراً میں اسے سویڈن کے اسٹال تک لے گیا۔ اسے پہنچا کے میں واپس آنے لگا تو وہ کہنے لگی، ’’یہاں تو کچھ بھی نہیں۔‘‘ کنگ ہاکون اور اس کا ولی عہد دونوں تصویروں سے اس کی طرف دیکھتے ہی رہ گئے۔ میں نمائش کے باہر جانے لگا تو وہ کہنے لگی، ’’میں اور سب اسٹال دیکھ چکی ہوں۔ اگر آپ کہیں جانا چاہتے ہیں تو میں آپ کو پہنچا دوں۔‘‘ جو گاڑی اس کے سامنے کھڑی تھی ۱۹۳۸ء کے ماڈل کی رولس رائس تھی۔ مگر اس ادھیڑ عمر کی عورت کے پاؤڈر اور رنگ سے لپے ہوئے چہرے اور اس کے لباس میں سینٹ کی تیز مصنوعی خوشبو سے مجھے کچھ ایسی گھن معلوم ہوئی کہ میں نے شکریہ ادا کیا اور اپنی جان چھڑا کے بھاگا۔
میرین ڈرائیو پر ایک میلا سا لگا ہوا تھا۔ گجراتی، مرہٹے، پٹھان، خوجے، میمن، بوہرے، پنجابی، عرب، یہودی، انگریز، مرد، عورتیں، بچے، غریب، خوش حال، امیر اور سمندر، سمندر، سمندر۔
میں نے طے کیا کہ میراجی بھر گیا ہے۔ اب کل راجہ باجپائے سے اجازت لے کے حیدرآباد واپس جاؤں گا۔ بیکاری کیسی عجیب زنجیر ہے، ایک شہر سے دوسرے شہر کو بھاگو مگر وہ ساتھ ساتھ ہے۔ تمام بیکاریوں سے زیادہ مہلک ذہنی بیکاری۔
سال بھر کے بعد حیدرآباد میں پھر اسی ذہنی بیکاری سے اکتاکے میں بمبئی آیا۔ اب ہنگامے ہو رہے تھے۔ کانگریس نے آئی۔ ان۔ اے کے لیے ہنگامہ کیا۔ کمیونسٹ پارٹی کا دفتر لوٹا گیا اور ان کا چھاپہ خانہ توڑا گیا۔ مسلم لیگ نے رشید ڈے منایا۔ ہندوستانی بحریے نے بغاوت کی اور مجھے یقین ہو گیا کہ اب شاید میری اور میرے جیسوں کی ذہنی اور عملی بیکاری ختم ہو۔ لیکن پھر ہندو مسلم فساد شروع ہوا۔ غنڈے کے چھرے پیٹھوں، گردنوں، آنکھوں میں بھونکے جانے لگے، موٹروں سے مشین گن نے بھائیوں پر گولیاں چلائیں اور میں کھاتا پیتا، مزے اڑاتا بیکار پھر مطمئن ہو گیا کہ اس ملک میں کچھ نہیں ہوگا۔ شاید یہ آزادی کے قابل ہی نہیں اور پھر اپنی بیکاری کا لطف اٹھانے کے لیے اور اس کو بھلانے کے لیے میں نے حیدرآباد سے بمبئی، بمبئی سے پونا، پونا سے دہلی، دہلی سے لاہور، مسوری، دارجلنگ کا چکر شروع کیا اور اگر ہو سکا تو ان گرمیوں میں میں امریکہ کا اک چکر لگا آؤں گا۔ راجہ باجپائے تو پختہ ارادہ کر چکے ہیں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.