بےنام رشتہ
فرقان کو پانچ سال قبل سرکاری نوکری بڑی کوشش کے بعد ملی تھی۔ آفس میں وہ پروقار، نفاست پسند اور کم گو مشہور تھا اسی لیے عملے کے لوگ اس سے مرعوب رہا کرتے اور دور ہی رہنے میں اپنی عافیت خیال کرتے۔ گذشتہ پانچ برسوں میں فرقان سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہیں ہوئی تھی کہ کوئی قہقہہ تو کیا، دبی ہوئی ہنسی بھی ہنسنے کی ہمت نہ کر سکا۔ اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک باوقار سنجیدگی چھائی رہتی اور آنکھیں کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی نظر آتیں۔ یہی وجہ تھی کہ خالی اوقات میں بھی کوئی اس سے بےتکلف ہونے کی جرأت نہیں کر پاتا۔ لنچ آورس میں جب دوسرے لوگ کسی بات پر پیٹ پکڑ پکڑ کر قہقہے لگاتے تو اس کے لبوں پربس ایک پھیکی سی مسکراہٹ ابھرتی اور پھر وہ نہ جانے کن خیالوں میں گم ہو جاتا۔ فرقان کے اِس رویے نے اس کی شخصیت کو اور بھی پراسرار بنا دیا تھا۔ ساتھیوں کا خیال تھا کہ اس کی زندگی میں ایسا کچھ ضرور ہوا ہے جو اسے کھل کر قہقہہ لگانے یا بےتکلف ہونے سے روکتا ہے۔
بارش رکتی نظر نہیں آ رہی تھی۔ رِم جھم پھوار برس رہی تھی۔ کئی گھنٹے سے یہی رونا جاری تھا۔ آفس پہنچنے کا وقت تنگ ہو رہا تھا۔ آخر فرقان اپنے کمرے سے نکل آیا۔ چائے کا دوسرا کپ اس نے یوں ہی زہر مار کیا تھا۔ کالونی کے گیٹ کے باہر آکر اس نے ہیٹ سنبھالا اور اوور کوٹ کو پورے جسم پر پھیلاتے ہوئے بس کے ناکے کی طرف روانہ ہوگیا۔ دور دور تک ٹیکسی کا نام ونشان نہیں تھا۔ قریب ہی ایک پل تھا اور پل کے دونوں طرف ٹین کی چادر پھیلی ہوئی تھی۔ اس کے اندر اکثر پھیری والے بارش سے بچنے اور سامان بیچنے کے لیے رک جاتے تھے۔ اس نے پل کی طرف نظر دوڑائی تو دوسرے سرے پر ایک بوسیدہ حال عورت اپنے آپ کو بارش سے بچانے کی کوشش کرتی ہوئی ریلنگ کے پاس سے نکل رہی تھی۔ اُسی وقت ایک تیز رفتار پرائیویٹ بس پل کے نیچے سے گزر گئی۔ اگلے ہی پل فرقان تیزی سے دوسری طرف بھاگا۔ عورت خون میں لت پت پڑی تھی۔ وہ اس کے قریب گیا تو راہ گیر عورت نے نیم بیہوشی کی حالت میں اُس کی جانب کچھ اِس طرح سے دیکھا کہ وہ بے قرار ہو گیا۔
اس وقت بارش تھم چکی تھی۔ کالے بادل چھٹ گئے تھے۔ سورج کی شعاعیں آہستہ آہستہ دھرتی پر پھیل رہی تھیں۔ ایمرجنسی سے عورت کو آپریشن تھیٹر لے جایا گیا۔ اس کے دائیں ہاتھ کی ہڈی چور چور ہو گئی تھی ۔’’ہاتھ کاٹ دینا ضروری ہے‘‘ ڈاکٹر غور کر رہے تھے۔ ہاتھ کو جسم سے الگ کر دینے کی اطلاع پر نہ جانے کیوں اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے۔ دوسرے دن جب وہ ہوش میں آئی تو اس نے سب سے پہلے فرقان کو دیکھا اور اپنا بایاں ہاتھ اس کے سر پر پھیرا۔ مشکور نگاہیں اس کی جانب جھک گئیں۔ عورت کی بےپناہ اپنائیت، خلوص اور پیار دیکھ کر فرقان کی آنکھیں آنسوؤں سے بھیگ گئیں۔
’’تمہارا کیا نام ہے؟‘‘
’’لاجو‘‘
’’کہاں رہتی ہو، کیا کرتی ہو؟‘‘
’’ندی کے کنارے جھونپڑے میں رہتی ہوں، محنت مزدوری کرتی ہوں۔‘‘
آفس میں چہ مہ گوئیاں تھیں کہ لوگ اپنے عزیزوں کی عیادت بھی اتنی پابندی سے نہیں کرتے ہیں چہ جائیکہ ایک انجان، راہ گیر، مزدور پیشہ عورت کے لیے اتنی اپنائیت لیکن فرقان ان باتوں سے بے پرواہ تھا۔ وہ آفس کے بعد گھنٹوں، اسپتال میں لاجو کی تیمارداری کرتا، دلجوئی کے ساتھ دل لگی کرتا۔ ہنستا، مسکراتا جیسے یہ اس کا روز کا معمول بن گیا تھا۔
اس کا یہ انداز زندگی اور بدلا ہوا مزاج آفس میں موضوع گفتگو بن گیا تھا۔ سوچنے کا امر یہ تھا کہ ایک صحت مند، ہنیڈسم انسان جس کے سامنے بڑی بڑی خوبصورت عورتیں آنکھیں بچھانے کے لیے پرامید اور متمنی تھیں وہ ایک معمولی شکل و صورت کی مزدور عورت کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑا تھا۔
’’لاجو اب صحت یاب ہو چکی ہے۔۔۔ میں اس کو اپنے گھر میں جگہ دوں گا‘‘ ایک دن فرقان نے آفس میں اعلان کیا۔
آفس میٹ سب ہی حیران رہ گئے۔ ماحول میں ایک سناٹا سا طاری ہو گیا۔
’’ایک بڑھیا عورت کو گھر ہی میں جگہ دینا، دل میں نہیں۔۔۔‘‘ ایک ساتھی نے مزاحیہ لہجہ میں کہا۔
فرقان تلملا گیا۔’’دل خود ایک گھر ہے‘‘۔ کہہ کر خاموش ہو گیا۔
چند لمحہ ماحول میں خاموشی رہی۔۔۔ سنو، سوچ بدلو۔۔۔ عورت، صرف عورت۔۔۔ایک انسان بھی ہوتی ہے۔
میں نے جب ہوش سنبھالا تو ماں ہی باپ کے روپ میں نظر آئی۔ وہ محنت مزدوری کرتی، مجھے اچھے سے اچھا کھلاتی اور اپنی تمام توجہ میری تعلیم وتربیت پر دیتی۔ وہ مجھے افسر بنانے کا خواب دیکھا کرتی لیکن اس کا یہ خواب اس کی زندگی میں پورا نہیں ہو سکا۔ ایک دن کام پر جاتے ہوئے وہ تیز رفتار گاڑی کے حادثے کی شکار ہو گئی۔ مجھے خوب یاد ہے۔ نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ اسکول سے آیا تو گھر میں جمِ غفیر تھا۔ کہا نہیں جاسکتا کہ آبِ زمزم کی ایک بوند بھی میری ماں کے حلق کے نیچے اتر پائی ہوگی یا نہیں کیونکہ جس وقت حجن خالہ نے ماں کے نیم وا منھ میں چمچے کی مدد سے آبِ زمزم ڈالا تھا، اس وقت اس کی روح غالباً پرواز کر چکی تھی۔ وہ تو بس مجھے دیکھ لینے کے لیے اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔ موت کی غنودگی میں اس کی بے نور آنکھیں مجھے محض ٹکر ٹکر دیکھے جا رہی تھیں۔ ہاں اس کے لب ضرور کانپ رہے تھے مگر وہ کیا کہہ رہی تھی؟ کسی کے سمجھ میں نہ آ سکا حتیٰ کہ اس کے کانپتے لبوں کا مفہوم میں بھی سمجھنے سے قاصر رہا۔ حجن خالہ کے ہاتھوں میں آب زمزم سے بھرا تانبے کا نقشین کٹورا کانپ رہا تھا۔ پلنگ کو چاروں طرف سے گھیرے ہوئے لوگوں نے رونا شروع کر دیا تھا اور اس طرح ماں مجھے بھری دنیا میں اکیلا چھوڑ کر چلی گئی۔
ماں کی موت کے بعد جیسے میں پاگل ہو اٹھا۔ اس کے خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے میں نے دن رات ایک کر دیا۔ رات، رات بھر کام کرکے کتابیں خریدیں، فیس جمع کی۔ بھوکا پیاسا رہا مگر اپنی منزل پانے کے لیے بے چین رہا۔۔۔ اور منزل مل گئی لیکن ایک خلش سی رہی کہ میں اپنی ماں کے لیے کچھ نہیں کر سکا۔ اب لاجو کو پاکر مجھے محسوس ہوا کہ میں نے اپنی تڑپتی ماں کو بچا لیا!
وہ میرے دل میں آ جائےگی۔۔۔ مانو میرے گھر کی لاج لوٹ آئےگی!؟ مجمع خاموش سر جھکائے کھڑا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.