Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھنگن

MORE BYقاضی مشتاق احمد

    پروڈیوسر غنی بھائی نے ایک مشاعرہ میں جمال انور کی نظم ’’بھنگن‘‘سنی تو ان کے ذہن میں جگنوؤں کی طرح اپنی فلم کے کئی سین گھوم گئے۔ وہ صبح سویرے ہاتھ میں جھاڑو لیے باہر جا رہی ہے۔ اس کی چال میں ایک لچک ہے، ناز وادا ہے۔ دیکھنے والے للچائی ہوئی نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس کے جسم کے ہر عضو سے جوانی جھلک رہی ہے۔ جسم کا ہر حصہ ناچ رہا ہے۔ پھر وہ سوچنے لگے اس رول کے لیے کون مناسب رہےگی؟ زینت تو ایک فلم میں یہ کام کر چکی ہے۔ پروین کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں، ٹینا منیم شاید یہ رول قبول نہ کرے۔ پونم کو کوئی بھنگن کے رول میں قبول نہیں کرےگا۔ بندو کی عمر ڈھل گئی ہے۔ اسی لمحہ ایک نام ان کے ذہن میں آیا رجنی بالا۔ نئی لڑکی ہے۔ گیسٹ رول کے لیے تیار ہو جائےگی۔

    مشاعرہ ختم ہوا تو غنی بھائی اپنی شیورلیٹ میں بیٹھ کر روانہ ہو گئے۔ جمال انور انہیں پیدل سڑک پر جاتا ہوا نظر آیا۔ جس شاعر نے آج اپنی بہترین نظم سے مشاعرہ لوٹ لیا تھا، لوگوں نے ’’واہ واہ‘‘ کے شور میں اسے خوب داد دی تھی، وہ مشاعرہ ختم ہونے کے بعد پیدل جا رہا تھا۔ غنی بھائی کو جمال انور کو اوبلائج کرنے کا موقع مل گیا۔ جمال انور اپنے خیالوں میں گم چلا جا رہا تھا کہ شیورلیٹ اس کے قریب رکی لیکن اس نے اس کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا۔ غنی بھائی نے اسے آواز دی، ’’انور صاحب۔‘‘

    وہ رک گیا اور عجیب نظروں سے غنی بھائی کی طرف دیکھتا ہوا بولا، ’’بندہ کو جمال انور کہتے ہیں۔‘‘

    ’’میں فلم پروڈیوسر غنی بھائی ہوں۔ آج آپ کی نظم نے مشاعرہ لوٹ لیا۔‘‘

    ’’شکریہ۔‘‘

    ’’آپ کو کہاں جانا ہے۔ چلیے آپ کو ڈراپ کر دوں۔‘‘

    ’’عزت افزائی کا شکریہ لیکن ان ٹانگوں کو پیدل چلنے کی عادت ہے۔‘‘ وہ آگے بڑھا تو غنی بھائی نے پوچھا، ’’میں آپ سے ملاقات کا متمنی ہوں۔‘‘

    ’’ملاقات تو ہو چکی۔‘‘

    ’’دل نہیں بھرا۔‘‘ غنی صاحب نے تیر چلایا، ’’اگر تکلیف نہ ہو تو میرے آفس میں۔۔۔‘‘

    ’’میں کہیں نہیں جاتا۔‘‘

    ’’تو میں حاضر ہو جاؤں گا۔ پتہ؟‘‘

    ’’کرلا کی پترے والی چال میں بندہ شیطان کی طرح مشہور ہے۔ اچھا خدا حافظ۔۔۔‘‘ وہ نہایت بےنیازی کے ساتھ چلا گیا۔

    غنی بھائی جیسے گھاگ پرڈیوسر کو یہ اندازہ لگانے میں دیر نہیں لگی کہ یہ آدمی اتنا سیدھا نہیں جتنا کہ وہ سمجھ رہے تھے۔ شاعر موڈی ہوتا ہے۔ شاید اس کے گھر پر چل کر جائیں تو وہ پگھل جائےگا اور پھر روپے کی گرمی تو اچھے اچھوں کو موم کی طرح پگھلا دیتی ہے۔ نظم تو انہیں بہرحال چاہیے تھی۔ کوئی دوسرا اسے حاصل نہ کر لے، اس سے پہلے وہ پترے والی چال میں پہنچ گئے۔ جب ان کی شیورلیٹ چال کے سامنے والی گلی کے پاس رکی تو بچوں کی بڑی بھیڑ جمع ہو گئی۔ جب اس کار میں سے غنی بھائی جیسا منحنی آدمی باہر نکلا تو بچوں کو بڑی مایوسی ہوئی۔ وہ تو کسی فلم اسٹار کو دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔

    ’’انور صاحب کہاں رہتے ہیں؟‘‘غنی بھائی نے ایک بچے سے پوچھا۔

    ’’جمال انور؟ چلیے میرے ساتھ۔‘‘

    وہ بچہ ایک کھولی بتا کر بھاگ گیا۔ غنی صاحب نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ دروازہ خود جمال انور نے کھولا۔ وہ ایک بنیان اور تہبند میں سامنے کھڑا تھا، شاید ابھی ابھی نیند سے اٹھا تھا۔

    ’’تشریف لائیے۔‘‘جمال انور نے نہایت شائستگی کے ساتھ غنی بھائی کا استقبال کیا۔

    ’’شکریہ!‘‘ غنی بھائی کھولی کے اندر داخل ہوئے۔ کھولی کیا تھی مرغی کا دربہ تھا۔ وہ چار ٹوٹی پھوٹی کرسیاں پڑی ہوئی تھیں۔

    ’’تشریف رکھیے۔‘‘

    غنی بھائی اس کرسی پر بیٹھ گئے جو تین پایوں پر کھڑی تھی۔

    ’’پہلے یہ بتائیے چائے پئیں گے یا کافی؟‘‘

    ’’تکلف کی کیا ضرورت ہے؟‘‘

    ’’اس میں تکلف کیسا؟‘‘

    ’’اچھا۔ چائے ہی۔‘‘

    جمال انور نے باہر کھیلتے ہوئے ایک لڑکے کو آوازدی اور دو چائے ہوٹل سے لانے کے لیے کہا۔ لڑکا فوراً چائے لے آیا۔

    ’’جمال انور صاحب!‘‘غنی بھائی نے لوہا گرم دیکھ کر پہلا ہتھوڑا چلایا، ’’آپ کی نظم میں ہندوستان کے ہزاروں لاکھوں لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہوں۔ نظم ہے ہی اسی قابل کہ۔۔۔‘‘

    ’’ٹھیک ہے۔‘‘جمال انور نے بات کاٹتے ہوئے کہا، ’’لیکن کیسے؟‘‘

    ’’میری ایک فلم بن رہی ہے۔۔۔ انیائے۔۔۔ اس میں ہریجن پر ظلم کی کہانی فلمائی جا رہی ہے۔ آپ اپنی نظم اگر اس فلم کے لیے عنایت فرمائیں تو یہ میری خوش قسمتی ہوگی۔‘‘

    جمال انور چند لمحوں کے لیے خاموش رہا۔

    ’’اس کی قیمت تو نہیں۔۔۔ انمول ہے۔ لیکن پھول نہ سہی پھول کی پنکھڑی سہی، پانچ ہزار روپے حاضر ہیں۔‘‘ غنی بھائی نے پانچ ہزار روپے نکال کر جمال انور کے سامنے رکھ دیے۔

    ’’مجھے روپیوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘ جمال انور اپنے بالوں کی لٹ برابر کرتا ہوا بولا، ’’شرط صرف یہ ہے کہ نظم میری پسندکے مطابق فلمائی جائے۔‘‘

    ’’ضرور۔‘‘غنی بھائی نے کانٹریکٹ جیب سے نکالتے ہوئے کہا، ’’یہ کانٹریکٹ حاضر ہے۔ آپ مطمئن رہیے فلم میں آپ کی نظم آپ کی پسند کے مطابق ہی فلمائی جائےگی۔ رجنی بالا نامی ایک پٹاخہ فلمی دنیا میں آئی ہے۔ بھنگن کے رول میں وہ خوب جچےگی۔ اس کا حسن، اس کی جوانی، اس کی ادائیں میں اس ڈھنگ سے پیش کروں گا کہ دیکھ کر دیکھنے والوں کا کلیجہ اچھل کر باہر آ جائےگا۔‘‘

    ’’غنی بھائی!‘‘جمال انور نے کانٹریکٹ کا مسودہ واپس لوٹاتے ہوئے کہا، ’’میں نے عورتوں کی جوانی اور حسن بیچنے کی دکان نہیں کھولی ہے۔ معاف کیجیے آپ نے میری نظم کو ٹھیک سے سمجھا نہیں۔ میں بھنگن کی غریبی اور بےبسی کو دنیا کے سامنے پیش کرنا چاہتا تھا اور آپ اس کی دوکان سجانا چاہتے ہیں۔ اٹھائیے یہ کاغذ کے ٹکڑے اور دفع ہو جائیے۔‘‘

    نوٹوں کے بنڈل اس نے غنی بھائی کو واپس لوٹا دیے۔

    ٹھیک اسی وقت ہوٹل کا نوکر اندر آیا۔ پہلے تو جمال انور نے اپنی خالی جیبیں ٹٹولیں اور پھر نہایت بےبسی کے ساتھ کہا، ’’میرے حساب میں لکھ لینا۔ آج میرے پاس پیسے نہیں۔‘‘

    ہوٹل کا لونڈا بڑبڑاتا ہوا اور غنی بھائی سر جھکائے ہوئے باہر نکل گئے۔

    مأخذ :

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے