Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بھٹیارن کا عشق

مونا شہزاد

بھٹیارن کا عشق

مونا شہزاد

MORE BYمونا شہزاد

    ’’آج آفس میں دن ہی کچھ عجیب تھا، سب کام میری توقعات کے خلاف ہوئے تھے، میرا پارہ آسمان کو چھو رہا تھا، میری زبان کی دھار سے سب آفس اسٹنٹ گھبرائے پھر رہے تھے، سب سے آخر میں میرا نزلہ عابدی صاحب پر گرا، جو پچھلے بیس سال سے ہماری فرم میں ملازم تھے، انھوں نے بیٹی کی شادی کے لئے آفس سے لون کی درخواست دی تھی، جو آج میں نے ان کی نظروں کے سامنے پرزہ پرزہ کرکے ڈسٹ بن میں ڈال دی، ان کی آنکھوں کے آنسوؤں نے مجھے پل بھر متزلزل کیا پھر میں نے کندھے اچکاکر خود کو تسلی دی کہ میں بزنس کرتی ہوں، کوئی خیراتی ادارہ نہیں کھول کر بیٹھی، میں آفس سے بھوکی نکلی کیونکہ مجھے مصرفیت اور چیخنے چلانے کے دوران لنچ کرنے کا ٹائم نہیں ملا تھا، جب میں گاڑی میں بیٹھی تو سوچا کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں رکھ کر لنچ کر لوں گی مگر شومئی قسمت گاڑی آدھے راستے میں خراب ہو گئی۔ میں بکتی جھکتی گاڑی سے اتری اور ڈرائیور کو کہا:

    فورا حرامخور پیدل جاو! اور کسی مکینک سے گاڑی ٹھیک کرواکر، پہنچو، میں دیکھتی ہوں کہ کیسے گھر جانا ہے۔’‘

    میرا بھوک کے مارے برا حال تھا، میں نے جھنجھلا کر سوچا یہ گاڑی کو بھی آج ہی خراب ہونا تھا۔ میرے سر پر جون کا تپتا سورج اپنا غیض و غضب برسا رہا تھا، بھوک اور پیاس نے میری حالت بری کر دی تھی، میں نے غیر ارادی طور پر اردگرد کا جائزہ لیا کہ شاید کوئی ٹیکسی یا رکشا نظر آئے مگر مجھے ایسا لگا جیسے میں لاہور کی اس طویل سڑک پر موجود میں واحد ذی روح تھی، ایسا لگتا تھا میں کسی اور نگری میں آ گئی تھی۔ میرے پاوں ہیل والے جوتوں کے باعث دکھ رہے تھے، میں دل ہی دل میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی کہ آج میں نے کیوں اتنی اونچی ہیل والے جوتے پہن لیے تھے۔ میں نے اردگرد دیکھا اور حیرت سے سوچا: ‘‘یہ داتا کی نگری آج خالی کیسے ہو گئی۔’‘

    اردگرد کے درختوں پر کوئی بھی پرندے بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔ مجھے شدت سے تنہائی کا احساس ہوا۔ ایسے لگ رہا تھا کہ میں دنیا بھر میں اکیلی ہوں، میرا دل تنہائی کے اس احساس سے بوجھل ہو گیا۔

    مجھے انسانوں کی یاد ستانے لگی، ابھی کچھ دیر پہلے میں انھی انسانوں سے نالاں اور بیزار تھی۔ میں تھکے تھکے قدموں سے چل رہی تھی۔ لو کے تھپیڑے میرے سانسوں کو دہکا رہے تھے۔ اچانک مجھے دو درختوں کے سائے میں بیٹھی ایک بٹھیارن اور ایک ملنگ نظر آئے مجھے زندگی میں پہلی بار اس کہاوت پر یقین آیا کہ انسان معاشرتی حیوان ہے۔ مجھے اپنے علاوہ ان زی روحوں کو دیکھ کر بہت خوشی ہوئی، میں ان کے قریب پہنچی تو دیکھا بھٹیارن نے اپنی بڑی سی کڑاہی کے نیچے کوئلہ اور لکڑی جلائے ہوئی تھی، کچا دھواں اس کی آنکھوں میں مرچوں کی طرح چبھ رہا تھا، اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا مگر وہ اپنی دھن میں مگن چنے اور گندم بھونتی جا رہی تھی۔ اس کے پاس دو پانی کے مٹی کے مٹکے پڑے تھے، ایک مٹکہ خالی تھا، جب کے دوسرے مٹکے پر مٹی کا پیالہ پڑا ہوا تھا۔ اس کے پاس ہی ملنگ بیٹھا چنے کھا رہا تھا، اس کی جٹاوں میں ریت چمک رہی تھی، اس کے چوغے پر بےشمار رنگ برنگے کپڑوں کے رفو لگے ہوئے تھے، اس کی گردن میں رنگ برنگی مالائیں تھیں، وہ ملنگ اس دنیا سے بےخبر نظر آ رہا تھا، اس آتش دوپہر کا کوئی اثر اس کے چہرے پر نظر نہیں آ رہا تھا۔ میرے دل میں ناگواری کی لہر دوڑ گئی، میں نے سوچا:

    ‘‘یہ ضرور کوئی چرسی، بھنگی ہے۔’‘

    میری خودپسندی مور کی طرح پر پھیلا کر میرے من آنگن میں ناچنے لگی، میں نے دل میں سوچا:

    ‘‘ان گندے، چھوٹے لوگوں کے پاس کیا رکنا مناسب ہے؟’‘

    مگر میری ہمت جواب دے چکی تھی، میں نے فوراً پاؤں جوتوں سے آزاد کیے اور بھٹیارن کے پاس پہنچ کر اپنے برینڈڈ مہنگے کپڑوں کی پروا کیے بغیر میں زمین پر بیٹھ گئی۔ وہ بھٹیارن چنے بھوننے میں مصروف تھی۔ اس نے نظر اٹھاکر مجھے دیکھا اور مسکراکر بولی:

    بڑی دیر کیتی مہربان آندے آندے۔۔۔

    میں کنفیوز سی ہوکر اس کی طرف دیکھنے لگی، اس نے نرمی سے پوچھا:

    پانی پیےگی بی بی؟

    میں نے اثبات میں سر ہلایا، اس نے گھڑے سے مٹی کے پیالے میں پانی ڈال کر پیش کیا، پھر ایک دم بولی:

    ‘‘بی بی! بھٹیارن دا جھوٹا برتن ہے، پھر بھی پئےگی۔’‘

    میرے زہن میں ہیپاٹائٹس اور دیگر امراض آ گئے، مگر میری پیاس، میرے خوف کے آگے جیت گئی۔ میں نے بسم اللہ پڑھ کر پانی پی لیا، وہ پیالہ شاید آب حیات کا تھا، یا شاید زندگی میں پہلی دفعہ بسم اللہ پڑھ کر پانی پینے کا اثر تھا، یا اس بھٹیارن کی جھوٹن درحقیقت آب حیات تھی، مجھے آج ایسا محسوس ہوا کہ میری برسوں کی پیاس درحقیقت آج بھجی ہو، بھٹیارن نے میرے آگے بھنے ہوئے چنے اور گندم کے دانے رکھ دئے۔ مجھے پتا نہیں کتنے سالوں بعد آج ایسا ذائقہ میسر ہوا تھا۔ بڑے بڑے فائیو اسٹار ہوٹلز کے بوفوں کو یہ چنے مات کر رہے تھے، میں نے پوچھا:

    کتنے پیسے؟

    بھٹیارن قہقہہ لگا کر ہنسی، میں نے آج تک کسی کو اتنے دل سے ہنستے نہیں دیکھا تھا، اس کی ہنسی میں شفاف پہاڑی چشمے کی جھنکار تھی، وہ اتنا ہنسی کہ اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں، اس نے اپنی آنکھوں میں آئے پانی کو صاف کیا اور بولی:

    بی بی! تو مجھے کیا دے سکتی ہے؟

    وہ مسکرائی اور بولی:

    ‘‘سچے سائیاں! نے کسی کارن سے تجھے آج مجھ نمانی بھٹیارن کا مہمان کیا ہے۔ ہم مہمان کو کچھ دے کر رخصت کرتے ہیں، اس سے کچھ لیتے نہیں ہیں۔’‘

    میرے دل کا چور بولا:

    ‘‘کہیں یہ کوئی اٹھائی گیرنی تو نہیں ہے، جو اس ویران دوپہر میں مجھے اپنی لچھے دار باتوں سے لوٹنا چاہتی ہے۔’‘

    میں نے غیرمحسوس انداز میں اپنے پرس پر گرفت مضبوط کی۔ اسی وقت ملنگ پر حال طاری ہو گیا، وہ اٹھ کر اس شکن دوپہر میں ناچنے لگا، وہ ناچتا جاتا اور گاتا جاتا۔

    کوک فقیرا کوک!

    تے کوئی بھیت اندر دا کڈھ

    مندڑا بول نا بول،تے جِیبھ اپنڑی نوں وڈھ

    کُوک فقیرا کوک!

    تیری کوک دی اچڑی شان

    ایس کوک دی چرکھی گھمدے، ست زمیاں تے اسمان

    کوک فقیرا کوک!

    تے ایس کوک اچ ہو کے گم!!

    آ مار مکائیےمیں نوں فیر جپیئے تم ای تم

    کوک فقیرا کوک!

    وے تیری کوک دے پکے رنگ!!

    رنگ ہک ھکلا چاڑھ دے، مینوں کعبہ لگے جھنگ!

    کوک فقیرا کوک!

    کالا چور بکل دا مار

    اکھیں سرمہ صِدق حسینی، تے ہتھ حیدر دی تلوار

    کوک فقیرا کوک!

    تیری کوک ملائے یار

    گھڑا پکا دے یقین دا، میں لگ ونجاں اس پار

    کُوک فقیرا کوک!

    تیری کوک جیہا کوئی ناہیں

    جو شہر عشق دے جا پہونچن، مینوں پا دے اوہناں راہیں

    کوک فقیرا کوک

    تیری کوک دے ساوے باگ

    تیرے ہتھ پھُلاں دے ٹوکرے، تیریاں سوچاں صاف گلاب

    کوک فقیرا کوک!

    تیرے سب توں وکھرے گیت

    ایہہ بانگاں پچھلے پہر دیئاں، پیئیاں گونجن من مسیت

    کوک فقیرا کوک

    جے آج ہووے یار وصال

    پیریں ساویاں جھانجھراں بنھ کے، میں پاواں انت دھمال۔ (کلام: شہزاد احمد اعوان)۔

    اس کے پیروں میں گھنگرو بندھے ہوئے تھے، وہ اس زوروں کا ناچا کہ اس کے پاوں لہولہان ہوگے تھے، پوری کائنات ملنگ کے ساتھ رقص میں تھی میرے ذہن میں یک دم آیا کیا میرا ناچی ہوگی، جو یہ ملنگ ناچ گیا ہے۔ مجھے مٹی پر اس کے خون کے قطرے گرتے عجب سے محسوس یوئے۔ ملنگ کی دھمال اور کلام نے میری من کی کھڑکیاں وا کردیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں غلاف کعبہ پکڑکر کھڑی ہوں، میں نے آنکھیں جھپکیں تو میں بھٹیارن کے پاس ہی بیٹھی تھی، بھٹیارن مجھ سے بےخبر اپنے کام میں مگن تھی۔ میں نے اسے رشک سے تکا اور سوچا:

    یہ بھٹیارن اتنی مطمئن کیسے ہے۔؟

    ابھی میں اپنے سوال کے پیچ و خم میں ہی گم تھی کہ بھٹیارن نے اپنے آگے خالی مٹکا رکھا،ایک ہاتھ سے چمٹا پکڑ کر بجایا اور مٹکے پر تھاپ دے کر لے اٹھائی۔

    الف۔ الله چمبے دی بوٹی، میرے من وچ مرشد لائی ہو۔

    نفی اثبات دا پانی ملیا، ہر رَگے ہر جائی ہو۔

    اندر بوٹی مُشک مچایا، جاں پھلاں تے آئی ہو۔

    جیوے مرشد کامل باہو، جیں ایہہ بوٹی لائی ہو۔

    میری آنکھیں تحیر سے پھیل گئیں، مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا تھا، میرے دل کو القا ہوا؛

    ‘‘میں تو تمھاری شہ رگ سے بھی قریب ہوں۔’‘

    بھٹیارن نے آنکھیں کھولیں اور ہنس کر بولی:

    بی بی! چمبے دی بوٹی کیوں نہیں لب دی تینوں؟

    میرا پورا رواں رواں کانپ اٹھا، میری آنکھوں میں سمندر کی طغیانی تھی۔ ایک بھٹیارن نے مجھے آئینہ دکھا دیا تھا، ایک بھٹیارن رب کے پیار کی بوٹی اپنے من میں لگانے میں کامیاب ہو گئی تھی، ایک ملنگ اللہ کی بارگاہ میں منظور نظر ہو گیا تھا اور میں ایک پڑھی لکھی دنیادار کامیاب بزنس وومین آج تک خالی ہاتھ سراب کے پیچھے بھاگتی پھر رہی تھی۔ میں اپنے جوتے ہاتھ میں لے کر چل پڑی، میرے پیر گرم تارکول کی سڑک پر جھلس رہے تھے، مگر پیروں کی تکلیف سے زیادہ میری روح جان کنی کے عالم میں چیخ رہی تھی۔ میں نے اتنی عمر کس بے مصرف دوڑ میں بتا دی تھی؟ میں سود و زیاں کے حساب میں مصروف تھی کہ ڈرائیور نے گاڑی کا ہارن دے کر مجھے متوجہ کیا، میں نے چونک کر اسے دیکھا پھر مڑکر دیکھا، پوری سڑک خالی تھی دور دور تک بھٹیارن کا یا ملنگ کا نام و نشان تک نہ تھا۔میں بجھے ہوئے دل سے گاڑی میں بیٹھ گئی۔ گاڑی میں اے سی چل رہا تھا، مگر میری روح جھلس رہی تھی۔ میری آنکھوں سے دو آنسو نکلے میں آہستہ سے بڑبڑائی:

    ‘‘ہائے بھٹیارن جیت گئی، کاش میں بھی بھٹیارن ہوتی۔’‘

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے