بھیڑ
پھر یکایک چیختی چلاتی ہوئی بھیڑ شمال مغرب کی طرف بڑھی۔ دھول کا ایک بگولا اٹھا اور بیٹھ گیا۔ بھیڑ کے ساتھ میں بھی کھنچتا چلا گیا، کچھ دیر تک ہم جان ہتھیلی پر لے کر دوڑے، کچھ لوگ کھانسنے لگے، میں ہانپنے لگا۔ آہستہ آہستہ ہم سب چپ ہو گئے اور کھڑے رہ گئے۔ میں ایک طرف کھڑا تھا، پتھر سا، جیسے آدمی کیلیں ہوں اور انھوں نے مجھے جکڑ رکھا ہو۔ بھیڑ میں ذرا بھی ہلنے کی گنجائش نہیں تھی۔ میں نے دیکھا دور تک آدمی ہی آدمی دکھائی دیتے تھے۔ واقف کار لوگ کہتے تھے کہ انسانوں نے دوسروں کے لیے جگہ ہی نہیں چھوڑی ہے کہ دور دور پہاڑوں کی پیٹھ پر، چوٹی پر، وادی میں، سمندر کنارے ریت میں، ہر طرف آدمی ہی پھیلے ہوئے ہیں۔ نیچے وادی میں، بانس کے جنگلوں میں، دھان کے کھیتوں میں، ناریل کے باغوں میں چاروں طرف آدمی کھچاکھچ بھرے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہاں اس بھیڑ کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ہماری یہ بھیڑ، وہ تو ایک بے کراں بھیڑ کا صرف ننھا حصہ ہی ہے۔ آسمان میں ستارے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں چھوٹے چھوٹے جھرمٹ ہوتے ہیں، ہماری بھیڑ بھی ایسا ایک ننھا سر جھرمٹ ہے اور ان کی بات صحیح تھی۔ واقعی آس پاس سوائے انسانوں کے کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ یوں لوگ خاموش لگتے لیکن اچانک زور سے چیختے چلاتے ہوئے کسی جانب دوڑتے، ٹکڑاتے، دھینگا مشتی کرنے لگتے۔ کہتے ہیں کہ شمال مشرق کی طرف تھوڑا آگے جائیں تو وہاں کی بھیڑ کے لوگ خوب زور زور سے کئی دنوں تک چیختے رہتے ہیں۔ سبھی تقریبا ایک ہی ہیں سُر میں ہو۔۔۔ او۔۔۔ او۔۔۔ او۔۔۔ ہو۔۔۔ کرکے شور مچاتے ہیں اور اس کے بعد دھیرے دھیرے سر اونچا اور اونچا لے جاتے ہیں۔ آخر کار جب وہ سر اپنے عروج پر پہنچ جائے تب وہ لوگ خاموش ہو جاتے ہیں۔ آدھی رات میں جنگل میں بجتے وحشیوں کے نقاروں کی ہولناک آواز کی طرح اس آواز سے میلوں تک ہوا پھٹ جاتی ہے فضا گرم ہو جاتی ہے۔ سننے والوں کے کان اور بولنے والوں کے گلے دنوں تک کام کرنا بند کر دیتے ہیں۔ یہ بھیڑ کہاں تک پھیلی ہوئی ہوگی اس کے بارے میں پوری معلومات ہونے کا امکان نہیں۔ جال میں خرگوش پھنس جائے اس طرح میں اس میں پھنس گیا ہوں۔۔۔ آس پاس دیکھتا ہوں تو دکھائی دیتے ہیں صرف آدمی۔ میں ان کو دیکھ سکتا ہوں، بہت قریب سے۔ آدمی مجھے چاروں طرف سے گھیرے ہوئے ہیں۔ میری نظر کو، میری حرکت کو وہ روکے ہوئے ہیں۔ چاروں طرف سے ان کے کندھے چھاتی، پیٹھ، ہاتھ کولہوں سے میں دبتا، گھستا بھنچتا رہا ہوں۔ پاس سے مجھے ان کے چہرے دکھائی دیتے ہیں۔ یوں تو آمی دور سے بھی میں نے دیکھے ہیں، ٹاور پر سے، تب وہ سب یکساں لگتے تھے جیسے پھلی میں مٹر کے دانے۔ ایک ہی سانچے میں ڈھلے ہوئے ایک سے چہرے مہرے والے، رنگ روپ ایک جیسا، ہمیں ان کے سر، آنکھ، پیروں کو چشم تصور سے دیکھنا پڑتا ہے۔۔۔ اور آج اتنے قریب سے۔۔۔ دیکھتا ہوں تب بھی مجھے سب ایک جیسے لگتے ہیں۔ ہاں، کسی کی ناک نیچے چھوٹا سا مسہ ہے، کسی کی بھوؤں میں ایک آدھ بال سفید ہے، کسی کے ہاتھ میں چھہ انگلیاں ہیں، لیکن سارے ایک جیسے لگتے ہیں۔ وہ یا تو اطمینان سے کھڑے رہتے ہیں یا جلدی سے ہڑبڑاتے ہوئے دوڑتے رہتے ہیں، قدموں سے دھول اڑاتے رہتے ہیں، ہاتھ کندھے سے آگے پیچھے ہلاتے رہتے ہیں۔ منہ پھاڑ کر بولتے رہتے ہیں۔ صدائیں دیتے رہتے ہیں۔ مختلف شکلیں بناتے رہتے ہیں۔
میں تذبذب میں کھڑا رہتا ہوں۔ ان کا پسینہ ان کی دھکا پیل، ان کی چیخ و پکار سے فضا میں گرمی بڑھتی جا رہی ہے۔ اچانک شور اٹھا۔ جنوب مغرب سے حکم آیا کہ ہمیں گھڑیال کی شکل بنانی ہے۔ کس نے حکم دیا تھا اس کی اہمیت نہیں تھی۔ فرمان ایک سے دوسرے تک منتقل ہوتا ہوا آیا تھا۔ سب دوڑے، بڑی ہلچل ہوئی۔ شور و غل ہوا۔ دور پہاڑ پر آدمی بھاگ دوڑ کر رہے تھے، ان گنت آدمی الٹ سلٹ دوڑ رہے تھے، مگر مچھ کی شکل ترتیب دے رہے تھے۔
کسی نے کہا یہ سارے احکام جنوب مغرب سے آتے ہیں جہاں ایک عالی شان محل ہے، اس کے تخت پر کوئی بیٹھا ہے۔ اس کے پاس ایک جگمگاتا ہوا دیا ہے، کئی کنیزیں اس کی خدمت میں حاضر ہیں، کوئی خوشبودار پان پیش کرتی ہے، کوئی پنکھا جھلتی ہے، کوئی پیر کو مالش کرتی ہے۔ گلاب دان سے کوئی خوشبودار عطر چھڑکتی ہے۔۔۔ جو جی میں آئے وہ حکم دیتا رہتا ہے اور سب کو اس کے حکم کی تعمیل کرنی ہوتی ہے۔ لیکن یہ محل دیکھا ہوا ایسا کوئی آدمی نہیں تھا۔ حکم کرنے والے کو دیکھا ہے البتہ ایسا دعویٰ کچھ کرتے لیکن تفتیش سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تو بس من گھڑت بات تھی۔ لیکن اس محل تک کس رستے سے پہنچا جائے اس کا نقشہ کئی لوگوں کے پاس دیکھا گیا۔ وہ نقشے ان کو اپنے پرکھوں کی طرف سے ورثے میں ملے تھے، ایسا وہ کہتے۔ اس نقشے کی تحریر کو سمجھنا اب ممکن نہیں رہا تھا کیوں کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ تحریر غیرواضح ہو گئی تھی۔ تحریر پڑھنے والا کوئی مل جاتا تو اس کی خوب آؤ بھگت کرتے۔ وہ رستہ بہت دشوار گزار ہے، ایسا وہ لوگ کہتے۔ درمیان میں کئی دشوار گزار پہاڑ، سانپ کی طرح پھنکارتی ندیاں، خوفناک درندے وغیرہ آتے ہیں، ایسا وہ سمجھاتے۔ ایک مخصوص شکل بنانے کی غرض سے دوڑتے ہوئے بہتیرے لوگ اپنے ہاتھ اٹھاتے اور چلاتے ’’ہم محل کی طرف دوڑ رہے ہیں ہم محل کی طرف دوڑ رہے ہیں،‘‘ یوں پاگلوں کی طرح پکارتے، ایسے گیت گاتے، گاتے ہوئے جنون میں آخر ناچنے لگتے۔ ایسا کہنے سے تھکان نہیں ہوتی، بلکہ دوڑنے کا جوش بڑھ جاتا ہے، ایسا ان کا عقیدہ تھا۔ مجھے بےحد دکھ پہنچتا۔ اس طرح کا حکم آئے یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ مجھے سب پہ غصہ آتا، ان کے مکروہ چہرے، ان کی گھبراہٹ، ان کی لاچاری، خوف سے ان کی بھاگ دوڑ، ان کے رقص، حکم کے تابع ہونے کا ان کا غلامانہ انداز۔۔۔ یہ سب مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔ میں ان سب کے بارے میں سوچتا رہا۔۔۔
کچھ دیر بعد میں نے دیکھا تو سب اپنی جگہ جوں کے توں کھڑے تھے۔ تاہم جنوب سے اب بھی شور سنائی دے رہا تھا، اس لیے اس طرف اب بھی ہلچل ختم نہیں ہوئی ہوگی، ایسا لگتا۔ لیکن یہاں سب چین کی سانس لے رہے تھے۔ پھر کیسے حکم آیا، کیسے سب دوڑے، کیسے مشرق والوں، مغرب والوں، شمال والوں، جنوب والوں، سب نے مل کر ایک شکل بنائی، اس سے قبل کیسی شکل بنائی تھی وہ، اس کا آنکھوں دیکھا احوال، اب کیسی شکل بنانے کا ارادہ ہے، اس کی پیش گوئی، کس طرح ہوا چلی، کس طرح اس کے ساتھ حکم پھیلا، اس کو پھیلانے میں انھوں نے کیا مدد کی، اس کا انہیں کیا صلہ ملا وغیرہ باتیں ہونے لگیں۔ میں چپ چاپ سب سنتا تھا، دور دور دیکھنے کی کوشش کرتا تھا۔ اب بھی کہیں کہیں لوگ کھسکتے تھے، آوازیں دیتے تھے، کچھ منہ میں ڈالتے تھے اور اسے پتوں کی طرح کچر کچر چباتے تھے، گائے کی طرح جگالی کرتے، آوازے کستے، آپس میں ایک دوسرے سے جھگڑتے تھے۔ زمین پر پڑی ہوئی کئی لاشیں کبھی کبھی پیروں تلے آ جاتی تھیں۔ اچانک بھیڑ اس طرح کانپنے لگی جیسے دورہ پڑا ہو۔ اس طرح بڑبڑانے لگی، دوڑنے لگی، بھگدڑ میں سب پہاڑ پر چڑھنے لگے۔ میں بیچ میں تھا۔ جوں جوں چڑھتا گیا، ایک عجیب اور پریشان کن خاموشی کا احساس ہونے لگا۔ اوپر جاکر دیکھا تو ایک بڑی بھیڑ نظرآئی، مسلسل متحرک، شکلیں بدلتی، جیسے کینچوے کو ہاتھ لگاتے ہی اسکے سارے بدن میں ہلچل ہوتی ہے اسی طرح بھیڑ بھی متحرک تھی۔ کبھی کبھی ساری بھیڑ ایک زبردست چیخ مارتی، وہ چیخ بگولے کی مانند آسمان میں بلند تر ہوتی ہوئی لگتی۔ کبھی سب خاموش ہو جاتے۔ چپ چاپ جہاں کھڑے تھے وہیں کھڑے رہتے۔ گویا ان کا وجود ہی نہیں، گویا جادو کے زور سے سب کو سانپ سونگھ گیا ہو، گویا آس پاس کھڑے پیڑ، پودے، چٹان، یا پہاڑ کی طرح یہ بھی زمین کا ایک عضو ہے، جو کبھی ہلا نہیں، ہلنے والا نہیں۔ ان کی حالت ایسی تھی کہ کوئی بھی انہیں غلطی سے مٹی کا تودہ یا درخت کا کٹا ہوا تنا سمجھ سکتا تھا۔۔۔ اس کے بعد اچانک کسی جانب سے دھیمی آواز آتی جو بڑھتی جاتی، وہاں ذرا سی ہلچل ہوتی، پھر آواز پھیلتی ہوئی اور ہلچل پیدا کرتی۔
جیسے جیسے ہم اوپر پہنچتے گئے لوگوں کے سروں کے درمیان کا فاصلہ گھٹتا گیا۔۔۔ پھر ایسا لگا کہ آخر میں سب ایک کالے سمندر میں ڈوب گئے ہوں۔۔۔ چاروں طرف جھاگ ہی جھاگ تھا، اس میں چھوٹے چھوٹے کالے بلبلے اپنی مختصر زندگی کے دوران ذرا سے پھولتے تھے، سکڑتے تھے اور پھوٹتے تھے۔ حیرت زدہ میں دیکھتا رہا۔۔۔ اچانک مجھے ایسا احساس ہوا کہ یہ تو ایک نقشہ ہے۔ جیسے افریقہ، آسٹریلیا، امریکہ، مڈغاسکر وغیرہ کے مختلف خط و خال سے زمین کا ایک ڈیزائن بنتا ہے، اسی طرح یہ الگ الگ لوگ الگ الگ جگہوں پر کھڑے ہیں، جس سے ایک ڈیزائن بنتا ہے۔ پل پل وہ لوگ الگ الگ چال چلتے ہیں، جس سے الگ الگ ڈیزائن بنتے ہیں۔ میں بھی ایک مخصوص جگہ پر کھڑا ہوں۔ میرے لیے بھی ایک مخصوص سمت طے کی گئی ہے اور مجھے لگا کہ جیسے ایک بڑی تصویر میں کسی کونے میں چاہے چھوٹا سا ہی سہی کالا یا نیلا نقطہ ہواور اسے وہاں سے ہٹا کے تم دوسری جگہ پر رکھو تو ساری تصویر بدل جائے، یا وہاں سے تم اسے مٹا ڈالو تو رنگوں کا توازن، چھوٹی چھوٹی شکلوں سے بننے والی ایک بڑی شکل کی تخلیق میں بدل جائے اور ایک نئی ہی تصویر بن جائے، اسی طرح میں بھی اس وسیع ڈیزائن میں ایک ننھے سے کالے نقطے جیسا ہوں۔ اگر میں یہاں سے اپنی جگہ بدلوں یعنی بھیڑ سے اپنی الگ چال چلوں، میں اپنی خود کی رفتار طے کروں تو سارے ڈیزائن کی شکل بدل جائے، ایک نئی ہی تخلیق وجود میں آئے۔۔۔ اس کا خالق میں کہلاؤں، مستقبل میں بننے والے ڈیزائنوں پر بھی اس کے اثرات ہوں، یعنی جم غفیر، اس میں رہتے ان گنت لوگ، ان کی ذرا سی ہلچل، اس سے بنتی مختلف شکلیں، اب کے بعد یگوں تک بننے والی شکلوں کا خالق میں۔ میں نے دل ہی دل میں طے کیا کہ میں اپنی چال چلوں گا۔
میں نے خود کو تیار کیا۔ اب ہم پہاڑ کی سپاٹ جگہ پر آپہنچے تھے۔ ہم رک گئے تھے اور تھکان کا بوجھ اتارنے لگے، کچھ نے آنکھیں موندلی تھیں، کچھ منہ پھاڑ کر جماہی لے رہے تھے، کچھ ایک دبی آواز میں کانا پھوسی کر رہے تھے۔
اچانک ایک آواز آئی کہ اب سانپ کی شکل بنانی ہے۔ مجھے لگا کہ میرا وقت آپہنچا ہے۔ اب بھیڑ میں تھوڑی ہلچل شروع ہوئی۔ سب چوکنے ہونے لگے، انگڑائی لے کر سستی اتارنے لگے۔ سب سے پہلے دائیں طرف اور پھر بائیں طرف جانا تھا۔ کئی چھوٹے چھوٹے موڑوں کے بعد دائرہ در دائرہ گھومنا تھا۔ میں نے جبڑے پھینچے، مٹھی بھینچ کر طے کیا کہ میں سیدھا ہی چلوں گا۔ کاش صرف چند ہی قدم اس طرح چل سکوں تو۔۔۔
اتنے میں آندھی کا سازبردست دھکا لگا۔ میں نے ناک کی سیدھ پر جانے اور آگے والوں کو پار کرنے کے لیے جی جان سے کوشش کی، پیچھے والوں کو روکنا ممکن نہیں تھا، ساری بھیڑ تیزی سے، پورے جوش سے مڑنے لگی۔ میں نے کھڑے رہنے کے لیے، سیدھی سمت میں جانے کے لیے ان تک کوشش کی، لیکن بھیڑ کے بہیمانہ زور کے آگے لاچار ہو گیا۔ زمین سے گویا میں اوپر اٹھا، آگے دھکیلا گیا، گھسیٹا گیا، میں اپنے پر قابو نہ رکھ سکا۔۔۔ تھوڑا آگے جانے کے بعد، ناامید ہوکر میں پیچھے جہاں کھڑا تھا وہاں تکتارہا، ناامید ہو گیا، آنکھوں میں آنسو آ گئے۔۔۔ دل میں خیال آیا کہ پل بھر پہلے کاش میں سیدھی سمت میں چند قدم ہی چل پاتا، بھیڑ کا ڈیزائن بدل سکا ہوتا۔۔۔ پھر۔۔۔؟
لیکن اب رکنا ممکن نہیں تھا۔ بھیڑ کے ساتھ ٹیڑھے میڑھے گھومتے گھومتے، گھسٹتے گھسٹتے اچانک مجھے یاد آیا کہ ڈیزائن بدلنے کے لیے ایک راستہ اب بھی باقی ہے، وہ نقطہ مٹا دینا چاہیے۔ اگر یہ رائی کے دانے جیسا نقطہ مٹاسکوں تو ایک نئی نڈر دنیا کا خالق بن سکتا ہوں۔ لیکن میں نے دیکھا کہ میں لاچار ہوں۔ میں نقطے کو مٹا نہیں سکا اور خود کو ہٹا نہیں سکتا۔ کوئی اندرونی کمزوری مجھ پر حاوی ہو گئی ہے۔ میرے اعصاب جو اب دے چکے ہیں۔ سب کچھ منجمد ہو چکا ہے۔ اب میں اپنے آپ پرغصہ کرتا ہوں۔ بھڑاس نکالتا ہوں۔ اکیلا بڑبڑاتا ہوں، خود کو گالیاں دیتا ہوں۔ سب کو گالیاں دیتا ہوں۔ مجھے اپنے دل میں، خود سے نفرت سی پیدا ہو گئی ہے۔۔۔ لیکن میں وہ نقطہ مٹا نہیں سکتا۔ اسی لیے میں گھسیٹا جاتا رہتا ہوں، یہاں سے وہاں پھینک دیا جاتا ہوں، دھکیلا جاتا ہوں، بےبس، لاچار، بھیڑ کے ساتھ چیخوں کے درمیان، بھاگ دوڑ کرتے لوگوں کے ساتھ، لیکن دل میں ایک خیال ہمشیہ ابھر تا رہتا ہے کہ کاش میں ایسا کر سکتا۔۔۔ مگر۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.