بھیڑ میں شکست
بیس تا پچیس سن کے نوجوانو ں کی بھیڑکے لیے جومسئلہ ہڈیوں، گوشت، خلیوں اور خون سے بھی زیادہ اہم جزوجان بن جاتاہے، وہ ہوتاہے، ’’بیوی کیسی ہو؟‘‘ پھرموسم کی آتی ہے برسات، لنگوٹ گیلی ہونے کازمانہ آتاہے، ہوٹل میں سات آٹھ نوجوان جمع ہوتے ہیں۔ ’’پانچ کڑک چائے۔۔۔‘‘ کی صداکے بطن سفیدبھک سگریٹوں کے سرے سرخ ہونے لگتے ہیں۔ دھوئیں کے مرغولے بھی کھوکھلے نہیں ہوتے۔ سارے لطیف ترین احساسات کے رس کوپھینٹ کربنائے ہوئے شفاف، غیرمحسوس لچک دارریشے ان مرغولوں کی بنیاد میں رستے ہیں۔
ہرشخص نے ان تاروں کے سرے اپنی اپنی مٹھی میں دبارکھے ہیں، محض یہ دکھانے کے لیے کہ’’سالاہم اس بھیڑ سے مختلف ہیں۔‘‘ سبھی کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان تاروں کوجسم کے آرپارگذاردیں۔ حماقت اورذلالت یہ ہوتی ہے ان بندمٹھیوں پرایک شراپ ہوتاہے۔ اسی لیے وظیفہ یاب ہونے کے بعد یہ ساری مٹھیاں بے کارثابت ہوتی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی ایک’’دوتین‘‘ کافی ہیں، آئند ہ بھیڑکا کوئی نہ کوئی کرداران تاروں کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی کوشش کرتارہتاہے۔ دھت، بھڑؤ، ذراسا سبق توسیکھو۔۔۔
’’سالااپنی بیوی کیسی ہوگی، معلوم نہیں۔ اپنے کوبس اتنامعلوم ہے کہ بیوی ایسی ہو جواپنے شوہر کوجری مردسمجھے۔‘‘ میں نے بھیڑکوتحریک دی۔
’’اوراپنے کوسالاوہ ہٹلرکے عشق کی لائن پسندہے۔ مائی گاڈ!کیاشادی تھی ا س کی بھی۔ چٹ بیاہ پٹ خودکشی!ویسے عشق کا ایک لمحہ بھی بہت ہوتاہے۔‘‘ گویاسیتارام کوکڑک چائے اور بھی کڑک لگی تھی!
بھیڑکبھی نہیں مرتی۔ اس کا وجودامیباکی طرح ہوتاہے۔ ایک امیبا اگرٹوٹ جائے تواس کے جتنے ٹکڑے ہوں، اتنے نئے امیبا تیارہوجاتے ہیں۔ بالکل ایسا ہی معاملہ بھیڑکاہے۔ بھیڑ اگرٹوٹے، اس کی دویاتین یامزیدکئی بھیڑیں تیارہوجاتی ہیں۔
سالا اس سے زیادہ باریکی میں جانا بھی نہیں چاہئے۔ ورنہ معلوم ہوتاہے کہ بھیڑکااپناباطن بھی ہوتاہے۔ اورجب پوری ایک بھیڑکی فتح ہوتی ہے تو معلوم ہوتا ہے اس کے ہرفریق کوکسی نہ کسی طرح کی شکست سے بھی دوچار ہوناپڑتاہے۔ یہی بھیڑ کے باطن کا کلیہ ہے (میرے ایک باخبردوست نے انکشاف کیا کہ اپنے ہاں باطن کے چکرمیں پڑاہوا ہر شخص یاتوگیانی بن جاتاہے یا پھر نقاب اوڑھ کر مادی اعتبار سے فارغ البال ہوجاتاہے۔ یہاں موپاساں اور نطشے جیسے المیے ممکن ہی نہیں۔‘‘
’ہی‘ ایسی آواز لگاتاہے جیسے کاغذ کی پونی بناکرلمبی سانس کھینچی گئی ہو اور ہاتھوں کوسیدھا کرکے انگلیوں سے ایسی حرکتیں کرتاہے جیسے پاگل ہوگیاہو۔ اگر اس سے کوئی پوچھے کہ ’’اچھا بتاگیانی کی پہچان کیاہے؟‘‘ توکہتاہے بھگوت گیتاکامطالعہ کرو۔ اورسالے تم پڑھوپیری میسن، آں!)
بھیڑکی کہانی سور ج ہی کی طر ح لافانی ہوتی ہے۔ بھیڑکا اپنا ایک مقصد ہوتاہے۔ جس کی سمجھ میں یہ مقصد آجائے، اس کے لیے پھلنے پھولنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اسے صرف اتناکہناپڑتاہے، ’’مزدورمتحدہوجاؤ، فلاں فلاں، بھائی بھائی۔‘‘
’’معاف کیجئے، آں، آپ کو دھکالگ گیا۔‘‘ اتناکہہ کرکوئی بھی بھیڑ کودھکے دیتاہوا آگے نکل سکتاہے۔ البتہ ایک بات ہے، یہ دیکھنا ضروری ہوتاہے کہ اصولوں کے کالرسفیدکپڑوں سے میچ ہوتے ہیں یانہیں۔۔۔ بس!
چاہیں تو آپ مجھے گالیاں دیجئے لیکن میری ایک عادت ہے۔ میں ہمیشہ بھیڑکے پیچھے سے نکل جاتاہوں۔ اس کے کالر غورسے دیکھتاہوں، پھر رات کو جب میں کمرہ میں تنہاہوتا ہوں تو آئینہ کے سامنے کھڑے ہوکر ایک ایک کالر اپنے گریبان پرلگاکردیکھتاہوں۔ واقعی ایسا لگتا ہے جیسے میں نے کالر کی بجائے دم لگالی ہے۔ میرے گھرمیں بھی ایک بھیڑہے۔ ماں، باپ، بھائی، بہن، بھابیوں وغیرہ کی۔ اس بھیڑ کے پاس ایک سیڑھی ہے۔ وہ اس سیڑھی سے نواسا، نواسی پوتاوغیرہ کہتے ہوئے اترتی ہے۔ یہ ایک ایسی سچائی ہے جوصرف میرے علم میں آئی ہے۔ اپنی حد تک کہوں تومیں یہ سیڑھی ایسے کاٹ دوں گا جیسے نوزائیدہ بچے کی نال کاٹ دی جاتی ہے۔ ایک، دوتین بس والے زمانے میں یو ں بھی سرکارہی کافائدہ ہوتاہے۔ کسی کے اعمال سے کب تک کس کوفائدہ پہنچے، کہا نہیں جاسکتا۔
میرے دفتر میں بھی ایک بھیڑہے۔ میں، میراباس، میرے شریک کار اورہمارے چپراسی۔۔۔ بس اسٹاپ اورایک بھیڑ۔۔۔ سیتابلڈی، لاکالج یادکن جم خانہ، ایسے ہی کسی نام کی قسمت کا لیپ لگی ہوئی، سنیما تھیٹر کے پاس مزید ایک بھیڑ۔ جین لولو بریجیڈا، یاسادھنا، شمی کپور وغیرہ پرمشتمل۔
راشن کی دکان پرایک اورہی بھیڑ۔ نتھوخیرے کی قسمت کی۔ یہاں البتہ بھیڑ نے بلاعذر اوربلاجھجک تالی دی۔
بھیڑ، بھیڑدھنیہ تیری لیلا
دھنیہ تیرے دکھ
عظمت تیری بے پایاں
تیرے اوصاف بیان کروں
میرے لفظوں میں اتنی سکت کہاں۔
میں اکیلاجارہاتھا۔ شاید اسی لیے دھوپ بہت شدیدلگی۔
کتنی دیراورکتنی دورتک چلناپڑے گا!جیب میں اتنی رقم نہ تھی کہ رکشہ کرسکتا۔ فوراً ذہن اس بات پرجم گیاکہ میری جیب میں پیسے نہیں ہیں۔ گویہ بھی کسی نہ کسی بھیڑ کے ہی اعمال کانتیجہ ہے۔ یعنی جب جیب میں پیسہ ہوتاہے تووہ کسی بھی بھیڑ کے اعمال ہی کا نتیجہ ہوا!اعمال چاہے ’’ایورفریش‘‘ چائے کی کمپنی کے ہوں! ٹرائنگل کنسٹرکشن کمپنی کے یاپھر سرومنگل ایجوکیشن سوسائٹی کے (ان تینوں ہی جگہوں پرمیں ملازمت کرچکاہوں، اس لیے صرف یہ تین مثالیں) اتنی باقاعدگی تو مجھ میں اب بھی ہے۔ لیکن باقاعدگی اگردونوں طرف سے بھی ہو، تو اس سے آخرکیا حاصل؟دکھ بہرحال دکھ ہوتے ہیں!ایسے ہی لمحات میں خود کے آگاہ وباخبر ہونے کا احساس ہوناچاہئے۔ دس ہاتھی سگریٹ پینے کی طاقت پیدا ہوتی ہے۔
میں نے اپنے چلنے کی رفتارکم کردی۔ سائیکل والے، پیدل جومیرے پیچھے تھے، بھرابھرآگے نکلنے لگے۔ آگے چل کر دولوگوں سے ملاقات ہوئی۔ دونوں کے کاندھوں پر ڈبے لٹکے ہوئے تھے۔ ڈبوں پر سرخ رنگ کاکور چڑھا ہوا تھا۔
’’کیاہے؟‘‘ میرے بہت ہی قریب سے گذررہاتھا، اس لیے میں نے اس سے پوچھا۔ (آج ہندی میں بات کرنے کوطبیعت چاہ رہی تھی) پھرکافی طویل عرصے کے بعد زندہ صحبت نصیب ہورہی تھی۔ خوب ڈٹ کرکھالینے کے بعد جیسے ڈکاریں آتی ہیں، بالکل اسی طرح قربت کی چاہ کوابال آرہاتھا۔
’’چناہے۔‘‘
’’مونگ پھلی نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں جی۔۔۔‘‘
تقریباً دس منٹ تک ہم تینوں ہی خاموش چلتے رہے۔ ’’لاکالج کوکون ساراستہ جاتاہے؟‘‘ محض سلسلہ کلام جاری رکھنے کے لیے میں نے یہ بات نہیں پوچھی۔ اس شہرمیں واقعی اجنبی تھا۔
’’ہم لوگ خودادھرسے نئے لوگ ہیں۔‘‘
’’آئے کہاں سے؟‘‘
’’اورنگ آبا دسے۔‘‘
’’اتنی دورسے اوروہ بھی صرف چنے بیچنے کے واسطے؟‘‘
’’کیاکریں ساب؟جدھرآدمی پیٹ ادھرہی اس کادیٹھ۔‘‘
اس کی قافیہ پیمائی نے مجھے بھونچکاکردیا۔ میں خاموش چلتارہا۔
پھرایک سائیکل والے سے میں نے بڑی عاجزی سے پوچھا، ’’کیوں بھئی، لاکالج کوکون سا راستہ جاتاہے؟‘‘
’’یہ ساتھ میں تمہارادوست ہے کیا؟‘‘ سائیکل کی رفتاردھیمی کرتے ہوئے اس نے پوچھا۔
(سارادھندہ ہندی میں چل رہا لگتاہے نا؟‘‘)
’’نہیں تو!کیوں؟‘‘
’’پھر کچھ نہیں۔۔۔ سیدھے اسٹریٹ جاؤ۔ لیکن لاکالج آج بندہوگا۔‘‘ سالے سے نہ جان پہچان، بلاوجہ گستاخی کرتاہے۔ ٹھیک ہے بیٹا لاکالج اگربند بھی ہے تو کیاہوا۔ اس کے پاس ہمارے رشتہ دارکاگھر توبندنہیں ہوگا۔ گھرانوں کی توگرماکی تعطیلات نہیں ہوئیں نا؟
فورا ًمیرے ذہن میں ایک خیال آیا۔ میرے تھیلے کا رنگ اس چنے والے کے ڈبے کے رنگ سے مشابہ ہے۔ پھر اس پردودو انگل کی کالی دھاریاں بھی ہیں۔ بال بھی کھچڑی ہورہے تھے۔
’’دوست ہے کرکے کیوں نئیں بولے؟‘‘ ان دونوں میں ایک نے پوچھا۔ اس کے سوال کوسنجیدگی سے قبول کرتاتومیری قلعی کھل جاتی۔
’’بابوجی، ایک بات پوچھوں؟آپ غصہ تونہیں کریں گے؟‘‘
’’ہاں پوچھو۔‘‘
’’آپ کرتے کیاہیں؟‘‘
’’پروفیسرہوں۔‘‘
’’آپ ویسے نظر نہیں آتے۔ اسی واسطے وہ آدمی ایسا بولا۔ آپ کوبرالگاکیا؟‘‘
جھک ماری جوایسے کپڑے پسندکیے۔ اس سے توبہتر تھاٹرک چلاتے۔ کسی دورافتادہ گاؤں کے ڈھابے پررکتے۔ مزے داربیسن اورگرم گرم روٹیاں کھاتے۔۔۔ اور۔۔۔ میں نے اپنے ہونٹ چبالیے۔
ان خواہشات کا کیاکیاجاسکتاہے۔ کون ساپیشہ اختیارکرنا چاہئے؟
میں بس اسٹینڈپرریزرویشن کے لیے گیا۔ لائن میں میرانمبر گیارہواں تھا۔ ڈھائی سے ساڑھے تین بجے تک لائن میں کھڑارہا۔ سالی لائن آگے سرکنے کانام نہیں لے رہی تھی۔ دوہری لائن لگی ہوئی تھی۔ میرے سامنے ایک شخص کھڑا تھا، ٹھگنا اورگٹھے ہوئے بدن کا۔ گردن میں روماں پڑا ہوا تھا۔ بازوؤں کی پھولی ہوئی مچھلیاں اوران پر گٹھریاں ماری ہوئی آدھی آستین۔ میں اس کے کان کے پاس بدبدایا، ’’وسیلے سے گھس رہے ہیں سالے۔ لائن سے کیو ں نہیں آتے۔‘‘
تیرنشانے پرلگا۔
’’ارے، اے وسیلے سے کیو ں گھستے ہوآں؟ابے سیدھے لائن میں کھڑے رہونا، ہم کوکیاکام دھندے نئیں ہیں بول کے کھڑے ہیں کیا؟‘‘
’’کاہے کاوسیلہ رے؟توبھی لگاناوسیلہ۔ پھرمیرے کواکیلے کوکیابول رہاہے؟‘‘ دوسری لائن میں سے ایک غرانے لگا۔
’’سب کوبھاشن دوں کیاپھر؟پہلے تو باہرنکل، پھردوسروں کودیکھتا ہوں۔‘‘
’’قاعدے سبھی کولگانااور ذرا تو بھی سیکھ۔ ٹاکیز کے پاس کیساگھستاررے؟وہاں قاعدہ نئیں رہتاکیا۔‘‘ ادھرکا بولا۔
بات توتومیں میں تک پہنچ گئی۔ ادھرکا زورزیادہ تھا۔ ادھرکی لائن منتشرہوگئی۔ میں اتنی دیر میں کنٹرولر کے پاس چلاگیا۔ انگریزی میں ڈانٹ پلائی، ’’میں پروفیسرونکرہوں۔ قریب کی پولس چوکی پرفون کیااورپولس بلوائی۔ کنٹرولرصاحب، ٹرائے تو ایکزیکیوٹ یورپاورزکریکٹسی۔‘‘ کہتے ہوئے اس کے کمرہ سے باہر آگیا۔
تھوڑی ہی دیرمیں لوگ خاموش ہوگئے۔ ریزرویشن کلرک جو اتنی دیر سے کبھی پان کھاتا، کبھی سپاری کترتا ہوا آہستہ آہستہ کام کررہاتھا، اب مستعدی دکھانے لگا۔ لائن میں اپنی جگہ پرواپس آیاتو دیکھتا ہوں کہ میراہی نمبرہے۔ گاڑی میں جگہ مل گئی یعنی پانچ منٹ میں ریزرویشن اوراب۔۔۔ یہ دوچنے والے ساتھ ہیں۔
’’ٹوازکمپنی اینڈتھری از کراؤڈ۔۔۔‘‘ یہ سب باتیں ہیں۔ بھیڑکے لگائے ہوئے داغ ہرایک کواپنے طورپرہی دھونے ہوتے ہیں۔ اگریہ بھی مان لیاجائے کہ تھکن آخری مرحلہ ہے۔
کافی عرصے کے بعد ناگپورگیا۔ گرما کے دوموسم جانہیں جاسکاتھا۔ امسال ناگپور میں گرمی کایہ عالم تھا کہ لگتا تھا جیسے قریب ہی سے کسی ریل کا دہکتا ہوا انجن گذراہو، دن میں گھر میں کسی چوپائے کی طرح گردن ڈالے پڑارہتا اورشام میں باہر نکل جاتا۔ کافی دنوں تک پیدل بھٹکتا اور واپس آجاتا۔ ایسا کرنے سے بھوک کھل اٹھتی ہے۔ رات میں دیرسے مگرخوب جم کرکھاتا، تاکہ خوب نیندآئے۔ اس سے صحت اچھی رہتی ہے۔ ایسا کرنے سے دل میں وسوسے بھی پیدا نہیں ہوتے وغیرہ وغیرہ، پھریہ ایسی باتیں ہیں جو سبھی کے لیے قابل قبول ہیں۔
میں شام ہی سے باہرنکل جاتا۔ ناگپورمیں سیتارام کا ایک ورکشاپ ہے، وہاں جاکربیٹھتا۔ شام کا وقت اکثر اسی کے ورکشاپ میں گزارتاہوں۔ گھررر گھررر کی وہی مسلسل ومانوس آواز اورلوہے کے ٹکڑوں سے سیتارام کا وہی نئی نئی شکلیں بنانا۔ سیتارام ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سمجھدار ہوگیا ہے۔ ’’ورکشاپ نے اپنے کوبس ایک بات سکھائی ہے کہ بیوی۔۔۔ ابھی آنی ہے اورصحیح بولے توشادی ہوجانی چاہئے تھی۔۔۔ ماں، باپ غیرہ سے بے تکلف مخاطب ہوناچاہئے۔ بلاوجہ پیاری، مہربان، شفیق وغیرہ باتوں کوگھولتے بیٹھے سے کچھ حاصل نہیں۔‘‘
ہم یعنی میں، سیتارام اوراس کے ورکشاپ میں کام کرنے والے تین نوکر، تفریح کے واسطے نکلے۔ نوکراول فول بکتے قہقہے لگاتے چل رہے تھے۔ مغلظات بھی بکتے جارہے تھے۔ اب ایسا بھی نہیں کہ میں کبھی یہ حرکتیں کرتاہی نہیں، ضرورکرتاہوں۔ لیکن ہربات کاایک وقت ہوتاہے، ایک عمرہوتی ہے۔ ممکن ہے میری عمراس قابل نہ رہی ہو اوران کی ہو۔ مجھے تواب خوداپنی ہی صداقت کا تحفظ کرناہے۔ پانچ لوگوں کی اس بھیڑ کے اصولوں کے عین مطابق جوں ہی میں نے ان پراعتراض کیا، سیتارام شرمندہ ہوگیا۔ ہم آہنگی برقرار رکھنے کے لیے کہنے لگا، ’’اپناورکشاپ گویاانہی لوگوں کا سامراج ہے۔ سارااثاثہ میرا ہے، اس لیے میں مالک ہوں لیکن سسٹم ایسارکھا ہے کہ چاہتے ہوئے بھی کوئی یہ ورکشاپ چھوڑنہیں سکتا۔ ہرایک پردوسرے کے باقی ماندہ کام کی ذمہ داری عائدہوتی ہے۔ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے ہاں ایک الگ ہی قسم کا کمیونزم یاسرودیہ ہے۔‘‘ ایک مرتبہ یہ طے ہوئے جائے کہ’الگ قسم کا‘ہے توپھر کمیونزم کیااور سرودیہ کیا، سیتارام کے لیے دونوں برابرہیں۔
کائیں کائیں کرتے ہوئے وہ تینوں چلے گئے۔ میں اورسیتارام چلتے رہے۔ اچانک مجھ پراداسی طاری ہوگئی۔ ممکن ہے سورج کے ساتھ ڈوبتی ہوئی شام کارنج ہو لیکن میری اداسی کے گہرے ہونے کاسبب کچھ اورہی تھا۔ ابتدا میں ہم پانچ لوگ تھے۔ خفیہ طورپر ہی سہی، لیکن بھیڑ میں آدمی پرایک طرح کانظم طاری ہوتا۔ بھیڑ کے بغیرآدمی یکلخت ننگا ہوجاتاہے۔
’’سیتارام وہ دونوں چلے گئے نا، اچانک برہنگی کا احساس ہونے لگا۔‘‘
’’کیوں میں ساتھ ہوں نا؟‘‘ میری بات وہ سمجھ نہیں سکا۔
’’لیکن وہ دروازے جوبند تھے، لگ رہا ہے اچانک کھل گئے ہوں۔ پانچ لوگوں پرکیسے بندہوتے ہیں دروازے۔‘‘
وہ پھرنہیں سمجھ سکا، میں کیا کہہ رہاہوں۔ جسم ڈھیلا چھوڑے ایسی چال چلنے لگا جوصرف اندھیاروں اوراداسی کی فضا میں ہی زیب دیتی ہے۔
’’کمود آج کل کہا ں ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’جبل پورمیں۔‘‘
’’ساری اکڑختم ہوگئی اب کیا اس کی؟‘‘
’’وہی ہاں کہہ کرمکرجانا!‘‘
’’مگراس سکھ کی پہلی بیوی بھی توتھی نا!‘‘
’’اب بھی ہے نا۔ ویسے کمود بھی ساتھ ہی رہتی ہے۔ سلائی مشین کی ایک ایجنسی کمود کے نام کردی ہے اس نے۔‘‘
’’فالتو ہے۔ بلاوجہ تم نے اس کوبی اے کروایا، نوکری دلوائی، میٹرک پاس ہوتے ہی شادی کروادیتے توجھنجھٹ توپیدا نہ ہوتی۔‘‘
اس کے بجائے ’وہ‘ کرتے توایسا نہ ہوتا۔ اب اپنا بھروسہ کہاں ہے۔ ایسی باتوں پر اس طرح کی غلطیاں کون درست کرتابیٹھے!
’’دیکھ سیتارام! آج کل ایک عجیب خیال آتاہے مجھے۔۔۔ ایسا کرناچاہئے کہ آدمی کوکسی کمرہ میں مستقل طورپربندکردو۔ زیاد ہ سے زیادہ یہ کر سکتے ہیں کہ کہیں سے اسے کھانایاپانی پہنچانے کابندوبست کردیا۔ آکسیجن توویسے بھی ملتاہے۔ بتاایسا آدمی اپنی خواہشات کاکیا کرے گا؟‘‘
’’دیکھ یار اپن رات کے بارہ بجے بعدورکشاپ بندکرکے باہرنکلتے اور اس وقت بھی اپنے بھیجے میں صرف یہ ورکشاپ ہی رہتاہے۔ خواہشات کاکیا کرناچاہئے وہ شادی کے بعددیکھیں گے۔ یہ عمر ہے کیاایسے خیالات میں گھلنے کی؟‘‘ سیتارام اپنی ڈگری چھوڑنے کوتیارنہ تھا۔
تنہائی میں ساورکر نے رزمیہ لکھا اورتلک نے ’’گیتارہسیہ‘‘ مگرسیتارام کویہ مثالیں دینے سے کیاحاصل؟مجھے خود نہیں سوجھ رہا تھا کہ کس طرح جنرلائزیشن کردوں، لہذا میں نے بھی ہاتھ پاؤں ڈھیلے ڈال دیے۔
چلتے ہوئے ہم ایک نکڑپرمڑے۔ راستہ نشیبی تھا۔ اچانک ایک مسرور کن بونتھنوں میں گھسی۔ ادھردھیان گیا۔ نکڑ پر کیوڑے کے پھولوں اورگجروں کی دکان تھی۔ دکان پرہجوم تھا۔ آٹھ دس نفوس پرمشتمل۔ ان میں دومردنظرآئے، باقی سب عورتیں تھیں۔ گھرمیں کوٹ کرنکالے ہوئے چاول جس طرح میلے لگتے ہیں، ویسا ہی رنگ اس ہجوم کا تھا، یا پھر ایسا جیسے پرانے کپڑوں پراستری کی گئی ہو۔ عورتیں بڑی عجلت سے اپنے بالوں میں پھولوں کے ہارباندھ رہی تھیں، ایسے جیسے میلے کچیلے رومال پرعطرچھڑکاجائے۔
بات اب بنی تھی۔ آگے آگے بھیڑ اورا س کے پیچھے ہم، یعنی میں اور سیتارام۔ چاہیں تو آپ مجھے گالیاں دیجئے مگر میں بہت ہمیشہ بھیڑ کے پیچھے پیچھے ہی چلتا ہوں۔ اس کی کالریں دیکھتا ہوں۔
’’سیتارام یہ بھیڑدکھ رہی نا؟ان کواکسانے کے واسطے توکس طرح کے نعرے لگائے گا؟‘‘
’’اس بھیڑکواکسانے کے واسطے نعروں کی ضرورت؟آگے کے نکڑپر پریشر کوکر یا برتن رکھ دو، منافع میں تھوڑی کمی کردو، مہینہ دس پندر ہ روپے کی قسط۔ قیمت سال بھرمیں وصول کرو۔ بات ختم۔ ساڑھیاں رکھو تو اس نسل کے شوہرناک بھوؤں چڑھاتے ہیں۔ پریشر کوکرس البتہ شوہر بیوی دونوں کومتاثر کرتے ہیں۔ انہیں ایسا لگتاہے جیسے پریشرکوکرکی وجہ سے گھرسنسار ہرابھرا ہوگیاہے۔‘‘
بھیڑکی یہی وہ کہانی ہے، جس کے معنی ومقصدکوسمجھنے کے لیے کسی نہ کسی ایک اصول کی قوت درکارہوتی ہے۔۔۔ اورسیتارام توہے ہی ہمت والا۔
’’کس کی ساڑی پہن رکھی ہے بیگم یہ تم نے؟‘‘ اپنی بیوی کوکسی اورکی ساڑی پہنے دیکھ کرایک شوہر نے پوچھا۔
’’وسومتی کی ہے جی۔ تم کومیں اِتابولی مگر تم میری وہ ساڑی استری کراکے نئیں لائے نا۔ ایک ہی پہنتے پہنتے کتی میلی ہوگئی وہ۔ ایک ساڑی ہے وہ کاڑیاں کاڑیاں والی، وہ پہننے کے کام کی کاں رہی۔ وسومتی سکھانے کوڈالی تھی، میں پہن لی۔‘‘
’’پہن لیے توکیاہوا؟‘‘
ایک دوسری عورت جواچھی خاصی جوان نظرآرہی تھی، کہنے لگی، وہ یقیناً وسومتی تھی۔۔۔ اوروہ آدمی اس عورت کاشوہر، کیونکہ کاندھے سے کاندھا ملاکرچل رہاتھا۔
چلتے چلتے ہم اس بھیڑ کے بہت قریب پہنچ گئے۔ وہ دومرد اچانک اونچے پورے، وجیہ اورخوبصورت نظرآنے لگے۔ استری کی ہوئی ان کی پتلونیں بڑی سلیقے کی لگ رہی تھیں۔ اس عورت کے پیرننگے تھے لیکن اس نے بڑی صاف وشفاف ساڑی پہن رکھی تھی۔ پیروں میں مہندی تھی اورنازک سے پازیب بھی پڑے ہوئے تھے۔ سبھی عورتیں اسی طرح بھدی تھیں لیکن اتراتی ہوئی چل رہی تھیں ان کے بارے میں اگرسیتارام سے کچھ پوچھتا وہ بلاجھجک کہہ دیتا، ’’یہ جو جھک پک کپڑے پہنے ہوئے اورہاتھوں میں بریف کیس تھامے ہوئے مردہیں نا، ان سے شیئرس کے بھاؤپوچھو اورمزے سے چوری چوری ان کی بیویوں سے آنکھیں لڑاؤ۔‘‘
بلاوجہ لفڑا ہوجاتا۔
رات میں کھانا کھاکرلیٹا اورمعمول کے مطابق بے بی پاؤں دابنے لگی۔ یہ عادت بی بی ہی کی وجہ سے پڑی۔ میرے چچا زادبھائی یعنی بے بی کے والد میری اس عادت پرناک بھوؤں چڑھاتے ہیں!
اس پہلی بھیڑکے نام حکومت مہاراشٹریا حکومت کیرل کالاٹری ٹکٹ نکلے یا پھران ہی میں مشکل ہوئی دوسری بھیڑ کوشیئرزکے بھاؤ کی تیزی مندی معلوم ہوجائے ۔۔۔جو کچھ ہوناہے ہوجائے!
بھیڑایک سے زیادہ افراد کے جمع ہونے ہی سے ہوتی ہے، ایسا کچھ نہیں ہے۔ اکیلاشخص بھی ایک بھیڑ ہی ہوتاہے۔ اس کی ایک کہانی بھی ہوتی ہے۔ اس کا بھی ایک مقصد حیات ہوتاہے میں البتہ پھلوں گا، پھولوں گا۔ اپنائے ہوئے اصولوں کوتوڑوں گا کیونکہ مجھ میں اب اتنی ہمت نہیں کہ اپنے اندرکی بھیڑ کا بوجھ فٹافٹ اکیلا اٹھاسکوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.