بھورے
کہانی کی کہانی
"تقسیم کے بعد ہجرت کر پاکستان جا بسے بھورے نام کے ایک شخص کی کہانی۔ بھورے بھارت کے سیتاپور سے نکل کر لاہور جا بستا ہے۔ وہاں وہ ایک اسپتال میں نوکری کرنے لگتا ہے۔ نوکری کے دوران اس کا سابقہ ہر قسم کی عورتوں سے پڑتا ہے، لیکن وہ ان میں سے کسی کے ساتھ شادی کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار نہیں کر پاتا ہے۔ اس عرصے میں اسے اپنے بچپن کی منگیتر ظہورن یاد آتی ہے۔ اتفاق سے ایک دن اس کا سامنا اسی اسپتال میں ظہورن سے ہوتا ہے، جو اپنے صاحبوں کے ناجایز بچے پیدا کرنے کے لیے ہر سال وہاں آتی ہے۔ اس کی یہ حقیقت جان لینے کے بعد پہلے تو وہ ظہورن کو ٹھکرا دیتا ہے، لیکن جب وہ واپس چلی جاتی ہے تو وہ وہیں اس کے انتظار میں ساری عمر گزار دیتا ہے۔"
محمد بھورے ولد محمد بوٹے کے دماغ میں کوئی خلل پیدا ہو گیا ہے، یہ سب کا متفقہ فیصلہ تھا مگر مس لالی خاں ہاؤس سرجن کا خیال تھا کہ ان کے دماغ میں کوئی خلل نہیں ہے کیونکہ وہ بقائمی ہوش و حواس تمام کام انجام دیتا ہے، اگر گھنٹے کی آواز سے اس پر بے چینی طاری ہو جاتی تو یہ کوئی جذباتی معاملہ ہے۔ محمد بھورے سےاس معاملے میں تقریباً سبھی نے پوچھ گچھ کی مگر جواب میں اس نے ہمیشہ دانت نکال دیے اور اس طرح ہنسا جیسے سب کو چڑا رہا ہو، مس لالی خاں نےاس معاملے میں بھورے سے بڑی رازداری کے ساتھ معلومات حاصل کرنی چاہیں مگر وہ ان کی ہمدردی اور خلوص کو بھی بڑے بے اعتنائی سے ٹال کر صرف تنہا رہ گیا، آخرکار مس لالی خاں کا بھی خیال بدل گیا اور انہیں بھی ماننا پڑا کہ یہ خلل ہے مگر محض لمحاتی، جو گھنٹے کی آواز سے پیدا ہوتا ہے، اس لیے بھورے بے زار سا انسان ہے اور اسے اپنی ملازمت پر موجود رہنا چاہیے۔
محمد بھورے اپنی ملازمت پر موجود رہا مگر یہ کسی کو نہ معلوم ہو سکا کہ یہ ایک کہانی ہے جو بھورے کسی کو نہیں بتانا چاہتا اور وہ اس کہانی کے ایک بڑے ہی مسرت انگیز انجام کا منتظر ہے، یہ کہانی اس طرح ہے کہ، سیتاپور کا مہاجر محمد بھورے اس زنانہ امراض کے اسپتال میں آٹھ سال سے کام کر رہا تھا، اس کی ڈیوٹی اسپتال کےاس ٹیلی فون پر لگی ہوئی تھی جو ہاؤں سرجنوں اور ٹریننگ حاصل کرنے والی لڑکیوں کے لیے وقف تھا، دوسرا ٹیلی فون جو دوسری طرف تھا، مریضوں اور ان کے سرپرستوں کے لیے وقف تھا، دونی ڈبے میں ڈال کر جس کا جی چاہے فون کر لے، اس دوسری طرف ہر وقت ہلڑ سا مچا رہتا، اس کے باوجود ٹیلی فون چپراسی پرائیویٹ کمروں کے مریضوں کو پیغام بھی پہنچا دیتا اور مریض خوش ہوکر اسے انعام بھی دے دیا کرتے، اس طرح خاصی آمدنی ہو جاتی مگر بھورے اس آمدنی اور اس ٹیلی فون دونوں سے توبہ کرتا تھا، اس نے کبھی یہ کوشش نہیں کہ اس کی ڈیوٹی دوسرے ٹیلی فون پر تبدیل کر دی جائے۔
وہاں پر قریبی لیبر روم سے آتی ہوئی چیخیں صاف سنائی دیتیں، سب بدحواس سے نظر آتے مگر یہاں اس طرح بڑی بڑی محرابوں والے برآمدے میں ہر طرف سکون طاری رہتا، سامنے وسیع لان کے درختوں پر چڑیاں چہکا کرتیں، گرمیوں میں لو کے گرم جھونکے بھی برآمدے تک آتے آتے ٹھنڈے ہو جاتے، سردیوں میں چمکیلی دھوپ گھنٹہ دو گھنٹے برآمدے میں لوٹتی رہتی اور برسات میں جب چھم چھم بارش ہوتی تو کبھی کبھی بوچھار برآمدے کی محرابوں سے داخل ہوکر بھورے کے قدموں کو بھگو جاتی، یہاں کے سناٹے کے اور بھی بہت فائدے تھے، یہاں وہ آزادی سے جوان آیاؤں اور بوڑھی آیاؤں کی لڑکیو ں سے عشق لڑا لیتا تھا، اتوار، اتوار فلموں کے میٹنی شو دیکھنے کی وجہ سے اس کو عشق کرنے کے ہزاروں طریقے معلوم ہو گئے تھے، تنخواہ کا آدھا حصہ تحفوں میں خرچ کرنے کے بعد بھی بھورے کی زندگی بڑے مزے سے گزر رہی تھی، اس کی زندگی میں صرف اس چیز کی کمی تھی کہ اس کی محبوبائیں فلمی ہیروئنوں کی طرح نہ تو اس سے محبت کرتی تھیں اور نہ باوفا تھیں، ویمپوں کی طرح بے وفا اور ہرجائی تھیں۔
اسے معلوم تھا کہ وہ اور بہت سوں سے بھی تحفے وصول کر لیتی ہیں، وہ اپنی محبوباؤں کو جی جان سے بدمعاش سمجھتا تھا، اسی لیےاس نے اب تک شادی نہ کی تھی اور نہ اسے شادی کی ضرورت محسوس ہوئی تھی، مہاجر بننے کے بعد شادی کا تصور اس کے ذہن میں دھندلاکر رہ گیا تھا، کہتے ہیں کہ جب بندر بارش میں بھیگتا ہے تو اسے گھر بنانے کا خیال آتا ہے مگر بھورے انسان تھا اور بارش سے سر بچا سکتا تھا، اس لیے اسے گھر بنانے کی کیوں فکر ہوتی، ویسے بھورے کو شادی سے نفرت بھی نہ تھی البتہ شادی کرنے کے لیے جس قسم کی پاک دامن اور محبت کرنے والی بی بی کی ضرورت ہوتی ہے وہ اسے اب تک نظر نہ آئی تھی، اس لیے وہ زندگی سے خوش اور مطمئن تھا، مقدور بھر عیش کر رہا تھا، ملازمت میں بھی کوئی تکلیف نہ تھی، سارا دن میلی پرانی آرام کرسی پر پڑا فون ریسیو کرتا یا پھر گایا کرتا۔
جب وہ سیتاپور میں تھا تو راتوں کو اپنی ٹولی کے ساتھ تھال بجا کر بارہ ماسے گایا کرتا تھا، اس کے ساتھی اس کی سپاٹ آواز کی تعریف کرتے تھے، یہ وہی تعریف تھی جس نے آج تک اس کا پیچھا نہ چھوڑا تھا، نئے فلمی گانوں سے اسے بڑی نفرت تھی، وجہ یہ تھی کہ بڑی کوشش کے باوجود ان ٹیڑھے میڑھے فلمی گانوں کی نقل نہ اتار سکا تھا، ان دھنوں کی نقل کرتے ہوئے اس کی آواز جواب دے جاتی، اس لیے اسے اپنے وہی پرانے گانے جی جان سے پیارے تھے، سیتاپور چھوڑے دس سال ہو گئے تھے، مگر وہ ان گیتوں کا ایک آدھ بول ہی بھول سکا تھا۔
لاہور میں بھورے بالکل اکیلا تھا، ماں باپ سیتا پور ہی میں مر چکے تھے اور خالہ جس نے اسے پالا تھا، سیتاپور ہی میں رہ گئی تھی، خالہ نے اس کے صرف ایک خط کا جواب دیا تھا، اس کے بعد بھورے نے کئی خط لکھے مگر کوئی جواب نہ آیا تو اس نے سمجھ لیا کہ بیچاری بوڑھی مرکھپ گئی ہوگی، دکھ پالو تو جوان ہو ہو کر ستاتے ہیں مگر پیدا ہوتے ہی گلا گھونٹ دو تو فرصت مل جاتی ہے، بھورے بھی کچھ اسی طبیعت کا آدمی تھا لیکن جب سے اس کو یہ محبت کا روگ لگا تو دنیا ہی بدل گئی، آیائیں اور اس کالی کلوٹی نرس کی لونڈیا اس کے سامنے مٹک مٹک کر تھک گئیں، پر بھورے نے ان کو کوئی تحفہ نہ دیا، ایسا جی اچاٹ ہوا کہ پھر تفریحاً بھی ان پر محبت کی نظر نہ ڈالی، رات اس کے کوارٹر میں آنے کا مژدہ سنا کر للچاتیں تو وہ جیسے بہرہ بن جاتا، اس طرح چار پیسوں کے لیے آخر کون پیچھے پھرتا رہتا، وہ سب بھی اسے پاگل سمجھ کر چھوڑ گئیں۔
پہلی بار جب اس نے جہورن کو بےدردی سے دھتکارا تھا تو بظاہر اسے محسوس نہ ہوا تھا مگر جب وہ تھکے تھکے قدم ڈالتی اس کی نظروں سے اوجھل ہو گئی تو ذرا ہی دیر بعد بھورے کو ایسا لگا کہ ایک پھانس ہے جو دل کے پاس کھٹک رہی ہے۔ بھورے نے جی بہلانے کے لیے الاپنا شروع کیا۔
نہ تم سے دل کو لگاتے نہ غیر کہلاتے
گلوں میں بیٹھے گلزار کی ہوا کھاتے
ہوں۔۔۔، ہوں۔۔۔، ہوں۔۔۔، ہوں۔۔۔، ارے ہاں مفت ہوئے بدنام سنوریا تیرے لیے، پھر وہ لمبی سانس لے کر میلی پرانی آرام کی کرسی پر پھیل کر بیٹھ گیا، آج جنے ساری فون کرنے والیاں کہاں مر گئیں، اس نے اپنی سیکنڈ ہینڈ گھڑی کی طرف دیکھا، دس بج گئے، ابھی تو کلاسیں بھی نہ ختم ہوئیں ہوں گی۔۔۔، تم کو تو مسٹر بھورے یوں ہی جلدی مچی رہتی ہے، ابھی وقت ہی کیا ہے، وہ پاجیوں کی طرح مسکرایا، نیچی کرسی پر بیٹھ کر اونچے پر ہاتھ مارنا بھورے کے بس میں نہ تھا مگر نظروں پر کون اونچ نیچ کی چھاپ لگا سکتا ہے، فون کرنے والیوں کو دیکھ کر دل ہی دل میں مزے لوٹ لیا کرتا۔ فون کرنے والے بہت سے چہرے اس کے سامنے ناچ گئے، اس نے مسرت سے آنکھیں بند کر کے کرسی پر لیٹنے کے انداز سے پاؤں پھیلا دیے مگر لمحے بعد پھر وہی اکتاہٹ اور افسردگی اس کے دل میں گھمسان کارن ڈالنے لگیں، آج تو کسی خیال سے بھی اسے پہلی جیسی خوشی نہ مل رہی تھی، وہ پھر گانے لگا۔
ہوائیں کوچے سے ہر طرح کی ترے آئیں
سزائیں دل کے لگانے کی سیکڑوں پائیں
ہاں ہاں۔۔۔، ہوں ہوں۔۔۔
مفت ہوئے بدنام سنوریا تیرے لیے
تیسرا مصرع بیتے ہوئے برسوں نے ذہن سے نکال پھینکا تھا۔
چلی گئی تو کیا ہو گیا؟ ایسی ایسی بہت پھرتی ہیں، مسٹر بھورے تم کو کیا کمی ہے؟ مایوسی کے دن میں اس نےمسرت کا جھنڈا لہرانا چاہا اور پھر ادھر ادھر دیکھنے لگا، اس سائیڈ پر سالی کیسی خاموشی رہتی ہے، آج بھورے کو یہ جگہ بری معلوم ہونے لگی، اس نے سوچا کہ وہ ادھر ہوتا، اس طرف کے ٹیلی فون پر اس کی ڈیوٹی ہوتی تو کتنا اچھا ہوتا، ہر وقت آنے جانے والوں کا شور، عورتوں کے چیخنے چلانے کی آوازیں، سالے سارے برے خیال و یال بھاگ کھڑے ہوتے ہیں، دماغ میں تو بھس بھر جاتا ہے، انسان کی ذات سے نفرت ہو جاتی ہے اور یہ عورت ذات کیسی ڈھیٹ ہوتی ہے، بچہ جنتے ہوئے کتنا شور مچاتی ہے، چیخ چیخ کر کان کھا لیتی ہے جنم جنم کے لیے بچہ پیدا کرنے سے توبہ کرتی ہے اور پھر سال کے اندر پیٹ پھلائے اسی اسپتال میں آتی نظر پڑتی ہے، کیسا عجیب سا لگتا ہے۔
اور پھر جانے کہاں سے ایک خیال بھورے کے دماغ میں آ گھسا، جو میں نے جہورن سے شادی کر لی ہوتی تو ایک وہ بھی یہاں آتی، میں ساری رات لیبر روم کے دروازے پر کھڑا اس کی چیخیں سنتا رہتا، جنے سنتا کہ بھاگ کھڑا ہوتا، چیخوں سے تو دل دکھتا ہے، بھورے نے لمبی ٹھنڈی سانس بھری، جنے کہاں چلی گئی ہو، اس عورت ذات کا دل تو دیکھو، اتنی بڑی دنیا بنا دی اور اس کی کوئی عزت نہیں، کیسا دھتکار دیا تم نے بھورے۔ زور سے گھنٹہ بجنے کی آواز آئی، وہ سمجھ گیا کہ کوئی اور مریضہ آ گئی ہے، پرلی طرف کے گیٹ کا چوکیدار سامنے کے لان سے ہوتا ہوا اس کی طرف آ رہا تھا، بھورے اچک کر کھڑا ہو گیا، ’’کتھے سے آ رہے ہو بادشاہو!‘‘ اس نے ہنس کر ہاتھ بڑھا دیا، اس نے وقت کے لیے پنجابی کے تھوڑے سے لفظ سیکھ لیے تھے جو وہ اپنی زبان کے ساتھ ملا کر استعمال کر لیا کرتا، ’’آؤ دو سونٹے ہو جائیں، سگرٹ کے۔‘‘ بھورے نے جیب سے بگلا سگریٹ کی ڈبیا نکال کر اس کی طرف بڑھا دی۔
’’یار تیرے تو مزے ہیں، ٹھاٹھ سے بیٹھا رہتا ہے‘‘، ‘‘چوکیدار نے سگریٹ کا دھواں اڑاتے ہوئے کہا، میرے پھاٹک سے ابھی ایک عورت کی لاش گئی ہے، بس جی خراب ہو گیا، ادھر وہ گئی ادھر دوسری آ گئی بچہ جننے۔‘‘
’’ہاں!‘‘ بھورے نے بجھی سی آواز میں کہا، اسےایک دم خیال آیا کہ جب وہ پیدا ہوا تھا تو اس کی ماں بھی مر گئی تھی، یہ بات اس کی خالہ نے اسے بتائی تھی۔
’’یار عورت ذات کیسی جیالو ہوتی ہے؟‘‘ بھورے نے لمبی ٹھنڈی سانس بھری، ’’لوگ تو یونہی بھی اس عورت ذات کے پیٹ میں بچہ ڈال دیتے ہیں، کتنا دکھ جھیلتی ہے یہ عورت۔‘‘ بھورے کا جی بھر رہا تھا، اسے پھر جہورن یاد آ رہی تھی۔
’’جیالو، اوئے رہنےدے، یہ عورت ذات بچہ نہ پیدا کرے تو جانو اس پر ساری دنیا کا دکھ پھٹ پڑتا ہے، اپنی خوشی سے کرتی ہے، پھر اتنی گندی ہوتی ہے یہ عورت ذات۔‘‘ چوکیدار نے نفرت سے شانے سکوڑے اور جانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا، پھر سرگوشی کے انداز سے بولا، ’’بیئر کی پوری بوتل لے آیا ہوں، دل کرے تو رات میرے کوارٹر میں آ جا، تجھے بھی چاند ستارے دکھا دوں۔‘‘
بھورے صرف ہنس کر رہ گیا، اس وقت اسے چوکیدار کی کوئی بات اچھی نہ لگی تھی، اس وقت تو اسے اپنی ماں یاد آ رہی تھی، بھلا ماں کس طرح گندی ہو سکتی ہے اور پھر یہ پینے پلانے کی بات، اس نے ایک دن پی تو تھی مگر ذرا سی پی کر گھوم گیا تھا، اسی قت مس زیدی آ گئی تھیں، وہ کرسی سے بھی نہ کھڑا ہوا اور بیٹھا گاتا رہا تھا، ’’کیسے تیرا انداز ہو سیدھا تو کر لو تیر کو۔‘‘ مس زیدی نے اسے بڑے زور سے ڈانٹا تھا، ’’تم کو کیا ہو گیا ہے، تمہاری رپورٹ ہوگی۔‘‘
’’دارو پلائے دی اپنے یار نے، ماپھی دیو مس صاحب۔‘‘ نشے کی حالت میں وہ اردو انگریزی اور پنجابی کے سارے الفاظ بھول گیا تھا اور صرف اپنی مادری زبان یاد رہ گئی تھی، مس زیدی کو ایک دم ہنسی آگئی تھی تو وہ گڑگڑا کر رونے لگا تھا۔
’’آئندہ ایسی حرکت نہ کرنا، تم تو بہت اچھے ہو بھورے۔‘‘ مس زیدی فون کرکے چلی گئیں تو بھورے اس فکر میں دم بخود پڑا رہا تھا کہ کہیں اس کی شکایت نہ ہو جائے مگر مس زیدی نے شکایت کرنے کے بجائے خوب قہقہے لگائے تھے اور سب کو بتایا کہ بھورے پی کر ان کے تیر سیدھے کرا رہا تھا۔ ادھر ادھر کی باتوں کو یاد کرتے بھورے نے تھک کر سامنے دیکھنا شروع کر دیا، اوپر کی سیڑھیوں پر کھٹ کھٹ ہو رہی تھی، وہ سنبھل گیا، اس آواز سے وہ سمجھ جاتا کہ کوئی فون کرنے آ رہا ہے، برآمدے کے اوپر والی منزل پر بہت سے کمرے تھے، جہاں طالب علم اور ہاؤس سرجن لڑکیاں رہتی تھیں، وہ ان سب کے نام اور ہسٹریاں تک جانتا تھا، کون کسے فون کرتا ہے، کون کس کا دوست ہے، کون محبت میں کامیاب ہو گیا ہے اور کون ناکام، رات کس نے آنسو بہائے تھے، کس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، کون سکون سے سویا تھا، کس کا ملنے والا آیا تھا، کون سی فلم دیکھی تھی، شادی کا کب ارادہ ہے۔
مس لالی خاں مسکراتی ہوئی فون کے پاس آئیں تو بھورے کھڑا ہو گیا، ہلو، ناصر بول رہے ہو، ہوں ہوں، نہیں بھئی، ہائے میں مرگئی تم کیسی باتیں کرتے ہو، اچھا کل ضرور آنا، خدا حافظ۔ مس لالی خاں کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور آنکھیں آپ ہی آپ مندی جا رہی تھیں۔ مس لالی خاں کے جانے کے بعد بھورے نے پھر آنکھیں بند کرلیں، سب یہی کرتے ہیں، سب ایک جیسے ہوتے ہیں بھورے، ظہوریا کب آئےگی؟ وہ آئے تو وہ اسے سینے سے لگا لےگا۔۔۔، ارے! وہ اپنے اس خیال پر چونک پڑا، بھلا اسے یہ خیال آیا ہی کیوں، وہ تو خواہ مخواہ اسے یاد کر رہا ہے۔ رکھی آیا کی لڑکی کی بڑے ٹھسے سے اس کی طرف آ رہی تھی، بھورے نے شوق سے اس کی طرف دیکھا، وہ لجاتی ہوئی اس کے پاس کھڑی ہو گئی، بھورے نے ادھر ادھر دیکھ کر اس کی کمر میں ہاتھ ڈال دیا۔
’’ابھی بازار نہیں گئے، لاؤگے میرا کپڑا؟‘‘ وہ اترا رہی تھی۔ بھورے نے اس کے بھرے بھرے جسم پر کئی چٹکیاں لے لیں، ’’لا دوں گا ڈیئر۔‘‘ برآمدے کے پرلی طرف کوئی آ رہا تھا، لڑکی جیسے بڑی مصروفیت کے ساتھ جلدی سے آگے بڑھ گئی اور بھورے کو محسوس ہوا کہ اس کی طبیعت ذرا کھل گئی ہے۔ سکون کی ایک سانس لے کر وہ کرسی پر پھیل کر لیٹ گیا، دوپہر ہو چکی تھی، اس نے سوچا کہ کل آیا کی لونڈیا کو کچھ نہ کچھ ضرور لا دےگا، اسے اپنی انگلیوں میں چنکوں کی لذت محسوس ہو رہی تھی۔ ایک بار پھر گھنٹے کی تیز آواز گونجی تو اتنی مشکل سے پیدا کی ہوئی لذت ایک دم رفوچکر ہو گئی، اس کا جی دکھ گیا، اسی طرح تو ظہوریا بھی آتی ہوگی، اکیلی پڑی رہتی ہوگی اور کوئی دور دور پوچھنے والا نہ ہوتا ہوگا۔ اس کی نظر برآمدے کے اس ستون کی طرف اٹھ گئی جو اس کے ٹیلی فون سے تھوڑی دور تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوا کہ اس وقت بھی جہورن وہاں لیٹی ہے۔
وہ برسات کی ایک دوپہر تھی، اس دن ہوا بند تھی اور مارے امس کے جی گھٹا جا رہا تھا، بھورے اپنی کرسی پر بیزار پڑا اونگھ رہا تھا، اس وقت اسے محسوس ہوا کہ کوئی دبے قدموں اس کے پاس سے گزر گیا ہے، اس نے آنکھ کھول دی، چوڑی چوڑی نیلی دھاری کی قمیص اور مردانہ سا پاجامہ پہنے جرنل وارڈ کی کوئی مریضہ ستون کے پاس دری کا ٹکڑا بچھا رہی تھی، وہ تو سمجھا تھا کہ کوئی اس کی ا پنی ہوگی اور ذرا وقت مزے سے گزر جائے گا، اس نے بڑی بےاعتنائی سے منہ پھیر کر دوبارہ آنکھیں بند کرلیں، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ جرنل وارڈ کی زچائیں گرمی سے گھبرا کر ادھر آجاتیں، کھلی فضا اور سناٹے میں ذرا دیر غفلت کی نیند سو کر چلی جاتیں۔
بادلوں کے ہلکے ہلکے ٹکڑے آسمان پر اس طرح پھیلے ہوئے تھے جیسے راہ میں دھول اڑ رہی ہو، سامنے لان میں بڑھی ہوئی گھاس پر ایک ہد ہد جانے کیا چگ رہا تھا اور بڑی اونچائی پر کوئی چیل پر پھیلائے اڑی جا رہی تھی، اس وقت بھورے نے اکتا کر آنکھ کھول دی، ساری قمیص پسینے سے تر ہو رہی تھی اور وہ عورت بھی اب اٹھ کر برآمدے کے ستون سے سر ٹیکے بیٹھی جانے کیا دیکھ رہی تھی، بادلوں کےدوچار چھوٹے چھوٹے سیاہ ٹکڑے کہیں دور سے سفر کرتے ہوئے سامنے آ گئے تھے۔ عورت ہولے ہولے گانے لگی۔۔۔ انبوا تلے ڈولا رکھ دے مسافر آئی ساون کی بہار رے۔۔۔ بھورے نے چونک کر ادھر دیکھا اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ عورت اسے سنانے کے لیے گا رہی ہے۔۔۔، اپنے محل میں گڑیاں کھیلت تھی، سیاں نے بھیجے کہار رے۔
عورت کی آواز ذرا سی اونچی ہو گئی مگر اس کا سر اسی طرح برآمدے کے ستون سے ٹکا ہوا تھا، ویسے تو بھورے کو اسپتال میں آکر بچے پیدا کرنے والی عورتوں سے ذرا دلچسپی نہ تھی مگر آج جانے کیوں اس عورت کا وجود اس کے لیے کشش کا باعث ہو رہا تھا، اس نے سوچا کہ عورت ہوگی مزے دار، کرسی سے اچک اچک کر دیکھنے کے باوجود اسے اس کا چہرہ نظر نہ پڑا، ستون اس کے چہرے کی آڑ کر رہا تھا۔ بھورے شرارت سے کھنکارا، اس وقت وہ بھول گیا تھا کہ اس حرکت پر اس کی شکایت بھی ہو سکتی ہے، اسے یقین تھا کہ عورت صرف اسے سنانے کے لیے گا رہی ہے، آخر اور بھی تو عورتیں تھیں، کھانستی کراہتی آتیں اور لیٹتے ہی آنکھیں بند کر لیتیں، گانے کوئی نہ بیٹھتا۔ کھنکارنے کی آواز پر عورت یوں چپ ہو گئی جیسے سچ مچ ڈولے میں سوار ہو کر سیاں کے گھر چلی گئی ہو، چند منٹ تک وہ یوں ہی سر ٹیکے خاموش بیٹھی رہی، پھر دری کا ٹکڑا سمیٹ کر کھڑی ہو گئی۔
جب وہ آہستہ آہستہ چلتی ہوئی بھورے کے پاس سے گزرنے لگی تو اس نے بڑی نفرت سے بھورے کی طرف دیکھا اور پھر کھڑی کی کھڑی رہ گئی، ’’ارے تو سیتا پور کا بھورے ناہیں ہے؟‘‘
’’اور تو جہورن ہے؟‘‘
دونوں کی نظروں میں اضطراب تھا، عورت نے شرما کر دوپٹہ ماتھے تک کھینچ لیا اور نظریں جھکا لیں، بھورے کرسی سے اچھلا اور پھر بیٹھ گیا، کلیجے پر چوٹ سی لگی۔ وقت نے پلٹ کر دیکھا، بھورے کی خالہ نے جہورن کی پیدائش پر ٹھیکرے میں پیسہ ڈال کر دیا تھا، اس طرح جہورن ساری برادری کی نظروں میں بھورے کی ہو گئی تھی اور جب جہورن بارہ سال کی ہوئی تھی تو بھورے کو دیکھ دیکھ کر شرمانے لگی تھی، وہ اپنی بھیگتی ہوئی مسوں پر ہاتھ پھیر کر سخت احمقوں کی طرح ہنستا تھا، پھر جب جہورن چودہ پندرہ برس کی ہو گئی تھی تو اپنے ساتھ کھیلنے والی لڑکیوں سے پیغام بھجواتی تھی کہ جہورن تیرا انتظار کر رہی ہے، ڈولا لے کر کب آئےگا، بھورے محنت مزدوری کر کے کوڑی کوڑی بچا رہا تھا کہ گھر آباد کر لے۔ خالہ کے لیے خدمت کرنے کو کوئی آجائے اور پھر یہ کہ جہورن اسے اچھی بھی لگنے لگی تھی۔
اسی زمانے میں ملک آزاد ہو گیا، بھورے لاکھوں کمانے کے لیے لاہور آ گیا اور کئی سال دھکے کھانے کے بعد اسپتال میں نوکر ہو گیا، لاہور کی رنگین زندگی اور تنہا شخص، جہورن تو خواب کی طرح یاد رہ گئی تھی اور سیتاپور۔۔۔، بھلا کیا رکھا تھا سیتاپور میں۔ سارا دن سڑکوں پر دھول اڑا کرتی، راہ گیر درختوں تلے گٹھریاں، سرہانے رکھ کر سوتے رہتے اور درختوں پر بیٹھے ہوئے بندر اس تاک میں دیدے گھماتے رہتے کہ کیا اچک لے جائیں، بابو لوگوں کے تھوڑے سے بنگلے، پرانی وضع کے دو چار مندر، لڑکیوں کا ایک کالج جہاں رات گئے تک کیرتن کی آواز آتی رہتی، بھلا کون یاد رکھتا ہے اس سیتاپور کو؟
مگر اب جب کہ جہورن اس کے سامنے کھڑی تھی تو اس کے دل پر چوٹ سی لگی، جہورن کسی دوسرے کی ہوگئی، وہ جسے بھورے کی خالہ نے ایک آنہ ٹھیکرے میں ڈال کر بھورے کے لیے خرید لیا تھا اور اب اس کے ایک آنے کے بدلے میں اس سے وفاداری نہ پاکر دکھ سے تلملا اٹھا تھا، اس اسپتال میں آنے کے بھلا کیا مطلب ہیں، یہی ناکہ بچہ پیدا کرنا ہوتا ہے، یا پھر کسی زنانے مرض کا علاج۔
’’کیسے آنے ہوا اسپتال میں؟‘‘ بھورے نے تصدیق چاہی۔ مگر جہورن کچھ نہ بولی، سر جھکائے ساکت کھڑی رہی، پھر نظریں اٹھاکر اور بھورے کو بڑی دکھی دکھی نظروں سے دیکھ کر لان کی طرف دیکھنے لگی جہاں ایک پیاسی ٹیٹری شور مچاتی اڑی جا رہی تھی۔
’’مینہ برسے گا ٹیڑی چہک رہی ہے۔‘‘ جہورن نے دھیرے سے کہا۔
’’ہوں!‘‘ بھورے کو اپنے دکھ میں اچانک کمی کا احساس ہونے لگا، کیا کہتی تھی خالہ، ٹکے کی ہنڈیا گئی، کتے کی ذات پہچانی۔
’’چاچا چاچی کہاں ہیں؟‘‘ بھورے نے دنیا کی باتیں کرنا شروع کر دیں مگر جہورن کی میلی پیلی آنکھوں میں ایک دم آنسو آ گئے، وہ بھورے کے قدموں کے پاس پکے فرش پر پھسکڑا مار کر بیٹھ گئی، ایسی تھکی اور نڈھال نظر آ رہی تھی جیسے کوسوں دور سے چل کر آ رہی ہو، بھوکی پیاسی، پیروں میں چھالے۔۔۔، اماں آتے ہی ہیضے میں مرگئی، دو سال ہوئے کہ بابو بھی ٹرک تلے آکر اللہ کو پیارا ہو گیا، اس دوسرے بڑے اسپتال میں تین دن پڑا رہا تھا، اس نے دوپٹے کے پلو سے آنسو خشک کر لیے۔ بھورے نے نظریں جھکا لیں، جہورن کواس حال میں دیکھ کر اسے بھی افسوس ہو رہا تھا، اس نے کچھ کہنا چاہا مگر کہہ نہ سکا۔ صدیاں گزر گئیں مگر ان دائمی جدائیوں کے دکھوں کو ہلکا کرنے کے لیے آج تک کوئی لفظ ایجاد نہ ہو سکا۔
زینوں پر لوہے کی ہیل کھٹ کھٹ کر رہی تھی، بھورے سنبھل کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ مس رضیہ فون کرنے آ رہی تھیں، وہ کرسی سے کھڑا ہو گیا، جہورن سرجھکائے اسی طرح بیٹھی رہی۔
’’کون ہے یہ؟‘‘ مس رضیہ نے رسیور اٹھاتے ہوئے پوچھا۔
’’اپنے سیتاپور کی ہے مس صاحب۔‘‘ بھورے نے کہا، جہورن نے نظریں جھکا لیں، یہ سہر کی جندگی کچھ نہیں ہوتی، اپنے سیتاپور میں سارے لوگ جانتے تھے کہ جہورن بھورے کی کیا لگتی ہے، جہورن نے ٹھنڈی سانس بھری۔ مس رضیہ فون کر کے چلی گئیں تو بھورے پھر بیٹھ گیا، اس نے جہورن کی طرف دیکھا جو بڑی معصومیت سے چہرہ اٹھائے جانے کس طرح اسے دیکھ رہی تھی، پھر وہ دھیرے دھیرے کہنے لگی، ’’جب سے کھالہ کے پاس تیسرا کھط آیا تھا بس اسی روج سے میں بابو سے کہنے لگی تھی کہ تو بھی لاہور چل، تیرے بنا سیتاپور جنگل لگتا تھا، تو بہت یاد آتا تھا، اماں نے سادی کے جو کپڑے بنوائے تھے وہ اب تک کلیجے سے لگا کر رکھ چھوڑے ہیں، کبھی تن کو نہیں لگائے، بابو نے تجھے اس لاہور میں سب جگہ تلاش کیا پر تو نہ ملا، بڑے سہروں میں کتنا آدمی بستا ہے پر اماں کو اللہ جنت دے، کہا کرتی تھی کہ جی سے ڈھونڈو تو کھدا بھی مل جاتا ہے، سچ کہتی تھی اماں۔‘‘ وہ مسکرانے لگی۔
’’چھوڑو ان باتوں کو اب، پرائی ہوکر ایسی باتیں کیوں کرتی ہے؟‘‘ بھورے جھلا اٹھا، یہ عورت ذات بھی بڑی چتر باز ہوتی ہے، اب نخرے کر رہی ہے۔
’’یہ تو کہہ رہا ہے؟‘‘ جہورن نے جانے کیسی سرشاری سے آنکھیں بند کر لیں، ’’میں تو جی جان سے تیری ہوں بھورے۔‘‘ وہ ساری جان سے کانپنے لگی، پہلے بیمار چہرے پر ہلکی سی سرخی رینگ گئی اور بھورے نے اپنے سیتاپور میں دیکھا کہ ایک چمپئی رنگ کی لڑکی سرخ اوڑھنی اوڑھے کواڑوں کی اونٹ سے اس کو تاک رہی ہے، اس کا جی چاہا کہ وہ اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگالے۔ اس نے پوری آنکھیں کھول کر جہورن کو دیکھا، یہ جی جان کو لے کر کیا کرنا ہے، اب ایسی باتیں یاد کرنے سے کیا فائدہ ہوگا۔
’’تم اسپتال کیوں آئی ہو؟‘‘ اس نے پھر اچانک سوال کیا۔ جہورن نے آنکھیں کھول دیں اور ادھر ادھر دیکھنے لگی، ’’دیکھ اب تو بادل گھر کر آ گئے ہیں۔‘‘
’’اصلی بات کیوں چھپاتی ہے، کہہ دے نا کہ جب میں نہیں ملا تو تیرے باپ نے دوسرے کے ہاتھ پکڑا دیا، ایکٹرسوں وال نخرے نہ مار اب۔‘‘ اسے غصہ آ گیا تھا۔
’’واہ رے۔۔۔‘‘ اس نےغرور سے سر اونچا کر لیا، ’’جہورن ایسی نہیں کہ ایک کے بعد دوسرا کسم کر لے، میری شادی تو تیرے ساتھ ہو چکی تھی، تری کھاطر اپنا دیس چھوڑا، ماں باپ چھوٹے، ماں یہاں نہ آتی تو ہیجہ کیوں ہوتا، بابو سڑک تلے کیوں آتا۔۔۔‘‘ وہ رو پڑی۔
’’یہ سب تو جبردستی ہے، بابو کے بعد کون دیتا روٹی، کوٹھیوں میں کام کرکے پیٹ بھرتی تھی، پر بھورے یہ سہری بابو بڑے کھراب ہوتے ہیں، ہر سال اس اسپتال میں آکر کچے بچے جنتی ہوں، مر مر کر جیتی ہوں، بابو صاحب اپنے کسی بیرے کھانسام نے کو میرا سوہر لکھا جاتے ہیں، اس باری وہ کھانساماں کہتا تھا کہ جہورن ایسے کب تک چلےگا میرے ساتھ دو بول پڑھا لے، تجھے لے کر دور بھاگ جاؤں گا، پر میں ایسا کرسکتی تھی۔۔۔؟‘‘ وہ سسکیاں بھرنے لگی اور پھر ڈوبتی ہوئی آواز میں بولنے لگی، ’’اب تو مل گیا ہے بھورے، اب میں کہیں نہ جاؤں گی، دیکھ برتن مانجھ مانجھ کر ہاتھ گھس گئے۔‘‘ اس نے بے بسی سے دونوں ہاتھ پھیلا دیے، اس کی ہتھیلیوں میں مشقت کے گھٹے پڑے ہوئے تھے، اس نے اپنا سر گھٹنے پر ٹیک لیا اور گھٹی گھٹی سسکیاں بھرنے لگی۔
بھورے چپ چاپ بیٹھا اسے روتے دیکھتا رہا، جیسے وہ کوئی راہ چلتا اجنبی تھا، ساری لگاوٹ اور حسد رفو چکر ہو چکا تھا، وہ سوچ رہا تھا کہ اس جہورن سے اب اس کا کیا واسطہ ہو سکتا ہے، یہاں تو جانے کتنی اس کے پیچھے پھرتی ہیں، اس کی کون سی خواہش ہے جو پوری نہیں ہو جاتی، اس نے تو یہ کبھی سوچا نہ تھا کہ کوئی ایسی ویسی عورت اس کی بیوی بن جائے مگر اب یہ جہورن جانے کتنے حرامی بچے جن کر اسے بیتی باتیں یاد دلانے آئی ہے۔ روتے روتے جہورن نے خود ہی چپ ہو کر آنسو پونچھ لیے، شاید وہ انتظار کر رہی ہوگی کہ اب بھورے اسے چپ کرائےگا، اب اپنے ریشمی رومال سے آنسو پونچھےگا، اب اسے تسلی دے گا۔ آنسو پونچھ کر وہ اسے ٹکر ٹکر دیکھ رہی تھی اور بھورے اس سے نظریں بچا رہا تھا، بھلا جہورن بھورے کی بیوی بن سکتی ہے! بھورے جس کی اس برآمدے اور ٹیلی فون پر حکمرانی ہے، ذرا کبھی جہورن دیکھتی تو، وہ کس شان سے رسیور اٹھا کر ہلو کہتا ہے اور کتنی لڑکیاں اس کے پیچھے پھرتی ہیں۔
’’تو پھر تو اسی خانساماں سے شادی کر لے جہورن۔‘‘ بھورے نے بڑی ہمدردی سے مشورہ دیا، ’’میں نے تجھ سے شادی کی تو لوگ کیا کہیں گے۔‘‘ وہ ادھر ادھر دیکھنے لگا۔
’’ارے یہ تو کہہ رہا ہے؟‘‘ اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے بھورے کو دیکھا اور پھر کھڑی ہو گئی۔
’’جارے میرا نام جہورن ہے۔ میری سادی جو ہونی تھی سو ہو گئی، میں تیری جیسے نہیں ہوں، بادہ لے لے جو دوسری سادی کروں۔۔۔‘‘ اس نے بڑے غرور سے سرجھٹکا، ’’جہورن جندگی بھر تیرے نام پر بیٹھی رہےگی اور دوسروں کے بچے اسی اسپتال میں آکر پیدا کرےگی، یہ سب کسمت کے کھیل ہیں رے۔‘‘
وہ ایک بار پھر تڑپ کر روئی مگر جلدی سے آنسو پونچھ کر سیدھی کھڑی ہو گئی، اس کا کمزور جسم کانپ رہا تھا۔۔۔، اماں کو اللہ جنت نصیب کرے، وہ کہتی تھی جہورن ڈھونڈے تو کھدا مل جاتا ہے، جانے لوگ ایسی کہاوتیں کیوں بناتے ہیں، اس نے مایوسی سے سر جھکا دیا، ایک لمحے تک یوں ہی کھڑی رہی، پھر اس نے بھورے کو ایسی نظروں سے دیکھا کہ اسے اپنا کلیجہ ہلتا ہوا محسوس ہونے لگا، مگر جب وہ کچھ کہنا چاہتا تھا تو جہورن بڑی تیزی سے اپنے جھانکڑ جیسے جسم کو لہراتی برآمدے کے اس سرے پر جا چکی تھی۔ بھورے دیر تک برآمدے کے اس موڑ کو دیکھتا رہا جہاں جہورن کھو گئی تھی، ٹیلی فون کی گھنٹی بجی تو جیسے چونک پڑا۔
’’مس زیدی آج چھٹی پر ہیں، جی کہیں گئی ہیں، یہاں نہیں ہیں۔‘‘ بھورےنے پہلی بار اپنی ڈیوٹی سے بے ایمانی کی۔ پھر وہ جہورن کو ٹھکرانے والا پہلا دن یوں ہی اچاٹ اچاٹ سا گزر گیا۔ وہ لاکھ گاتا رہا۔
نہ تم سے دل کو لگاتے، نہ غیر کہلاتے
گلوں میں بیٹھتے، گلزار کی ہوا کھاتے
پھر بھی اس کا دل بجھا بجھا رہا، شام ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد وہ جیسے خود بخود کھنچتا ہوا جرنل وارڈ کی طرف چلا گیا، آیا نے اسے بتایا کہ اس نام کی عورت تو گھنٹہ پہلے چھٹی لے کر چلی گئی۔ چلی گئی تو کیا ہو گیا؟ وہ بھلا اسے پوچھنے آیا ہی کیوں تھا؟ بھورے نے اپنے آپ سے پوچھا اور پھر واپس ہوتے ہوئے اس نے لہک کر گانا چاہے مگر گا نہ سکا، اس پر ایک دم مایوسی کا دورہ سا پڑنے لگا، ادھر ادھر پھرنے کے بجائے اپنی کوٹھری میں جاکر بے سدھ سا پڑ رہا۔ جب اندھیرا پڑنے لگا تو سیتاپور کی جہورن سرخ اوڑھنی اوڑھ کر کوٹھری کے ادھ کھلے دروازوں سے تانک جھانک کرنے لگی، بھورے بلبلا کر اٹھا اور زنجیر چڑھا کر اپنے حساب ایک بار پھر جہورن کو دھتکار دیا۔
باہر بڑے زور سے بارش ہو رہی تھی، کوئی ہولے ہولے دروازہ کھٹکھٹا رہا تھا، بھورے کو یہ بھی وہم لگا، اس نے اپنے آپ کو دوچار موٹی موٹی گالیاں دیں اور کروٹ لے کر منہ چھپا لیا، وہ یہ تو بھول ہی گیا تھا کہ کئی دن پہلے اس نے جمادارنی کی سب سے چھوٹی بیٹی کو اپنی کوٹھری میں آنےکی دعوت دی تھی اور اب وہ باہر کھڑی اپنے اکلوتے بوسیدہ جوڑے کو نچوڑ نچوڑ کر بیتابی سے دروازے پیٹ رہی تھی، ظالم بارش کا ایک ایک قطرہ روپے کی طرح کھنک کر اسے چڑا رہا تھا۔ بھیگتے بھیگتے تھک کرجب ساتویں بیٹی واپس لوٹ رہی تھی تو مارے دکھ کے رو رو کر بھورے کو کوس رہی تھی۔۔۔، مرجائے لاش اٹھے، ایک رویپہ دینے کا وعدہ کر کے مکر گیا۔
اور پھر یوں ہوا کہ پہلے دن اور پہلی رات والی کیفیت بھورے کے دل و دماغ پر نقش ہوتی چلی گئی، اس نے جہورن کو جھنجھلا جھنجھلا کر لاکھوں بار دھتکارا، جمادارنی کی ساتویں بیٹی کو ایک کے بدلے میں تین روپے دے ڈالے، کالی کلوٹی نرس کی لونڈیا کو جمپر کا ایک کپڑا بھی لا دیا، فرصت کے وقت خوب لہک لہک کر اپنے محبوب گانے بھی گاتا رہا مگر کہتے ہیں کہ پتھر کا لکھا ہوا نہیں مٹتا، جہورن کی محبت پتھر کی تحریر بن گئی۔۔۔، بھورے میں تیری ہوں، بادہ لے لے جو دوسری سادی کروں، تیرے نام پر بیٹھی رہوں گی اور دوسروں کے بچے اسی اسپتال میں آکر پیدا کرتی رہوں گی۔
پھر۔۔۔، برسات بیت گئی، سردیاں آکر گزر گئیں، بہار منہ موڑ گئی اور جب گرمیاں آ گئیں تو بھورے نے انگلیوں پر پورے مہینے گنے۔ اس دن جب گیٹ کے چوکیدار نے کسی حاملہ عورت کی آمد پر گھنٹہ بجایا تو بھورے بےتابی سے اٹھ کھڑا ہوا، برآمدے کے قریبی موڑ کو کاٹ کر وہ ادھر پہنچ گیا جہاں آیائیں پہیوں والے اسٹریچر کو گھسیٹتی ہوئی لاتیں اور مریضہ کو اس پر ڈال کر لے جاتیں۔ دن میں کئی بار گھنٹہ بجتا، جانے کون کون آتا مگر جہورن نہ آئی، بھورے نے سوچا، ایسے کاموں میں دیر سویر تو ہو ہی جاتی ہے، واپس آکر وہ بڑی امنگ سے گاتا۔ بچھڑے ہوئے ملیں گے پھر خالق نے گر ملا دیا۔
مئی جون کی گرمیاں گزر گئیں مگر بھورے کے انتظار میں کوئی فرق نہ آیا، مس لالی خاں اپنے عاشق وفائی کر کے، کسی دوسری سے شادی رچا کر اسپتال چھوڑ گئی تھیں، مس زیدی کو دوسرے اسپتال میں زیادہ بہتر جگہ مل گئی تھی، بہت سی پرانی لڑکیاں چلی گئیں، بہت سی نئی آگئیں۔ جنرل وارڈ کی بھنگن کی سب سے چھوٹی ساتویں بیٹی جانے کس کے ساتھ بھاگ گئی تھی مگر بھورے کو ان باتوں سے کوئی مطلب نہ تھا، اس نے جانے کتنی بہت سی چیزیں جہورن کے لیے کوٹھری میں جمع کر رکھی تھیں جن میں ایک سرخ جوڑا بھی تھا۔
آج بادل چھا رہے تھے، پیاسی ٹیٹری چیختی ہوئی اڑی جا رہی تھی، جہورن دری کا ٹکڑا اٹھائے بھورے کے سامنےسے گزر کر ستون کے پاس جا رہی تھی، بھورے نے آنکھیں ملیں۔۔۔، کب آئےگی ظہوریا؟ کب آئےگی۔۔۔، اس نے ایک بار پھر انگلیوں پر دن گنے، پورے بارہ مہینے ہو رہے تھے۔ بھلا بھورے کو کیسے معلوم ہوتا کہ ایک مہینے پہلے سرخ کھدر کی چادر سے منہ چھپائے جو عورت تانگے پر آئی تھی اور جسے آیاؤں نے بڑی مشکل سے لاد کر اسٹریچر پر ڈالا تھا، وہ جہورن تھی، جس نے اپنا نام تمیزن لکھایا تھا اور جو خون کی انتہائی کمی کی وجہ سے مر گئی تھی اور صاحب کا نامزد شوہر جہورن کی لاش کو طالب علم لڑکیوں کے لیے چھوڑ کر چلا گیا تھا۔
پورے بارہ مہینے، بھورے نے سوچا کہ اب وہ ضرور آتی ہوگی۔۔۔، آج نہیں تو کل آ جائےگی، اس نے بڑے سکون سے پاؤں پھیلا دیے اور لہک کر گانے لگا۔۔۔ بچھڑے ہوئے ملیں گے پھر خالق نے گر ملا دیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.