بلی کا بچہ
کچھ نہیں۔۔۔ کوئی کام نہیں تھا۔ ایسے ہی جھپٹاکے باہرنکل گیاتھا۔ سرحدپرلڑائی کے کارن سب کاروبار سست ہوگئے تھے۔ زندگی میں جس ارتعاش کوہم ڈھونڈا کرتے ہیں، وہ لڑنے کے لیے محاذ پر چلاگیاتھا اورجوبچ رہا تھا، روزانہ اخباروں میں سمٹ آیاتھا۔ باربار پڑھے جانے کے باوجود جوآدھ پون گھنٹے میں ختم ہوجاتے تھے۔
میرے ساتھ بے کاروں کی پوری کی پوری پلاٹون تھی۔ جیسے کوئی فوجی دستہ دشمن کی نقل وحرکت بھانپنے کے لیے نکل جاتاہے، اسی طرح ہم بھی نکل جاتے تھے اور اس اسٹوڈیوسے اس اسٹوڈیوتک گھومتے رہنے کے بعد شام کو برٹورنی پہنچ جاتے، جہاں تلے ہوئے نمکین کاجو کے ساتھ چائے یاکافی کی ایک آدھ پیالی پی لیتے اورپھر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگتے۔۔۔ کون بل دینے کے لیے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے۔ تھوڑی دیرکے بعد اپنی جیب کی بجائے ہم ایک دوسرے کی جیب میں ہاتھ ڈالنے لگتے، جو ہوتے ہوتے گریبان تک پہنچ جاتے۔ آخربل کون دیتا۔ میں۔۔۔ اَن سیکورٹی کا احساس جس کی ہڈیوں تک میں بس گیاتھا۔۔۔ باپ رے۔ کوئی اَن سیکورٹی سی اَن سیکورٹی تھی۔ کوئی اندیشہ سااندیشہ تھا۔ رات کودیکھ کے دن یادآیا۔ اس پرٹورل کی ہیریٹ کوتھینک یوبھی مجھے ہی کہناپڑتا۔
پھرکلیان رشی داس اورہمارا عیسائی دوست جسے ہم ’’جیگوار‘‘ کہا کرتے تھے، شکار کے لیے نکل جاتے، جسے وہ سیروسیاحت کہتے۔ یہ ماں کے مارکوپولوچین تھوڑے جاتے، بس میرین ڈرائیو پرپہنچ کردوسوادوکلوگرام گنڈیریاں چوستے۔ کچھ چھلکے بولے وارڈ پرپھینکتے اور کچھ سمندر میں اورلہروں کے ساتھ انہیں آتاہوا دیکھتے یعنی ان کی ہرچیزکچھ دورجاکر واپس آتی ہوئی دکھائی دیتی۔ پھروہسکی کی بھولی بسری یادمیں یہ لوگ گیلی اور نمکین مونگ پھلی کھاتے۔ آخر بدمزہ ہوکر نریمان پوائنٹ پر سولہ ملی میٹر کی پروپیگنڈہ فلم دیکھنے لگتے، جس کوحکومت کسی اندیشے میں مفت دکھاتی۔ پھرگھبراکر لوٹ آتے، جہاں ان کی بیویاں ان کی دن بھر کی کارگذاری لفظ بلفظ سننے پراصرار کرتیں اور ان کے جھوٹ کوسچ اورسچ کو جھوٹ سمجھتیں۔ ایک حبس کے احساس کے ساتھ ان کا جی پھر باہر بھاگ جانے کوچاہنے لگتا۔
درحقیقت ہم سب کاگھرباہرہورہاتھا اورباہر گھر۔ جب شہر کی طرف جاتے تویوں معلوم ہوتا جیسے گھرلوٹ رہے ہیں اور اگرگھر لوٹتے تویوں لگتا جیسے باہرنکال دیے گئے۔ اس باہر کی کھلی ہوا میں بیوی کے پھپھوندی لگ جاتی۔ ہاتھ لگاؤ توہاتھ پرچلی آتی، جس سے گھبراکر ہم اسے گھرچلنے کا مشورہ دیتے لیکن وہ صاف جواب دیتی۔ گھرمیں خرچ ہوتاہے۔ ہم یہیں باہر اچھے ہیں۔۔۔ ہم یعنی بیوی ہوتی ایک ہی ہے لیکن دیکھتے دیکھتے کیسے واحد سے جمع متکلم ہوجاتی۔ شاید اس لیے کہ ہرعورت اپنے بدن میں ڈھیرسارے بچوں کی گنجائش رکھے ہوتی ہے۔
آج ہم۔۔۔ ڈیری جانے کے لیے نکلے تھے۔ اگرآپ بمبئی کے جغرافیے سے واقف نہ ہوں تو میں آپ کوبتادوں۔ پر شین ڈیری ایک ریستوراں ہے جو بمبئی میں سمندر کے کنارے واقع ہے۔ ڈیری کا نام تھوڑا مغالطے میں ڈالتاہے، کیوں کہ وہاں گائے بھینسیں نہیں ہوتیں، صرف کچھ دبلی موٹی عورتیں ہوتی ہیں جن کے اسکرٹ اور ساڑھیاں سمندر سے آنے والی تیزہوا، اڑاتی رہتی ہے، جنہیں سنبھالتے ہوئے ان کا حسن معنوی اوربڑھ جاتاہے۔ اورعشق کے مارکوپولوموہوم امیدیں لیے سامنے بیٹھ کر سیوسیوپیاکرتے جوسیب کے رس سے بنتا ہے اور جس کے لیبل پر صاف لکھا رہتاہے، اس میں شراب نہیں ہے۔ کوکاکولا سے گھبراکر لوگ سیوسیوپیتے ہیں اورسیوسیو سے وحشت ہوتی ہے توکوکاکولا پرلوٹ آتے ہیں۔ جیسے پڑھے لکھے لوگ پالیٹکس سے گھبراجاتے ہیں توسیکس پڑھنے لگتے ہیں اور جب سیکس سے وحشت ہونے لگتی ہے تو پھرپالیٹکس پرلوٹ آتے ہیں اورجب دونوں بے کارہوجائیں تو جیوک باکس میں ایک چونی ڈال کراپنے جی کا ریکارڈ سننے لگتے ہیں۔۔۔ اپنااپنا پیارکاسپنا۔
آخر باہرچل دیتے ہیں۔
کلیان کے پاس ایک پھٹیچرگاڑی تھی جس کی بیٹری ایک ادھیڑ عمرکی عورت کی طرح بات بات پرناراض ہوجاتی تھی اور بعض اوقات توکوئی بات بھی نہ ہوتی تھی اوریہ ڈاؤن۔۔۔ ایک عجیب طرح کا کلائی میکٹرک کادورآیاتھا اس پر، جس میں اس کاوہ رنگ وروغن سب ختم ہوچکا تھا۔ وہ بے حد چڑچڑی ہورہی تھی۔ سب کے سامنے اسے سڑک پرڈھکیلتے ہوئے ہم عجیب سے لگتے تھے۔ اس وقت وہ سب کمینے جنہوں نے ہماری طرف دیکھ کرکبھی سربھی نہ ہلایاتھا، فورا ًپہچان جاتے اور آواز دیتے۔۔۔ ہیلوشرماجی۔۔۔ اورمیں جواب میں ان سے وہی سلوک کرتا جوپھٹیچرگاڑی سے پہلے وہ مجھ سے کرتے۔
اسی خالی نگاہوں سے ان کی طرف دیکھتا کہ انہیں واقعی میں کوئی اور دکھائی دینے لگتا اور وہ اس قدر گھبراجاتے کہ پھرمجھے بھی وہ کوئی اور دکھائی دینے لگتے۔ ہم ابھی دادر نسبت روڈپرسے ہی گذررہے تھے جبکہ مجھے یاد آیا پروڈیوسر ڈھولکیا نے سویرے ایک لڑکے کی معرفت مجھے بلوابھیجاتھا۔ امیدایکاایکی ہائیڈروجن بم کے ککرموتے کی طرح میرے حواس پرچھاگئی۔ جذبات اور خیالات کاایک دوسرے پرسلسلہ وارعمل ہونے لگا، جبھی میں نے زور سے آواز دی، ’’روکوکلیان، گاڑی روکو۔‘‘
کلیان نے حیران ہوکرمیری ہنکار کوسنا۔ رشی ہانپتے ہوئے بولا، ’’تو سمجھتا ہے پہلے چل رہی ہے؟‘‘ داس نے سرہلایا۔ وہ دم لینے کے لیے کوئی بھی بہانہ چاہتا تھا، اس لیے پرے چل کرفٹ پاتھ پربیٹھ گیا۔ اگلے ہی لمحے وہ مردے کی طرح مطمئن نظرآرہاتھا۔ میں نے اپنے لہجے میں اور منت پیداکی۔ یارمیں بھول ہی گیا۔ ڈھولکیا نے بلوایاہے۔ شاید کہ نہنگ خفتہ باشد۔
’’وہ سب بنڈل مارتاہے۔‘‘ کلیان نے سرکوکوجھٹکادیتے ہوئے کہا، ’’ہم نے اس کی پکچرکافوٹوگرافی کیا۔ ایک دم انگلش۔۔۔ پھرکیاہوا؟‘‘ میں نے کلیانی کوتسلی دیتے ہوئے کہا، ’’سالا اس کا اپنا فوکس خراب ہے۔‘‘
ڈھولکیا چونکہ ایک آنکھ سے کاناتھا، اس لیے رشی کے لیے یہ بات لطیفہ ہوگئی اوروہ ہنسنے لگا۔
آپ توجانتے ہیں۔۔۔ بیکارلوگ جتنی جلدی ناراض ہوتے ہیں، اتنی جلدی خوش بھی ہوجاتے ہیں۔ ہنستے ہوئے اس نے گاڑی کا وہیل داد ر روڈ کی طرف گھمادیا۔ کچھ دیرمیں ہم اسٹوڈیو کے سامنے تھے۔ کلیان نے باقیوں کوروک لیا اورمجھے اندرجانے کے لیے کہا۔ خود بونٹ اٹھاکر وہ گاڑی میں یوں دھنس گیا کہ باہرصرف دوٹانگیں دکھائی دینے لگیں۔ معلوم ہوتا تھا کہ کوئی بچہ الٹاپیدا ہورہاہے۔
میں چاہتابھی نہ تھا کہ جیکو ارا، رشی، داس اورکلیان میں سے کوئی میرے ساتھ اسٹوڈیو میں چلے۔ بعض اوقات کسی کی ایسی بات مانناپڑجاتی ہے جوآدمی ہرکسی کے سامنے نہیں مان سکتا۔ ادھرجب ہرکسی کی پکچربیٹھ رہی تھی، ڈھولکیا صاحب کی اٹھ کھڑی ہوئی اور اس نے جوبلی منائی۔ اب اسے قابل لوگوں کی ضرورت تھی۔ میں قابل نہ سہی لیکن اوسط درجے کاآرٹسٹ ضرورتھا۔ نہیں نہیں۔۔۔ مجھے میرے اسی انکسار نے ماراہے، جواس شوبزنس میں نہیں چلتاہے۔ خوداپنا ڈھول پیٹنا پڑتاہے۔ آخرمیرے مقابلے کا کیریکٹر ایکٹر اورتھا بھی کون؟ جرنلسٹ پاگل تونہیں تھے جنہوں نے تصویر’’مہاجن‘‘ میں ایوارڈ مجھے دلوایاتھا۔ غالباً اسی بات سے مرعوب ہوکرڈھولکیا نے مجھے بلوایاتھا۔ چونکہ وہ خودڈھولکیاتھے، اس لیے ہربات میں اپنا ڈھول پیٹنے کے ساتھ بیچ میں کہیں میرابھی پیٹ ڈالاہوگا۔
اسٹوڈیو میں پہنچا توڈھولکیا صاحب سامنے بیٹھے ہوئے مل گئے۔ وہ اس وقت کومل، ایک ایکسٹرا لڑکی کا اس کے سپلائر کے ساتھ جھگڑا چکارہے تھے۔ مجھے آتے دیکھ کرکومل ایک طرف ہٹ کرکھڑی ہوگئی۔ ڈھولکیا صاحب ایسے ہی چوکنے ہوگئے۔ ایک خواہ مخواہ کا تناؤ پیدا ہوگیا۔ ایک تیزسی نظر سے سب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ آنکھوں ہی آنکھوں میں کسی پنچ شیل پردستخط ہوگئے اور کومل وہاں سے کھسک گئی۔ ڈھولکیا صاحب مجھ سے باتیں کرنے لگے اورمیں ان کی باتوں کے بین السطور، اپنامطلب ڈھونڈنے لگا۔ بات اتنی بڑھ گئی کہ بین السطور توسب دکھائی دینے لگا، سطور گم ہوگئیں۔ آخرپتہ چلاڈھولکیا صاحب نے مجھے کلوکی وادی کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے لیے بلوایاہے، جہاں وہ آؤٹ ڈور کے لیے جارہے تھے۔
’’کلوکی وادی بہت خوبصورت ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’ کلومیں ناشپاتیاں ہوتی ہیں اور سیب ہوتے ہیں۔‘‘
’’اورکیا ہوتاہے؟‘‘ ڈھولکیا صاحب نے پوچھا۔
’’اور۔۔۔‘‘ میں نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، ’’کلو میں۔۔۔ اورسیب ہوتے ہیں۔‘‘
میں دراصل بھول گیاتھا، اس لیے نہیں کہ کلو گئے مجھے دس پندرہ برس ہوگئے تھے بلکہ اس لیے کہ اس وقت دماغ پر زوردینے کی کوئی وجہ نظرنہ آئی تھی۔ مجھے ڈھولکیا صاحب سے کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔ اس پربھی میں کہہ رہا تھا، ’’اورکلو میں پتھریلی زمین ہوتی ہے جس میں کہیں سے ہریالی پھوٹ نکلتی ہے۔‘‘ ڈھولکیا کومیری ہریالی سے دلچسپی نہ تھی۔
میں نے اسے بتایا، ’’ ہاں ’ککڑی‘چاولوں کی شراب ہوتی ہے، جسے پی کر مرد اورعورتیں باہر بازار میں نکل آتے ہیں۔‘‘
’’پھر۔۔۔ پھرکیاہوتاہے؟‘‘
’’پھر مرد۔۔۔ عورت کے گلے میں بانہہ ڈال کر جھومنے لگتاہے۔ اس کے گلے میں پڑے ہوئے چنبیلی کے ہار جھومنے لگتے ہیں اوروہ بڑے عاشقانہ انداز سے اس کی نشیلی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتاہوا کہتا ہے تومیری جوئی۔ مطلب بیوی۔‘‘
’’مطلب۔۔۔ کسی عورت کے گلے میں بانہہ ڈال کر۔‘‘
’’جی نہیں۔۔۔‘‘ میں نے کہا، ’’اپنی بیوی کے۔‘‘
’’اوہ۔۔‘‘ اورڈھولکیا صاحب کچھ مایوس نظرآنے لگے۔ عام فلمی کہانی نے ان کے مذاق کو چوپٹ کردیاتھا اوروہ نا تمام غیرمنتج زندگی کے عادی نہ رہے تھے۔ میں نے کہا، ’’کلوکی لڑکیاں بے حدخوبصورت ہوتی ہیں ڈھولکیا صاحب۔۔۔ ایک سگریٹ۔۔۔ ایک سیٹی ان کے لیے بہت ہوتے ہیں۔‘‘ اور پھرسوچتے ہوئے بولا، ’’ یہ جب کی بات ہے۔ اب توشایدپورے کارٹن کی ضرورت پڑے۔‘‘
ڈھولکیا صاحب نے سرہلادیا۔ میں سمجھ گیا۔ فلم میں یاتو لاکھ روپیہ بھی کچھ نہیں ہوتااوریاپھر ایک کھوٹاپیسہ بھی بہت بڑی دولت ہوتاہے۔ ڈھولکیا چونکہ تین تصویریں بنارہے تھے، اس لیے خرچ ان کی بچت ہوگیاتھا۔ بولے، ’’ہم کلومیں دسہرے کاسین لیں گے۔۔۔ وہاں کی سولڑکیوں کے ساتھ۔ لوکل ٹیلنٹ۔۔۔‘‘ اورپھرانہوں نے وہ آنکھ ماری جوپہلے ہی مری ہوئی تھی۔
مجھ میں ایک گھن سی پیدا ہوگئی اورمیں اٹھ کھڑا ہوااور قدم باہرکی طرف رکھتے ہوئے بولا، ’’ یہ سچ ہے کہ کلو کی لڑکیاں بڑی خوبصورت ہیں۔ ڈھولکیا صاحب مگر۔۔۔ ا ن سب کومفلس ہے۔‘‘
تھوڑی ہی دیر میں اسٹوڈیو کے کمپاؤنڈ میں آچکا تھا۔ اوپردیکھا توسرپرآسمان ہی نہ تھا۔ کمپاؤنڈ میں ایک فوارہ تھا جس میں کبھی پانی نہ آیاتھا اوراس کے کارن اردگرد کی باڑھ خشک ہوچکی تھی اورہریالی کے بغیراسٹوڈیو کاپورا منظر ایک کھنڈر ہوچکا تھا۔ کچھ دور جاکر میرے پیرجیسے اپنے آپ رک گئے اورمیں لوٹ آیا۔ ڈھولکیا صاحب کے پاس پہنچتے ہوئے میں نے کہا، ’’وہ آزادی سے پہلے کی بات تھی ڈھولکیاصاحب۔‘‘ اورپھر کسی قسم کے رکھ رکھاؤ سے بے نیازہوکر میں نے کہنا شروع کیا،‘‘ کہیں کوئی کام دلوائیے ڈھولکیاصاحب۔ پچھلے چھ مہینوں سے میرے پاس کوئی کام نہیں ہے۔ کوئی چارچھ سین کا رول۔‘‘
’’میرے پاس کچھ نہیں ہے۔‘‘ ڈھولکیا بولے، ’’ بیسیوں بار تمہیں بتاچکاہوں۔‘‘
’’کچھ تو بچاہوگا۔‘‘ میں نے یونہی امید کادھوکاپیداکرتے ہوئے کہا، ’’کچھ میرے حصے، میری تقدیر کا، آپ تو اان داتاہیں۔ رائٹر سے کہہ کے ایک آدھ رول بڑھوادیجئے۔‘‘ ڈھولکیا صاحب نے میری طرف یوں دیکھا جیسے کوئی بہت بری چیزکی طرف دیکھتا ہے اور سرہلادیا۔ اب وہ مجھے دھندلے دھندلے سے نظرآرہے تھے، جب بھی میں بولتا گیا، ’’ ہمارا کوئی رول نہیں؟ کہیں بھی ہمارا کوئی رول نہیں؟‘‘ جب مجھے کچھ خیال آیا، میں نے ایک دم ڈھولکیاصاحب کے بہت ہی قریب ہوتے ہوئے کہا، ’’میں کلو کی سب لڑکیوں کوجانتا ہوں ڈھولکیا صاحب! مطلب ان کے طورطریقوں سے واقف ہوں۔‘‘
ڈھولکیا صاحب نے ایک غیریقینی انداز سے میری طرف دیکھا اورپھرمنہ پرے کرلیا۔ ان کا نچلا ہونٹ، جو پان کی پیک سے سرخ اورسیاہ ہوچکا تھا، لٹکاہوا تھا۔ اس تھوڑے سے فاصلے سے وہ چھوٹے سے ترمورتی نظر آرہے تھے۔ اس وقت تووہ تیسرا چہرے تھے جس پرقہر کے جذبات ہوتے ہیں۔ ایسے میں شیوجس طرف دیکھتے ہیں، وہ فنا وبرباد ہوجاتاہے۔ میں نے ادھرادھر دیکھا، کوئی قریب نہ تھا۔ چنانچہ میں نے ان کے پیرپکڑلیے اوربولا، ’’آپ جوبھی کہیں گے، میں کرو ں گا ڈھولکیاصاحب! میں سچ کہتا ہوں۔ میری بیوی بچے بھوکوں مررہے ہیں۔ میں مررہا ہوں۔‘‘
اس پرڈھولکیا صاحب ہنس دیے، ’’مرجاؤ،‘‘ وہ بولے، ’’دنیا میں سیکڑوں لوگ روزمرتے ہیں۔ ایک تم مرگئے تو کیاہوگا۔‘‘
’’میں مرگیاتو۔۔۔‘‘ میں نے اپنے آپ کوسوچتے ہوئے پایا، ’’کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
جب تک کومل واپس آچکی تھی اورڈھولکیاصاحب اس کاجھگڑا چکانے اندرچلے گئے۔
میں باہرچلاآیااورسوچنے لگا، ترمورتی کاایک چہرہ وہ بھی تو ہے جس میں شیوبھگوان پوری کائنات پرمسکراتے ہیں۔ جب پودے کھل اٹھتے ہیں، ہوائیں دامن میں دونوں جہاں کی دولت سمیٹے اٹھکیلیاں کرتی ہوئی چلی آتی ہیں اوران کے کاندھوں پرچھوٹے چھوٹے بادلوں کی مٹکیاں ہوتی ہیں جن میں صحت کی شراب ہوتی ہے۔ جیسے راستے میں آنے والے ہرچھوٹے بڑے کو بلاتی ہوئی گذرجاتی ہیں۔ اوراس وقت۔۔۔
یہ کس کاکہنا ہے، میں مرجاؤں گا توکیاہوگا؟ میں بتاتا ہوں کیاہوگا۔ میری بیوی جومیری وجہ سے کسی کے سامنے سرنہیں جھکاتی، پناہ کے لیے میرے بھائی کے پاس چلی جائے گی۔ اس کے گلے میں رسی ہوگی اور منہ میں گھاس اور میری چھوٹی بھابی اس سے وہ سلوک کرے گی جو کوئی کھاج ماری کتیا سے کرتاہے۔ میں خود اپنی بیوی سے بدسلوکی کرتا ہوں۔ بہت غصہ آئے توکھینچ مارتاہوں۔ میں جانورہوں۔ میں اسے خودماروں گا۔ کاٹ ڈالوں گا کسی دوسرے کواس کی طرف آنکھ بھی نہ ا ٹھانے دوں گا۔ اورمیرے بچے۔۔۔ ڈالی۔۔۔ چنوں —ان کوبدن سے لگاتاہوں تومیرا اپنا شریرگدرا جاتاہے۔ معلوم ہوتاہے وہ گوشت ہی گوشت ہیں۔ ہڈی نام کونہیں۔ وہ مرجائیں گے۔ گوشت بھی نہیں رہے گا، ہڈی بھی نہیں رہے گی۔ نہیں! میں مرجاؤں گا تویہ سب میری آنکھوں کے سامنے تونہ ہو گا۔
پندرہ بیس گزکے فاصلے میں آدمی کتنا سوچ سکتاہے، آپ کواس کا اندازہ نہیں۔ میں نے سب پرانے درشن شاستر اورآج کل کے نئے فلسفے سوچ ڈالے تھے۔ میں نے جیل کی دیواریں سوچ ڈالی تھیں۔ محلوں کے کنگرے سوچ ڈالے تھے۔ کسی نے گنگا میں ایک ڈبکی لگاتے ہوئے پوری زندگی جی ڈالی تھی، تومیں نے بھی اتنے عرصے میں ایک نہیں کئی زندگیاں جی لی تھیں۔ ایسی زندگیاں جن میں آدمی مرتانہیں صرف شکل بدل لیتاہے۔ پھریہ موت سے ڈرکیساتھا۔ میرے بیوی بچے کسی دوسری شکل میں۔ ان کی بھی شکل دوسری ہوگی۔ نہیں۔ میں انہیں انہی شکلوں میں دیکھناچاہتا ہوں۔ مادہ حیات اپنی ان گنت جمع تفریق میں کتناہی اپنے آپ کو دہرائے، کتناہی سرکو کیوں نہ پٹکے، ایسی پیاری شکلیں پھر نہ بناسکے گا۔ نہ ایسی ہنسی دیکھنے میں آئے گی، نہ ایسی خوشی اورنہ ایسا رونا۔۔۔ آخر رونا اورپھررونے والے کو پچکارنے، دلاسا دینے میں بھی توایک مزاہے۔
لیکن کیا آدمی اتناہی کٹھورہوگیاہے کہیں کوئی مرجائے، اسے پرواہ نہیں۔ کیوں کہ اس کا حلوہ مانڈہ، اس کے بوٹی کباب، شراب اورعورت اپنے ہیں۔ میرے دوبچے ہیں۔ ڈالی بڑی لڑکی ہے تین سال کی اور چنوں سال سواسال کا ہے۔ بیٹا پگوڑے میں پڑا۔۔۔ اونی سوئٹر میں لپٹاہوا۔۔۔ وہ بالکل ایک بلی کا بچہ معلوم ہوتاہے۔ میری بیوی اسے ڈالی سے زیادہ پیارکرتی ہے، اس لیے کہ وہ مقابل کی جنس کا ہے۔ نر۔۔۔ جو میری نسل کوآگے چلائے گا۔ یہ ٹھیک ہے۔ مگرمیری نسل۔۔۔ ایک بیکار، بیہودہ آدمی کی نسل۔
چنوں کوپیار کرتی ہوئی وہ آدھی پاگل ہوجاتی ہے۔ اسے نہلادھلاکر لاتی ہے اورایک نرم سے تولیے سے اس کابدن پونچھتی ہے۔ وہ ہنستا، روتا مچلتا ہے اورمیری بیوی اسے گدگدی کرتی ہے اورایسا کرنے میں اس کے اپنے گدگدی ہونے لگتی ہے۔ میں جودیکھتا ہوں، اس کی بھی گدگدی ہونے لگتی ہے۔ جیسے میری بیوی کی انگلیاں چنوں کے بدن پرناچ رہی ہیں۔ وہ پھر اس کی طرف دیکھتی ہے اور ایک دم جھکتی پیارکرتی ہوئی۔۔۔ چوم لیتی ہے۔
کیااس لیے کہ وہ ایک مردکودنیا میں لائی ہے۔ جبھی لوٹ کردیکھتی ہے توڈالی چلی آتی ہے۔ ننگی اور اس پربے حجاب۔ حجاب۔۔۔ میری بیوی مڑکرایک دم اسے ڈانٹنے لگتی ہے۔ ڈالی چلو۔ چل کے چڈی پہنو! شیم! شیم! اورڈالی ہنستی ہوئی جھک جھک جاتی ہے اور اس کے مونہہ میں موتیا سے دانت کوندکوند جاتے ہیں۔ اسے برابر وہیں ننگے کھڑے دیکھ کر اس کی ماں زور سے پیرزمین پرمارتی ہے توڈالی ایک دم اچھل کرکھلکھلاکرہنستی ہوئی اندرکی طرف بھاگ جاتی ہے، جہاں ہمیشہ کی طرح وہ پردے کے پیچھے سے منہ نکال کرشور مچانے لگتی ہے۔ مما۔ شیم شیم۔ پپا شیم شیم۔
تھوڑی سی دیرمیں ہم کیڈل روڈ پرجارہے تھے۔ جو لوگ بمبئی کے جغرافیے سے واقف ہیں، جانتے ہیں، دادر سے پرشین ڈیری جانے کے لیے نکلیں توکیڈل روڈ راستے پرنہیں پڑتی۔ ایسے لوگوں کومیں بتادوں گا۔ اگرکسی مرد کا نام کلیان ہو اوراس کی بیوی کا نام راجی اوردرشن نام کی کوئی لڑکی راستے میں آپڑے توپھرکیڈل روڈ بھی ہوسکتی ہے۔ درشن کلیان کی ‘وہ ’ تھی۔ اگرچہ کلیان بے کارتھا۔ پانچ بچوں کا باپ تھا۔ اس کی گاڑی کھٹاراتھی۔ اس پربھی درشن کلیان کے لیے۔۔۔ یہ سب کچھ اور جنت بھی۔۔۔ کارتبہ رکھتی تھی اورہم کلیان کوہمیشہ اس بے راہ روی پرڈانٹا کرتے تھے۔ لیکن اس دن مجھے پتہ چلا، سب ٹھیک ہے۔ اگر وہ سب ٹھیک ہے تویہ بھی سب ٹھیک ہے۔
کلیان ڈھولکیا کی طرح کا نہ توہول سیلرتھا اورنہ کسی کی مصیبت سے فائدہ اٹھانے والا۔ درشن توایسے ہی تھی جیسے راہ جاتے کسی کے گھر میں لگے جھاڑ سے رات کی رانی کی خوشبوآجائے۔ انسان کہاں تک اپنی ناک بند کرکے چل سکتاہے۔ وہ یہ سب کچھ کرناچاہتا ہے اورپھر بیٹھ کررونا پچھتانا بھی۔ اگر وہ روئے پچھتائے نہیں توہمارے مندر، ہماری مسجدیں اورگرجے کہاں جائیں؟ کہاں جائیں۔ اسکولوں کے ماسٹر اور قوموں کے رہنما، بڑی بڑی نصیحتیں، لمبے چوڑے بھاشن اورگنجلگ فلسفے۔ لیکن ہم درشن کے فلیٹ پرپہنچے ہی کہاں تھے۔ سامنے کسی حادثہ کی وجہ سے ٹریفک رک گئی تھی۔
جہاں سے ٹریفک رکناشروع ہوئی تھی وہاں کچھ دومنزلہ بسیں کھڑی تھیں۔ آخری بس کے پیچھے اوٹو ایکسپریس لکھاتھا اوروہ سانتاکروز ڈپوجارہی تھی۔ اس کے پیچھے کچھ کاریں، وین اورٹھیلے وغیرہ تھے جن میں سے لوگ لپک لپک کرموقع واردات پرپہنچ رہے تھے۔ کچھ لوگ گاڑیوں میں بیٹھے پاں پاں ٹاں ٹاں کررہے تھے اور کچھ لو گ ادھر ادھر ہوکرنکل جاناچاہتے تھے لیکن ایک گھٹی ہوئی لائن میں پھنس چکے تھے۔ اگرکوئی نکلتابھی تو مخالف سمت سے آتی ہوئی گاڑیاں اسے جگہ نہ دیتیں۔
کیاہوا؟ کون ماں کا لال تھا جوآج بیچ سڑک کے پڑا تھا۔ آج کس کی پیاری کا انتظار صدیوں پرپھیل گیاتھا۔ میرا دل ڈوبنے لگا۔ آج کس کے بچے شیم شیم ہوگئے تھے۔
ہم تینوں چارو ں گاڑی سے نکل کرلپکے۔ ڈھولکیا کے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔ ایک تم مرگئے توکیاہوگا۔ کیاواقعی کچھ نہ ہوگا۔ یہ جوچل بسا ہے، اس کے مرنے پربھی کچھ نہ ہوگا۔ شاید انسان اتناسنگ دل ہوگیاہے، جب ہی اس نے ایک دوسرے کو تہس نہس کرنے کے لیے اس قدر خوفناک ہتھیار ایجاد کرلیے ہیں۔ ایسی سنگ دلی اورکلبیت کے بغیر جن کا استعمال ہی ممکن نہیں۔ کیا اس بدقسمت کے لیے کوئی نہیں مرے گا؟ کوئی اپنا خون نہیں بہائے گا؟ انسان کے لیے کوئی امیدنہیں۔
جب تک ہم موقع پرپہنچ چکے تھے۔ لوگ ہنس رہے تھے۔ یہ کیسے لوگ تھے؟
پھرکچھ اور قہقہے پڑے۔۔۔ اورکسی کے پیچھے کی طرف بھاگنے کی آواز آئی۔ جیکوار ہم سب سے لمبا تھا۔ بھیڑ کے پیچھے کھڑے ہوکراس نے ایڑیاں اٹھائیں اور سڑک پردیکھا۔ اف صورت کیسی مسخ ہوچکی ہوگی۔ بس کے ساتھ ٹکرانے سے چیتھڑے اڑچکے ہوں گے اور خون۔۔۔ جبھی جیکوار لوٹا تووہ بھی ہنس رہاتھا۔ میں بھاگ کربس لینڈنگ پرجاکرکھڑا ہوا، جہاں سے میں نے دیکھا۔۔۔
وہ نظارہ میں زندگی بھر نہ بھولوں گا، جس کے دیکھنے کے بعد لوگوں کی زبان پرقہقہے تھے اورمیرے گلے میں آنسو، جن کے بھنور میں ڈھولکیا اوراس کی قماش کے سب لوگ ڈوب گئے تھے اورجن سے انسان کی معصیت دھل گئی تھی۔ ایک بلی کابچہ بائیں حصہ پہ تقریباً سڑک کے بیچ بیٹھا ہوا تھا اوربس کے ڈرائیور، کنڈکٹر اوردوسرے لوگ اسے ہٹانے بھگانے کی کوشش کررہے تھے لیکن وہ اپنی جگہ پرگل محمدہورہاتھا۔
وہ بے حد خوبصورت تھا۔ بلی کا بچہ۔ مشکل سے پندرہ بیس دن کاہوگا۔ اس کا رنگ سفید تھا۔ جس پرکہیں کہیں شربتی چھینٹے دکھائی دیتے تھے۔ آنکھوں پردوگہرے نارنجی سے داغ تھے، جن میں سے اس کی پیلی چمکتی ہوئی آنکھیں اوربھی پیلی دکھائی دے رہی تھیں۔ معلوم ہوتاتھا کہ کوئی عورت کچھ بُنتی ہوئی ادھرسے نکلی ہے اوراس کے پرس یا ٹوکری میں سے اون کا گولہ سڑک پرگرگیاہے۔
ایک طرف اوٹوایکسپریس تھی۔ قریباً بارہ فٹ اونچی اور دوسری طرف وہ تھا۔۔۔ بلی کا بچہ جواپنے بے بضاعت وجود کے باعث مقابلے میں اوربھی بے بضاعت ہوگیاتھا۔ کنڈکٹر اسے بچانے، سڑک پرسے ہٹانے کے لیے بڑھا تووہ اسی پرجھپٹ پڑا۔ اس بظاہر بے ضرر اون کے گولے میں نجانے کہاں سے تیزنکیلے سے پنجے نکل آئے تھے جنہوں نے کنڈکٹر کے ہاتھ پرخراشیں پیدا کردیں اور ان میں سے خون کے باریک باریک قطرے امڈنے لگے۔ اس پربھی کنڈکٹر خفانہیں تھا۔ الٹاہنس رہاتھا۔
’’ہے نہ سالا۔‘‘ وہ کہہ رہاتھا۔ اسی کی جان بچانے کے لیے یہ سب کچھ کررہے ہیں اوریہی نہیں جانتا۔
’’کتناناشکراہے۔۔۔‘‘ ایک عورت نے کہا۔
اوروہ بدستور کھڑا مسمرک آنکھوں سے ابھی تک کنڈکٹر کوگھوررہاتھا اورغرانے کی نقل اتاررہاتھا، جیسے کوئی چیلنج دے رہاہو، ’’بیٹا پھرتوآ۔۔۔‘‘ اورجب کنڈکٹر نے ہمت نہ کی تووہ پھرتھوڑا پیچھے ہٹ کروہیں بیٹھ گیا اورگلاب کی پتی سی زبان نکال کر اپنی پیٹھ چاٹنے لگا۔ ڈرائیور نے کچھ بیزاری کے لہجے میں کنڈکٹر سے کہا، ’’کتنے لیٹ ہوگئے یار۔۔۔‘‘ گویا اس خوبصورت حادثے میں بیچارے کنڈکٹر کا قصورتھا۔
بس کے بازو میں ایک ٹھیلے والا تھا، جس کے ٹھیلے پرتیزاب کی بڑی بڑی بوتلیں پڑی تھیں، گویا ایک طرح کا بارود تھا جوذرا سی ٹھوکر لگنے سے پھٹ سکتا تھا۔ وہ اپنی گھبراہٹ میں پسینہ پسینہ ہورہا تھا۔ بلی کے بچے کے پاس پہنچتے ہوئے ٹھیلے والے نے دونوں ہاتھ اس کی طرف جوڑدیے اوربولا، ’’اب اٹھ جا میرے باپ۔ بہت ہوگئی۔‘‘
اسے آگے بڑھتے دیکھ کربلی کابچہ پھر تننے لگا۔ بھیاذرا ڈرکر پیچھے ہٹا توبلی کے بچے نے اطمینان کے اظہار میں ایک نہایت ہی لطیف مترنم سی آوازنکالی، ’’میں آؤں؟‘‘ اس پرسب ہنس پڑے اور بس کاڈرائیور بولا، ’’ہاں حضور آپ آئیے۔‘‘
جب تک کچھ اورٹریفک پیچھے رک گئی تھی اورڈرائیور لوگ ہارن بجارہے تھے۔
ایک مرسی ڈیزسے کوئی خوبرونوجوان نکلا اورلمبے لمبے ڈگ بھرتا ہوا منظرپرچلاآیا۔ پہلے تو وہ بلی کے بچے کی طرف دیکھ کرٹھٹکا۔ پھراس نے سب کوپیچھے دھکیل کرایک ٹھڈے سے قصہ ہی پاک کردیناچاہا۔ جبھی لوگ لپکے۔ ’’ہے ہے۔ ہے ہے‘‘ کی آوازبلند ہوئی اور وہ خوش پوش نوجوان اپنے ارادے کوعملی جامہ نہ پہناسکا۔
’’کیا بکواس ہے؟‘‘ وہ بولا، ’’گیارہ بجے میرا جہازپرواز کرجاتاہے۔‘‘
لوگ اس کی طرف دیکھ رہے تھے جیسے اس کی روح بھی پرواز کرجائے تو پرواہ نہیں۔ نوجوان نے غصے سے ہاتھ اپنی پتلون میں ٹھونس لیے اورپسپاہوگیا۔ پھراپنی اعصاب زدگی میں آگے بڑھا اور پھرمجبور ومقہور لوٹ گیا۔ بکتا جھکتا ہوا۔ ’’یہ اسی ملک میں ہوسکتاہے۔ ایک بلی کا بچہ اتنے بڑے شہر کی ٹریفک روک سکتاہے۔‘‘
ایک نے مسخرگی کی، ’’پولس کوبلوائیے صاحب!‘‘
نوجوان نے پیرزمین پرمارا اور بولا، ’’میں ابھی ٹیلی فون کرتا ہوں فائربریگیڈ والوں کو۔‘‘
اورسب ایک آوازمیں ہنس دیے۔ جب ہی مجمع میں سے آوازیں آئیں، ’’ گیا۔ گیا۔‘‘
کسی کوخیال بھی نہ تھا، اس بات کا گمان بھی نہ تھا کہ اتنے بڑے مسئلے کاحل یوں ایک پل میں ہوجائے گا۔ بلی کا بچہ جیسے اپنے آپ کسی اندرونی ترغیب سے اٹھا۔ بیچ میں کمر اوپر اٹھائی۔ دم تانی، جس کے سرے پرشربتی رنگ کاایک بڑا سا گچھاتھا، پھراگلے پنجے آگے رکھے پیچھے پیچھے اکڑا۔ گلابی سامنہ کھول کر جماہی لی۔ اردگرد کے پورے منظر کوکچھ تعلق اورکچھ بے تعلقی سے دیکھا اورایک نہایت ہی سست رفتار سے سڑک کے دائیں طرف چل دیا۔
’’گئے میرے بھگوان۔‘‘ بس کے ڈرائیور نے کہا۔
’’گیا۔ گیا۔‘‘ سب نے تالی بجائی اورہنسے۔ کلکاریاں مارتے ہوئے اپنی اپنی گاڑی کی طرف لپکے۔ گاڑی کو راستے سے ہٹانے، ہَوا ہوجانے کے لیے لیکن وہ بلی کا بچہ بڑی تمکنت سے چلتا ہوا اب دائیں طرف تقریباً سڑک کے بیچ میں دھرنامارکربیٹھ گیا۔ اب مخالف سمت کی ٹریفک رکناشروع ہوئی۔ بائیں طرف سے نکل جانے کا کوئی راستہ نہ تھا۔
کوئی فضول سی زندگی کوروندتا ہوا نکلنا بھی چاہتا تو لوگ اسے روک دیتے اوروہ اپنے سامنے بے شمار زندگیوں کی ایک چٹان سی کھڑی پاتا، جس کے ہونٹوں پرکف بھی ہوتی اورہنسی بھی۔ پھروہی منظردہرایاجانے لگا۔
عجیب نادرشاہی تھی بلی کے بچے کی اور عجیب تخت طاؤس تھا اس کا۔ بیٹھنا ہی تھا توکہیں اوربیٹھتا۔ اتنی جگہ تھی اس کے لیے۔
شاید بلی کے بچے کامطلب تھا۔۔۔ دھرتی کے اس حصے پرتمہارا حق ہے تومیرا بھی ہے۔ میں اس پرکھیلوں گا اوروہ کھیلنے لگا۔ وہ تھوڑی سی جست بھرتا اور کچھ خیالی چوہے پکڑکر پھروہیں آبیٹھتا اورسب کی طرف دیکھتے ہوئے کہتا، تم تودن رات اس پرچلتے ہو۔ آج میں آبیٹھا ہوں توآفت آگئی۔ تم توبڑی بڑی مشینوں کے ساتھ دندناتے پھرتے ہو۔ میں چلتاہوں تو آوازبھی نہیں ہوتی۔ شورروکنے کے لیے پیروں میں گدے باندھ رکھے ہیں۔۔۔ اوریہ ناخن توصرف بچاؤ کے لیے ہیں۔
ایک رول تمہارا ہے ایک میرا۔۔۔
معاملہ مذاق کی حد سے بڑھاجارہاتھا، جب ہی بھیڑ کے بیچ سے کسی بچی کی آوازآئی، ’’میرا سومو!‘‘ اب جھلانے والے لوگوں کی تعدادبڑھ رہی تھی۔ ہوسکتاتھا کوئی اتنا امیرہوگیاہوکہ اسے عام آدمی کے خیالات، بلی کے بچے کے جذبات کی ذرا بھی پرواہ نہ ہو، اس لیے جیکوارنے لپک کربلی کے بچے کوکمرسے اٹھالیا۔ بجلی کی پھرتی کے ساتھ بڑے بڑے ناخن کسی نہ دکھائی دینے والی تھیلی سے لپکے اوراگلے لمحے جیکوار کی قمیص میں گڑے ہوئے تھے لیکن جیکوار نے آمدورفت کے لیے سڑک خالی کردی تھی اور گاڑیاں چلنے لگی تھیں۔
اب جیکوار فٹ پاتھ پر کھڑابلی کے بچے کے سرپرہاتھ پھیررہاتھا۔ تھوڑی دیر میں اس جانور کے پنجے جیسے اپنے آپ اندر چلے گئے۔ خرخر کی آواز سی اس کے پورے بدن میں سنسنانے لگی۔
جب کلیان نے اپنی کھٹارا گاڑ ی کا اسٹارٹر گھمایا، بلی کابچہ سامنے اپنی گلاب سی پتی سی زبان سے جیکوار کے منہ کی پشت کوصاف کررہاتھا، جبھی ایک جھٹکے کے ساتھ بچے نے سراٹھایا۔ ایک جست لی اور نیچے آرہا۔ اسے کوئی بوآگئی تھی۔ منی، پڑوس کی ایک لڑکی مٹی کی ٹھلیا میں دودھ لے آئی تھی، جس میں منہ ڈال کربلی کا بچہ پسرپسر دودھ پی رہاتھا۔
جب ہم گاڑی میں بیٹھ کر درشن کے فلیٹ کی طرف چلے تومنی بلی کے بچے کی پیٹھ پرہاتھ پھیرتی ہوئی کہہ رہی تھی، ’’تم کتنے گندے ہوسومو۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.