Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بلی کا خون

فریدہ رازی

بلی کا خون

فریدہ رازی

MORE BYفریدہ رازی

    اب میں اپنی بلی کے بدن پر نظر کرتی ہوں۔ کیسا سوکھ کررہ گیا ہے! یہ مجھے اچھا لگ رہا ہے۔ خود کو ہلکا پھلکا محسوس کر رہی ہوں۔ کوئی خاص بات نہیں، وہ مر گئی، ہم دونوں کو چین پڑا۔

    کب سے وہ اپاہجوں کی طرح گھسٹ رہی تھی۔ اس کی میاؤں میاؤں سے پتہ چلتا تھا کہ دکھ جھیل رہی ہے مگر ظاہر نہیں کرتی۔ اس کی گھٹی گھٹی پتلی آواز میں فریاد کی کیفیت آ گئی تھی۔ وہ سارے وقت کسی کونے میں سکڑی پڑی رہتی اور مچی مچی آنکھوں سے میری طرف دیکھا کرتی تھی۔ اس کی نگاہیں، غصے میں بھری ٹٹولتی ہوئی نگاہیں، میری ہڈیوں کے گودے تک کو جلائے ڈال رہی تھیں۔

    روز بروز وہ کمزور اور دبلی ہوتی جا رہی تھی۔ بال اس کے سوکھے ہوئے بدن پر چپک کر رہ گئے تھے اور ان کی آب جاتی رہی تھی۔ وہی بلی جو پرچھائیں بھی دیکھ پاتی تو چیتے کی طرح جست مارتی اور ایسا پھنکارتی کہ مجھ کو خوف آنے لگتا، اب ایسی بے جان ہو گئی تھی کہ میں اسے جتنا بھی چھیڑتی، وہ شل پڑی رہتی یا میری طرف توجہ کیے بغیر اٹھ کر کسی اور گوشے میں پڑ رہتی۔

    اس سے پہلے وہ مگن مست رہتی تھی۔ قالین پر لمبی لمبی لیٹ جاتی، نرم سفید سینہ ابھار ابھار کر بند پنجوں سے مجھ کو نوچتی تھی۔ چاہتی تھی میں اس کو گدگداؤں، اس کا سینہ کھجاؤں اور وہ خرخرانا شروع کر دے۔ آنکھیں نشیلی بنا کر میرے پیچھے پڑ جاتی کہ اس کے ساتھ کھیلوں۔ جب وہ ٹھیک تھی تو صوفے کے ایک کنارے پھیل کر لیٹ جاتی اور خراٹے بھرا کرتی تھی۔ اس زمانے میں اس کے گدبدے جسم پر پھولے پھولے بال چمک مارتے تھے۔

    اس کے گول منہ اور صاف ستھری مونچھوں سے خوشی برستی تھی، لیکن اب اسے دیکھ رہی ہوں تو جی متلا رہا ہے۔ وہ گھل کر رہ گئی تھی۔ ہر وقت روتی رہتی تھی۔ میں اسے بہلانے کے لاکھ جتن کرتی، کوئی فائدہ نہ ہوتا تھا۔ نہ جانے کیوں اس کا کچھ دل ہی نہ چاہتا تھا۔ بس مجھے دیکھ کر رہ جاتی تھی۔ نہ کھانا پینا، نہ گھومنا پھرنا، نہ کھیلنا کودنا، کچھ نہیں۔

    یہ سب گزشتہ سال بہار کے موسم میں شروع ہوا۔ کئی دن سے ایک سرمئی بلا منڈیر پر آ کر میاؤں میاؤں کیا کرتا تھا اور میری بلی کے کان پھڑکنے لگتے، بدن تن جاتا اور وہ لپک کر کھڑکی کے پاس پہنچ جاتی۔ میں دروازے بند رکھا کرتی تھی کہ کہیں ایسا نہ ہو وہ باہر نکل جائے، پھر بچوں کا جھول چھوڑ دے تو میری مصیبت ہو جائے۔ لیکن ایک دن جو میں گھر لوٹی تو وہ غائب تھی۔ میں نے سب جگہ ڈھونڈا، کہیں نہیں ملی۔ کئی دن بعد کھڑکی کے باہر اس کی آواز سنائی دی۔ میں نے دروازہ کھولا تو وہ جست مار کر اندر آ گئی اور مجھ کو نظر انداز کرتی ہوئی سیدھی باورچی خانے میں گھس گئی۔ معلوم ہوتا تھا بہت بھوکی ہے۔

    وہ دبلی ہو گئی تھی مگر چاق چوبند تھی۔ ہر چیز کے گرد گھومتی، جو پاتی کھا لیتی اور کسی گوشے میں پڑ کر سو رہتی۔ کچھ دن تک مجھ سے کھنچی کھنچی رہی لیکن رفتہ رفتہ اس کی پرانی عادتیں لوٹ آئیں۔ اب وہ مجھ سے کبھی کبھار کھیلنے لگی۔ صبح صبح میرے بستر پر آ جاتی اور میرے چہرے پر آہستہ آہستہ مٹھی مار کر مجھے جگا دیتی۔

    یہاں تک کہ ایک دن پھر اس سرمئی بلے کی آواز سنائی دی۔ میری بلی کی آنکھیں چمکنے لگیں، بال کھڑے ہو گئے۔ اس نے انگڑائی سی لی اور اپنی جگہ پر چکر کاٹنے لگی۔ پھر دونوں نے کھڑکی کے شیشے کے آر پار سے کھیلنا شروع کیا۔ سرمئی بلے کی سبز پیلی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ اس کے پھولے پھولے نرم بال تھے اور چھوٹا سا گول منہ بھلا لگتا تھا۔ دونوں دیر تک اپنے کھیل میں مست ایک دوسرے کو گھورتے، میاؤں میاؤں کرتے، غراتے رہے، پھر تھک کر کھڑکی کے قریب پڑ رہے اور آہستہ آہستہ دمیں ہلانے لگے۔

    آخر میری بلی سے نہ رہا گیا، دھیرے دھیرے، چلتی ہوئی میرے پاس آئی، کود کر میرے زانو پر بیٹھ گئی، چاپلوسی شروع کر دی۔ اس کی جو جو ادائیں مجھے پسند تھیں، سب اس نے دکھائیں۔ سر میری گردن سے رگڑا، آنکھیں میچ کر زمین پر لوٹیں لگائیں، لیکن میں ذرا بھی نہ پسیجی کیونکہ میں خوب سمجھ رہی تھی وہ کیا چاہتی ہے۔ میں نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھ دیا۔ اچانک وہ اچھل کر پیچھے ہٹ گئی اور میرے سامنے کھڑے ہو کر پھنکارنے لگی۔

    سرمئی بلا دیر تک کھڑکی کے پیچھے میاؤں میاؤں کرتا رہا، آخر وہاں سے چلا گیا، لیکن میری بلی صبح تک کھڑکی کے سامنے بیٹھی رہی۔

    میں نے سوچا کوئی بات نہیں، کچھ دن میں بھول بھال جائے گی اور وہ بھی اپنے اپنے گھر لوٹ جائے گا، لیکن ایک رات جب میں گھر آئی تو دیکھا سرمئی بلا کھڑکی کے پیچھے بیٹھا ہے اور دونوں ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں۔ مجھے تاؤ آ گیا، ڈپٹ کر اس کی طرف لپکی اور وہ بھاگ گیا۔ میری بلی نے ناچ ناچ کر میاؤں میاؤں کرنا شروع کر دیا، پھر پنجوں سے دروازہ کھرچنے لگی۔ میں اسے چھوڑ کر اپنے کام میں لگ گئی۔ کئی دن تک میں نے نگرانی رکھی کہ دروازہ بند رہے اور وہ بھاگنے نہ پائے۔ میری یہی مرضی تھی۔ وہ میری بلی تھی۔

    ایک دن پھر شام کے وقت سرمئی بلا احاطے میں نظر آیا۔ میں بھنا کر رہ گئی۔ لکڑی اٹھا کر میں نے احاطے بھر میں اس کو رپٹایا اور مار مار کر باہر نکال دیا۔ واپس آئی تو میری بلی چیتے کی طرح میرا راستہ روکے کھڑی تھی۔ میں جدھر بھی مڑتی وہ اچھل کر اُدھر آ جاتی۔ بری طرح بھڑکی ہوئی تھی۔ اس کی انگارے برساتی ہوئی آنکھیں پھیل کر دگنی ہو گئی تھیں، ستا ہوا منھ بھیانک ہو رہا تھا۔ میں نے اسے ٹھنڈا کرنے کی سبھی ترکیبیں آزما ڈالیں لیکن وہ اپنے آپ میں نہیں تھی۔ آحر وہ مجھ پر جھپٹ پڑی۔ میری گردن میں لپٹ کر اس نے اپنے نکیلے دانت میرے چہرے پر اتار دیے۔ میری سانس رکی جا رہی تھی۔ میں خوفزدہ ہو کر چیخنے لگی، یہاں تک کہ کسی نے مدد کو آ کر اسے ہٹایا۔ میں نے برے حالوں کمرے کے اندر گھس کر دروازہ بن کر لیا۔ میری بلی نے بغاوت کر دی تھی، میرے خلاف اور میرے ظلم کے خلاف۔

    صبح تک وہ راہداری میں روتی پھری۔ میں نے اسے نکلنے کا موقع نہیں دیا۔ اس کے بعد سے وہ روزانہ رات رات بھر کھڑکی سے لگی بیٹھی رہتی، مگر سرمئی بلے کا کہیں پتہ نہ تھا۔ میں نے اس کے لیے بہترین کھانے تیار کیے، جو جو اسے بھاتا تھا سب دیا، لیکن اس نے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔ میں اس کے جتنے لاڈ کرتی، اتنی ہی وہ ضدی اور چڑچڑی ہوتی گئی۔ میں نے اسے کھلی چھوٹ دے دی کہ جن جگہوں پر اس کو پاؤں دھرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی، وہاں جا کر سوئے، لیکن وہ روز بروز نڈھال ہوتی جا رہی تھی۔

    ایک دن پڑوس کے کوٹھے پر کسی بلی کی آواز سن کر وہی میری بلی جو بمشکل خود کو ایک سے دوسرے کمرے تک گھسیٹ کر لے جاتی تھی اور جس کے اندر کچھ نہیں رہ گیا تھا، اچانک اس طرح چھلانگ مار کر کھڑکی سے باہر کودی کہ ٹانگ توڑ بیٹھی اور فریادیوں کی طرح گلی میں رونے لگی۔ میں اسے گھر میں اٹھا لائی۔ بہت دن میں جا کر ٹھیک ہوئی لیکن لنگڑانے لگی۔ کوشش بیکار تھی۔ وہ بدل چکی تھی اور اب میرا بھی حوصلہ جواب دینے لگا۔ اس کی سبکیوں، اس کی چیخوں، اس کی بدمزاجی، اس کی شکستہ حالی سے میرا ناک میں دم تھا۔ اس کا ایک کونے میں مرے ہوئے چوہے کی طرح پڑے رہنا مجھے دق کرائے دے رہا تھا۔ میں سمجھتی تھی، اچھی طرح سمجھتی تھی کہ وہ دکھ جھیل رہی ہے اور گھل رہی ہے۔ میں اس کے قریب جاتی تو اس کی آنکھیں پتھرا کر مندنے لگتیں۔ وہ سر اٹھاتی، کچھ دیر تک پلکیں جھپکاتی، پھر گردن ڈال دیتی اور سو جاتی۔

    کل ایک بلی کی آواز سنائی دی۔ میں نے کھڑکی کھول دی کہ اس کا جی چاہے تو باہر چلی جائے۔ اس نے سر اٹھایا، کان ہلائے، مونچھیں سیدھی کیں اور کھڑکی کی جانب دیکھا۔ پھر اس کی تھکی تھکی بجھتی ہوئی نگاہیں مجھ پر جم گئیں۔ اس نے کئی بار فریاد کے انداز میں میاؤں میاؤں کی آواز نکالی، دانت نکوسے اور دوبارہ سو گئی۔ اور آج میں نے اس کو مار ڈالا۔

    (فارسی عنوان، ’’گربہ ام را کشتم‘‘)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے