Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بلو رانی

قمر سبزواری

بلو رانی

قمر سبزواری

MORE BYقمر سبزواری

    جب میں نے پہلی بار اسے دیکھا تو مجھے کراہت کے ساتھ ساتھ حیرت کا احساس ہوا۔ کراہت اس لئے کہ وہ کم و بیش تیس بتیس برس کی ایک ایسی لڑکی یا عورت تھی جس کے بارے میں میں سن چکا تھا کہ وہ بہت واہیات، گندی اور بدتمیزرنڈی ہے اور حیرت اس لئے کہ اُس کے جسم کے اکثر اعضاء ایک دوسرے سے مانو جیسے متصادم سے نظر آتے تھے۔ یہ اعضاء کے متصادم ہونے کی بات شاید آپ اپنے الفاظ میں خود کو بہتر سمجھا پاؤ اگر میں اپ کو فقط تفصیلات بتا دوں اور اس شے کو نام دینے کا فیصلہ آپ پہ چھوڑ دوں۔۔۔ اس کے ہاتھ خشک، کرخت، بھورے بالوں والے اور کہنیوں تک بازو بھی پٹھوں اور ہلکے ہلکے سےمردانہ کالے بالوں والے تھے لیکن شانے اور باقی جسم قدرے نازک اور بالوں سے پاک۔ اسی طرح اس کا اوپری جسم مردوں کی طرح تنا ہوا تھا اور سننے میں آتا تھا کہ وہ اکثر سامنے آنے والے کے شانے سے شانہ ٹکرا کر گزر جاتی تھی لیکن اس کا سینہ کسی بھی عام عورت کی طرح نسوانی حسن کا حامل تھا۔۔۔ اس کی آنکھیں کسی جنگلی بلی کی طرح تیز سنہری رنگ کی تھیں لیکن آواز بالکل ایک جنگلی بکرے کی طرح پھٹی ہوئی، سمع خراش اور بےہودہ حد تک اونچی۔۔۔

    حالانکہ مجھے دو ہی دن پہلے سامنے کی دکان والی خالہ ضمیراں نے بتایا تھا کہ 'پتر فیکے رانڑوں کبھی سامنے آ جائے تو تھوک کے پرے ہو جانا، اس کے منہ لگنا تو دور کی بات وہ جس راستے سے گزرے اس رستے کو بھی چھوڑ کے گزرنا' لیکن اُسے پہلی نظر دیکھنے پر مجھے پتہ چلا تھا کہ سولہ سال کی عمر میں مجھ میں اتنی ہمت نہ تھی کہ میں ایک اٹھائیس تیس برس کی رنڈی کے سامنے آ نے پر تھوکتا یا اس کو دھتکارتا۔ دوسرے وہ میری چھوٹی سی دکان پر ببل گم لینے آئی تھی اب میں اسے کیا کہتا۔ ایک بچہ ٹافی لےکر جیسے ہی دکان سے باہر نکلا میں اس کی طرف متوجہ ہوا، لیکن متوجہ ہونے اور بولنے کے بیچ کے ایک لمحے نے میرے اندر کے سر اٹھاتے مرد کو آپس ایک نو عمر لڑکا بنا دیا اور مجھے احساس ہی نہ ہوا کہ کیسے میرے منہ سے نکلا۔۔۔ جی باجی، کیا چاہیئے۔۔۔ اس کا اپنے گریبان میں سے پیسے نکالتا ہوا ہاتھ ادھر ہی رک گیا، آنکھیں میرے چہرے پر گڑ گئیں اور ایک بے ہنگم، دل خراش سی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔۔۔ اوئے بچے۔۔۔ سوچ سمجھ کے بولا کر، تجھے پتہ ہے باجی کیا ہوتی ہے، اوئے تو نے مجھے باجی کہہ دیا ہے؟۔۔۔ مجھے، بلو رانی کو؟۔۔۔ تجھے پتہ بھی ہے میں کون ہوں؟۔۔۔ میں کچھ نہ بول پایا۔۔۔ پیسے میرے ہاتھ میں آئے میں نے پسینے کی نمی والے وہ سکے گلے میں رکھنے کی بجائے غیرمحسوس طریقے سے ایک طرف رکھے اور اسے دو ببل گم دے دیے، وہ اچھل کر دکان سے نکلی اور آگے بڑھ گئی۔

    مجھے پہلی بار ذہن کا ماؤف ہونا اور ہاتھ پاوں ٹھنڈے ہو جانا سمجھ میں آ رہا تھا، اس کے علاوہ اور کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، ماں باپ کی دوستوں عزیزوں کی پڑوسیوں اور جاننے والوں کے برسوں کی باتیں، کتابوں کے جملے اور فلموں، ڈراموں کے مکالمے نجانے کہاں کہاں سے آ کر ذہن مین خلط ملط ہو رہے تھے۔۔۔ پھر میرا دھیان وآپس رانی کے جسم کی طرف چلا گیا۔ ایسے لگتا تھا جیسے ایک عورت کے بنتے ہوئے وجود کے اندر سے کسی نے کلائیوں سے پکڑ کر ایک مرد کو باہر نکالنے کی کوشش کی تھی اور فقط کہنیوں تک بازو باہر نکال کر چھوڑ دیئے تھے یا جیسے کسی عورت کے وجود کے تھیلے کو کھول کر کسی نے ایک مرد اندر گھسیڑ دیا تھا جو کہیں کہیں سے اب بھی نظر آ رہا تھا۔۔۔ چہرہ قدرے کرخت تھا لیکن کہیں سے، کچھ تو ایسا تھا اس کے لانبے سنہرے بال یا اوپروی ہونٹ کے کنارے کا وہ تل جس سے اُس کے دور اندر چھپی کوئی خوبصورتی کوئی نزاکت باہر جھانک رہی تھی، آنکھیں سانپ سے بھی ڈراؤنی لیکن بار بار ایسے پلکوں کے پیچھے چھپنے والی، جیسے نیند میں ہوں۔

    ماسی ضمیراں نے میری آنکھوں کے سامنے ہاتھ لہرا کر مجھے خیالوں سے باہر نکالا۔۔۔ کن خوابوں میں کھو گیا ہے بچے؟۔۔۔

    لے گئی چین سکون؟۔۔۔۔

    ماسی ضمیراں کی کریانہ کی دکان میری دکان کے سامنے والے مکان کی دوسری طرف تھی لیکن گرمی میں دیوار کے سایے اور سردی میں دھوپ کئے لئے وہ اکثر میری دکان کی طرف ہی ٹوٹی ہوئی کرسی بچھا کر بیٹھا کرتی تھی، سایہ ملے نہ ملے میری دکان کے گاہک ضرور ہاتھ سے پکڑ کر زبردستی لے جایا کرتی تھی اور میں منہ دیکھتا رہ جاتا کبھی ماسی کا اور کبھی گاہکوں کا۔

    ویسے بھی ماسی کی دکان پر محلے کے سب بڑے لڑکے سگریٹ لینے اور ادھر ہی بیٹھ کر پینے آتے تھے، میرے پاس ایک تو سگریٹ نہیں ہوتی تھی اور دوسرے دکان کے پیچھے بیٹھ کر سگریٹ پینے یا گپ لگانے کی جگہ تو بالکل بھی نہیں تھی۔۔۔

    حاجی صاحب کا بیٹا ارشد پپو، آخری گلی کا لڑکا ناصر قذافی جیسے سب باوا قذافی کہتے تھے، کوٹھی والوں کا بیٹا نسیم لمبا، راشد فوجی، مجید مچھر، ندیم گنجا اور ایک دو دوسرے انجان سے لڑکے دوپہر کو اور رات دکان بند ہونے سے کچھ دیر پہلے آدھ گھنٹہ گھنٹہ ماسی کی دکان کے پیچھے بیٹھ کر سگریٹ پیتے اور سرگوشیوں میں گپیں لگاتے، ماسی محلے سے باہر کی خبریں اُن سے لیتی اور وہ سارے محلے کی باتیں ماسی سے پوچھتے۔

    ماسی اچھی بھی تھی اور دکانداری بھی جانتی تھی، لڑکوں کو سگریٹ پلاتی، چائے کی ضرورت ہوتی تو وہ بھی ماسی کے گھر سے آ جاتی جس کی دوگنی قیمت وصول کرتی اور کبھی کبھی تو کھانا بھی بیچتی لیکن کریانے کے سامان کے علاوہ سب چیزوں کے گاہک بس محلے کے بڑے بڑے لڑکے ہی ہوتے جو دکان کے پیچھے چھپڑ میں بچھی دو ٹوٹی ہوئی چارپائیوں پر بیٹھے رہتے اور ماسی کی بکری ہوتی رہتی۔

    دیکھ چھوکرے یہ نالے والے محلے کی بہت خطرناک اور بدمعاش رنڈی ہے، ماسی نے ایک پاؤں میری دکان کے اندر رکھ کر باقاعدہ دھمکی دیتے ہوئے کہا۔ خبردار جو کبھی اس سے کوئی فالتو بات کی یا اس کے پیچھے گیا تو، میں تیرے ابے سے تیری شکایت کردوں گی، ہمارا شریفوں کامحلہ ہے، کبھی دیکھا ہے اپنے محلے کے کسی لڑکے یا مرد کو اس طرح کی گندی عورت سے بات کرتے بھی۔۔۔ اسی لئے تو وہ ادھر سے گزرنے سے بھی کتراتی ہے کبھی غلطی سے ادھر کا رخ کر بھی لے تو دم دبا کر بھاگ رہی ہوتی ہے۔

    میں ماسی کے سامنے تائید میں سر ہلاتا رہا لیکن میرا دل رانو کو دوبارہ دیکھنے اور اس کی باتیں سننے کے لئے بے چین ہو رہا تھا۔

    اس کے بعد ایک دو بار ہی سہی لیکن جب بھی رانی گلی سے گزری میں نے بے اختیار ماسی کی دوکان کی طرف دیکھا اگر تو وہ باہر کھڑی ہوتی تو میں کنکھیوں سے رانی کو دیکھتا اور اگر وہ اپنی دکان میں مصروف ہوتی تو میں باہر نکل کر رانی کو دور تک جاتا دیکھتا اور طرح طرح کے اندازے باندھتا۔ مثال کے طور پر، کیا اس کے ماں باپ کو پتہ ہوگا یہ یہ رنڈی ہے؟

    کیا یہ شادی کرے گی؟ کرے گی تو اپنے خاوند کو کیا بتائےگی؟

    اگر شادی کی اور بچے ہو گئے تو ان کو کیا بتائےگی؟

    پھر میرا ذہن تھک جاتا اور میں دکان میں واپس آ جاتا۔

    ۔۔۔۔۔۔۔

    شو کیس کے پیچھے پڑی میری کرسی سے باہر دیکھنے پر دکان کے چار فیٹ کے دروازے سے گلی کا تقریبا آٹھ دس فیٹ کا حصہ نظر آتا تھا۔ پہلے بولنے یا قدموں کے چلنے کی آواز آتی پھر کچھ دیر بعد گرزتا ہوا راہ گیر اور اس کے نظروں سے اوجھل ہو جانے کے چند لمحے بعد تک اُس کی آواز آتی رہتی۔

    ایک دن گلی سے رانی کی آواز آئی اس نے ابھی ابھی دکان کے سامنے سے گزرنے والے سبزی فروش کو شاید کسی چھیڑ خانی پر گالی دی تھی اور ایسی گالی کہ ریڑھی کے چلنے کی آواز کچھ تیز ہو گئی تھی۔ ماسی ضمیراں باہر نہیں تھی، میں ٹکٹکی باندہ کر باہر گلی کی طرف دیکھنے لگا، اسی اثناٗ میں ڈلیوری والی وین آکر ماسی کی دکان پر رکی وہ جیسے انتظار میں تھی باہر نکلی تو اس دوران رانی بھی میری دکان کے سامنے پہنچ جانے پر اُس کی طرف متوجہ ہو کر اس کے پاس کھڑی ہو گئی۔

    ماسی نے بآواز بلند کہا، واہ مالک نیکی اور بدی ایک ساتھ ہی بھیج دی آج۔ رانی نے ماسی کو گالی دی اور پاس جا کر ہاتھ ملایا۔ ڈلیوری والے نے ٹافیوں چاکلیٹوں کے پیکٹ نکال کر ماسی کی طرف بڑھائے، ماسی نے ہنستے ہوئے رانی کی طرف اشارہ کر کےاسے کہا او تیرے پاس بہت مال ہے اس کی دکان خالی ہے کچھ مال اس دکان میں بھی ڈال دے۔ وہ ہنسنے لگا تو رانی نے خونخوار نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، کام کر اور نکل ، چل شاباش چل۔

    وہ تو بھاگ گیا لیکن ماسی دکان کے اندر جا کر بھی چپ نہ ہوئی، دکان کے اندر محلے کے لڑکے بیٹھے تھے ماسی نے دکان میں داخل ہو کر دوبارہ آواز لگائی، چھوٹی سی وین کے مال سے اس کی دکان نہیں بھرتی اس کو ٹرک کا مال چاہیئے تم ہی کچھ کرو، لڑکوں نے ایک قہقہ لگایا میں سوچ رہا تھا اب رانی کی گالیوں کی آواز آئے گی لیکن وہ دکان سے ایسے باہر نکلی جیسے کسی نے دھکا دیا ہو اور اپنی راہ پر چل پڑی۔ اسے جاتا دیکھ کر نجانے کیوں میرے دل میں ایک عجیب سا ملال پیدا ہوا۔ میرا دماغ اس خیال کو حقارت سے نوچنے کی کوشش کرتا رہا لیکن دماغ کی پہنچ سے دور دل کے اندر کہیں یہ عجیب سا خیال ایک ننھے سے پودے کی طرح سر اٹھا رہا تھا کہ میں رانی کو اٹھا کے اپنی سویٹر کے اندر ڈال لوں نہ کوئی اُس کو تنگ کرے اور نہ وہ گلیوں میں گھومے۔

    پتہ نہیں کیوں مجھے ہمیشہ ایسا لگتا جیسے ماسی ضمیرا ں اور رانی کی لڑائی حاجی صاحب کی دونوں بیویوں کے بیچ ہونے والی لڑائی جیسی ہوتی تهی کہیں نہ کہیں ضرور کوئ ایسی بات تهی جو مجهے کچھ ایسا احساس دلاتی کہ ماسی ضمیراں رانی سے مقابلہ کرتی ہے خاص طور سے جب رانی کے ماسی کی دکان سے جانے کے بعد وہ اپنی دکان ہر بیٹهے لڑکوں کو طعنے دیتی کہ وہ کیوں رانو کو گهور گهور کر دیکھ رے تهے یا جب رانو کو کوستی کہ کیوں ان کے سامنے اپنے ٹشن دکهاتی ہو اور اس کی بهدی آواز کی نقل اتار اتار کر لڑکوں کے سامنے اسے شرمندہ کرتی تو ایسا لگتا جیسے ماسی ان سب لڑکوں کی پہلی بیوی اور رانو اس کی سوتن ہو۔

    رانی کے جانے کے بعد ماسی کی دکان پر مکمل خاموشی چھا گئی اور کچھ ہی دیر میں چرس کی بو آنے گلی۔

    میں یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ لڑکوں نے دکان کے پیچھے اب نشہ پانی بهی شروع کر دیا تها کبهی صبح سویرے گلی کی صفائ کے لئے آنے والا جمعدار دیسی شراب کی کپیاں اٹهاتے ہوئے ماسی سے شکوے کر رہا ہوتا کہ دیکهو لوگ کیسے اپنی جان کے خود دشمن بنے ہوئے ہیں اور کبهی رات گئے چوکیدار چرس کی بو پا کر ادهر ادهر ٹودل رہا ہوتا کہ کون جاگ رہا ہے۔۔۔

    جو گلی ماسی کی دکان کے سامنے سے شروع ہو کر دور تک جاتی تھی اس کے آخر میں ایک بدمعاش رہتا تھا لطیف، لطیف کمانی میکر وہ نشہ بھی کرتا تھا اور محلے میں خبر تھی کہ اس نے دو تین بار لوگوں کو چھری یا چاقو بھی مارا ہوا ہے۔ مجھے اس کی باتوں کی آواز آئی تو میں جلدی سے دکان سے باہر نکلا۔ میری ہمیشہ یہ خواہش ہوتی کہ وہ میرے سامنے کسی کو مارے اور میں دیکھوں کی چھری کیسے مارتے ہیں اور اس کے بعد بندہ کیا کرتا ہے۔۔۔ لیکن وہ تو آج ماسی ضمیراں کو کچھ کہہ رہا تھا

    او دیکھ مائی، تو عورت ذات ہے ہماری ماں کی جگہ ہے اس لئے میں تیری عزت کرتا ہوں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ محلے میں ہماری ناک کے نیچے سب کچھ ہوتا رہے اور ہم آنکھیں بند کر لیں۔ لیکن ماسی نے اُسے اس سے آگے ایک لفظ نہ بولنے دیا اور منہ اور سینے پر ہاتھ مار مار کے اتنے زور زور سے دھاڑیں مارنے لگی کہ پورا محلہ اکھٹا ہونے لگا، لطیف کمانی میکر کمانی کی طرح جھک کر وہاں سے کھسک گیا اور میں اپنی دکان میں آ کر دبک گیا۔

    دن ایسے ہی معمول کے مطابق گزر رہے تھے کہ اچانک جیسے محلے میں طاعون کی وباء پهوٹ پڑی ہو گلیاں سنسان ماسی کی دکان ویران اور بڑے بچے سب گهروں میں بند۔۔۔

    میں شدت سے اس تبدیلی کو محسوس کر رہا تھا لیکن کوئی خبر نہ تھی کہ ایسا کیا ہوا ہے۔ ایک دن صبح میں نے دکان کھولی تو جیسے ایک دھماکے کی آواز سنی۔۔۔ بات تهی ہی ایسی پتہ نہیں چاروں پانچوں لڑکوں میں سے کس کی حرکت تهی لیکن ماسی کی پندرہ سالہ پوتی حاملہ ہو چکی تهی ماسی جیسے سکتے میں چلی گئی تهی دکان کهولتی بیٹهتی اور گلی میں پڑے کسی کنکر، کسی چهلکے یا بدرو سے باہر چهلکے ہوئے گندے پانی کو دیکهتی رہتی خبر پھیلنے کے بعد پہلا دن گزرا دوسرا دن گیا تیسرا دن آ گیا نہ کوئ ماسی کی دکان پر گیا نہ کسی نے اس سے بات کی اور نہ وہ کسی سے کچھ کہتی لیکن میری دکان کے باہر سے جب نمازی گزرتے تو ان کے نظر آنے سے چند لمحے پہلے اور بعد میں مجھے سرگوشیاں سنائی دیتیں۔۔۔

    اچها ہوا ایسی کے ساتھ ایسا ہی ہونا چاہیئے تها۔۔۔

    نہیں برا ہوا لیکن بندہ الزام کس کو دے۔۔۔

    چار پانچ لڑکے تهے جی۔۔۔

    جی جی بندہ ہاتھ دهرے تو کس پر دھرے

    حاجی صاحب کا لڑکا۔۔۔

    ارے چهوڑو جی حاجی صاحب زکواہ کمیٹی کے بانی مبانی ہیں ہوش کے ناخن لو۔

    تو کیا کوٹهی والوں کا بیٹا۔۔۔

    ارے کیا بک رہے ہو بهیا پتہ ہے ملک صاحب نے اپنے خرچے پر یہ ساری گلی پکی کروائی تهی، ورنہ پہلے یہاں بارش ہو جائے تو تین تین دن پانی کهڑا رہتا تها اور بو ہی نہیں جاتی تهی۔

    تیسرے دن شام کو رانو گلی سے گزری۔۔۔ کیوں اوئے شریف بچے، باجی کے بهیا، تیری ماسی کی دکان پر تو ہمارا داخلہ بند ہے، سالی حرافہ!!! طعنے دیتی ہے، کیا تو ایک کهلا سگریٹ دےگا یا تو بهی۔۔۔ وہ کچھ کہتے کہتے رک گئی۔

    ایک عورت کو اپنے لئے یوں سگریٹ مانگتا دیکھ کر میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔

    ماسی بیمار ہے، میرے منہ سے شاید حیرت چھپانے کی کوشش میں بےاختیار نکلا، ہائیں، کیا کہا بیمار ہے، اس رنڈی کو کیا ہو گیا، لیکن تجهے بهلا کیا پتہ ہوگا، چل ٹهیر جا میں خود پتہ کرتی ہوں گالیاں تو دےگی پر ہے تو حرامزاد دکهیاری، خاوند بهی حرامی چهوڑ گیا بیٹا بهی چوتیا نکلا اب اس کا اور کون ہے۔ رانو یہ کہتی ہوئی ایسے بے دھڑک ماسی کی دکان کی طرف بڑھی جیسے وہ اس کی اپنی دکان ہو۔۔۔

    کوئی آدھ گهنٹے بعد جب رانی ماسی ضمیراں کی دکان سے باہر نکلی تو مجهے اندازہ ہوا کہ مجهے اس کے جسم پر غور کر کے حیرت کیوں ہوتی تهی وہ چنگاڑ رہی تهی اس کی آواز گلی کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گونج رہی تهی، اوئے مرد تو ہوتے ہی خصی یا بویسیے ہیں، کیا تم عورتوں کو بهی تین دن سے ننگی پڑی ایک عورت پر کوئ کپڑا ڈالنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی؟ اوئے تم عورتیں ہو کر کیسے اسے اس طرح چهوڑ سکتی ہو، چند کهڑکیوں کے دروازے لوہے کی میلی، گرد سے اٹی جالیوں اور اندهے شیشوں کے پیچهے سے چرچرائے اور پهر مضبوطی سے بند ہو گئے، رانی زخمی درندے کی طرح گلی کے چوک میں بدکنے لگی، میں بتاتی ہوں تمهیں ان سب سفید پوشوں کے کرتوت، سب میرے ساتھ رنگ رلیاں مناتے ہیں، کہو تو سب کے اندر کے حلیئے اور سائز تک بتا دوں۔۔۔ پهر رانی ماسی کی طرف مڑی جو آج تیسرے دن دکان سے باہر نکل آئی تهی، ماسی ایسے مودب انداز میں جھکی ہوئی تھی جیسے کوئی بچہ پڑوس کی لڑائی میں اپنی کھڑپینچ ماں کو بلا کر باقی بچوں کو ڈانٹ پلواتے ہوئے بظاہر مسکین بن جاتا ہے۔۔۔۔ سات دن، سات دن کے لئے جا رہی تهی میں آج پتہ نہیں کتنے سالوں کے بعد اپنے شہر، رانو بازو بلند کر کے چلائی، لیکن اب صرف تین دن، یہ رانڑوں کا تجھ سے وعدہ ہے، تین دن بعد میں وآپس آوُں گی اور اگر تیرے ساتھ انصاف نہ ہوا تو میں دلاوں گی تجهے انصاف، میں ابهی جاتے ہوئے جھاڑیوں والے میدان سے ہی گزروں گی، جہاں نشہ پانی چلتا ہے اور وہ حرام کے جنے اگر وہاں ملے تو میں ان کو بتا کے جاوُں گی، نہیں تو انهیں بتا دینا کہ بس تین دن ہیں ان کے پاس، یا تو اپنا کام سنبهالیں یا پولیس کو اپنی ماں کا یار بنانے کے لیے تیار رہیں۔۔۔

    یہ جس میدان کا ذکر رانی کرتے کرتے گئی تهی وہ محلے کے باہر سو ڈیڑھ سو کنال کا حکومت کی ملکیت ایک قطعئہ اراضی تها جس میں ایک طرف کرکٹ کا گراونڈ تها، ایک طرف گندے پانی کا جوہڑ اور بیچ میں کچھ جهاڑ جهنگار جس کے بیچوں بیچ گهاس پر نشئی لوگ اندهیرا ہوتے ہی بیٹھ جاتے، دو تین گلیوں کا راستہ میدان میں سے ہو کر گزرتا لیکن ارد گرد گهر دور ہونے روشنی کا کوئی انتظام نہ ہونے اور گھاس پھونس ہونے کی وجہ سے جو کوئی بهی بیٹها ہو اور چاہے جو مرضی کر رہا ہو پاس سے گزرنے والے کو کچھ سجهائی نہ دیتا تها۔اگلی صبح محلے میں سرسراہٹ ہونے لگی، پہلے کچھ عورتیں ماسی کی دکان پر آئیں اور پهر ماسی کو محلے کی ایک بیٹهک میں لے جایا گیا، میں دکان کھلی چھوڑ کر بیٹھک کی کھڑکی کے ساتھ کان لگا کر دھوپ سینکنے کے بہانے کھڑا ہو گیا ۔

    ملک صاحب بولے، دیکھ ضمیراں جو ہو گیا اب وہ وآپس نہیں ہو سکتا، اگر تجهے کوئی رشتہ ملتا ہے تو شادی کے اخراجات میں اٹهانے کو تیار ہوں، لیکن خبردار اس سے یہ نہ سمجهنے لگنا کہ قصور میرے بیٹے کا ہے اس لئے میں ایسا کر رہا ہوں، حاجی صاحب بولے، نہیں جی ملک صاحب وہ تو بات ہی الگ ہے کون ہے جو کسی پر کچھ ثابت کر سکے یہ تو بلوے والا حساب ہے کسی کا بهی نام نہیں لیا جا سکتا اور سب کو تهوڑا تهوڑا قصوروار کہا جا سکتا ہے، لیکن اگر ضمیراں عزت سے معاملہ نمٹانہ چاہے تو لڑکے کا بهی مسئلہ نہیں میرے گوداموں پر ایک یتیم لڑکا کام کرتا ہے اپنے ہی ہاتهوں کا پلا ہے میرے حکم پر انشاء اللہ دوسری نہیں کہےگا۔

    جرگے کے بعد پورا دن سرگوشیاں ہوتی رہیں اور شام میں ماسی ضمیراں نے یہ کہ کر بات ختم کر دی کہ رانڑوں آئےگی تو بات کر کہ فیصلہ بتا دوں گی۔.

    سرگوشیاں آوازوں میں بدل گئیں، مرد کیا عورتیں بهی دوبارہ گهروں سے باہر نکل آئیں لیکن اب ہر سننے والے کان اور کہنے والی زبان کے درمیان موضوع ہی کچھ اور تها،

    عشا کے بعد میری دکان کے سامنے سے ایک آواز اندر آئی

    یہ ماسی ضمیراں کس قدر واہیات عورت ہے محلے کے بڑوں نے کتنا بڑا فیصلہ کیا، اس لاوارث کی جس کا باپ نشہ کرتا ہے عزت رکهنے کہ کوشش کی اور یہ ہے کہ ایک رنڈی ایک بدچلن عورت کو اپنا وکیل بنانے پر تلی ہوئی ہے۔

    دوسری آواز زیادہ فکر مند تھی،

    او جی وہ پیشہ ور عورت سال بھر نہ آئے تو کیا ماسی پورا سال اُس کا انتظار کرتی رہےگی اور بچہ جنوا کر ہی دم لےگی۔

    صبح میری دکان پر صابن لیتے ہوئے ایک عورت نے اپنے منہ پر میری طرف ہاتھ رکھ کر دوسری کو سرگوشی میں کہا ۔۔۔

    میں تو کہتی ہوں کہیں یہ سب رانڑوں کا ہی کیا دھرا نہ ہو ماسی کو نیچا دکھانے کے لئے۔

    دھوپ میں بیٹھے ہوئے میاں جی نے پاس بیٹھ کر اخبار سناتے استاد جی کو کہا۔۔

    بھائی صاحب میں تو کہتا ہوں قیامت کے آثار یہی ہیں اور بھلا کیا۔

    استاد جی اخبار سے نظریں ہٹا کر میاں جی کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے لمبی سانس چھوڑ کر بولے۔۔۔

    اب ایک رنڈی محلے کی عزت کا فیصلہ کرےگی۔

    دن کب رکتے ہیں۔ آج رانی کو گئے تیسرا دن تها، آج اس نے آنے کا کہا تها، ماسی بے چین تهی، عورتیں سرگوشیاں کر رہی تهیں اور مردوں کی اکثریت کا خیال تها کہ ایک بازاری عورت کی زبان کا کیا اعتبار اس وقت جذبات میں بڑا بول بول گئی اب تو اسے یاد بهی نہیں ہو گا کہ کیا بڑهک مار کے آئی تهی۔۔۔

    رات گزر گئی اور رانی واقعی نہ آئی۔

    دوسرے دن شام کو ماسی ضمیراں دکان پر آنے والے گاہکوں کو اپنی پوتی کی دعا خیر کی مٹهائی کهلا رہی تهی کہ تهوک کا سامان دینے والی گاڑی آئی، ڈرائیور نے ماسی کی دی مٹهائی کهاتے ہوئے دو تین بار کانوں کو ہاتھ لگا کر استغفار کی ، ماسی تنک کر بولی او بےعقلا خوشی کی مٹهائی ہے کانوں کو ہاتھ کیوں لگاتا ہے، او نہیں ماسی کچھ نہیں خود بیٹی والا ہوں لڑکی ذات کے نصیبوں سے ڈر گیا ادهر محلے سے باہر میدان میں پولیس کو ایک لاوارث عورت کی لاش ملی ہے کچھ ظالموں نے پہلے اس کی عزت خراب کی پهر پتہ نہیں کس ڈر سے دانتوں سے اس کی زبان چبا ڈالی اور پهر بهی ظلم سے من نہیں بهرا تو اسی کے دوپٹے سے اس کا گلا گهونٹ دیا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے