بسم اللہ کا گنبد
ایک رات میں سب کچھ بدل گیا تھا۔
اس کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے تکیے پر سر رکھے رکھے ہی کھڑکی کی طرف دیکھا۔ کھڑکی میں سے جتنا آسمان نظر آ رہا تھا وہ کچھ فاختئی فاختئی سا ہو رہا تھا۔ چڑیوں کی آوازیں نہیں آرہی تھیں۔ ایک کوے کی آواز آئی تھی۔ بس ایک آواز اور وہ بھی ایسے جیسے اس نے غلطی سے آواز نکالی ہو، جیسے کوے نے کھنکارکر گلا صاف کیا ہو۔ اس کے بعد پھر خاموشی چھا گئی تھی۔ یہ صبح صادق ہے یا صبح کاذب؟
اس نے ادھر ادھر دیکھا۔ اسے یاد آیا کہ وہ داداجانی کے کمرے میں ہے۔ داداجانی نے ہی اسے بتایا تھا کہ ایک صبح کاذب ہوتی ہے اور ایک صبح صادق۔ اسنے پھر آسمان کی طرف دیکھا اور آنکھیں بندکرلیں۔اب وہ دادا جانی کے ساتھ ہی رہےگا۔ اس کا کمرہ اب اس کا کمرہ نہیں ہے۔ اس نے پھر آنکھیں کھولیں۔ سامنے دیوار پر ایک تصویر ٹنگی ہوئی تھی۔ مگر ہلکے ہلکے اندھیرے میں وہ الٹی نظر آ رہی تھی۔ سر اوپر پیر نیچے۔ وہ گھور گھور کر اس تصویر کو دیکھنے لگا۔
ارے۔۔۔ابھی سے کیوں اٹھ گئے؟ سو جاؤ، سو جاؤ یہ داداجانی تھے جو غسل خانے سے نکل کر آ رہے تھے۔ ’’تم رات بھر نہیں سوئے ہو‘‘۔ انہوں نے کہا ’’کروٹیں بدلتے رہے ہو رات بھر‘‘۔
’’نہیں تو۔۔۔ میں تو۔۔۔‘‘ اس نے اٹھ کربیٹھنے کی کوشش کی مگر پھر لیٹ گیا۔
’’رات بھر کروٹیں بدلتے رہے ہو تم‘‘۔ داداجانی نے پھر کہا۔ جیسے اسے یاد دلا رہے ہوں۔
’’مگر آپ۔۔۔؟‘‘
’’جب تم ہماری عمر کو پہنچوگے تو معلوم ہوگا، کتنی بار اٹھنا پڑتا ہے رات کو‘‘۔ وہ ہنستے ہوئے اس کے پاس آ گئے تھے۔ ’’ہم جب بھی پیشاب کے لیے اٹھتے تو تمہیں کروٹیں بدلتے ہی دیکھتے‘‘۔
اب وہ اس کے بستر پر بیٹھ گئے تھے۔ وہ بھی اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ پھر انہوں نے ہاتھ بڑھایا اورا س کا گال تھپتھپایا۔ وہ جھینپ گیا اس نے پہلی بار دو دن پہلے شیو کیا تھا۔ اسے محسوس تو بہت پہلے سے ہورہا تھا کہ اس کے گالوں پر اور ناک کے نیچے جو بھورا بھورا رواں ہے وہ بڑا ہو گیا ہے۔ لیکن دو دن پہلے ہی وہ ڈسپوزیبل ریزر خرید کے لایا تھا اور پہلی بار وہ رواں صاف کیا تھا۔ بھائی کی شادی جو ہونے والی تھی۔ داداجانی نے اس کے گال پر ہاتھ رکھا تو اسے عجیب سا لگا۔ جیسے وہ چاہتا ہو کہ دادا جانی کو اس کے اس راز کا پتہ نہ چل جائے۔ داداجانی نے اب اس کا دوسرا گال بھی تھپتھپایا اورہنسے۔ ’’ہوںں۔۔۔ تو بھئی اب تم بڑے ہوگئے ہو۔ اب تو پردہ کرنے والے تم سے پردہ کریں گے ہی‘‘۔
’’مگر داداجانی میں تو بھائی ہوں‘‘۔ اس نے جھنجھلا کر انہیں دیکھا۔ ’’اور چھوٹا بھائی‘‘۔
’’بھائی نہیں، دیور‘‘۔ انہوں نے اسے زور سے اپنے بازوؤں میں دبوچا اور اس کے ماتھے پر پیار کیا۔ ’’اور وہ کہتے ہیں دیور بھی نا محرم ہوتا ہے۔ سمجھے؟‘‘ وہ ہنستے ہوئے اٹھے اور اپنے بستر پر چلے گئے۔ پہلے ان کا بستر کمرے کے بیچ میں ہوتا تھا۔ مگراب کمرے کے ایک کونے میں ان کا بستر تھا۔ دوسرے کونے میں اس کا بستر لگا دیا گیا تھا۔
’’تو آپ سے بھی پردہ ہوگا؟‘‘
داداجانی نے قہقہہ لگایا ’’ارے بھولے میاں، ہم داداہیں، باپ دادا سے پردہ نہیں ہوتا۔ وہ نامحرم نہیں ہوتے‘‘۔
اس نے دیوار پر لگی تصویر کو پھر دیکھنے کی کوشش کی۔ دھندلی دھندلی سی روشنی میں اسے یاد آیا کہ دادا جانی کی شادی کے وقت کی تصویر ہے۔ اس نے دیکھا تھا کہ وہ تصویر بلیک اینڈ وائٹ تھی۔ دادی جان نے ساڑھی باندھی ہوئی تھی اور دادا جانی تھری پیس سوٹ میں تھے۔ تصویر شہر کے مشہور پارک میں کھینچی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور تصویر بھی تھی۔ یہ گروپ فوٹو تھا۔ اس تصویر میں دادی جان اور دادا جانی کے ساتھ ان کے تین دوست بھی تھے۔ دادی جان اوردادا جانی آگے ایک بینچ پر بیٹھے تھے اور وہ تین دوست پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ سب مسکرا رہے تھے۔ جیسے فوٹو کھینچنے والے نے ان سے کہا ہو ’’کہو چیز۔۔۔‘‘ دھندلکے میں وہ تصویر بھی اسے الٹی نظر آ رہی تھی۔
’’کیا دیکھ رہے ہو؟‘‘ دادا جانی نے اسے ان تصویروں پر نظریں جمائے دیکھ لیا تھا۔
’’کچھ نہیں‘‘۔ وہ جھینپ سا گیا۔
گھر میں چار بیڈروم تھے۔ ایک نیچے تین اوپر۔ اوپر ایک کمرہ امی ابو کا تھا۔ ایک کمرہ دونوں بہنوں کا اور ایک کمرہ دونوں بھائیوں کا تھا۔ نیچے کا کمرہ دادا جانی کا تھا۔ وہ دادی جان کے ساتھ بھی اسی کمرے میں رہتے تھے اور ان کے انتقال کے بعد بھی یہ انہی کا کمرہ تھا۔ اب یہ اس کا کمرہ بھی تھا۔ اس کے بھائی کی شادی ہوئی تو دولہا دلہن کو بھائیوں کا کمرہ ہی دیا گیا اور وہ اس کمرے سے نکالا گیا۔ شادی سے ایک دن پہلے ہی اس کا پلنگ داداجانی کے کمرے میں ڈال دیا گیا تھا۔ وہ اپنی میز، اپنی کتابیں اور اپنا لیپ ٹاپ وغیرہ بھی دادا جانی کے کمرے میں لے آیا تھا۔ اس انتظام سے اسے کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی۔ دادا جانی اس کے دادا ہی نہیں تھے، اس کے دوست بھی تھے۔ وہ اسے اپنے برابر کا ہی سمجھتے تھے اور وہ بھی ان کے ساتھ خوب بےتکلفی سے باتیں کرتا تھا۔ اپنے دل کی بات جو وہ اپنی امی، ابو یابہن بھائیوں کو نہیں بتا سکتا تھا وہ دادا جانی کو بتا دیا کرتا تھا۔ اسے جھٹکا اس وقت لگا جب شام کو دلہن گھر آئی تھی اوروہ دلہن کو سلام کرنے اس کی طرف بڑھا تھا۔
’’تم سے پردہ ہے دلہن کا‘‘۔ اس کی ماں نے ہنس کر کہا تھا اور پیار سے اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے پیچھے لے گئی تھیں۔ ’’دور سے ہی سلام کر لو بھابھی کو‘‘۔
اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کی بھابھی اس سے پردہ کیسے کر سکتی ہیں۔ وہ تو دولہا کا بھائی ہے اور چار بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا بھائی۔ دن بھر وہ سب کے ساتھ مل کر دولہا دلہن کا کمرہ سجاتا رہا تھا۔ بلکہ سب سے زیادہ کام اسی نے کیا تھا۔ اس نے تو اس دن اسکول میں کھیلے جانے والے ڈرامے کی ریہرسل بھی چھوڑ دی تھی۔ اس کے اسکول میں ڈرامہ The Crucible کھیلا جا رہا تھا۔ اس ڈرامے میں وہ تو خود کوئی کردار نہیں کر رہا تھا، مگر اس کی ٹیچر نے سارے کاموں میں اسے اپنے ساتھ لگایا ہوا تھا۔ ’’تم نے تو دولہا دلہن کی مسہری ایسی سجائی ہے کہ وہ مسہری خود ہی دلہن بن گئی ہے‘‘۔ یہ اس کی منجھلی بہن نے کہا تھا، جو اس کے ساتھ کام کرتے کرتے تھک گئی تھی۔ وہ خوش تھا کہ بھائی جان اپنا کمرہ دیکھ کر خوش ہوں گے اور وہ خوش ہوئے بھی تھے۔ انہوں نے کہا تھا تمہاری شادی ہوگی تو تمہارا کمرہ ہم سجائیں گے۔ اس سے بھی اچھا۔ وہ سب سے بڑے تھے۔
’’اب تم اوپر آیا کروگے تو آواز دے کر آیا کروگے‘‘۔ یہ اس کی بڑی بہن تھیں، جنہوں نے ہنستے ہوئے اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگائی تھی۔
’’اچھا۔۔۔‘‘ اس نے چڑ کرخوب زور سے کہا تھا۔
’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ اسکے باپ نے اپنے کمرے سے نکلتے ہوئے کہا تھا۔
’’کچھ نہیں، ہم اسے سمجھا رہے ہیں‘‘۔ اس کی بہن نے اسے سیڑھیوں کی طرف لے جاتے ہوئے جواب دیا تھا۔
’’ہاں ہاں۔۔۔ سمجھاؤ سمجھاؤ۔ سب کو سمجھاؤ‘‘۔ یہ کہہ کر وہ زور سے ہنسے تھے اور امی نے گھور کر انہیں دیکھا تھا۔
بڑی بہن اسے لے کر نیچے آئیں تھیں اور دادا جانی کے کمرے میں آکر اس کے ساتھ ہی بیٹھ گئیں تھیں۔ ’’اب تمہارا سامان یہاں آ گیا ہے۔ میز، کتابیں، لیپ ٹاپ اور ہاں۔۔۔ شیو کا سامان بھی تو ہے‘‘۔ یہ کہہ کر وہ ہنسی تھیں۔
’’ہاں ہاں۔۔۔ آ گیا ہے سب سامان۔ آپ جتا کیوں رہی ہیں؟‘‘ اس نے جھنجھلاکر کہا تھا۔
’’جتا نہیں رہی ہوں بتا رہی ہوں‘‘۔
’’اور میرا گٹار کہاں ہے؟‘‘ اس کی جھنجھلاہٹ اور بڑھ گئی تھی۔
’’ارے ہاں۔۔ تمہارا گٹار تو میں بھول ہی گئی۔ وہ بھی آ جائےگا۔ میرے کمرے میں ہے‘‘۔
پھر امی بھی آ گئیں تھیں وہاں۔ وہ بھی اس کے پاس بیٹھ گئیں تھیں۔ ’’یہ تمہارا منہ کیوں پھولا ہوا ہے؟‘‘
’’میرا منہ تو نہیں پھولا‘‘ اس نے چڑکر کہا تھا اور امی نے اس کا سر اپنے کاندھے سے لگا لیا تھا۔ ’’منہ نہیں پھلاتے بیٹے‘‘۔
اس کا جی چاہا تھا کہ وہ چیخ کر کہے۔ میرا منہ نہیں پھولا ہوا ہے۔ مگر وہ خاموش ہو گیا تھا کہ اس کاچہرہ سچ مچ جھنجھلاہٹ سے تمتما رہا تھا۔
’’اوہو۔۔۔‘‘ اچانک امی کو یاد آیا تھا۔ ’’اوپر سے ٹی وی بھی تو نیچے لانا ہے‘‘۔
’’وہ ٹی وی نہیں دیکھتے‘‘۔
’’بھائی جان تو ٹی وی نہیں دیکھتے، مگر کیا بھابھی بھی نہیں دیکھتیں؟؟‘‘ اس نے معصومیت سے سوال کیا تھا۔
’’کسی کو بلا کر ٹی وی نیچے لاؤنج میں لگوا دینا‘‘۔ امی نے اس کے سوال کا جواب نہیں دیا تھا۔ یہ بات انہوں نے بہن سے کہی تھی اور کمرے سے باہر چلی گئی تھیں۔
بھائی امریکہ پڑھنے گئے تھے تو بغیر داڑھی مونچھ کے تھے۔ واپس آئے تو داڑھی بھی تھی اور جینز کے پائنچے بھی دوہرے کر کے ٹخنوں سے اوپر کر لیے گئے تھے۔ سارا خاندان ان کی ذہانت کا قائل تھا۔ وہ فل برائٹ اسکالر شپ پرامریکی یونیورسٹی گئے تھے۔ ان کے لیے دلہن کی تلاش اسی وقت سے شروع کر دی گئی تھی جب وہ امریکہ میں ہی تھے۔ مگر ان کی شرط ایسی تھی جسے پورا کرنا گھر والوں کو مشکل نظر آتا تھا۔ شرط یہ تھی کہ دلہن ان کی طرح ہی مذہبی شعائر کی پابند ہو۔ اپنے عزیزوں اور جاننے والوں میں ایسی لڑکی تلاش کرنا بہت ہی مشکل تھا۔ مگر بہت تلاش کے بعد آخر لڑکی مل ہی گئی تھی۔ اب یہ ان کی خوش قسمتی ہی تھی کہ لڑکی پاکستان کی سب سے بڑی پرائیویٹ یونیورسٹی کی پڑھی ہوئی تھی۔ وہ آنرز کے آخری سال میں مذہب کی طرف راغب ہوئی تھی۔ اس نے آخری سمسٹرز میں سوشیالوجی اور فلاسفی چھوڑ کر اسلامی علوم پڑھنا شروع کر دئیے تھے۔ یونیورسٹی سے فراغت کے بعد اس نے درس نظامی کا وہ شارٹ کورس بھی کر لیا تھا جو لڑکیوں کے لیے وضع کیا گیا تھا۔ اس نے پردہ کرنا بھی یونیورسٹی کے آخری سال میں ہی شروع کیا تھا۔ جب اس نے پردہ کرنا شروع کیا تو اس کے ماں باپ اور اس کے چند استاد بھی حیران رہ گئے تھے۔ وہ سب اس سے اس تبدیلی کی وجہ معلوم کرنا چاہتے تھے۔ ان سب کے لیے اس کا ایک ہی جواب تھا۔ ’’میں نے پڑھ لکھ کر اور سوچ سمجھ کر یہ راستہ اختیار کیا ہے‘‘۔ اس کے بعد سب خاموش ہو گئے تھے۔
شادی کی تقریب اتنی سادہ تھی کہ اس سے سادہ تقریب کا سوچا ہی نہیں جا سکتا تھا۔ مسجد میں نکاح ہوا۔ چند مہمان جوباہر سے آئے ہوئے تھے انہیں کھانا کھلا دیا گیا اور بس۔ اسے بتایا گیا تھا ولیمہ چونکہ سنت ہے اس لیے ولیمہ تو ہوگا مگر اس میں بھی زیادہ لوگ نہیں بلائے جائیں گے۔ اس کے ابو اورامی نے پہلے ہی اپنے تمام رشتے داروں کو بتا دیا تھا کہ ہر خاندان کا صرف ایک فرد مدعو کیا جائےگا۔ ولیمہ ہوگا مگر اسی سادگی کے ساتھ جس سادگی کے ساتھ نکاح ہوا تھا۔
’’تمہارے اسکول میں ڈرامہ اسٹیج کیا جا رہا ہے؟‘‘ داداجانی اپنے بستر پر جاکر لیٹ گئے تھے۔
’’جی‘‘۔
’’کون سا ڈرامہ ہے؟‘‘
The Crucible
’’اچھا۔۔۔؟ آرتھر ملر کا ڈرامہ؟‘‘
وہ خاموش رہا۔
’’کس کی پسند ہے یہ ڈرامہ؟‘‘
’’ہماری انگلش ٹیچر کروارہی ہیں‘‘۔
’’ہوں۔۔۔ تووہ زمانے کو سمجھتی ہیں۔ آج کل یہی تو ہو رہا ہے ہمارے ہاں بھی۔ کس کو بھی کوئی نام دواور مار دو‘‘۔
’’اس کے بعد دادا جانی خاموش ہو گئے۔ جیسے کچھ سوچ رہے ہوں۔ پھر ایسے بولے جیسے اب بھی اسی سوچ میں ڈوبے ہوئے ہوں‘‘۔ ’’تمہیں یہ سب عجیب سا لگ رہا ہوگا؟‘‘ وہ اس کی طرف کروٹ لیے لیٹے تھے، دائیں بازو پرسر رکھے۔
اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ جواب بھی کیا دیتا۔ اس کے لیے تو یہ سب نئی باتیں تھیں۔
’’ہمارے لیے یہ کوئی نئی بات نہیں ہے‘‘۔ دادا جانی ہنس رہے تھے۔ ’’ہمارے بچپن میں ایسا ہی ہوتا تھا‘‘۔
’’کیسا ہوتا تھا؟‘‘ وہ سوال کیے بغیر نہ رہ سکا۔
’’یہی سب کچھ۔ ہماری دادی اماں ہمارے سگے پھپھا سے پردہ کرتی تھیں۔ پھپھا ہمارے گھر آتے تھے تو ڈیوڑھی میں آکر زور سے کھنکارتے تھے۔ سب کو معلوم ہو جاتا تھا کہ کون آیا ہے۔ پھپھا میاں ڈیوڑھی میں مونڈھے پر بیٹھ جاتے اوروہیں سے باتیں کرتے۔ یہ اس وقت ہوتا تھا جب ہمارے ابا میاں گاؤں گئے ہوتے تھے۔ اگر ابا میاں گھر پر ہوتے تو دوسرے مہمانوں کی طرح پھپھا میاں بھی مردانہ گھر میں ہی چلے جاتے‘‘۔
’’انہیں برانہیں لگتا تھا؟‘‘
’’برا کیوں لگتا۔ اس وقت کا قاعدہ ہی یہ تھا‘‘۔
’’اور کس کس سے پردہ کیا جاتا تھا؟‘‘
’’چچازاد، پھوپھی زاد اورماموں زاد اور بہن کے شوہروں سے بھی پردہ کیا جاتا تھا‘‘۔ دادا جانی اب چت لیٹ گئے تھے۔ انکی نظریں چھت پر ٹکی ہوئی تھیں۔ ’’محرم اور نا محرم کا بہت خیال رکھا جاتا تھا اس وقت‘‘۔ انہوں نے جیسے اپنے آپ سے کہا۔
’’تھوڑی دیر خاموشی چھائی رہی۔ پھر خودبخود ہی ہنسنے لگے۔’’ اس پردے میں بڑے بڑے تماشے بھی ہوتے تھے۔ گرمیوں کی چھٹیوں میں ہم نانا جان کے گاؤں جاتے تھے۔ ہمارا خاندان اکیلا ہی نہیں دونوں پھپھیوں کا خاندان بھی ہمارے ساتھ جاتا تھا۔ بہن بھائی، بھتیجے بھتیجیاں، بھانجے بھانجیاں سب کے سب۔ گاؤں دور تھا بیل گاڑیوں میں بھرکر سب جاتے تھے۔ ہم بچوں کے لیے وہ پکنک ہوتی تھی۔ راستے میں ایک ندی پڑتی تھی۔ شاید وہ گنگا کی کوئی شاخ تھی۔ اس کے کنارے دور تک پھیلی سفید چمکتی ہوئی ریت اور اس ریت میں کھڑے جھاؤ کے پیڑ‘‘۔ اب وہ ایسے بول رہے تھے جیسے اپنے آپ سے باتیں کر رہے ہوں۔ ’’ہم صبح منہ اندھیرے چلتے اور دوپہر تک اس ندی کے کنارے پہنچ جاتے۔ وہاں دوپہر کا کھانا کھایا جاتا۔ پراٹھے، شامی کباب، آملیٹ اور پتہ نہیں کیا کیا۔ وہاں تمام عورتیں اپنا پردہ وردہ سب بھول جاتی تھیں۔ خوب چھلانگیں لگائی جاتی تھیں ندی کے پانی میں۔ ہم بچے بھی خوب ڈبکیاں لگاتے تھے۔۔۔ ‘‘وہ خاموش ہوئے، پھر ہنسے۔ جیسے وہ منظر انکی آنکھوں میں ایک بار پھر زندہ ہو گیا ہو۔’’ ایک بار یہ ہوا کہ وہ سب عورتیں اسی طرح چھلانگیں لگا رہی تھیں تو کسی نے کہا ’’ارے دیکھو، کچھ لوگ ادھر آ رہے ہیں‘‘۔ ہماری اماں نے آنے والے لوگوں کو دیکھا اور سرجھٹک کر بولیں۔ ’’اے ہے، یہ تو گاؤں والے ہیں۔ ان سے کیا پردہ‘‘۔
’’تو پردہ شہر والوں سے کیا جاتا تھا؟‘‘ وہ اس لمبی کہانی سے اکتا گیا تھا۔
’’اب تو جو بھی سمجھ لو‘‘۔
’’تو کیا دولہا کے چھوٹے بھائی سے بھی پردہ ہوتا تھا؟‘‘
دادا جانی نے کچھ دیر سوچا، کھنکارکے گلا صاف کیا، پھر بولے ’’نہیں، ہمارے گھر میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا۔ مگر ۔۔۔‘‘
’’مگر آپ ہی تو کہتے ہیں، بھائی بھی نامحرم ہوتا ہے؟‘‘ وہ دونوں گھٹنے اپنے بازوؤں میں جکڑے بستر پر بیٹھا تھا۔
’’ہاں۔۔۔ ہے تو۔۔۔‘‘ وہ پھر سوچ میں پڑگئے تھے۔
’’پھر۔۔۔؟‘‘
’’بس، ہم واپس جا رہے ہیں۔ بند ہو رہے ہیں ایک خول میں۔۔۔‘‘
وہ خاموش رہا۔ داداجانی بھی جیسے کچھ سوچنے لگے۔ ’’بسم اللہ کاگنبد ہے یہ ‘‘۔دادا جانی نے جیسے اپنے آپ سے کہا۔
’’جی۔۔۔؟‘‘ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔
’’اچھا سو جاؤ۔ تم رات بھر جاگتے رہے ہو‘‘۔
اور کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ باہر بھی خاموشی تھی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.