بھیڑ بہت ہے۔
اور چاروں طرف سے میں اس بھیڑ میں گھرا ہوا بیٹھا ہوں۔ اس طرح بیٹھا ہوں کہ پہلو بدلنے میں تکلیف محسوس کر رہا ہوں۔ میں پہلو بدلنے میں تکلیف محسوس نہیں کر رہا ہوں، بلکہ پہلو بدلنے کی وجہ سے میرے سر پر رکھا ہوا بوجھ غیر متوازن ہو جاتا ہے، جو شدت اختیار کر لیتا ہے، اس کی وجہ سے میں بےچینی محسوس کرتا ہوں، دراصل یہی میری تکلیف ہے۔۔۔
لیکن اس بوجھ کومیں اتار کر کہیں پر رکھ کیوں نہیں دیتا؟ میں نہیں جانتا ہوں۔ میں اس بوجھ تلے دبا جا رہا ہوں ،میرا سر پھٹا جا رہا ہے، مگر اس کو اتار کر پھینکنے کا بھی روادار نہیں۔۔۔
آس پاس بیٹھے یا کھڑے دوسرے مسافر اپنے اپنے سر کا بوجھ اتار کر مناسب جگہ پر رکھ چکے ہیں اور اب اپنے دلوں کے اندھیرے کو نکال کر دوسروں کی اور اچھال رہے ہیں۔۔۔ اور میں؟
میں ایسا نہیں کر سکتا۔۔۔ دراصل میں ڈرتا ہوں کہ اپنے سر کا بوجھ اتار کر اگر میں نے کہیں رکھ دیا تو پھر دوبارہ سرپر نہ رکھا جائےگا اور اگر دوبارہ نہ رکھ سکا تو؟ اس سے آگے سوچ کر ہی کانپ جاتا ہوں۔ اندرسے باہر تک میرے پورے وجود کو ایک سرد اور زہریلی اور خوفناک لہرجھنجھوڑ دیتی ہے۔
یہ سرد زہریلی اور خوفناک لہرازل سے میرا پیچھا کر رہی ہے اور جانے کب تک یہ میری ریڑھ کی ہڈی میں سرسراتی رہےگی! آگے کیا ہوگا، یہ میں نہیں جانتا، مگر میرے پیچھے کیا ہے اور میں نے اپنے پیچھے کیا چھوڑا ہے، یہ احساس بھی ازل ہی سے میرے ساتھ ہے۔ یہ ازل کون سادن تھا؟ شاید یہ اُسی دن کا نام ہے جب میری مرضی کے خلاف یا میری مرضی جانے بغیر کسی نے زندگی کہ تہہ داراور منوں مٹی سے اٹی ہوئی چادر مجھے اوڑھا دی تھی۔ جس وقت مجھے اقرار کا ہوش تھا نہ انکار کی جرأت۔ میں تواس زندگی کی چادر کو سنبھالنے میں محو تھا۔۔۔ میرے آگے پانی تھا اور میرے پیچھے پانی اور پھر ہواؤں کی سرگوشیاں۔۔۔! اور ہمارے کندھوں پر کوئی سوار تھا، جس کی آمد کے انتظار میں۔۔۔ آسمان پرخوشیاں منائی جا رہی تھیں اور یہاں سے اس کی رخصت کو دیکھ کر آسمان رو رہا تھا۔۔۔ اس دن وقت رخصت گھر کی دہلیز ہم سبھوں کے قدم سے لپٹ لپٹ کر کس قدر روئی تھی اور صحن کی خالی خالی اُداس آنکھوں میں کتنی ویرانی تھی اور زندگی سے بیزاری۔۔۔!
زندگی کی مٹی سے اٹی چادر اوڑھے میں سوچ رہا ہوں ،اس دن جب آسمان رویا تھا اور سورج نے اپنی آنکھیں موندلی تھیں، میں نے ایسا کیا کھویا ہے، جس نے مجھے اتنا ویران اور اندر سے اس قدر کھنڈر بنا دیا ہے؟ بس میری زندگی کی چادر کی تھوڑی سی مٹی ہی تو گر گئی تھی۔ اس مٹی میں کتنی زندگی تھی؟ اور کتنی زندگیوں کو متحرک کرنے کی قوت! اس کا میں اندازہ نہیں کر سکتا، اتنا یاد ہے، اس قوت کے آگے سورج نے اپنا سر خم کر لیا تھا۔
سورج کا چہرہ۔۔۔ اس دن سورج اپنا چہرہ سارے دن چھپائے رہا۔۔۔ لیکن آج سورج کا چہرہ کتنا روشن ہے اور تابناک! جی چاہتا ہے، اس کی ساری روشنی اپنے اندرسمیٹ لوں، اپنے دل کے اندھیروں میں بھر لوں، سورج کی ساری روشنی!
روشنی۔۔۔!
اس دن جسے ہم نے دفن کر دیا تھا، وہ روشنی ہی تو تھی۔ اس دن سے میں روشنی کے لیے بھٹک رہا ہوں۔ اس دن سے اندھیروں میں ٹھوکریں کھا رہا ہوں۔۔ لیکن اندھیروں میں ڈوبتا ہی جا رہا ہوں۔ ڈوبتے ڈوبتے ایک دن میں بھی اندھیرے میں کھو جاؤں گا۔ جب میں کھو جاؤں گا تو میری نظروں سے یہ سارے لوگ، یہ سارا منظریہ کھیت، یہ مزدور، یہ ہریالی سب کھو جائےگی۔۔۔ آہ ! یہ سب میری نظروں کے لیے چند ساعت کے مہمان ہیں۔
ایسا محسوس کرکے میں اپنے دل میں ایک سرد زہریلی اور خوفناک سی لہر محسوس کر رہا ہوں۔ میں اپنے چاروں طرف دیکھتا ہوں۔ میرے چاروں طرف چہروں کا سمندر امنڈ رہا ہے، یہ سارے چہرے مجھے گھور رہے ہیں اور میں سوچ رہا ہوں۔ میں کہاں ہوں؟ میں کون ہوں؟ میں کیوں ہوں؟ اور ان چہروں سے میرا کیا سمبندھ ہے؟
میں اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے چہروں کو اپنی آنکھوں سے ٹٹولتا ہوں، پڑھتا ہوں۔ لگتا ہے یہ سب میری طرف دیکھ رہے ہیں، یہ سارے لوگ جو ٹرین پر ابھی ابھی آکر سوار ہوئے ہیں، میرے سر پر رکھے ہوئے بوجھ کوتک رہے ہیں اور وہ تمام لوگ جو ٹرین سے اتر کر جا چکے ہیں یا اتر نے کی تیاری کر رہے ہیں، سبھی میرے سرپر رکھے بوجھ کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔ ان کے دلوں میں میرے لیے ہمدردی ہے یا مجھے بیوقوف سمجھ رہے ہیں کہ میں نے ٹرین میں آکر بھی اپنے سر کا بوجھ اتار کر نہیں رکھا۔۔۔ میں ان باتوں کا تجزیہ کرنا چاہتا ہوں۔
سامنے کھڑا ہوا ایک مسافر میری طرف بڑی گہری نظر سے تک رہا ہے۔
’’ذرا آپ دب کر بیٹھیں تو میں بھی بیٹھ سکتا ہوں۔‘‘ بالآخر اس نے کہا:
میں اپنی سیٹ پر کچھ اور سمٹ جاتا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ اس نے میرے سر پر رکھے ہوئے بوجھ کو دیکھا ہی نہیں یا دیکھ کر ہی اس نے بیٹھنے کی جگہ بنانے کو کہا ہو، کہ مجھ میں بوجھ اٹھا نے کی بےپناہ شکتی کو اس نے محسوس کر لیا ہو۔
’’بھائی صاحب! اگر تکلیف نہ ہو تو اس بچے کو گود میں بیٹھا لیجئے ۔بہت تنگ کر رہا ہے، بیٹھنے کے لئے۔‘‘
’’آؤ۔۔۔ آؤ بابو۔۔۔‘‘ میں اس بچے کو اپنی گود میں بیٹھاتا ہوں اور اس آدمی سے جو شاید اس کا باپ ہے، کہتا ہوں۔۔۔ ’’اس میں تکلیف کی کیا بات ہے۔‘‘
میں سوچ رہا ہوں اس نے ضرور میرے بارے میں غلط اندازہ لگایا ہے، اس نے یقیناً یہی سوچا ہے کہ میں اس کے بچے کے وجود کا بوجھ اٹھا سکتا ہوں۔ میں بوجھ اٹھا نے کا عادی ہوں؟
لیکن اس نے اندازہ لگانے میں شاید غلطی نہیں کی ہے، یہ بوجھ اور اس طرح کا دوسرا بوجھ تومیں ازل ہی سے اٹھاتا رہا ہوں۔ ازل؟ ہاں ازل سے ہی۔۔۔ لیکن وہ بوجھ؟ ہاں اس دن مجھے بہت تکلیف ہوئی تھی اور میرے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ میں نے اس روشنی کو اٹھانے سے پہلے اُس کا چہرہ دیکھا تھا، بالکل درمیانی تاریخ کے چاند کی طرح روشن اور شیتل تھا وہ چہرہ! میں نے اس چہرے کے تقدس کے آگے سر کو خم کیا اور اپنے بھائی کی مدد سے اُسے اٹھاکر سائبان میں لاکر چوکی پر رکھ دیا۔۔۔ معاً ایسا لگا جیسے پورے گھر میں نور برس رہا ہو، کائنات مسکرا رہی ہو، اس نور کی چھاؤں میں۔
پھر کاندھے کاندھے لوگوں نے لے جاکر اس روشنی کو دفن کر دیا۔ اس روشنی کو جس سے ہمارے دلوں کا گوشہ گوشہ روشن تھا اور سر کا بوجھ اس نور کی حدت سے پگھل جایا کرتا تھا۔
پھرہم نے۔۔۔
ایک۔۔۔
دو۔۔۔
تین بار اپنے ہاتھوں میں مٹی لے کر اس روشنی پر ڈال دی۔۔۔
وہ تمام مٹی جو لوگوں نے اور میں نے اس روشنی پر ڈالی تھی، وہ۔۔۔ وہ دراصل میرے سر پر آ گری۔ اس دن میں نے بہت بےچینی محسوس کی تھی۔ ایک عجیب سی خوفناک، سرداور زہریلی لہر اپنے جسم کے اندر اور باہر سرسراتے ہوئے محسوس کی تھی اور پھر، وہ پراسرار لہر میری زندگی کی گردآلود چادر سے لپٹ گئی اور وہ مٹی جو میرے سر پر آ پڑی تھی۔۔۔؟
وہ مٹی۔۔۔!
وہ مٹی بہت مختلف تھی، جیسی یہ سامنے ناچتے اور پیچھے بھاگتے ہوئے کھیتوں کی مٹی ہے، اس سے بہت مختلف تھی۔۔۔ اس مٹی پرکام کرتے ہوئے یہ مزدور کسان کتنے بھلے لگ رہے ہیں، جو اپنے اپنے پیٹ کا، ہم سبھی کے پیٹ کا بھوک دفن کر رہے ہیں۔۔۔۔
ہاں مٹی ہوتی ہے ایسی شے جس میں ہم اپنی بھوک دفن کر سکیں، اپنا وجود دفن کر سکیں، لیکن اس دن تو ہم نے روشنی کو دفن کر دیا تھا؟
اس کھیت سے پرے جہاں کسان بھوک دفن کر رہے ہیں، شفق میں اڑتے ہوئے پرندوں کو دیکھ کر لگتا ہے، میں بھی ان کے ساتھ اُڑ جاؤں، بالکل اوپر جا پہنچوں، ساتویں آسمان پر۔۔۔ اور جاکر اس روشنی سے ملوں، جسے ہم نے دفن کر دیا تھا، منوں مٹی کے نیچے۔
میں ان پرندوں کے ساتھ اڑنا چاہتاہوں، لیکن اڑ نہیں سکتا، میرے پر نہیں ہیں۔ میرا سر بہت بھاری ہو رہا ہے۔ درد سے پھٹا جا رہا ہے۔ اف میرے مولا میں کیا کروں؟
’’آپ کو کوئی تکلیف ہے کیا؟‘‘ میرے سامنے بیٹھا ہوا مسافر پوچھتا ہے۔
’’نہیں تو۔۔۔ کیوں؟‘‘
’’آپ دونوں ہاتھوں سے بار بار اپنے سر کو مسل رہے ہیں۔‘‘
’’ہاں میرا سر بہت بھاری ہو رہا ہے، یہ میرے پورے وجود کو کچلے دے رہا ہے۔‘‘
’’کچھ کیجئے، اس کے لیے۔‘‘ اس نے ہمدردی کا اظہار کیا۔
’’کیا کروں۔۔۔؟ ‘‘میں سوچتا ہوں۔
کیا اس بوجھ کو اتار کر چلتی ٹرین سے باہر پھینک دوں؟ یا کسی اسٹیشن پر میں اتر جاؤں اور اپنے سر کا بوجھ ٹرین پر ہی چھوڑ جاؤں۔
’’ہاں میں ان دو صورتوں میں سے کسی ایک پر ضرور عمل کروں گا۔‘‘
پھر میں نے ایک لمحہ کے لیے اپنے سر کے بوجھ کو اپنے وجود سے الگ کر کے محسوس کیا۔۔۔۔ مجھے ایسا لگا جیسے میں بےحد کھوکھلا ہو گیا ہوں۔ اندر سے باہر تک بےحد کھوکھلا اور کھنڈر کی طرح ویران۔۔۔ اچانک میرے ذہن میں خیال آیا، اس دن میری زندگی کی چادر سے جتنی مٹی جھڑ کر گر گئی تھی۔
ایک۔۔۔ دو۔۔۔ تین بار ہم نے اس مٹی کو، اس روشنی پر ڈال دیا تھا جو میرے سر پر آ گری تھی۔۔۔۔ تو۔۔۔ تو یہ بوجھ دراصل میری زندگی کی چادر سے جھڑی ہوئی مٹی کی کمی کو پورا کرتا ہے۔
اچانک میرے پورے وجود میں، اس روشنی کی تابناکی جھلک پڑی، جسے ہم نے دفن کر دیا تھا۔ اس روشنی کو دیکھ کر اور اپنے وجود کی تکمیل کا احساس کرکے میں نے خود کو بےحد مطمئن پایا۔۔۔!
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.