بوسیدہ آدمی کی محبت
وہ اتنی آہستگی اور خاموشی سے کمرے میں داخل ہوا کہ مجھے خبر ہی نہ ہوئی۔ میں ٹالسٹائی کے ناول ’’آننا کا رینینا‘‘ میں کھویا ہوا تھا۔ کئی برس قبل کے روسی معاشرے میں اپنے آپ کو سانس لیتا محسوس کر رہا تھا۔ تمباکو کی ناگوار بو میرے نتھنوں میں گھس کر میری سانسوں کی آمدورفت میں رخنے ڈالنے لگی تو میں روسی معاشرے سے پلٹ کر اپنے کمرے میں آموجود ہوا۔ وہ میرے بستر پر آلتی پالتی مارے سگریٹ پی رہا تھا۔ ایش ٹرے کی بجائے بائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر راکھ جھاڑنا اس کا معمول تھا۔ وہ ایک بے ترتیب شخص تھا۔ اس کے اندر ہر لمحہ جوڑ توڑ اور توڑپھوڑ جاری رہتی اور اس سارے عمل میں وہ مجھے بھی اپنے ساتھ شریک کر لیتا تھا۔ اس کے گھریلو مسائل بڑے گمبھیر تھے وہ نظرانداز کیے جانے کے عذاب سے گزر رہا تھا۔ وہ بلا کا ذہین تھا۔ اسے کثیر المطالعاتی شخصیت بھی کہا جا سکتا ہے لیکن اپنے آپ سے ناراض ناراض رہنے کے سبب اس کی شخصیت عجب ڈھب کی بن گئی تھی۔ اسے دیکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا کہ اس کے اندر کہیں ایک پھانس ہے جویوں اٹکی ہوئی ہے کہ اسے بے کل کیے دیتی ہے۔ میری اپنی مصروفیات تھیں جنہیں ہر بار تیاگ دینا میرے بس میں نہیں تھا۔ آج پھر وہ اپنے دکھوں سے اُلجھ رہا تھا اور میں ٹالسٹائی کے سحر سے باہر نکلنا نہیں چاہتا تھا۔ اس پر ایک نظرڈال کر میں پھر روسی معاشرے کے ایک کردار سے گفتگو میں کھو گیا وہ اس گفتگو میں مخل ہوا۔
’’میری بھی ایک ’’آننا کارینینا ‘‘تھی۔۔۔!‘‘ اس نے راکھ ہتھیلی کے ایش ٹرے میں جھاڑی۔ میں نے ناول بند کردیا مجھے معلوم تھا کہ وہ مسلسل دراندازی کرے گا۔
اس کی باتیں سننانا گزیر تھا۔
’’کہو۔۔۔‘‘ میں ہمہ تن گوش ہو گیا۔
’’میری کہانی لکھوگے۔۔۔؟‘‘ اس کے چہرے پر راکھ پھیلی تھی۔
’’محبت اور صنف نازک کے موضوع پر۔‘‘ اس نے مجھے چونکادیا تھا کیوں کہ یہ اس کی فیلڈہی نہیں تھی۔ ’’تمہاری کہانی میں ہے کیا جسے قلم بند کیا جائے۔‘‘
’’میری بات سنو۔۔۔ تم دنیا کے ہر موضوع پر قلم آزمائی کرتے ہو۔ کرنٹ افیئرز میں سے افسانہ تراش لیتے ہو۔ ملکی اور بین الاقوامی حالات تمہارے قلم کی زد پر رہتے ہیں۔ عراق سے افغانستان تک امریکی جہاز B-52 سے گرایا جانے والا ڈیزی کٹربم یوں لگتا ہے تمہارے سامنے تیار ہوا ہے۔ حکمرانوں اور نظام حکومت پر چوٹ کرنے سے تم باز نہیں آتے لیکن میری محبت کی کہانی رقم کرنا تمہارے لیے ایک مشکل امر ہے۔ یہ ایسا جانگسل مرحلہ ہے کیا جس میں سے تم نہیں گزر سکتے!‘‘
اس نے دوسرا سگریٹ سلگاتے ہوئے ایک ہی سانس میں یہ ساری باتیں کہہ ڈالیں۔ تم اور محبت۔۔۔؟
’’کیا مجھے محبت نہیں ہو سکتی۔ شجر ممنوعہ ہے کیا میرے لیے۔۔۔؟‘‘
’’میرا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے۔‘‘
’’انداز تو تمہارا ایسے ہے جیسے مجھ سے کوئی جرم سر زد ہو گیا ہے۔‘‘
’’دوست اس موضوع پر اتنا لکھا جا چکا ہے کہ اب ایسی کہانیاں فرسودہ لگتی ہیں۔۔۔!‘‘
’’تم انسانیت کے لازوال جذبے کو فرسودہ کہہ رہے ہو۔۔۔؟‘‘
میں نے اس کی بات اچک لی۔
’’مجھے محبت جیسے لافانی اور عالمگیر جذبے کی سچائی سے انکار نہیں لیکن۔۔۔‘‘
’’لیکن کیا۔‘‘ وہ اموشنل ہو رہا تھا۔ ’’کیا آدم کے لیے تنہا رہنا ممکن نہیں تھا۔ جنت میں کس چیز کی کمی تھی۔ حوّا کی خواہش کیوں پیدا ہوئی؟ بولو۔۔۔ کیوں، خلیفۃ الارض کی بقا عورت اور مرد کے وجود کی مرہونِ منت ہے۔‘‘
’’معلوم ہے مجھے۔۔۔!‘‘ میں نے دفاع کرتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر میری کہانی لکھو۔۔۔‘‘
’’بولو۔۔۔‘‘
’’وہ لیلیٰ ہے۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ ہیرؔ۔۔۔ بلکہ وہ لیلیٰ ہے نہ ہیر اور نہ ہی سوہنی۔ وہ اِن سب روایتی قصوں سے زیادہ خوب صورت اور نفیس ہے۔ بالکل کرسٹل پیس۔۔۔ ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرلگتا ہے کہیں ٹوٹ نہ جائے۔ وہ جہاں سے گزرتی ہے اس کا نقشِ پاپھولوں کی کیاری میں بدل جاتا ہے ہرپھول میں اس کے بدن کی مہک ہوتی ہے۔‘‘
’’یہ کہانی مجھ سے نہیں لکھی جائےگی۔۔۔!‘‘
’’کیوں۔۔۔؟‘‘
’’وہی روایتی باتیں، روایتی قصے، لب لعلیں، کاکل و رخسار کی باتیں۔‘‘
’’یار۔۔۔ جس انہماک سے تم آنناکارینینا کا مطالعہ کر رہے تھے اسی انہماک سے میری کہانی نہیں سن سکتے کیا۔ یہ ناول بھی تو ایک کہانی ہے۔ تم اور کہانیاں لکھوگے۔ مجھے معلوم ہے تم پندرہ روزمیں بدلنے والی پٹرولیم کی قیمتوں کاان میں ذکر کروگے۔‘‘
’’میں ایسا افسانہ لکھنے کا ارادہ نہیں رکھتا۔۔۔!‘‘
’’ایک روز تم لکھو گے کیونکہ تم لکھاری ہو۔ تمہارے دماغ کے خلیوں میں جس روزیہ بات جڑ پکڑ گئی کہ ہر پندرہ روزبعد پٹرولیم کی قیمتیں بدلنے سے پندرہ کروڑعوام پر کیا گزرتی ہے وہ کس ذہنی عذاب اور کرب سے گزرتے ہیں تو تم اس میں سے افسانہ تراش لوگے لیکن میری محبت کا قصہ تمہیں فرسودہ دکھائی دیتا ہے۔‘‘ آج وہ واقعی مجھے اپنی کتھا سنانے پر تلا ہوا تھا۔ جس میں کوئی نئی بات نہیں تھی۔
’’سن رہے ہو۔۔۔ نا۔۔۔ وہ جہاں پاؤں دھرتی تھی وہاں پھول کھِلتے تھے۔‘‘
’’اب آگے بھی کہو۔ میرے پاس میرؔ امن دہلوی کا قصہ چہاردرویش سننے کا وقت نہیں ہے۔ یہ نئی صدی ہے نئے تقاضے ہیں۔ اب افسانہ بھی داستان کی طرح متروک ہونے والا ہے اور صرف دو سطری افسانچہ ہی تراشا جائےگا کیونکہ آج کے انسان کی برق رفتار مصروفیات اسے اتناوقت ہی نہیں دیتیں کہ وہ مطالعہ کرے۔ بسترپر گرکراسے صرف اتنا یاد رہتا ہے کہ مجھے سلیپنگ پِلز لینی ہیں اور صبح ہونے پر پھر اِنسانوں کے جنگل میں گم ہو جانا ہے۔ رزق تلاشنا ہے عجیب عہد ہے یہ! یہاں تو قیر کا معیار دولت ہے یہاں کامیاب انسان اسے گردانا جاتا ہے، جس کے پاس مرسڈیز ہو، لینڈکروزر، کوٹھی، بینک بیلنس، شاندار بین الاقوامی بزنس، آئے دِن نئے ماڈل کی کار اور عورت خریدنا اس کا مشغلہ ہو اور تم قدیم عہد کے انسان اپنی نامعلوم محبت کا قصہ لے بیٹھے ہو۔ متروک عہد کی تواب باقیات بھی کہیں نظر نہیں آتیں۔‘‘
میری گاڑھی گفتگو سے شاید اسے دھچکا لگا وہ اٹھنے لگا تو میں نے سوچا چلو ایک اِنسان کی دِل جوئی کے لیے ہی اس کی پوری کتھاسن لی جائے۔
کار ثواب کا سوچ کر میں اپنے آپ پر ہنسا۔
ہر کام کا ہم ریٹرن چاہتے ہیں۔۔۔ وہ کیش کی شکل میں ہویا ثواب کی شکل میں!
’’حسب معمول‘‘ اس نے سگریٹ کا سرا زبان کے لعاب سے تر کیا۔ لائٹرکے شعلے اور اس کی آنکھوں کے رنگ میں مماثلت تھی اور اسی رنگ میں اس کی کہانی پنہاں تھی!
میرے ذہن کی منتشر سوچوں کو اس کی کہانی نے ایک نقطے پر مرتکز کر دیا۔ میں ہمہ تن گوش تھا۔ سگریٹ کا دھواں اور اس کی ہتھیلی پر راکھ تھی جو ہاتھوں کی آڑی ترچھی لکیروں کو دُھندلاتی تھی۔ وہ بولتا تھا تو لفظ پھولوں میں بدلتے تھے۔ وہ پیکرتراشی کرتا تھا اور اپنی محبوب کی اداؤں سے ماحول کو معطر کرتا تھا۔ وہ لڑکی جس سے اسے محبت تھی اس کا ہیولا سانس لیتا محسوس ہونے لگا تھا۔ وہ متشکّل ہوتی چلی گئی اپنی تمام تراداؤں سمیت وہ میرے سامنے نہیں تھی، پھر بھی تھی!
اس کا انتخاب اسی کو معلوم تھا لیکن جانے کیوں وہ میری بھی روح میں اترنے لگی تھی۔ میں اس کی آنکھوں، چہرے اور باتوں میں مناسبت تلاش کرتا رہا وہ اس کی آنکھوں میں تھی، چہرے اور باتوں میں بھی اس کی خوشبو تھی۔ وہ اسے کہاں ملی، کیسے ملی؟ ان باتوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ اس کا کہنا تھا بس وہ مجھے مل گئی اور میں موسموں کی پہچان بھول گیا۔
کہانی میں کوئی ٹرننگ پوائنٹ نہیں تھا۔۔۔
وہ بول رہا تھا اور میں سن رہا تھا۔
’’وہ مجھے اتنا ٹوٹ کے چاہنے لگی تھی کہ کسی نے کسی کو کیا ٹوٹ کے چاہا ہوگا۔ صرف وہی تھی جو میرے دکھ سکھ محسوس کرتی تھی، بانٹتی تھی، میرا خیال رکھتی تھی، میں جسے گھر کے ہر فرد نے نظرانداز کیا۔ میں تو خود کشی کے آخری کنارے پر کھڑا کسی اور جہاں کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھا، جب اس نے مجھے اپنی مرمریں بانہوں کے حصار میں لے لیا۔ اس روز مجھے یقین ہو گیا زندگی میں ایک ہستی ایسی ضرور ہو جو اسے ٹوٹ کر چاہے جس سے دکھ بانٹے جا سکیں۔ جو اپنا وقت واردے۔ جب وہ فون کے اس سرے پر ہوتی جو بےجان پلاسٹک سے بنا تھا تو اس کی آواز بےجان چیزوں میں جان ڈال دیتی۔ اس کی آواز میرے بدن اور روح کے خلیوں میں زیست بن کے تیرتی، میں میں نہ رہتا وہ ہو جاتا۔۔۔ میں گراہم بیل کو دعائیں دیتا۔ وہ میرا اتنا زیادہ خیال رکھتی تھی کہ تمہیں اب بتاپانا میرے لیے ممکن نہیں ہے، بالکل ایسے جیسے آنگن میں لگے گملوں کے پودوں کا خیال رکھنا اسے اچھا لگتا تھا۔ اس کی باتوں کی پھوار سے میں بھیگتا اور نموپاتا تھا۔ میں باتوں کی اور یادوں کی ڈائری کا ایک ایک ورق کھول کر تمہارے سامنے رکھ دوں تو تمہارے اس ٹالسٹائی کے ناول سے بڑا ناول تیار ہو جائےگا۔ موسیقی میں وہ نصرت فتح علی خان کی پوجا کی حدتک پر ستار تھی، سردھنتی تھی سُروں پر! اسے موسیقی کا دیوتا مانتی تھی۔ کبھی کبھی کمرہ بند کرکے ڈیک پوری آواز میں کھول لیتی۔
آ جا تینوں اکھیاں اڈیکدیاں، دل واجاں ماردا۔۔۔
ڈیک کی آواز سے کھڑکیوں کے شیشوں میں تھرتھراہٹ پیدا ہوتی وہ لرزتے، تھرتھراتے یوں لگتا ابھی ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ اس کی آنکھوں سے بھی موسیقی بہنے لگتی بچوں کی طرح کھلکھلاتی، چھیڑتی تنگ کرتی اور کہتی۔۔۔ سن رہے ہو۔۔۔ دھیان سے سنا کرو اور نصرت فتح علی خان مسلسل کہہ رہا ہوتا۔
’’تینوں اکھیاں اڈیکدیاں، دل واجاں ماردا‘‘
وہ کہتی ’’تم جہاں بھی رہوگے یہ دل تمہارے لیے دئیے کی مانند جلتا رہے گا۔ میں آنسوؤں کے تیل سے اسے روشن رکھوں گی۔ اگر میں مربھی گئی نا۔۔۔ تو میری کھلی آنکھوں میں تیرا انتظار ٹمٹماتا رہےگا۔‘‘
’’میں اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیتا۔ میں اور کر بھی کیا سکتا تھا۔‘‘
’’ایسی دکھ دینے والی باتیں نہ کیا کرو۔۔۔‘‘
وہ کھلکھلاکر ہنستی اور کہتی ’’موت تو اَزلی حقیقت ہے۔‘‘
میں پہروں سوچتا رہتا اپنے آپ سے الجھتا رہتا۔ ’’یہ ایسا کیوں سوچتی ہے شاید میں اس سے پہلے گزر جاؤں۔‘‘
راکھ ہتھیلی پر جھاڑتے ہوئے اس کی آنکھوں میں بادل اتر آئے۔ پوہ کی جھڑی سی لگ گئی۔
وہ خبر نہیں تھی۔۔۔ وہ رو دیا۔
موت کی خبر تھی یا اَزلی حقیقت مجھے نہیں معلوم لیکن میرے اندر میری پوری زندگی مرگئی۔ میرے جنازے کے اردگرد اس کی یادیں بیٹھی بین کررہی تھیں۔ ہریاد الگ کر لاتی اور ماتم کرتی تھی۔ مجھے خبرہی نہیں تھی میں کب فنا کے دروازے سے گزرا ہوں، مجھے اپنے جنازے کاوقت بھی معلوم نہیں تھا۔ کندھا کس نے دینا ہے؟ فنا کے دروازوں سے گزر جانے والوں کو اس کی خبر نہیں ہوتی۔ وہ اس سے بھی بے خبر ہوتے ہیں کہ کتنے لوگوں نے سوگواری کا کفن پہنا، بس وہ گزر جاتے ہیں۔ نئے جہانوں کی خبر بھی پلٹ کر نہیں دے سکتے۔
’’میں بھی فنا سے بقا کو نکل گیا۔‘‘
’’اب کوئی نقش پا پھولوں کی کیاری میں نہیں بدلےگا۔‘‘
’’رنگ حنامخروطی انگلیوں کے کنارے اٹھکیلیاں نہیں کرےگا۔‘‘
’’کیا اس کی آنکھیں اب بھی کھلی ہوں گی۔‘‘
’’کیاوہ فنا کے جہاں سے گزر کر بھی مجھے اڈیک رہی ہوگی۔‘‘
سوالوں کا لامتناہی سلسلہ میرے اندر پھیلتا سمٹتا رہتا ہے۔ سینکڑوں یادیں میرے اندر ماتم کناں رہتی ہیں۔ میرے دل کی سرخ زمین پر کرلاتی اور اسے تلاش کرتی ہیں۔
میں اس کے گھر تک کیسے پہنچتا ہوں؟ مجھے نہیں معلوم! مگر جب میں وہاں جاتا ہوں تو وہ صحن کے وسط میں بچھی چارپائی پر پرسکون، نیند کی وادیوں میں ہمیشہ کے لیے اتر چکی ہوتی ہے۔ کفن میں چہرے کو چھپائے ہوئے۔ مگر مجھے یوں لگتا ہے درونِ کفن آنکھوں میں میرے انتظار کی قندیل روشن ہے۔
میز پر رکھے ٹالسٹائی کے ناول آننا کارینینا کے سارے کردار ناول سے نکل کر میرے اردگرد اکٹھے ہو گئے۔ ان میں استی پان ارکاویچ تھا، ڈالی اور لیوین، گریشیاء اور ابلونسکی! پورے ماحول پر مرگ کا دھواں پھیلا تھا۔۔۔
وہ میرے سامنے بیٹھا تھا، چپ، سوگوار اور اجڑا اجڑا سا ناول کا ایک زندہ کردار!
’’میرے دوست تمہاری محبت کا انجام انتہائی دردناک اور الم ناک ہے۔‘‘
’’میری کہانی تواب شروع ہوئی ہے.....‘‘ اس نے سگریٹ کی خالی ڈبیا موڑ توڑ کر ڈسٹِ بن میں پھینکتے ہوئے کہا ’’میں سمجھا نہیں۔۔۔‘‘
اس نے راکھ ہتھیلی پر جھاڑتے ہوئے کہا۔۔۔’’میں بھی نہیں سمجھا، مجھے کیسے ملی تھی اور ملتی بھی کیسے یار۔۔۔ مجھ ایسے بدصورت اور بوسیدہ آدمی سے بھلا کون محبت کرے گا۔۔۔؟‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.