Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

بوڑھا یوکلپٹس

مسرور جہاں

بوڑھا یوکلپٹس

مسرور جہاں

MORE BYمسرور جہاں

    حویلی کے کچے کشادہ اور صاف ستھرے آنگن کے بیچ میں یوکلپٹس سر اٹھائے کھڑا تھا۔ اس کا اونچا چکنا اور سفید تنا۔ آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا تھا اور پتلی پتلی شاخوں میں پروئے ہوئے نرم نرم پتے، نیچے کی طرف جھکے ہوئے، ہوا کی شفیق تھپکیوں کی تال پر ادھر سے ادھر لہرا رہے تھے۔ جیسے کوئی معصوم بچہ پالنے میں پڑا جھول رہا ہو۔ یہ یوکلپٹس جیسے صدیوں سے اسی طرح کھڑا تھا۔ اس کی آغوش میں ہی حویلی نے زمانے کے بہت سارے گرم و سرد دیکھے۔ کتنے انقلاب آئے۔ کتنی ہی کہانیوں نے جنم لیا اور یہ بوڑھا یوکلپٹس، ان کے رازوں کا امین۔ ان کے دکھ سکھ کا ساتھی، ان کا غمگسار بن گیا۔

    سیدوں کی گڑھی اور گڑھی کے مالکان زمینداری ختم ہونے کے بعد ایک داستان پارینہ بن جاتے۔ اگر انھوں نے وقت کے تقاضوں کو نہ سمجھ لیا ہوتا۔ وہ حویلی سے نکل کر دور دور پھیل گئے۔ کسی نے کاروبار کیا۔ کسی نے ملازمت کی۔ وقت اور حالات نے انھیں ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر جانے پر مجبور کر دیا تھا۔ لیکن وہ وقت وقت سے حویلی میں جمع ہوتے تھے اور باہم بیٹھ کر اسی طرح بے فکری سے قہقہے لگاتے تھے جیسے اپنی بے فکری کے زمانے میں قہقہے لگاتے تھے۔ خاندان کی کوئی بھی شادی یا غمی۔ انھیں پھر یکجاکر دیتی تھی۔ حویلی کی گہما گہمی دیکھ کر بوڑھا یوکلپٹس بھی خوش ہو جاتا تھا۔

    اکتوبر کی خنک سی شام تھی۔ حویلی میں اندر سے باہر تک مسرتوں کا راج تھا۔ باہر لمبے لمبے دالانوں میں خاندان کے مرد جمع تھے۔ ملازموں کو احکام دیئے جا رہے تھے۔ برات کے استقبال کی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ روے، شکر، میوے اور چاول کے بورے، گھی کے کنتر ایک دالان میں رکھے تھے۔ باورچی اپنی نگرانی میں تنور گڑوا رہے تھے۔ حویلی کے اندر وسیع دالانوں اور کشادہ صحنچیوں میں خواتین کی حکومت تھی۔ تختوں کی چوکوں پر چاندنیوں کا فرش تھا۔ خاندان کی بزرگ خواتین گاؤ تکیے کے سہارے بیٹھی تبادلۂ خیال کر رہی تھیں۔ دوسرے دالان میں خوش رنگ جازم کا فرش تھا۔ ڈھیروں ملبوس، گوٹہ، لچکا، بانکڑی اور بنت سلیقے سے رکھے تھے اور سگھڑ بیویاں ٹنکائی اور سلائی کے کام میں الجھی ہوئی تھیں۔ بیچ والے چھوٹے مکان میں ایک کشادہ کمرے میں زہرہ مانجھے بیٹھی تھی اور سب لڑکیاں یہاں جمع تھیں۔ بزرگوں کو تنبیہی نظروں سے دور وہ یہاں بیٹھی آزادی سے شادی کے گیت گا رہی تھیں اور ہنسی مذاق کر رہی تھیں۔

    ملیحہ، زہرہ کے پاس بیٹھی تھی اور سب کی باتوں سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ یہ اس کے ہوش میں ننھیال کی پہلی شادی تھی اور زہرہ اس کی خالہ زاد بہن تھی۔ پہلے بھی کئی بار وہ اماں کے ساتھ گڈھی آ چکی تھی۔ لیکن اس بار تو لطف ہی کچھ اور تھا۔ دور قریب کے سارے عزیز اکٹھا تھے۔ کتنے تو ایسے تھے جنھیں اس نے پہلی بار دیکھا تھا۔

    مریم نے جھک کر ملیحہ کے کان میں سرگوشی کی ’’ملیحہ! اوپر چل کر ذرادیر آرام کر لو۔ بیٹھے بیٹھے تھک گئی ہوگی۔‘‘

    ’’نہیں۔ مجھے تو اچھا لگ رہا ہے۔‘‘

    مریم نے اس کا ہاتھ تھام لیا۔ دونوں اوپر چلی گئیں۔ مریم کے مختصر سے کمرہ میں بہت سکون تھا۔ ملیحہ کو یہاں آکر سچ مچ تھکن کا احساس ہونے لگا۔ وہ لیٹ گئی۔ ناون کی لڑکی پیالے میں پسی ہوئی مہندی دے گئی۔ مریم نے ضد کر کے اس کے ہاتھوں پر خوبصورت نقش دنگار بنا دئیے۔ دو گھنٹے کی نیند کے بعد جب وہ بیدار ہوئی تو مہندی سوکھ کر ادھر ادھر بکھر گئی تھی۔ اس نے ہاتھ دھو کر مریم کے سامنے پھیلائے۔ دودھ جیسی ہتھیلیوں پر سرخ سرخ پھول اور پتیاں ابھر آئی تھیں۔ وہ شرما گئی۔

    ’’مریم۔ مہندی تو بہت خوبصورت لگائی ہے۔‘‘ آواز پر اس نے سر اٹھایا تو اس کی نظر یں شربتی آنکھوں سے ٹکرا گئیں۔

    دوسرے پل اس نے نظریں جھکالی تھیں۔

    ’’آئیے احمر بھائی۔‘‘ مریم نے تپاک سے کہا۔

    ’’بیٹھئے نا۔‘‘

    ملیحہ اپنے آپ میں سمٹ گئی۔ دونوں ہاتھ دوپٹے میں چھپا لیے۔ احمر اس کے سامنے ہی بیٹھے مسکرا رہے تھے اور اپنی شربتی آنکھوں میں شوخی لیے اسے دیکھے جا رہے تھے۔

    ’’یہ ملیحہ ہیں۔ شاہدہ پھپھو کی لڑکی۔ شہر میں رہتی ہیں‘‘ مریم نے تعارف کرایا۔ وہ ’’خوب‘‘ کہہ کر مسکراتے رہے۔

    ’’مریم! پانی ملےگا؟‘‘ احمر نے آہستہ سے کہا۔

    ’’ابھی لائی۔‘‘ مریم باہر نکلی اور ملیحہ گھبرا کر کھڑی ہو گئی۔

    ’’ملیحہ! آپ کے ہاتھ کتنے خوبصورت ہیں۔‘‘

    احمر نے اس کے ہاتھ تھام لیے۔

    ’’گستاخی معاف کیجئےگا! تعریف کا یہ انداز شاید آپ کو پسند نہ آئے لیکن۔‘‘

    ’’اور دوسرے پل احمر نے اپنے لب اس کی پسیجی ہوئی ہتھیلیوں پر رکھ دیے‘‘ ، ملیحہ ساری جان سے پسینے میں نہا گئی۔ جیسے اکتوبر کی خنک شام مئی جون کی تپتی ہوئی دوپہر میں بدل گئی ہو۔

    آہٹ محسوس ہوئی تو احمر نے اس کے ہاتھ چھوڑ دیے۔ مریم پانی لے کر آ گئی تھی۔ احمر نے پانی کا گلاس ملیحہ کی طرف بڑھا دیا۔

    ’’ملیحہ! یہ پانی پی لیجئے۔ دیکھئے نا۔ کتنا پسینہ آ رہا ہے۔‘‘

    ملیحہ کو محسوس ہوا وہ بہت پیاسی ہے۔ حلق سوکھ رہا تھا۔ اس نے گلاس تھام لیا۔ احمر چلے گئے۔ ہنستے گنگناتے اور ملیحہ ایک ہی سانس میں سارا پانی پی گئی۔

    سچ کہنا ملیحہ! احمر بھائی کی پیاس ادھر کیسے منتقل ہو گئی۔ ’’مریم نے ہنس کر پوچھا۔

    ملیحہ شرما نے کے سوا کچھ نہ کر سکی۔

    شادی کے ہنگامے میں وہ شربتی، شوخ اور ذہین آنکھیں اس کا پیچھا کرتی رہیں۔ پہلے تو وہ ان سے چھپتی پھری۔ پھر رفتہ رفتہ وہ ان سے مانوس ہوتی گئی اور پھر وہ خود ہی ان کی متلاشی رہنے لگی۔

    وہ مریم کی تلاش میں اوپر جا رہی تھی۔ احمر نیچے اتر رہے تھے۔ زینے کے موڑ پر ہی اچانک وہ سامنے آ گئے۔ ملیحہ ٹھٹھک گئی۔ احمر اس کے سامنے کھڑے مسکرا رہے تھے۔

    ’’ملیحہ!‘‘ انھوں نے اسے مخاطب کیا۔ ملیحہ کی نظر یں ایک پل کے لیے اٹھیں۔ پھر جھک گئیں۔ احمر نے اس کے ہاتھ تھام لیے۔

    ’’تم مجھ سے ناراض تو نہیں ہو ملیحہ؟‘‘ قصور میرا نہیں تمھارے ہاتھوں کا ہے۔ کیوں لگائی تھی ان ہاتھوں میں مہندی؟ کہ میر اصبر و قرار ہی لٹ گیا۔ اب۔۔۔ اب دل چاہتا ہے کہ تم ہر وقت میری نظروں کے سامنے رہو۔ ہے نا یہ پاگل پن؟‘‘

    ’’آپ! آپ ہر وقت، ہر جگہ مجھے گھور گھور کر کیوں دیکھتے ہیں۔ کہ مجھے اپنا آپ سنبھالنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘ ملیحہ نے فریادی لہجہ میں کہا تو احمر ہنس پڑے۔

    ’’اچھا ملیحہ! ایک بار اعتراف کر لو کہ تمھارے دل میں بھی وہی خود سر جذبہ سر اٹھا رہا ہے۔ جس نے مجھے بے قرار کر رکھا ہے۔‘‘

    ملیحہ نے اپنے جھکے ہوئے سرکو اس کے ہاتھوں پر ٹیک دیا۔ اپنائیت اور سپردگی کا یہ انداز اتنا پیارا تھا کہ احمر کو ملیحہ سے اعتراف کرانے کی ضرورت باقی نہ رہی اور وہ گنگنا اٹھے۔

    ’’تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں۔‘‘

    شادی کے ہنگامے سرد پڑ چکے تھے۔ مہمان جا چکے تھے۔ بس گھر والے رہ گئے تھے۔ ملیحہ کو ابھی چند روز اور رکنا تھا اور احمر بھی اس کی وجہ سے رکے ہوئے تھے۔

    ٹھنڈی چاندنی میں وہ یوکلپٹس کے نزدیک کھڑے تھے۔ اچانک احمر نے پوچھا۔

    ’’ملیحہ! اس یوکلپٹس کو دیکھ رہی ہو؟‘‘

    ’’ہاں۔ بچپن سے اب تک اسے دیکھتی آئی ہوں۔‘‘

    ’’یہ صدیوں سے اتنا ہی بلند اور عظیم ہے۔ اسے اپنی محبت کا شاہد کیوں نہ بنا دیں؟‘‘

    ’’اور احمر نے قلم تراش کی نوک سے سفید تنے پر دھڑکتے ہوئے دل سے دو لفظ لکھ دیئے۔ اے۔ ایم۔ ملیحہ۔ احمر۔ احمر۔ ملیحہ۔‘‘

    ’’دیکھو ملیحہ! یہ بوڑھا یوکلپٹس ہماری محبت کا گواہ ہے۔ اس کے سینے پر ہمارے نام کندہ رہیں گے اور جب جب ہم یہاں آئیں گے اسے دیکھ کر اپنی محبت کی یاد تازہ کریں گے۔ یہ نام ہمیشہ ہمیں یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ ہم ایک دوسرے کے ہیں۔‘‘

    ملیحہ نے اپنے ہونٹ یوکلپٹس کے تنے پر کھدے ہوئے حروف پر رکھ دیئے اور پھر احمر نے اس جگہ کو چوم لیا کہ یہ ملیحہ کے لبوں کا لمس تھا اور یہ لمس پرایا نہیں تھا۔ اس کا اپنا تھا۔

    وہ بچھڑے تو کئی سال تک ایک دوسرے سے نہ مل سکے۔ یوکلپٹس کے تنے پر حروف اس طرح کندہ تھے۔ اکثر رات کی تنہائیوں میں ملیحہ اس کے قریب چلی جاتی اور اپنے لب اس حرف پر رکھ دیتی جو احمر کے نام سے وابستہ تھا۔ احمر۔ احمر۔ اس کارواں رواں پکار اٹھتا اور وہ یوکلپٹس کو بانہوں میں لے کر سسک اٹھتی۔ بوڑھا یوکلپٹس افسردہ، پریشان اور دل گرفتہ سا۔ اسے اپنے سینے سے لگائے کھڑا رہتا۔ وہ ان کی محبت کا شاہد جو تھا۔

    جون کی گرم اور تپتی ہوئی دوپہر میں ملیحہ اپنے گھر کے اندھیرے بروٹھے میں بے سدھ پڑی تھی۔ مریم نے آہستہ سے اس کے کان کے پاس سر گوشی کی۔

    ’’ملیحہ! جلدی اٹھو۔ دیکھو کون آیا ہے؟ وہ گہری نیند سے بیدار ہوئی تو مریم کو شرارت سے مسکراتے دیکھا۔ وہ چڑ گئی اور ناراضگی سے بولی۔

    ’’ کیوں جگا دیا۔ اچھی بھلی سو رہی تھی؟‘‘

    ’’اف پگلی۔ جس کے لیے برسوں سے راتوں کی نیندیں حرام کیے ہو۔ وہ بے ایمان آیا ہے۔‘‘

    مریم نے جھنجھلاکر کہا اور بروٹھے کا پردہ ذرا سا سرکا دیا۔ سامنے والے دالان میں ایک جھلک نظر آئی سچ مچ وہی بے ایمان تھا۔ بڑے لا ابالی انداز میں بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔ اس کی مترنم آواز آبشار کی جھنکار بن کر اس کے کانوں میں اتر گئی۔

    ’’آہ۔ احمر۔ سچ مچ آپ آ گئے؟‘‘

    ملیحہ بسک اٹھی تو مریم نے اسے گلے سے لگا لیا۔

    چند دن تو وہ احمر سے کھنچی کھنچی رہی۔ احمر اس کے رویے سے سخت پریشان تھے۔ مجبوراً انھیں مریم کا سہارا لینا پڑا۔

    ’’مریم پلیز۔ ایک بار ملیحہ سے ملاقات کرا دو‘‘

    ’’وہ آپ سے بےحد خفا ہے احمر بھائی۔‘‘

    ’’اسی لیے تو میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔‘‘

    مریم کو ترس آ گیا اور اس کی کوشش سے ان کی ملاقات ہو گئی، وہ دونوں بغیا میں چبوترے پر آمنے سامنے بیٹھے تھے۔ قریب ہی رات کی رانی مہک رہی تھی اور خاموشی کا کرب انھیں تڑپا رہا تھا۔ اچانک احمر نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور لجاجت سے بولے۔

    ’’مجھے معاف کر دو ملیحہ۔‘‘

    ’’معافی کس بات کی۔ آپ نے خطا ہی کون سی کی ہے۔‘‘

    ملیحہ کے لب کانپے اور آنکھیں آنسوؤں سے لبریز ہو گئیں۔ پھر یہ آنسو موتیوں کی لڑی بن کر ٹوٹنے لگے۔ احمر نے اس کا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور آنسوؤں کو اپنے ہونٹوں میں جذب کر لیا۔

    ’’ملیحہ! میری جان‘‘ احمر نے اسے بانہوں میں بھر لیا اور سارا غبار ڈھل گیا۔ سارے گلے ختم ہو گئے۔ احمر گنگنا اٹھے۔

    ترا ہاتھ ہاتھ میں آ گیا۔

    تو چراغ راہ میں جل اٹھے

    اور اس رات احمر نے وعدہ کیا کہ وہ بہت جلد اپنے والدین کو اس کے گھر بھیجے گا اور اسے ہمیشہ کے لیے اپنا لےگا۔ سچ مچ ایک دن احمر کے والد ملیحہ کے گھر آ گئے۔ فرط حیا سے وہ کمرہ میں جا چھپی۔ وہ جانتی تھی کہ وہ کس لیے آئے ہیں او رتصور میں دو شربتی شوخ آنکھیں اسے محبت سے دیکھنے لگیں۔ اس نے آہستہ سے اپنا ہاتھ ان آنکھوں پر رکھ دیا۔

    ’’ایسے تو نہ دیکھئے احمر۔‘‘ وہ شرما گئی۔

    احمر کے والد چلے گئے۔ تو ذوق تجسس کشاں کشاں اسے اماں کے دروازہ پر لے گیا۔ اس کے ابا غصے سے کہہ رہے تھے۔

    ’’آخر انھوں نے ہماری لڑکی کو سمجھا کیا ہے۔ جو ایسا رشتہ لے کر آئے۔ وہ مدقوق، لاوارث اور غریب لڑکا ہی بچا تھا ملیحہ کے لیے۔ انھوں نے ہمت کیسے کی اس کا رشتہ دینے کی۔

    ’’لاحول ولاقوۃ۔‘‘

    ’’میں تو سمجھی تھی کہ وہ احمر کا رشتہ لے کر آئے ہیں۔‘‘

    اماں بےچاری نے اپنی نا سمجھی کا گویا اعتراف کیا۔ ’’نہیں بھئی۔ اپنے بیٹے کے لیے تو وہ بڑے اونچے خواب دیکھ رہے ہیں۔ انگلینڈ امریکہ کے خواب، اونچے گھرانے کی دولت مند لڑکی کے خواب۔ میں نے صاف صاف کہہ دیا کہ وہ مفلس اور لاوارث لڑکا آپ کو اتنا ہی پسند ہے تو اپنی کسی لڑکی کی شادی اس سے کر دیجئے۔ میری بیٹی بھاری نہیں ہے میرے اوپر۔‘‘

    ملیحہ اپنا گھومتا ہوا سر تھام کر وہاں سے ہٹ آئی اور چپ چاپ بستر پر لیٹ گئی۔ اس کے سارے خواب کر چی کرچی ہو گئے ‘‘کیا احمر کی بات کا جواب لے کر احمر کے والد آئے تھے؟‘‘ اس کے والدین کو ذلیل کرنے سے ان کا مقصد یہی تھا کہ میں ان کے بیٹے کے لائق نہیں ہوں۔ کیا ہوئے احمر آپ کے وہ وعدے؟ کہاں گئے وہ حسین و دلفریب عہد؟‘‘

    ملیحہ سسکتی رہی۔ اس کے بعد اس نے احمر کو کئی خط لکھے۔ لیکن احمر نے کسی خط کا جواب نہ دیا۔ صبر کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اس کا وجود بکھر کر ریزہ ریزہ ہو گیا۔ وہ جو اس کی رگ جاں سے زیادہ قریب تھا۔ آج اجنبی بیگانہ اور غیر ہو چکا تھا۔

    ملیحہ کے لیے ایک اچھا رشتہ آیا جسے اس کے والدین نے منظور کر لیا۔ وہ اندر ہی اندر ٹوٹتی بکھرتی رہی۔ لیکن مخالفت میں ایک لفظ نہ کہہ سکی۔ وہ احمر کی یاد کو سینے سے لگائے کسی او رکی ہو گئی۔

    ایک بار پھر ملیحہ نے گڈھی کی سر زمین پر قدم رکھا تو۔ دیرینہ یاد یں زنجیر بن کر لپٹ گئیں۔ وہی کھیت، باغ، گلیاں اور حویلیاں اور وہی یوکلپٹس کا پیڑ۔ جواب کچھ اور بوڑھا ہو چکا تھا۔ جس کے شفیق سینے میں اس کی محبت کا راز دفن تھا۔ ملیحہ نے دیکھا، ناموں کے حروف دھند لے ہو گئے تھے۔ احمر کی محبت کے نقوش بھی تو دھندلا چکے تھے۔

    وہ اپنی ایک سال کی بچی کو زانو پر لٹائے سلا رہی تھی۔ مریم آکر اس کے پاس بیٹھ گئی اور بچی کے سنہری بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی۔ مریم اس کی دوست اور غمگسار تھی۔ وہ اس کی زندگی کے المیہ سے اچھی طرح واقف تھی۔ ان دنوں جب احمر اور ملیحہ ایک دوسرے کی محبت میں سرشار رہتے تھے۔ اس نے ان کے درمیان پیغامبری کی تھی۔ ملیحہ کے بنائے ہوئے رومال احمر تک پہنچائے تھے۔ ان میں اکثر صلح بھی کرائی تھی اور ملیحہ کو دلاسہ بھی دیا تھا اور احمر سے جھگڑا بھی کیا تھا۔ اسے ملیحہ بہت عزیز تھی۔ بہت پیاری تھی۔

    ’’ملیحہ!‘‘ مریم نے آہستہ سے پکارا تو وہ چونک پڑی۔ اس کے پریشان خیالات اور پراگندہ افکار اسے نہ جانے کہاں کہاں بھٹکاتے پھر رہے تھے۔ اف یاد ماضی کا کرب چین نہیں لینے دیتا۔

    ’’ملیحہ! احمر بھائی آئے ہیں۔‘‘

    ’’احمر! وہ۔۔۔ وہ۔ اچھا۔‘‘

    ملیحہ اچانک پریشان ہو اٹھی اور پھر جیسے اس نے خود پر قابو پا لیا۔ مریم اس کی حالت دیکھ کر تڑپ اٹھی۔

    ’’وہ سب سے ملنے آئے ہیں۔ بیرون ملک جا رہے ہیں۔ شاید اب کبھی واپس نہ آئیں۔‘‘

    ’’ہوں۔‘‘ ملیحہ ’’ہوں‘‘ کہہ کر رہ گئی۔

    ’’ایک بات کہوں ملیحہ۔ تم برا تو نہ مانو گی۔ وہ احمر بھائی تم سے ملنا چاہتے ہیں؟

    ’’کیوں؟ کیوں ملنا چاہتے ہیں؟‘‘ وہ چیخ پڑی۔

    ’’یہ دیکھنے کے لیے کہ میں کیسے تل تل کرکے مر رہی ہوں؟ یہ دیکھنے کے لیے کہ ان کی جدائی میں میرا کیا حال ہو رہا ہے؟ ان کے بغیر میں کیسی بےحال ہو رہی ہوں؟ مجھے ان سے نہیں ملنا ہے مریم! میں کسی اور کی امانت ہوں۔ یہ بچی اس حقیقت کی شاہد ہے۔ ان کی محبت جھوٹی تھی۔ ان کے دل میں کھوٹ تھا۔ اس لیے انھوں نے اپنی اس جھوٹی محبت کا گواہ اس گونگے بہرے یوکلپٹس کو بنایا تھا۔ تاکہ وہ مجھے ٹھکرا دیں اور یہ کچھ کہہ نہ سکے۔۔۔ تو مریم! سب کچھ ان کی مرضی کے مطابق ہو گیا۔ اب وہ کیا چاہتے ہیں۔ میں اپنے شوہر اور بچی سے بےوفائی نہیں کر سکتی۔‘‘

    ملیحہ سسک اٹھی اور مریم اتنی شرمندہ ہوئی کہ اسے دلاسہ بھی نہ دے سکی۔

    احمر کی روانگی کا دن تھا۔ مریم نے کئی بار آکر احمر کا پیغام دیا کہ وہ آخری بار اس سے ملنا چاہتے ہیں۔ لیکن ملیحہ کی نا۔ ہاں میں نہ بدلی۔ آخر مریم اسے سنگ دل کا خطاب دے کر خفا ہو کر چلی گئی۔ احمر کو رخصت بھی تو کرنا تھا۔

    سہ پہر ڈھلی۔ شام اتری اور پھر شام کے ملگجے اندھیرے رات میں بدل گئے۔ ملیحہ بستر میں پڑی رہی۔ گھر میں سناٹا تھا۔ سب لوگ احمر کو رخصت کرنے گئے تھے۔ وہ گھر میں اکیلی تھی۔

    ’’ملیحہ!‘‘ مریم نے اسے پکارا۔ وہ آنکھوں پر بازو رکھتے لیٹی رہی۔ مریم کہتی رہی۔

    ’’ملیحہ! احمر بھائی چلے گئے۔ وہ آج پھوٹ پھوٹ کر رو رہے تھے اور ملیحہ! احمر بھائی نے کہا ہے کہ وہ ہمیشہ تں ہی چاہتے رہیں گے۔ اگر دل چاہے تو کبھی کبھی یاد کر لینا۔‘‘ ملیحہ نے آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹا دیے۔ اس کی سرخ اور سوجی ہوئی آنکھیں آنسوؤں سے بھری ہوئی تھیں۔ مریم اس کی آنکھیں دیکھ کر ڈر گئی۔ تڑپ گئی۔ اس کا مطلب ہے کہ ملیحہ گھنٹوں سے رو رہی ہے۔

    ’’مریم! یاد تو اس کو کیا جاتا ہے۔ جسے بھول جاتے ہیں اور میں اس بے وفا کو بھولی کب تھی؟‘‘

    ملیحہ بےآواز رو دی تو مریم نے اسے لپٹا لیا۔

    رات میں بڑے زور کا طوفان آیا اور صبح سب نے دیکھا۔ بوڑھا، مہربان اور سب کا غمگسار یوکلپٹس جڑ سے اکھڑ کر گر چکا ہے۔ شاید ملیحہ کے درد کو سہارنے کی طاقت وہ کھو چکا تھا اور اب سب کے قدموں میں شرمندہ اور سرنگوں پڑا تھا۔

    بیچارہ۔ بوڑھا یوکلپٹس۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے