بجھے ہوئے دیے
دیوالی کی صبح امیشا کی آنکھ ایک دھڑکے کے ساتھ کھلی ـ شاید وہ کوئی ڈراؤنا سا خواب دیکھ رہی تھی ـ آنکھیں ملتے ہوئے چار پائی سے اتری اور اپنے پاپا کو تلاش کرنے لگی ـ اس نے گھر کے دونوں کمروں میں دیکھا مگر اس کے پاپا گھر میں نہیں تھے ـ وہ برامدے کی طرف لپکی ـ دھلے ہوئے برامدے کی ایک طرف اس کی ماں کپڑے نچوڑ رہی تھی ـ اس نے سارا کام نمٹا کر شاید ابھی ابھی نہایا تھا ـ اس کے بال گیلے تھے اور چہرہ ایک دم نکھرا نکھرا ـ
امیشا نے برامدے میں تلاش کیا ، پاپا یہاں بھی نہیں تھے ـ
ممی، پاپا نہیں آئے ....... ؟
ماں نے مامتا بھری آنکھوں سے اسے نہارا مگر اگلے ہی پل بیزاری سے بولی :
کہا تو تھا کہ آج شام کو پوجا سے پہلے آ جائیں گے،کیوں بار بار پوچھے جاتی ہے ـ جا نہا لے، پانی گرم ہے ـ
ماں کا جواب سن کر وہ مایوس ہو گئی اور بت بنی وہیں کھڑی رہی ـ
سورج چڑھ آیا تھا ـ صبح کی سردی میں دھوپ بھلی لگ رہی تھی ـ پرندے شاخوں پر چہچہا رہے تھے ـ امیشا کچھ دیر اسی طرح کھڑے رہنے کے بعد سردی سے کانپتی ہوئی برامدے کی دیوار کے پاس آئی اور دیوار کی اوپری سطح پر ٹھوڑی رکھ کر گلی میں دیکھنے لگی ـ گلی آج خوب صاف ستھری نظر آ رہی تھی ـ بس سوکھے پتے ہی تھے جو شرارتی بچوں کی طرح ادھر ادھر بھاگے جا رہے تھے ـ تہوار کا موقع تھا اس لیے گاؤں کے تقریباً سارے مکان اجلے اجلے سے تھے اور ایک خوشگوار تاثر دے رہے تھے ـ
لیکن امیشا کا دل اداس تھا ـ وہ بہت غمگین تھی ـ رہ رہ کر اس کے دل میں ایک ہوک سی اٹھتی تھی ـ اسی اثنا اپنے ہم جماعت آکاش کے گھر کو دیکھ کر وہ اور بھی غمگین ہو گئی ـ آکاش کا گھر بے رنگ و روغن تھا اور عجیب اجڑا اجڑا سا دکھائی دے رہا تھا ـ
'' ان کے یہاں کلرنگ بھی نہیں ہوئی ! کیا یہ لوگ سچ مچ دیوالی بھی نہیں منائیں گے ـ ''
اس نے پنجوں کے بل اچک کر آکاش کے گھر کا جائزہ لیا جو اس کے گھر کے بالکل سامنے تھا ـ
'' صفائی بھی نہیں ہے ـ ہو سکتا ہے اس کی ممی ابھی تک سو رہی ہوگی، اور شاید آکاش بھی ابھی اٹھا نہیں ہوگا ـ اسے جا کر اٹھاؤ؟ ''
امیشا نے من ہی من اپنے آپ سے سوال کیا اور ممی کی طرف دیکھا ـ اس کی ماں اپنے کام میں کسی مشین کی طرح جٹی ہوئی تھی ـ امیشا نے موقع کو غنیمت جانا ـ اس نے باہر نکلنے کے لیے قدم بڑھایا ہی تھا کہ دادی سر پر لکڑیوں کی گٹھری لیے پھاٹک تک پہنچ چکی تھی ـ
'' اٹھ گئی لاڈلی..... صورت باپ کی پائی تو کرم بھی پا لیتی..... ''
کہتے ہوئے دادی پھاٹک کے اس پار آ گئی ـ اُدھر امیشا کی ماں رسی پر کپڑے ڈالتے ہوئے مسکرائی ـ
دادی کو دیکھتے ہی امیشا کے دل میں امید کے ایک لو جل اٹھی ـ وہ گویا خود کو یقین دلاتے ہوئے بولی ـ
پاپا شام کو آئیں گے نا دادی ؟
ہاں ں ں ں ..... آجائے گا، شہر گیا ہے ، باہر دیس نہیں، ناک میں دم کر رکھا ہے ـ ـ ـ
دادی نے جان چھڑانے کے انداز میں کہا ـ
سچ مچ امیشا نے کل سے ناک میں دم کر رکھا تھا ـ کل آکاش نے بڑی بے چارگی اسے یاد دلایا تھا کہ پچھلے سال اس کے پاپا کی شہر میں موت ہوگئی تھی ـ اگلے دن یعنی عین دیوالی کے دن ہی ان کی ارتھی اٹھی تھی ـ ان کی موت کے بعد یہ پہلی دیوالی ہے، اس لیے وہ لوگ دیوالی نہیں منائیں گے ـ یہ سن کر امیشا بے چین ہو اٹھی تھی ، اس لیے کہ اس کے پاپا بھی کل صبح سے شہر گئے ہوئے تھے ـ تبھی سے اس کی جان میں جان نہیں تھی ـ جانے کیسے کیسے خیال اس کے دل و دماغ آ رہے تھے ـ
بہر حال دادی کی وجہ سے امیشا نے آکاش کے گھر جانے کا ارادہ بدل دیا اور ان کے ساتھ واپس اندر چلی گئی ـ مگر مڑ کر ایک نظر اس کے گھر کی طرف بھی ڈال دی ـ
**
امیشا کے سامنے چورنگ پر اس کی من پسند پورن پولی، گلونی اور آمٹی رکھی تھی لیکن ایک ایک نوالہ اس کے لیے پہاڑ جیسا تھا ـ اس کی نظر بار بار گھڑی پر جا کر ٹھہر جاتی ـ وقت ہے کہ جیسے ٹھہر سا گیا تھا ـ تب بھی ایک بج چکا تھا ـ اس نے صبح سے اب تک کا وقت کن کھٹکوں اور کن دھڑکوں کے ساتھ گزارا تھا یہ اس کا معصوم وجود ہی جانتا ہے ـ اور اب پوجا تک کا وقت کاٹنا اس کے لیے کتنا کربناک ہوگا ـ ! اس کے دل و دماغ میں صرف دو ہی سوال تھے، 'لکشمی پوجا کا وقت کب ہوگا ' اور' پاپا کب گھر لوٹیں گے ـ'
دوسری طرف وہ دو دفعہ آکاش کے یہاں جانے کے لیے نکلی تھی مگر دونوں بار کسی نہ کسی کارن سے جا نہیں پائی تھی ـ ابھی کچھ دیر پہلے ہی اس نے آکاش کو سڑک پر دیکھا تو اس سے ملنے کے لیے دوڑ پڑی تھی ، لیکن ماں نے جیسے جھپٹ کر اسے کھانے کے لیے بٹھا دیا تھا ـ وہ پھلجھڑی کی طرح تڑ تڑ جل اٹھی تھی ـ
وہ بدقت آدھی پولی ہی کھا پائی اور ہاتھ میں دو بتاشے لیے گھر سے باہر نکل گئی ـ
امیشا ایک بتاشا منہ میں اور ایک ہاتھ میں دھرے آکاش کے گھر میں داخل ہوئی ـ اگلے کمرے میں اس نے آکاش کے ماما کو دیکھا جو شاید آج ہی گاؤں سے آئے تھے ـ ماما اس کی چھوٹی بہن کو گود میں لیے اسے بہلا رہے تھے ـ رسوئی میں آکاش کی ماں چہرے پر گہری اداسی لیے کچھ پکا رہی تھی ـ وہ پیچھے کے کمرے میں گئی جہاں آکاش اپنے ماما کے بیٹے کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ـ امیشا نے محسوس کیا کہ گھر میں ایک عجیب گھٹی گھٹی سی خاموشی چھائی ہوئی تھی ـ اسے اپنی ساتویں جماعت کی کتاب کا وہ سبق یاد آ گیا جس میں ایک گائے کے اچانک مر جانے کے بعد اس کے دونوں بچھڑوں پر سکتہ سا طاری ہو جاتا ہے اور پورا باڑہ ایک ہیبت ناک سناٹے میں ڈوب جاتا ہے ـ
آکاش کی اتری ہوئی صورت کو دیکھ کر اسے اس پر بڑا ترس آیا ـ اس نے اپنے دل کو سمجھایا اور دونوں کو سڑک پر چلنے کے لیے کہا ـ تینوں گھر سے باہر آئے ـ تینوں بڑی نیم تلے گھنٹہ بھر کھیلے ،پٹاخوں اور نئے کپڑوں پر سپنوں سی باتیں کیں، پھر گم صم سے گھر لوٹ آئے ـ
***
سورج کسی نٹ کھٹ بالک کی طرح دور کہیں پچھم کی طرف جا چھپا تھا ـ شام کا ملگجا اندھیرا دھیر دھیرے آسمان کو کالی چادر سے ڈھک رہا تھا ـ ادھر زمین پر روشنیوں کی ایک نئی دنیا جھلملا رہی تھی ـ گھر گھر دیے جل اٹھے تھے ـ جدید طرز کے خوبصورت قندیلوں سے آنگن جگمگا رہے تھے ـ لکشمی پوجا کا وقت آن پہنچا تھا ـ گھروں گھر بجتی ننھی گھنٹیوں کی ٹن ٹن ٹن ٹن، لکشمی ماں کے تئیں عقیدت میں سرور پیدا کر رہی تھیں ـ
لیکن امیشا کے گھر ابھی پوجا شروع نہیں ہوئی تھی ـ اس کے پاپا اب تک گھر نہیں لوٹے تھے ـ اس کی ماں اور دادی کی نظریں بھی اب بار بار دروازے پر اٹھ رہی تھیں ـ امیشا پھاٹک کی سیڑھیوں پر بیٹھی گلی کے دہانے پر نظر گاڑے ہوئے تھی ـ اس اثنا میں وہ کسی ماہر سنگ تراش کا شاہکار معلوم ہو رہی تھی ـ اس نے زرد رنگ کا بھڑکدار گھاگرا چولی پہنی تھا ـ اسی رنگ کے نقلی موتیوں کے زیور بھی اس پر خوب جچ رہے تھے ـ
جب گھڑی کی سوئیاں اور آگے بڑھیں تو امیشا کی ماں اور دادی کو بھی فکر ستانے لگی تھی ـ اس کی ماں وقفے وقفے سے اپنے موبائل فون پر نمبر ملاتی رہی لیکن ادھر سے مسلسل فون بند ہونے کی اطلاع مل رہی تھی ـ
بہت دیر انتظار کرنے کے بعد امیشا سیڑھی سے اٹھی اور بوجھل قدموں سے برآمدے میں بچھی چار پائی پر دادی کے پاس جا کر بیٹھ گئی ـ دادی کی بوڑھی آنکھوں میں بھی انتظار کی انتہا صاف جھلک رہی تھی ـ امیشا کے سامنے اب بھی گلی کا دہانہ تھا، اسے امید تھی کہ اس کے پاپا وہیں سے آتے ہوئے اسے دکھائی دیں گے ـ نظر کے اسی رستے میں آکاش کا گھر بھی تھا ـ اس وقت یہ گھر نہیں بلکہ روشن دیوں کی قطار میں ایک بجھا ہوا دیا نظر آ رہا تھا ـ
اچانک امیشا نے روہانسی آواز میں کہا :
دادی، پاپا شہر جانا نہیں چاہتے تھے لیکن آپ نے انھیں بھیجا تھا نا!
نہیں بیٹا ، اس کا ٹھیکیدار اسے پگار دیے بنا دیوالی کی چھٹیاں منانے اپنے شہر چلا گیا اور اسے وہاں بلایا ـ
لیکن دادی ـ ـ ـ ـ
فکر مت کر ، آتا ہی ہوگا ـ اس نے فون پر بتایا تھا کہ شہر اتنی دور آیا ہوں تو کچھ سامان بھی لیتا آؤں گا ـ اس لیے شاید دیری ہو رہی ہے ـ
دادی نے اس کی بات کاٹ دی اور بات کو سلجھاتے ہوئے کہا ، مگر ان کے آخری جملے میں اندیشہ تھا ـ
اسی بیچ امیشا کی ماں بھی بجھی بجھی وہاں آ پہنچی اور امیشا کے بازو میں بیٹھ گئی ـ
آکاش کے پاپا بھی پچھلے سال دیوالی سے دو دن پہلے شہر گئے تھے نا، انھیں بہت سارے لوگوں نے مل کر کیوں مار دیا تھا ـ
بیک وقت ساس بہو کے جی الجھ گئے ـ
نہیں بیٹا ، آکاش کے باپ نے کس کا کیا بگاڑا تھا ـ ان لوگوں کو کوئی غلط فہمی ہو گئی تھی ـ
کیسی غلط فہمی؟
بھگوان جانے ـ
آکاش کہہ رہا تھا کہ اس کے پاپا کو ہمارے اپنے ہی دھرم کے لوگوں نے کسی دوسرے دھرم کا آدمی سمجھ کر پیٹ پیٹ کر مار ڈالا تھا ـ
چھوڑ ، تجھے اس سے کیا ـ ایسی باتوں پر کان نہیں دھرتے ـ
لیکن ممی ،آکاش اور اس کی ممی اسی وجہ سے دیوالی نہیں منا پا رہے ہیں نا ـ اس کا کیا؟
امیشا کی ممی نے اسے دھیرے سے اپنے قریب کر لیا اور اس کا دھیان دوسری طرف پھیرنے لگی ـ
اسی لمحے ایک شخص تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا گلی میں داخل ہوا ـ اسے دیکھتے ہی ممی سے لگی ہوئی امیشا خوشی کے مارے 'پاپا ' کہتی ہوئی اچھلی اور تیزی سے اس شخص کی طرف دوڑ پڑی ـ
اچانک ہوا میں بہت سے راکٹ چھوٹے، نور کے بے شمار دانے آسمان میں بکھر گئے ـ راستے کے کنارے انار کی قطاریں شر شر کرتی جلنے لگیں ـ بچے ہاتھوں میں پھلجھڑیاں لیے کودنے لگے اور پٹاخوں کی گونج سے پوری گلی دہل اٹھی ـ لیکن، ان سب سے بے نیاز امیشا کسی چھوٹی سی بچی کی طرح اپنے پاپا کے سینے میں جا چھپی تھی ـ
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.