ہزاروں میل کی مسافت طئے کرنے کے بعد ساجد نے جنت کشمیر میں قدم رکھا۔ کمپنی کے خوبصورت کوارٹر کے صحن میں قدم رکھتے ہی اس کا دماغ پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو سے معطر ہو گیا۔ کمرے میں آکر اُس نے کھڑکیاں کھول دیں تو خوشبودارہوائیں کمرے میں رقص کرنے لگیں اور دیوار پر لٹکے کلنڈر کے اوراق پھڑ پھڑانے لگے۔ وہ باہر دیکھنے لگا۔ باغیچے میں رنگ برنگے پھولوں کے درمیان گلاب کی ٹہنی ہوا کی تال پر جھوم رہی تھی اور مست بھنورے مدہوش پتیوں کے گرد چکر لگا رہے تھے۔ عشق پیچان کی بیلیوں پر گرمی کی وجہ سے نرم و نازک پھول اپنی ہی پتیوں سے سائے کی اماں مانگ رہے تھے۔
بہت دیر تک رومان پرور ماحول میں کھو جانے کے بعد اچانک کچھ یاد آتے ہی ساجدالماری میں رکھے سامان کی طرف گیا، اپنے اٹیچی کیس سے ایک فوٹو ہاتھ میں اٹھایا اور دیر تک ٹکٹکی باندھے اسے دیکھتا رہا، تبھی فون کی گھنٹی بجی۔
’’آ ہا ہا۔۔۔ ہائے سویٹی۔۔۔ کیا اتفاق ہے، ابھی میں نے تیری تصویر ہونٹوں سے چھوئی بھی نہیں اور تیری کال آ گئی۔‘‘ پھر دیر تک پیارو محبت اور رومان انگیز مکالموں کا فرحت بھرا دور چلا۔ پرشوق قہقہے اور ہونٹوں کو تر کرنے والی مسکراہٹیں ماحول کواور بھی پرکیف بنا رہی تھیں۔ کافی دیر تک باتیں کرنے کے بعد ساجد نے فوٹو کو چوم کر واپس الماری میں رکھ دیا پھر آس پاس کو دیکھنے کی چاہ نے زیادہ دیر کمرے میں ٹھہرنے نہیں دیا۔ باہر آکر مختلف پگڈنڈیوں پر چہل قدمی کرنے لگا۔۔۔ شام کے وقت اپنے کوارٹرکے سامنے چھوٹے سے باغیچے میں ایک چنار تلے کرسی ڈال کر بیٹھ گیا۔ شام کی مست مست ہوائیں چنار کے نرم پتوں سے چھیڑخانی کرتے کرتے ساجد کے بالوں سے بھی الجھ رہی تھیں، نہ جانے کتنی بار اس کو اپنے بائیں ہاتھ سے اپنے ریشم جیسے بالوں کو سنوارنا پڑا لیکن ہاتھ ہٹاتے ہی ہوا کا ہلکا سا جھونکا انہیں پھر سے بکھیر دیتا تھا۔ ہوا کے شریر جھونکے اس کے خیالوں میں بھی شرارے بھر رہے تھے جس سے اس کا ذہن بھی منتشر ہو رہا تھا۔ نہ جانے کتنی جدوجہد کے بعد وہ اپنے خیالوں کا تانتا باندھنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ برگد کی لٹکتے جھولتے ریشوں کے بیچ جان سے پیاری سویٹی کے ساتھ زندگی کے حسین اور خوبصورت رتوں کو یاد کرکے لطف اندوز ہونے لگا۔ ’’ساجد۔۔۔ ساجد اب تم بہت دور جارہے ہو۔ کشمیر، سنا ہے وہ حسن و خوبصورتی کی دلکش اور دلفریب وادی ہے۔ کہیں قدرت کے اُس طلسماتی میخانے میں پہنچ کر خود کو مدہوش کرکے مجھے بھول جانے کی کوشش نہ کرنا۔ ‘‘سویٹی کی آنکھوں سے جیسے آنسوؤں کا آبشار بہہ رہا تھا، یہ آنسوں گلابی گالوں سے لڑھک کر دھوپ کی تمازت سے خشک اور پتھریلی زمین میں دم توڑتے جا رہے تھے۔
’’ایسا کیوں سوچتی ہو۔ تیرے پیار کے عوض اگر مجھے سارے جہاں کی دولت بھی مل جائے تو وہ سب ہیچ ہے۔ تمہیں کون سا وہم کھائے جا رہا ہے۔ میں بہت جلد واپس آؤں گا اور تمہیں اس پتھر نما بستی سے نکال کر قدرت کی بنائی ہوئی اس حسین اور مخملی دھرتی پر لے جاؤں گا۔‘‘ساجد نے سویٹی کے آنسوؤں کو اپنی ریشمی رومال میں جذب کرتے ہوئے کہا۔
وقت آہستہ آہستہ گزرتا رہا۔ ساجد کو کشمیر کی فضائیں بڑی راس آ گئیں۔ یہاں کے آبشاروں، سبزہ زاروں اور لالہ زاروں نے اس کی جمالیاتی حس کو اتنا متاثر کیا کہ وہ پھولوں کی مہکتی اور تھرکتی کلیوں کا اسیر ہوکے رہ گیا۔ پرشور ندی نالوں اور گوناگوں رنگینیوں میں کھو گیا۔۔۔ سویٹی کے فون کالزہفتہ وار ٹلتے رہے پھر ہفتوں سے مہینوں کا فاصلہ طئے کرتے کرتے سال کا لبادہ اوڈھ بیٹھے اور کچھ مدت کے بعد یہ سلسلہ بھی بند ہو گیا۔ اس دوران سویٹی کے کئی خط بھی آتے رہے جو بنا پڑھے ہی الماری کے ایک کونے میں جمع ہوتے گئے۔ وجہ صاف تھی، ساجد کے کوارٹر کے سامنے ہی ایک اور کوارٹر تھا جس کا مکین ایک مسکراتا اور خوبصورت چہرہ تھا، جو کھبی کبھار ہی کھڑکی کھلتے وقت نظر آتا تھا اور اکثر بیشتر دونوں کی نظریں آپس میں متصادم ہو جاتی تھیں۔ رفتہ رفتہ یہ دونوں باغیچے میں چہل قدمی کرنے لگے تھے۔ سلسلہ کچھ آگے بڑھا تو دونوں ایک دوسرے کے زلفوں کے اسیر ہوتے چلے گئے اور پھر عہد و پیماں کے وعدے۔۔۔ محبت نبھانے کی قسمیں اور وفا کی تکمیل کے لئے جان دینے تک کی باتیں۔
وقت کا دریا بہتا رہا۔ سامنے والی کھڑکی بہت دنوں سے بند پڑی تھی۔ بند کھڑکی کا کرب بڑھنے لگا اور بڑھتے بڑھتے آخر ایک دن ساجد کو یہ احساس ہو ہی گیا کہ باغ کامالی بدل چکا ہے۔ گلشن میں کوئی اور ہی بھنورا بھنبھنا رہا تھا۔ ایک دن یہ دیکھ کر ساجد کے ہوش اڑ گئے کہ ہوا کی تال پر گلاب جھوم رہا ہے اور بھنورا آہسہ آہستہ گلاب کا رس چوس رہا ہے۔ اس کو ہر طرف دھواں ہی دھواں نظر آنے لگا تھا۔۔۔ ساجد نے کھڑی کے پٹ بند کر دیئے۔ سرتھام لیا، آنکھوں سے آنسوں جاری ہو گئے۔ اب تنہائی ڈسنے لگی۔۔۔ خیالات بھٹکنے لگے اور بھٹکتے بھٹکتے کہیں دورصحرا میں اٹک گئے۔ الماری سے سویٹی کا فوٹو نکالا۔ فوٹو پر جمی گرد آنسوؤں سے دھل گئی اور ایک دم چلایا؛
’’سویٹی۔۔۔ سویٹی، میری جان، میری زندگی، میں آ رہا ہوں۔ میں بھٹکے ہوئے راستے سے واپس آ گیا ہوں میں تمہارے پاس آرہا ہوں، مجھے سہارا دو، مجھے اماں دو۔۔۔‘‘
اچانک کچھ یاد کرکے پھر سے الماری کھولی۔۔۔ سویٹی کے سارے خطوط الٹ پلٹ کر دیئے۔۔۔ اس کا آخری خط نکالا جو اس نے تین مہینے پہلے بھیجا تھا۔۔۔ خط کا لفافہ جلدی جلدی پھاڑ ڈالا۔
’’ڈیر ساجد۔۔۔ تمہارا بہت انتظار کیا۔ مجھے پوری امید تھی کہ زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر تم ضرور ملوگے۔ لیکن تم تو حسین اور معتدل وادی میں ایسے کھو گئے کہ دھوپ سے جھلسے ریگستان کو ایک بار بھی دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔۔۔ خیر، اچھا ہی کیا، اپنے آپ کو آگ برساتی دھوپ سے بچا کرچنار کی نرم چھاؤں کے گرویدہ ہو گئے۔۔۔ اگلے ہفتہ میں بھی یہ تمازت کا شہر چھوڑ کر ریگستانی شعلوں کی نظر ہونے جا رہی ہوں۔ اب راجستھان میرا سسرال بننے جا رہا ہے۔۔۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.