کہانی کی کہانی
اس افسانے کا موضوع ایک ایسی عورت ہے، جو اپنے گھر میں بہت خوش ہے۔ اسے ان عورتوں کے بارے میں جان کر حیرت ہوتی ہے جو ہر وقت یہ شکایت کرتی رہتی ہیں کہ وہ بور ہو رہی ہیں، ان کا وقت نہیں گزر رہا ہے۔ اسے تو اپنے وقت کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ ایک بار وہ اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ہل اسٹیشن پر گھومنے جاتی ہے۔ وہاں اسے ہر جگہ، ہر چیز پرکشش لگتی ہے۔ واپسی سے ٹھیک پہلے اس کی بیٹی بیمار پڑ جاتی ہے اور پھر پیکنگ کے وقت اسے اتنے کام کرنے پڑتے ہیں کہ وہ خود کو پنجرے میں قید ایک بلبل کی طرح محسوس کرنے لگتی ہے۔
ڈینم کی بھاری سوتی جین کو کھنگال کر نچوڑنے کے بعد جب میں اسے ہینگر پر پھیلانے کے لیے سیدھی کھڑی ہونے لگی تو سارے بدن سے ٹیس سی اٹھی۔ پوری طرح ایستادہ ہونے میں مجھے دس بارہ سیکنڈ تو ضرور لگے۔ اور جب میں نے جین کو زور سے جھٹک کر جھاڑا تو میرے بائیں ہاتھ کی تیسری انگلی کا وہ لمبا سا ناخن جو جین کی موری کو رگڑتے ہوئے آدھا ٹوٹ گیا تھا، انگلی کے پور کی تھوڑی سی جِلد چھیلتا ہوا پورا الگ ہو گیا۔ خون کے قطرے گرنے لگے اور میں درد سے بلبلا اٹھی۔ مگر اس خیال سے کہ کہیں جین پر خون کا دھبّہ نہ لگ جائے میں نے ایک ہاتھ سے بمشکل تمام اسے ہینگر پر ڈال دیا۔ انگلی پر ٹِشو پیپر لپیٹ کر، میں کھڑکی کی طرف لپکی اور کھڑکی کے دونوں پٹ کھول دیے۔ اندھیروں سے نکل کر آتا ہوا، ہوا کا ایک اداس جھونکا۔۔۔ میرے چہرے سے ٹکرایا۔ جانے اتنی جلدی اندھیرا کیسے ہو گیا۔ ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو میں نے کچھ دیر بعد ڈوبنے والے سورج کی ہلکی سی جھلک دیکھی تھی۔ بس اتنی سی دیر میں ؟۔۔۔ ایک ہی تو پینٹ دھوئی تھی میں نے۔۔۔ میری انگلی کا درد میرے دل میں اتر آیا۔ ایک تھکی ہوئی نظر میں نے آسمان کی طرف اٹھائی۔ اتنے وسیع آسمان پر زہرا اکیلا چمک رہا تھا۔ زہرا کا عکس میری آنکھوں میں دھندلا سا گیا۔۔۔ اس ذرا سی بات پر۔۔۔ یہ آنسو بھی۔۔۔
کچھ دن پہلے جب انھوں نے بتایا کہ ان کے دفتری کام کے سلسلے میں ہم لوگ تین دن کے لیے شملہ جا رہے ہیں تو مسرّت کی ایک لہر میر ے پورے وجود میں دوڑ گئی تھی۔ دراصل میری اپنی چھٹی کے بھی یہ ہی تین دن تھے۔ ان دنو ں منّو کی بھی چھٹیاں چل رہی تھیں۔ معلوم نہیں میرا وقت کہاں چلا جاتا ہے۔ لوگ بور کیسے ہوتے ہوں گے۔ مجھے تو بور ہونے کا وقت کبھی میسر نہیں آیا۔ ویسے کچھ کرنا تو ہوتا نہیں مجھے ایسا۔ مگر پھر بھی کبھی کبھی میں ایک ایک لمحے کو اپنے پاس بلا کر رہ جاتی ہوں۔ اسے دل کی گہرائیوں سے یاد کرتی ہوں۔ پچکارتی ہوں۔ تصورات کی باہیں پسارے اس سے وعدہ کرتی ہوں کہ اسے اتنے خوبصورت انداز سے گزاروں گی کہ شاید ہی اسے کسی نے اتنا حسن بخشا ہو۔ اس کی منّت اور خوشامد کرتی ہوں۔ بڑی مشکل سے اتنی ساری عاجزی کے بعد جب وہ ایک لمحہ میرے پاس آنے کو تیار ہوتا ہے تو۔۔۔ اسی وقت کُکر کی سیٹی، ٹیلیفون کی آواز، دروازے کی گھنٹی، بچّوں کی پکار، گوالے کی ڈولچی کی کھڑکھڑاہٹ یا پھر کسی کام کا احساسِ ذمہ داری مجھے آ لیتا ہے۔ میرا اتنے جتن سے بلایا ہوا لمحہ مجھ تک پہنچنے سے پہلے ہی کہیں دور ساکت ہو جاتا ہے۔ میں خالی دامن اور خالی باہیں لیے کوئی فرض پورا کرنے کے لیے آگے بڑھ جاتی ہوں اور پھر مجھے دن بھر کرنا ہی کیا ہوتا ہے۔ وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔ جزوقتی ملازمہ کپڑے دھوتی ہے، صفائی کرتی ہے۔ اب ایسا کون سا کام رہ جاتا ہے۔ ذرا سا بچّوں کو ہی تو دیکھنا ہوتا ہے۔ ان کی بکھری ہوئی چیزیں اپنی جگہ پر رکھنا۔ وہ اودھم بھی تو بہت مچاتے ہیں۔ یا پھر کھانا بنانا، سودا سُلف لے آنا یا دیگر خریداری وغیرہ کرنا۔ چھوٹے موٹے گھریلو کاموں کے لیے بجلی والا یا نل ول ٹھیک کرنے والا بلانا۔ مجھے کہیں جانا تو ہوتا نہیں۔ آرام سے گھر میں کام کرتی، اپنے سامنے سب ٹھیک ٹھاک کرواتی رہوں گی تو میرا وقت گزرتا جائے گا۔ مستعد رہوں گی تو تندرست رہوں گی۔ وہ نوکر کے سخت خلاف ہیں ۔ کہتے ہیں بڑے شہروں میں چھوٹا نوکر رکھنا بھی خطرہ مول لینے کے برابر ہے۔ وہ بہت عقلمند ہیں انھیں ہر بات کا تجربہ ہے۔ اب بھلا میں گھریلو عورت یہ سب کیا جانوں۔ مجھے کرنا ہی کیا ہوتا ہے ایسا۔ جھاڑ پونچھ لیا۔ کپڑے سنبھال لیے۔ مُنی کا دودھ، Nappies وغیرہ۔ مُنے کی کتابیں کھلونے وغیرہ دیکھ لیے۔ اس کا ہوم ورک کرا لیا۔ بس اور کیا۔ پتہ نہیں چیزیں بار بار کیوں بکھر جاتی ہیں اور انھیں ٹھیک کرنے میں اتنا وقت کیوں لگتا ہے اور پھر یہ وقت کیسے اتنی جلدی گزر جاتا۔
وہ بہت مصروف رہتے ہیں۔
اور میں سارا دن گھر میں ہی گزارتی ہوں۔ پھر بھی یہ تین دن جو اس گرمی سے دور ایک خوبصورت مقام پر گزریں گے، میرے اپنے ہوں گے۔ اور بچے نئی جگہ میں محو رہیں گے۔ نہ باورچی خانہ، نہ خریداری۔ صرف خوبصورت پہاڑ، رنگ برنگے پرندے اور میٹھی میٹھی ان کی بولیاں بڑے بڑے دانتوں والے بندر اور کالے منھ اور لمبی دم والے لنگور۔ ہری ہری گھاس اور خوش رنگ پھولوں پر منڈلاتی نیلی پیلی تتلیاں۔ چاندنی رات اور نا آلودہ آسمان کے بے شمار تارے۔ طلوع اور غروبِ آفتاب کا شفق گوں فلک۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں اور بھیگی بھیگی رتیں۔ پل پل آنکھ مچولی کرتی ہوئی دھوپ کی کرنیں اور نہ جانیں کیا کیا۔ یہ سب میں اپنی مرضی سے دیکھوں گی، محسوس کروں گی۔ یہ بہتّر گھنٹے میرے اپنے ہوں گے۔ اوہ۔۔۔ کتنا سکون ملتا ہے اس تصوّر سے ہی مجھے۔ اسے محسوس کروں گی تو کیسا لگے گا۔میرے من میں گدگدی سی ہونے لگتی ہے۔ زندگی سہل سہل سی معلوم ہونے لگتی ہے۔
میں ہفتہ بھر پہلے ہی سفر کی تیاریوں میں لگ گئی۔ اس جھلستی گرمی سے تین دن دور۔ بہت ہوتے ہیں تین دن۔ یہ تین دن مجھے پوری طرح سے Recreate کریں گے۔
سفر پر جانے کی شام میں نے سب کی پیکنگ کی۔ را ت کے دو بج گئے یہ سب کرنے میں۔ صبح ہمیں ہمالین کوئین پکڑنی تھی چھ بجے سے پہلے۔ اس کے لیے ہمیں گھر سے ۵ بجے چلنا ہو گا اور پھر مجھے چار بجے اٹھنا ہو گا۔ یہ بستر میں چائے پینے کے عادی ہیں۔ ان سب کے تیار ہونے سے جو چیزیں بکھریں گی انھیں سمیٹنا ہوگا۔ مسہریاں بھی ٹھیک کرنا ہوں گی۔ ملازمہ تو اس وقت ہو گی نہیں۔ سب صفائی وغیرہ کر کے ہی نکلنا ہوگا۔
باہر سے لوٹ کر انھیں گندا گھر اچھا نہیں لگتا۔
پھر دروازوں کھڑکیوں کی کنڈیاں چٹخنیاں اچھے سے دیکھنا بھالنا، تالے چابیاں نل بجلیاں وغیرہ دیکھنا۔ سب کچھ مقّفل کرنا۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ سب کام میں ہی بہتر طریقے سے کر سکتی ہوں اور مجھے ہی کرنا ہے کہ یہ ان کے بس کی بات نہیں۔
دوسری صبح کچھ سوتے کچھ جاگتے ہم روانہ ہوئے اور دوپہر کو کالکا پہنچ گئے۔ وہاں سے شملہ کے لیے ٹیکسی لی۔منّو کو ان گھومتے بل کھاتے راستوں میں ابکائی ہو جاتی ہے۔ وہ سارا راستہ الٹیاں کرتا رہا۔ میں اس کا سر تھامے رکھتی، منھ پونچھتی، گریبان صاف کرتی رہی۔
وہ اگلی سیٹ پر شاید سو رہے تھے۔۔۔ پہاڑی راستے اتنے دل موہنے والے تھے کہ سب تکان بھول کر میں ان اونچے اونچے پیڑوں کو ڈھلوانوں، گھاٹیوں کو دیکھنے لگی۔ کوئی ساڑھے تین گھنٹے کا سفر تھا۔ بوندیں پڑنے لگی تھیں۔ جہاں جہاں گاڑی بڑھتی ذرا سا راستہ چھوڑ کر وہیں پر بارش پڑنے لگتی۔ بادل ہمارے ہی رخ پر تیر رہے تھے۔ ہمارے ساتھ ساتھ چل کر مینہٖ برساتے جاتے۔ دونوں بچےّ میرے دو کاندھوں پر سر ٹکائے سو رہے تھے۔ شاید اس ترنم کو لوری سمجھ کر جو بارش کے قطروں کے کھڑکیوں کے شیشوں سے ٹکرانے سے پیدا ہو رہا تھا۔ انھیں میٹھی نیند آ گئی تھی۔ یہ منظر اس قدر دل کش تھا کہ میری بوجھل پلکیں بھی بند نہ ہو پا رہی تھیں۔ زوروں سے برستا ہوا پانی سامنے کے شیشے پر چھا جاتا اور گاڑی میں لگا وائپر اسے پلک جھپکتے میں پونچھ لیتا اور اتنے ہی عرصے میں اس کی جگہ اور پانی لے لیتا اور پھر اسی طرح پونچھا جاتا۔ دونوں طرف کے شیشوں پربھی بوندیں ٹکرا ٹکرا کر پھسل رہی تھیں۔ بارش سیدھی، آڑھی، ترچھی جانے کیسے کیسے بہہ رہی تھی۔ ایک طرف پہاڑیاں ایک طرف جنگل اور اگر جنگل کی طرف دیکھیں تو بارش آسمان سے لے کر زمین تک برستی ہوئی پانی کی ہزاروں نہایت طویل دھاروں کی شکل میں رواں نظر آ رہی تھی۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے ہم خود اوپر سے نیچے پانی کے بےشمار دھاریں برسا رہے ہوں۔
گاڑی کے اندر ہلکی ہلکی گرمی تھی۔ باہر ہوائیں، سردی اور بارش اور تنہا بل کھاتی سرمئی طویل سڑک۔۔۔ مجھے نیند آ رہی تھی۔۔۔ منظر کو نہارنا اچھا لگتا تھا مگر تکان کے باوجود میں نے خود کو سونے سے روکے رکھا تاکہ موڑوں پر مڑتے وقت بچّوں کو کہیں چوٹ ہی نہ لگ جائے۔
یہ جگہ شملہ سے آگے تھی۔ بیچوں بیچ جنگل کے۔ ویسے یہاں سب کچھ جنگل کے درمیان ہی تھا۔ مگر یہاں قدرتی حسن اپنے شباب پرتھا۔ چھوٹی سی پہاڑی کے اوپر یہ خوبصورت سا ہوٹیل۔ پہاڑی کے شروع میں مختصر سا بازار۔۔۔ سب خوبصورت تھا۔
ٹیکسی سے اترتے ہی تازہ ہوا کے معطر جھونکوں نے ہمارا استقبال کیا۔اس خوشبو میں جنگلی درختوں کی سوندھی سوندھی مہک بھی شامل تھی اور مختلف قسم کے پھولوں کی خوشبوئیں بھی، جو باغیچے میں چاروں طرف اور درمیان میں نہایت سلیقے سے اگائے گئے تھے۔ اس میں ایستادہ بڑے سے اخروٹ کے پیڑ پر ایک پہاڑی مینا اپنی پیلی چونچ وا کیے چہک رہی تھی۔نکھرے نیلے آسمان پر بادل کے دودھ ایسے سفید ٹکڑے اِدھر ادھر ٹنگے ہوئے تھے۔ سرمئی پنکھوں اور پیلے پیٹ والی ایک منّی سی چڑیا یہاں سے وہاں اڑ رہی تھی۔آسمان پر قوس و قزح ابھر آیا تھا۔ بچوّں نے پہلی بار دھنک کو دیکھا تو بہت خوش ہوئے۔ آس پاس حدِ نظر تک دھلا دھلایا سا منظر۔نکھرے نہائے سے پیڑ، سجے سجائے شرمائے شرمائے سے پھول۔ ہری ہری گھاس پر اٹھکھیلیاں کرتی ہوئی رنگ برنگی تِتلیاں۔ نیلا نیلا آسمان دیکھ کر گنگناتی ہوئی پہاڑی مینا۔۔۔ یہ منظر جانے کہاں لے گیا۔
کمرے میں پہنچ کر میں نے سب کے کپڑے Unpack کر کے الماری میں لٹکا دیے۔ بچّوں کو ہاتھ منھ دھلانے غسل خانے میں لے جانے لگی تو دیکھا کہ بادل اندر گھسے آ رہے تھے، کھڑکی کے راستے۔ اس سے پہلے کہ میں اس ہوش ربا منظر میں محو ہو جاتی، میں نے بادلوں سے درخواست کی کہ کچھ اور دیر ایسے ہی ٹھہر جائیں۔ میں بچّوں سے فارغ ہولوں کہ میں یہ سحرِ آگیں منظر پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔
وہ بالکنی میں کھڑے سگریٹ پھونک رہے تھے۔
کھانا کھاتے شام ہو گئی۔ شام سے مجھے عشق رہا ہے۔ چوبیس گھنٹوں میں شام ہی ہے جو مجھے اپنی سی لگتی ہے۔ پھر پہاڑوں کی شام کی بات تو کچھ اور ہی ہے۔ میں بالکنی میں بیٹھ کر بادلوں کو اپنے چہرے پر اپنے ہاتھوں پر محسوس کرنا چاہ رہی تھی کہ میں تین دن کے لیے بادلوں کے پاس اتنی اونچائی پر چلی آئی تھی۔ وہاں بیٹھ کر ذرا سا وہ میگزین دیکھنا چاہ رہی تھی جو میں نے اسٹیشن پر خریدا تھا۔۔۔ مگر
مگر ان کی سگریٹ ختم ہو گئی تھی اور ہوٹل میں وہ برانڈ نہیں تھا۔ انھوں نے مجھے ہی بھیجنا مناسب سمجھا۔ کہنے لگے کہ بچوّں کو بھی ساتھ لے جاؤں بازار۔ راستہ بھی دیکھ لوں گی اور سیر بھی ہو جائےگی۔ وہ جب تک بالکونی میں بیٹھ کر میگزین دیکھیں گے۔ انھوں نے آہستہ سے میرے ہاتھ سے رسالہ لیتے ہوئے سمجھایا تھا۔
بازار دور سے نظر آ رہا تھا۔ ہمارے چلتے وقت آسمان پھر ابر آلود تھا۔ مگر بوندیں اتنی باریک باریک برس رہی تھیں جیسے چھلنی میں سے چھن کر گر رہی ہوں۔ ہم ڈھلان طے کر کے چوڑی سڑک پر پہنچے ہی تھے کہ بارش اچانک تیز ہو گئی اور ہم سب ایک دکان کے چھجے تک پہنچتے پہنچتے بری طرح بھیگ گئے۔ کچھ دیر بعد جب بارش ذرا کم ہوئی تو جلدی سے سگریٹ اور کچھ بسکٹ وغیرہ لے کر میں گڑیا کو گود میں لیے منّو کی انگلی تھامے اوپر چڑھائی چڑھنے لگی۔ سرد ہوا بدن کو چھوتی ہوئی لباس کے آر پار ہو کر گزر رہی تھی۔ مگر میں پسینہ پسینہ ہو رہی تھی۔ سانس بے ترتیب چل رہا تھا۔ منّو بھی بار بار رک رہا تھا۔ اگر وہ ذرا سا ڈھلان تک آ جاتے تو گڑیا کو سنبھال لیتے یا منّو کو ہی سہارا دے کر اوپر لے جاتے۔
ہانپتے کانپتے جب ہم اوپر پہنچے تو وہ مسہری پر نیم دراز گرم گرم چائے پی رہے تھے۔ ٹی وی آن تھا۔ کوئی پرانی فلم آ رہی تھی۔ فلم کی ہیروئن ایک ننھے سے بچےّ کو پیٹھ پر باندھے، کدال سے پتھر ایسی سخت زمین کھود رہی تھی۔ وہ نہایت پرسکون تھے۔ انھوں نے ہم لوگوں کی طرف دیکھے بغیر سگریٹ کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
میں نے جلدی سے بچّوں کے بال پونچھ کر ان کے کپڑے تبدیل کیے اور پھر اپنے۔ گڑیا کی کپکپاہٹ بڑھتی جا رہی تھی۔ میں نے اسے کمبل اوڑھا کر ان کے برابر لٹا دیا۔ کچھ دیر بعد وہ بولے کہ گڑیا کو بخار آ رہا ہے۔ چھوا تو وہ تپ رہی تھی۔ میں نے اسے اور منوّ دونوں کو کروسین سِرپ کا ایک ایک چمچ پلا دیا۔ اس کے نازک سے ننھے وجود کو سردی ہو گئی تھی۔ اس دن پوری رات وہ بے چین رہی۔ میں بیچ بیچ میں دوائی بھی پلاتی رہی۔ ٹھنڈے پانی کی پٹیاں بھی کرتی رہی۔ صبح کے وقت جب اس کا بخار کم ہوا تو وہ سو گئی۔
یہاں تو یوں بھی مجھے کوئی کام نہیں۔ نیند آئے گی تو دن میں بھی سو سکتی ہوں۔ مگر میں سو کر اس حسین منظر کی توہین نہیں کرنا چاہتی اور نہ ہی آنے والے دن کو نیند کے حوالے کر کے ضائع کروں گی۔ میں اسے محسوس کرنا چاہتی ہوں ۔ میں ہرگز نہ سوؤں گی۔
سحر ہونے کو تھی مگر ابھی باہر گھُپ اندھیرا تھا۔ قریب ہی کسی پیڑ پر کوئی پرندہ گا رہا تھا۔ اتنی صبح۔یعنی صبح سے بھی پہلے۔ یہ کون سا پرندہ گا سکتا ہے۔ اتنا میٹھا نغمہ۔ ایک مسلسل گیت۔ سُر اور َلے سے بھرپور۔ میں اٹھ کر کھڑکی تک آ گئی۔ میں نے اندھیرے میں غور سے دیکھا۔ سیاہی مائل نیلے پروں اور پیلی چونچ والی پہاڑی مینا گھاس پر ادھر ادھر کبھی چل کر کبھی پھدک کر چہل قدمی کر رہی تھی اور کبھی رک کر سر اوپر اٹھائے اس سُریلے نغمے کا الاپ کر رہی تھی جو اس گہرے سکوت کو توڑ کر روح کی گہرائیوں میں گھلا جا رہا تھا۔ یہ منظر اتنا ہوش ربا تھا کہ میرے پاؤں کھڑکی کے پاس جیسے کہ منجمد ہو گئے۔ صبحِ کاذب کے نئے نئے متوقع اسرار سے محظوظ ہونے کے لیے میں وہیں کھڑی رہی۔ ذرا سی دیر میں پو پھٹا چاہتی تھی۔ مینا اصل میں اتنی صبح باغیچے میں ایک ضروری کام کے سلسلے میں اتری تھی ورنہ وہ ڈال پر بھی تو گا سکتی تھی۔ وہ ان ننھی منی بیر بہوٹیوں کے لیے پیغام اجل لیکر نمودار ہوئی تھی جو گھاس کے ایک منے سے تنکے کی اوٹ میں کچھ گھنٹوں کی زندگی گزارا کرتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے وہ شوق سے کھایا کرتی ہے۔ پہروں گھاس پر ادھر اُدھر گھوم کر انھیں تلاش کرتی تھک جاتی تو اڑان بھر کر پاس کے پیڑ پر بیٹھ کر نغمہ چھیڑ دیتی۔ جیسے کوئی مختلف سروں میں سیٹیاں بجا رہا ہو اور ساتھ ہی چہک بھی رہا ہو۔ کچھ سیٹیاں ایک چہک، پھر سیٹیاں پھر چہک۔۔۔
روشنی پھیلنے لگی تھی۔ پرندے جاگ گئے تھے۔ کسی شاخ پر بھورے سرمئی پروں اور پھرتیلے جسم والی کستوری لہک لہک کر گا رہی تھی۔ پی ۔پی۔پی پیو پیو۔ کئی طرح کی مختلف بولیاں بول رہے تھے پرندے۔ کئی طرح کی بلبلیں گا رہی تھیں۔
کچھ ہی دیر میں دھند نے سارے منظر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔دراصل یہ دھند نہیں تھی، یہ بادل تھے جو ہمیں میدانی علاقوں میں بہت اوپر پھیلے ہوئے نظر آتے ہیں ورنہ اگر یہ صرف دھند ہوتی تو صرف دھند ہی ہوتی۔ساتھ میں بارش بھی ہونے لگی تھی۔ پرندے خاموش سے ہو گئے تھے۔مگر وہ پہاڑی مینا اب بھی گھاس پر بھیگ بھیگ کر گھوم گھوم کر نغمے گا رہی تھی۔ نہ وہ بھیگنے سے گھبراتی نہ سردی سے۔ جی چاہ رہا تھا کہ نیچے باغیچے میں اتر کر میں بھی ذرا سا ٹہل کر تھوڑا سا بھیگوں اور اس دھلی دھلائی نکھری نہائی صبح کو اپنی روح میں اتار لوں مگر مسلسل کئی گھنٹوں کی تکان اور شب بیداری نے میرے پاؤں مَن مَن بھرکے کر دیے۔ آنکھیں خود بخود بند ہونے لگیں، میں واپس مسہری پر آ گئی۔
چھت کے اوپر زوروں کی کھڑکھڑاہٹ سے میری آنکھ کھل گئی۔ کھڑکی سے جھانکا تو دھوپ چمک رہی تھی اور ٹین کی چھت پر اچھلتے کودتے بندروں کا سایہ باغیچے کی گھاس پر صاف دکھائی دے رہا تھا۔ وہ کمرے میں نہیں تھے۔ شاید منو بھی ان کے ساتھ گیا تھا۔
گڑیا چپ چاپ سو رہی تھی۔ ننھی سی جان کو بخار نے کمھلا کر رکھ دیا تھا۔ اس کا پھول سا چہرہ مرجھا گیا تھا۔وہ پیلی پڑ گئی تھی، ہونٹ سوکھے ہوئے تھے۔ اگر ٹھیک ہوتی تو اپنے قد کے برابر ہر چیز کا وہ بھرپور جائزہ لے چکی ہوتی کہ ابھی ابھی کھڑا ہونا سیکھا تھا اس نے۔ ایش ٹرے جو اس کے قد کے برابر اونچی میز پر سلیقے سے ایک طرف کو سج رہی تھی، فرش پر اوندھی پڑی ہوتی اور سگریٹ کے بچے ہوئے ٹکڑے کچھ زمین پر ہوتے کچھ اس کے منھ میں۔ جگ الٹا ہوا ہوتا اور گلاس گِرا ہوا۔ دو منٹ میں اس کے سارے کپڑے بھیگے ہوئے ہوتے اور مجھے دیکھ کر ہنس ہنس کر کبھی مسہری کے نیچے گھسنے کی کوشش کرتی کبھی میز کے نیچے اور میں وہاں سے اس کے گول مٹول مکھن ایسے پیروں کو کھینچ کر اسے باہر نکالتی۔ اس کا دہانہ صاف کرتی، منھ سے سگریٹ کے بچے ہوئے ٹکڑے نکال کر اسے خوب خوب پیار کرتی۔۔۔
مگر اس بخار نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔
میں نے پانی پلانے کے خیال سے اس کے چہرے کو چھوا۔ وہ اب بھی ہلکا سا گرم تھا۔ میں نے ماتھے پر ہاتھ پھیرا۔ پسینے کی وجہ سے نرم نرم بال ماتھے سے چپک گئے تھے۔ اس نے نحیف سی آواز میں مجھے پکارا۔ میں نے دو تین چمچ پانی پلایا۔ اس نے مشکل سے پیا۔ اس وقت بھی اسے بھوک نہیں تھی۔ کل رات بھی اس نے کچھ نہ کھایا تھا اور اب وہ بہت نحیف لگ رہی تھی۔ اس وقت وہ کچھ دیر کے لیے آ جاتے تو میں بازار جا کر کچھ دلیا وغیرہ لے آتی۔ دوا سے کچھ دیر کے لیے جب اس کا بخار اترتا تو میں اسے دلیا کھلا دیتی۔دوپہر ہو گئی، وہ نہیں لوٹے۔ نیچے وہ کہہ گئے تھے کہ میرا کھانا کمرے میں بھجوا دیا جائے۔
سارا دن بخار میں تپتی ہوئی گڑیا کو سینے سے لپٹائے میں خود بھی تڑپتی رہی۔ وہ بھوکی تھی تو مجھ سے کہاں کھایا جاتا کچھ۔ میں نے ویٹر سے دودھ اوپر کمرے میں منگوایا تھا، اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تک نہیں۔
صبح موسم خوشگوار تھا پھر معلوم نہیں کب بادل چھائے مطلع ابرآلود ہو گیا۔ ہوا کے جھونکے نے کھڑکی کا پٹ کھٹ سے کھول دیاتو میں نے گردن موڑ کر دیکھنا چاہا مگر اس وقت گڑیا نیند یا غنودگی یا بخار میں مجھے پکار کر چیخی۔ میں نے ہلا کر جگا دیا۔ پانی کے دو چمچ پلائے، کچھ بات کرنا چاہی۔ وہ نیم وا سی آنکھوں سے میری طرف دیکھتی رہی۔ میں مسکرائی تو وہ بھی دھیرے سے مسکرائی۔ میں اس کا مکھڑا دیکھ رہی تھی۔ حرارت کچھ کم تھی۔ میرا دل پر سکون ہونے لگا۔ اب شاید وہ دودھ پی لے گی۔ کچھ تازہ سی خوشبوئیں محسوس ہوئیں تو میں نے نظر اٹھا کر دیکھا کہ ہوائیں کمرے کے اندر چلی آ رہی تھیں ۔ میں نے پہلی بار ہواؤں کو دیکھا تھا۔ پہلی بار ہوا کی خوشبو سونگھی تھی۔ مجھے اپنی قوتِ شامہ اور باصرہ پر یقین نہیں ہو رہا تھا۔ کیا ہوا کو دیکھا جا سکتا ہے؟ ہاں ہوا کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جب وہ بادلوں کے بے شمار خوردبینی ذرّات پر سوار ہو کر آئے۔ اور ہوا کو سونگھا بھی جا سکتا ہے۔۔۔ جب وہ جنگل کے عظیم درختوں کے نوکیلے پتوں کی سوندھی سوندھی مہک اور رنگ برنگے پھولوں اور ہری ہری گھاس کی نمی اور خوشبو اپنے ساتھ لے کر چپکے سے کھڑکی سے داخل ہو۔
کچھ دیر میں اس جنت میں گم ہو گئی جو بغیر بتائے کمرے میں آ کر مجھے سرشار کر گئی۔
میں نے دو تکیوں کی مدد سے گڑیا کو بٹھا کر چاروں طرف سے کمبل اوڑھا دیا۔ باہر زوروں کی بارش ہو رہی تھی۔ ایک پہاڑی مینا اڑتی آئی اور کھڑکی پر بیٹھ کر گانے لگی۔ اسے تو بہانہ چاہیے گانے کا۔ بادل چھائیں تو گائے گی۔ بادل نہ چھائیں تو گائے گی۔ بارش برسے تو گائے گی بارش تھم جائے تو گائےگی۔ سورج چڑھے تو گائے گی اور ڈوبے تو بھی۔ بلکہ سورج چڑھنے سے گھنٹوں پہلے منھ اندھیرے گانے لگےگی اور اسی طرح سورج غروب ہونے کے گھنٹوں بعد تک جب تک گھپ اندھیرا نہ ہو جائے اور کچھ بھی نظر نہ آ سکے، اُس وقت تک گاتی جائےگی۔ ایسا بھی دیکھا ہے کہ بجلی کڑکتی ہے اور یہ چہکتی ہے اور بادلوں کی زوردار کھردری دہاڑ میں بھی اس کا نہایت سریلا نغمہ کانوں میں رس گھولتا، گرج کو چیرتا ہوا سنائی دیتا ہے۔ میں نے ایسا خوش مزاج پرندہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔گاتی ہوئی پہاڑی مینا کا نغمہ یا ا س کی پیلی چونچ یا پھر سیاہی مائل نیلے پروں کی کشش تھی کہ گڑیا اس کا محویت سے مشاہدہ کرنے لگی۔ میں نے اس کی اسی محویت کا فائدہ اٹھا کر اسے چار چھ چمچ دودھ پلا دیا۔ اور خود چائے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھرتے ہوئے مینا کو دیکھنے لگی۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے چائے پیوں ۔ مگر مینا کے اڑ جانے کے ڈر سے میں وہیں گڑیا کے پاس مسہری پر بیٹھ گئی۔ مینھ زوروں کا تھا۔ ساتھ ہی موٹے موٹے اولے بھی پڑ رہے تھے۔ مینا کہیں اڑ گئی تھی۔ میں نے کھڑکی کے قریب جا کر بارش کے قطروں کو ہاتھ میں لینے کے لیے ہاتھ پھیلا دیا بڑی مشکل سے ایک اولا میری ہتھیلی پر رکا۔ عجیب سی خوشی کا احساس ہو رہا تھا۔ جیسے کہ میں ہوا کے دوش پر تیر رہی ہوں یا اپنے لڑکپن میں کہیں لوٹ آئی ہوں۔۔۔ نہیں لوٹ آیا چاہتی ہوں کہ دروازے کی دستک نے مجھے احساس دلایا کہ مجھے تیرنا نہیں آتا۔ وہ دونوں باپ بیٹے اندر داخل ہوئے۔
بہت مزا آیا ماما۔آپ کیوں نہیں آئیں ہمارے ساتھ گھومنے۔ منو مجھ سے لپٹتے ہوئے بولا۔
گڑیا ٹھیک ہو گئی؟وہ بولے۔
کچھ بہتر تو ہے۔ میں نے جواب دیا۔
بہت تھک گئے ہم۔ ذرا روم سروس میں چائے کے لیے فون کر دیجئے۔ وہ بستر پر دراز ہوتے ہوئے بولے۔وہ واقعی تھک گئے تھے کہ اس طرح جوتوں سمیت بستر پر لیٹنے کا مطلب تھا کہ میں ہی ان کے جوتوں کے تسمے کھولوں، موزے اتاروں ۔
جوتوں موزوں سے فارغ ہو کر میں نے منّے کو نہلا دیا۔
رات کا کھانا ہم سب نے نیچے ڈائیننگ ہال میں کھایا۔ باہر آئے تو میں نے پہلی بار آسمان کی طرف دیکھا تھا۔ آسمان پر بےشمار تارے تھے کہ شہر کے آلودہ آسمان پر تو بہت تھوڑے تارے ہوا کرتے ہیں جو بہت چھوٹے دکھائی دینے والے تارے ہوتے ہیں، وہ مٹ میلے دھوئیں کے غلاف کے اس پار دکھائی ہی نہیں دیتے۔ جو نظر آتے ہیں وہ بھی میلے میلے سے اور یہاں کتنا چمکدار آسمان۔۔۔ اور ایک دوسرا آسمان وہ جو زمین پر بھی نظر آ رہا تھا۔ رات کو پہاڑیوں کے اونچے نیچے مقامات پر بنے مکانات کی بجلیاں دور ہوا سے ہلکورے کھانے والے ان گنت پتوں کے پیچھے سے یوں آنکھ مچولی کر رہی تھیں جیسے رنگ برنگے ستارے ٹمٹما رہے ہوں۔ بہت ہی لبھاؤنا منظر تھا۔ یہ نظارہ اگر شام کی سرمئی روشنی میں دیکھا جائے تو کتنا زیادہ حسن سمیٹ لے گا اپنے اندر۔ اس وقت تو نیلا آسمان بھی گہرا نیلا دکھائی دیتا ہو گا اور پر شکوہ درختوں کے اسرار بھی واضح ہوں گے۔ تب یہ روشنیاں دور سے ایسی لگتی ہوں گی جیسے درختوں کی شاخوں پر اَن گنت جگنوؤں کے جھرمٹوں نے ڈیرے ڈالے ہوں۔
یا اس اندھیرے میں اونچے لمبے ٹیلوں والی پہاڑیوں پر یہاں وہاں جیسے بے شمار دیے جھلملا رہے ہوں۔ دو دن تو جانے کیسے گزر گئے۔ کل شام میں یہ منظر ہرگز زائل نہ ہونے دوں گی۔ سورج کو غروب ہوتا ہوا دیکھوں گی۔ ان تمام پرندوں کو پاس کے سبھی درختوں پر غور کر کے تلاش کروں گی جو یہ دل چرانے والی چہکار جگا کر ہمیں سکون کی وادیوں کی سیر کراتے ہیں۔ اپنے روح پرور نغمے سنا کر مدہوش کر دیتے ہیں کہ ہمیں اپنا آپ ہلکا پھلکا محسوس ہوتا ہے۔ سارے غم، سارے کام، ساری ذمہ داریوں کے احساس پرسکون کا احساس حاوی رہتا ہے کہ سکون کی اب میرے نزدیک وہ اہمیت ہے کہ معصوم زندگیوں کی بے شمار ضرورتوں کی فکر نہ ہوتی۔۔۔ تو جان کے بدلے خرید لیتی اور یہ خوش رنگ و خوش گلو پرندے، بے دام میری جھولی میں یہ دولت ڈال دیتے ہیں کہ زندگی کوئی اچھی چیز معلوم ہونے لگتی ہے۔
یوں بھی نہیں کہ زندگی مجھے ہمیشہ جھیلنی پڑتی تھی، بلکہ میں نے تو زندگی سے خوب خوب محبت کی تھی۔ زندگی میرے لیے ہنسی کے نہ رکنے والے فوارے، ماں باپ کی ناز برداریاں ،ننھے منّے بھتیجوں کے ساتھ عشق، بھائیوں کا لاڈ اور بھابیوں کے ساتھ سیر سپاٹے، شاپنگ اور فلموں کے علاوہ پینسل اسکیچنگ کرنا اور۔۔۔ پڑھائی کرنا تو خیر تھا ہی۔
اب تو اخبار تک کی شکل دیکھے ہفتوں گزر جاتے ہیں۔
وہ بھی ٹھیک ہی کہتے ہیں۔
مجھے کرنا ہی کیا ہے۔ کوئی سوشل لائف تو میری ہے نہیں۔ نہ دوست نہ سہیلی۔ جو احباب وغیرہ ہیں تو ان ہی کی طرف سے ہیں۔ ان سے اگر کبھی ہمارے ہاں ملاقات ہوتی ہے تو مجھے فرصت ہی نہیں ہوتی پاس ٹھہرنے کی اور ان میں سے کسی کے ہاں وہ صرف خود ہی جا پاتے ہیں۔ انھیں اس بات سے بڑی کوفت ہوتی ہے کہ وہ دوستوں سے بات کر رہے ہوں اور بیچ میں بچے کے رونے کی آواز آ جائے یا بچہ زور سے ہنس پڑے۔ اس لیے میں بچوّں کو اپنے پاس ہی رکھتی ہوں۔ باہری دروازے کی چابی ساتھ نہیں لے جاتے وہ، انھیں اچھا نہیں لگتا کہ وہ خود سے دروازہ کھول کے اندر داخل ہوں اور میں سوئی ہوں ملوں۔ میں بیٹھے بیٹھے اونگھ بھی جاؤں تو لیٹتی نہیں تاکہ وہ گھر لوٹیں تو دروازہ کھولوں۔ اب دوست کے گھر جائیں گے یا ان کے ساتھ کہیں جائیں گے تو یہ آدھی وادھی رات تو ہو ہی جاتی ہے۔تھک بھی جاتے ہیں۔ ان کو کپڑوں کی الماری کے دروازے پر لگے ہینڈل پر ہینگر میں ٹنگا شب خوابی کا لباس پکڑانا ہوتا ہے۔ موزے اور قمیض وغیرہ کپڑے دھونے کی مشین میں ڈالنا اور کچھ کپڑے اسی ہینگر پر ڈال کر الماری میں رکھ دینا۔ جوتے جو یہ ریک کے ٹھیک پاس اتارتے ہیں انھیں اٹھا کر قرینے سے ریک کے اندر رکھنا۔ گھر میں چار لوگ ہیں ۔ اور پھر مجھے ایسا کرنا ہی کیا ہوتا ہے۔
بہرحال کل کا دن میرے پاس ہے۔ کل رات کی گاڑی سے جانا ہے۔ معلوم نہیں وہ اور منو کل کہاں گھومنے گئے تھے۔ آس پاس دیکھنے لائق مقام تو ہوں گے۔ دن میں کچھ نہ کچھ تو دیکھ ہی سکتی ہوں۔ ناشتے سے فارغ ہوتے ہی میں فوراً پیکنگ کر لوں گی۔ مگر کیا معلوم وہ کتنے مصروف ہوں۔ انھیں کہیں جانا ہو۔ میں کبھی کوئی پروگرام بنا نہیں پاتی۔
ناشتے کے بعد جب میں پیکنگ کرنے لگی تو انھوں نے مشورہ دیا کہ یہ جو پلاسٹک کی تھیلی میں میں نے بچّوں کے میلے کپڑے ساتھ اٹھا لیے ہیں ،انھیں یہاں ہی دھولوں۔ کہاں میلے کپڑوں کو اٹھاتی پھروں گی۔ٹھیک ہی کہتے تھے۔ اب میں ان کو یہ کہہ کر پریشان تو نہ کرتی کہ یہ سوکھیں گے نہیں شام تک اور جب بھی تھیلی میں الگ سے ڈالنے پڑیں گے۔
خیر میں نے پیکنگ کا کام ادھورا چھوڑ دیا اور کپڑے دھونے لگ پڑی۔ دھوتے دھوتے جانے کب دوپہر ہو گئی۔ کھانا کھانے کے بعد وہ کسی طرف نکل گئے اور میں پیکنگ میں لگ گئی۔ اٹیچی بڑی مشکل سے بند ہوئی۔ اصل میں اس میں ان کے ملنے والوں کے لیے کچھ چھوٹے موٹے تحائف وغیرہ تھے۔ یہ ایک اضافہ تھا۔ اور بیگ میں بھی بھیگے کپڑوں نے ایک بڑی جگہ گھیر رکھی تھی۔ بچّوں کو میں نے سفر کے لیے چاق و چوبند بنا دیا۔ خود بھی تیار ہو گئی۔ وہ تو تیار ہی تھے۔ سب سامان پیک ہو چکا تھا بلکہ اپنی اپنی جگہ پر ٹھنس چکا تھا۔ پانچ بجنے والے تھے۔ شکر ہے سب کاموں سے نبٹ تو لی۔ اِدھر ادھر نہ سہی، آرام سے بالکنی پر وہ رسالہ دیکھوں گی جو تین دن پہلے میں نے خریدا تھا۔ اس کے بعد غروبِ آفتاب کا نظارہ پھر پرندے۔۔۔
اس خیال سے میں نے گڑیا کو انگلی پکڑائی اور اسے دھیرے دھیرے چلاتی ہوئی بالکنی میں پہنچی ہی تھی کہ نیچے سڑک پر وہ آتے ہوئے دکھائی دئیے۔ میں واپس کمرے میں لوٹ آئی۔ وہ آتے ہی کہنے لگے کہ ان کی جینز کافی میلی لگ رہی ہے اور یہ کہ انھیں جینز میں ہی سفر کرنا اچھا لگتا ہے۔ اس لیے میں ذرا سا اسے دھولوں ۔جینز دیکھنے میں میلی تو نہیں لگ رہی تھی، بس موریوں پر ذرا سی دھول مٹی تھی جو برش سے بہ آسانی صاف ہو سکتی تھی مگر وہ بہت صفائی پسند ہیں ! کہہ رہے تھے کہ مجھے بھی گاڑی کا وقت ہونے تک کچھ کرنا تو ہے نہیں ذرا سا اسے دھولوں گی اور پھر ذرا سا استری سے سکھا بھی دوں گی۔ اتنا وقت ہے میرے پاس۔ میں نے پریس ساتھ رکھی تھی۔ وہ ایک آدھ شکن والا لباس بھی نہیں پہن سکتے۔
میں نے نہایت مشکل سے پیک کی ہوئی اٹیچی کھول کر انھیں دوسری پتلون نکال دی اور جینز دھونے غسل خانے میں گھس گئی۔ڈینِم کے موٹے سوتی کپڑے کی جینز پانی میں اور بھی بھاری ہو گئی اور میں حتی الامکان اس وزنی پینٹ کو الٹ پلٹ کر دھوتی گئی۔ ہاتھوں میں لے کر رگڑتی گئی۔ کپڑے دھونے کا برش تو میرے پاس تھا نہیں، اس طرح اور زیادہ صاف کرنے کی کوشش میں میری انگلی کا ایک لمبا ناخن آدھا ٹوٹ گیا۔ جانے کتنا وقت لگا ہوگا مگر میں نے اسے آخرکار دھو لیا۔ اور اب اسے پھیلانے سے پہلے جھٹکتے ہوئے میرا پورا ناخن ہی اکھڑ گیا۔
خون کی دھار بہہ نکلی۔درد کی لہر سی اٹھی۔ میں نے انگلی پر ٹیشو پیپر لپیٹ دیا اور وقت ضائع کیے بغیر غسل خانے کی کھڑکی کھول دی۔
اندھیروں کو چیر کر آتا ہوا سرد ہوا کا ایک افسردہ جھونکا میرے چہرے سے ٹکرایا۔ نہ معلوم کب اندھیرا ہو چکا تھا۔ سارے طیور آشیانوں میں جا چھپے تھے۔ نیلے پنکھوں اور پیلی چونچ والی مینا بھی غائب تھی۔ انگلی کی ٹیس دل میں سے ہوتی ہوئی روح میں سما سی گئی۔ تھکی ہوئی نظر میں نے آسمان کی طرف اٹھائی۔
ستارۂ زہرا وسیع العرض آسمان پر اکیلا لٹک رہا تھا۔دور پہاڑیوں پر ٹنگی روشنیاں بھی برائے نام دکھائی دے رہی تھیں۔ ہر طرف دھند ہی دھند تھی۔
تھکی ہاری سی میں کمرے کی طرف پلٹی، تو کمرے کا منظر بھی مجھے دھندلایا سا لگا۔ یہ میری آنکھوں کو کیا ہو گیا ہے۔
جینز کا اضافی پانی نچڑ چکا ہو گا۔مجھے اسے استری سے سکھانا بھی ہے وہ بہت نازک مزاج ہیں ۔ذرا سی بھی Uncomfortable چیز انھیں پریشان کر دیتی ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.