برے موسم میں
لالٹین کی روشنی مدھم ہونے لگی۔ اس کا تیل ختم ہورہا تھا۔ شام ہوئے دیر ہوچکی تھی۔ ستمبر کی اداس اور ابر آلود شام۔ ستمبر کی ہر شام اپنے پیچھے گزری ہوئی تمام بارشوں کا بوجھ اٹھائے افسردہ اور تھکی تھکی سی بھٹکا کرتی ہے اور ستمبر کاہر دن آسمان پر سست روی سے بلند ہوتے ہوئے سفیدبادلوں کے حجم کو اس پار سے اس پار پہنچا آتا ہے۔
اس نے آنکھوں سے کالا چشمہ ہٹاکر آسمان کی طرف نظر اٹھائی۔ زیادہ تر آسمان اندھیرا تھا بس ایک ٹکڑے سے کٹا پھٹا سا چاند جھانک رہا تھا۔ اس وقت حبس بےحد ہوگیا تھا اور مطلع بھی ابرآلود تھا۔ مگر یہ روئی کے مانند برف برف سفید بادل تھے اس کا اندازہ کیا جا سکتا تھا۔
’’سفید بلند بادلوں سے بارش نہیں ہواکرتی۔‘‘ لیکن اگر اسی موسم میں ایک بار بارش شروع ہوجائے تو پھرقیامت ہی آجاتی ہے۔ واپس جاتے ہوئے مانسون کے یہ بوجھل اور تھکے ہوئے بادل زلزلے اور سیلاب لایا کرتے ہیں اور دور پہاڑوں پر چٹانیں اپنی جگہ سے کھسکا کرتی ہیں۔
’’آج حبس بھی ہے لیکن ستمبر کے موسم کی پہچان ہے کہ رات میں افسردہ ہوائیں ضرور چلنا شروع ہوجائیں گی۔‘‘
’’بجلی نہیں آئی ابھی تک۔‘‘ اس نے سوچا۔
اس کی ایک آنکھ سے پھر پانی بہنے لگا۔ اس نےکالا چشمہ لگالیا۔ گزشتہ پندرہ بیس دن سے جیسے ہی بارش ہونے کا سلسلہ ختم ہوا تھا اور چلچلاکر دھوپ نکلی تھی ویسے ہی اچانک شہر میں آنکھیں آجانے کی بیماری پھیل گئی تھی۔ تین دن سے لگاتار اس کی آنکھیں بھی بری طرح دکھ رہی تھیں۔ اس کی آنکھیں ایک تو پہلے ہی بے حد چھوٹی اور بے رونق تھیں اور اب دکھ آنے پر سوج کر بالکل ہی سکڑ گئی تھیں۔ سرخی اور کیچڑ آنے کے باعث ان کو دیکھنے سے ہی کراہیت ہوتی تھی۔ اپنے بوسیدہ سے بکس کو کھول کر ان آنکھوں کو چھپانے کے لیے اس نے جو کالا چشمہ تلاش کیا تھا وہ اس کے زمانہ طالب علمی کی یادگار تھااور اب بالکل متروک ہو چکا تھا۔ ایک زمانے میں اس انداز کا چشمہ ایک مشہور فلمی اداکار سے وابستہ تھا اور کالج کے ہر طالب علم کی طرح اس اداکار کی نقل میں اس نے بھی یہ چشمہ خرید لیا تھا لیکن آج اسے آنکھوں پر لگاکر وہ کوئی سستے قسم کا فلمی مسخرہ نظر آتا تھا۔
دیوار میں لگے لوہے کے کنڈے میں زنگ آلود اور ٹپکتی ہوئی لالٹین کی روشنی کچھ اور مدھم ہوئی تو وہ پلنگ کی پائنتی سے اٹھ کر اس میں تیل ڈالنے لگا۔
’’سنو۔ میں ذرا لالٹین میں تیل ڈال رہا ہوں۔ تم آکر بچی کے پاس بیٹھ جاؤ۔‘‘ اس نے بیوی کو آواز دی۔ بیوی باورچی خانے میں تھی، جہاں ایک موم بتی روشن تھی اور ایک اسٹووبھربھرا کر جل رہا تھا۔اس لمبے چوڑےمگر لگ بھگ خالی اور بوسیدہ سے باورچی کانے سے آتی ہوئی اسٹوو کی یہ آواز نہ جانے کیوں اسے بے حد وحشت ناک محسوس ہوئی۔ جلتے ہوئے اسٹوو کے شور میں بیوی نے اس کی آواز نہیں سنی۔ بے حد عجلت اور گھبراہٹ کے ساتھ اس نے لالٹین میں تیل ڈالا اور دوبارہ بچی کے پاس پلنگ کی پائنتی آکر بیٹھ گیا۔ اس نےنہایت آہستگی کے ساتھ بچی کی ایڑیاں چھوئیں۔ ایڑیاں گویا جل رہی تھیں۔ ’’بخار تیز ہو رہاہے۔‘‘ وہ فکرمند ہوگیا۔
چوڑا سا آنگن سونا پڑا تھا۔ حال ہی میں یہاں لگا بیری کاایک بڑا درخت کٹ جانے سےآنگن اور بھی زیادہ بڑا معلوم ہوتا تھا۔ یہ ایک پرانا خستہ حال مکان تھا جس میں بڑا سا آنگن اور چوڑے چوڑے دالان تھے۔ مکان کے ہر حصے میں جو چیز سب سے زیادہ نمایاں تھی وہ یہ تھی کہ چاروں طرف چھوٹے بڑے طاق نظر آتے جو یا تو خالی تھے یا کسی میں کوئی میلا کپڑا، کوئی گلی سڑی چھتری، کوئی زنگ لگا ٹین کا ڈبہ یا ایسی ہی کوئی کباڑ کی شئے رکھی نظر آجاتی تھی۔ دالان کے ہرگوشے میں مکڑیوں کے بڑے بڑے جالے لٹک رہے تھے۔ دیواروں اور فرش کا پلاسٹر جگہ جگہ سے ادھڑ رہاتھا۔ عرصے سے سفیدی نہ ہونے کے باعث اجالے میں بھی یہ مکان تاریک سا نظر آتا تھا۔
اس مکان میں کوئی زینہ نہیں تھا، لیکن دروازے کے بالکل سامنے آنگن میں دیوار سےلگا ایک اونچا سا اینٹوں کابوسیدہ ڈھیر نظر آتا تھا جسے برساتی گھاس نے قریب قریب پوری طرح ڈھک لیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ کسی زمانےمیں یہاں زینہ رہاہو اور اینٹوں کا ہلتا ہوا یہ بوسیدہ ڈھیر اس کی نچلی سیڑھی ہو۔ گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے لگاتار بارش ہونے کی وجہ سے مکان کی چھتیں بری طرح ٹپکتی رہی تھیں اور دیواروں پر چھت کی دراڑں سے بہ بہ کر آنےوالے مٹیالے پانی کی لکیریں جم گئی تھیں۔ چھت کی کڑیوں، شہتیروں اور دروازوں کی چوکھٹ میں دیمک لگ گئی تھی۔ بارش رک جانے پر جب دھوپ نکلی تو مکان کے ہر گوشے کی سیلن بو اور بھاپ بن کر ہر طرف بکھرنے لگی۔ بستر، چادروں، تکیے، پردے اور کپڑے سب سے سیلن کی بو آتی تھی۔ اس وقت بھی بچی کے بستر میں سے سیلن کا ناخوشگوار بھبکا آرہا تھا۔
’’بجلی پتہ نہیں کب تک آئے گی۔‘‘ اس نے پھر تشویش کے ساتھ سوچا۔اس علاقے میں سرشام ہی بجلی چلے جانے کامعمول بن گیا تھا۔ اکثر تمام رات نہیں آتی تھی۔ آس پاس کچھ ذی حیثیت لوگوں کے گھروں سے جنریٹروں کابے ہنگم شور بلند رہتا تھا اور ان کے آلودہ دھویں فضا میں منڈلاتے رہتے۔ مگر آج کہیں کوئی جنریٹر نہیں چل رہا تھا۔ ہر سو خاموشی تھی۔ صرف اسٹوو اپنی مہیب آواز میں جلےجارہا تھا۔یونہی بیٹھے بیٹھے اس نےنگاہ اوپر کی تو تاریک ہوتی چھت کی کائی لگی منڈیر پر ایک جنگلی بلی کسی شکارکی تاڑ لگائے بیٹھی نظر آئی۔
’’ہش۔۔۔ ہش۔۔۔‘‘ وہ اٹھ کر اور ہاتھ ہلاہلاکر بلی کو بھگانے کی کوشش کرنےلگا۔ اسے ڈر تھا کہ اگر بچی نےجاگ کر بلی کو دیکھ لیا تو وہ بے تحاشا خوف زدہ ہوجائے گی۔ ویسے بھی کہتے ہیں کہ اس بیماری میں بری اشیا بچے کے آس پاس منڈلاتی رہتی ہیں۔ اس کے ہش ہش کرنے پربھی جب بلی اپنی جگہ سےنہ ہلی تو وہ فرش پر پڑا اینٹ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا اٹھانے کے لیے جھکا۔ بلی نےاچانک جست لی اور منڈیر کے دوسری طرف کود گئی۔ اس نے ٹکڑا پھینک دیا اور پلنگ پر بیٹھ کراپنی قمیص کے دامن سے آنکھیں صاف کرنےلگا جن میں بری طرح کھٹک ہو رہی تھی اور کیچڑ آرہاتھا۔ تب ہی اسے فرش پر رکھے اپنےننگے پیروں کے پاس گیلے پن کا احساس ہوا۔ اس نےجھک کر غور سے دیکھا بچی نے پیشاب کیا تھا جو پلنگ کے باندھ سے چھن چھن کر فرش پر بہہ رہا تھا۔ وہ حواس باختہ ہوگیا اور تقریباً دوڑتا ہوا باورچی خانےتک پہنچا۔
’’ارے بچی نے پیشاب کردیا ہے۔ جلدی سے اس کا جانگیہ بدل دو۔‘‘
’’آرہی ہوں۔ تم تو بس باتیں بنانے کے لیے ہو۔‘‘ بیوی کی کرخت آواز اسٹوو کے شور میں بھی نمایاں تھی۔
اس کی عینک پھسل کر ناک پر آرہی تھی۔ سارا چہرہ پسینے سے بھیگ گیا تھا۔ وہ واپس بچی کے پاس آکر پائنتی کھڑا ہوگیا۔ اس بیماری میں گیلاپن بالکل نہیں ہونا چاہیے۔ وہ فکرمند ہو رہا تھا۔باورچی خانےمیں جلتا ہوا اسٹوو اچانک خاموش ہوگیا۔ اس کےخاموش ہوتے ہی گھر میں ایک مہیب سناٹالوٹنے لگا۔ جب اس کی بیوی بچی کاجانگیہ بدل رہی تھی تو وہ بھاگ کر لالٹین وہیں اٹھا لایا۔ بچی نے سوتے میں کلبلاکر اچانک ایک طرف کروٹ لے لی۔ اس کے سرہانے رکھی نیم کی ٹہنیاں زور زور سے سرسرائیں۔
’’لالٹین اس کے منہ پر سے تو ہٹاؤ۔ جاگ جائے گی۔‘‘ بیوی ناخوش گوار لہجے میں بولی۔ وہ لالٹین لے کر تھوڑا پیچھے ہٹ گیا لیکن اس کی روشنی میں بچی کے منہ، ہاتھ اور پیروں پر ابھرے ہوئے ننھے ننھے لال دانے صاف دیکھے جاسکتے تھے۔ پھیکی پھیکی روشنی میں فرش پر نیم کی ٹہنیوں کاسایہ پڑ رہا تھا۔
’’دانے بڑھ گیےہیں۔‘‘ بیوی خودکلامی کے انداز میں بڑبڑائی۔
لالٹین کی روشنی میں ان دونوں کی جھکی ہوئی پرچھائیاں دیوار پر لرز رہی تھیں۔ آج سے چار دن قبل بچی کو بخار آیا تھا ۔بخار سے پہلے اس تمام دن وہ بار بار روتی اور چڑچڑاتی رہی تھی۔ اس دن اسے پوری آستین کافراک پہنایا گیا تھا ۔اس نے خیال کیاکہ شاید اسی لیے وہ گھبرا رہی ہے۔ اسے جب بھی پوری آستین کافراک یا سوئیٹر پہنایا جاتا وہ بے حد مچلتی۔ اپنے دونوں ہاتھ بے چارگی کے عالم میں اس طرح ڈھیلے چھوڑ دیتی جیسے ان میں جان ہی نہ باقی رہی ہو اور اس کی آنکھوں سےایک قسم کی اذیت کااحساس مترشح ہوتا رہتا تھا۔ بچی کی ماں اس عادت سے بہت جھنجھلایا کرتی تھی اور اکثر غصے میں اسے زور سے پلنگ پر پٹک دیا کرتی تھی۔ مگر دراصل بچی کو یہ عادت اپنے باپ سے ورثے میں ملی تھی۔
اماں اسے بچپن میں کسی بادشاہ کی داستان سنایا کرتی تھیں جس کے کاندھوں پر دوسانپ اگ آئے تھے اور جب تک ان کو انسانی گوشت کی خوراک نہ دی جاتی وہ بادشاہ کے کاندھوں کو جکڑے رہتے۔ پوری آستین کی کوئی بھی چیز یا جرسی پہن لینے پر اسے بچپن میں ایسا ہی احساس ہوتا تھا۔ وہ اپنے بازوؤں کو اس طرح لٹکائے رکھتا جیسے وہ مفلوج ہوگیے ہوں اور اس کی آنکھوں سے لگاتار آنسو جارہی رہتے۔ تب اماں کو مجبور ہوکر اسے آدھی آستین کا سوئٹر ہی پہنانا پڑتا۔ لیکن یہ سب اس نے بیوی سے کبھی نہیں کہا تھا۔
جب بھی بچی اس حال میں رونے اور گھبرانے لگتی وہ جلدی سے بچی کے کاندھوں کو آہستہ آہستہ سہلانے لگتا۔ مگر اس بار بچی کو آدھی آستین کا فراک پہنادینے پر بھی اس کی چڑچڑاہٹ میں کوئی کمی نہ واقع ہوئی تھی مگر خلاف توقع اس دن وہ کسی بھی کھلونے سے کھیلے بغیر سرشام ہی سوگئی تھی۔ رات کو بے خبر سوتے سوتے اچانک اس کاجسم جیسے جلنے لگا۔ وہ دھیرے دھیرے کراہ رہی تھی۔ اس کے کراہنے سے ماں کی آنکھ کھل گئی اور وہ اسے تھپک تھپک کر سلانے کی کوشش کرنے لگی۔ لیکن بچی تمام رات بخار میں پھنکتی اور کراہتی رہی۔ اس کی ماں نے اٹھ اٹھ کر کئی بار گھبراہٹ کی کیفیت میں سل کے پتھر، مرچوں اور پانی کے بھرے لوٹے سے اور نہ جانے کن کن جانے اَن جانے لوگوں کا نام لے کر بچی کی نظر بھی اتاری لیکن اس کی بے چینی اور بخار میں تمام رات کوئی کمی نہ واقع ہوئی۔
جب صبح ہوئی تو اسے ڈاکٹر کو دکھایا گیا جس نے گلے کی غدود میں سوجن کاآجانا تشخیص کیا۔ بچی ابھی صرف پندرہ ماہ کی ہی تھی۔ دوا پینے میں وہ بے حد چلاتی تھی۔ مگر اس بار جو اس نے رونا اور چلانا شروع کیا، اس سے ان دونوں کے ہاتھ پیر پھول گیے۔ وہ سوتے سوتے جاگ کر اچانک اس طرح چیخنا شروع کردیتی جیسے کوئی جانور سخت قسم کی تکلیف میں آوازیں نکالتا ہے۔ اس کی ماں اسے آنگن میں کچھ اس طرح گود میں لے کر ٹہلا کرتی جس سے بچی کا سر اس کے سینے میں بالکل چھپ کر رہ جاتا ساتھ ہی وہ برابر کوئی لوری بھی سناتی رہتی۔ صرف گود میں لینے کے اس خاص انداز سے ہی بچی کو کچھ سکون سا مل جاتا تھا۔ اور وہ دوبارہ غافل سی ہونے لگتی۔ لیکن جیسے ہی اسے پالنے یا بستر پر لٹایا جاتا، ویسے ہی وہ دوبارہ وحشت ناک آوازوں میں چیخنے لگتی۔ اس کی بیوی تھک کر اور پریشان ہوکر اسے چھوڑ دیا کرتی۔
ایسے وقت میں وہ بچی کو اس طرح گود میں لینے کی کوشش کیا کرتا جس طرح اس کی بیوی لیا کرتی تھی اور گھبرائی ہوئی آواز میں وہی لوری بھی سنانے کی کوشش کرتا۔ لیکن اس سے بچی کی چیخیں اور بڑھ جاتیں اور وہ ماہی بے آب کی طرح اس کی گود میں تڑپنے لگتی۔ یہ دیکھ کر اس کی بیوی غصے اور گھبراہٹ کی ملی جلی کیفیت میں اس کی طرف جھپٹتی اور بچی کو اس کی گود سے چھینتی ہوئی کہتی کہ اس کی اس پھٹی پھٹی اور بھدی آواز میں لوری لگانے سے تو وہ اور بھی خوفزدہ ہورہی ہے۔بیماری سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ جب بھی بچی روتی تھی وہ بہت کامیابی کے ساتھ اسے بہلالیا کرتا تھا حالانکہ اس سے پہلے اسے اس قسم کا کوئی بھی تجربہ نہیں تھا۔
یہ بچی ان کی شادی کے ٹھیک سترہ سال بعد پیدا ہوئی تھی۔ اس کے سر کے تمام بال پک چکے تھے اور بدن پر چربی کی ایک بھدی سی تہ چڑھ آئی تھی۔ زیادہ چلنےپھرنے سے اس کی سانس بھی پھولنے لگی تھی لیکن یہ وثوق کے ساتھ کہہ پانا مشکل تھا کہ ایسا صرف اس کی بڑھتی ہوئی عمر کے باعث ہی تھا۔ ہوسکتا تھا کہ اس کی وجہ اس کے تمام عمر کے ناکارہ پن اور غیرصحت مند خیالات ہی رہے ہوں۔
بچی کی پیدائش کے بعد اس کی زندگی میں صرف ایک اہم تبدیلی واقع ہوئی تھی اور وہ یہ تھی کہ اب اس کے لیے دن دن بھر سوپانا ممکن نہیں رہتا تھا ۔وہ دوپہر کو سونے کابڑا شائق تھا اور قریب قریب تمام دن ہی سوتا یا اونگھتا رہتا تھا۔ اس قدر سونےکے باوجود بھی اسے رات میں نیند آنے میں کوئی دشواری نہ آتی تھی لیکن بچی کی پیدائش کے بعد وہ اس سلسلے میں حتی الامکان اتنا چاق و چوبند رہنے لگا تھا کہ بمشکل تین چار گھنٹے ہی سوپاتا تھا۔
بچی جب بہت چھوٹی تھی اور مچل کر رویا کرتی تھی تو وہ اسے زور زور سے لوری سناناشرور کردیتا تھا لیکن دراصل یہ لوری نہیں ہوتی تھی۔ وہ مضحکہ خیز انداز میں اور پھوہڑ پن کے ساتھ محص ایک لفظ ’’ارے واہ‘‘، ’’ارے بھئی واہ‘‘ کی گردان کیے جاتا اور بچی کے پالنے کو جھونکے دیے جاتا۔ بچی اپنی معصوم اورشفاف آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈال دیتی اور جیسے کچھ بھونچکی سی ہوکر اس بے معنی اور مضحکہ خیز لفظ کو سنےجاتی، وہ بغیر سانس روکے جھوم جھوم کر کہے جاتا۔ آہستہ آہستہ جیسے کسی پراسرارسحر کے تحت بچی کی آنکھیں بندہونے لگتیں اور وہ واقعتاً سوجاتی۔ بچی کے سوتے ہی نہ جانے کیوں اس کامعصوم چہرہ اسے بہت اداس سا نظر آنےلگتا اور دیواروں میں دبکا ہوا سناٹا باہر کی طرف رینگتا ہوا محسوس ہوتا۔ اس سناٹے سے گھبراکر وہ پھر بھی دیر تک ’’ارے بھئی واہ‘‘ کی گردان کیے ہی جاتا۔
مگر یہ لوری نہیں تھی۔ اس کی آواز میں وہ نرمی، گھلاوٹ اور ممتا نہیں تھی اور وہ پرسکون خوابناک لہجہ غائب تھا جس سے لوری تشکیل ہوتی ہے۔ یہ کوئی خطرناک اور بری چیز تھی ،اس کا احساس اکثر اسے ہواکرتا تھا۔
کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا جب مقصد بچی کو سلانانہیں بلکہ بہلانا ہوا کرتا تھا ایسےوقت وہ بچی کو پلنگ پر لٹا دیا کرتا اور خود پلنگ کے چاروں طرف تھل تھل کرتا پھوہڑپن سے تھرکتا رہتا۔ ان لمحات میں وہ ایک انسان سے زیادہ ایک بے ڈول، بدہیئت تماشہ دکھانے والا بھالو نظر آتا جو صرف اس امید پر بدسلیقگی سے اچھل کود کر رہا ہوتا کہ اگر کوئی تماشائی اس کے فن اور صلاحیت کی داد نہ بھی دے تب بھی کم از کم ہنس ضرور سکتا تھا۔ اس کی یہ کوشش بھی کامیاب ثابت ہوتی اور بچی اچانک کلکاریاں مارنے لگتی تھی۔ لیکن اس اچھل کود میں اس کی سانس بہت پھول جایا کرتی۔ سینہ دھونکنی کی طرح چلنےلتگا۔ پاجامہ کھسک کر زیرناف آجاتا۔ کمر بند باہر لٹکنے لگتا اور وہ قابل رحم حدتک مضحکہ خیز نظر آنے لگتا۔ اسے اس حلیے میں دیکھ کر بیوی اکثر اسے ایک تھل آدمی کا طعنہ دیا کرتی تھی جسے ناچنا تو دور سلیقے سے اچھلنا کودنا بھی نہ آتا تھا۔ تب وہ جھینپ مٹاتے ہوئے اکثر یہ کمزور سا جواز پیش کرتا کہ اس اچھل کود کے بہانےدراصل اس کی ورزش اچھی ہو جاتی ہے جو اس کے ذیابطیس کے مرض کے لیے بہت مفید ہے۔
لیکن اس بیماری میں اس کی کوئی بے تکی، اول جلول اور مضحکہ خیز حرکت یا کوشش بار آور نہ ہوسکی تھی۔ بچی سوتے میں چونک اٹھتی اور بری طرح گلا پھاڑنا شروع کردیتی، پھر کسی طرح خاموش ہونے کا نام نہ لیتی۔ تمام دواؤں کے باوجود اس کا بخار ایک پل کو بھی کم نہ ہوا۔ اس کی پیٹھ اور ماتھا اس شدت سے گرم ہوتے کہ گویا ان پر چنے بھونے جا سکتے تھے۔ لیکن اصل مسئلہ ان دردناک اور وحشت ناک چیخوں کا تھا جو اچانک سوتے سوتے شروع ہوجاتی تھیں۔ اس درمیان بچی نے دودھ بھی منہ میں لینا چھوڑ دیا تھا۔ تب اس کی بیوی نے کہا تھا کہ کسی مولوی سے تعویذ لاؤں گی کیونکہ یہ چیخنا بے سبب نہیں ہے۔ اور نہ ہی یہ عام قسم کا رونا معلوم ہوتا ہے یہ تو کوئی اور ہی بات لگتی ہے جیسے بچی پر کوئی اثر ہوگیا ہو۔
اس کی بیوی ایک پرائمری اسکول میں پڑھاتی تھی اور آدھے دن سے زیادہ گھر سے باہر رہتی تھی۔ وہ خود آج کل کچھ نہیں کرتا تھا۔ دوسال پہلے اس نے بچوں کی کاپی کتابوں کی ایک معمولی سی دوکان کھولی تھی لیکن وہ چل نہ سکی تھی۔ بچی کی پیدائش کے بعد سےبیوی نے اسکول سے لمبی چھٹی لے رکھی تھی، لیکن اب آگے چھٹی ملنا مشکل تھا۔ وہ اس بات سے جھلایا کرتی کہ نہ تو وہ اس قابل تھا کہ بیوی کی غیرحاضری میں بچی کو قاعدے اور سلیقے سے رکھ سکے اور نہ ہی اتنی کم آمدنی میں کسی عورت یا لڑکی کا انتظام کیا جا سکتا تھا جو بچی کی دیکھ بھال کرسکے۔
بیوی شام کو کہیں سے کوئی تعویذ لے آئی تھی لیکن تعویذ گلے میں ڈالنے کے بعد بھی بچی کی حالت میں کوئی تبدیلی نہیں واقع ہوئی۔ وہ اسے بخار میں جلتی ہوئی تیسری رات تھی اور اس رات بچی کو پہلے سےزیادہ بخار رہا اور وہ برابر بے چین رہی۔ اس رات مکان کی کائی لگی منڈیروں پر آوارہ بلیاں روتی اور لڑتی پھریں۔
وہ شاید فجر کا وقت رہا ہوگا جب انہوں نے بچی کو قدرے سکون کے ساتھ سوتا پایا۔ اس کا نچلا ہونٹ کچھ آگے ابھر آیا تھا اور وہ دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں باندھے سیدھے لیٹی سو رہی تھی۔ اس کی سانس کے انداز سےمعلوم ہوتا تھا کہ یہ نسبتاً گہری نیند تھی۔ اس کے جسم کو چھونے سے بخار بھی کم محسوس ہوا۔ بیوی نے راحت کی سانس لی اور بچی کے برابر لیٹ گئی وہ خود بھی برابر کے پلنگ پر آڑا آڑا دراز ہوگیا۔ ہلکی سی غنودگی کے عالم میں اسے بار بار یہ محسوس ہوتا رہا جیسے پلنگ کی سمت مخالف ہوگئی ہو۔
پوپھٹے زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ وہ گھبرا کر آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا۔ دکھتی آنکھوں میں کیچڑ آنے کے باعث پلکیں چپک گئی تھیں۔ بڑی مشکل سے وہ آنکھیں کھول پایا۔ اس نے بچی کی طرف نظر ڈالی اور اس کا جی دھک سے ہوگیا۔ صبح کی سفیدی میں بچی کے سانولے جسم پر ننھے ننھے لال دانوں کا ایک جال سا بکھرا ہوا نظر آیا۔ ہاتھ، پیر، چہرہ، بھنویں، آنکھوں کے حلقے، پپوٹے، پیٹھ اور کانوں کے پیچھے دانے ہی دانے تھے۔ بچی کا چہرہ سرخ ہوکر ببھرا گیا تھا۔ اس نے تقریباً جھنجھوڑتے ہوئے بیوی کو اٹھایا۔
’’دیکھو۔۔۔ دیکھو۔۔۔‘‘ اس نے بچی کے جسم پر پھیلے دانوں کی طرف اشارہ کیا۔ وہ بھی د یکھ کر گھبرا گئی۔
’’میری بچی۔۔۔ یہی تکلیف تو تھی اسے۔ یہی تو کھولن پڑی تھی اندر۔ اسی لیے بخار نہیں اتر رہا تھا۔ خدا خیر کرے۔ کیسے بھرے پڑے ہیں۔‘‘ وہ بچی کے ماتھے پر آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرتے ہوئے فکرمند لہجے میں کہہ رہی تھی۔
’’ٹیکہ تو لگوایا تھا‘‘ وہ مجرمانہ انداز میں آہستہ سے بولا۔
’’کچھ نہیں ہوتا ٹیکے ویکے سے۔ یہ سب ہمارے اوپر عذاب خدا ہے۔‘‘
بیوی نے ایک جھٹکے کے ساتھ اس کی طرف دیکھا۔
’’آج کل پھیل بھی بہت رہی ہے۔ آس پاس کئی گھرو ں میں بچوں کونکل چکی ہے۔ دراصل یہ موسم ہی خراب ہے۔‘‘ وہ بے خیالی میں بولا۔
’’یہ سب تمہارا ہی کیا دھرا ہے۔‘‘ بیوی نے اسے گھورا۔ کچی نیند سےاچانک جاگ جانے کے باعث بیوی کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں لیکن اسے یہ آنکھیں بے حد پرائی اور نامانوس نظر آئیں۔ ان آنکھوں کو وہ زیادہ دیر تک دیکھ نہ سکا اور اس نے خود کو ایک ناقابل بیان تشریح قسم کے احساس جرم سے جکڑا پایا۔
’’میرا کیا دھرا۔۔۔؟‘‘
’’ہاں تمہارا۔ جب بھی دونوں وقت ملتے تم اسے دروازے پر لے جاکر کھڑے ہوجاتے تھے۔‘‘
’’لیکن میں تو اسے بہلانے کے لیے کھڑا ہوجاتا تھا۔‘‘ وہ زبردستی مسکراہٹ چہرے پر لاتا ہوابولا۔ حالانکہ اسے بخوبی علم تھا کہ ایسے موقع پر یہ مسکراہٹ صرف ایک احمقانہ فعل کا درجہ رکھتی تھی۔
’’بہلا تو تم سب کو رہے ہو۔نہ جانے کب سے۔ صرف یہی ایک ایسا کام ہے جسے تم مہارت کے ساتھ انجام دے سکتے ہو۔‘‘ بیوی کے لہجے میں طنز کے ساتھ بھولی بسری شکایتیں بھی عود کرآئی تھیں۔ لیکن ان شکایتوں کی سطح معمولی اور روایتی قسم کی نہیں تھی۔ اس میں وجود کے پرزے پرزے کردینے والے کسی ناقابل تلافی نقصان کا احساس شامل تھا۔
اس نے دکھتی آنکھوں پر کالی عینک لگا لی۔
دن چڑھ آیا۔ دھوپ منڈیر سے سرک کر آنگن میں چلی آئی۔ دھوپ کی چمک میں بچی کے جسم پر ابھرے یہ خشخاش جیسے سرخ دانے اور بھی زیادہ چمکدار او رگھنے نظر آنے لگے۔
’’اندر کا سارادہ باہر نکل آنا چاہیے۔ اب کوئی دوا نہیں دی جائے گی۔‘‘ اس نےیقینی لہجے میں کہا۔
بیوی نے اس کی بات پر کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ بچی کےبال سہلارہی تھی۔ اس نےزبردستی بات آگےبڑھانا چاہی۔ ’’جانتی ہو ان دانوں کا اصل نام۔۔۔‘‘
’’بس بس۔ نام لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے ہی آج کل گھر میں بڑی خیر وبرکت ہے۔‘‘ وہ اس کی بات کاٹتے ہوئے خشمگیں لہجے میں بولی۔
اس کی بیوی درمیانے قد کی سانولی رنگت لیے ہوئے بھاری بھرکم سی عورت تھی۔ اس کا چہرہ یوں تو بالکل معمولی تھا لیکن ناک کے چوڑی اور قدرے بیٹھی ہوئی ہونے کے باعث اس کی شخصیت میں ایک قسم کی جنسی بے باکی کا گمان گزرتا تھا۔ اس چہرے کی سطح کے نیچے ایک سوئی سوئی سی شہوت کے نقش اکثر نمایاں ہوجاتے جنہیں دیکھ کر دہشت کا احساس ہوتا تھا۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ اس میں دیکھنے والے کی اپنی نظراور ذہنیت کا دخل ہی کارفرما ہو۔ اس کا دہانہ چوڑا تھا اور ہونٹ فربہ تھے جن کو وہ اس وجہ سے زیادہ تر آپس میں بھینچے رکھتی تھی کہ اس کے دو دانت باہر کو ابھر آئے تھے۔ اس کے ہونٹوں کارنگ غیر معمولی طور پر سرخ تھا جس کی تہہ کے نیچے سے ایک دھندلی سی سفیدی اکثر اوپر ابھرتی دکھائی دیتی۔ اس کے سانولے چہرے پر یہ عجیب رنگت او رساخت لیے ہوئے ہونٹ نہ صرف اجنبی اور بے میل نظر آتے تھے بلکہ یہ اپنے اندر اس کے تمام وجود سے ماورا کسی ایسی شئے کا بھی سراغ دیتے تھے جو قطعی ناقابل فہم اور ساتھ ہی پراسرار بھی تھی۔
بچی جاگ گئی تھی اور منہ بگاڑ کر رونے لگی تھی۔ اس نے ہاتھ بڑھاکر اسے گود میں لینا چاہا مگر اس کی بیوی نے اس کاہاتھ جھٹک دیا۔
’’دور ہٹو۔۔۔ پتہ ہے اس بیماری میں کتنی احتیاط کی ضرورت ہے۔‘‘ بیوی نے بچی کو اپنی گود میں لے لیا۔وہ شرمندہ ہوکر پیچھے ہٹ گیا مگر پھر فوراً ہی دھیرے دھیرے سے کھنکارتے ہوئے بولا، ’’یہ دانے فجر کے وقت ظہور میں آتے ہیں اماں کہتی تھیں۔‘‘
’’فجر کے وقت۔‘‘ بیوی نے اس کی طرف تشریح طلب نظروں سےدیکھا، مگر وہ کہیں اور دیکھ رہا تھا۔
فجر کے وقت یہ دانے جلد اور لہو کی اتھاہ گہرائیوں سےنکل کر جسم پر نمودار ہوتے ہیں۔ ساری جان کھینچ لینے کے بعد ان ننھے ننھے دانوں کاوجود کسی بھیانک اور نحس تخلیق سےکم نہیں ہوتا۔ اماں کہاکرتی تھیں کہ دانے نکل آنے کے بعد اس لیے بخار کچھ کم ہوجاتا ہے مگر خطرہ نہیں ٹلتا۔ بری ہوائیں اور آسیبی طاقتیں بچے کو گھیرے رہتی ہیں۔ اس نے سوچا۔
’’خدا کاحکم ہے۔ ٹیکہ بھی لگوایا تھا اور میری امی اس کے پیدا ہوتے ہی سورہ رحمٰن شریف کاگنڈا بھی گلے میں ڈال گئی تھیں پھر بھی ہونی کو کون روک سکتا ہے۔‘‘ بیوی آہستہ آہستہ بڑبڑانے لگی۔
’’سورہ رحمٰن شریف کے گنڈے سے کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’شیطانی قوتیں اور ناپاک چیزیں دور رہتی ہیں۔‘‘ بیوی نے کچھ اس طرح ہونٹ بھینچے ہوئے جواب دیا تھا کہ ایک پل کے لیے اس کے ہونٹوں کی وہ دھندلی اور مبہم سفیدی سارے چہرے پر رینگتی نظر آئی۔ اس کے لیے اس چہرے کو غور سے دیکھ پانا ممکن نہ تھا۔ پھر ایک بار اسے کسی سنگین مگر بے معنی احساس جرم کا شدید اور واضح ادراک ہوا۔
’’ازالہ ممکن نہیں۔‘‘ کوئی اس کے اندر تاسف کے ساتھ بڑبڑایا۔
’’سنو!‘‘ اس کی بیوی کہہ رہی تھی۔
’’پڑوس سے جاکر نیم کی ٹہنیاں اور پتے لے آؤ۔ آج پہلا ہی دن ہے ابھی یہ دانے اور ابھریں گے۔ خدا اپنا رحم کرے میری پھول سی بچی۔‘‘ اس کی آواز رندھ آئی تھی۔بے اختیار چاہا کہ وہ پیار سے بیوی کا ہاتھ تھام لے اور اسے تسلی دے۔ لیکن تب ہی اسے خیال آیا کہ یہ رندھی ہوئی آواز دیر تک بچی کو ’’آآ‘‘ کر کے بہلاتے رہنے کا نتیجہ رہی ہوگی۔ وہ مایوسی کے ساتھ آسمان کی طرف دیکھنے لگا جہاں ایک اداس اور تنہا چیل سست روی سے تیر رہی تھی۔ تھوڑی دیر خاموش رہنےکے بعد اس کا دل پھر کوئی بات کرنے کے لیے چاہا۔
’’اماں کہتی تھیں۔۔۔ جب بیماری کا کوئی مریض گھر میں ہو تو گوشت نہیں پکانا چاہیے اور کسی بھی قسم کابگھار نہیں لگانا چاہیے۔‘‘ بیوی نے اس کی طرف تیکھی نظروں سے گھورا، ’’مجھے ان دقیانوسی باتوں کا کوئی علم نہیں، نہ میرے گھر میں کسی کے اس قسم کے جاہلانہ خیالات تھے۔‘‘
’’نہیں دراصل بزرگ اس بیماری کو آسیب سے ملتی جلتی کوئی شئے سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ گوشت وغیرہ پکنے سے اس کی شیطانی قوت میں اضافہ ہوجاتا ہے۔‘‘
’’تم ہی کو روزگوشت چچوڑنے کا شوق ہے۔ مجھے کیا سمجھا رہےہو۔‘‘ بیوی بےزار تھی۔وہ جواب میں کچھ نہ کہہ سکا۔ دیر سے آسمان کی طرف دیکھتے رہنے کے باعث دھوپ کی چوندھ سے اس کی آنکھو ں میں پانی بھر آیا۔ وہ چشمہ اتارکر قمیص کے میلے دامن سے پانی صاف کرنےلگا۔
’’اب یہی کسر رہ گئی ہے۔ اگر بچی کی آنکھیں بھی دکھنے لگ گئیں تو۔۔۔‘‘
’’اس سے تھوڑا دور رہو۔ اور کم از کم اپنی آنکھوں کو پانی سے دھو ہی ڈالو۔‘‘
بچی ماں کی گود میں سو گئی تھی۔
وہ نل پر آنکھیں دھونے جھک گیا۔ ٹھنڈے پانی سےاچھی طرح آنکھیں دھولینے کے بعد اسے کچھ اور نہیں سوجھا تو وہ نل کے پائپ میں لگی کائی کو صاف کرنے لگا۔ ٹونٹی پر پیلی بھڑیں آکر اکٹھا ہونےلگیں۔ اس نے اپنی ایک چپل اتار کر ہاتھ میں لے لی اور آگے پیچھے دوڑ دوڑ کر ڈرتے ہوئے بھڑوں کو کچلنے کی کوشش کرنےلگا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ سب بالکل بے معنی اور فضول ہے لیکن جھینپ مٹانےکے لیے یہ لایعنی حرکات اشد ضروری تھیں۔
اس شام بچی کا بخار کافی کم رہا۔ اس نے تھورا سادودھ پیا اور اپنے بستر پر بیٹھ کر بساط بھر کھیلنے کی کوشش کی۔ بستر پر اس کے کھلونےڈال دیے گیے لیکن وہ بجائے کھلونوں کے وہاں بکھرے ہوئے نیم کے پتوں اور ٹہنیوں سے کھیلنے لگی۔ نیم کی ایک ٹہنی ہاتھ میں لے کر بچی نے اس کے سر کو چھوا۔ وہ خوشی سے بے قابو ہوا ٹھا۔ بچی کمزوری کے عالم میں بھی اس کی قمیص کا دامن پکڑ کر بستر پر کھڑی ہوگئی اور چار پانچ دن کے عرصے میں شاید پہلی بار تتلاتے ہوئے بولی، ’’آ۔۔۔ گیے۔ آ۔۔۔ گیے۔‘‘
وہ جب بھی باہر سے گھرمیں داخل ہوتا تھا بچی اسے دیکھ کر تتلاتے ہوئے کہتی تھی، ’’آ۔۔۔گیے۔۔۔ آگیے۔‘‘ وہ اسی لفظ پر نہال ہوجایا کرتا تھا۔ لیکن بہت ممکن تھا کہ یہ لفظ اسی کے باہر سے گھر میں داخل ہونے کی وجہ سے بچی کے منہ سے نہ ادا ہوتا ہو بلکہ بچی نے اسے باپ کے نام یا شناخت کے بطور سیکھ لیا ہو یا پھر خود اس کے کانوں نے ایک بے معنی آواز کومعنی کاجامہ پہنا دیا ہوا۔ اس شام اس نے بچی کو گود میں لے کر گھوڑا دوڑنے کی نقل میں منہ سے ’’ٹک ٹک‘‘ کی آوازیں نکالیں اور پھر باقاعدہ جھک کر گھوڑا بنتے ہوئے آنگن میں دوڑ کر بھی دکھایا جس پر بچی مستقل ’’آگیے۔۔۔ آگیے۔‘‘ کہتی رہی اور درمیان میں کلکاریاں بھی مارتی رہی۔ لیکن جیسے جیسے رات بڑھتی گئی ویسے ویسے بچی کا بخار دوبارہ بڑھنے لگا۔ اور وہ پھر خوف زدہ ہوکر بری بری آوازیں نکالتے ہوئے رونے لگی۔
’’بیمار بچی کو تھکاکر رکھ دیا۔ پھر اس کی حالت بگڑ گئی۔‘‘ اس کی بیوی اچانک اعصاب زدہ آواز میں چلائی اور بچی کو گود میں لے کر تیز تیز قدموں سے دالان اور آنگن کے درمیان چکر لگانے لگی۔
دیر تک گھوڑا بن کر بچی کو ٹہلانےسے وہ ریڑھ کی ہڈی میں دکھن محسوس کر رہا تھا۔ وہ شرمندہ شرمندہ سا پلنگ کی پائنتی پر بیٹھا تو خود کو اس نے کچھ زیادہ ہی جھکا ہوامحسوس کیا۔ کمر جیسے سیدھی نہ ہوتی تھی۔ اس نےسوچا۔ وہ ٹھیک ہی کہتی ہے۔ اس نےتاسف بھری نظروں سے اپنے پیٹ کی طرف دیکھا تو قمیص پر جگہ جگہ سالن کےخشک دھبے بھی نظر آئے جو کھانا کھانے کے سلسلے میں اس کی جلد بازی اور بدتمیزی کا ثبوت تھے۔ لیکن وہ بھی مجبور تھا۔ آج کل جب بھی وہ کھانا کھانے بیٹھتا نہ جانے کہاں سے اماں پاس آکر بیٹھ جاتیں اور ڈلیہ میں سے نکال نکال کر اس کے ہاتھ میں روٹیاں دیتی ہی رہتیں۔ وہ آگے جھک جھک کر اور ہل ہل کر بغیر رکے کھانا کھاتا رہتا۔ جب اماں کا انتقال ہوا تھا تب وہ صرف سترہ برس کا تھا۔ اماں کو ہڈی کی دق ہوگئی تھی اور مرنے سے پہلے ان کی ریڑھ کی ہڈی کے تمام گریے گل گیے تھے۔
تھوڑی دیر میں بچی خاموش ہوگئی۔ بیوی نےاسے پلنگ پر لٹادیا اور خود بھی اس سے لگ کر وہیں بیٹھ گئی۔ وہ خود اسی طرح پلنگ کی پائنتی پر جھکا ہوا بیٹھا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نےسر اٹھا کر بیوی کی طرف دیکھا۔ وہ بچی کے قریب کچھ اس انداز سے بیٹھ گئی تھی جس سے بے چارگی کااظہار ہوتا تھا۔
ہلکی سی ہوا چلنے لگی تھی۔ گملے میں لگا پودا ہلنے لگا جس کے سائے میں بیوی کے ہونٹ اور آنکھیں بار بار نگاہ سےاوجھل ہوتے محسوس ہوئے۔ بیوی کا یہ چہرہ اسے بہت اترا ہوا، کمزور اور نامکمل سالگا۔ نہ جانے کیوں اس ایک پل میں اسے اپنی سوتی ہوئی بچی اور بیوی کے درمیان ایک ناقابل یقین قسم کی مشابہت نظر آئی۔ اس کے سینے میں ایک عجیب اور تشریح کے ناقابل جذبہ مچلنےلگا۔ شایدید جذبہ ممتا اور ہمدردی سے ملتی جلتی کوئی شئے رہا ہو۔ اس جذبے سے مجبور ہوکر اس نے اپنا دایاں ہاتھ بیوی کے سرپر رکھنے کے لیے بڑھایا۔ وہ دراصل دیکھ اپنی سوتی ہوئی بچی کو رہاتھا اسی لیے شاید اس سے اندازے کی غلطی ہوگئی یا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس نےاس طرف کوئی خاص توجہ ہی نہ دی ہو۔ وہ ہاتھ بجائے بیوی کے سر کے اس کے سینے اور گردن کے نچلے حصے کو ہلکا سا رگڑتاہوا گزر گیا۔ کنوار کے مہینے کا پھیکا پھیکا چاند آتے جاتے بادلوں میں الجھا ہوا تھا۔ ایک کرن نہ جانے کس زاویے سے پڑرہی تھی کہ اس کی بیوی کے کان کا اک معمولی سا بندا ہیرے کی طرح دمکنے لگا۔
’’کیا ہے۔۔۔؟ یہ بھی کوئی موقع ہے۔‘‘ بیوی نے پوری طاقت کے ساتھ اس کا ہاتھ جھٹک دیا۔
’’نہیں نہیں۔۔۔‘‘ وہ بری طرح شرمندہ ہوگیا۔
’’میرا وہ مطلب۔۔۔ نہیں تھا میں تو۔‘‘ اس نے لکنت بھری آواز میں صفائی پیش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ٹھیک اسی وقت اسے احساس ہوا کہ اس درمیان دیر سے اس کا دوسرا ہاتھ اپنے پسینے سے چپچپاتے ہوئے نچلے بدن کو بےخیالی میں کھجاتا بھی رہا ہے۔ وہ غیرت سے گویا زمین میں گڑ گیا۔ تب اس نے محسوس کیا کہ بیوی کی آنکھوں میں اس کے لیے اس وقت تیکھی قسم کی نفرت سے ملتی جلتی کوئی شئے عود کر آئی تھی۔ ہوا پھر بند ہوگئی۔ حبس اپنی انتہا پر تھا۔ گملے میں لگے پودے کے سائے کے ساکت ہوجانے سے بیوی کی آنکھیں اور ہونٹ پھر نمایاں ہوگیے۔
’’نہیں ازالہ ممکن ہی نہیں ہے۔‘‘ پھر کوئی اس کے اندر بہت مایوس ہو اٹھا۔ اس رات بھی بچی بہت تیز بخار میں جلتی رہی۔ وہ صرف دس دس منٹ کے لیے سوتی اور پھر جیسے کسی شئے سے خوف زدہ ہوکر اچھل اچھل پڑتی اور بے حد چیخ چیخ کر رونے لگتی تھی۔ لیکن گزشتہ شب کی طرح اس رات بھی فجر کے وقت اسےکچھ سکون مل گیا جیسے ان ڈراؤنے خوابوں کا کابوسی سلسلہ رک گیا ہو یا دھیما ہوگیا جس سے پریشان ہوکر بچی تمام رات دل ہلادینے والی اذیت ناک آواز میں چلاتی رہی تھی۔
دوسرے دن اس کابخار کم تھا۔ بدن بہت پسیجا ہواسا ہو رہاتھا۔ لیکن ساتھ ہی دانوں کی تعداد اور ان کے گھنے پن میں اضافہ ہوگیا تھا۔ ان کی سرخی اور چمک کے خدوخال بدل گیے تھے۔ چہرہ کچھ پھولا ہوا سا اور گال لٹکے سے نظر آنےلگے تھے۔ اپنی پیدائش سے لے کر شاید پہلی بار بچی کایہ چہرہ اپنی ماں کے مقابلے باپ سےزیادہ مشابہ محسوس ہوا۔ وہ بے اختیار نیم کے پتوں سےاس کا دانوں بھرا جسم سہلانے لگا۔ کل رات بھی فجر کے وقت ہی یہ دانے بڑھے ہوں گے۔ اسی لیے بخار کم ہوگیا ہے۔ اماں کہا کرتی تھیں کہ فجر کے وقت فلک پر سارے ستاروں کی قلب ماہئیت ہوجاتی ہے اور وہ سچے موتی بن جاتے ہیں۔ اس بیماری میں سچے موتی بھی کھلائے جاتے ہیں اگرچہ لوگ انھیں ایک دوا ہی سمجھتے ہیں مگر یہ دوا نہیں ہیں۔ فجر کے وقت جب وہ مادہ خون کی خلیوں سے نکل باہر آتا ہے تو موتی دانوں کی حفاظت کرتے ہیں اور پھر فلک پر خوابیدہ ستاروں کے جھرمٹ میں جاکر مل جاتے ہیں۔ اس نےسوچا۔
مگر خطرہ۔ خطرہ نہیں ٹلتا۔ ابھی تو دودن باقی ہیں۔ وہ فکر مند ہوگیا۔
اس دن جو پہلا کام اس نے کیا وہ یہ تھا کہ مکان کے خستہ حال اور بدرنگ صدر دروازے پر گیروے رنگ میں اپنا ہاتھ ڈبو کر پانچوں انگلیوں کا نشان ثبت کیا تھا۔ اسے وبا سے گھر کو محفوظ رکھنے والی ایک دعا بھی یاد تھی جسے اس نے سفید چاک سے ٹوٹی پھوٹی تحریر میں کواڑ پر لکھ دیا۔ ایسا کرکے اس کے قلب کو کچھ اطمینان حاصل ہوا۔ اسے یقین سامحسوس ہوا کہ اب یہ بیماری، یہ وبا اس کےمکان سے ضرور باہر نکل جائے گی۔
اس وقت اس کا سارا بدن چپک رہاتھا ۔ رات سے زکام ہوجانے کی وجہ سے اسے رہ رہ کر کھانسی کادورہ پڑنے لگتا تھا اور ناک سے پانی بہہ رہا تھا۔ اس کے دل میں نہانے کی شدید خواہش جاگی۔ وہ کئی دن سے نہیں نہایا تھا اور اس کی کھچڑی ہوتی ہوئی داڑھی بے ترتیبی سے بڑھ گئی تھی۔ اس نےاپنی قمیص اتاری۔بیوی نےبچی کافراک بدلنے کے لیے دھلا ہوا صاف فراک پریس کرنے کے لیے میز پر ڈال رکھا تھا۔ یہ سرخ رنگ کاتھا اور اس پر ابھرے ہوئے کانوں والی دو سفید بلیاں بنی ہوئی تھیں۔ نہ جانے کیا سوچ کر اس نےاپنی میلی سی قمیص پر وہ فراک ڈال دی۔ نہ معلوم کیوں یہ اسے دنیا کا سب سےخوبصورت منظر نظر آیا۔ ایک بےزبان، معصوم اورآلودگی سے یکسر پاک لباس اس کے تھکے ہوئے عمر رسیدہ اور تجربہ کار کپڑوں کے گویا اندر سےابھر رہا تھا۔ وہ جیسے دوبارہ پیدا ہو رہا تھا۔
بیوی تیزی سے اس کی طرف جھپٹی وہ فراک کواٹھاکر دور کھڑی ہوگئی، ’’یہ کیا کیا تم نے؟ ابھی میں نےاسے دھویا تھا۔‘‘
وہ کمر تک بے لباس کھڑا ہوا سر جھکائے اپنی میلی قمیص دیکھے جا رہا تھا۔ بچپن میں اسکول میں ماسٹر صاحب کی ڈانٹ سنتے ہی اس کی ناک بہنے لگتی تھی۔ اس وقت بھی اس کی ناک بہہ کر اوپری ہونٹ تک آگئی اگرچہ اب اسے نزلہ بھی ہو رہا تھا۔
’’اپنے کپڑوں اور جسم کی حالت دیکھو۔ آنکھیں دکھ رہی ہیں۔ ناک الگ بہہ رہی ہے۔ نہ جانے نزلے میں تمہارے بچوں کی طرح تمہاری اس قدر ناک کیوں بہا کرتی ہے۔‘‘ بیوی نے کچھ اس طرح منہ بنایا تھا جیسے اس نے آتی ابکائی کو روکا ہو۔
اماں نہ جانے کہاں سےچپر چپر گھسٹتی ہوئی سی آئیں اور ایک سفید سوتی رومال سےاس کی ناک صاف کرنے لگیں۔
’’دراصل تمہیں کوئی ڈھنگ ہی نہیں ہے اور نہ تمہارے پاس کچھ کرنے کو ہے، دکان تو خیر لٹا ہی دی۔ مگر خدا کے فضل سے پڑھے لکھے ہو، اگر چاہو تو محلے کے دو ایک بچوں کو بھی ٹائیں ٹوکراسکتے ہو۔ کچھ تو دلدر دور ہوں۔‘‘ بیوی کہے جارہی تھی۔ اس کو اپنی ہتھیلیوں اور ایڑیوں سے آگ نکلتی محسوس ہوئی۔ بخار آگیا ہوگا۔ اس نے سوچا اور پھر نہانے کاارادہ ترک کرکے وہ میلی قمیص اس نےدوبارہ پہن لی۔ ایک پل کو اسے محسوس ہوا جیسے بچی کی اس بیماری اور بخار کا ماخذ اس کا یہ گندا اور تھکا ہواجسم تھا۔
لالٹین کی روشنی میں بچی پر جھکی ہوئی ان دونوں کی پرچھائیاں دیوار پر لرز رہی تھیں۔
’’نہیں دانے بڑھے تو نہیں ہیں۔‘‘ اس نے بیوی کی خودکلامی کاجواب بڑی توجہ اور بلند لہجے میں دیا تھا۔
’’یہ فجر کے وقت بڑھیں گے۔ وہی وقت ہے۔‘‘ وہ لالٹین کو کنڈے میں لٹکاتا ہوا آہستہ سے بولا۔
’’بجلی نہیں آئی ابھی تک۔‘‘ بیوی بڑبڑائی۔
’’آج شاید رات بھر نہ آئے۔ حبس کتنا ہو رہاہے مگر رات ذرا بھیگ جائے تو ہوائیں ضروری چلیں گی۔‘‘اس نےبیوی کو مطمئن کرنےکے لیے جواب دینا چاہا تھا لیکن یہ اس نےاتنی آہستگی کے ساتھ کہا کہ دوسرا شخص اسے صرف ایک بے معنی بڑبڑاہٹ ہی سمجھ سکتا تھا۔
’’آج رات میں اسےآنگن میں ہرگز نہیں، کمرے میں سلاؤں گی۔ آنگن میں یہ زیادہ چلاتی ہے۔ ویسے بھی آدھی رات کے بعد آسمان پر بلاؤں کا گزر ہوتا ہے۔ نہ جانے کیا چیز رات بھر میرے پیروں کو کاٹتی کھاتی رہتی ہے۔ اوس پڑنے سے طبیعت اور بھاری ہوجاتی ہے۔‘‘
’’مچھر تو دکھائی نہیں دیتے۔‘‘ وہ بے وجہ اندھیرے میں آنکھیں پھاڑنےلگا۔
’’اڑنے والے پسوہوں گے۔ کم بخت یہ تو کبھی نظر بھی نہیں آتے۔‘‘ بیوی نے بیزار لہجے میں کہا۔
’’ہاں۔۔۔ ستمبر کا موسم ہی برا ہے۔ اماں کہتی تھی کہ ان دنوں سے زیادہ خراب پورے سال میں اور کوئی دن نہیں ہوتے اور اس موسم میں بیماری۔۔۔‘‘ وہ کچھ اور کہنے جارہا تھا لیکن بیوی کی نگاہوں میں اپنے لیے حقارت دیکھ کر اس نے جملہ پورا کرنے کا ارادہ ملتوی کردیا۔
’’خدا کے بنائے ہوئے دن،مہینوں کو تو بدنام نہ کرو، یہ موسم خراب نہیں۔ دراصل تمہارا یہ مکان ہی منحوس ہے اور بدنیتی سے بھرا ہوا ہے۔ تم نے غور نہیں کیا کبھی۔۔۔ کہ یہ مکان شیر دہن ہے۔ آگے سے تنگ اور پیچھے سے کشادہ۔ ایسے مکان نجس ہوتے ہیں۔ اور ان کی زمین سب کو راس نہیں آتی۔ کتنی منتوں مرادوں کے بعد میں نےاس بچی کا منہ دیکھا ہے ورنہ اس مکان میں جانے کیا بد دعا تھی یا کیا شئے تھی یہاں جو سترہ سال تک میری گود بھرنے سے پہلے ہی اجاڑتی رہی۔ اس گھر میں کون سی بلا گھس گئی ہے کہ مفلسی، تنگی اور بیماری سے پنڈ ہی نہیں چھوٹتا۔‘‘
’’خدا کا شکر ادا کرو، اس نے ہمیں اولاد کا منھ دکھایا۔‘‘ وہ تشکر آمیز نگاہوں سے آسمان کی طرف دیکھنے لگا لیکن ہوسکتا ہے کہ ایسا اس نے صرف بیوی کا مزاج ٹھنڈا کرنے کے لیے کیا ہو۔
’’ہاں تم سے زیادہ شکر ادا کرتی ہوں۔ مگر یہ تو بتاؤ تمہارے اس مکان میں سترہ سال تک کیا ہوتا رہا؟ دعا، تعویذ اور علاج اس کے علاوہ کیا تھا اس گھر میں پریشانی کے سوا تھا کیا اور ہے کیا؟‘‘
’’گھر کا کیا قصور۔۔۔؟‘‘ وہ دبی آواز میں بولا۔
’’گھر۔۔۔ نہیں بہت پیا رہے نا اس گھر سے؟ لو میں اس گھر کی خوبیاں گنارہی ہوں۔ میں کہتی ہوں کون سی بلا ہے جو اس گھر میں نہیں؟ دنیا کے سارے کیڑے مکوڑے گویا اسی گھر میں اکٹھا ہوگیے ہیں۔ ہر کونے میں مکڑیوں کے جالے۔ کڑیوں میں بےشمار چھپکلیاں، ہر جگہ دیمک سرسرا رہی ہے، سب چاٹے جاتی ہے۔ باورچی خانے میں برتنوں کے پیچھے جانے کتنے جھینگر کودتے رہتے ہیں۔ چیونٹیوں کا یہ عالم کہ دیوار اور فرش کی دروازوں میں سے امڈ پڑتی ہیں۔ کھانے پینے کی چیزیں تو الگ رہیں، ایسا لگتا ہے کہ انسانوں کو چمٹ جائیں گی اور انھیں کھا جائیں گی۔ جہاں دیکھو چوہے دوڑتے پھرتے ہیں الماریوں کے اور بکسوں کے نیچے سے جب سونگھو سڑانڈ آتی رہتی ہے۔ وہ تو میں نے خیر کرکے بیر کٹوادی ورنہ آنگن میں کوڑا دیکھتے بنتا تھا۔ آخر میں کہاں تک صفائی کرتی پھروں؟ گھر میں جراثیم نہ پھیلیں گے تو اور کیا ہوگا؟ تین مہینے سے میری کھانسی برقرار ہے اور خون کا تو بس بلغم بن گیا ہے۔‘‘
’’اس بار قلعی ضرور کراؤں گا۔‘‘ وہ شرمندہ تھا۔
’’کراچکے تم قلعی۔‘‘ بیوی کی آواز رندھی ہوئی تھی۔ ’’کبھی اتنا میسر ہی نہ ہوگا۔ تم سے یہ بھاڑ جیسی کھلی ہوئی موریاں تو بندکرائی نہیں گئیں۔ باہر سے کیڑے مکوڑے اور جانور منہ اٹھائے ان کے ذریعہ گھر میں گھسے آتے ہیں۔ پرسوں رات موری میں سےکالے کتے کا پورا سر جھانک رہا تھا۔‘‘
’’ان میں جالی لگوانا ہی پڑے گی۔‘‘ اس نے مضبوط لہجے میں کہنا چاہا مگر اس کی آواز ایک کمزور سی سرگوشی بن کر رہ گئی۔
وہ کہے جارہی تھی، اگرچہ درمیان میں کئی باراسے کھانسی کادورہ پڑا تھا، ’’جانے کس قماش کے لوگوں نےیہ گھر بنوایا تھا۔ جدھر نظر پڑتی ہے طاق ہی طاق نظر آتے ہیں۔ دالان میں طاق، کوٹھری میں طاق، برآمدے میں طاق اور دروازے میں طاق۔ کیسی وحشت ہوتی ہےمجھے یہ طاق دیکھ کر۔‘‘
’’پہلے کے لوگ مکانوں میں طاق ضرور بنوایا کرتے تھے۔‘‘ وہ آہستہ سے بولا۔
’’تو اب کس مقصد سے تم نےانھیں چھوڑ رکھا ہے؟ سانپ بچھو کے رہنے کے لیے؟ اکثر رات کو میں نے آنگن کے اونچے والے طاق کی دیوار میں یہ بڑی سی چھپکلی گھستے دیکھی ہے۔ نہ جانے چھپکلی ہے یا بچھ کھو پڑا ہے یا کوئی اور ہی بلا ہے۔ میرا دل تو دن میں بھی اس طرف دیکھنے سے ڈرتا ہے۔ تم سے کتنی بار کہا کہ ان کو اینٹوں سے بھروادو مگر تمہاری توہم پرستی اور بدعتوں سے تو میں واقف ہوں نا۔ تمہارا بس چلے تو تم ہار پھول چڑھاکر ان میں چراغ بھی روشن کرنے لگو۔‘‘
وہ لاجواب ہوگیا اور منہ موڑ کر وہیں بیٹھے بیٹھے اپنا ایک پیر ہلانے لگا۔
’’بارہ وفات تھی۔ اماں نے سر سے تولیہ اتار کر فاتحہ ختم کی اور اسے گود میں لے کر اچکاتے ہوئے آنگن والے نسبتاً اونچائی پر بنے طاق تک پہنچا دیا، ’’لو اپنے ہاتھوں سے یہاں موم بتی لگادو۔ آج رات پورے گھر میں روشنی رہنا چاہیے۔‘‘
مکان کے تمام طاق روشن ہواٹھے۔
’’بچی کی پائنتی میں بیٹھ کر پیر تو نہ ہلاؤ۔ بے وجہ پیر ہلانا بھی نحس ہے۔‘‘ بیوی نے یہ جملہ بے حد سرد آواز میں کہا تھا۔
اس نے اچانک سانس روک کر اپنے پیر کو کچھ اس سختی اور طاقت کے ساتھ زمین پر چپکادیا جیسے وہ پتھر کا بنا ہو۔ شاید وہ کافی دیر تک اسی طرح سانس روکے پوری طاقت سے پیر کو زمین میں گڑائے رکھتا اگر اسے فوراً ہی یہ یاد نہ آجاتا کہ آنگن کی کچی زمین کے نیچے کہیں بہت گہرائی میں بےشمار قبریں دفن ہیں۔ لوگ بتاتے ہیں کہ کسی زمانے میں اس جگہ سیدوں کاچھوٹا سا قبرستان تھا جہاں اب یہ مکان ہے۔ وہ جلدی سے پیر اوپر اٹھا کر پائنتی سکڑ کر بیٹھ گیا۔
بیوی اس کےآباؤ اجداد کے گناہ گن رہی تھی۔
’’سنا ہے تمہارے دادا نے ایک شکرا پال رکھا تھا، جس کی آنکھوں پر مخمل کی سلی ہوئی موتیوں سے آراستہ ٹوپی چڑھی رہتی تھی اور جب وہ ٹوپی اتاری جاتی تھی تو وہ تیتر کے بچوں کو اندھا کرکے پنجوں میں دبا لاتا تھا۔ اس مکان پر تو بے زبان جانوروں کا بھی صبر پڑے گا۔ اپنی ماں کی ہی مثال لے لو جانے کس کی آہ تھی۔‘‘ بولتے بولتے اس کی سانس پھول آئی، ’’تم سے کوئی کتنا بھی کہے کہ اس مکان کو فروخت کر دو، اور کسی دوسری جگہ کوئی ڈھنگ کامکان لے لو۔ مگر تم تو اماں کی نشانی کو ایسے ہی کاندھے پر لیے بیٹھے رہو گے۔ ایسے ہی گھروں میں تو بیماریاں گھس کر بیٹھ جاتی ہیں۔ میں ایسی جگہ اپنی بچی کو نہیں رکھ سکتی۔ اتنا یاد رکھنا اور کان کھول کر سن لوکہ اگر میری بچی کو خدا نخواستہ کچھ ہوگیا تو میں تمہارا دامن حشر تک نہ چھوڑوں گی اور تمہیں کبھی معاف نہیں کروں گی۔ تم اور صرف تم ہی ذمہ دار ہو اس صورت حال کے۔‘‘
وہ اچانک سسکیاں لے کر رونے لگی۔
وہ بت بنا ہوا صرف لالٹین کو دیکھے جارہا تھا جواب ہوا چل جانے کے باعث آہستہ آہستہ ہلنے لگی تھی اور اس کی لو دھیرے دھیرے کپکپارہی تھی۔اگرچہ وہ بیوی کو دلاسا دینا یا اپنی صفائی پیش کرنا چاہتا تھا مگر اب اس انجانے سے جرم اور احساس گناہ کی موجودگی کا احساس بے حد شدید ہوگیا تھا۔ اب کچھ بھی کہنا یا صفائی پیش کرنا صرف ایک بدمذاقی تھا۔
بڑی دیر سے پلنگ کے نیچے کر کر کی آواز چلی آرہی تھی۔ ’’پائے میں سے کہیں برادہ جھڑ رہا ہوگا۔‘‘ (کیڑا لکڑی چاٹ رہاہے) اس نے سوچا۔ بیوی بچی کو لے کر کمرے میں چلی گئی تھی۔ وہ یونہی آنگن میں بیٹھا رہا۔ بجلی نہیں آئی تھی۔ بار بار اسے محسوس ہوتا جیسے فوراً ہی اس مکان میں کوئی بری واردات ہونے والی ہو۔ کچھ گھبراہٹ سی محسوس کرتے ہوئے وہ پلنگ سےاٹھ کر کچے آنگن میں اکڑوں بیٹھ گیا اور بے وجہ ماچس کی تیلیاں جلا جلا کر زمین پر پھینکتا رہا۔
رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی جب کمرے سے بچی کے رونے کی آواز ابھری۔ وہ دوڑتا ہوا اندر پہنچا اور جلدی جلدی بچی کی پیٹھ پر تھپکیاں دینا شروع کردیں۔ بچی کو کسی کل چین نہ پڑتا تھا، کبھی وہ ادھر کروٹ لیتی کبھی ادھر۔ اس کے بار بار کروٹیں لینے سے بستر پر چاروں طرف پڑے نیم کے پتے چرمرانے لگے۔ اس وقت اس نے بچی کے چہرے کو غور سے دیکھا۔ فاصلے سے آتی ہوئی لالٹین کی روشنی میں ننھی ننھی لال پھنسیوں سے بھرا ہوا چہرہ اسے غیرمعمولی طور پر بگڑا ہوا اور سیاہی مائل نظر آیا۔ اس کا منہ پورا کھلا ہوا تھا جس سے اس کے حال ہی میں نکلنے والے ننھے ننھے دودھ کے سفید دانت جھانک رہے تھے۔ آنکھیں جیسے کسی خوفناک منظر کو دیکھ کر پھٹ سی گئی تھیں۔ اس کی ہر پیار بھری تھپکی پر وہ اور بھی زور سے چیخنے لگتی اور اس کا چہرہ پہلےسے زیادہ بگڑا ہوا نظر آنے لگتا۔
’’یہ تو مجھ سے ہی ڈر رہی ہے۔‘‘ اس خیال نے اسے بےحد افسردہ کردیا۔ تب بیوی نے بچی کو گود میں لے کر اپنی چھاتی اس کے منہ میں دے دی۔ بچی ان دنوں ماں کے دودھ کو منہ نہ لگاتی تھی مگر اس وقت خلاف معمول وہ بالکل خاموش ہوگئی اور چسر چسر کی آوازیں نکال کر دودھ پینے لگی۔ وہ اسی طرح کھڑا رہا۔ سناٹا گہرا ہوتا ہوا محسوس ہوا۔ بچی ماں کی گود میں سو گئی تھی۔ بیوی نےاسے بہت احتیاط اور آہستگی کے ساتھ بستر پر لٹا دیا اور خود اس کے سرہانے بیٹھ گئی۔
’’سنو!اس کابخار تو کچھ کم معلوم دیتا ہےمگر آج یہ سوتے میں بہت ڈر رہی ہے، بار بار چونک کر رونے لگتی ہے۔ پتہ نہیں کوئی بھیانک خواب تو اسے بار بار پریشان نہیں کر رہا ہے؟ کیا کروں۔۔۔؟ آیۃ الکرسی ہی پڑھ کر پھونکوں۔ صبح گھر میں قرآن خوانی ضرور کراؤں گی۔‘‘
وہ جانتا تھا کہ آیت الکرسی اور چاروں قل پڑھنے سے بدروحیں دوررہتی ہیں اور خوف مٹ جاتا ہے۔ بیوی سنبھل کر قاعدے سے بیٹھ گئی اور سر سےسفید دوپٹہ اوڑھ کر خاموشی سے آیت الکرسی کا ورد کرنے لگی۔ ساتھ ہی وہ بچی کے جسم پر پڑھ پڑھ کر پھونکتی بھی جاتی تھی۔آیت الکرسی کا ورد کرتی ہوئی اپنی بیوی کاچہرہ اسے غیرمعمولی طور پر پاکیزہ اور ہولناک حد تک جلال سے بھرا ہوا نظر آیا۔ دور کہیں تین کا گھنٹہ بجا۔ رات کے سناٹے میں اس گھنٹے کی آواز بھی پرہول محسوس ہوئی۔ اس شہر میں ہمیشہ تو گھنٹے بجتے نہیں ہیں لیکن کبھی کبھی اچانک بجنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ہر سال، کون سے موسم میں ایسا ہوتا ہے اسے ٹھیک سے یاد نہیں۔
وہ پلنگ کی پائنتی مجرموں کی طرح سرجھکائے کھڑا تھا۔
وہ اپنے اندر ایک عجیب سی افسردہ بے چینی محسوس کر رہا تھا۔ اندر کہیں متلی کی سی کیفیت ہو رہی تھی۔ نہ جانے کیوں اسے محسوس ہو رہاتھا کہ آیت الکرسی کے اس ورد کے بعد جو کام سب سے پہلے ہونا چاہیے وہ دراصل یہ ہے کہ اسے یہاں سے بھاگ کھڑا ہونا چاہیے جیسے کہ یہ آیت الکرسی محض اس کو دور اور ناپید کرنے کے لیے پڑھی جا رہی تھی او روہ خود یہاں پلنگ کی پائنتی ایک بے شرم بھوت کی طرح ڈھٹائی کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کے پیر کانپنے لگے اور سارا جسم ٹھنڈے ٹھنڈے پسینے سے بھیگ گیا۔
بیوی نے ورد ختم کیا اور بغیر اس کی طرف کوئی توجہ دیے بچی سے لگ کر لیٹ گئی پھر اس نے آنکھیں موند لیں۔ وہ بے جان اندازمیں بچی کے قریب ٹک ساگیا۔ اس کی میلی اور پسینے سے بھیگی پوری آستین کی قمیص اس کے کاندھوں پر بالکل چپک کر رہ گئی تھی۔ مدتوں بعد آج پھر اس کے شانوں کو زہریلے سانپوں نے جکڑ لیا۔ بے چارگی کے ساتھ اس نے اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ ناخن بڑھ کر نوکیلے ہوگیے تھے۔ انگلیوں کے گٹوں کے اوپر اکا دکا بال مکروہ انداز میں اوپر کی طرف اٹھ کھڑے ہوئے تھے اور بالوں سے ڈھکی بھالو جیسی کلائیاں۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ اس کے جسم پر بال کتنے زیادہ ہیں۔ اس نے اپنے ہاتھوں کو سونگھا۔ ہاتھوں سے کچے گوشت کی بساند آتی محسوس ہوئی۔ بس یہی لمحہ تھا جب اسے اس امر کا انکشاف ہوا کہ وہ بھی تو دراصل ایک ناپاک بدروح ہے جو اپنے اندر کی تمام احساس کمتری اور شیطنت کو لیے بچی کے آس پاس بھٹک رہی ہے۔ یہ غیراخلاقی شیطنت ناقابل معافی گناہ تھی۔ اسے اب یہاں بالکل نہیں ٹھہرنا چاہیے تھا۔
فجر کے وقت یہ خطرناک دانے اور ابھریں گے اور اسے فجر سے پہلے ہی چل دینا چاہیے۔ یک بارگی اس نے یہ بھی سوچا کہ شدید بیمار اور بخار میں جلتی اپنی بچی کو چھوڑ کر چل دینا ایک انتہائی درجے کی گھٹیا، غیرذمہ داران اوراخلاق سے گری ہوئی حرکت ہوگی۔ لیکن بچہ کو پاک صاف ماحول اور نیک لوگوں کے درمیان محفوظ اور صاف ستھرا چھوڑ کرجانےکے مقابلے میں اس کاچلا جانا ہی بہتر تھا۔ اس کایہ سارالاڈ پیار معصوم بچے کے ساتھ ایک بدروح کی چہل کے مانند بے تکا اور بھونڈا تھا۔
رات کے سناٹے میں پڑوس کے کسی مکان میں کوئی برتن گرا۔ اس نے لالٹین اٹھاکر بچی کے دانوں کو غور سے دیکھا۔ لالٹین کی جگہ بدلنے سے پرچھائیاں گڈمڈ ہوکر اجنبی بن گئیں۔ روشنی کے اس تازہ زاویے میں اپنی سوتی ہوئی بیوی کا چہرہ اسے بہت سادہ اور عام نظر آیا۔ بچی کے گلے میں تعویذ اور چند لونگیں بندھی تھیں اور وہ بے خبر سو رہی تھی۔ سرہانے رکھے نیم کے پتے سوکھ کر ادھر ادھر بکھر گیے تھے اور ان کے درمیان چابی والا بندر اوندھا پڑا تھا۔ بچی کا ساراجسم دانوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس نےان دانوں کو نکل نکل کر بچی کے بدن پر، بستر پر اور تمام گھر میں رینگتا ہوامحسوس کیا۔
باہرگلی میں کوئی سست روی کے ساتھ تقریباً گھسٹتا ہوا سا گزر رہا تھا۔ لیکن قدموں کی آواز غیرانسانی تھی۔ وہی معذور کتا ہوگا جس کی حال ہی میں ایک حادثے کے دوران دونوں پچھلی ٹانگیں کچل گئی تھیں۔ اس نےخیال کیا۔بچی کو دیکھتے دیکھتے اچانک اس کے دل میں یہ خواہش جاگزیں ہوئی وہ سرہانے رکھے بسکٹوں کے پیکٹ میں سے ایک بسکٹ نکال کر اس کے ہونٹوں پر لگائے لیکن اسے خیال آیا کہ اس وقت یہ ایک نامناسب اور کافی حد تک احمقانہ فعل ہوگا۔
اس نے پیار سے بچی کی گجلی ہوئی فراک پر بنی بیلوں کے کان چوم لیے ’’پوسی ماؤں۔۔۔ ماؤں۔‘‘ معاً اسے گمان گزراجیسے بچی نے اپنی دونوں بانہیں پھیلا کر مسکراتے ہوئے توتلی زبان میں کہا تھا، ’’آ۔۔۔ آگیے، آ۔۔۔ گیے۔‘‘
مگر وہ جا رہا تھا اور ازالہ؟ وہ تو اب بھی ممکن نہ تھا۔ اس نے بے حد مایوس ہوکر سوچا۔آس پاس کوئی بھی نہ تھا۔ ویسے تو روز رات کے اس پہر میں چمگاڈر نکل کر وحشت زدہ انداز میں درودیوار سے ٹکراتے پھرتے تھے لیکن آج کوئی بھی نہ تھا۔ صرف لالٹین کی روشنی تھی۔ کالی عینک کے عقب میں آنکھوں سے بے تحاشا پانی بہہ رہا تھا۔ دکھتی آنکھ جب ڈبڈبا آئی تو پتہ ہی نہ چلا کہ پانی کے درمیان آنسو کہاں تھے۔ دیکھو۔ بجلی کب تک آئے گی۔ شاید صبح تک۔ اسےخیال آیا کہ صبح اس مکان میں قرآن خوان بھی تو ہونی ہے۔
کمرے سے باہر نکلتے وقت لالٹین کی روشنی میں اس کی پرچھائیں عجب بے ہنگم اندازمیں کانپی تھی۔مٹیالا آسمان بادلوں کےآوارہ جھنڈ سے گھرنےلگا تھا۔ پرندہ کوئی نہ تھا۔ یہ نہ ان کے بسیرے کاوقت تھا اور نہ چہچہانے کا۔ ’’ابھی کوئی پرندہ کہاں!‘‘ اس نے افسردگی کے ساتھ سوچا۔ مگر ہوسکتا ہے کہ کوئی منحوس پرندہ تاریکی میں کسی درخت کی شاخ میں دبکا ہی ہو۔ موسم کو دیکھ کر اسے اندیشہ ہوا کہ بارش بھی آسکتی ہے۔ اگر بارش ہوئی تو اس موسم میں زلزلے آتےہیں اور پہاڑوں پر چٹانیں اپنی جگہ سےکھسکتی ہیں۔ آنگن میں جہاں کبھی بیری کادرخت تھا، ٹھیک اسی جگہ حواس باختہ اماں ننگے پیر کھڑی تھیں۔ ان کی مٹھی میں امام ضامن دبا تھا۔ ان کے بالکل پشت میں دیوار کے نیچے لگی تاریک موری میں سے گھر کا غلیظ پانی باہر بہہ رہا تھا۔
’’آسیب جب گھر سے رخصت ہوتا ہے تو اسے بھلا کوئی امام ضامن بھی باندھتا ہے؟‘‘ اس نےنفرت کے ساتھ سوچا۔ آنگن میں کھڑے کھڑے اسے واہمہ گزرا جیسے کہیں دور بے شمار لوگ بلند آواز میں آیت الکرسی پڑھ رہے ہیں۔ وہ بے حد خوف زدہ ہوگیا۔ شیر دہن مکان کے خستہ حال صدر دروازے پر گیروئے رنگ سےانسانی ہاتھ کانشان بنا تھااور کوئی دعاٹوٹی پھوٹی عربی تحریر میں سفیدہ چاک سے لکھی ہوئی تھی۔
بخار کا ایک جلتا ہوا جھونکا گھر سے باہر آیا اور ستمبر کی رات کی قدرے خنک اور اداس ہواؤں میں غائب ہوگیا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.