یہ کہانی، جومیں آپ کوسنارہاہوں کل تک نہ ہوئی تھی۔ کل رات کے دوبجے تک اس کہانی کے ہونے کاکوئی امکان نہ تھا۔ کل رات کے دوبجے تک جب میں سوچتا سوچتاتھک گیااوریہ کہانی نہ آئی تو میں اس کی تلاش میں گھومتا گھومتا چوپاٹی کی طرف نکل گیا۔ یہاں اس وقت اک عجب سناٹاساتھا۔ سمندرکا شوربہت دھیما تھا اوروہ کہیں دورافق کے سینے سے لگ کرمدھم مدھم سروں میں بلک بلک کر رورہا تھا۔ اور کنارے کچھ ریت بھی لاکھوں انجانے قدموں کے گھاؤ اپنے سینہ میں لیے آہستہ آہستہ کراہ رہی تھی۔ ساری فضا پرایک عجیب کربناک تھکن کے سایے پھیلے ہوئے تھے۔ اورمیں اس عجیب سی فضا کے اذیت ناک تاثرکوقبول کرتا ہوا آگے بڑھتا گیا۔ یکایک میرے کانوں میں آواز آئی، ’’تلک بھگوان۔‘‘
میں نے گھبراکر دیکھا۔ سامنے تلک مہاراج کا بت تھا، جوایک عجب شان وتمکنت سے سرِپُرغرور اٹھائے فضا میں تک رہا تھا۔ ان کے قدموں میں میں نے ایک پرچھائیں سی دیکھی۔ اس کاچہرہ تو میں صاف صاف نہیں دیکھ سکا، کیو ں کہ اس کی پشت میری طرف تھی۔ ہاں اتنا ضرور دیکھاکہ وہ اک ادھیڑ عمرکاناٹے قدکا گندمی رنگ کاسراٹھاہے۔ اس کی قمیص اوردھوتی جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی تھیں۔ اس کے پاؤں ننگے تھے اورٹانگوں پرگہرے زخموں کے نشان تھے۔ اسے دیکھ کر میرے قدم وہیں رک گئے اورمیں اس کی باتیں سننے کے لیے وہیں ریت پرلیٹ گیا، تاکہ وہ یہی سمجھے کہ یہ شخص ریت پرسورہا ہے، میری باتیں نہیں سن رہاہے۔
اس آدمی نے پھرکہا، ’’تلک بھگوان۔‘‘
تلک بھگوان کے بت نے کہا، ’’کہوکیاکہتے ہو؟‘‘
آپ کوشاید اچنبھا ہوگا کہ کہیں پتھر کا بت بھی بول سکتاہے۔ شاید آپ کومعلوم نہیں ہے کہ ہراماوس کوجب چاروں طرف گھور اندھیراہوتا ہے اورآدھی رات کا وقت ہوتاہے، اس وقت بت جاگتے ہیں اورجاگتے ہی نہیں باتیں بھی کرسکتے ہیں۔ اگرکوئی انہیں بلائے اوران سے کچھ پوچھے تو اس کا جواب بھی دیتے ہیں۔ آپ کو یہ بات شاید معلوم نہیں۔ مجھے ایک عرصہ سے معلوم تھی مگرمیں نے کبھی بات نہیں کی۔ اول تو دنیا کے کاموں سے اتنی فرصت ہی کہاں ملتی ہے کہ آدھی رات کے دوبجے ان سے بات کرنے جائے، پھربمبئی میں جتنے بت ہیں، اتنے بڑے بڑے لوگوں کے ہیں کہ آدمی سوچتا ہے کہ ان قابل احترام ہستیوں سے آدمی بات کس طرح سے کرے۔ نہ معلوم کون سی بات ناگوارِ خاطرہو۔
پھرآزادی سے پہلے تویہ بھی اندیشہ تھا کہ خفیہ پولس کہیں اس جرم میں نہ گرفتار کرلے کہ یہ آدمی بال گنگا دھرتلک کے بت سے بات کررہاتھا اورنہ جانے برطانوی حکومت کے خلاف کیاکیا سازشیں عمل میں لارہا تھا اور آج کل یہ ڈررہتا ہے کہ پولس اس لیے نہ پکڑلے کہ دیکھئے یہ آدمی اپنی ہی حکومت کے خلاف اپنے ملک کے لیڈربال گنگا دھرتلک سے شکایت کررہا تھا۔ انہی باتوں کوسوچ کے میں نے آج تک کسی بڑے لیڈر کے بت سے کبھی بات نہیں کی۔ گواس دوران میں کئی اندھیری راتیں آئیں اورچلی گئیں لیکن ہم بالکل خاموش رہے۔ آج اپنی زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی شیر مرد کوتلک بھگوان کے بت سے باتیں کرتے دیکھ رہے تھے۔ میں ریت پرلیٹالیٹا آگے گھسٹنے لگا، تاکہ اچھی طرح اوراطمینان سے ان کی باتیں سن سکوں۔
مرہٹہ کہہ رہا تھا، ’’میر ا نام اتم راؤ کھانڈیکرہے۔ میں اٹھارہویں صدی کے اواخر میں پیداہوا تھا۔‘‘
تلک مہاراج بولے، ’’میں بھی اسی زمانے میں پیدا ہواتھا۔‘‘
کھانڈیکر بولا، ’’میں پونا کے ایک اسکول میں استادتھا۔ مجھے اتہاس سے بڑی دلچسپی تھی۔‘‘
تلک مہاراج بولے، ’’مجھے بھی تاریخ سے بڑی دلچسپی رہی ہے۔‘‘
کھانڈیکربولا، ’’جن دنوں آپ نے وہ نعرہ بلندکیا، آزادی میرا پیدائشی حق ہے، میں ان دنوں اسکول میں ٹیچرتھا۔ میں نے آپ کی ساری کتابیں پڑھیں۔ آپ کی بہت سی تقریر سنیں۔ میں بچو ں کواتہاس پڑھاتاتھا۔ اتہاس پڑھاتے پڑھاتے میرے دل میں نئی نئی امنگیں پیدا ہونے لگیں۔ عجیب عجیب سے خیال میرے دل ودماغ پرچھانے لگے۔ میں نے بچوں کو تاریخ اک بالکل نئے ڈھنگ سے پڑھانا شروع کردیااورجب پڑھاتے پڑھاتے غدر پرآیاتو۔۔۔‘‘
’’توکیا ہوا؟‘‘ تلک بھگوان نے پوچھا۔
’’تومجھے اسکول سے نکال دیاگیا۔‘‘
’’افسروں نے کہاکہ غدر غدر تھا، آزادی کی تحریک نہ تھی۔ میں جھوٹا تھا اورسازشی تھا اوربچوں کا اخلاق خراب کررہا تھا اورملک معظم کی حکومت کے خلاف نفرت پھیلاتاتھا، اس لیے مجھے اسکول سے باہر نکال دیاگیا اورمجھ پرروزی کے سارے دروازے بند کردیے گئے۔‘‘
’’پھر تم نے کیا کیا؟‘‘ تلک بھگوان نے پوچھا۔
’’پھر میں نے روزگار کے لیے وہ دروازہ کھٹکھٹایا جہاں سے دیش بھگتی کے طفیل مجھے روٹی ملنے کی آس تھی۔ کہیں پربھی کچھ نہ ہوسکا۔ اس میں کسی کا قصورنہ تھا۔ حکومت کا رعب اس قدرغالب تھا کہ کوئی میری مدد کے لیے تیارنہ ہوا تھا۔ پھرمیں ملکی تحریک میں زوروشور سے حصہ لینے لگااورمیری بیوی نے لڑکیوں کی اسکول میں ملازمت کرلی۔ لیکن جب مجھے پہلی بارقیدہوئی تو اس کی وہ نوکری بھی چھٹ گئی۔ ہمارے دوبچے تھے۔ وہ فاقو ں کی نذرہوگئے۔ میری بیوی اپنے میکے چلی گئی، جہاں گاؤں کے پٹیل نے اسے اپنے ماں باپ کے گھرسے یہ کہہ کر نکلوادیا کہ اسے گھرمیں رکھوگے تو تم پربھی آنچ آئے گی۔
میری بیوی جب گھر سے نکالی گئی تو اس کے لیے کوئی راستہ نہ تھا۔ وہ رنڈی بن کر گزارہ کرسکتی تھی مگر اس کی روح نے یہ گوارا نہ کیااوروہ ندی میں ڈوب کرمرگئی۔ جب میں جیل سے رہا ہواتو میں بالکل آزاد تھا۔ اب مجھ پر گھربارکا کوئی بوجھ نہ تھا۔ میں نے بڑی مستعدی سے کام کرنا شروع کردیا کسانوں میں اور جب یہ تحریک چلی کہ لگان نہ دیاجائے، اس وقت میں چندواڑی کے گاؤں میں یہی تحریک چلارہا تھا۔ پہلے افسروں نے پھرپولیس نے پھرفوج نے ہم سے لگان وصول کرناچاہا لیکن میں نے گاؤں والوں سے لگان نہ وصول کرنے دیا اور اس لیے مجھے گولی ماردی گئی اورمیں مرگیا۔ یہ نشان دیکھئے، میرے جسم پرکم از کم بیس گولیوں کے نشان ہیں۔‘‘
’’ہمیں بہت افسوس ہے۔‘‘ تلک مہاراج بولے، ’’کیانام بتایا تم نے؟‘‘
’’اتم راؤکھانڈیکر۔‘‘
’’کبھی سنانہیں یہ نام۔‘‘
’’کھانڈیکر بولا، ‘‘ میرا نام کوئی نہیں جانتا۔ میری بیوی کا نام بھی کوئی نہیں جانتا، جو ندی میں ڈوب مری تھی۔ میرے ان دوبچوں کے نام بھی کوئی نہیں جانتا، جوفاقے کرتے کرتے مرگئے۔ تاریخ میں ہمار ا کہیں نا م نہیں ہے۔ اب ہمارا نام کہیں نہیں ہے۔ پوناوالے، گاؤں والے، سارا مہاراشٹر مجھے بھول چکاہے۔‘‘
’’تواب تمہیں کیاپریشانی ہے؟‘‘ تلک مہاراج نے پوچھا۔
’’پریشانی نہیں ایک خواہش ہے۔ اسے پورا کرنے کے لیے آپ کے پاس آیاہوں۔‘‘
تلک مہاراج بولے، ’’میں کیاکرسکتاہوں۔ میں توپتھر کا بت ہوں۔‘‘
کھانڈیکر بولا، ’’بس میں بھی یہی بنناچاہتا ہوں۔ ایک پتھرکابت۔ اپنے مرنے کے بعدآج تک حیران و پریشان ہوکر یہاں کی فضا میں گھومتا رہاہوں۔ اب چاہتا ہوں کہ میں بھی آپ کی طرح ایک پتھرکا بت بن جاؤں۔ ذرا تھوڑی سی جگہ دے دیجئے۔‘‘ اورمیں نے دیکھا کہ وہ پرچھائیں چبوترے پرچڑھنے لگی۔
تلک مہاراج گھبراکر بولے، ’’کیاکررہے ہو؟‘‘
کھانڈیکر نے کہا، ’’میں بھی آپ کے ساتھ کھڑاہوناچاہتاہوں۔ مجھے تھوڑی سی جگہ چاہئے آرام کے لیے۔ میں آپ کے پہلو میں کھڑا ہوجاؤں گا۔ میں نے زندگی بھر آپ کے پہلو بہ پہلو کام کیاہے۔ کیا موت کے بعد روح کا رشتہ ختم ہوجاتاہے۔‘‘ تلک مہاراج نے کہا، ’’نہیں بھائی، یہ بات نہیں ہے مگردراصل یہ جگہ میری ہے۔ یہ چبوترہ میراہے۔ یہ بت میراہے۔‘‘
کھانڈیکر بولا، ’’تومیری جگہ کہاں ہے۔ تاریخ میں نہیں۔ چوپاٹی کے کنارے نہیں۔ لوگوں کے دلوں میں نہیں۔ تومیں کہاں جاؤں؟‘‘
تلک مہاراج بولے، ’’میونسپل کارپوریشن کے پاس جاؤ۔ وہ لوگ تمہارے لیے ایک بت بنادیں گے۔‘‘
کھانڈیکربولا، ’’مگروہ آدمی ہیں اورآدمی آج کل روحوں کی آواز کہاں سنتے ہیں؟‘‘
تلک مہاراج بولے، ’’تم جاؤتوسہی۔ اوردیکھو جلدی جاؤ، وہ پولس کا آدمی آر ہا ہے۔ کہیں تم کوگرفتار نہ کرلے۔ اوریہ سنواپنا بت کسی اچھی جگہ بنوانا۔ یہاں نہیں۔ میرے قدموں میں ریت ہے تپتی ہوئی اورسر پرآسمان، اوردھوپ میں سرمیں شدیددرد ہونے لگتاہے اور سارا جسم دکھنے لگتاہے اوردن بھرتماشائیوں کا غل غپاڑہ رہتاہے اوربدتمیز لوگ دہی بڑے کی چاٹ کھاکھاکر جھوٹے پتّل میری طرف پھینکتے جاتے ہیں۔ کسی اچھی جگہ اپنا بت بنوانا۔‘‘
لیکن وہ پرچھائیں پولس کے ڈر سے غائب ہوچکی تھی۔ میں بھی جلدی سے اٹھ کروہاں سے بھاگ آیا۔ بھاگتا بھاگتا چرچ گیٹ اسٹیشن تک آگیا۔ یہاں آکر آہستہ آہستہ چلنے لگا اور چلتے چلتے ہاکی گراؤنڈ کے قریب آنکلا اوریہاں ایک بڑ کے تنے سے ٹیک لگاکرکھڑا ہوگیا۔ اتنے میں میرے کانوں نے سنا، کوئی کہہ رہاہے، ’’گوکھلے مہاراج!‘‘
میں نے گھوم کردیکھا۔ سامنے چبوترے پرگوکھلے مہاراج کا بت ہے اورایک آدی کوٹ پتلون پہنے ہوئے اس پرچڑھنے کی کوشش کررہاہے۔ جب وہ چبوترے کے اوپرچڑھ گیا اورآگے بڑھنے لگاتو گوپال کرشن گوکھلے کے بت نے پریشان ہوکے کہا، ’’تم آگے بڑھے تومیں پولس کوبلاؤں گا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’میں قومی بت ہوں۔ تم میری بے حرمتی کررہے ہو۔‘‘
’’بے حرمتی نہیں دوست۔۔۔ ’’کوٹ پلتون پہنے ہوئے آدمی نے جواب دیا، ’’میں تم سے کچھ باتیں کرنا چاہتاہوں۔‘‘
گوکھلے کا بت بولا، ‘‘ تو ذرادوررہ کرتمیز سے بات کرو۔ کون ہوتم؟‘‘
کوٹ پتلون پہنے ہوئے شخص نے جواب دیا، ’’میر ا نام کرتارسنگھ سرابھا ہے۔‘‘
گوکھلے بولا، ’’سکھ اورپنجابی۔ جب ہی اس قدربدتمیزی سے پیش آرہے ہو۔ جانتے نہیں ہو میں امپریل کونسل کا ممبررہ چکا ہوں۔‘‘ کرتارسنگھ نے کہا، ’’دوست! مجھے اسی حکومت کے حاکم اعلیٰ نے پھانسی کی سزا دی تھی، جس کی کونسل کے تم رکن رہ چکے ہو۔‘‘ گوکھلے نے کہا، ’’اس میں میرا کوئی قصورنہیں۔ میں نے حتی المقدور اپنی زندگی میں اپنے دیس کی سیوا کی ہے۔‘‘ کرتارسنگھ نے کہا، ’’کبھی جیل بھی گئے ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کبھی بھوک ہڑتال کی ہے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’کبھی جیلروں اور وارڈروں سے پٹے ہو؟ حتی کہ تمہاری پیٹھ زخموں سے چھلنی ہوگئی ہے اور چابکوں کے آتشیں لمس نے تمہاری گوشت کوقیمہ بنادیاہے اورتمہارے جسم کاذرہ ذرہ پانی مانگ رہاہے اورتمہاری زبان حلق سے باہرنکلی پڑتی ہے اورتمہیں کوئی ایک قطرہ پانی پینے کونہیں دیتا۔‘‘
’’نہیں۔ اس قسم کا وحشیانہ تجربہ مجھے کبھی نہیں ہوا۔‘‘
’’اس لذت کی دوامی کیفیت سے میں آگاہ ہوں۔‘‘ کرتارسنگھ بولا اوراس نے اپنا کوٹ اتارپھینکا اوراپنی قمیص بھی اورمیں نے دیکھاکہ اس کی پیٹھ پر سے لہو بہہ رہاہے اورچابکوں کے نشان اندرریڑھ کی ہڈی تک چلے گئے ہیں اور اس کے گلے میں ایک رسی ہے جسے اس نے ٹائی کی طرح باندھ رکھا ہے۔
’’یہ کیاہے؟‘‘ گوکھلے مہاراج نے اپنی ناک پررومال رکھتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ پھانسی کی رسی ہے جسے میں آج تک گلے میں ڈالے ہوئے ہوں۔ اسی رسی نے میرا گلاگھونٹاتھا۔ اس وقت میں جوان تھا اورطاقت ورتھااورخوش تھا اور میں کلکتہ سے لے کرمیرٹھ اور امرتسر فوجیوں میں گھومتا تھا تاکہ ان کوبرطانوی حکومت سے بغاوت کے لیے آمادہ کروں۔‘‘
گوکھلے بولے، ’’تشددآمیز بغاوت میرا مسلک نہیں۔ میں تو جوابی تعاون میں یقین رکھتاہوں۔‘‘
کرتارسنگھ نے اس کی بات ان سنی کرکے کہا، ’’لیکن تمہاری بغاوت کامیاب نہ رہی۔ ہماری تنظیم اچھی نہ تھی۔ ہمیں کچل کے رکھ دیاگیا اور گولیوں کی باڑھ پر ہمارے جذبہ آزادی کوبھون کے رکھ دیاگیا۔‘‘
گھوکھلے بولے، ’’اب تم کیاچاہتے ہو؟‘‘
کرتارسنگھ نے کہا، ’’ذراپرے سرک جاؤ۔ اس چبوترے پرمجھے تھوڑی سی جگہ دے دو۔ اس پرمیرا بھی حق ہے۔ جانتے ہو پندرہ اگست کو جب تمہارے گلے میں ہار ڈالے گئے تھے، میں بھی اس چبوترے کے پاس کھڑاتھا۔ کسی نے مجھے ہارنہیں پہنائے۔ کسی نے میری پھانسی کی رسی کی طرف نہیں دیکھا۔ کسی نے میری پیٹھ کے رستے ہوئے زخموں کو نہیں دیکھا۔ کسی نے میرے جسم کونہیں دیکھا جوبھوک ہڑتال کرتے کرتے سوکھ گیا، میری روح کونہیں دیکھا جوظالموں کے کوڑے کھاتے کھاتے بھی آزادی کے گیت گاتی رہی۔ میری ہمت کو نہیں دیکھا جس نے آزادی کی راہ میں اپنا سب کچھ لٹادیا۔ اپنی جوانی کی ساری بہار، ساری آرزوئیں، ساری امنگیں۔ لوگوں نے تمہیں ہار پہنائے اور کسی نے میری طرف ایک پھول بھی نہیں پھینکا۔ دوست میں نے وطن کی خاطر امپریل کونسل میں تقریر نہیں کی ہیں لیکن اپنے وطن کی خاطرموت کی رسی کواپنے گلے سے ضرورباندھا ہے۔ میں تمہاری عزت کرتا ہوں۔ تمہاری عظمت کا احترام کرتاہوں لیکن اب میں بہت تھک چکا۔ اب میں آرام کرناچاہتاہوں۔ پتھرکابت بن جانا چاہتاہوں تمہاری طرح۔ تھوڑی سی جگہ دے دو۔۔۔‘‘
گوکھلے مہاراج بولے، ’’بھئی میں مجبورہوں، تمہیں جگہ نہیں دے سکتا اپنے پاس، کیوں کہ میں تو جوابی تعاون میں یقین رکھتا ہوں اور تم تشددآمیز بغاوت میں۔ ہمارا مسلک الگ الگ ہے اورتم کیوں نہیں میونسپل کارپوریشن کے ہاں درخواست کرتے۔ وہاں چلے جاؤ۔ ممکن ہے تمہارا کام ہوجائے اور اگرہوگیا تو دیکھوادھرکہیں آس پاس میں اپنا بت نہ بنانا۔ میں اس جگہ سے خودبہت پریشان ہوچکاہوں۔ یہ قریب میں بڑکا درخت ہے۔ یہاں سے پرندے میرے سرپربیٹ کرتے ہیں اوریوں تو لوگ کبھی ادھرکارخ نہیں کرتے، ہاں جب ہاکی گراؤنڈ میں لڑکیوں کا میچ ہوتا ہے توان کی ننگی ٹانگیں دیکھنے کے لیے مجھے یوں چارو ں طرف سے گھیرلیتے ہیں کہ میرے لیے اپنی جگہ پرکھڑا رہنا دشوارہوجاتاہے اور رات کے بارہ بجے اس چبوترے کی بنچوں پر طوائفوں اورتماش بینوں میں وہ چوماچاٹی ہوتی ہے۔۔۔‘‘
لیکن اس سے آگے گوکھلے مہاراج کچھ نہ کہہ سکے، کیوں کہ پولس کا سپاہی گشت کرتا ہوا آرہا تھا اورکرتارسنگھ سرابھااسے دیکھتے ہی بھاگ گیاتھا۔ میں اس کے پیچھے دوڑا، بہت بھاگا مگروہ اتنی تیزی سے آگے نکل گیاکہ میں اسے پانہ سکا۔ دوڑتے دوڑتے جب میرا دم پھول گیا تو میں یکایک ٹھٹک گیا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک خوشنما پرفضا باغیچہ سا ہے۔ چھوٹے چھوٹے چبوتروں پرفرشتوں کے بت پرپھیلائے ہوئے کھڑے ہیں اوران کے بیچ میں ایک بڑے چبوترہ پردادا بھائی نوروجی کا عظیم بت پدرانہ شفقت سے سارے ہندوستان کوتک رہاہے۔ میں دیر تک ہندوستانی قومیت کے پدراعلیٰ کودیکھتارہا۔ اتنے میں کسی نے کہا، ’’دادابھائی!‘‘
میں نے پلٹ کردیکھا، ’’ایک لانبے قدکا سیاہ رنگ کا آدمی تھا۔ وہ سفیدقمیص اورخاکی نیکر پہنے ہوئے تھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں اوراس کے ہونٹ بھی بند تھے۔ صرف اس کے ماتھے میں سوراخ تھا اوراس سے خون بہہ رہاتھا۔ پھرآواز آئی، ’’دادابھائی!‘‘
یقیناً یہ وہی آدمی بول رہا تھالیکن نہ معلوم اس کے ہونٹ نہ ہلتے ہوئے بھی کس طرح بات کررہے تھے۔ نوروجی بولے، ’’کیا بات ہے بیٹا؟‘‘
’’دادا بھائی۔‘‘ وہ لانبا آدمی بولا، ’’مل مجورہوں۔‘‘
دادا بھائی نے بڑی شفقت سے پوچھا، ’’یہاں بمبئی میں کس مل میں کام کرتے ہو؟‘‘
’’نہیں دادابھائی۔ میں امل نیرمیں تھا۔ میرا نام پاٹل ہے۔ میرے تین بچے ہیں۔ ایک بڑھیا ماں ہے۔ ایک بڈھا باپ ہے۔ ان سب کا خرچہ میرے اوپرہے اورمیں یہ خرچہ اس تھوڑی سی مجوری میں پورا نہیں اٹھاسکتا۔ میرے مالک۔‘‘
’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘ دادا بھائی بولے، ’’تنخواہ میں اضافہ؟‘‘
’’ہاں مالک۔ مہنگائی بہت ہے اورخرچہ زیادہ ہے اورجندگی مصیبت ہے۔‘‘
’’تو مل مالک سے کیوں نہیں کہتے؟‘‘
’’بہت کہامالک، انہوں نے نہیں سنا۔‘‘
’’توسرکارسے کہو، اپنی سرکار سے کہو۔ اب تواپنی سرکارہے۔‘‘
’’اپنی سرکارنے بھی نہیں سنی۔ انہوں نے ہمیں گولی ماردی ہے مالک۔ یہ ماتھے پر گولی کا نشان ہے۔ میں امل نیر کامل مجورہوں۔ میرے تین بچے ہیں۔ ایک بیوی ہے۔ ایک بڈھی ما ں ہے۔ ایک بڈھاباپ ہے اورسب کا خرچہ مجھ پرہے اور مجھے ماردیاگیا ہے اوروہ سب لوگ بھوکے ہیں اورمیں نے ہمیشہ کانگریس کوچندہ دیاہے اور آجادی کے لیے ہڑتال بھی کی ہے مگرآج آجادی آگئی ہے اور اس کی پہلی گولی میرے ماتھے پر ہے مالک۔
’’توتم کیاچاہتے ہو؟‘‘
’’کچھ نہیں، مجھے اپنی چھترچھایامیں تھوڑی سی جگہ دے دو۔ میں ساری دنیا کے سامنے کھڑا ہوکے تمہارے نجدیک کھڑاہوکے اپنے ماتھے کا لال نشان دکھاناچاہتاہوں۔ دادابھائی کیامیرے ماتھے کاخون کبھی بند نہ ہوگا۔ میرے بڈھے باپ کوکوئی روٹی نہ دے گا۔ میری بیوی کوکوئی عزت نہ دے گا۔ میری ماں کی ممتا کیاسداپیاسی رہے گی۔ دادا بھائی بولو، دادا بھائی بولو۔ تم توپارلیمنٹ میں شیر کی طرح گرجتے تھے۔ اب چپ کیوں ہو؟‘‘
میری آنکھوں میں آنسوآگئے اور میں آگے کچھ نہ سن سکا اور وہاں سے چلاآیا اور روتے روتے اے آئی ایس سی پنڈال کے باہرپہنچ گیا، جہاں مہاتماگاندھی کابت کھڑا تھا۔ اے آئی سی ایس کا اجلاس ختم ہوگیاتھا اور تماشائی رخصت ہوگئے تھے اوراب پنڈال توڑاجارہا تھا اورلانبے لانبے بانس لاریوں میں بھربھرکر واپس لے جائے جارہے تھے۔ میں بت کے پاس چلاگیا اور رندھے ہوئے گلے سے بولا، ’’باپودیکھ توسہی، تیرے راج میں کتنااندھیرا ہے۔ لنگوٹی والے باپو آ میں تجھے دکھاؤں کہ تیرے فدائی تیرے نام پرکیاکررہے ہیں۔‘‘
لیکن بت نے کوئی جواب نہیں دیا، کیوں کہ اماوس کی رات ختم ہوچکی تھی اور سپیدہ سحرنمودارہورہا تھا اورجب روشنی ہوجاتی ہے توبت نہیں بولتے۔ میرے پاس ایک مزدورکھڑا تھا۔ وہ بولا، ’’اس چبوترے سے پرے ہٹ جاؤ۔ اس بت کو یہاں سے اٹھانا ہے۔‘‘
’’کہاں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
وہ بولا، ’’اسے ایک مل مالک نے خریدلیاہے۔ یہ بت آج اس کے گھراٹھ جائے گا۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.