کیک
انہوں نے میز پر ایک زوردار گھونسا مارا اور میز بہت دیر تک ہلتی رہی۔
’’میں کہتا ہوں کہ جب تک ایٹ اے ٹائم پانچ سولوگوں کو گولی سے نہیں اڑادیا جائے گا، حالات ٹھیک نہیں ہوسکتے!‘‘ اپنی خاصی اسپیکنگ پاور برباد کرکے وہ ہانپنے لگے۔ پھر انہوں نے اپنا اوپری ہونٹ نچلے ہونٹ سے دباکر مجھے گھورنا شروع کیا۔ وہ یقیناً سمجھ گئے تھے کہ میں مسکرارہا ہوں۔ پھر انہوں نے گھورنا بند کردیا اور اپنی پلیٹ پر پل پڑے۔
روز ہی رات کو سیاست پر بات ہوتی ہے۔ دن کے دوبجے سے رات کے آٹھ بجے تک پروف ریڈنگ کا گھٹیا کام کرتے کرتے وہ کافی کھسیا اٹھتے ہیں۔ میں نے کہا، ’’ان پانچ سو لوگوں میں آپ اپنے کو بھی جوڑ رہے ہیں؟‘‘
’’اپنے کو کیوں جوڑوں؟ کیا میں کروک پالیٹیشن ہوں، یا اسمگلر ہوں، یا کروڑوں کی چوربازاری کرتا ہوں؟‘‘ وہ پھر مجھے گھورنے لگے تو میں ہنس دیا۔ وہ اپنی پلیٹ کی طرف دیکھنے لگے۔
’’آپ لوگ تو کسی بھی چیز کو سیریسلی نہیں لیتے ہیں۔‘‘
کھانا ختم ہونے کے بعد انہوں نے جھوٹی پلیٹیں اٹھائیں اور کچن میں چلے گئے۔ کرسی پر بیٹھے ہی بیٹھے مسز ڈی سوزا نے کہا، ’’ڈیوڈ، میرے لیے پانی لیتے آنا۔‘‘
ڈیوڈ جگ بھر کر پانی لے آئے۔ مسز ڈی سوزا کو ایک گلاس دینے کے بعد بولے، ’’پی لیجیے مسٹر، پی لیجیے!‘‘
میرے انکار کرنے پر جلے کٹے طریقے سے بولے، ’’تھینکس ٹوگاڈ! یہاں دن بھرپانی تومل جاتا ہے۔ اگر اندرپوری میں رہتے تو پتا چل جاتا۔ خیر، آپ نہیں پیتے تو میں ہی پیے لیتا ہوں۔‘‘ کہہ کر وہ تین گلاس پانی پی گئے۔
کھانے کے بعد اسی میز پر ڈیوڈ صاحب کام شروع کردیتے ہیں۔ آج بھی وہ پروف کا پلندا کھول کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے میز صاف کی۔ میز کے ایک پائے کی جگہ رکھی اینٹوں کو ہاتھ سے ٹھیک کیا تاکہ میز ہل نہ سکے۔ پھر ٹوٹی کرسی پر بیٹھے بیٹھے اچانک اکڑ گئے اور ناک پر چشمہ اس طرح فٹ کیا جیسے بندوق میں گولیاں بھرلی ہوں۔ ہونٹ خاص طرح سے دبالیے۔ پروف مسودے سے ملانے لگے۔ گولیاں چلنے لگیں۔ اسی طرح ڈیوڈ صاحب رات بارہ بجے تک پروف دیکھتے رہتے ہیں۔ اس بیچ وہ کم سے کم پچاس بار چشمہ اتارتے اور لگاتے ہیں۔ بندوق میں کچھ خرابی ہے۔ پانچ سال پہلے آنکھ ٹیسٹ کروائی تھی اور چشمہ خریدا تھا۔
اب آنکھ زیادہ کمزور ہوچکی ہے، لیکن چشمے کا نمبر نہیں بڑھ پایا ہے۔ ہر مہینے کی پندرہ تاریخ کو وہ اگلے مہینے آنکھ ٹیسٹ کروا کے نیا چشمہ خریدنے کی بات کرتے ہیں۔ بندوق کی قیمت بہت بڑھ چکی ہے۔ پروف دیکھنے کے درمیان پانی پئیں گے تو ’’باسو کی جے‘‘ کا نعرہ لگائیں گے۔ باسوان کا باس ہے، جس سے انہیں کئی درجن شکایتیں ہیں۔ جہاں تک میری سمجھ میں آتا ہے، وہ سب جائز ہیں۔ ویسی ہی تین درجن شکایتیں مجھے بھی ہیں۔ ایسی شکایتیں بیشتر چھوٹا کام کرنے والوں ہوتی ہیں۔
’’بڑا جان لیوا کام ہے صاحب!‘‘ وہ دو ایک بار سراٹھاکر مجھ سے کہتے ہیں۔ میں ہوں ہاں میں جواب دے کر بات آگے بڑھنے نہیں دیتا۔ لیکن وہ چپ نہیں ہوتے۔ چشمہ اتار کر آنکھوں کی رگڑائی کرتے ہیں۔ ’’بڑی ہائی لیول، بنگلنگ ہوتی ہے۔ اب تو چھوٹے موٹے کرپشن کیس پر کوئی چونکتا تک نہیں۔ پوری مشینری سڑگل چکی ہے۔ یہ آدمی نہیں کتے ہیں کتے! میں بھی آزادی سے پہلے گاندھی کا اسٹانچ سپورٹر تھا اور سمجھتا تھا کہ نان وائلنس از دی بیسٹ پالیسی۔ لیکن اب سوچتا ہوں کہ وہ چوتیا پاہے۔ وائلنس از دی بیسٹ پالیسی! لٹکا دو پانچ سو آدمیوں کو سولی پر! ارے، ان سالوں کا پبلک ٹرائل ہونا چاہیے، پبلک ٹرائل!‘‘
’’پبلک ٹرائل کون کرے گا ڈیوڈ صاحب؟‘‘ میں جھلا جاتا ہوں۔ اتنی دیر سے وہ لگاتار بکواس کر رہے ہیں۔
وہ دونوں ہاتھوں سے اپنا سرپکڑ کربیٹھ جاتے ہیں۔
’’ماسِز میں اگرلیفٹ فورسز۔۔۔‘‘ وہ دھیرے دھیرے بہت دیر تک بڑبڑاتے رہتے ہیں۔
میں جاسوسی ناول کے ہیرو کو ایک بار پھر گولیوں کی بوچھار سے بچادیتا ہوں۔
وہ کہتے ہیں، ’’آپ بھی کیا دوڈھائی سو روپے کے لیے گھٹیا ناول لکھا کرتے ہیں۔‘‘ میں مسکراکر ان کے پروف کے پلندے کی طرف دیکھتا ہوں، اور وہ چپ ہوجاتے ہیں۔ گمبھیر ہوجاتے ہیں۔
’’میں سوچتا ہوں برادر، کیا ہم تم اسی طرح پروف پڑھتے اور جاسوسی ناول لکھتے رہیں گے؟ سوچو تو یار، دنیا کتنی بڑی ہے۔ یہ ہمیں معلوم ہے کہ کتنی اچھی طرح سے زندگی گزاری جاسکتی ہے۔ کتنا آرام اور سکھ ہے، کتنی بیوٹی ہے۔۔۔‘‘
’’پریشانی تو میرے لیے ہے ڈیوڈ صاحب۔ آپ تو بہت سے کام کرسکتے ہیں۔ مرغی خانہ کھول سکتے ہیں، بیکری لگاسکتے ہیں۔۔۔‘‘
وہ آنکھیں بند کرکے بے یقینی کی ہنسی ہنسنے لگتے ہیں اور کمرے کی ہر ٹھوس چیز سے ٹکراکر ان کی ہنسی ان کے منھ میں واپس چلی جاتی ہے۔
اکثر کھانے کے بعد وہ ایسی ہی باتیں چھیڑ دیتے ہیں۔ کام میں من نہیں لگتا اور وقت بوجھ لگنے لگتا ہے۔ جی میں آتا ہے کہ لوہے کی ایک بری سی راڈ لے کر کسی فیشن ایبل علاقے میں نکل جاؤں۔ ڈیوڈ صاحب تو ساتھ چلنے پر تیار ہو ہی جائیں گے۔ پھر وہ بولنے لگتے ہیں، اور ان کے پیارے الفاظ ’’بچ‘‘، ’’کروک‘‘، ’’نان سنس‘‘، ’’بنگلنگ‘‘، ’’پبلک ٹرائل‘‘، ’’اکسپلائٹیشن‘‘، ’’کلاس اسٹرگل‘‘ وغیرہ بار بار سنائی پڑتے ہیں۔ بیچ بیچ میں وہ ہندوستانی گالیاں فراٹے سے بولتے ہیں۔
’’اب کیا ہوسکتا ہے؟ پچیس سال تک پروف ریڈری کے بعد اب اور کیا کرسکتا ہوں؟ سن ۱۹۴۸ میں دہلی آیا تھا۔ ارے صاحب، ڈیفنس کالونی کی زمین تین روپے گز میرے سامنے بکی ہے جس کا دام آج چار سو روپے ہے۔ نظام الدین سے اوکھلا تک جنگل تھا جنگل۔ کوئی شریف آدمی رہنے پر تیار ہی نہیں ہوتا تھا۔ اگر اس وقت نظام الدین میں زمین خریدلی ہوتی تو آج لکھ پتی ہوتا۔ لیکن اس وقت اتنا پیسہ نہیں تھا اور آج۔۔۔
سینئر کیمبرج میں میرے ساتھ پاٹی پڑھتا تھا۔ اب اگرآپ آج ا سے دیکھ لیں تو مان ہی نہیں سکتے کہ میں اس کا کلاس فیلو اور دوست تھا۔ گور اچٹا رنگ، اے کلاس صحت، ایک جیپ، ایمبیسڈر اور ٹریکٹر ہے اس کے پاس۔ مرزا پور کے پاس فارمنگ کرواتا ہے۔ اس زمانے میں دس روپے بیگھہ زمین خریدی تھی ا س نے۔ مجھ سے بہت کہا تھا کہ تم بھی لے لو ڈیوڈ بھائی چار پانچ سوبیگھے۔ بالکل اسی کے فارم کے سامنے پانچ سو بیگھے کا پلاٹ تھا۔ اے کلاس فرٹائل زمین! لیکن اس زمانے میں میں کچھ اور تھا۔‘‘ وہ کھسیانی ہنسی ہنسے،
’’آج اس کی آمدنی تین لاکھ روپے سال ہے۔ اپنی ڈیری، اپنا مرغی خانہ۔ ٹھاٹھ ہے صاحب ٹھاٹھ۔‘‘ ڈیوڈ صاحب خوش ہوگئے جیسے وہ سب انہیں کا ہو۔ پروف کے پلندے کو اٹھاکر ایک کونے میں رکھتے ہوئے بولے، ’’میری تو قسمت میں اس شاندار کمرے میں مسز ڈی سوزا کا کرایہ دار ہونا لکھا تھا۔‘‘
مسز ڈی سوزا کو پچاس روپے دو، کمرہ مل جائے گا۔ پچیس روپے اور دو تو صبح ناشتہ مل جائے گا، اور تیس روپے دو رات کا کھانا، جسے مسز ڈی سوزا انگریزی کھانا کہتی ہیں، مل جائے گا۔ مسز ڈی سوزا کے کمرے میں لگی تصویروں کو، جو اکثر ان کے جوانی کے دنوں کی ہیں، کرایہ دار ہٹا نہیں سکتا۔ کسی تصویر میں وہ موم بتی کے سامنے بیٹھی کتاب پڑھ رہی ہیں تو کسی میں اپنے بال گود میں رکھے خلا میں دیکھنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تصویروں میں سے کچھ لوگوں کا تعارف انگریزی افسر کے طور پر کراتی ہیں، پر دیکھنے میں وہ سب ہندوستانی لگتے ہیں۔ ایک تصویر مسز ڈی سوزا کی لڑکی کی بھی ہے جو ڈیوڈ صاحب کی میز پر رکھی رہتی ہے۔
لڑکی حقیقت میں کنٹاپ ہے۔ چھنال پنا اس کے چہرے سے ایسا ٹپکتا ہے کہ اگر سامنے کوئی برتن رکھ دے تو دن میں دسیوں بار خالی کرنا پڑے۔ اسے صرف دیکھ کر اچھے اچھے دونوں ہاتھوں سے دبالیتے ہوں گے۔ کچھ پڑوس والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسی تصویر کو دیکھ دیکھ کر ڈیوڈ صاحب نے شادی کرنے اور بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت سے ہاتھ دھولیے ہیں۔ مسز ڈی سوزا دیسی عیسائیوں کی کئی لڑکیاں ان کے لیے کھوج چکی ہیں۔ مگر سب بے کار۔ وہ تو ڈھائی سو وولٹیج کے کرنٹ سے جل بھن کرراکھ ہوچکے ہیں۔ اور ایک دن تنگ آکر مسز ڈی سوزا نے محلے میں ان کے نامرد ہونے کااعلان کردیا اور ان کے سامنے کپڑے بدلنے لگیں۔
صبح کا دوسرا نام ہوتا ہے جلدی۔ جلدی جلدی بنا دودھ کی چائے کے کچھ کپ۔ رات کے دھوئے کپڑوں پر الٹی سیدھی پریس۔ جوتے پر پالش۔ اور دن بھر پروف کریکٹ کرتے رہنے کے لیے آنکھوں کی مساج۔ پروف کے پلندے، کریکٹ کیے ہوئے اور پریس سے آئے ہوئے۔ پھر کریکٹ کیے ہوئے اور پھر آئے ہوئے۔ دھم! سالا زور سے گالی دے مارتا ہے۔ ’’دیکھ لو بابو، جلدی دیکھ دو۔ بڑا صاحب کالم دیکھنا لگتا ہے!‘‘ پوری زندگی گھٹیا قسم کے کاغذ پر چھپا پروف ہوگئی ہے جسے ہم لگاتار کریکٹ کر رہے ہیں۔
گھر سے باہر نکل کر جلدی جلدی بس اسٹاپ کی طرف دوڑنا، جیسے کسی کو پکڑنا ہو۔ ہم دونوں ایک نمبر کی بس پکڑتے ہیں۔ راستے میں ڈیوڈ صاحب مجھ سے روز ایک سی باتیں کرتے ہیں، ہری سبزیوں سے کیا فائدہ ہے۔ کس سبزی میں کتنا اسٹارچ ہوتا ہے۔ انڈے اور مرغی کھاتے رہیں تو اسی سال کی عمر میں بھی لڑکا پیدا کرسکتے ہیں۔ بکری اور بھینس کے گوشت کانازک فرق انہیں اچھی طرح معلوم ہے۔ انگریزی کھانے کے بارے میں ان کی معلومات لامحدود ہیں۔ کیک میں کتنا میدہ ہونا چاہیے، کتنے انڈے ڈالے جائیں، میوے اور جیلی کو کیسے ملایا جائے، دودھ کتنا پھینٹا جائے۔ کیک کی سنکائی کے بارے میں ان کی الگ ترکیبیں ہیں۔ کریم لگانے اور کیک کو سجانے کے ان کے پاس سیکڑوں فارمولے ہیں، جن کوہندوستان میں اب کوئی نہیں جانتا۔
کبھی کبھی کہتے ہیں، ’’یہ سالے دھوتی باندھنے والے، کھانا کھانا کیا جانیں۔ ڈھیر ساری سبزی لے لی، تیل میں ڈالی اور کھاگئے، بس! کھانا پکانا اور کھانا مسلمان جانتے ہیں یا انگریز۔ انگریز تو چلے گئے، سالے مسلمانوں کے پاس بھینسے کا گوشت کھا کھا کر عقل موٹی کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ بھینسے کا گوشت کھاؤ، بھینسے کی طرح عقل موٹی ہوجائے گی، اور پھر بھینسے ہی کی طرح کولھو میں پلے رہو۔ رات گھر آکر بیوی پر بھینسے کی طرح پل پڑو!‘‘
آج پھر گھوم کر وہ اپنے موضوع پر آگئے،
’’ناشتہ تو ہیوی ہونا ہی چاہیے۔‘‘
میں نے ہامی بھری۔ اس بات سے تو کوئی الو کا پٹھا ہی انکار کرسکتا ہے۔
’’ہیوی اور انرجیٹک۔‘‘ چلتے چلتے اچانک رک گئے۔ ایک نئے بنتے ہوئے مکان کو دیکھ کر بولے، ’’کسی بلیک مارکٹیئر کا معلوم ہوتا ہے!‘‘ پھر انہوں نے اکڑ کر جیب سے چشمہ نکالا، آنکھوں پر فٹ کرکے مکان کی طرف دیکھا۔ فائر ہوا، زوردار دھماکے کے ساتھ، اور سارا مکان اڑ اڑ ادھم کرکے گرگیا۔
’’بس، ایک گلاس دودھ، چار ٹوٹسٹ اور مکھن، پورِج اور دو انڈے!‘‘ انہوں نے ایک لمبی سانس کھینچی، جیسے غبارے میں سے ہوا نکل گئی ہو۔
’’نہیں، میں آپ سے ایگری نہیں کرتا۔ فروٹ جوس بہت ضروری ہے۔ بنا۔۔۔‘‘
’’فروٹ جوس؟‘‘ وہ بولے، ’’نہیں، اگر دودھ ہو تو اس کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
’’پراٹھے اور انڈے کا ناشتہ کیسا رہے گا؟‘‘
’’ویری گڈ! لیکن پراٹھے ہلکے اور نرم ہوں۔‘‘
’’اور اگرناشتے پر کیک ہو؟‘‘
وہ سپاٹ اور پھیکی ہنسی ہنسے۔
کئی سال ہوئے، میرے دلّی آنے کے آس پاس، ڈیوڈ صاحب نے اپنی برتھ ڈے پر کیک بنایا تھا۔ پہلے پورا بجٹ تیار کرلیا گیا تھا۔ سب خرچ جوڑ کر کل ستر روپے ہوتے تھے۔ پہلی تاریخ کو ڈیوڈ صاحب میدہ، شکر اور میوہ لینے کھاری باؤلی گئے تھے۔ سارا سامان گھر میں پھر سے تولا گیا تھا۔ پھر اچھے بیکر کا پتا لگایا گیا تھا۔ ڈیوڈ صاحب کے کئی دوستوں نے دریاگنج کے ایک بیکر کی تعریف کی تو وہ ایک دن اس سے بات کرنے گئے، بالکل اسی طرح جیسے دو ملکوں کے وزیر اعظم سنگین مسائل پر مذاکرات کرتے ہیں۔ ڈیوڈ صاحب نے اس کے سامنے ایک ایسا سوال رکھ دیا کہ وہ لاجواب ہوگیا۔ ’’اگر تم نے سارا سامان کیک میں نہ ڈالا اور کچھ بچالیا تو مجھے کیسے پتا چلے گا؟‘‘ اس مسئلے کا حل بھی انہوں نے خود کھوج لیا۔ کوئی ایسا آدمی ملے جو بیکر کے پاس اس وقت تک بیٹھا رہے جب تک کیک بن کر تیار نہ ہوجائے۔ مسز ڈی سوزا نے اس کام کے لیے اپنے آپ کو کئی بار آفر کیا، مگر اصل میں ڈیوڈ صاحب کو مسز ڈی سوزا پر بھی اعتبار نہیں تھا۔ ہوسکتا ہے بیکر اور مسز ڈی سوزا مل کر ڈیوڈ صاحب کو چوٹ دے دیں۔
جب پوری دلّی میں معتبر آدمی نہیں ملا تو ڈیوڈ صاحب نے ایک دن چھٹی لی۔ میں نے اس کام میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی تھی، اس لیے وہ ان دنوں مجھ سے ناراض تھے اور میری پیٹھ پیچھے انہوں نے مسز ڈی سوزا سے کئی بار کہا کہ، ’’سالا جانتا ہی نہیں کیک کیا ہوتا ہے!‘‘ میں جانتا تھا کہ کیک بن جانے کے بعد کسی بھی رات کو کھانے کے بعد مرغی خانہ کھولنے والی بات کرکے ڈیوڈ صاحب کو خوش کیا جاسکتا ہے یا ان کے اس دوست کے بارے میں بات کرکے انہیں جوش میں لایا جاسکتا ہے، جس کا مرزا پور کے پاس بڑا فارم ہے اور وہ وہاں کیسے رہتا ہے۔
کیک برتھ ڈے سے ایک دن پہلے آگیا تھا۔ اب اسے رکھنے کا مسئلہ تھا۔ مسز ڈی سوزا کے گھر میں چوہے ضرورت سے زیادہ ہیں۔ اس آڑے وقت میں میں نے ان کی مدد کی۔ اپنے ٹین کے بکس میں سے کپڑے نکال کر تولیے میں لپیٹ کر میز پر رکھ دیے اور بکس میں کیک رکھ دیا۔۔۔ اور میرا بکس پورے ایک مہینے تک گھرا رہا۔
ہم سب کو اس کیک کے بارے میں بات چیت کرلینا اب بھی بہت اچھا لگتا ہے۔ ڈیوڈ صاحب تو اسے اپنا سب سے بڑا اچیومنٹ مانتے ہیں۔ اور میں اپنے بکس کو خالی کردینا کوئی چھوٹا کارنامہ نہیں سمجھتا۔ اس کے بعد سے لے کر اب تک کیک بنوانے کے کئی پروگرام بن چکے ہیں۔ اب ڈیوڈ صاحب کی شرط یہ ہوتی ہے کہ سب شیئر کریں۔ زیادہ موڈ میں آتے ہیں تو آدھا خرچ اٹھانے پر تیار ہوجاتے ہیں۔
ان کے بقول بچپن سے انہیں دوچیزیں پسند رہی ہیں، جولی اور کیک۔ جولی کی شادی کسی کیپٹن سے ہوگئی تو وہ دھیرے دھیرے اسے بھولتے گئے، پر کیک اب بھی پسند ہے۔ کیک کے ساتھ کون شادی کرسکتا ہے؟ لیکن کھاری باؤلی کے کئی چکر لگانے پر انہوں نے محسوس کیا کہ کیک کی بھی شادی ہوسکتی ہے لیکن پھر بھی پسند کرنا بند نہ کرسکے۔
دفتر سے لوٹ کر آیا تو سارا بدن اس طرح درد کر رہا تھا جیسے بری طرح سے مارا گیا ہو۔ باہر دروازہ کھولنے کے لیے مسز ڈی سوزا آئیں۔ وہ شاید کچن میں اپنے کھٹولے پر سو رہی تھیں۔ اندر آنگن میں ان کے پوشیدہ کپڑے سوکھ رہے تھے۔ ’’پوشیدہ کپڑے‘‘ کا لفظ سوچ کر ہنسی آئی۔ کوئی انگ پوشیدہ ہی کہاں رہ گیا ہے! ڈی ٹی سی کی بسوں میں چڑھتے اترتے پوشیدہ حصوں کے جغرافیے کی اچھی خاصی معلومات ہوگئی ہیں۔ ان کی گرماہٹ، چکنائی، کھردرے پن، گندے پن اور لبھاؤنے پن کے بارے میں خاصا علم ہے۔
’’آج جلدی چلے آئے؟‘‘ مسز ڈی سوزا پوشیدہ کپڑے اتارنے لگیں، ‘‘ چائے پیوگے؟ میں نے ابھی تک نہیں پی ہے۔‘‘
’’ہاں ضرور!‘‘ سوچا، اگر سالی نے پی لی ہوتی تو کبھی نہ پوچھتی۔
کمرے کے اندر چلاآیا۔ پتھر کی چھت کے نیچے کھانے کی میز لگی ہے جس کے ایک پائے کی جگہ اینٹیں لگی ہیں۔ دوسرے پایوں کو ٹین کی پٹیوں سے جکڑ کر کیلیں ٹھونک دی گئی ہیں۔ رسی، ٹین، لوہے، تار اور اینٹوں کے سہارے کھڑی میز پہلی نظر میں کوئی قدیم مشین سی لگتی ہے۔ میز کے اوپر مسز ڈی سوزا کی سلائی مشین رکھی ہے۔ کھانا کھاتے وقت مشین کو اٹھاکر میز کے نیچے رکھ دیا جاتا ہے۔ کھانا کھانے کے بعد مشین پھر میز پر آجاتی ہے۔ رات میں ڈیوڈ صاحب اسی میز پر بیٹھ کر پروف دیکھتے ہیں، کئی گلاس پانی پیتے ہیں اور ایک بجتے بجتے اٹھتے ہیں تو کمرہ اکیلا ہوجاتا ہے۔ میں اس کمرے میں رکھی سلائی مشین یا میز کی طرح کمرے کا ایک حصہ بن جاتا ہوں۔
’’یہ لوٹی، گرین لیبل ہے!‘‘ مسز ڈی سوزا نے چائے کی پیالی تھمادی۔
وہ کھانوں کے نام انگریزی میں لیتی ہیں۔ روٹی کو بریڈ کہتی ہیں، دال کوپتا نہیں کیوں انہوں نے سوپ کہنا شروع کردیا ہے۔ سبزی کو ’’بوائلڈ ویجی ٹیبلز‘‘ کہتی ہیں، کریلوں کو ’’ہاٹ ڈش‘‘ کہتی ہیں۔ مسز ڈی سوزا تھوڑی بہت گورا شاہی انگریزی بھی بول لیتی ہیں جس سے محلے کے لوگ کافی متاثر ہوتے ہیں۔ میں نے ٹی لے لی۔ مسز ڈی سوزا آج کے زمانے کا مقابلہ پہلے زمانے سے کرنے لگیں۔ انہیں چالیس سال تک کی چیزوں کے دام یاد ہیں۔ اس کے بعد اپنے مکان کا ذکر ان کا پسندیدہ موضوع ہے، جس کا سیدھا مطلب ہم لوگوں پر رعب ڈالنا ہوتا ہے۔ ویسے رعب ڈالتے وقت یہ بھول جایا کرتی ہیں کہ دونوں کمرے کرائے پر اٹھادینے کے بعد وہ خود کچن میں سوتی ہیں۔ میں ان کی بکواس سے تنگ آکر باتھ روم میں چلا گیا۔ اگر ڈیوڈ صاحب ہوتے تو مزہ آتا۔ وہ مسز ڈی سوزا کو مرغی خانہ کھول کر لکھ پتی ہوجانے کا راز بتاتے اور مسز ڈی سوزا منھ کھول کر اور آنکھیں پھاڑ کر مرغی پالنے کی باریکیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتیں۔
’’زیادہ نہیں، صرف دوہزار روپے سے کام شروع کرے کوئی۔ چار سو مرغیوں سے شاندار کام چالو ہوسکتا ہے۔ چار سو انڈے روز کا مطلب ہے کم سے کم سو روپے روز۔ ایک مہینے میں تین ہزار روپے اور ایک سال میں چھتیس ہزار روپے۔ میں تو آنٹی، لائف میں کبھی نہ کبھی ضرور کروں گا کاروبار۔
فائدہ؟ میں کہتا ہوں، چار سال میں لکھ پتی! پھر انڈے مرغی کھانے کا آرام الگ۔ روز ایک مرغی کاٹیے سالی کو! بیس انڈوں کی پڈنگ بنائیے۔ تب یہ مکان آپ چھوڑدیجیے گا آنٹی۔ یہ بھی کوئی آدمیوں کے رہنے لائق مکان ہے! پھر تو مہارانی باغ یا بسنت وہار میں کوٹھی بنوائیے گا۔ ایک گاڑی لے لیجیے گا۔‘‘
تب تھوڑی دیر کے لیے وہ دونوں بسنت وہار پہنچ جایا کرتے۔ بڑی سی کوٹھی کے پھاٹک کے داہنی طرف پیتل کی چمچماتی ہوئی پلیٹ پر ایرک ڈیوڈ اور مسز جے ڈی سوزا کے حروف اس طرح چمکتے جیسے چھوٹا موٹا سورج۔
میں لوٹ کر آیا توڈیوڈ صاحب آچکے تھے۔ کپڑے بدل کر آنگن میں پلنگ پر بیٹھے وہ باسو کو تھوک میں گالیاں دے رہے تھے۔ مسز ڈی سوزا ’’ہاٹ ڈش‘‘ پکانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ڈیوڈ صاحب کہہ رہے تھے، ’’یہ سالا باسواس لائق ہے کہ اس کا پبلک ٹرائل کیاجائے۔‘‘ ان کی آنکھوں میں نفرت اور اکتاہٹ تھی۔ چشمہ تھوڑا نیچے کھسک گیا تھا۔ انہوں نے اپنی گردن اکڑاکر چشمہ چہرے پر فٹ کیا۔ میں نے تلک برج کے سامنے ایک پیڑ کی بڑی سی ڈال پر رسے کے سہارے باسو کی لاش کو جھولتے ہوئے دیکھا۔ لہریں مارتی بھیڑ، اتھاہ بھیڑ۔ اور کچھ ہی لمحوں بعد ڈیوڈ صاحب کو ایک ننھے سے مرغی خانے میں بند پایا۔ چاروں طرف جالیاں لگی ہوئی ہیں، اور اس کے اندر دوسومرغیوں کے ساتھ ڈیوڈ صاحب دانہ چگ رہے ہیں، گردن ڈال کر پانی پی رہے ہیں اور انڈے دے رہے ہیں۔ انڈو ں کے ایک ڈھیر پر بیٹھے ہیں۔ مرغی خانے کی جالیوں سے باہر بسنت وہار صاف دکھائی پڑ رہا ہے۔
میں نے کہا، ’’آپ کیوں پریشان ہیں ڈیوڈ صاحب؟ چھوڑیے سالی نوکری کو۔ ایک مرغی خانہ کھول لیجیے۔ پھر بسنت وہارمیں مکان۔‘‘
’’نہیں نہیں، میں بسنت وہار میں مکان نہیں بنواسکتا۔ وہیں تو باسو کا مکان بن رہا ہے۔ بھائی صاحب، یہ تو دعویٰ ہے، اس دیش میں بغیر چارسوبیسی کیے کوئی آدمی کی طرح نہیں رہ سکتا۔ آدمیوں کی طرح رہنے کے لیے آپ کو بلیک مارکٹنگ کرنی پڑے گی، لوگوں کو ایکسپلائٹ کرنا پڑے گا۔۔۔ اب آپ سوچیے، میں کس سالے سے کم کام کرتا ہوں؟ روز آٹھ گھنٹے کی ڈیوٹی، اور دو گھنٹے بس کے انتظار میں۔۔۔‘‘
’’تم بہت گالی بکتے ہو!‘‘ مسز ڈی سوزا بولیں۔
’’پھر کیا کروں آنٹی؟ گالی نہ بکوں تو یسوع سے دعاکروں جس نے کم سے کم میرے ساتھ بڑا جوک کیا ہے؟‘‘
’’چھوڑیے یار ڈیوڈ صاحب، کچھ اور بات کیجیے۔ کہیں پروف کا کام زیادہ تو نہیں ملا؟‘‘
’’ٹھیک ہے، چھوڑیے۔ دلی میں ابھی تین سال ہوئے ہیں نا! کچھ جوانی بھی ہے! ابھی شاید آپ نے دلی کی چمک دمک بھی نہیں دیکھی؟ کیا ہمارا کچھ بھی حصہ نہیں ہے اس میں؟ کناٹ پلیس میں بہتے ہوئے پیسے کو دیکھا ہے کبھی؟‘‘ وہ ہاتھ چلا چلاکر پیسے کے بہاؤ کے بارے میں بتانے لگے، ’’لاکھوں کروڑوں روپے لوگ اڑا رہے ہیں۔ عورتوں کے جسموں پر سے بہتا پیسہ، کاروں کی شکل میں تیرتا ہوا۔۔۔‘‘ وہ جوش میں آگئے۔ ’’میں کہتا ہوں۔۔۔‘‘ اور انہوں نے جیب سے چشمہ نکالا، گردن اکڑائی اور چشمہ آنکھوں پر فٹ کرلیا۔
مجھے اکتاہٹ ہونے لگی۔ طبیعت گھبرانے لگی، جیسے اُمس ایک دم بیٹھ گئی ہو۔ سانس لینے میں تکلیف ہونے لگی۔ لوہے کی سلاخوں دار کمرہ ایسا مرغی خانہ لگنے لگا جس میں سخت بدبو بھر گئی ہو۔ مسز ڈی سوزا کئی بار پیش گوئی کرچکی ہیں کہ ڈیوڈ صاحب ایک دن ہم لوگوں کو اریسٹ کروائیں گے۔ اور ڈیوڈ صاحب کہتے ہیں کہ میں اس دن کا ’’ویلکم‘‘ کروں گا۔
غصے میں لگاتار ہونٹ دبائے رہنے کی وجہ سے ان کا نچلا ہونٹ کافی موٹا ہوگیا ہے۔ ماتھے پرتین لکیریں پڑجاتی ہیں۔ بچپن میں سنا کرتے تھے، ماتھے پر تین لکیریں پڑنے والا راجا ہوتا ہے۔
کچھ ہی دیر میں وہ کافی شانت ہوچکے تھے۔ کھانے کی میز پر انہوں نے ’’باسوکی جے!‘‘ کا نعرہ لگایا اور دوگلاس پانی پی گئے۔ مسز ڈی سوزا کی ہاٹ ڈش، سوپ اور بریڈ تیار تھی۔
’’کریلے کی سبزی پکانا بھی آرٹ ہے صاحب!‘‘ ڈیوڈ صاحب نے زور زور سے منھ چلایا۔
’’تین ڈش کے برابر ایک ڈش ہے!‘‘ مسز ڈی سوزا نے احسان لادا۔
ڈیوڈ صاحب ان کی بات ان سنی کرتے ہوئے بولے، ’’کریلے کھانے کا مزہ تو سیتا پور میں آتا تھا آنٹی۔ کوٹھی کے پیچھے کچن گارڈن میں ڈیڈی طرح طرح کی سبزی بواتے تھے۔ ڈھیر ساری پیاز کے ساتھ ان کریلوں میں اگر قیمہ بھر کر پکایا جائے تو کیا کہنا!‘‘
ہم لوگ سمجھ گئے کہ اب ڈیوڈ صاحب بچپن کے قصے سنائیں گے۔ ان قصوں کے بیچ نصیبن گورنس کا ذکربھی آئے گا جو صرف ایک روپیہ مہینہ تنخواہ پاکر بھی خوش رہاکرتی تھی اور جس کا خاص کام ڈیوڈ بابا کی دیکھ بھال کرنا تھا۔ نصیبن گورنس ہزار کوشش کے بعد بھی ڈیوڈ بابا کو ’’دیپک بابا‘‘ ہی کہتی رہی۔ اسی سلسلے میں اس پکنک پارٹی کا ذکر آئے گا جس میں ڈیوڈ بابا نے جمنا کے سلوپ پر گاڑی چڑھادی تھی۔ تجربہ کار ڈرائیور اسماعیل خاں کو پسینہ چھوٹ آیا تھا۔
۱۹۳۰ماڈل کی فورڈ کا انجن سیدھی چڑھائی کے چڑھنے سے انکار کرچکا تھا۔ ڈیوڈ صاحب نے اس کو ڈانٹ کر گاڑی سے اتار دیا تھا۔ سب لڑکے اور لڑکیاں اترگئے تھے۔ انگریز لڑکوں کی ہمت چھوٹ گئی تھی، لیکن جولی نے اترنے سے انکار کردیا تھا۔ ڈیوڈ بابا نے گاڑی اسٹارٹ کی، دو منٹ سوچا، گیئر بدل کر ایکسلیٹر پر دباؤ ڈالا اور گاڑی ایک فراٹے کے ساتھ اوپر چڑھ گئی۔ اسماعیل خاں نے اوپر آکر ڈیوڈ بابا کے ہاتھ چوم لیے تھے۔ وہ بڑے بڑے انگریز افسروں کو گاڑی چلاتے دیکھ چکا تھا، مگر ڈیوڈ بابا نے کمال ہی کردیا۔ جولی نے ڈیوڈ بابا کو اسی دن ’’کس‘‘ دینے کا ’’پرامز‘‘ کیا تھا۔
ان سب باتوں کو سناتے وقت ڈیوڈ صاحب کی بٹرنس غائب ہوجاتی ہے۔ وہ ڈیوڈ صاحب نہیں دیپک بابا لگتے ہیں۔ ہلکی سی دھول اڑتی ہے، سیتا پور کی سول لائنز پر بنی بڑی سی کوٹھی کے پھاٹک میں سن ۱۹۳۰ کی فورڈ مڑجاتی ہے۔ پھاٹک کے ایک کھمبے پر صاف حرفوں میں لکھا ہوا ہے، ’’پیٹر جے ڈیوڈ، ڈپٹی کلکٹر۔‘‘ کوٹھی کی چھت کھپریلوں سے بنی ہوئی ہے۔ کوٹھی کے چاروں طرف کئی بیگھے کا کمپاؤنڈ ہے۔ پیچھے آم اور سنترے کا باغ ہے۔ داہنی طرف ٹینس کورٹ، اور بائیں طرف بڑا سا کچن گارڈن۔ کوٹھی کے اونچے برآمدے میں باوردی چپراسی اونگھتا ہوا دکھائی پڑے گا۔ اندر ہال میں وکٹورین فرنیچر اور چھت پر لٹکتا ہوا ہاتھ سے کھینچنے والا پنکھا۔ دوپہر میں پنکھا قلی پنکھا کھینچتے کھینچتے اونگھ جاتا ہے تو مسٹر پیٹرجے ڈیوڈ، ڈپٹی کلکٹر، اپنے ولایتی جوتوں کی ٹھوکروں سے اس کے کالے بدن پر نیلے رنگ کے پھول اگادیتے ہیں۔
بابا لوگ ٹائی باندھ کر کھانے کی میز پر بیٹھ کر چکن سوپ پیتے ہیں، کھانا کھانے کے بعد آئس کریم کھاتے ہیں، اور ممی ڈیڈ کو ’’گڈنائٹ!‘‘ کہہ کر پھر اپنے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ ساڑھے نو بجے کے آس پاس سن ۱۹۳۰کی فورڈ پھر اسٹارٹ ہوتی ہے۔ اب وہ یا تو کلب چلی جاتی ے یا کسی دیسی رئیس کی کوٹھی کے اندر گھس کر آدھی رات کو ڈگمگاتی ہوئی لوٹتی ہے۔
مسز ڈی سوزا کے مکان کی چھت کے اوپر سے دلی کی روشنیاں دکھائی پڑتی ہیں۔ سیکڑوں جنگلی جانوروں کی آنکھیں رات میں چمک اٹھتی ہیں۔ پانی پینے کے لیے نیچے آتا ہوں تو ڈیوڈ صاحب پروف پڑھ رہے ہیں۔ مجھے دیکھ کر مسکراتے ہیں، قلم بند کردیتے ہیں اور بیٹھنے کے لیے کہتے ہیں۔ آنکھوں میں نیند بھری ہوئی ہے۔ وہ مجھے دھیرے دھیرے سمجھاتے ہیں۔ ان کے اس سمجھانے سے میں تنگ آگیا ہوں۔
شروع شروع میں تو میں ان کو الو کا پٹھا سمجھتا تھا، لیکن بعد میں پتا نہیں کیوں ان کی باتیں میرے اوپر اثر کرنے لگیں، ’’بھاگ جاؤ اس شہر سے، جتنی جلدی ہوسکے بھاگ جاؤ! میں بھی تمہاری طرح کالج سے نکل کر سیدھا اس شہر میں آگیا تھا، راج دھانی جیتنے۔ لیکن دیکھ رہے ہو؟ کچھ نہیں ہے اس شہر میں، کچھ نہیں۔ میری بات چھوڑدو۔ میں کہاں چلا جاؤں؟ گانڈ کے راستے یہ شہر میرے اندر گھس چکا ہے۔‘‘
’’لیکن کب تک کچھ نہیں ہوگا ڈیوڈ صاحب؟‘‘
’’اس وقت تک جب تک تمہارے پاس دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اور میں جانتا ہوں تمہارے پاس وہ سب کچھ نہیں ہے جو لوگوں کو دیا جاسکتاہے۔‘‘
میں لوٹ کر اوپر آجاتا ہوں۔ میرے پاس کیا ہے دینے کے لیے؟ اونچی کرسیاں، کاک ٹیل پارٹیاں، لمبے چوڑے لان، انگریزی میں استقبال، سوٹ اور ٹائیاں، لڑکیاں، موٹریں، شاپنگ۔ تب یہ لوگ جو تنگ گلیاروں میں مجھ سے وعدے کرتے ہیں، مسکراتے ہیں، کون ہیں؟ اس کے بارے میں پھر سوچنا پڑے گا۔ اور کافی دیر تک میں پھر سوچنے کی ہمت جٹاتا رہتا ہوں۔ لیکن وہ پیچھے ہٹتا جاتا ہے۔ میں اس کی بانہیں پکڑ کر آگے گھسیٹتا ہوں۔ کسی بگڑے ہوئے خچر کی طرح وہ اپنی رسی تڑاکر بھاگ نکلتا ہے۔
میں پھر پانی کے لیے نیچے اترتا ہوں۔ اپنی میز پر سررکھے وہ ورہے ہیں۔ پرو ف کاپلندا سامنے پڑا ہے۔ میں ان کا کندھا پکڑ کر جگادیتا ہوں، ’’اب سوجائیے۔ کل آپ کو سائٹ دیکھنے جانا ہے۔‘‘ ان کے چہرے پر مسکراہٹ آتی ہے۔ وہ کل مرغی خانہ کھولنے کی سائٹ دیکھنے جارہے ہیں۔ اس سے پہلے بھی ہم لوگ کئی سائٹس دیکھ چکے ہیں۔ ڈیوڈ صاحب اٹھ کر پانی پیتے ہیں، پھر اپنے پلنگ پر اس طرح گرپڑتے ہیں جیسے راج دھانی کے پیروں پر پڑگئے ہوں۔
میں پھر اوپر آکر لیٹ جاتا ہوں، ’’میں نے کالج میں اتنا پڑھا ہی کیوں؟ اتنا اور اُتنا کی بات نہیں ہے، مجھے کالج میں پڑھنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اور اب دوسال تک ڈھائی سو روپے کی نوکری کرتے ہوئے کیا کیا جاسکتا ہے؟ کیوں مسکراتا رہا اور کیوں شانت رہا؟ دوسال سے دوپہر کا کھانا گول کرتے رہنے کے پیچھے کیا تھا؟‘‘ نیچے سے بھینس کے گوبر کرنے کی آواز آتی ہے۔ ایک جانی پہچانی بو پھیل جاتی ہے، اس نیم مانوس قصبے کی بو جسے میں اپنا گھر سمجھتا ہوں، جہاں مجھے بہت ہی کم لوگ جانتے ہیں۔ اس چھوٹے سے اسٹیشن پر اگر میں اتروں تو گاڑی چلی جانے کے بعدکئی لوگ مجھے گھور کر دیکھیں گے اور اکا دکا اکے والے بھی مجھ سے بات کرتے ڈریں گے۔ ان کا ڈر دور کرنے کے لیے مجھے اپنا تعارف کرانا پڑے گا، یعنی اپنے باپ کا تعارف کرانا پڑے گا، تب ان کے چہرے پر مسکراہٹ آئے گی اور وہ مجھے اکے پر بیٹھنے کے لیے کہیں گے۔
دس منٹ اکا چلتا رہے گا تو ساری بستی ختم ہوجائے گی۔ اس پار کھیت ہیں، جس کا سیدھا مطلب ہے، اس پار غریبی ہے۔ وہ غریبی کے عادی ہیں۔ پولیس ان کے لیے قادر مطلق ہے اور اپنی ہر ہوشیاری میں وہ کافی مورکھ ہیں۔۔۔ اوپر آسمان میں پالم جانے والے ہوائی جہاز کی صاف آواز سنائی دیتی ہے۔ نیچے سڑک پر بالو سے لدے ٹرک گزر رہے ہیں۔ لدی ہوئی بالو کے اوپر مزدور سو رہے ہیں جو کبھی کبھی کسان بن جانے کا خواب دیکھ لیتے ہیں، اپنے گاؤں کی بات کرتے ہیں، اپنے کھیتوں کی بات کرتے ہیں جو کبھی ان کے تھے۔ ٹرک تیزی سے چلتا ہوا اوکھلا موڑ سے متھرا روڈ پر مڑجائے گا، فرینڈز کالونی اور آشرم سے ہوتا ہوا ’’راج دوت ہوٹل‘‘ کے سامنے سے گزرے گا جہاں رات بھر کیبرے ہوتا ہے اور ریستوراں کی اشتہارئی لائنیں مسلسل جلتی بجھتی رہتی ہیں۔
اسی کے سامنے فٹ پاتھ پر بہت سے دبلے پتلے، کالے اور سوکھے آدمی سوتے ہوے ملیں گے جن کی نیند ٹرک کی کرخت آواز سے بھی نہیں کھلتی۔ اوپر تیز بلب کی روشنی میں ان کے جسم بکھرے دکھائی پڑتے ہیں۔ میں اکثر حیران رہتا ہوں کہ وہ اس چوڑے فٹ پاتھ پر چھت کیوں نہیں ڈال لیتے۔ اس کے چاروں طرف کچی ہی سہی، دیوار تو اٹھائی جاسکتی ہے۔ ان سب باتوں پر سرسری نگاہ ڈالی جائے، جیسا کہ ہماری عادت ہے، تو ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ بے وقوفی اور جذباتیت سے بھری باتیں۔ لیکن اگر کوئی اوپر سے کیڑے کی طرح فٹ پاتھ پر ٹپک پرے تو ان کی سمجھ میں سب کچھ آجائے گا۔
دن اس طرح گزرتے ہیں جیسے کوئی لنگڑا آدمی چلتا ہے۔ اور تب اس مہانگری میں اپنے بہت عام اور بے سہارا ہونے کا احساس سب کچھ کرالیتا ہے۔ اور بے عزتی، جو اس مہانگر میں لوگ تفریحاً کردیتے ہیں، اب اتنی بری نہیں لگتی جتنی پہلے لگتی تھی۔ آفس میں اہلکاروں کی میز پر تیواری کا سور کی طرح گندا منھ جو ایک ہی وقت میں پکا سماج وادی (سوشلسٹ) بھی ہے اور پرو امریکن بھی۔ اس کی تنگ بشرٹ میں سے جھانکتا ہوا حرام کی کمائی پر پلا تندرست جسم اور اس کی سماج وادی پنسل جو ہر دوسری سطر صرف اس لیے کاٹ دیتی ہے کہ وہ دوسرے کی لکھی ہوئی ہے۔ اس کارعب داب، گمبھیر ہنسی، چالاک مسکراہٹ، اور اس کی میز کے سامنے اس کے سامراج میں بیٹھے ہوئے چار کمزور جاندار، جو قلم گھسنے کے سوا کچھ نہیں جانتے۔ ان لوگوں کے چہروں میں ٹائپ رائٹروں کی کھڑکھڑاہٹ۔ ان سب چیزوں کو مٹھی میں دباکر کرش کردینے کو جی چاہتا ہے۔
بھوک بھی کم بخت لگتی ہے تو اس طرح جیسے سارے شہر کا کھانا کھاکر ہی ختم ہوگی۔ شروع میں پیٹ گڑ گڑاتا ہے۔ اگر ڈیوڈ صاحب ہوتے تو بات یہیں سے جھٹک لیتے، ’’جی نہیں، بھوک جب زور سے لگتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے بلیاں لڑ رہی ہوں۔ پھر پیٹ میں ہلکا سا درد شروع ہوتا ہے جو پہلے پہل میٹھا لگتا ہے۔ پھر درد تیز ہوجاتا ہے۔ اس وقت اگر آپ تین چار گلاس پانی پی لیں تو پیٹ کچھ دیر کے لیے شانت ہوجائے گا اور آپ دوایک گھنٹہ کوئی بھی کام کرسکتے ہیں۔‘‘
اتنا سب کچھ کہنے کے بعد وہ ضرور صلاح دیں گے کہ اس مہانگری میں بھوکوں مرنے سے اچھا ہے کہ میں لوٹ جاؤں۔ اور یہاں سے نکل کر وہاں جانے کا مطلب ہے ایک غریبی اور بھک مری سے نکل کر دوسری بھک مری میں پھنس جانا۔ اسی طرح کی بہت ساری باتیں ایک ساتھ دماغ میں کبڈی کھیلتی رہتی ہیں۔ تنگ آکر ایسے موقعے پر ڈیوڈ صاحب سے پوچھتا ہوں، ’’گریٹر کیلاش کی مارکیٹ چل رہے ہیں؟‘‘
وہ مسکراتے ہیں اور کہتے ہیں، ’’اچھا، تیار ہوجاؤں۔‘‘ میں جانتا ہوں ان کے تیار ہونے میں کافی وقت لگے گا، اس لیے میں پریم سے جوتے پر پالش کرتا ہوں۔ ایک میلا کپڑا لے کر جوتے کی گھسائی کرتا ہوں۔ جوتے میں اپنی شکل دیکھ سکتا ہوں۔ ٹپ ٹاپ ہوکر ڈیوڈ صاحب سے پوچھتا ہوں، ’’تیارہیں؟‘‘
ہم دونوں بس اسٹاپ کی طرف جاتے ہوئے ایک دوسرے کے جوتوں کو دیکھ کر امنگ بڑھاتے ہیں۔ ایک عجیب طرح کی ہمت آجاتی ہے۔
گریٹر کیلاش کی مارکیٹ کی ہر دکان کا نام ہمیں زبانی یاد ہے۔ بس سے اتر کر ہم دونوں پیشاب خانے میں جاکر اپنے بال ٹھیک کرتے ہیں۔ وہ میری طرف دیکھتے ہیں۔ دوجوڑی چمچماتے جوتے برآمدے میں گھومتے ہیں۔ میں فرنیچر کی دکان کے سامنے رک جاتا ہوں۔ تھوری دیر تک دیکھتا رہتا ہوں۔ ڈیوڈ صاحب اندر چلنے کے لیے کہتے ہیں، اور میں ساری ہمت جمع کرکے اندر گھس جاتا ہوں۔ یہاں کے لوگ بڑے مہذب ہیں۔ ایک جملے میں دوبار ’’سر‘‘ بولتے ہیں۔ چمک دار جوتے دکان کے اندر ٹہلتے ہیں۔ ڈیوڈ صاحب یہاں کمال کی انگریزی بولتے ہیں، کندھے اچکاکر اور آنکھیں نکال کر۔ چیزوں کو اس طرح دیکھتے ہیں جیسے وہ کافی گھٹیا ہوں۔ میں ایسے موقعوں پر ان سے متاثر ہوکر انہیں کی طرح بی ہیو کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
کنفیشنری کی دکان کے سامنے وہ بہت دیر تک رکتے ہیں۔ شوونڈو میں سب کچھ سجا ہوا ہے۔ پہلی بار میں گمان ہوسکتا ہے کہ سارا سامان دکھاوٹی ہے، مٹی کا۔ لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
’’جلدی چلیے۔ سالا دیکھ کر مسکرا رہا ہے۔‘‘
’’کون؟‘‘ ڈیوڈ صاحب پوچھتے ہیں۔ میں آنکھ سے دکان کے اندر اشارہ کرتا ہوں۔ وہ اچانک دکان کے اندر گھس جاتے ہیں۔ میں ہچکچاکر برآمدے میں آگے بڑھ جاتا ہوں۔
’’پکڑے گئے بیٹا! بڑے لاٹ صاحب کی اولاد بنے پھرتے ہیں۔‘‘ ان کی جیب سے دس پیسے کا بس کا ٹکٹ اور کل ساٹھ پیسے نکلتے ہیں۔ سارے لوگ ہنس رہے ہیں۔ ڈیوڈ صاحب نے چمچماتا جوتا اتار کر ہاتھ میں پکڑا اور بھاگے۔ میں ہمت کرکے دکان کے اندر جاتا ہوں۔ ڈیوڈ صاحب دکان دار سے بہت فراٹے دار انگریزی بول رہے ہیں اور وہ بے چارہ گھبرارہا ہے۔ میں خوش ہوتا ہوں، ’’لو سالے، کردیا نا ڈیوڈ صاحب نے ڈنڈا! بہت مسکرا رہے تھے!‘‘ ڈیوڈ صاحب انگریزی میں ایسا کیک مانگ رہے ہیں جس کا نام اس کے باپ داداپردادا نے بھی کبھی نہ سنا ہوگا۔
باہر نکل کر ڈیوڈ صاحب نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ دیا۔
روز کی طرح کھانے کی میز پر یہاں سے وہاں تک ولایتی کھانے سجے ہوئے ہیں۔ مسز ڈی سوزا کاموڈ کچھ آف ہے۔ وجہ صرف اتنی ہے کہ میں اس مہینے کی پہلی تاریخ کو پیسے نہیں دے پایا ہوں۔ ایک آدھ دن منھ پھولا رہے گا۔ پھر وہ مہنگائی کے قصے سنانے لگیں گی۔ چیزوں کی بڑھتی ہوئی قیمتیں سنتے سنتے ہم لوگ تنگ آجائیں گے۔
بات کرنے کے لے کچھ ضروری تھا اور چپ ٹوٹتی نہیں لگ رہی تھی، تو مسز ڈی سوزا نے پوچھا، ’’آج تم ڈیفنس کالونی جانے والے تھے؟‘‘
’’نہیں جاسکا۔‘‘ ڈیوڈ صاحب نے منھ اٹھاکر کہا۔
’’اب تمہارا سامان کیسے آئے گا؟‘‘ مسز ڈی سوزا بڑبڑائیں، ’’بے چاری تمہاری بہن کیتھی نے کتنی محبت سے بھیجا ہے۔‘‘
’’محبت سے بھجوایا ہے آنٹی؟‘‘ ڈیوڈ صاحب چونکے، ’’آنٹی، اس کا ہسبنڈ دوہزار روپے کماتا ہے۔ کیتھی ایک دن بازار گئی ہوگی۔ سوا سو روپے کی ایک گھڑی اور دو قمیصیں خریدلی ہوں گی۔ اور ڈینو کے ہاتھ دلّی بھجوادیں۔ اس میں محبت کہاں سے آگئی؟‘‘
’’مگر تم انہیں جاکر لے تو آؤ۔‘‘
’’ڈینو اس سامان کو یہاں لاسکتا ہے۔‘‘
ڈینو کا ڈیفنس کالونی میں اپنا مکان ہے۔ کار ہے۔ ڈیوڈ صاحب کا بچپن کا دوست ہے۔ وہ اس شکار پارٹی میں بھی تھا جس میں ہاتھی پر بیٹھ کر ڈیوڈ صاحب نے فلائنگ شاٹ میں چار قازیں گرالی تھیں۔
’’ڈیفنس کالونی سے یہاں آنا دور پڑے گا۔۔۔ اور وہ بڑی آدمی ہے۔‘‘
’’میں بزی پروف ریڈر نہیں ہوں؟‘‘ وہ ہنسے، ’’وہ تو اپنی کار سے آسکتا ہے، جب کہ مجھے دو بسیں بدلنی پڑیں گی۔‘‘ وہ دال چاول اس طرح کھارہے تھے جیسے کیک کی یاد میں مشت زنی کر رہے ہوں۔
’’جیسی تمہاری مرضی۔‘‘
کھانا ختم ہونے پر کچھ دیر کے لیے محفل جم گئی۔ مسز ڈی سوزا پتا نہیں کہاں سے اس بڑے زمیندار کا ذکر لے بیٹھیں جو جوانی کے دنوں میں ان پر دل وجان سے عاشق تھا اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایک دن پتا لگاتا ہوا دلی میں ان کے گھر آیا تھا۔ وہ پہلا دن تھا جب اس گھر کے سامنے سیکنڈ ہینڈ ایمبیسڈر کھڑی ہوئی تھی اور ڈیوڈ صاحب کو کچن میں سونا پڑاتھا۔ اس بڑے زمیندار کا ذکر ڈیوڈ صاحب کو بہت بھاتا ہے۔ میں تو فوراً اس زمیندار کی جگہ اپنے آپ کو فٹ کرکے موقعے کا پورا مزہ اٹھانے لگتا ہوں۔
کچھ دیر بعد ادھر اُدھر گھوم گھام کر بات پھر کھانوں پر آگئی۔ ڈیوڈ صاحب سویّاں پکانے کی ترکیب بتانے لگے۔ پھر سب نے اپنے اپنے پسندیدہ کھانوں کے بارے میں بات کی۔ سب سے پہلے ڈیوڈ صاحب بولے۔
کھانے کی بات ختم ہوئی تو میں نے دھیرے سے کہا، ’’یار ڈیوڈ صاحب، اس گاؤں میں کبھی کوئی ایسی لڑکی نظر پڑجاتی ہے کہ پاؤں کانپنے لگتے ہیں۔‘‘
’’کیسی تھی، مجھے بتاؤ۔ چھدو کی بہو ہوگی یا۔۔۔‘‘
’’بس ڈیوڈ، تم لڑکیوں کی بات نہ کیا کرو۔ میں نے کتنی خوب صورت لڑکی سے تمہارا انگیجمنٹ طے کیا تھا۔‘‘
’’کیا خوب صورتی کی بات کرتی ہیں آنٹی! اگر جولی کو آپ نے دیکھا ہوتا۔۔۔‘‘
’’جولی؟ خیر اس کو تو میں نے نہیں دیکھا۔ تم نے اگر میری لڑکی کو دیکھا ہوتا۔‘‘ ان کی آنکھیں ڈبڈبا آئیں، ’’اگر وہ حاجی اسے۔۔۔‘‘ کچھ دیر بعد بولیں، ’’اگر وہ ہوتی تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ میں اس کی شادی کسی ملٹری افسر سے کردیتی۔ اس سے تو کوئی بھی شادی کرسکتا تھا۔‘‘
’’میں شادی کیسے کرلوں آنٹی؟ دوسوپچاس روپے اکیس پیسے سے ایک پیٹ نہیں بھرتا۔ ایک اور لڑکی کی جان لینے سے کیا فائدہ آنٹی؟ میری زندگی تو گزر ہی جائے گی، مگر میں یہ نہیں چاہتا کہ اپنے پیچھے ایک غریب عورت اور دوتین پروف ریڈر چھوڑ کر مرجاؤں جو دن رات مشینوں کی کان پھاڑ دینے والی آوازوں میں بیٹھ کر آنکھیں پھوڑا کریں۔‘‘ وہ کچھ رکے، ’’یہی بات میں ان سے کہتا ہوں۔‘‘ انہوں نے میری طرف اشارہ کیا، ’’اس آدمی کے پاس گاؤں میں تھوڑی سی زمین ہے جہاں گیہوں اور دھان کی فصل ہوتی ہے۔ اس کو چاہیے کہ اپنے کھیت کے پاس ایک کچا گھر بنالے۔ اس کے سامنے ایک چھپر ڈال لے۔ بس اس پر لوکی کی بیل چڑھانی پڑے گی۔ دیہات میں آرام سے ایک بھینس پالی جاسکتی ہے۔ کچھ دنوں بعد مرغی خانہ کھول سکتے ہیں۔ کھانے اور رہنے کی کوئی فکر نہیں رہ جائے گی۔ ٹھاٹھ سے کام کریں اور کھائیں۔‘‘
’’اس کے بعد آپ وہاں آئیے گا تو کیک بنایا جائے گا، بہت سے انڈے ملاکر۔۔۔‘‘ میں نے مذاق کیا۔
دیپک بابا ہنسنے لگے، بالکل بچوں کی سی معصوم ہنسی۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.