سیمنٹ
کہانی کی کہانی
اس افسانے میں حاملہ عورت میں ہارمونز کی تبدیلی کے سبب پیدا ہونے والی مختلف ذہنی الجھنوں اور نفسیاتی تبدیلیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ راشدہ بچپن سے ہی ایک سگھڑ اور نفاست پسند لڑکی تھی۔ شادی کے بعد شوہر کی مالی کمزوری کے سبب وہ مخلتف قسم کی ذہنی اذیتوں میں مبتلا رہتی ہے۔ یہاں تک کہ اسی وجہ سے وہ اپنے ذوق آرائش کی تکمیل بھی نہی کر پاتی اور وہ ہاشم سے متنفر ہو جاتی ہے۔ دوران حمل وہ ایک دن شدید خواہش کے زیر اثر سیمنٹ کھا لیتی ہے لیکن بعد میں اسے خوف لاحق ہوتا ہے اور مایکے جانے کی ضد کرتی ہے۔ پیٹ میں ہلچل کے سبب اسٹیشن پر اچانک اسے ہاشم سے شدید قسم کا انس پیدا ہو جاتا ہے اور وہ مامتا کے جذبے سے معمور ہو جاتی ہے۔ ٹرین چلنے کے وقت اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے آنسوؤں کے ہالہ میں ایک ننھا سا فرشتہ دریچہ سے باہر ہاشم کی طرف اپنے ہاتھ پھیلا رہا ہے۔
’’وہ لیٹی لیٹی نہ جانے کیا کیا سوچتی رہتی تھی۔ لڑکپن سے وہ بہت اور بہت کچھ سوچنے کی عادی تھی۔ و ہ خیال ہی خیال میں سفر کیا کرتی تھی۔ ہوا کے گھوڑے دوڑاتی، ہوائی قلعے بناتی اور کبھی سات سمندر پار کی شہزادی بنتی، مگر وہ سوچتے رہنے والی لڑکی نہ تھی بلکہ ساتھ ہی نہایت چونچال اور مجلس آرا تھی۔ ہنس مکھ کی ہنس مکھ اور لڑاکن کی لڑاکن۔ تیز مزاج، حوصلہ مند اور ہر بات میں آگے۔
دنیا بھر کا شوق اس کو تھا۔ مرغیاں، کبوتر، خرگوش وغیرہ پالنا، پتنگ اڑانا، طرح طرح کے کھیل سیکھنا اور کھیلنا۔ مدرسے میں کسی سے پیچھے نہیں، باورچی خانہ میں سب سے آگے۔ سلائی پرائی میں بھی تیز۔ ابھی دس ہی کی تھی کہ گاؤں بھر میں سگھڑ کہلانے لگی تھی اور اس کو ان سب باتوں کا بڑا احساس اور پندار تھا۔ وہ کاموں اور کھیلوں میں آگوا بننے کی خاص صلاحیت رکھتی تھی۔ وہ مجمع میں لیڈر بن جاتی تھی اور اپنی من مانی کرنے میں اسے بڑی لذت ملتی تھی۔ بھائی بہنوں سے الجھ پڑنے کے علاوہ ماں سے بھی کلے درازی کر گذرتی تھی۔ وہ ایک چھوٹی سی ڈکٹیٹر تھی۔
گھروندے تو وہ کھیلا ہی کرتی تھی، گڑیا اور گڈے کا بیاہ رچانے سے بھی اسے خاصی دل چسپی تھی۔ گیت گانا اور جھولے جھولنا اس کے دو محبوب مشغلے تھے۔ گڑیا اور گڈے کا بیاہ رچاتے رچاتے وہ تصورات کی دنیا میں پہونچ کر اپنی بھی کئی خیالی شادیاں کر ڈالتی تھی۔ وہ دلہن بنتی، دلہا آتا اور پھر بہت سی باتیں سوچ لی جاتیں۔ اسی طرح وہ بہت دیر دیر تک سوچتے سوچتے ہلکان ہو جاتی، تب وہ گڑیا کو اوڑھنی اوڑھانا یا چائے کے پیکٹ والے جستہ کا زیور پہنانا چھوڑ کر کبھی جھولا جھولنے لگتی، گاہ کسی سے جا کر ناحق لڑنے لگ جاتی اور لڑتے لڑتے رونے لگتی۔
’’عجیب۔۔۔ ایک دفعہ۔۔۔ جھولے۔۔۔ رسی۔۔۔ تھی۔۔۔ لڑتے لڑتے۔۔۔ رسی پکڑ کر۔۔۔ چڑھنے۔۔۔ اس تجربہ کی سنسنی خیز لذت۔۔۔‘‘
ایک ہفتہ وار مصور رسالے کا ایک ورق راشدہ کے ہاتھ میں تھا۔ اس نے ابھی ابھی سونف اور الائچی بازار سے منگوائی تھی۔ دو ماہ سے اس کا سر چکراتا رہتا تھا اور گذشتہ ایک ہفتہ سے تو وہ مارے متلی کے پریشان تھی۔ لیٹے لیٹے اس نے الائچی کھٹکی اور سونف کے ساتھ ملا کر کھا گئی۔ ذرا طبیعت سنبھلی تو ہاتھ پھیلا کر اس نے چوکی کے گوشے سے پاندان کھینچا۔ چاندنی میں سلوٹیں پڑ گئیں تو چیں بر جبیں ہوتے ہوئے اس نے کروٹ لی اور بائیں ہاتھ پر تھوڑی کو ٹیک کر داہنے ہاتھ سے شکنوں کو برابر کرنے لگی۔ چاندنی سجل نہ ہوئی تو اس نے چڑ کر اسے ویسے ہی چھوڑ دیا اور دھب سے تکیہ پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔ پھر لیٹے لیٹے اس نے پاندان کے ایک خانہ میں سونف اور الائچی کو انڈیل دیا اور پٹ بند کر کے یونہی پڑیا کے کاغذ سے شغل کرنے لگی۔
اس کی نظر مندرجہ بالا عبارت پر پڑی تو وہ پڑھتی چلی گئی۔ آگے ورق پھٹا ہوا تھا اور وہ بھی یوں کہ لہر کتر دیا گیا ہو۔ راشدہ کا جی چاہنے لگا کہ قصہ کو مکمل پڑھے۔ دوسرے صفحہ پر کوئی نظم تھی، اس نے کئی بار الٹ پلٹ کر دیکھا مگر قصہ کا اور چھور کچھ نہیں ملا۔ اس کی خواہش بڑھتی جا رہی تھی، مگر یہ لا علاج بات تھی۔ راشدہ کی خواہشات میں ادھر بڑ ی تیزی پیدا ہو گئی تھی۔ کبھی کچھ کھانے کو جی چاہتا تو اس شدت سے کہ وہ بےبس ہو جاتی۔ مثلاً امرود، برہل یا کوئی مٹھائی، یا محض کھپر سے کے ٹکڑے، یا چولھے کی راکھ، یا سوندھی مٹی۔ پر جب دل آتا تو ایسا لگتا کہ لپکا لگ گیا ہو۔ اندر سے ہوک اٹھتی اور ایسی بے قراری طاری ہو جاتی جیسے وہی چیز حاصل زندگی ہے۔ کچھ کرنے پر طیبعت مائل ہوتی تو طوفان کی طرح۔ پس ابھی ابھی ایک انہونی بات کی خواہش پیدا ہو گئی تھی۔ راشدہ نے کئی بار اسی ایک عبارت کو پڑھ ڈالا اور ہر بار وہ اس میں مبتلا رہی کہ وہ پڑھتی ہی چلی جائےگی اور قصہ کا انجام اسے معلوم ہو جائےگا، پر لا حاصل کہانی ادھوری ہی رہی۔ ورق کا پھٹا ہوا حصہ جڑ نہ سکا۔ اسے زور سے ابکائی آئی، وہ اٹھ بیٹھی اور اگلدان پر سر جھکا کر قے کرنے لگی۔ اس نے گھر کے چھوکرے کو پانی کے لئے آواز دی اور رونا شروع کر دیا۔
اسے اپنے میاں سے نفرت محسوس ہو رہی تھی۔ آخر میری شادی ان سے کاہے ہوئی؟ یہ سوال اس کے دل میں اٹھتا رہا اور بھی کئی خیالات ہچکولے لیتے رہے۔ میں تو گھر سے آنا ہی نہیں چاہتی تھی۔ شادی کے بعد تین سال کیسے گذر گئے، میری شامت آئی کہ ان کی منت سماجت سے میرا دل پسیج گیا اور اس پرائے دیس میں آکر اپنی زندگی عذاب میں ڈال لی۔ بس یہ چھوکر ا اور بھائیں بھائیں کرتا ہوا مکان۔ دس بجے دن سے بھری شام تک وہ غائب ہی رہتے ہیں۔۔۔ اور جو وہ ہوتے بھی تو کیا بن جاتا۔
’’لیجئے حضور پانی لیجئے۔‘‘ چھوکرے نے گلاس بڑھاتے ہوئے کہا۔ راشدہ نے بڑی نقاہت کے ساتھ گلاس لیا اور اگال دان میں کلیاں کرنے لگی۔
’’جلدی سے پان لگا دو بدلو!‘‘ اس نے اپنا چہرہ بھی دھویا اور ہلکان ہلکان ہو گئی۔ ذرا دم لینے کے لئے بیٹھی۔ پان لگ گیا تو گلوری منہ میں ڈال کر پھر تکیہ پر گر پڑی۔
’’بدلو سہ پہر ہو رہی ہے۔ آگ جلد جوڑ لے۔ شام کو تیرے بابو کے ساتھ کچھ مہمان بھی آئیں گے۔ کئی چیزیں پکیں گی۔ ناشتہ اچھا ہونا چاہئے۔ تاؤ آ جائے تو مجھے بلا لینا۔‘‘ راشد ہ کی اس حلقہ میں بڑی قدر ہوتی تھی۔ ہاشم کے دوستوں اور عزیزوں میں وہ بہت سگھڑ، سلیقہ شعار اور نفیس مزاج مشہور تھی۔ کھانے پینے کا ڈھنگ، رہنے سہنے کا انداز، کپڑے لتے کا رکھ رکھاؤ، سب باتیں راشدہ کی عام سطح سے بہت بلند تھیں اور وہ اس نام پر بٹہ لگنے دینا نہیں چاہتی تھی۔ شوہر کے خیال سے نہیں بلکہ صرف اپنی نمود کے لئے وہ اچھے کھانے پکاتی، گھر کی آرائش کرتی اور رشتہ دار لڑکیوں کے بلاؤ ز اور جمپر تراشتی رہتی۔ یہی نمود و نمائش تو اس کا سہارا تھی ورنہ شوہر سے اسے کوئی دل چسپی نہ تھی۔
’’بھابی جان کدو کی فرنی کتنی لذیذ اور نفیس پکاتی ہیں۔‘‘
’’ممانی اماں بلاؤز ایسا تراشتی ہیں کہ کمپنی والے بھی کانوں پر ہاتھ دھر یں۔‘‘
’’دلہن سلمہا گھر کو بھی دلہن بنائے رکھتی ہیں۔‘‘
یہ اور اسی قبیل کے اور تعریفی کلمے راشدہ کو اس دیار میں اب کے بار کھینچ لائے تھے۔ شادی کے تین سال تک وہ اپنے میکے سے ٹس سے مس نہ ہوئی، پر اس گذرتے سال میں وہ اپنے میاں کی نوکری پر دو دفعہ آئی۔ یہاں اس کے کچھ سسرالی عزیز و اقارب بھی رہتے تھے اور ہاشم کے دوست احباب بھی تھے۔ بدلو چولھا سلگانے کے جتن کرنے لگا اور راشدہ پھر رسالے کے پھٹے ہوئے ورق کو پڑھنے لگی۔ پر اب کے دفعہ وہ اسے پڑھ کر ہنس دی اور پھر حیرت زدہ ہو کر اسے غور سے پڑھنے لگی۔ کیا حقیقت اور افسانے میں اتنا لگاؤ ہوتا ہے۔ یہ تو ہوبہو اس کے بچپن کی تصویر تھی، سوائے اگوا بننے اور لیڈری والی بات کے۔ یہ ’’وہ‘‘ سچ مچ راشدہ ہی تھی۔ یہ کسی نے مذاق تو نہیں کیا۔ راشدہ کو اپنی باتیں پڑھ کر بڑا اچھا لگ رہا تھا، جیسے آئینہ دیکھ کر یا فوٹو کھنچا کر اچھا لگتا ہے۔
پھر ایک خیال آکر گذر گیا۔ ہاں ہاں اس کے اندر لیڈری اور سرداری کی صلاحیت بھی تو ہے ہی۔ وہ تصویر کی نوک پلک تک کو اپنی مثال سمجھنے پر مصر تھی۔ ایک اور خیال آیا اور دل زور زور سے دھک دھک کرنے لگا۔ ہلکی سی متلی کی لہر اٹھی مگر دبا لی گئی۔ کتنا عجیب ہے۔ میں نے بھی تو اپنی کئی شادیاں کی تھیں۔ روز ہی کرتی رہتی تھی۔ اس کا سارا بدن سنسنا گیا۔
اور وہ جو رحیلہ آپا کا دلہا بھائی کے نام خط پڑھ کر میں نے بھی ایک خط لکھ ڈالا تھا۔ خوب۔۔۔ آٹھ دس سال کی عمر اور خط لکھا، میرے پیارے سرتاج! میں تمہارے دیدار کے لئے بیتاب ہوں۔۔۔ سرتاج! ہونہار رحیلہ آپا بھی بالکل کھوسٹ ہی تھیں۔ کیا القاب ہیں اور پھر دیدار کا لفظ! ارے آپا تو آج تک محترم کی سپر ہیں، زیور سے لدی پھندی ہر وقت بنی سنوری ہوئی۔ گلے میں پانچ بھر سونے کے گلوبند کا طوق۔ جب دیکھو لہا لوٹ رنگ برنگی ساری، مگر میاں جدھر چاہیں نچالیں۔۔۔ چھی۔ نقل کی بھی تو میں نے ان کی اور جواماں نے پکڑ لیا تھا خط، تو قیامت آ گئی تھی۔ بس سمجھیں کہ دال میں کالا ہے۔ کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں۔
پوچھا، اری کمبخت بے حیا! تو نے یہ کیسے ناک کٹائی، غضب ہو گیا، خاندان بھر کا سر مونڈ دیا تو نے۔ میں نے سہم کر کہا تھا، کچھ بھی نہیں۔ رحیلہ آپا کا خط دیکھ دیکھ کر میں اتار رہی تھی۔ میں کیا جانوں سرتاج ورتاج کیا ہوتا ہے۔ کلہ دراز تھی نا راشدہ۔ اکیلے میں زور سے ہنس دی۔ اسے یاد آ گیا کہ رحیلہ آپانے کیسا کیسا فیل مچایا، کتنا چراغ پا ہوئی تھیں وہ۔‘ گالیاں اور کوسنوں کی تو کہو نہیں۔ پر اسی واقعہ کے بعد سے اماں جان کو میری شادی کی فکر لاحق ہو گئی۔ پرانے لوگ بھی خاصےہوتے ہیں۔ چار پانچ سال تو جیسے پہاڑ ہو گئے۔ اونے پونے مجھے ان کے سر پھینک دیا۔
’’ابے بدلو! سرکوٹ دےگا بے؟ انگنائی میں جاکر کوئلے کیوں نہیں توڑتا۔ باورچی خانے میں فرش پر کیسی ٹھائیں ٹھائیں لگا رکھی ہے۔ کمبخت فرش بھی نہیں پھٹ جاتا۔ تیرے سر پر چھت کیوں نہیں گر پڑتی کمبخت، مردود، حرام زادہ۔۔۔‘‘ راشدہ کا مزاج اچانک برہم ہو اٹھا تھا۔ کوئلہ پر ٹھائیں ٹھائیں تو دور ہو گئی مگر راشدہ کے دل و دماغ پر ٹھائیں ٹھائیں برابر جاری رہی۔ اندرونی ٹھائیں ٹھائیں۔ ضربیں لگتی ہی رہیں۔
آخر اماں نے میری شادی ان سے کیوں کر دی؟ یہی سوال سوہان روح تھا۔ اس کا لڑکپن اور آغاز شباب سامنے آ گئے۔ عالم تصور میں اس نے بہت کچھ سیکھا اور بہت کچھ سوچا۔
راشدہ واقعی بہت لطیف الخیال اور نفیس مزاج لڑکی تھی۔ نازک، حساس اور خوابناک۔ اس کا عنفوان شباب تصورات کی دنیا میں گذرا تھا۔ ایک عالمِ مثال و ردمان میں ہر وقت وہ بسی رہتی تھی۔ گل طرازی، کشیدہ کاری، چمن بندی اور ادب نوازی، یہ اس کے محبوب مشغلے تھے۔ اس کا ذوق آرائش و تجمل بہت بالیدہ تھا۔ وہ زد درنج اور بہت جلد رو دینے والی تھی۔ اس کی صبیح گلابی رنگت ہر وقت چونکی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ اس کی ہرن جیسی لانبی سرمگیں آنکھیں اور گھنیری پلکیں جذبات سے دبی ہی رہتی تھیں۔ وہ اپنے ذوق جمال میں اتنی ڈوبی ہوئی تھی کہ اس کو اپنی ناک کے چھوٹی ہونے اور ستواں نہ ہونے کی کڑھن تھی۔ اس کا قد بوٹا سا تھا مگر جب اسے یہ شبہ سا ہوتا کہ کوئی اسے پست قد سمجھ سکتا ہے تو وہ پہروں کمرہ بند کرکے روتی رہتی۔ اگر اس کے سنگار دان کی پالش پھیکی پڑ جاتی، یاکوئی اس کی کتابوں کی الماری کو ذرا بے تر تیب کر دیتا تو اسے ایسا محسوس ہوتا جیسے کوئی الم انگیز حادثہ ہو گیا ہو۔
اس پر اس طرح جوانی آئی جیسے بیلے کے پودے یا چمپا کے پیڑ پر شباب آتا ہے۔ وہ چنا ر کی طرح لہک پڑی اور اس کا شوقِ ادب و شعر جوہی کے پھولوں کی مانند کھل کر مہک اٹھا۔ اس کی تمنائیں کوئلوں کی مثال کوکنے لگیں۔ اس نے اپنے من کی دنیا میں اپنی زندگی کا ایک رنگین نقشہ بنایا۔ اس پر ایک عمارت کھڑی کی اور اسے سجایا۔
مگر اس کے والدین کی سات لڑکیاں تھیں اور برادری میں لڑکے کم اور ان سے بھی کم تر نو کرانیاں۔ اس پر طرہ وہی میرے سرتاج والی خلش، جو اس کی ماں کی نظروں میں اسے بری طرح جو ان ثابت کرتی رہی۔ راشدہ نے کتنے ذوق شوق سے اپنے تخیل اور جذبات کی ہم آہنگی کے ساتھ، اپنے مثالی رفیق حیات کا ایک پیکر جمیل بنایا تھا، مگر دنیا، دنیا ہے۔ یہاں کس کا معیار قائم رہا ہے؟ ہاں یہ ضرور ہے کہ راشدہ کا معیار بری طرح کچلا گیا۔ وہ باسی ہار کی طرح کمھلا کر رہ گئی۔ ہاشم اچھا خاصا بھلا مانس تھا۔ وہ کسی بھی سادہ مزاج لڑکی کے لئے نہایت لائق شوہر بنتا، مگر وہ راشدہ کو پسند نہ آیا۔ وہ اس کے پیکر خیال کی طرح نہیں تھا۔ معمولی صورت‘شکل، ذوق تجمل اور شوق ادب سے دور اور جو چیز دل کو نہ بھائے، اس کی ہر ادا بری ہی لگتی ہے۔ راشدہ کو شکایت تھی کہ وہ ہر وقت پان چباتار ہتا ہے اور عجب بدوضع طور پر سکڑ سکڑا کر لیٹتا ہے۔
ابھی راشدہ لیٹی لیٹی اپنی ساری زندگی پر تبصرہ کر رہی تھی۔ اس کی زندگی میں ایک زلزلہ آیا تھا، جس کے جھٹکوں سے اس کے خیالوں کا رنگ محل دھم سے زمین پر گر کر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا۔ بےدرود یوار سا ایک گھر بننے لگا تھا بے جوڑ، ان گڑھ۔ اس کی زیست معلق سی تھی بےبنیاد۔ کوئی وسیلہ ایسا نہیں تھا جو حیات کے دونوں حصوں میں ربط، تسلسل اور موزونیت پیدا کر دے، جیسے اس کی زندگی کے ورق کو کسی نے بے دردی سے پھاڑ دیا ہو۔ راشدہ کے ہاتھ میں رسالے کا پھٹا ہوانا مکمل ورق تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ رسالے کے افسانے والی لڑکی کی فطرت اور خود اس کی فطرت میں کتنی یگانگت تھی۔ پتہ نہیں اس افسانوی لڑکی کی قسمت کیسی تھی؟ اسے بڑی کرید تھی کہ انجام معلوم ہو جاتا، مگر رسالے کا ورق پھٹا ہوا ہی رہا۔ اسے کوئی تدبیر بھی گمشدہ حصے سے جوڑ نہیں سکتی تھی۔ راشدہ ایک گہری ٹھنڈی سانس کھینچ کر رہ گئی۔
پتھر کوئلہ ابھی سلگا نہیں تھا۔ گھٹا گھٹا دھواں چو لہے سے نکل کر راشدہ کے کمرے میں داخل ہوا۔ غلیظ کاربن کی بدبو پھیلی اور سیدھی اس کی ناک میں گھستی چلی گئی۔ راشدہ کے پیٹ کے اندر ہچکولے اٹھے۔ بڑی شدت کی متلی اٹھی۔ اسے پے درپے ابکائی آنے لگی، سر چکرا رہا تھا اور سارا بدن سن سن کر رہا تھا۔ وہ قے کرتی ہوئی صحن کی طرف اٹھ کر بھاگی اور بیچ صحن میں سر پکڑ کر بیٹھ گئی۔ جب طبیعت ذرا سنبھلی تو اسے اپنے اوپر غصہ آ رہا تھا۔ آخر ایسا ہونے ہی کیوں دیا اس نے۔ وہ آپ اپنی نگاہوں میں ذلیل لگ رہی تھی۔ اس کا جی چاہا کہ خودکشی کر لے۔ موت بڑی سنجیدگی اور سکون سے اس کے خیالات سے لپٹ گئی۔ سر اب تک جیسے جھولے پر سوار ہو۔ پھر ابکائی آئی۔ اس کے جسم و جان لرزا اٹھے۔
’’بدلو پانی۔۔۔ یہاں کوئی بھی اپنا نہیں۔ کتنا بڑا ظلم ہے مجھے یہاں لانا۔‘‘
راشدہ کو اپنے اوپر رحم آ رہا تھا۔ ہاشم کے خلاف ایک تیز نفرت کی رو اٹھی، ایک بہیمانہ نفور کی رو، جس کے نتیجے میں الٹا مقابل پر ٹوٹ پڑنے کو جی چاہتا ہے۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ ہاشم سے گتھم گتھا ہو کر اس کی تکا بوٹی کر دے۔ اس سے بھاگنے کی بجائے اس سے الجھ کر اس کو فنا کر دے۔ اس نے سوچا، کاش! یہ ہماری بیماری ہی ہو، پر یہ متلی؟ ایسانہ ہوتا تو شاید مجھے طلاق مل جاتی۔ جان چھوٹتی میری۔ ان کے سب رشتہ دار تو زور دے ہی رہے تھے۔ کیا کیا ارمان ہیں۔۔۔ خاندان چلنے کا ارمان۔۔۔ چولہے میں جائے خاندان۔ بڑی اچھی صورت ہی تو ہے۔ مٹ جائے ایسا خاندان تو اچھا۔۔۔ پیسے بھی تو نہیں۔۔۔ کنبہ کی پرورش کیسے ہوگی۔ دو آدمیوں کا خرچ تو نہیں چلتا۔ سوچتے سوچتے وہ رونے لگی۔ بدلو بدحواس اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ بھی حیران تھا کہ آخر مالکن کو ہو کیا گیا ہے۔
جب دل کچھ ہلکا ہوا تو راشدہ اٹھی اور پھر کمرے میں آکر یونہی بلا تکیہ کے تخت پر پڑ رہی۔ نہ اس نے پان کھایا اور نہ الائچی ہی کھٹکی۔ وہ بیزار اور کڑھی کڑھی تھی۔ بارہ سال کا چھوکرا بدلو مالکن سے بڑی ہمدردی رکھتا تھا مگر ڈرتا بھی بےحد تھا۔ کوئلے میں اب تاؤ آ گیا تھا، پروہ اب مالکن کو اٹھائے کیسے اور وہ بھی اس حال میں۔ اس نے ایک ترکیب سوچی۔ چلو الٹا ہی سہی۔ اس نے پہلے انڈے تلنے کا ڈول ڈالا۔ کڑھائی چڑھایا، کڑوا تیل جوش دینے لگا۔ تیل کے کر کر کھولنے کی آواز آئی اور پھر چھن من انڈے کے تلے جانے کی۔ راشدہ گھبر کر اٹھ بیٹھی اور سیدھی باورچی خانہ کو دوڑی۔ غضب ہو گیا۔ غربت کی فضا میں پلے ہوئے نوکر بھی آخر کیسے ہوں؟ مہمان آرہے ہیں اور آج بھی انڈے تیل میں تلے جا رہے ہیں۔
’’ابے کمبخت! تجھے کس نے انڈے تلنے کو کہا؟ گھی میں تلے جائیں گے گھی میں۔‘‘ بگڑ کر آخرش راشدہ نے خود ناشتہ پکانے کا اہتمام شروع کیا اور تیل کا تلا ہوا انڈہ رات کو کھانے میں ہاشم کو دینے کے لئے علیحدہ رکھ دیا۔ راشدہ کو اپنا میکہ یاد آیا۔ وہاں ساری چیزیں کتنی افراط سے ہوتی تھیں۔ جب مہمان آیا کرتے تھے تو طرح طرح کی چیزوں کی کتنی ریل پیل ہوتی تھی اور ایک یہاں ہے گنی بوٹی نپا شوربا۔ اسے اپنی اماں جان یاد آنے لگیں اور سب بھائی بہن۔ اس کے ہاتھ ناشتہ کے سامان میں مشغول تھے مگر دل میکے میں تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ پر لگا کر اپنے ماں باپ کے گھر پہنچ جائے، پھر معلوم نہیں ایسے حال میں وہ کہیں مر ہی نہ جائے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو ڈبڈ با آئے۔ آنسوؤں نے ماحول پر پردہ ڈال دیا۔ عالم تصور میں وہ اپنی ماں کے سامنے دوبدو کھڑی تھی۔
’’راشدہ! آج نہر کے افسر آ رہے ہیں۔ ناشتہ پکانا ہے۔ دیکھو ہم سے پوچھ پوچھ کر پکانا۔ اپنی آپا سے سب چیزیں دکھلا کر۔ تم ابھی نوسِکھ ہو، دیکھو ہاتھ روک روک کے۔ تم تو پھپھڑو لال ہو، لڑکیوں کو کفایت شعار ہونا چاہئے۔ کس کی قسمت کیسی ہوتی ہے کون جانے!‘‘ راشدہ کے دماغ میں ایک سوال پیدا ہوا۔ اماں جان اب تک مجھے بچہ ہی کیوں سمجھتی ہیں؟ آپا لاکھ خرچہ کر دیں توکچھ نہیں اور میں چیزوں پر مہر بھی دوں تو پھوہڑ۔ میرے جتنا کون گھر سریاتا ہے؟
اسے یاد آیا کہ وہ کئی بارا پنی ماں سے لڑ پڑی تھی۔ آخر اس کی اپنی انفردیت بھی تو ہے۔۔۔؟ اور میں یہاں کیوں آتی۔ یہ سو بار سر پٹکتے، میں جیسے اپنی جگہ سے برسوں نہ ہلی، اب بھی نہ ہلتی۔ یہ تو اماں جان کے غصہ پر میں یہاں پر چلی آئی۔ راشدہ کو اپنی مظلومیت کے احساس سے سخت دکھ ہوا۔ اس کی اماں جان بھی اسے نہیں چاہتیں۔ وہ نہایت ہی بد نصیب ہے۔ پھر اسے سکون کا کچھ احساس ہوا۔ چلو یہاں میں آزاد ہوں۔ یہی نا اکیلے میں یہاں مر جاؤں گی، کسی کو احساس تو نہ ہوگا۔ سب کو خوشی ہی ہوگی کہ راشدہ سے جان چھوٹی۔ تم بہت نازک مزاج ہو! تم بہت نازک مزاج ہو سنتے سنتے کان پک گئے۔ اسے موت سے محبت سی محسوس ہونے لگی۔ درد زندگی کا علاج! وہ بہت دیر تک فنا کے خیالات سے ہم آغوش رہی، جیسے وہ ایک ماں کی گود سے بچھڑ کر دوسری ماں کی گود میں پناہ لے رہی ہو۔
’’اچھا ناشتہ کا بڑا اہتما م ہے!‘‘ ہاشم آج سویرے ہی دفتر سے آ گیا۔ راشدہ خاموش ہی رہی۔ پھر اسے کچھ یاد آیا تو بولی، ’’آپ جا کر بازار سے مٹھائیاں تو لے آیئے اور سگریٹ بھی۔ بدلو تو میری مدد کر رہا ہے۔ آج بھی آپ نے اتنی دیر لگا دی۔‘‘ ہاشم ملزم ملزم سا معلوم ہو رہا تھا۔ بڑی سعادت مندی سے اس نے پھر سائیکل پکڑی اور بازار چلا گیا۔ بازار سے واپس آیا تو حکم ہوا، ’’تکیوں کے غلاف اور پلنگ کی چادریں بد ل دیجئے۔‘‘ تخت اور پلنگ پر کی چادریں بدل دی گئیں، پر غلاف تین ہی تھے اور تکیے چار۔ جب راشدہ دعوت کا مرکزی سامان تیار کر چکی تو مکان کا جائزہ لینے آئی۔ کمرے اور دالان کے فرش کو پانی سے دھلوایا۔ دھلوانے سے پہلے جھاڑو دلوایا اور دھلوانے کے بعد بھی جھاڑ و دلوایا، اور جب فرش خشک ہو گیا تو داغ دھبوں کو مٹانے کے لئے اس نے خود ہی کپڑے کا ایک ٹکڑا لے کر فرش کو رگڑ رگڑ کر پونچھا۔
خانہ داری اور آرائش اسے ہاشم سے زیادہ عزیز تھی۔ اس میں اس کی شخصیت اور ذوق کے مطالبات کی تسکین ہوتی تھی۔ دیوار کے گوشوں اور چھتوں کے زاویہ سے وہ صبح کو ہی جھول جھاڑ چکی تھی۔ اس کی نظر جب ایک میلے غلاف پر پڑی تو آتش زیر پا ہو اٹھی اور ہاشم پر خوب برسی۔ غلا ف اتار پھینکا اور جب اسے کوئی دھلا ہوا غلاف نہ ملا تو سر ہانے چادر کے نیچے تکیہ کو جی پر جبر کر کے ڈھانپ دیا اور دیر تک چیں بر جبیں رہی۔ کریلا اس وقت نیم پر چڑھا جب اسے ایک بھی دھویا ہوا میز پوش نہ ملا۔ کوئی چادر بھی گت کی نہ تھی کہ کھانے کی میز پر اسے ہی بچھادے۔ دل کا بخار ہاشم پر اتنا اترا کہ وہ بھی تلملا اٹھا۔ آج غیر معمولی درجۂ حرارت تھا۔ ہاشم نے بھی آخر تپش محسوس کی اور اسے اپنی تضحیک سمجھا۔
’’چادریں اور غلاف ہوں کہاں سے؟ دو چادریں اور غلاف تو تم اپنے گھر موتی پور چھوڑ آئیں۔ یہ بھی شوق کہ ان کے وہاں کا بھی کمرہ سجا رہے اور یہاں بھی چمک دمک قائم رہے، اور آپ کے بھائی صاحب کے ساتھ ایک چادر اور دو غلاف گئے۔ ان کی میلی چیزیں اب تک دھوبی کے یہاں پڑی ہوئی ہیں۔‘‘
راشدہ نے کبھی ہاشم سے یوں کلہ بہ کلہ جواب نہیں سنا تھا۔ بے بس سی ہو گئی اور انتہائی بیگانگی کی خاموشی کے عالم میں اس کے گلابی رخساروں پر آنسوؤں کے چند گر م قطرات ٹوٹے ہوئے تاروں کی طرح گر پڑے، مگر ابھی ابھی دعوت تھی۔ مہمان آ رہے تھے۔ اس نے ایک پھٹی ہوئی چادر اس سلیقے سے پلنگ پر بچھا دی کہ چاک کا پتہ نہ چلے۔ پائتانے میں اوڑھنے کی چادر رکھ کر عیب پر پر دہ ڈال دیا اور اچھی چادر اٹھا کر کھانے کی میز پر لگا دی، پھر اسی قرینے سے ناشتہ سجایا اور غسل خانہ میں منہ اور ہاتھ دھونے چلی گئی۔ وہاں خوب دل کی بھڑا س نکالی۔ اسے مسلسل نئے تجربات ہو رہے تھے جس کے لئے وہ تیار نہ تھی۔ آرائش و زیبائش اور غازہ و گلگو نہ کے باوجود اس کی روئی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر کھانے کی میز پر مہمانوں نے یہ محسوس کیا کہ بادل برس کر کھلا ہے۔ راشدہ کی مسکراہٹوں اور دلنوازیوں کی سطح کے نیچے غمنا کیاں کا نپ رہی تھیں۔
آخر ہاشم نے اپنی سعادت مندیوں سے راشدہ کے دل کا غبار کو کچھ ہلکا ضرور کیا۔ وہ نہایت متین و شریف آدمی تھا مگر راشدہ بہت ہی سست رہنے لگی۔ رفتہ رفتہ سستی، فکر مندی میں تبدیل ہو گئی اور دیار غربت میں کوئی ہم راز نہیں تھا، کوئی چارہ کار نہ تھا۔ راشدہ نے ہاشم سے سب کچھ کہہ دیا۔ طبی معائنہ کرایا گیا اور بات پختہ ہو گئی۔
ہاشم کو حیات ازدواجی میں سب سے پہلی بار راشدہ سے یگانگت محسوس ہونے لگی، ورنہ شادی کے پہلے دن سے آج تک راشدہ نے اسے اپنے حریم دل میں آنے نہ دیا تھا، مگر اب ہاشم بےبلائے ہوئے اس دروازے پر دستک دینے لگا تھا۔ وہ راشدہ کو پہروں دیکھتا رہتا اور اس کا بے حد خیال رکھتا۔ ناز بردار یاں تو وہ پہلے بھی کرتا رہا تھا مگر دل برداشتہ طور پر اخلاقاً، لیکن اب وہ ایک انجان جذبہ کے ما تحت راشدہ کو اپنی آنکھوں میں بٹھا لینا چاہتا تھا۔
’’آپ نہایت خود غرض ہیں میری قدر نہیں ہو رہی ہے، یہ کسی اور کا مان ہے۔‘‘ راشدہ اکثر کہتی، پراس طعنہ میں کبھی کبھی اسے مبہم سے لذت بھی محسوس ہوتی۔ اب ہاشم اور راشدہ میں قریباً روز لڑائی ہوتی۔ وہ بات بات پر ٹوکتا۔ یہ احتیاط وہ احتیاط، یہ غذا وہ دوا۔ راشدہ کو تو ہر کھانے کی چیز سے نفرت سی ہو گئی اور دوائیں تو اس کی بیرن تھیں۔ وہ سوچتی ہاشم نے تو پہلے اس کی زندگی میں اتنا دخل نہ دیا تھا، بلکہ وہ اکثر باتوں میں بےدرد حد تک بیگانہ رہتا تھا۔ اسے پہلے کو فت محسوس ہوئی، بعد میں ہاشم کی یہ دیکھ ریکھ اسے گوارا لگنے لگی اور پھر کچھ یوں ہی بھلی سی۔ تسکین پندار کی حد تک خود نمائی و خود بینی! ادھر ہاشم یہ محسوس کرنے لگا کہ کسی نے راشدہ سے اسے وصل کر دیا ہے۔ دراصل اب ان کا عقد ہوا تھا۔ کبھی کبھی تو اسے ایسا لگتا کہ کسی نے اس کے دل کو راشدہ کے جسم کے اندر رکھ دیا ہے اور وہ دل بالید ہ ہو رہا ہے، دھڑک رہا ہے، اس کی حیات جذبی انہی دھڑکنوں سے خون حاصل کر کے پرورش پا رہی ہے۔
راشدہ کے ابتدائی دوروں کا سلسلہ رک گیا اور ایک ماہ بعد اس کی صحت بہت اچھی ہوگئی۔ اسے غیرمعمولی طور پر بہت بھوک لگنے لگی۔ اس کی شرابی آنکھوں اور گلابی رخساروں کے درمیان ہلکی سی کجلاہٹ سی پیدا ہو گئی تھی اور اس کیفیت سے ایک لطیف سیہ مستی انگڑائی لے کر جاگ اٹھی تھی۔ اس کے شاداب چہرے پر دلربا نقاہت مچلتی رہتی تھی۔ اس کا کھلتا ہوا رنگ اور کھل کر نکھر گیا تھا۔ دل کی دھڑکن ذرا تیز ہوگئی تھی۔ سانس کی رفتار میں ذرا نازک سی گرم جوشی چونک پڑی تھی۔ ان باتوں کے نتیجے میں اس کا گورا مکھڑا ذرا سی تھکن میں گلنار ہو جاتا تھا۔ اس کی پلکیں افسانہ سرا تھیں اور اس کے لب ستار کے تاروں کی لرزش لئے ہوئے تھے۔ بدن نافہ دل کشی ہوگیا تھا، گداز، بالیدہ و نرم، سڈول اور سرافراز، آرام جاں۔ نازک سی حدت اس کے زندہ سراپا سے یوں پھوٹتی تھی جیسے بند مٹھی میں سے بیلے کے پھول کی مقید خوشبو۔
راشدہ اکثر پر سرور حالت میں رہتی۔ چال میں البیلی لڑکھڑاہٹ اور بات میں متبسم شرافت۔ اس پر ایک سکون پر ورنڈھال پن طاری رہتا۔ دلچسپ سی سہل انگاری اور رسیلی آ سکت میں وہ غلطاں غلطاں رہتی۔ فضا میں، ماحول میں، زیست میں وہ ایک خوش گوار پھیلاؤ محسوس کرتی۔ ایک خواب ناک وسعت دماغ کی سنسناہٹ اور دل کا نرم سا مبہم اضطراب بھی اسے بھاتا اور رات کی نیندیں اس کے لئے انجان شیریں سپنوں، سرمست فراموشی اور بےپایاں آرام کا پرستان ہوتیں۔ سوتے وقت وہ ہاشم سے مسہری کا پردہ گرانے اور اس کی حاشیوں کو موڑ نے کو کہتی تو اس شان سے گویا وہ ایک شہزادی ہے، پر اسے ایسا لگتا کہ ہاشم ملازم نہیں محافظ ہے۔ پہلے تو راشدہ ہاشم کو شاید بدلوسے بھی ادنیٰ سمجھتی تھی۔ جب اسے کچھ کرنے کو کہتی تو وہ حکم ہوتا۔ حکم تو اب بھی دیا جاتا تھا، پر اب اس کے اندر ناز کی شیرینی بھی ہوتی تھی۔
ہاشم تو رات کو اٹھ اٹھ کر خاموشی سے راشدہ کے حسن خوابیدہ کو تکتا رہتا، جیسے وہ بڑی گراں مایہ دولت کی حفاظت کر رہا ہو۔ وہ شب کے سناٹے میں حیات۔۔۔ چٹکتی، پھولتی، کھلتی، جھومتی ہوئی حیات کی سرگوشیاں سنتا۔ خاموش حیرت زدہ۔ کبھی وہ بڑے پیار سے راشدہ کو سر سے پاؤں تک یوں چھوتا جیسے نسیم سحر سوئی ہوئی بھرپور ندی کو سہلا جائے۔ صبح سویرے اٹھ کر وہ راشدہ کے بہت سے خانہ داری کے کام کر دیتا۔ سیدھا نکلواتا، جھاڑو دلواتا، منہ ہاتھ دھونے کا سامان بھی غسل خانہ میں آراستہ کر دیتا۔ بدلو کو تاکید کرتا کہ شور نہ ہو، تاکہ خواب ناز میں خلل نہ پڑے۔ راشدہ تھکی تھکی سکر بہ آغوش حالت میں اٹھتی تو کبھی کبھار ہاشم پر رحم یا ممنونیت کی نگاہ ڈالتی اور گاہے گرم گسترانہ پرسش کی وہ اک نگہ جو بظاہر نگاہ سے کم ہے۔ ہاشم کے لئے یہ دولت دو جہاں تھی۔
پھر اس کی طبیعت خراب رہنے لگی۔ تھکا بےحد تھکا ہوا جی۔ ٹوٹا ہوا بدن۔ جوڑ جوڑ جیسے کوئی ڈھیلا کئے دیتا ہو۔ کمر، کولھے اور ریڑھ کی ہڈیاں سب چٹختی رہتی تھیں۔ ہر وقت وہ اَپھر اَپھری سی رہتی۔ ہر گھڑی پڑے رہنے کو دل چاہتا مگر لیٹے رہنے میں سر چکر آتا اور دم پھولنے لگتا۔ عجیب عجیب خواہشیں ہوتیں۔ بعض دفعہ بےسروپا اور ان ہونی۔ وہ بہت چڑچڑی اور بدمزاج ہو گئی۔ بات بات پر ہاشم سے لڑتی، روتی اور روٹھتی۔ کئی کئی دن برافروختہ رہتی۔ ایک دن عجیب سی بات ہوئی۔ باورچی خانہ کا فرش کوئلہ کوٹتے کوٹتے تڑخ کر ٹوٹ گیا تھا اور پھر چند دوسرے حصوں کی مرمت کی ضرورت تھی۔ مستری بلایا گیا۔ دو پہر کے وقت کھانے کو وہ گھرچلا گیا۔ ایک لوہے کی کڑاہی میں وہ سیمنٹ گھول کر رکھ گیا تھا۔ اسے دیکھ کر یک بیک راشدہ کو خواہش ہوئی کہ گھولا ہوا سمینٹ چاٹ جائے۔
یوں تو وہ کوئلے کی راکھ، دیوار کے پلا سٹر کے ٹکڑے اور دریا کے کنارے کی گوری مٹی کھایا ہی کرتی تھی۔ سیمنٹ چاٹنے کی تیز خواہش کو وہ روک نہ سکی۔ وہ اٹھ کر کڑاہی کے پاس گئی اور بہت سالیس دار گاڑھا سیمنٹ یوں چاٹ گئی جیسے لذیذ فرنی کھا رہی ہو۔ کھانے کو تو وہ کھا گئی مگر شام تک اس کے پیٹ میں درد اٹھا اور کچھ دنوں کے بعد اسے ایک وہم پیدا ہو گیا۔ وقت تیزی سے گذر رہا تھا اور وہ دوہری ہوتی جاتی تھی۔ اسے ایسا محسوس ہوتا کہ کسی نے کلیجے پر سل رکھ دی تھی۔ دم گھٹاگھٹا رہتا۔ اور اب تو اس کےپیٹ میں پھڑکن نے بڑھتے بڑھتےخلفشار کی حالت اختیار کر لی تھی۔ ہر اندرونی جنبش کے ساتھ جی سنسنا اٹھتا اور کبھی ابکائی آنے لگتی۔ ایک دو ہفتوں کے بعد جنبش بند ہو گئی۔ راشدہ اس حال میں اور گھبرا گئی۔ گھٹن اور اپھرن زیادہ محسوس ہونے لگی۔ طبیعت بہت بےچین لگتی۔ ایسا معلوم ہوتا کہ کسی نے پتھر کے لوڑھے کو اس کے جسم کے اندر ساٹ دیا ہے۔ ہلچل سے یہ انجماد زیادہ برا تھا۔ اسے احمقانہ سا شک ہونے لگا کہ یہ سمینٹ کا کرشمہ تو نہیں۔ یہ وہم اتنا بڑھا کہ اسے اپنی موت یقینی نظر آنے لگی۔ اس نے فوراً اپنے میکے تارودلوا کر بھائی کو بلوا لیا اور موتی پور جانے پر تل گئی۔ وہ سمجھتی تھی کہ اندر کچھ ہو گیا ہے، زہرگھلنے کا ہر آن شبہ تھا۔
ہاشم یہ کہتا تھا کہ دیہات جانا مناسب نہیں۔ اس حال میں شہر میں رہنا چاہئے۔ ہر وقت طبی مدد مل سکتی ہے، مگر راشدہ کو وہ ضد ہوئی کہ کیا کہئے۔ ہاشم سے اسے سخت تنفر محسوس ہو رہا تھا۔ ہاشم بھی اڑا ہوا تھا۔ بڑی تو تو میں میں ہوئی اور جب اچانک راشدہ نے پھر اندرونی جنبش محسوس کی تو بھی وہ اپنی دھن کی پکی ہی رہی۔ اس نے طے کر لیا کہ وہ ضرور گھر جائےگی۔ بھائی کو کیسے یوں ہی واپس کر دے۔ ہاشم سے اچھی خاصی لڑائی ہو گئی۔ اب وہ پھر پہلی سی راشدہ تھی۔ اس کا جی چاہا کہ اگر ہو سکتا تو ہاشم کے سارے آثار اپنے سے علیحدہ کر کے میکے چلی جاتی۔ راشدہ تنہائی اور کم مائیگی کا الاہنا دینے لگی۔
’’میں کوئی کام نہیں کر سکتی، کسی کی لونڈی نہیں، رحم بھی نہیں آتا کسی کو۔ ایک چھوکر ا ہے اس سے کھانا تک تو پکتا نہیں اور اس پر ہر چیز کی تنگی۔ میں اس حال میں مر جاؤں گی۔۔۔‘‘ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ ہاشم متردد، متوحش اور محجوب تھا۔ واقعی راشدہ کو آرام کی ضرورت ہے۔ میں نے بڑا ظلم کیا ہے۔ ہاشم کو خیال ہوا مگر وہ مطمئن نہ تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ یہیں آپا کو بلوا لیا جاتا اور ایک ماما ساتھ آ جاتی۔ اس کشاکش میں راشدہ کی ہی ہٹ رہی، اس کی جیت ہوئی۔ دوسرے روز ہاشم اسے اسٹیشن تک پہنچانے آیا۔ راشدہ بھا ئی کے ساتھ موتی پور جا رہی تھی۔
جب راشدہ ڈبے میں بیٹھ گئی اور گاڑی کھلنے کا انتظار کیا جانے لگا تو ہاشم اسٹیشن کے رستوران سے چائے اور ناشتہ منگوانے کو جانے لگا، مگر راشدہ نے کہا، ’’آپ مت جایئے۔‘‘
’’پھر چائے کیسے آئےگی؟‘‘ ہاشم بولا
’’محمود جا کر لے آئیں گے۔‘‘ راشدہ نے غیر معمولی نظروں سے ہاشم کو دیکھتے ہوئے اور اپنے بھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا۔ محمود نے رستور ان کا رخ کیا سیاہ برقعے سے ایک ہاتھ بڑھا اور اس نے ہاشم کے ہاتھ کو اپنی گرفت میں لے لیا۔ ہاتھ کے لمس میں بھی گویا ئی ہوتی ہے۔ نازک، تھر تھراتی ہوئی انگلیاں نوک زبان کا کام کر رہی تھیں اور تلہت کان کا دامن بنا ہوا تھا۔ برقی موجیں اعصاب کے تاروں پر لہرا لہرا کر دل و جان کے مرکز کو کپکپا رہی تھیں۔ راشدہ اور ہاشم دونوں کی آنکھیں پرنم تھیں۔ خموشی تھی، لب تھر تھر ا رہے تھے، سکوت میں تاثیر بڑھ جاتی ہے۔ جب چائے آئی تو دونوں ہاتھ بڑے درد و کرب سے علیحدہ ہوئے جیسے کسی نے شدید ضرب لگا دی ہو۔
ٹرین کھل گئی۔ ہاشم پلیٹ فارم پر تھا اور راشدہ درمیانی بنچ پر۔ اس کی خواہش تھی کہ دریچے سے ملحق ہوتی مگر مارے شرم کے دریچے کے پاس نہ جا سکی۔ جذبات سے بوجھل آنسو اس کے رخساروں پر ڈھلکتے ہوئے ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔ گاڑی آہستہ آہستہ رینگ رہی تھی۔ ہاشم ٹک لگائے راشدہ کو دیکھ رہا تھا اور راشدہ سے بہت آگے، ٹرین کا چلنا اس کے لئے جراحت کی چھری کا چلنا تھا۔ اس کے دل کے ٹکڑے ہورہے تھے۔ اس کی روح پرواز کر کے راشدہ کے ہمراہ جانے کی تمنا میں پھڑ پھڑا رہی تھی۔ راشدہ نے محسوس کیا کہ ہاشم کی شخصیت اس کے ساتھ مضبوطی سے چسپاں ہے اور اس نے دیکھا کہ اس کے آنسوؤں کے ہالے میں ایک ننھا سا فرشتہ دریچہ سے باہر ہاشم کی طرف اپنے ہاتھ پھیلا رہا ہے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.